5 عاجزی اختیارکرنا اور لوگوں سے مل جل کر رہنا:

ایک داعی لوگوں کے ہاں جتنا زیادہ پسندیدہ ہوگا اتنی ہی اس کی دعوت زیادہ مقبول اور اس کے اردگرد اجتماع زیادہ ہوگا۔ تواضع سے زیادہ کوئی بھی چیز داعی کو لوگوں کا پسندیدہ نہیں بناتی اس لئے اللہ نے اسے اختیار کرنے کا حکم دیا ہے اور تکبّر کو حرام قرار دیا ہے ۔

یادرکھئیے! تواضع لوگوں کے ساتھ مل جُل کر رہنے سے پیدا ہوتی ہے اس لئے اللہ تعالیٰ نے دونوں باتوں کا ایک ساتھ حکم دیا ہے ۔

اللہ تعالیٰ کا ارشادہے   :

{وَاصْبِرْ نَفْسَکَ مَعَ الَّذِیْنَ یَدْعُوْنَ رَبَّھُمْ بِالْغَدَاۃِ وَالْعَشِیْ یُرِیْدُوْنَ وَجْھَہُ وَلَا تَعْدُ عَیْنَاکَ عَنْھُمْ تُرِیْدُ زِیْنَۃَ الْحَیَاۃِ الدُّنْیَا }

’’اور اپنے آپ کو ان لوگوں کے ساتھ جمائے رکھو جو صبح وشام اپنے ربّ کی رضا جوئی میں اس کو پکارتے ہیں اورآپ کی نگاہیں حیات دنیا کی زینتوں کی خاطر ان سے ہٹنے نہ پائیں‘‘۔[ الکہف : ۲۸ ]

نیز فرمایا :

{وَلَا تُصَعِّرْ خَدَّکَ لِلنَّاسِ وَلَا تَمْشِ فِی الْاَرْضِ مَرَحًا } [لقمان:۱۸]

’’اور لوگوں سے بے رخی نہ کر اور زمین میں اکڑ کر نہ چل‘‘۔

رسول اللہe کا فرمان ہے :

’’لَا یَدْخُلُ الْجَنَّۃَ مَنْ کَانَ فِیْ قَلْبِہٖ مِثْقَالَ حَبَّۃٍ مِنْ خَرْدَلٍ مِنْ کِبْرٍ ‘‘   أحمد ج:۱ص:۴۱۲ ، مسلم:۹۱۔

’’جس شخص کے دل میں سرسوں کے ایک دانے کے برابر بھی تکبّر ہوگا وہ شخص جنّت میں نہیں جائے گا‘‘۔

آپeنے فرمایا :

’’وَمَا تَوَاضَعَ أَحَدٌلِلّٰہِ اِلَّا رَفَعَہٗ‘‘مسلم : ۲۵۸۸ ۔

’’جو شخص اللہ تعالیٰ کی خاطر تواضع اختیار کرتا ہے اللہ تعالیٰ اسے رفعت وبلندی سے ہمکنار کرتاہے‘‘۔

سیدنا عبد اللہ بن عمر w   بازار میں جاتے کسی قسم کی خرید وفروخت نہ کرتے بلکہ صرف لوگوں کو سلام کہتے۔ جب لوگ انہیں دیکھتے تو خوش ہوتے اور ان کے اِردگرد جمع ہوجاتے ،ان سے مسائل پوچھتے ، آپ انہیں جوابات دیتے اور ان کے مسائل حل کرتے۔

بخاری الأدب المفرد؛بخاری: ۱۰۰۶ /موطأمالک :ج:۲ ص۹۶۲ ۔

لوگوں کے ساتھ ملنے جلنے، ان کے حالات سے آگاہ رہنے ، ان کی ضروریات کا پتہ رکھنے اور ان کی مشکلات پر نظر رکھنے سے جس قدر عملِ دعوت کو پذیرائی ملتی ہے اس سے بڑھ کر کسی اور چیز سے نہیں ملتی۔ یہی وجہ ہے کہ رسو ل اللہe کا فرمان ہے :’’جو مسلمان لوگوں کے ساتھ گھل مل کر رہتااور ان کی طرف سے اذیّت پہنچنے پر صبر کرتا ہے وہ اس مسلمان سے بہتر ہے جو ان کے ساتھ مل جل کر نہیں رہتا اور ان کی اذیّت پر صبر نہیں کرتا‘‘۔

احمد : ج:۲ ص : ۴۳ /ترمذی : ۲۵۰۷/ ابن ماجہ : ۴۰۳۲۔

سابقہ انبیاء کرام علیہم السلام کا یہی طریقہ تھا وہ تواضع وانکساری اختیار کرتے ، لوگوں سے مل جل کر رہتے ، ان کے لئے اپنے دروازے کھلے رکھتے اور ان سے فراخ دل ہوکر پیش آتے۔ ہمارے لئے رسول اللہﷺ اسوئہ حسنہ ہیں ،آپ صحابہ کے ساتھ مل جل کر رہتے تھے ، غیر شادی شدہ کی شادی کرواتے ، مریض کی عیادت کرتے ، ان کے حالات پر نظر رکھتے ، فوت ہونے والے کے جنازے کے ساتھ جاتے ، غریب کی مدد کرتے، حتی کہ مریض اگر دشمنوں میں سے بھی ہو تو اس کی عیادت کرتے ، آپﷺنے ایک دفعہ ایک یہودی کے بیٹے کی عیادت کی ۔

سیدنا انس t بیان کرتے ہیں کہ ایک یہودی لڑکا رسول اللہe کی خدمت کیاکرتاتھا، وہ بیمار ہوگیا آپ اس کے پاس عیادت کے لئے آئے اور اس کے سر کے پاس بیٹھ گئے اور کہنے لگے :’’تم اسلام قبول کرلو‘‘ اس نے اپنے والد کی طرف دیکھا جو اس کے پاس ہی بیٹھا تھا ۔اس نے کہا :’’ابو القاسم کی بات مان لو‘‘۔ اس نے اسلام قبول کرلیا۔ آپe وہاں سے باہر آئے تو آپi کی زبان پر یہ الفاظ تھے ’’ہر قسم کی تعریف اللہ کے لئے ہے جس نے اسے دوزخ سے بچا لیا‘‘۔بخاری :۱۳۵۶،۵۶۵۷۔

ایک لونڈی آپ کے ہاتھ کو پکڑے ہوئے ہے اور آپeمدینہ منورہ میں اس کے پیچھے جارہے ہیں ۔سیدنا انس t کے الفاظ یہ ہیں ’’کہ ایک لونڈی بھی آپe کا ہاتھ پکڑ کر انہیں اپنے کام کے لئے مدینہ منورہ لے جایا کرتی تھی‘ احمد :ج:۳ ص:۹۸ ابن ماجہ : ۳۳۶۷۔

اگر آپ آپ eکو بحیثیت طبیب دیکھنا چاہیں تو وہ بحیثیت طبیب نظر آئیں گے ،مصلح کی حیثیت سے دیکھنا چاہیں تو وہ مصلح دکھائی دیں گے اور تاجر کی صورت میں چاہیں تو تاجرکی صورت میں بھی دیکھ سکتے ہیں ۔اس سے بڑھ کر اور کیا ہوگا کہ ایک عورت نے آپe سے شکایت کی کہ اس کا خاوند اس سے ہم بستری کم کرتاہے۔ بخاری: ۵۸۲۵ مسلم :۱۴۳۳۔

آپe اپنے ایک صحابی کے گھر میں ملنے کے لئے گئے اس کا ایک بیٹا تھا جس نے پـنجرے میں ایک پرندہ پال رکھا تھا اس کے مرنے کی وجہ سے وہ غمگین تھا ، رسول اللہeنے اس کی دل جوئی کے لئے خوش طبعی کے طور پر فرمایا ’’یَا أَبَا عُمَیْرمَا فَعَلَ النُّغَیْرُ؟   ’’ابو عمیر! تمہاری بلبل کو کیا ہوگیا؟‘‘ بخاری: ۱۶۲۹،۶۲۰۳ /مسلم: ۲۱۵۰۔

ذرا دیکھئے! یہ انداز کتنا لطیف اور اُسلوب کیسا بے مثال ہے۔ سار ی مخلوق کے سردار ، انبیاء ورسل کے سرخیل ، دنیا جہاں کے بادشاہ ایک بچے کو خوش کرتے ہوئے اس سے غم خواری کررہے ہیں وہ بھی ایک چڑیا سے محروم ہوجانے کی خاطر ۔ اہلِ علم اور داعی حضرات کو ایسا اخلاق کس قدر زیب دیتاہے۔

ایک دفعہ آپ کے پاس ایک شخص نے اسہال کی تکلیف کا ذکر کیا تو آپeنے فرمایا : اسے شہد پلاؤ، سیدنا ابو سعید خدری t بیان کرتے ہیں کہ ایک آدمی نے آپ e کی خدمت میں حاضر ہوکر عرض کیا : میرے بھائی کا پیٹ خراب ہے آپ نے فرمایا : ’’اسے شہد پلاؤ‘‘ وہ دوبارہ آگیا ، آپeنے پھر فرمایا :’’اسے شہد پلاؤ‘‘ وہ تیسری دفعہ آیا تب بھی آپeنے اسے کہا :’’اسے شہد پلاؤ‘‘۔ اس کے بعد وہ پھر آگیا ، آپeنے فرمایا : ’’ اللہ تعالیٰ کا فرمان سچ ہے ، تمہارے بھائی کا پیٹ جھوٹاہے اسے شہد ہی پلاؤ‘‘ اس دفعہ اس نے شہدپیا تو وہ شفا یاب ہوگیا۔بخاری : ۵۶۸۴ ،۵۷۱/ مسلم:۲۲۱۷۔

لوگوں سے حُسنِ معاشرت اور تواضع کی انتہاء ہے ، اللہ تعالیٰ کے پیغمبر ، کائنات کے سردار ، صدرنشین مملکت سے ایسے مرض کے بارے میں معلومات لی جارہی ہیں جسے لوگ بتانے سے بھی شرماتے ہیں ، اللہ ربّ العزت کا رسول ہوکر آپ بچّے سے خوش طبعی کررہے ہیں، ایک خادم کو اس کے گھر ملنے جارہے ہیں، ایک لونڈی کے ساتھ کام کے لئے جارہے ہیں، وہ کتنی عظمت کے مالک پیغمبر، بہت بڑے لیڈر اور بارُعب حکمران تھے۔ یہی وہ تربیت ہے جس سے اللہ گ نے آپ کو بہرہ ور کیا اور یہ کہہ کر نصیحت فرمائی

{وَاخْفِضْ جَنَاحَکَ لِلْمُؤْمِنِیْنَ }      [ الحجر : ۸۸ ]

’’اور اپنی شفقت کے بازو اہلِ ایمان پر جھکائے رکھو‘‘۔

آپeکو اللہ تعالیٰ نے تکبر کے شائبہ اور مدعوّین کے ساتھ خشک روی اختیار کرنے سے منع کیا اور ارشاد فرمایا :

{وَلَا تَطْرُدِ الَّذِیْنَ یَدْعُوْنَ رَبَّھُمْ بِالْغَدَاۃِ وَالْعَشِیِّ یُرِیْدُوْنَ وَجْھَہُ }           [ الأنعام : ۵۲ ]

’’اور تم ان لوگوں کو اپنے سے دورنہ کرو جو صبح وشام اپنے ربّ کو اس کی خوشنودی چاہتے ہوئے پکارتے ہیں ‘‘۔

نابینا صحابی عبد اللہ بن امّ مکتوم tکے بارہ میں جب آپe نے اپنی ذاتی اجتہاد کی روشنی میں پیشانی پر شکن لیا تو باری تعالیٰ کی طرف سے فوراً ان الفاظ میں سرزنش ہوئی

{عَبَسَ وَتَوَلَّی     أَنْ جَاء َہُ الْاَعْمٰی     }(عبس:۱۔۲)

’’اس نے تیوری چڑھائی اور منہ پھیرا کہ اس کے پاس نابیناآیا‘‘۔

کیا آپe نے اس کے بعد اس نابینا کو عتاب کیا ؟ اس سے غصّے ہوئے ہوں یا اعزاز واکرام اور محبت سے ہٹ کر کوئی موقف اختیار کیا ہو؟ قطعاً نہیں۔

محترم ! اس عجز وانکساری اور باہمی میل جول کے صحابہ کرامy کے دِلوں پر اثرات دیکھیں۔اس نے انہیں کیسی صداقت ، تربیت اور عمل سے بہرہ ور کردیا۔ انہی خوبیوں نے انہیں پوری انسانیّت کے لئے بہترین اُمّت بنادیا۔

مناسب ہوگا کہ ان وجوہات کا بھی رونا رویا جائے جن کی بنا پر عموماً عوام النّاس اور خصوصاً نوجوانوں کے درمیان اور اہلِ علم اور داعی حضرات کے درمیان ایک بہت بڑی خلیج حائل ہوئی ہے۔ جس کی بنا پر کچھ داعی اورعلماء الگ تھلگ ہوگئے ہیں ، انہوں نے اپنے دروازے بند کر لئے ہیں وہ لوگوں سے مل جُل کر نہیں رہتے ، وہ عوام النّاس غریبوں اور نوخیز نسل کے ساتھ بیٹھنے سے اُف اُف کرتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ان میں خلیج پیدا ہوگئی ہے اوران کے (درمیان) غلط نظریات اور ناحق خیالات نے جنم لیا ہے۔ اگر عالم ربانی اپنے مدعوّین سے مل جل کر رہے، ان کی مسلسل تربیت کرتارہے تو اسے ابتداء ہی میں خطرات سے آگاہی ہوجائے گی اور وہ نا حق بات کے جنم لیتے ہی اس کا تدارُک کرے گا ۔اس کی مثال ایسے ہی ہے جیسے ایک ڈاکٹر اپنے مریضوں کے حالات سے آگاہی رکھتاہے۔ لیکن اگر داعی اور مربّی ہی منہ موڑلے اور لوگوں سے الگ تھلگ ہوجائے تو بیماری اور بڑھے گی اور علاج مزید مشکل ہوجائے گا۔

6۔ حُسنِ اخلاق اور فراخ دلی

متذکرہ بالا خوبی کی میدانِ دعوت میں اہمیت وضرورت

کوئی بھی ایسی خوبی نہیں جو انسان کے لئے حُسنِ اخلاق سے بڑھ کر ہو اور حُسنِ معاشرت سے بہتر کوئی طریقہ نہیں جس سے لوگوں کو گرویدہ کیا جائے۔ حُسنِ اخلاق کو پسند کرنا انسان کی فطرت ہے خواہ وہ کافر ہی کیوں نہ ہو اسی طرح بداخلاقی کو ناپسند کرنا ،بد اخلاق سے دور رہنا بھی انسانی مزاج میں شامل ہے خواہ وہ کتنا بڑا شخص ہی کیوں نہ ہو۔ارشاد ربّ العزت ہے   :

{وَلَوْ کُنْتَ فَظًّا غَلِیْظَ الْقَلْبِ لَانْفَضُّوْامِنْ حَوْلِکَ }   [آل عمران : ۱۵۹ ]

’’اگر تم تند خو اور سخت دل ہوتے تو تمہارے پاس سے یہ منتشر ہوجاتے‘‘۔

ہمیں لوگوں کے دلوں میں اترنے ، انہیں اکٹھا رکھنے اور ان میں باہمی اُلفت پیدا کرنے کے لئے خوش اخلاقی اور حُسنِ معاشرت سے بڑھ کر کوئی چیز نہیں مل سکتی۔ حُسنِ اخلاق انسان کا تاج اور معنوی حسن ہے۔شاعر کہتاہے :

لَیْسَ الْجَمَالُ بِمِئْزَرٍ                                       فَـــاعْلَمْ وَاِنْ رُدِّیْتَ بُرْداً
اِنََّ الْجَمَـالَ مَــعَادِنُ                                وَمَنَاقِبُ أَوْرَثْنَ حَـــمْـداً

’’تمہیں خواہ کتنی ہی خوبصورت پوشاک پہنا دی جائے یہ نہ سمجھنا کہ حُسنِ وجمال پوشاک سے ہوتا ہے اخلاق کے تو سرچشمے اور بلند کارنامے ہیںجو ستائش وتعریف سے سرفراز کرتے ہیں‘‘۔

ایک دوسرے شاعر نے کہا ہے :

اِلْبَسْ جَدِیْدَکَ اِنِّیْ لَابِسٌ خُلُـقِیْ
وَلَاجَدِیْدٌ لِـمَنْ لَا یَلْبَسُ الْخُـلُـقَا

’’تم نیا لباس پہنو، میں اخلاق کو زیب تن کروں گا۔ جو اخلاق کے لباس سے محروم ہے اس کے لئے کوئی چیز نئی نہیں ہے‘‘۔ جب ایک داعی اس سے آراستہ ہوگا تو وہ مدعوّین کے دلوں کو آرام اور راحت فراہم کرے گا اور اس کی دعوت کو از حد پذیرائی حاصل ہوگی۔ کتنے لوگ ہیں جو باطل کی دعوت کوشیریں بیان اور حُسنِ اخلاق کے ذریعے مقبول بنا دیتے ہیں اور کس قدر صحیح دعوت کو خشک مزاجی یا بد اخلاقی کی بنا پر ٹھکرا دیا گیا۔

داعی کے حُسنِ اخلاق سے نہ صرف دعوت کو پذیرائی ملتی ہے بلکہ معاشروں کی تشکیل میں اور لوگوں کے تزکیۂ نفس پر بھی اس کے دُوررَس اثرات مرتّب ہوتے ہیں۔ یہ دعوتِ دین کے علمبرداروں کا اہم ترین فریضہ ہے اور یہی حضرات درحقیقت معاشرہ ساز ہیں۔

معاشرے اخلاق سے عاری نظرئیے اور عقیدے کے ذریعے نہیں بنتے۔ جو شخص یہ سمجھتاہے وہ بہت بڑی غلطی کرتاہے ، عقیدے کے ساتھ ساتھ ایسے اخلاق کی ضرورت ہے جو لوگوں کو ایک دوسرے سے ملائے اور ان کا باہمی تعلق مضبوط کرے۔ یادرکھیئے اگر عقیدہ معاشرے کی اینٹوں کی حیثیّت رکھتاہے تو اخلاق اس کا سیمنٹ ہے ۔

بالفاظِ دیگر توحید، تقویٰ شعارہونا، عبادت گزاری اور اخلاق سے خالی دعوت وتبلیغ نہ تو لوگوں کو جمع کرسکتی ہے اور نہ ہی کوئی اچھا معاشرہ قائم کرسکتی ہے۔اگر ترش رو اور سخت مزاج ہونے کی بنا پر لوگ رسول اللہeکی ہستی سے دور ہوجانے تھے تو ان سے کم درجہ لوگوں میںیہ چیز بدرجہ اتم ہوگی ۔ کتاب وسنّت میں عام مسلمانوں کے لئے بالعموم اور داعی حضرات کے لئے بالخصوص بد اخلاقی سے بچنے کے احکامات بکثرت ذکر ہوئے ہیں اس سے دعوت کو بالخصوص اور باقی معاشرے کو بالعموم نقصان پہنچتاہے۔

داعی حضرات کو جن میں سرفہرست سالارِ قافلٔہ دعوت سیدنا محمدe ہیں، بد اخلاقی کے انجامِ بدسے آگاہ کرتے ہوئے باری تعالیٰ نے فرمایا ہے :  

{وَلَوْ کُنْتَ فَظًّا غَلِیْظَ الْقَلْبِ لَانْفَضُّوْا مِنْ حَوْلِکَ }

[ آل عمران : ۱۵۹ ]

’’اگر تم تُند خو اور سخت دل ہوتے تو تمہارے پاس سے یہ منتشر ہوجاتے‘‘۔

جب یہ بات آنحضر تeسے کی جارہی ہے جو اہلِ توحید کے سردار ، اہلِ تقویٰ کے رئیس، اہلِ عبادت کے سرخیل ہیں تو دوسروں کا اندازہ آپ خود ہی لگائیں۔ میدانِ دعوت میںحُسنِ اخلاق کی اہمیت سے غفلت برتنے کی وجہ سے بہت سے لوگ اہلِ دعوت سے متنفّر اور راہِ ہدایت سے ہٹ گئے ہیں۔ کاش ہم عبرت حاصل کریں۔

اس ساری وضاحت وتشریح کے بعد خلاصہ یہ ہے کہ نبی کریمeکی بعثت کا مقصد ہی یہ تھاکہ اخلاق حسنہ کی تکمیل کی جائے ، آپe کا ارشاد ہے

’’اِنَّمَا بُعِثْتُ لِأُتَمِّمَ صَالِحَ الأَخْلَاقِ‘‘

’’ مجھے مبعوث ہی اس لئے کیا گیا ہے کہ میں عمدہ اخلاق کو کمال تک پہنچا دوں‘‘۔أحمد ج: ۲ص:۳۸۱ ، صححہ الحاکم ج:۲ص:۶۱۳۔

عمدہ اخلاق اور حُسنِ معاشرت کا مفہوم

عمدہ اخلاق اور حُسنِ معاشرت کا مظہر کوئی خطبٔہ جمعہ ، کوئی لیکچر دینا یا کوئی کتاب تصنیف کرنا نہیں، اس کا مظہر تو عملی نمونہ اور اخلاقی رویہ ہے جو آدمی کے معاملات اور مختلف مواقع پر اس کے موقف سے دکھائی دیتاہے۔ یہ تو معاملات میں فراخ دل ہونے ، عفو ودرگزر کرنے ، خندئہ پیشانی سے پیش آنے ، خوش گفتار ہونے ، میٹھے میٹھے بول بولنے،کمزوروں پر شفقت کرنے، صاحب حیثیّت لوگوں کی تعظیم کرنے اور اہلِ علم کا احترام کرنے کا نام ہے۔

کسی کو تکلیف نہ دینا، سخاوت کرنا، نرم رویّہ اختیار کرنا، حُسنِ ظن رکھنا، عذر قبول کرنا، نیکیوں کو مدّنظر رکھنا ، دوستوں سے تواضع سے پیش آنا، لوگوں کی کمزوریوں سے چشم پوشی کرنا، انتقام نہ لینا یہ سب حُسنِ اخلاق ہے بلکہ ایک مسلمان اور داعی کی تمام خوبیوں کو حُسنِ اخلاق کہا جائے تو یہ بے محل اور غلط نہ ہوگا۔

سیرت النّبی اور حُسنِ اخلاق

حُسنِِ اخلاق کا انسانی زندگی پر گہرا اثر ہوتاہے ، معاشرے کے مختلف میدانوں پر بالعموم اور داعی کی دعوت پر بالخصوص اس کے اثرات ہوتے ہیں یہی وجہ ہے کہ زندگی کے ہر شعبے میںحُسنِ اخلاق کو اپنانے اور اس سے متضاد رویّے کو ترک کرنے کی جابجا ہدایات موجود ہیں۔

رسول اللہe اور آپ کے صحابہ کرام y کے بارہ میں تاریخ نے ایسے سنہری اور سچے واقعات محفوظ کئے ہیں جو حُسنِ اخلاق کا عملی پرتو ہیں ،انہیں پڑھ کر دِلوں کو سرور حاصل ہوتاہے ، یہ قیامت تک کے لئے ہر داعی کے لئے اسوئہ اور نمونہ ہیں ۔ اس موقع پر وہ سب تو بیان نہیں ہوسکتے تاہم کچھ کو بطور اشارہ ذکر کرنا مناسب ہوگا۔ ارشاد رب العزت ہے   :

{وَإِنَّکَ لَعَلٰی خُلُقٍ عَظِیْمٍ}[ القلم : ۴ ]

’’اور تم بے شک ایک اعلیٰ کردار پر ہو‘‘۔

اس آیت کی دو خوبصورت تفسیریں ہوسکتی ہیں ایک یہ کہ نبی کریمe کی ذات گرامی عظیم اخلاق سے موصوف ہے۔

دوسری تفسیر یہ ہے کہ آپ eجس شریعت ، منہج، معاملات اور رویے پر گامزن تھے وہ خلق عظیم تھا۔

سیدنا عبد اللہ بن عباس w   فرماتے ہیں کہ

{وَإِنَّکَ لَعَلَی خُلُقٍ عَظِیْمٍ}

سے مراد یہ ہے کہ آپ کو ایک عظمت والا دین یعنی دینِ اسلام عطا ہوا ہے۔ مجاہد ، ابو مالک، ربیع ، ضحاک اور ابن زید رحمہم اللہ ان تمام مفسرین حضرات سے بھی اسی طرح کی تفسیر منقول ہے۔ تفسیر ابن کثیر : ج:۴ ص :۴۲۹۔

ارشاد باری تعالیٰ ہے :

{خُذِ الْعَفْوَ وَأْمُرْ بِالْعُرْفِ وَأَعْرِضْ عَنِ الْجَاھِلِیْنَ }

’’درگزر کرو ، نیکی کا حکم دو اور جاہلوں سے اعراض کرو‘‘۔[ الأعراف : ۱۹۹ ]

نیز فرمایا :

{الَّذِیْنَ یُنْفِقُوْنَ فِی السَّرَّاءِ وَالضَّرَّاءِ وَالْکَاظِمِیْنَ الْغَیْظَ وَالْعَافِیْنَ عَنِ النَّاسِ وَاللَّہُ یُحِبُّ الْمُحْسِنِیْنَ }   [ آل عمران   : ۱۳۴ ]

’’ان لوگوں کے لئے جو کشادگی اور تنگی ہر حال میں خرچ کرتے رہتے ہیں ،غصّہ کو ضبط کرنے والے اور لوگوں سے درگزر کرنے والے ہیں اور اللہ خوب کاروں کو دوست رکھتاہے‘‘۔

سیدنا انس t بیان کر تے ہیں :’’کہ رسول اللہeبہترین اخلاق کے مالک تھے‘‘۔بخاری: ۶۲۰۳ /مسلم ۲۱۵۰،۶۵۹۔

’’آپ کا اخلاق قرآن مجید کا آئینہ دارتھا‘‘۔احمد : ج:۶ ص: ۱۶۳ حاکم : ج:۲ ص : ۴۹۹۔

اہل علم کہتے ہیںکہ ان کی مراد یہ ہے کہ نبی کریمe قرآنِ مجید کو بطور نمونہ اپناتے تھے ، قرآنِ مجید جو کچھ کہتا آپ اس پر عمل پیرا ہوتے اور جس سے منع کرتا اس سے رک جاتے ۔تفسیر ابن کثیر : ج:۴ ص: ۴۲۹۔      

حُسنِ اخلاق سے متعلق احادیث

مناسب ہوگا کہ اس گفتگو کے اختتام سے پہلے رسول اکرمeکے کچھ عطر بیز فرامین ذکر کر دئیے جائیں تاکہ حُسنِ اخلاق کی اہمیت اجاگر ہوجائے۔

b سیدنا ابو درداء رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبی کریمe نے فرمایا   :

’’مَا مِنْ شَیْئٍ أَثْقَلُ فِیْ مِیْزَانِ الْعَبْدِ الْمُؤْمِنِ یَوْمَ الْقَیَامَۃِ مِنْ خُلُقٍ حَسَنٍ ،وَاِنَّ اللّٰہَ لَیُبْغِضُ الْفَاحِشَ الْبَذِیْئَ‘‘۔

’’قیامت کے دن انسان کے ترازو میں حُسنِ اخلاق سے زیادہ وزنی کوئی عمل نہیں ہوگا ۔یقین جانیے اللہ تعالیٰ فحش گو اور بدزبان شخص کو سخت ناپسند کرتاہے‘‘۔ ترمذی : ۲۰۰۲۔

b سیدنا ابو ہریرہr کا بیان ہے کہ رسو ل اللہe سے پوچھا گیا کہ زیادہ تر لوگ کس عمل کے ذریعے جنّت میں جائیں گے ؟آپeنے فرمایا: خوفِ خدا اور حُسنِ اخلاق کے ذریعے ، پھر پوچھا گیا کہ زیادہ تر لوگ کس وجہ سے دوزخ میں جائیں گے ، آپ نے فرمایا : ’’الفَمُ وَالْفَرْجُ‘‘۔ الترمذی : ۲۰۰۴۔

’’زبان اور شرمگاہ کی کرتوتوںکی وجہ سے ‘‘۔

bرسول اللہeنے یہ بھی فرمایا :   ’’ اَکْمَلُ الْمُؤْمِنِیْنَ اِیْمَانًا أَحْسَنُھُمْ خُلُقًا

’’کامل ترین ایمان والے مومن وہ ہیں جو بہترین اخلاق کے مالک ہیں ‘‘۔ترمذی : ۱۱۶۲

b سیدنا ابو امامہ باہلی رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ رسول اللہeنے فرمایا :

أَنَا زَعِیْمٌ بِبَیْتٍ فِیْ رَبَضِ الْجَنَّۃِ لِمَنْ تَرَکَ الْمِرَائَ وَاِنْ کَانَ مُحِقّاً،وَبِبَیْتٍ فِیْ وَسَطِ الْجَنَّۃِ لِمَنْ تَرَکَ الْکَذِبَ وَاِنْ کَانَ مَازِحاً، وَبِبْیَتٍ فِیْ أَعْلَی الْجَنَّۃِ لِمَنْ حَسَّنَ خُلُقَہٗ‘‘۔ ترمذی : ۱۱۶۲۔

’’جوشخص حق پر ہونے کے باوجود بحث ومباحثہ نہیں کرتا ، میں اس کے لئے جنت کے زیریں حصے میں ایک گھر کی ضمانت دیتاہوں اور جو شخص مزاح میں جھوٹ نہیں بولتا اس کے لئے جنت کے وسط میں اور جو حسن اخلاق کو اپناتاہے اس کے لئے جنت کے بالائی حصے میں ایک گھر کا ضامن ہوں۔

bام المؤمنین سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہافرماتی ہیں کہ رسول اللہe نے ارشاد فرمایا :

’’اِنَّ الْمُؤْمِنَ لَیُدْ رِکُ بِحُسْنِ خُلُقِہٖ دَرَجَۃَ الصَّائِمِ الْقَائِمِ‘‘۔

’’حسن اخلاق کے ذریعے مؤمن روزہ دار، تہجد گزار کا درجہ حاصل کرلیتاہے‘‘۔ أبو داؤد : ۴۷۹۸

7۔حُسنِ گفتاراوربے وقوفوں سے اعراض :

یہ ایک طے شدہ بات ہے کہ داعی کو مشکل حالات اور کٹھن مراحل کا سامنا کرنا پڑتاہے کیونکہ لوگوں کے مزاج مختلف اوران کے مفاد جداجدا ہیں۔ ان کے راستے الگ الگ ہیں، کچھ لوگ حق کے متلاشی ہیں لیکن ان کا اُسلوب جارحانہ ہے، کچھ بہتر انداز میں سوال کرنے اور بات کرنے سے قاصر ہیں، کچھ متشدّد ہیں ، کچھ الفاظ کا بہت زیادہ خیال رکھتے ہیں اور ایسا معنی دینا چاہتے ہیں جس کی ان میں گنجائش نہیں ، کچھ لوگ ارادۃً تنگ ظرف اور بدمزاج ہیں وہ حسد وبغض کی بنا پر اس دعوت کو نقصان پہنچاتے اور اسے مٹانے کے لئے اس کی شہرت کو خراب کرتے ہیں اور اس پر الزام تراشی کرتے ہیں، یہ سب کچھ آپe کے دور میں بھی موجود تھا اور آئندہ بھی ہر دور میں ہر داعی کے ساتھ ہوگا۔

رسول اللہe کے ساتھ پیش آمدہ واقعات

ایک دفعہ رسول اللہeنے اپنے پھوپھی زاد بھائی سیدنا زبیرt اور ایک آدمی کے درمیان کسی جھگڑے کا فیصلہ کیا یہ فیصلہ سیدنا زبیرt   کے حق میں ہوا تو وہ آدمی کہنے لگا یہ اس لئے ہے کہ یہ تمہاری پھوپھی کا بیٹاہے۔ بخاری: ۲۳۵۹،۹۳۶۰،۲۷۰۸ /مسلم:۲۳۵۷

اللہ تعالیٰ محفوظ فرمائے کیسی بدگمانی تھی ، نتیجہ یہ ہوا کہ نبی کریمeنے فیصلے کو اور سخت کردیا اوراس شخص کے الزام کی ذرا پرواہ نہ کی ۔

ایک دفعہ رسول اللہeنے مال غنیمت تقسیم کیا تو ذُوالخُوَیصرہ نامی ایک شخص آپ سے کہنے لگا : یا رسول اللہe! انصاف کریں۔ دوسری روایت ہے یا رسول اللہe ! اللہ سے ڈریں ، یہ سن کر رسول اللہeنے فرمایا ’’افسوس ! اگر میں انصاف نہیں کروں گا تو کون کرے گا؟ (بخاری: ۳۳۴۴،۴۳۵۱،۶۱۶۳،۶۹۳۳،۷۴۳۲ /مسلم:۱۰۶۴)

اس کے بعد آپ نے لوگوں کو اس سے اور اس کے ساتھیوں سے بچنے کی تلقین کی لیکن انتقام نہیں لیا ۔ نفاق سے اللہ کی پناہ ……۔

اسی طرح ایک خانہ بدوش نے رسول اللہeکے چوغے کو اس قدر بل دئیے کہ اس کے نشان آپ کی گردن پرپڑگئے وہ آپe سے قرض کی واپسی کا مطالبہ کررہا تھا۔ آپeنے ایک نگاہ اس پر ڈالی پھر ہنس پڑے اور اسے عطیہ دینے کا حکم جاری کردیا ۔ بخاری: ۵۸۰۹/ مسلم:۱۰۵۷۔

اللہ تعالیٰ ہمیں بھی حُسنِ کردار کی توفیق دے۔

اس قسم کے عظیم برتاؤ کے ذریعے آپe اپنے رفقاء کی اخلاقی تربیت فرمایا کرتے تھے۔

داعی کو اس بات سے آگاہ رہنا چاہیے کہ اس کے الفاظ نپے تلے ہوں، اس کا رویّہ معتدل ہو، وہ اس چیز سے چوکس اور ہوشیار ہوکہ کہیں اس کا کوئی اندازِ تصرّف عمل دعوت کے لیئے رکاوٹ نہ بن جائے یا اس کی زبان پہ ایسے الفاظ نہ آجائیں جس سے بدباطن لوگ ناجائز فائدہ اٹھا کر اسے موضوعِ سُخن اور داعی سے نفرت کا ذریعہ بنالیں۔ جبکہ وہ شعور یا لاشعور میں اللہ تعالیٰ کی راہ سے روک رہے ہوں بلاشبہ یہ چیز داعی کی شخصیت اور اس کے کام پر اثر انداز ہوتی ہے اوراس کے عمل دعوت کو خراب کرتی ہے۔داعی کی ایک معمولی غلطی کو بہت بڑا بنا لیا جاتاہے ،اس کے معمولات کی تشہیر ہوتی ہے اور اس کے الفاظ کا چرچا ہوتاہے۔

حسُنِ معاملہ کے اُصول وضوابط

1… اس کا پہلا اُصول یہ ہے کہ جواب دہی میں ٹھہراؤ اور معاملات میں دھیما پن برتا جائے اور ردّ ِعمل سے باز رہا جائے ۔

2 … غصّے کے وقت ضبطِ نفس سے کام لیا جائے اور جذبہ انتقام ختم کیا جائے۔

اس اُصول کو اپنانے کے لئے اس بات کو ذہن میں رکھنا نہایت ضروری ہے کہ دعوت وتبلیغ کاکام ذاتی اغراض ومقاصد سے مقدّم ہو اور ساتھ ہی ساتھ اللہ تعالیٰ کے ہاں اس کے ثواب کی نیّت کرلی جائے۔

3… تیسرا اُصول یہ ہے کہ ِاصلاحات اور خرابیوں کا موازنہ کیا جائے اس کا طریقہ یہ ہے کہ سا ئل کا مقصد سمجھنے کی کوشش کی جائے، اسے گہری بصیرت کے ساتھ جواب دیا جائے ،اس کی بات پر غور وفکر کیا جائے اس کے بعد جو رویّہ اپنایا جائے اس کے انجام پر گہری نظر ہو۔

4… انتہائی ضرورت کے موقع پر رواداری اور توریہ کو جائز سمجھنا چوتھا أصول ہے۔ تنگی کو دور کرنے اور خرابیوں کے تدارک کے لئے رواداری اپنانا جائز ہے۔ اس کا طریقہ یہ ہے کہ حق کو چھپانے کے لئے نہیں بلکہ تبدیلی لانے کے لئے حق بات کو برملا کہنے سے عارضی طور پر خاموش رہا جائے یا غلطی کرنے والے کا مقابلہ کرنے کی بجائے اس سے نرمی برتی جائے ، کسی شرعی مصلحت کے لئے یا بڑے فساد سے بچنے کے لئے یا کسی دوسری فرصت کے پیشِ نظر اس کے کام کو اس کے سامنے صراحتاً ذکر نہ کیا جائے۔

حق بات کہنے سے خاموش رہنے کا یہ مطلب نہیں کہ نا حق کہنا یا حق میں بے جا رواداری جائز ہے۔

اس سلسلہ میں یہ اُصول ملحوظ رہنا چاہیے کہ اگر آپ حق نہیں کہہ سکتے تو ناحق بھی نہ کہیں۔

’’توریہ‘‘بھی رواداری کا ایک انداز ہے اس کا طریقہ یہ ہے کہ بات سچی کہی جائے ، اس کے ظاہر سے کچھ اورسمجھ آرہا ہو اور مقصد کچھ اور ہو جب کہ بظاہر الفاظ اصل مقصد کے خلاف بھی نہ ہوں۔مختار الصحاح : ج:۱ ص: ۱۷/ التعریفات للجرجانی :ص:۷۱

لیکن اس کی شرط یہ ہے کہ اس سے کوئی غلط بات نہ سمجھی جارہی ہو۔ یہ محض ایسے الفاظ پر منحصر ہوتاہے کہ جن کے ذریعے خرابی اور بگاڑ سے بچا جاتاہے۔

5 …مختصر اور مشروط جواب دینا مثلاً اگر ایک شخص سے پوچھا جائے کہ ہمیں حکمران کی ہر بات ماننی چاہیے ؟ وہ جواب میں کہے : اگر حکمران شریعت کے مطابق اور عدل وانصاف کی بات کہیں تو ضرور مانیں اور اگر وہ اللہ کی نافرمانی اور ظلم وزیادتی کی بات کہے تو اس کی اطاعت نہ کریں۔

6…رُخ پھیر کر خاموشی اختیار کرنا۔

باری تعالیٰ کا فرمان ہے :

{وَإِذَا خَاطَبَھُمُ الْجَاھِلُوْنَ قَالُوْا سَلاَماً}[الفرقان :۶۳]

’’اور جب جاہل لوگ ان سے اُلجھتے ہیں تو وہ ان کو سلام کرکے رخصت ہوجاتے ہیں‘‘۔

آپe کا فرمان ہے:

رَحِمَ اللّٰہُ امْرَأً قَالَ خَیْر اَوْ سَکَتَ

’’ اللہ تعالیٰ اس شخص پر رحمت نازل فرمائے جو بات کرے تو اچھی کرے وگرنہ خاموش رہے‘‘۔

رسول اکرمe کے چند پُر حکمت جوابات:

حکمت سے لبریز جواب دینے اور حُسنِ معاملات میں رسول اللہeکی ذات گرامی مثالی کردار کی حیثیّت رکھتی ہے ۔ آپ کا ہرجواب حکمت سے لبریز اور ہر معاملہ عظمت کا آئینہ دار ہے مثلاً : ایک دیہاتی نے پوچھا یا رسول اللہe! قیامت کب آئے گی؟آپeنے فرمایا : تم نے اس کے لئے کیا تیاری کی ہے ؟ اس نے کہا : میں نے اس کے لئے کوئی زیادہ نمازیں ، روزے اور صدقات وخیرات تو تیار نہیں کئے لیکن مجھے اللہ اور اس کے رسول سے محبت ہے ۔ آپe نے فرمایا

اَ نْتَ مَعَ مَنْ أَحْبَبْتَ

’’ تم اس کے ساتھ ہو گے جس سے تمہیں محبت ہے ‘‘ بخاری: ۳۶۸۸،۶۱۶۷،۶۱۷۱،۷۱۵۳/مسلم:۲۶۳۹۔

دیکھئے! کیا پُر حکمت جواب ہے ۔ رسول اللہeنے سائل کا رُخ ایک بے فائدہ بات سے ہٹا کر فائدہ مند بات کی طرف کردیا اور اسے احساس بھی نہیںہونے دیا۔ اگر رسول اللہe اسے جواب دیتے ’’مجھے نہیں معلوم کہ قیامت کب آئے گی ‘‘ ممکن تھا کہ اس کے دل میں کوئی بھی خیال آجاتا اور وہ کوئی بھی بات کہہ دیتا کیونکہ وہ نیا نیا اسلام میں آیا تھا۔یہ آپeکی حکمت ودانائی ہے کہ جب اس نے آپ سے ایک ایسا سوال کیا جس کے جواب کا اسے کوئی فائدہ نہیں تھا تو آپeنے اسے ایسا جواب دیا ، جو اسے دنیا وآخرت میں فائدہ دے اور اس کے بعد پوری امّت کو بھی فائدہ ہو ۔

آپ نے اسے کہا ’’تم نے اس کے لئے کیا تیار ی کی ہے؟‘‘یہ سن کروہ سوال کو چھوڑ اور ایک مفید بات میں مشغول ہوگیا ۔ آپe پر اللہ کی بے بہارحمت ہو آپ کتنے اچھے معلّم تھے۔

اسی طرح ایک دیہاتی نے مسجد میں پیشاب کردیا ،صحابہ کرام y اس کی طرف لپکےتو آپeنے انہیں منع فرمادیا ، دیہاتی نے کہا : اے اللہ ! مجھ پر اور محمدe پر رحم فرما ہمارے ساتھ کسی اور پر رحم نہ کرنا،یہ سن کر آپ نے اسے کہا ’’تم نے ایک وسیع چیز کو تنگ کردیا ہے‘‘۔ احمد : ج:۲ ص:۲۳۹ / ابو داؤد ۳۸۰/ ترمذی : ۱۴۷۔

آپ نے یہ نہیں کہا کہ تم نے غلط بات کہی ہے ۔ سبحان اللہ ! آپ کتنے عظیم مربّی تھے۔

ایک دفعہ ایک شخص نے قرض کا مطالبہ کرنے میں سختی کی اور صحابہ کرام yنے اسے پکڑنا چاہا تو آپeنے ارشاد فرمایا :’’اسے چھوڑ دیں ! حق والا بات کر سکتاہے ، پھر فرمایا : اسے اتنی عمر کا جانور دو جتنا اس نے دیا تھا ، صحابہ نے کہا : یا رسول اللہe! وہ تو نہیں اس سے بہتر موجود ہے ، آپeنے فرمایا :

   فَاِنَّ مِنْ خَیْرِکُمْ أَحْسَنَکُمْ قَضَائً

’’تم میں سے بہتر لوگ وہ ہیں جو ادائیگی میں اچھے ہیں‘‘۔بخاری: ۲۳۰۶/ مسلم:۱۶۰۱۔

’’اسے چھوڑ دو، حق والا بات کرسکتاہے‘‘ آپeکے یہ الفاظ مطالبہ کرنے والے کے اشتعال کو ختم کرنے کے لئے تھے۔ اس نے محسوس کرلیا تھا کہ آپ اس کے حق کا اعتراف کررہے ہیں ۔پھر جب آپ نے اس کے اونٹ سے بہتر اونٹ دینے کو کہا تو اس کے جذبات بالکل ہی ختم ہوگئے اور وہ پر سکون ہوگیا ، نبی کریمeکے ایسے معاملات کی بہت سی مثالیں ہیں۔ ان سب کو یہاںبیان نہیں کیا جاسکتا۔

حُسنِ گفتار کے سلسلہ میں ایک دانا شخص کے بارہ میں بیان کیا جاتاہے کہ ایک دفعہ کسی بادشاہ نے خواب دیکھا کہ اس کی ساری داڑھیں اور دانت گِر گئےہیں۔ایک تعبیر کرنے والے سے پوچھا تو اس نے کہا : اے امیر المؤمنین! آپ کے تمام رشتہ دار آپ سے پہلے فوت ہوجائیں گے۔ یہ سن کر بادشاہ بہت غمزدہ ہوگیا پھر اس نے ایک اور تعبیر کرنے والے سے پوچھا تو اس نے کہا : اے امیر المؤمنین کوئی پریشانی والی بات نہیں اس کی تعبیر یہ ہے کہ آپ کی عمر اپنے تمام رشتہ داروں سے زیادہ ہوگی یہ سن کر بادشاہ خوش ہوگیا اس کی پریشانی جاتی رہی حالانکہ دونوں کا مطلب ایک ہے پہلے شخص کی تعبیر بھی درست تھی لیکن اس میں حکمت ودانائی نہیں تھی جبکہ دوسرے کے جواب میں دانائی تھی۔

دیکھئے دونوں میںکتنا فرق پڑ گیا ۔

متذکّرہ بالا عنوان کاخلاصہ یہ ہے کہ جواب دینے میں حکمت ودانائی اور طرزِ تکلّم حسین ولطیف ہو۔ یہ مراد نہیں ہے کہ ناحق بات کہی جائے یا مداہنت سے کام لیا جائے۔

داعی ایسے حکیمانہ انداز اور تجربہ کارانہ اُسلوب سے مزین وآراستہ ہوکہ حق بات کو احسن پیرائے اور خوبصورت الفاظ میں پیش کرسکے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے