اسلام ایک دائمی مذہب ہے

اسلام کی بقا ء اور تسلسل کے لئے اللہ تعالیٰ نے غیبی انتظامات ماحول کے اثرات کے مقابلہ کے لئے زماں مکان کی تعمیرات سے عہدہ برآہ ہونے کے لئے اللہ نے چند انتظامات فرمائے ہیں۔

(1)رسول مکرم ﷺکو قرآن مجید کی شکل میں زندہ تعلیمات عطا فرمائیں۔

(2)آپ کی سنت مطہرہ اور سیرت طیبہ کو بھی من و عن محفوظ کر دیا جو ہر کشمکش ،ہر تبدیلی کا با آسانی مقابلہ کر سکتی ہیں اور اس کے اندر ہر زمانے کے مسائل و مشکلات کو حل کرنے کی پوری صلاحیت موجود ہے اور اس کا ذمہ اللہ تعالیٰ نے خود لیا ہے۔

(3)اللہ تعالیٰ اسلام کی حفاظت کے لئے ہر دور میں ایسے زندہ اشخاص عطا فرماتا رہے گا جو ان تعلیمات کو آنے والی نسلوں کی زندگی میں منتقل کرتے رہیں گے۔ تاریخ دنیا میں جیسی تاریخ اسلام مردم خیز ثابت ہوئی ہے دنیا کی قوموں اور امتوں میں اس کی کوئی نظیر نہیں ملتی۔یہ محض اتفاقی بات نہیں ہے بلکہ رب قدوس کا انتظام ہے۔جس صلاحیت و قوت کے آدمی کی ضرورت تھی اسی قوت و صلاحیت کی شخصیت کا انتظام فرما دیتے ہیں جیسے کہ امام عبد الرحمن الرمھرمزی بیان فرماتے ہیں کہ آپ ﷺنے علمائے راسخین کی تعریف میں فرمایا کہ وہ دین اسلام میں رواج پانے والے غالی لوگوں کی تحریف اور باطل پرست کی جھوٹ،جاہلوں کی تاویلوں سے اسلام کو پاک و صاف کر کے پھر قرآن و سنت کی طرف دعوت دیں گے۔اور دین اسلام کا احیاء کریں گے۔(رواہ البیہقی)

ان زندہ جاوید اشخاص میں سے ہمارے محسن مربی صد احترام الشیخ پروفیسر محمد ظفر اللہ رحمۃ اللہ علیہ ولی کامل ، مستجاب الدعوات صوفی محمد عبد اللہ رحمہ اللہ کے روحانی فرزند ارجمند جماعت مجاہدین تحریک شہیدین کے نائب امیر سید ابو بکرغزنوی رحمۃ اللہ علیہ کے دست راست شیخ الحدیث مولانا محمد یعقوب ملہوی رحمۃ اللہ علیہ کے ممتاز شاگرد، وحدت الامت کے داعی صدر شعبہ معارف الاسلامی جامعہ کراچی وبانی جامعہ ابی بکر الاسلامیہ کراچی رکن ۔ رابطہ الجامعات الاسلامیہ ،براعظم ایشیا ء جن کے لیل و نہار اللہ کے دین کے لئے وقف تھے ۔ان کا اوڑھنا بچھونا کتاب و سنت تھا آنے والے چند اوراق میں ان کا تذکرہ کریں گے۔

الشیخ محمد ظفر اللہ رحمہ اللہ کا خاندانی پس منظر:

موت کی حقیقت اور موت کے پنجہ استبداد سے کوئی نہ بچ سکا لیکن بعض موتیں اس قدر المناک ہوتی ہیں کہ بھلانے کے باوجود نہیں بھولتیں۔جن شخصیات کی کمی دائمی طور پر دنیا میں محسوس کی جاتی ہے ان افراد میں سے الشیخ محمد ظفر اللہ ؒ بھی ہیں آپ ؒ نے بہت قلیل عمر پائی جو تقریباً چون(54)سال ہے لیکن اخلاق و کردار کی بلندی،معاملات کی صفائی ،سیرت و اعمال کی ستھرائی اور خلوص و للیّت کی اونچائی کے اعتبار سے وہ دور حاضر کے بے نظیر انسان تھے۔

مولانا الشیخ ظفر اللہ رحمۃ اللہ علیہ گمنامی صفوں سے اُٹھے۔ اپنی خداداد لیاقت، مسلسل محنت، خلوص عمل ، اخلاق و کردار، جہد مسلسل کی بدولت شہرت آسمان پر پہنچے۔الشیخ خاندانی طور پر کسی عظیم نسبت کے حامل نہ تھے اور نہ ہی کسی معروف و متعارف خاندان کی پشت پناہی انہیں حاصل تھی۔لیکن اپنے اوصاف مذکورہ کی وجہ سے وہ بڑے بڑے معروف خاندانوں کو پیچھے چھوڑ گئے۔ان کے حلقہ کی وسعت نہ صرف ملک گیر تھی ۔بلکہ عالم گیر تھی۔خصوصا براعظم ایشیا میں اہل حدیث جماعت میں پُل کی حیثیت ان کو حاصل تھی۔

الشیخ ظفر اللہ چودھری حاجی عطاء اللہ جاٹ قوم سے تعلق رکھتے تھے ۔الشیخ ظفر اللہ رحمۃ اللہ علیہ کے والد محترم چودھری عطا ء اللہ نہایت پارسا نیک بزرگ آدمی تھے صوم و صلاۃ کے پابند،بلکہ میرے علم کے مطابق تہجد کے پابند تھے۔ روپڑی علماء کے تربیت یافتہ خصوصاً حافظ عبداللہ بہاولپوری رحمۃ اللہ علیہ کے والد محترم ،مولوی نورمحمد اور مولوی دین محمد اورستانوی سے انہوں نے دینی علم اور کتاب و سنت کا عقیدہ حاصل کیا تھا اور کسب فیض پایا ۔ تب ہی تو الشیخ ظفر اللہ رحمۃ اللہ علیہ کو جامعہ تعلیم الاسلام اوڈانوالہ میں دینی تعلیم کے لئے چھوڑا ۔بقول چودھری ہدایت اللہ الشیخ ظفر اللہ نے جامعہ ابی بکر الاسلامیہ کی بنیاد رکھی تو الشیخ کے والد محترم چودھری عطاء اللہ مرحوم نے اپنی جیب خاص سے جامعہ کے لئے اس وقت 1971؁ء میں چھ ہزار روپیہ دیا اور اپنے بیٹے کو تاکید کی کہ جامعہ کے لئے وہی راہ اختیار کرنا جو صوفی عبد اللہ رحمہ اللہ نے اختیار کی تھی۔ نیک بیٹے نے تقریبا وہی راہ اختیار کر کے امانت و دیانت کو اُسی طرح اپنایا جیسے صوفی عبد اللہ رحمۃ اللہ علیہ نے اپنایا تھا گویا کہ آپ صوفی عبد اللہ کے روحانی فرزند ارجمند تھے۔

مدرسہ تعلیم الاسلام اوڈانوالہ ماموں کانجن تعلیم کے لئے محنت :

مولانا ظفر اللہ رحمۃ اللہ علیہ دینی علوم کے آغاز 13مارچ 1956؁ءسے ستمبر 1963؁ء تک اُٹھے رہے۔ادیب عربی ،عالم عربی،فاضل عربی کے امتحانات   62؁   63؁     64؁ یکے بعد دیگر ے اپنے مہدعلمی جامعہ تعلیم الاسلام میں چھ سالہ درس نظامی کے پیریڈ ہی پاس کئے ۔میرے قابل فخر ساتھی ہم سب میں حصول علم کے لئے محنت کرنے کا جذبہ اور شوق پیدا کرنے کا ذریعہ تھے۔ نہایت خود دار اور غیرت مند انسان تھے پورے ادارے کے طالب علم ان سے مانو س تھے۔وہ سب سے پیار کرتے تھے اساتذہ کرام کا احترام اور بزرگوں سے ان کے مقام و مرتبہ کے مطابق پیش آتے تھے ۔ سخت سردی کی راتوں میں رات بھر جاگنا ،پڑھنے اور نوافل ادا کرنے میں رات گزارنا ان کی عادت تھی ۔ جب تک پڑھتے پاؤں چار پائی پر لٹکا کر بیٹھے رہتے اور ہمیں بھی ایسا کرنے پر آمادہ کرتے تھے۔

میں نے ایک دن مذاق میں کہا کہ ’’ظفر ہاتھو ں کو تو کسی گناہ کی سزا ہو گی جو قیدیوں کی طرح بندھے ہوئے ہیں اور ساتھ میں ہمیں بھی مجبور کرتے ہیں ‘‘تو آپ فرمانے لگے:’’اتنا تو تمہیں بھی پتا چل گیا ہو گا کہ چار پائی پر پاؤں رکھ کر بیٹھ جائیں تو نیند زیادہ آتی ہے اور ٹانگیں نیچے لٹکانے سے ٹھنڈی رہتی ہیں اور نیند نہیں آتی۔‘‘پھر آپ نے عربی معلم کے حوالے سے ناصحانہ شعر پڑھاجو سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے کہا تھا:

بقدرالکد تکتسب المعالی
مَنْ طلب العلیٰ سہر اللیالی

بلند مقاصد کے لئے نیندیں قربان کرنی پڑتیں ہیںکیونکہ محنت کے بقدر ہی مقام و منزلت ملا کرتی ہے۔

پھر اساتذہ کی خدمت میں کسب فیض کے لئے حاضر رہنا، اوقات تدریس کے بعد اسباق کا اجراء ،اس کے بعد بورڈ کے امتحانات کے لئے اساتذہ سے پھر کسب فیض ،عشاء کے بعد درس نظامی کی کتب کا مطالعہ،مشکل مقامات کی نشاندہی،بورڈ کے امتحانات کی تیاری پھر نوافل اسی طرح رات گزر جاتی۔بعض مرتبہ ایسا ہوتا کہ نصف اللیل کے قریب استاذ المکرم مولانا عبد الرشید ہزاروی زید مجدہ تشریف لے آتے اور ڈانٹ کر فرماتے کچھ عقل کرو جسم کا بھی حق ہے اسے بھی آرام کی ضرورت ہے جاؤ اور جا کر سو جاؤاور بعض مرتبہ ایسا بھی ہوا جتنا پڑھنا چاہئے تھا پورا نہیں پڑھا اور اساتذہ سے ڈر کر سہمے کمروں میں آجاتے کتابیں اُٹھاتے لالٹین لیتے اور گاؤں کے مغربی جانب ایک مربع کے فاصلے پر قبرستان ہے پھر اس کی مغربی جانب ایک نالہ ہے اس میں بیٹھ جاتے لالٹین جلا کر اس کے کنارے پر رکھتے اور گاؤں کی جانب لالٹین پر کاغذ لگا دیتےتاکہ روشنی کا احساس نہ ہو ۔رات تہجد تک وہاں بیٹھے پڑھتے رہتے ،تہجد تک اسباق یا د کرتے اور دہرانے کا سلسلہ چلتا رہتا پھر مسجد میں آکر نوافل ادا کرتے اور اذان سے آدھا گھنٹہ پہلے سر تپائی پر رکھا اور سو گئے اذان ہوئی، اُٹھے وضو کیا نماز فجر ادا کرتے ۔پہلی جماعت سے لے کر جامعہ سے فارغ ہونے تک اپنے اساتذہ کرام سے سزا کا موقع نہیں آیا صرف ایک مرتبہ دوسری کلاس میں پڑھتے تھے فیصل آباد (لائل پور)جامعہ سلفیہ میں جلسہ سننے کے لئے چلے گئے وہاں سے بلوغ المرام مترجم لے آئے اور مدرسہ میں طالب علم کو مترجم اور معرب کتاب رکھنے کی اجازت نہ تھی اساتذہ کے خوف سے کتاب کمرہ میں چھپا کر رکھی اعراب کی درستگی کے لئے اس سے تھوڑا بہت استفادہ کر لیتےلیکن باقی ساتھیوں سے بھی چھپائے رکھی کچھ دنوں کے بعد راز فاش ہو گیا استاذناالمکرم مولانا محمد رفیق کے پاس شکایت پہنچی جھوٹ بولنے کی عادت نہ تھی نہ رواج تھا پوچھا گیا تو صاف صاف بتا دیاتو استاد محترم نے اس موقعہ پر سزا دی اور پھر فرمایاپڑھا پڑھایا علم حاصل کرنے کے بجائے ازخود کوشش کرو ۔گندم کی کٹائی کے موقعہ پر چھٹیاں ہوئی تو کہنے لگے عبد اللہ بھائی ہدایت اللہ کو گھر میں اکیلے گندم کاٹنا پڑھے گی دو ،چا ر دن لگا کر بھائی کا ہاتھ بٹا آئیں اور سیر بھی ہو جائے گی۔ میں اور مولوی تاج محمود جو ہم سے ایک سال آگے تھے ساتھ چلے اور آخری دن کٹائی سے ظہر کے وقت فارغ ہو گئے۔ نماز کے بعد خیال آیاکہ آج کٹی ہوئی ساری گندم اکٹھی کر لیں۔گندم اُٹھانے میں مصروف تھے کہ اچانک آسمان پر بادل چھا گئے اور دیکھتے ہی دیکھتے ہلکی بارش کے ساتھ اولے برسنے لگے ،بڑے بڑے اولے پتھر کی طرح برسنے لگے سرچھپانے کی کوئی قریب جگہ نہ تھی اکٹھی کی ہوئی گندم کے نیچے سر چھپانے کی کوشش کی تو نزدیک ہی ایک موٹا تازہ سیاہ سانپ تقریبا 2میٹر لمبا قریب بیٹھا دیکھامولوی تاج ہارون آبادی کہنے لگے تو آج پھنس گئے ۔برادرم ظفر اللہ رحمۃ اللہ علیہ نے کہاکہ بلند آواز سے پڑھو۔

اعوذ بکلمات اللہ التامات من شر ما خلق

الحمد للہ یہ کلمات مقدسہ کتنے کامل یقین کے ساتھ ہماری زبان سے نکلے کہ سانپ اتنی تیزی سے مخالف سمت میں چلا گیا ۔ظفر اللہ بھائی خوش ہو کر بولے سانپ تو ایسے بھاگا جیسے اسے خود اپنی جان کا خطرہ ہو اور عبد اللہ بھائی نے کہا کہ میں نے بھی تو نبی کریم ﷺکا بتایا ہوا وظیفہ بھی پختہ یقین سے کیا۔ادیب ،عالم عربی جامعہ سے فراغت تک ان کی شب و روز رفاقت کے باوجود بھی بحمد اللہ کبھی کوئی ناخوشگوار صورت حال پیدا نہ ہوئی۔

آخر میں تحریر فرماتے ہیں:میرے محترم ساتھی کی زندگی کسب فیض کے لئے بے شمار واقعات ہیں صرف اس کے لئے دفتر درکار ہے جس کی آپ کی کتاب متحمل نہیں۔ میرے ہم جماعت ساتھیوں میں سے مولانا ظفر اللہ تعلیم میں ممتاز،کردار میں پارسا عمل پیہم کے پیکر تھے بیک وقت قائدبھی۔کار کن بھی۔اللہ تعالیٰ نے میرے مرحوم ساتھی میں بہت سی خوبیاں رکھی تھیں۔

تاریخ پیدائش:

بقول چودھری ہدایت اللہ (بڑے بھائی) ظفر اللہ چودھری عطاء اللہ 20مئی1943؁ کو موضع ملک پورہ تحصیل روپڑ ضلع انبالہ متحدہ ہندستان میں پیدا ہوئے۔تقسیم ملک کے وقت ان کی عمر 4سال تھی ۔ 14اگست1947کو ہجرت کر کے چک نمبر 14/L     10فوجیاں والا نزد اقبال نگر تحصیل چیچہ وطنی ضلع ساہیوال میں رہائش اختیار کی ان کی والدہ محترمہ بچپن میں فوت ہو گئی تھیں ۔والدہ کے فوت ہونے کی وجہ سے ان کی پرورش ان کی خالہ محترمہ نے کی اور ابتدائی تعلیم اقبال نگر کے پرائمری سکول میں حاصل کی اس کے بعد ان کے والد محترم چودھری عطاء اللہ اپنے کاروباری سلسلے میں 720گ ب پیر محل میں منتقل ہو گئے اور انہوں نے مڈل کی تعلیم چک نمبر 718گ ب مڈل سکول پیر محل میں حاصل کی۔

داخلہ مدرسہ تعلیم الاسلام اوڈانوالہ ماموں کانجن :

13مارچ 1956؁ء بقول مولانا عبد اللہ مشتاق وچودھری ہدایت اللہ ،چودھری ظفر اللہ مدرسہ تعلیم الاسلام اوڈانوالہ ماموں کانجن میں داخل ہوئے اور اپنی دینی تعلیم کا آغاز کیا۔اللہ تعالیٰ کی رحمت سے نہایت مشفق اساتذہ کرام عطا فرمائے اس وقت مدرسہ تعلیم الاسلام کا نصاب 6سال پر محیط تھا ۔قابل اساتذہ،بہت صاف ستھر اماحول اور ابتدائی جماعت سے لے کر آخری جماعت تک طلبہ سبھی حصول تعلیم میں مصروف رہتے تھے۔

بقول مولانا عبد اللہ مشتاق تعلیم کا آغاز حضرت مولانا عبد الرشید ہزاروی و حضرت مولانا محمد رفیق آف کھدّر والا سے صرف و نحو ،مولانا عبد الصمد و مولانا محمد صادق خلیل سے ادب نیز منطق و معانی فلسفہ علم الکلام میں اساتذہ کرام سے بھر پور فائدہ اُٹھایا فقہ و اصول فقہ حدیث و اصول حدیث تفسیر و اصول تفسیر میں پیر محمد یعقوب قریشی جہلی اور شیخ مولانا محمد یعقوب ملہوی سے کسب فیض کیا۔درس نظامی کے 6سالہ دور میں ہی ادیب عربی ،فاضل عربی اور عالم عربی کے امتحان لاہور بورڈ سے پاس کئے۔جامعہ تعلیم الاسلام سے فارغ ہونے کے بعد مزید تعلیم کے لئے موضع گمانی بہاولپور نزد دین پور گئے اس کے بعد دنیاوی تعلیم ایف اے،بی اے اور ایم اے کی طرف متوجہ ہوئے۔

دینی تعلیم کا آغاز صرف مدرسہ تعلیم الاسلام اوڈانوالہ ماموں کانجن سے کیا:

الشیخ محمد ظفر اللہ نے اپنی تعلیم کا آغاز مدرسہ تعلیم الاسلام اوڈانوالہ سے ہی کیا ہے جیسے ہم نے بقول بھائی چودھری ہدایت اللہ جو ماشاء اللہ زندہ اور حیات ہیں اور ان کے ساتھی مولانا عبد اللہ مشتاق مدرس جامعہ تعلیم الاسلام ماموں کانجن کے بیان کے مطابق جو آغاز سے لے کر فراغت تک ساتھ رہے ۔جو 12صفحات پر مشتمل ہے اُس کا خلاصہ الشخ محمد ظفر اللہ مدرسہ تعلیم الاسلام اوڈانوالہ تعلیم کے لئے محنت کے عنوان تحریر کیا آئندہ سطور میں آپ ملاحظہ فرمائیں گے۔تاریخ کو درستگی کے لئے لکھا جس طرح بعض حضرات نے تحریر کیا کہ آپ نے تعلیم کا آغاز بہاول پور وغیرہ سے کیا ہے واقعہ کے لحاظ سے غلط ہے الشیخ نے اپنی تعلیم کا آغاز ماموں کانجن سے کیا اور ابتدائی دینی تعلیم کا آغاز مولانا عبد الرشید راشدہزاروی زید مجدہ سے کیا ہےاور آخری کلاس حضرت مولانا شیخ الحدیث مولانا محمد یعقوب ملہوی سے پڑھی سند الفراغ حاصل کیا ہے۔

میری الشیخ ظفرا للہ ؒسے پہلی ملاقات:

ستمبر1965؁ء یا اکتوبر کی بابت ہے کہ میں اپنی کلاس جامعہ تعلیم الاسلام ماموں کانجن میں اپنے ساتھیوں کے ساتھ سبق پڑھ رہا تھا ہمارے استاد محترم مولانا عبد اللہ مشتاق ایک نوجوان عالم دین ،میانہ قد ،سرخی مائل، گندمی رنگ شلوار قمیص میں ملبوس ،سر پر قراقلی ٹوپی ،لمبی داڑھی کلاس میں داخل ہوئے اور بڑے پیارے انداز میں السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ کہااور استاد محترم کے ساتھ بیٹھ گیا آنے والے عالم مہمان نے باری باری تمام طلبہ سے تعارف کیا آخرمیں انہوں نے استاد محترم سے سوال کیا ۔کیا آپ کے شاگردوں میں ہمارے مشن کا کوئی آدمی ہے تو مولانا عبد اللہ مشتاق نے میری طرف اشارہ کیا تو آنے والے عالم مہمان نے مجھے اپنے پاس بلایا اور پوچھا آپ کس جگہ کے رہنے والے ہیں تو میں نے جواباً عرض کیا کہ میںچک نمبر ایف41 دولوبنگلہ اڈا اقبال نگر کا رہائشی ہوں تو مہمان نے دوسرا سوال کیا کیا اڈا اقبال نگر کے اور بھی طلبہ ہیں تومیں نے کہا میری کلاس میں تین اور طلبہ اڈا اقبا ل نگر کے ہیںان میں ہمارے ایک ساتھی حبیب اللہ بن صوفی محمد ہیں صوفی محمد ایک معروف و مشہور بزرگ آدمی تھےان تینوں ساتھیوں کو دوبارہ بلایا اور کہا میں بھی چک نمبر7کے14/2میں کافی دیر رہا اور وہی میں نے پرائمری پاس کی ہے اور اس کے بعد 720گ ب پیر محل میں چلے گئے پھر وہاں سے نقل مکانی کرکے صوبہ سندھ قاضی احمد ضلع نواب شاہ میں رہائش پذیر ہیں ۔ یہ بزرگ عالم دین کون تھے؟یہ محمد ظفر اللہ بن چودھری عطاء اللہ جو بعد میں پروفیسر ظفر اللہ صدر شعبہ اسلامیات کراچی بانی و مدیر جامعہ ابی بکر الاسلامیہ نائب امیر جماعت مجاہدین پاکستان رکن رابطہ عالم الجامعات الاسلامیہ براعظم ایشیاء کے نام سے معروف ہوئے۔میں نے یہ دیکھا ہمارے استاد محترم عبد اللہ مشتاق اور مولانا رضی اللہ ،مولانا عبد الوہاب بلتستانی ،مولانا اسرائیل معاذ(المعروف طیب معاذ)،قاری محمد ایوبؒ،مولانا عبد اللطیف شجاع آبادی، مولانا عبد الرب خادم خاص صوفی عبد للہ جامعہ کے نوجوان اساتذہ کرام ،محنتی طلبہ اس نوجوان عالم کے لئے فرش راہ ہیں ۔ ناظم جامعہ تعلیم الاسلام مولانا عبد القادر رندوی امیر المجاہدین صوفی عبد اللہ بانی جامعہ تعلیم الاسلام اور بزرگ شیوخ بڑی محبت و شفقت اس نوجوان عالم پر فرمار ہے ہیں میں نے استاد محترم سے سوال کیا کہ تمام طبقات جامعہ میں ان کی بڑی قدرومنزلت کی نگاہ سے دیکھا جا رہا ہے تو انہوں نے یہ فرمایا کہ یہ ہمارے قائد ہیں۔ مولانا پروفیسر محمد ظفر اللہ مدرسہ عباسیہ اسلامیہ بہاولپور زیر تعلیم تھے جو بعد میں جامعہ الاسلامیہ بہاولپور کے نام سے موسوم ہوئے اس کے بعد میں بھی ان کے خادموں  میں شامل ہو گیا۔

تعمیر جامعہ تعلیم الاسلام ماموں کانجن:

ہمارے استاد محترم نے ایک خاص واقعہ بیان فرمایاکہ جس زمانے میں ماموں کانجن کی عمارت زیر تعمیر تھی اس زمانے میں ہمارے محترم پروفیسر ظفر اللہ مرحوم وہاں زیر تعلیم تھےاور اس عمارت کی تعمیر میں وہ بھی حصہ لیتے تھے ،گارا سر پر اُٹھاتے،اینٹیں ڈھوتے اس کی تعمیر کے بعد صبح کے ٹائم اور رات کو باقاعدگی کے ساتھ تعلیم بھی حاصل کرتے۔دارالعلوم کی تعمیر کے زمانے میں صوفی عبد اللہ ماموں کانجن میں ہی رہتے تھے۔دارالعلوم کی تعمیر میں الشیخ ظفر اللہ جس لگن اور محنت سے کام کرتےتھے یہ کام صوفی صاحب کی نگاہ میں تھا اس نوجوان کا شوق اورنگ ودد سے بہت متاثر تھے اور ان پر نگاہ شفقت رکھتےتھے۔

یہاں یہ بھی یاد رہے صوفی صاحب مستجاب الدعوات بزرگ بھی تھے ۔بارگاہ الٰہی سے ان کی دعا کو شرف قبولیت بخشا جاتا تھا ایسے بہت سے واقعات اس نواح میں زبان زد عوام ہیں کہ صوفی عبد اللہ نے اللہ کے حضور ہاتھ اُٹھا کر دعا مانگی اللہ نے قبول فرمائی ۔دارالعلوم کے لئے ظفر اللہ کی والہانہ جدو جہد دیکھ کر ایک دن صوفی عبد اللہ نے فرمایا :ظفر اللہ کیا میں تمہارے لئے ایسی دعا نہ کروں کہ اللہ تعالیٰ دست غیب سے تیری ضروریات سے تجھے عطا فرماتا رہے۔صوفی صاحب کا فرمان سن کر ظفر اللہ صاحب نے عرض کیا حضرت اس دعا کے بجائے میرے لئے ایسی دعا فرمائیں کہ اللہ مجھے دین کی خدمت کا کوئی بڑا موقعہ عطا فرمائے ۔چنانچہ صوفی صاحب نے عجز و عاجزی کے ساتھ اللہ سے دعا کی اور اللہ نے دعا اس طرح قبول فرمائی کہ انہوں نے ماموں کانجن کے دینی علوم سے فراغت کے بعد دنیاوی تعلیم کی طرف متوجہ ہوئے اور کراچی یونیورسٹی سے ایم اے اسلامیات کا امتحان امتیازی پوزیشن سے پاس کیا اور اسی یونیورسٹی میں لیکچرار مقرر کر دیئے گئےیہاں تک کہ اسی یونیورسٹی کے صدر شعبہ اسلامیات مقررہو گئے۔

اسی اثنا میں جامعہ امام محمد بن سعود یونیورسٹی میں جا کر وہاں کے نصاب کی تکمیل کی پھر کراچی آکر ایک وسیع قطعہ زمین خریدا جس میں جامعہ ابو بکر الاسلامیہ قائم کیا اس یونیورسٹی میں اب مختلف اسلامی اور یورپی ملکوں کے ستر سے زیادہ اساتذہ تعلیم دینے پر متعین ہیں اور اچھی خاصی تعداد میں طلبہ تعلیم حاصل کر رہے ہیں، ہزاروں کتابوں پر مشتمل کتب خانہ ہے چودھری ظفر اللہ وفات پا چکے ہیں لیکن ان کی قائم کردہ یونیورسٹی میں نہایت اچھے طریقے سے سلسلہ تعلیم جاری ہے جو اس کے بانی کے لئے صدقہ جاریہ ہے۔

چودھری ظفر اللہ یا ان سے تعلق رکھنے والے کسی شخص کو خیال بھی نہیں آسکتا تھا کہ اللہ تعالیٰ انہیں اتنا بڑا کام کرنے کا موقع عطا فرمائے گا۔

یہ اللہ تعالیٰ کی رحمت فعل و کرم اور نیک لوگوں کی دعاؤں کا نتیجہ ہے خاص کر صوفی محمد عبد اللہ ؒ کی خصوصی دعا کا ثمرہ ہے جامعہ ابی بکر سے تقریبا2155تشنگان علم فیض یاب ہو چکے ہیں۔

اس واقعہ سے چند باتیں نکلتیں ہیں:

(1) پروفیسر ظفر اللہ کو طلبہ میں امتیازی حیثیت حاصل تھی اور اساتذہ کرام اور جامعہ کی انتظامیہ ان کی خداد صلاحیتوں کی وجہ سے بہت متاثر اور قدر کی نگاہ سے دیکھتے تھے۔

(2)صوفی صاحب رحمہ اللہ کی نگاہ میں مستقبل میں ایک خاص مقام ملنے والا تھا اور اس کی صلاحیت دین کے لئے محنت اور کوشش ا ور باگ دوڑ سے بہت متاثر تھے اور اس لئے ان پر نگاہ شفقت رکھتے تھے اور خصوصی محبت رکھتے تھے اسی لئے ان کو اپنی دعا کے لئے خود منتخب فرمایا۔

جامعہ تعلیم الاسلام میں آمد و رفت:

پروفیسر محمد ظفر اللہ کو صوفی عبد اللہ سے والہانہ عقیدت اور محبت تھی اسی لئے وہ جامعہ تعلیم الاسلام میں صوفی صاحب کی زیارت کی غرض سے اکثر تشریف لاتے رہتے تھے اور صوفی صاحب کے مشن کو آگے بڑھانے کے لئے صوفی صاحب رحمہ اللہ سے اکثر ہدایات لینے آتے تھے اور جامعہ تعلیم الاسلام میں طالب علمی کے زمانہ میں اکثر میری ملاقات رہتی تھی۔

32سالہ تعلق :

1965؁ سے استاد محترم عبد اللہ مشتاق کی وجہ سے جو تعلق قائم ہوا وہ 3 جون 1997؁ ء تک خوب سے خوب تر ہوتا گیاجو کہ 32 سال پر محیط ہے۔ 1969؁ء کو جب میں جامعہ تعلیم الاسلام سے سند فراغ اور فاضل عربی سرگودھا بورڈ سے بیک وقت حاصل کیا تو فاضل عربی کی بنیاد پر اوٹی ٹیچر کے حصول کے لئے لاہور گیا لیکن مجھے دارالحدیث چنیاں والی مسجد میں تدریس کی جگہ مل گئ اورخطبہ جمعہ المبارک گڑھی شاہو دینا شروع کیا لیکن الشیخ ظفر اللہ مجھے کراچی آنے کی دعوت دیتے رہتے تھے۔

کراچی میں آمد:

1970؁ءکا سال گزرنے کے بعد میں الشیخ ظفر اللہ کی دعوت پر کراچی پہنچ گیا میرے لئے الشیخ ظفر اللہ نے مختلف جگہ پر کوشش کی لیکن مسئلہ حل نہ ہوا آخر کار مجھے پنجاب آنا پڑا اور پنجاب واپس آتے ہی جامعہ العلوم ملتان میں تدریس کی جگہ مل گئی۔جامعہ العلوم جماعت اسلامی کا مدرسہ ہے کچھ وقت اچھا گزرا بہت تھوڑے عرصے کے بعد علیحدہ ہونا پڑا ۔جماعت اسلامی کا ایک مزاج خاص ہے وہ تقلید شخصی کے سخت مخالف ہیں اور تقلید جامد کوثابت کرتے تھے۔لیکن مولانا مودودی رحمہ اللہ کے وہ پورے مقلد ہیں اسی وجہ سے مجھے جامعہ سے علیحدہ ہونا پڑا۔1974؁ء سے 1975؁ء تک جامعہ مسجد اہلحدیث برکت پورہ فیصل آباد میں بطور خطیب کام کرنا پڑا اسی دوران مجھے الشیخ ظفر اللہ کا مکتوب گرامی ملا جس میں جامعہ ابی بکر کے حصول کے لئے اور بنیاد کی طرف اشارہ کیا ہے اورساتھ ہی فرمایا منصوبے کے متعلق بعد میں تحریر کروں گااور مسلسل مجھ سے تعلق برقرار رکھا1975؁ء کو دارالحدیث رحمانیہ چونگی نمبر14ملتان کی انتظامیہ نے بطور مدرس ملتان آنے کی دعوت دی ناظم جامعہ تعلیم الاسلام ماموں کانجن قاضی اسلم سیف کے حکم اور مولانا بشیر احمد انصاری اور مولانا اسحق سندھو آف ملتان کی خصوصی محبت اور شفقت سے میں دارالحدیث رحمانیہ ملتان حاضر ہو گیا۔اور تین سال تک بطور مدرس و خطیب تعلیمی امور اور داخلی انتظامات کی نگہداشت میں مہتم دارالحدیث رحمانیہ ملتان کا شریک کار رہا 15دسمبر 1977؁ء الشیخ ظفر اللہ صاحب کا پیغام آیا اور کراچی پہنچنے کا حکم دیا میں نے جواباً خط تحریر کیا جس میں اپنے گھریلو مسائل کی وجہ سے معذرت کی تو جواباً الشیخ صاحب رحمہ اللہ نے کراچی کی دعوت دی اور ان کے حکم کے مطابق 15جنوری 1978؁ء کراچی پہنچ گیا الشیخ ظفر اللہ کی زیر نگرانی جامعہ ابی بکر الاسلامیہ ابتدائی مراحل تعمیر و تاسیس میں شامل ہوگیا اور الشیخ ظفر اللہ کے حکم سے شعبہ دعوت و تبلیغ کی ذمہ داری سنبھالی جب میں جامعہ میں پہنچا تو مجھ سے پہلے حضرت مولانا رضی اللہ بطور نائب مدیر تشریف لا چکے تھے ،ڈاکٹر قاضی عبد اللہ ،پروفیسر عبد اللہ سرور ،مولانا عبد الحفیظ بھٹوی بھی تشریف فرما تھے ۔میرے ذمہ کراچی کی مختلف مساجد میں دروس قرآن دینا اور جامعہ کا تعارف پیش کرنا تھا ۔میرے علاوہ اس پروگرام میں جو احباب حصہ لیتے تھے وہ مستقبل کے قوم و ملت کے لئے عظیم آدمی ثابت ہوئے جبکہ اس وقت یہ نوجوان اور جامعہ کراچی کے منتہی طلبہ تھے ۔میرے علاوہ یہ تمام ساتھی جامعہ کی فی سبیل اللہ خدمت کرنے والے تھے ان افرا د کے علاوہ مولانا محمود عباس مدیر جامعہ مدینہ پتوکی اور مولانا عبد الرحمٰن ذھبی مربی استاد مرکز الدعوۃ الاسلامیہ بھی کبھی کبھی پروگرام میں شامل ہوتے تھے۔

1978؁ء تا 1980؁ء تک میں یہ شعبہ دعوت و تبلیغ کی خدمات سر انجام دیتا رہا ۔15دسمبر 1980؁ء کو اللہ کی رحمت سے حج و عمرہ کی سعادت نصیب ہوئی اور چند ماہ مکہ مکرمہ اور مدینہ منورہ میں قیام کا موقع نصیب ہوا۔ خیال تھا کہ جامعہ ام القریٰ یا جامعہ اسلامیہ مدینہ منورہ میں داخلے کی کوشش کی جائے جس میں الشیخ ظفر اللہ اور حبیب اللہ سندھی دونوں بزرگ پیش پیش تھے لیکن والدہ محترمہ مرحومہ کی طبیعت خراب ہوگئی جس کی وجہ سے مجھے واپس ساہیوال پنجاب آنا پڑا۔

(نوٹ)جب میں جامعہ میں حاضر ہوا تو اس وقت جامعہ کی چاردیواری اورایک کمرہ تعمیر ہو چکا تھا اور الشیخ نے بطور نائب مدیر اپنا کام سنبھالا ہوا تھا۔ مولانا رضی اللہ کے نان و نفقہ کے لئے الشیخ ظفر اللہ اپنے پاس سے خرچ کرتے تھے اور میں جامعہ کا پہلا آدمی بطور مدرس و مبلغ مقرر ہوا۔

میرے نام الشیخ کے خطوط اور ان کا جائزہ:

کسی شخصیت کو سمجھنے کے لئے ان کے افکار و خیالات اس کے مواعظ اور اسکی ذاتی تحریریں اور اسکے خطوط جو اپنے وقت کے اکابرین اور اپنوں سے چھوٹے لوگوں اور ہم پلہ لوگوں کے لکھے ہوتے ہیں وہ اس کی شخصیت کو نمایاں کرتے ہیں چنانچہ درج ذیل میں الشیخ کے چند مکاتیب ہیں جو جامعہ ابی بکر الاسلامیہ میں میرے آنے سے پہلے لکھے ہوئے ہیں اور ایک دو غالبا بعد کے ہیں۔

مکتوب اول:

16اپریل 1974؁ء جو شعبہ معارف الاسلامیہ کےلیٹر پیڈ پر تحریر ہے ۔خط کی تحریر کچھ اس طرح ہے کہ عزیزبرادر منیر احمد السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ خیریت مطلوب از جانبین المرام آنکہ آپ کا ارسال کردہ 250روپے موصول ہوگئے ہیں جزاک اللہ ۔آپ نے تاخیر کا افسوس کیا ہے کوئی بات نہیں مجبوریوں میں ایسا ہو جاتا ہے مجھے خود افسوس ہوا ہے کہ کچھ لوگوں کے پیسے دینے ہیں پچھلے دیئے نہیں جاتے مزید بوجھ چڑھ جاتا ہے۔ وضع داری اور تعلقات اس قسم کے ہیںکہ ہا تھ کو روکا بھی نہیں جاتا خیریہ تو میں نے برسبیل تذکرہ ذکر کیا ہے دعا فرمائیں کہ اللہ تعالیٰ کو ئی سبیل پید افرمادے اچھی جگہوں پر خوب خرچ کر سکوں ۔وَذَالِکَ عَلٰی اللہ بَعَزِیْزَ ایک پروگرام ترتیب دے رہا ہوں جو ابتدائی مراحل بھی طے کئے ہیں لیکن کراچی سے باہر کسی بھی دوست کوابھی تک خبر نہیں دی آپ سے بھی بعد میں عرض کروں گا۔البتہ دعا فرمائیں کام نیک ہے،بڑا ہے اللہ تعالیٰ کامیابی عطا فرمائے اور اللہ تعالیٰ آپ کو نیک مقاصد میں کامیاب فرمائے آمین۔کتاب کا ترجمہ مولانا عطاء اللہ صاحب ،سید صاحب او ر دوسرے بزرگوں کو دکھا دیں تاکہ ان کے مشوروں کی روشنی میں کام کا معیار بلند ہو سکے۔ کار لائق سے یاد فرمائیں

والسلام آپ کا العبد الفقیر محمد ظفر اللہ

اس خط سے جو بات مترشح ہوتی ہے وہ یہ ہے

(1)1974؁ء میں الشخ ظفر اللہ نے جگہ کےحصول کے لئے تگ و دو شروع کر دی تھی اگر چہ واضح طور پر نہیں لکھا لیکن اشارہ جامعہ ابی بکر کی جگہ کے حصول کی طرف ہے۔

(2)جس کتاب کے ترجمہ کے متعلق ذکر کیا ہے وہ کتاب تطہیر الاعتقاد عن ادران الالحاد ہے۔

(3)الشیخ کا موقف ومشرب بزرگوں کے ساتھ مسلسل رابطہ اور تعلق ہے وہ کس طرح اس خط میں مجھے ترجمہ دکھانے کی ترغیب دے رہے ہیں۔

(4)اس سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ سید ابو بکر غزنوی رحمہ اللہ اور مولانا عطاء اللہ محشی سنن النسائی سے کس طرح کے تعلق اور روابط تھے اور کام کو اعلیٰ سے اعلیٰ معیار پر کرنے کے داعی اور مدعی تھے۔

مکتوب دوم:

الشیخ کا مکتوب نقل کرنے سے پہلے پس منظر مختصر طور پر بیان کرتا ہوں۔جس طرح میں نے گزشتہ 6اپریل 1975؁ء کے خط میں ذکر کیا ہے کہ الشیخ نے جامعہ ابی بکر کی جگہ کے حصول کے لئے تگ و دو شروع کر دی تھی ۔1977؁ء کے آخر میں وہ کامیاب ہو گئے تھے جگہ کے حصول کے بعدانہوں نے چار دیواری اور مختصر عارضی طور پر ایک کمرہ کھڑا کیا تھا اور اور اس کے بعد مجھے کراچی آنے کی دعوت دی ۔میں نےجواباً معذرت کی تو مجھے مکتوب لکھا جو 1978؁ 15/1 کا تحریر شدہ ہے جو الشیخ محمد ظفر اللہ کے ذاتی پیڈ پر ہے جس کے اندر وہ تحریر فرماتے ہیں بخدمت برادرم منیر احمد صاحب السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ المرام آنکہ جناب کے مزاج بخیر ہونگے آپ کے دونوں گرامی نامےموصول ہوئے شکریہ آپ نے حضرت الامیر صاحب کی بیعت کا ذکر فرما کر میری منشاء کی تائید اور خوشی میں پیدا فرمایا ویسے افسوس ہے کہ آپ حضرات مرشدوں کے سایہ میں فیض حاصل کرنے کے باوجود تاخیر سے کام لیتے ہیں سندھ میں تبلیغ کا عزم ہے دعا فرمائیں کہ خدا وند کریم اس مقصد میں کامیاب فرمائے لیکن سر دست یہی منظور ہو گاکوئی کام باوفا احباب کے بغیر نہیں کیا جا سکتا ۔تحریک ڈسپلن اور نظم ونسق کے بغیر نہیں چل سکتی اوراس چیز کی ہماری جماعت میں کمی ہے میں آپ کو اس سلسلے میں بہتر خیال کرتا تھا آپ کو اپنی بات کو تسلیم کرنے کی سکت پاتا تھا اس لئے آپ کو یہ کھٹن کام انجام دینے کی تکلیف دے رہا تھادعا فرمائیں اللہ تعالیٰ ہماری مدد فرمائیں۔ایک ہفتہ ہوا مولانا رضی اللہ تشریف لے آئے ہیں اور ادارہ کی چار دیواری اور ایک کمرہ بفضلہ تعالیٰ تعمیر ہو گیا ہے پانی اور بجلی کا بھی انتظام ہو گیا ہے ۔چلیں دعا فرمائیں کہ اس کی توفیق سے اس سال جامعہ کی تعمیر کا ضروری حصہ مکمل ہو جائے ان شاء اللہ آئندہ سال کے شروع میں لازمی طور پر تبلیغ کا کام شروع ہو جاے گا اور 80   ؁ء کے شروع میں تصنیف و تالیف کا شعبہ اپنے فرائض انجام دینے لگے گا۔ ان شاء اللہ 81   ؁ء میں تعلیمی شعبہ لازمی طور پر اپنا کام شروع کر دے گا یہ بھی ممکن ہے کہ ہر شعبہ مذکورہ میعاد سے پہلے کام شروع کر دے ۔وَمَاذَالِکَ عَلی اللہ بعزیز کار لائقہ سے یاد فرمائیں ،دعاؤں میں یاد رکھ کر شکریہ کا موقعہ دیں ۔مولانا رضی اللہ صاحب اور عبد اللہ سرور صاحب کی طرف سے سلام قبول ہو۔

والسلام آپ کا بھائی محمد ظفر اللہ۔

اب مکتوب نمبر2کا جائزہ لیتے ہیں تو الشیخ صاحب کے خط سے درج ذیل باتیں نکلتی ہیں دینی کام انبیاء علیہم السلام کی میراث اور بڑے جگر گردے کی بات ہے۔

فَاصْبِرْ كَمَا صَبَرَ أُولُو الْعَزْمِ مِنَ الرُّسُلِ کا مبلغ کو پیکر ہونا چاہئے ۔تبلیغ کا یہ کھٹن کام تحریک ،تنظیم اور ڈسپلن نظم و نسق کا پابند ہے اس کے بغیر یہ کام ترقی نہیں کر سکتا دوسرے لفظوں میں اپنے بڑے کی،اپنے امیر کی اطاعت ضروری ہے۔ کوئی دینی کام ہو یا دنیاوی باوفا احباب کے بغیر کامیابی ناممکن ہے۔ اللہ تعالیٰ کی ذات گرامی پر اعتماد کامل اور توکل اور یقین کی دولت سے مالا مال ہونا ضروری ہے۔ دینی کام کرنے والا مبلغ مدرس اور مربی اپنے مقصد کو سامنے رکھ کر اس مقصد کے لئے عزم بالجزم سے کوشش کرتا ہے اللہ تعالیٰ کامیابی سے ہمکنار فرما دیتے ہیں کس طرح کامل یقین کے ساتھ تحریر فرما رہے ہیں ایک فکر اور سوچ کو حقیقت میں بدل ڈالا ہر شعبے کے متعلق کس طرح یقین و ایمان کے ساتھ تحریر کر رہے ہیں کہ اپنی معیاد میں شروع ہو جائیں گے اور اپنے وقت سے پہلے شروع ہو جائیں گے ۔شعبہ تبلیغ کے متعلق انہوں نے تحریر کیا ہے کہ آئندہ سال گویا کہ 1979؁ء میں اپنا کام شروع کرے گا لیکن اس کے برعکس 1978؁ء کے اندر اس نے اپنا کام شروع کر دیا شعبہ تعلیم کے متعلق یہ تحریر فرمایا کہ 1980؁ء میںیہ اپنا کام شروع کر دے گا چنانچہ شعبہ تعلیم نے 1980؁ء سے اپنے کام کا آغاز کر دیا الحمد للہ علی ذالک۔ اس طرح دیگر شعبہ جات نے اپنے مقررہ وقت سے پہلے کام شروع کر دیا۔کرہ ارضی پر اس کی روشنی کس طرح پھیلی چالیس پچاس ممالک میں جامعہ ابی بکر الاسلامیہ کے فارغ التحصیل علماء پھیل گئے جو اپنے اپنے ملک میں حالات کے مطابق کام کر رہے ہیں۔

ذَلِكَ فَضْلُ اللَّهِ يُؤْتِيهِ مَنْ يَشَاءُ وَاللَّهُ ذُو الْفَضْلِ الْعَظِيمِ ۔

دو سال کے قلیل عرصہ میں اتنی بڑی بلڈنگ جامعہ ابی بکر تیار ہو گئی لائبریری ،اساتذہ کی تنخواہیں، طلباء کے نان و نفقہ اور وظائف کے اخراجات جو لاکھوں تخمینے میں ہے اللہ تعالیٰ نے پورے فرما دیئے۔

مکتوب سوم:

بسم اللہ الرحمن الرحیم

بخدمت گرامی قدر بھائی صاحب حفظک اللہ ۔آمین

السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ

وبعد خیریت مطلوب از جانبین المرام آنکہ آپ کا نوازش نامہ موصول ہوا آپ نے جس کلاس کا آغاز کیاہے۔ (1) اس کے شرکاء کی تعداد کتنی ہےاور ہر ایک فرد کیا کرتا ہے کیا وہ مستقل طور پر آپ سے استفادہ کرتے رہیں گے۔(2) کس جگہ کلاس کا انتظام ہے اس کے بارے میں بھی تحریر فرمائیں۔(3)کیا آپ نے مستقل ساہیوال رہنے کا فیصلہ کر لیا ہے ؟اور پیشہ کے طور پر دعوت و تبلیغ کی مسئولیت مستقل طور پر سر انجام دیں گے۔؟اور تبلیغی سینٹر ساہیوال ہو گا۔(4)اس کے لئے استخارہ کیا ہے اگر نہیں کیا تو کرلیں۔(5)ایک لاکھ کا فنڈ ابتدائی طور پر مقرر کیا ہے اس کی ضرورت اور مصرف کیا ہو گا۔جامعہ ابی بکر کو کتنے پیش کرنے ہونگے۔

(6)اسٹیشن کے قریب والی جگہ کے بارے اب تک آپ نے کیا کیا ہے اور کس حد تک کامیابی کے امکانات ہیں۔(7)ایک جگہ اور بتائی تھی غالباً وہ پروفیسر عبد الحمید کی جگہ ہے یا کوئی اور نام ہے وہ کراچی ماڈل کالونی میں مستری صاحب نے ذکر کی تھی اس جگہ والوں سے بھی بات چیت ہوئی ہے یا نہیں۔ان سے بھی بات چیت کر کے دیکھیں اگر ساہیوال ہی کام کرنے کا طے کیا ہے تو ان کو میرا سلام کہیں اور میری طرف سے بات چیت کریں کہ جامعہ ابی بکر الاسلامیہ یہاں تبلیغی اور تعلیمی کام کرنا چاہتی ہے اگر آپ جگہ کا تعاون کریں تو ہم منصوبہ ترتیب دیں آپ نے اپنے خط میں فرمایا تھا کہ مولانا خالد صاحب اور حضرت الامیر صاحب سے مشورہ کرنے کے لئے جانے والا ہوں اگر گئے ہو تو اس کے بارے میں تحریر فرمائیں ویسے میرے انداز ے کے مطابق انہوں نے رضا مندی کا اظہار کر دیا ہوگا اور امیر صاحب نے ممکن ہے مجھ سے مشورہ کرنے کے لئے کہا ہو۔

(نوٹ:حضرت الامیر سے مراد مولانا سلیمان وزیر آبادی ہیں۔)

(8)پنجاب میں فرض کفایہ کے طور پر تبلیغ اور تعلیم کا کام ہو رہا ہے لیکن سندھ سرحد اور بلوچستان میں فرض کفایہ کی حد تک بھی کام نہیں ہو رہا ہے اگر ہم سندھ میں ہی کام کو وسعت دیں حیدرآباد ،نواب شاہ ،بدین ،ٹنڈوغلام علی ، ٹھٹھہ،میر پور خاص میں سے اگر آپ کسی جگہ کو پسند کریں تو کیسا رہے گا ۔یہاں بڑی گنجائش ہے مواقع ہیں جماعتی اکھاڑ پچھاڑ نہیں۔

آپ کے اور ہمارے قریب ہونے سے رابطہ میں آسانی ہو گی وغیرہ اپنے اہل خانہ کو سلام عرض کریں ۔(9)اگر ساہیوال میں دعوت کا کام ہی کرنا ہے تو کمیٹی کا نام ’’مجلس تبلیغ الاسلام‘‘ بہتر ہے اس سال آپ کے داخلہ کی کوشش کروں یا رہنے دوں؟خط کے جواب پر باقی عرض کروں گا ۔

والسلام آپ کا بھائی محمد ظفر اللہ

مکتوب نمبر 3 کا اہم جائزہ لیتے ہیں:1984؁ء کی بات ہے کہ میں الشیخ صاحب کو ملنے کراچی گیا تو انہوں نے مجھ سے فرمایا کہ آپ کو لازمی طور پر دین کا کام کرنا چاہئے میں نے عرض کی ساہیوال میں میرے پاس جگہ بھی نہیں اور وسائل بھی نہیں میں کام کیسے کروں مجھے بار بار فرماتے تھے کہ آپ کام کریں ۔میں نے عرض کیا کہ حضرت میں ساہیوال کو چھوڑ نہیں سکتا اگر آپ وسائل فراہم کریں تو میں کام کرونگا ۔شام کو دوبارہ جامعہ سے واپس آئے تو فرمایا کیا سوچا ہے ؟میں نے کہا حضرت آپ وسائل دیں اور میں ان شاء اللہ کام کرونگا ۔صبح کو احباب کراچی اور خصوصاً حلقہ ماڈل کالونی سے مبلغ 7381 روپے اکٹھے کر کے کہا جاؤ اور جا کر دینی کام کرو میں واپس آگیا ساہیوال واپس آنے پر اور پریشان ہو گیا کیونکہ ذمہ داری بڑھ گئی تھی اور ساتھ ہی وقتی طور پر ایک پریشانی لاحق ہوئی جس مسجد میں بطور امام خطیب تھا جواب مل گیا میں نے الشیخ سے رابطہ کیا تو فرمایا میں ملتان آرہا ہوں مجھے ملتان میں ملنا میں وقت مقررہ پر ملتان گیا الشیخ تشریف نہ لائے میں واپس اسی سوچ و بچار میں تھا کہ پروفیسر صاحب کا خط ملا بعض مصروفیا ت کی وجہ سے ملتان حاضر نہیں ہو سکا۔معذرت خواہ ہوں میں ان شاء اللہ جلد ہی ساہیوال حاضر ہو کر ملاقات کروں گا ۔تمام احباب خیریت سے ہیں ۔

والسلام آپ کا بھائی ظفر اللہ

اسی طرح تقریباً ایک سال گزر گیا میںنے گورنمنٹ سکول میں بطور عربی ٹیچر کے تقرری کروا لی اور پروفیسر سے بار بار رابطہ کرتا اور عرض کرتا کہ اپنی رقم مجھ سے واپس لے لیں جامعہ ابی بکر کی مد میں خرچ کردیں یا کسی اور مد میں خرچ کر دیں لیکن وہ جواباً فرماتے کہ رقم ساہیوال کے لئے لی ہے اور آپ کام شروع کردیں ایک دن وہ میرے گھر تشریف لائے جو بہت ہی مختصر ہے اس میں چھوٹی سی بیٹھک ہے فرمایا اس میں کام شروع کریں اور مجھے لائحہ عمل دیا۔

ساہیوال میں مجلس تبلیغ الاسلام کی بنیاد:

(1)اسلامی لٹریچر کی نشر و اشاعت اور مفت تقسیم۔(2) دارالمطالعہ کا قیام۔(3)ترجمہ قرآن کی کلاس کا اجراء۔ (4) اسلامی علوم کی ترویج و اشاعت۔(5)اجتماع و مذاکرات۔

الشیخ صاحب واپس چلے گئے اور جاتے وقت فرمانے لگے اللہ برکت دے گا اب آپ کام شروع کر دیں تاخیر نہ کریں اس سلسلے میںمیری یہ آخری بات ہے میں نے انہیں الوداع کیا اور اگلے دن بازار سے الماری خریدی اور دوسرے دن لاہور گیا مکمل صحاح ستہ مترجم ،تفسیر ابن کثیر ،دیگر کچھ کتابیں خریدیں اور دارالمطالعہ کی بنیاد رکھ دی ساتھ ہی اپنی بیٹھک میں ترجمہ کلاس شروع کر دی جو تقریباً پندرہ طلبہ پر مشتمل تھی اسی دوران جامع مسجد مکہ نئی آبادی میں نماز عشاء کے بعد ترجمہ کی کلاس شروع کی یہ کلاس صبح و شام کافی دیر تک چلتی رہی اسی دوران مجھے سبزی منڈی میں بھی بعداز نماز عصر درس حدیث دینے کا اتفاق ہوا جو اہمیت و حقیقت نماز کے موضوع پر تھا حاجی شفیق احمد انصاری ،شفیق آئرن سٹور صدر بازار والےدرس حدیث میں موجود تھے درس کے بعد ملے اور کہا کہ دکان پر مجھے ضرور ملنا میں دکان پر گیا تو انصاری صاحب نے کہا آپ اپنے درس کو قلمبند کریں ان شاء اللہ اس کو چھاپ کر میں مفت تقسیم کروں گا۔میں نے کہا جناب جن کتب سے میں استفادہ کرتا ہوں وہ اردو میں ہیں ان کو چھاپ کر تقسیم کریں تو وہ کہنے لگے آپ اس کی قیمت لگائیں میں اس کو چھاپ دوں گا اور پھر میری طرف سے مفت تقسیم کریں چنانچہ اس وقت پہلے ایڈیشن پر گیارہ ہزار خرچ ہوئے تھے جو اسلامی تربیت کے چند بنیادی اصول کے نام سے مسلسل آٹھ ایڈیشن کی شکل میں شائع ہوئے جو لوگوں میں مفت تقسیم کئے گئے ۔لائبریری کی بنیاد الشیخ نے خود رکھ دی تھی اب مفت لٹریچر تقسیم کرنے کا بھی کام شروع ہو گیا الحمد للہ۔میری اس مختصر سی بیٹھک سے جو مجلس تبلیغ الاسلام کا دفتر ہے تقریباً 54 ہزار کتابیں شائع کر کے مفت تقسیم کی ہیں الحمد اللہ علی ذالک۔

جس کی تفصیل حسب ذیل ہے :

(1) اصلاح عقیدہ 16500   (2)اسلامی تربیت کے بنیادی اصول 8000 (3)نماز مسنون و دعائیں 2000 (4)تقویۃ الایمان 2000 (5)دعوت قرآن 4000 (6)سرکار انبیاء کا طریقہ نماز 2000(7)اہمیت نماز 9500(8)حقیقت نماز1000(8)سچ اور رزق حلال 1000(9)غسل مسنون ،وضو اور نماز جنازہ 2000

اب تک یہ کتابیں الحمد للہ مجلس تبلیغ الاسلام کی طرف سے مفت تقسیم کی گئی ہیں ۔ہم نے اپنے ادارے کا نام مجلس تبلیغ الاسلام الشیخ کی تجویز کے مطابق رکھا ہے اب آپ اس سے اندازہ لگا سکتے ہیں کہ الشیخ صاحب رحمہ اللہ بعض جگہ پر معمولی سی رقم سے بنیاد رکھی جوکہ شجرہ طیبہ کی شکل اختیار کر گیا اسی طرح الشیخ صاحب نے کتنے مدارس و مکاتب کی بنیاد رکھی ہو گئی کچھ لوگ اظہار کرتے ہیں اور کچھ اظہار کرنا پسند نہیں کرتے میں دیانتداری سے سمجھتا ہوں اگر الشیخ صاحب مجھے اس کام کے لئے آمادہ نہ کرتے تو اتنا بڑا کام میں خود نہ کر گزرتا ان کے اندر اللہ تعالیٰ نے ایک قائد اور رہبر کی صفات پیدا فرمائیں تھی بڑے سے بڑے مشکل معاملات میںبھی مایوسی اور گھبراہٹ ان کے قریب نہیں آتی تھی۔

بحیثیت قائد :

جامعہ ابی بکر کے حوالے سے چند ایک واقعات ذکر کرتا ہوں۔ جب جامعہ کی چار دیواری کھڑی ہو گئی عارضی کمرہ تعمیر ہو گیا اور عارضی بجلی و پانی کا بھی انتظام ہو گیا۔ اب اس کی بلڈنگ تیار کرنے کے لئے بہت بڑی رقم درکار تھی اس سلسلے میں الشیخ عبد اللہ ثانی کے ساتھ انہوں نے رابطہ کیا بات کافی طویل ہو گئی اچانک معاملہ رک گیا الشیخ ظفر اللہ نے اپنے ساتھیوں کو بلایا اور کہا دعا فرمائیں آج عبد اللہ ثانی سے آخری میٹنگ کرنی ہے اگر تعمیر کر دے تو بہتر ورنہ کل کو نیا راستہ اختیار کریں گے میں نے سوال کیا وہ کیا ہے جواباً کہا کہ ہم ایک ہینڈ بل تیار کریں گے جو کثیر تعداد میں ہو گا پہلے دن کراچی کی تاجربرادری میں تقسیم کریں گے اگر ہم نے ایک لاکھ افراد کو ہینڈ بل پہنچا دیا تو دس لاکھ ہو جائیں گے جو تعمیر جامعہ کے لئے ابتدائی مراحل میں کافی ہونگےلیکن اللہ تعالیٰ نے عبد اللہ ثانی متحدہ عرب امارات کے دل میں بات ڈال دی اور انہوں نے جامعہ ابی بکر الاسلامیہ کی موجودہ بلڈنگ تعمیر کروا دی ۔بلڈنگ تعمیر ہونے کے بعد عبد اللہ ثانی جامعہ کو دیکھنے اپنی ازواج و اولاد کے ہمراہ جامعہ میں آئے اور بلڈنگ دیکھنے کے بعد کہا ہم نے بلڈنگ مکمل کر دی اب آئندہ کا کیاپروگرام ہے تو الشیخ محمد ظفر اللہ نے فرنیچر و طلبہ کے نان و نفقہ اوروظائف کے اخرجات لائبریری اور فی کس طالب علم 500روپے وظیفے کا ذکر کیا تو جواباً عبد اللہ ثانی نے کہا یہ اخراجات تو شاہ فیصل ہی پورے کر سکتےہیں تو جواباً الشیخ نے فرمایا اللہ انتظام کرے گا۔ چنانچہ اسی مجلس میں جب وہ جامعہ کی لائبریری میں آیا کتابیں بغیر الماری کے پڑی ہوئی تھیں اس نے لائبریری میں کہا کہ ان کتابوں کے لئے جتنی بھی الماریاں درکار ہیں وہ منگوائی جائیں اس اس کا بل ادا کروں گا اور فی کس طالب علم 300روپے ماہانہ طعام کے لئے میری طرف سے وظیفہ ہو گا تھوڑی دیرکے بعد وہ اپنے گھر جانے لگا تو میں اور الشیخ صاحب شہر جانے کے لئے بس کے اسٹاپ پر کھڑے تھے اس نے دیکھا اور کہاآپ تشریف رکھیں اور تھوڑی دیرے کے بعد یہ گاڑی جامعہ کے لئے میری طرف سے ہدیہ قبول فرمائیں اور تھوڑی دیر کے بعد اس کا ڈرائیور آیا اور جامعہ کے لئے گاڑی دے کر چلا گیا حالانکہ الشیخ صاحب رحمہ اللہ نے گاڑی کے متعلق اشارۃً و کنایۃً بھی ذکر نہیں کیا تھا ۔

وَمَنْ يَتَّقِ اللَّهَ يَجْعَلْ لَهُ مَخْرَجًا

جامعہ کے لئے چندہ مہم:

اسی طرح انہوں نے جامعہ کے لئے چندہ جمع کرنے کی مہم چلائی ۔ریاض کے جامعہ محمد بن سعود میں بطور طالب علم داخل تھے ۔عربی ادیبات کی تکمیل کےلئے وہاں پڑھ رہے تھے ۔جامعہ ابی بکر کے نصاب اور طریقہ تدریس وغیرہ کے لئے انہوںنے ریاض کے ماہرین تعلیم اور سعودی عرب کے دیگر اساتذہ سے مشورے لئے جامعہ ابی بکر کو پاکستان کا مثالی جامعہ بنانے کا منصوبہ بنایا اسی دوران انہوں نے چندہ کرنے کی مہم چلائی ۔سعودی عرب کے شیوخ اور اصحاب ثروت نے فراخ دلی کے ساتھ اُن کے ساتھ تعاون کیا لوگوں سے میل جول تعلق اور روابط قائم کرنے اوررکھنے کے سلیقے سے خوب آگاہ تھے اور ان کے نزدیک تعلقات اور روابط دینی اور علمی خدمت کا بہت بڑا ذریعہ تھے اللہ کی رضا مندی اورخوشنودی کا سبب تھے جس میں وہ کامیاب و کامران ٹھہرے۔

خصوصیا ت جامعہ ابی بکر:

اس میں ذریعہ تعلیم عربی قرار دیا گیا جو بحمد اللہ کامیابی سے چل رہا ہے یہ کسی غیرعربی ملک کی پہلی غیر سرکاری جامعہ ہے جس میں ذریعہ تعلیم عربی ہے۔

اس کا نصاب تعلیم مدینہ منورہ کی جامعہ اسلامیہ اور ریاض کی جامعہ امام محمد بن سعود سے ہم آہنگ ہے اس کے اساتذہ کے تقرر کا معاملہ عام جامعات سے بالکل مختلف ہے ۔اساتذہ عالم اسلام کی مندرجہ ذیل سات مشہور جامعات سے لئے گئے ہیں۔

(1)جامعہ ام القریٰ مکہ مکرمہ سے۔

(2) جامعہ اسلامیہ مدینہ منورہ سے۔

(3)جامعہ امام محمد بن سعود ریاض سے۔

(4)جامعہ ازہر مصر سے۔

(5)جامعہ خرطوم سوڈان سے۔

(6)جامعہ بغداد عراق سے۔

(7)جامعہ ابو بکر الاسلامیہ کراچی کے فارغ التحصیل حضرات ۔

نصاب تعلیم کی اہمیت کے علاوہ اس جامعہ کا بنیادی مقصد عقیدہ سلف کی نشرو اشاعت اور اس کے مطابق قرآن و سنت کے احکام کو طلباء کے ذہنوں میں راسخ کرنا اور امت مسلمہ کو اتحاد و اتفاق کی سیدھی راہ پر لگانا ہے۔ جامعہ ابوبکر میں داخلے کا معیار بہت ہی بلند ہے اس میں  پاکستان کے طلبہ کی تعداد محدود ہے صرف انہی طلباء کو داخل کیا جاتا ہے جو اس کے معیار پر پورا اترتے ہیں ہر طالب علم کوداخلہ نہیں دیا جاتا۔

اس میں اسلامی اور غیر اسلامی ملکوں کے بہت سے طلباء تحصیل علم میں مشغول ہیں ۔اس کے فارغ التحصیل حضرات اس وقت تقریباً چالیس ملکوں میں وہاں کے حالات کے مطابق تدریسی اور تبلیغی خدمات انجام دے رہے ہیں۔ جامعہ ابی بکر الاسلامیہ کو اس بین الاقوامی اسلامی جامعات کی رکنیت کا اعزاز حاصل ہے جو رابطہ الجامعات الاسلامیہ کے نام سے موسوم ہے۔ جامعہ ابی بکر کے علاوہ پاکستان میں اس تنظیم کی رکن صرف گورئمنٹ انٹرنیشنل اسلامک یونیورسٹی اسلام آباد ہے مدینہ منورہ کی جامعہ اسلامیہ میں داخلے کے لئے جامعہ ابو بکر الاسلامیہ کے طلباء کو خاص طور سے ترجیح دی جاتی ہے۔

جامعہ ابو بکر اللہ کے فضل و کرم سے دیگر جامعات کی بنسبت بہت سی خصوصیات کی حامل ہے اس کے فارغ التحصیل حضرات کمبوڈیا ویت نام کینیڈا اور لبنان وغیرہ مختلف ممالک سے تعلق رکھتے ہیں اور وہاں اس کی شاخیں قائم کرنے اور اس کے نصاب تعلیم کے مطابق تدریس کا نظام جاری رکھنے کا اہتمام کرنے کی جد وجہد میں مصروف ہیں۔ امید رکھنی چاہئے کہ وہ ا س میں کامیاب ہو جائیں گے اور متعدد اسلامی اور غیر اسلامی ملکوں میں اس کے نصاب کے مطابق تعلیم کا سلسلہ جاری ہو جائے گا ان شاء اللہ تعالیٰ یقیناً یہ یونیورسٹی الشیخ ظفر اللہ کے لئے صدقہ جاریہ ہو گی جس کا اجر انہیں بارگاہ الٰہی میں ہمیشہ ملتا رہے گا۔

الشیخ محمد ظفر اللہ کی وفات پر خواب:

مؤرخہ 2یا 3جون کا واقعہ ہے کہ میں نے عشاء کی نماز مکہ مسجد اہل حدیث نئی آبادی ساہیوال میں جماعت کے ساتھ ادا کی اور نماز کے بعد درس حدیث دیا اور واپس گھر آکر سو گیا ۔صبح کی اذان سے قبل دیکھتا ہوں کہ میں الشیخ ظفر اللہ کے ساتھ ایک باغ میں ہوں اور باغ اپنی خوبصورتی وسبزشادابی میں اپنی مثال ہےاور دیکھتا ہوں کہ باغ میں ایک بڑا ٹیوب ویل ہے ۔الشیخ ظفر اللہ رحمہ اللہ اس ٹیوب ویل کو چلاتے ہیں ۔اس سے بہت زیادہ پانی نکل آتا ہے اور پانی بھی میٹھا اور شریں صاف ستھر ا ہے جو زمین کو خوب سیراب کر رہا ہے ۔الشیخ مجھ کو مخاطب ہو کر کہتے ہیں کہ میرا ٹیوب ویل کیسا ہے؟میں عرض کرتا ہوں آپ کا باغ ٹیوب ویل خوب ہے ۔

خواب کی تعبیر:

باغ سے مراد ایمان اور اسلام ہے ۔ٹیوب ویل سے مراد صدقہ جاریہ ہے جو جامعہ ابی بکر الاسلامیہ اور وہ ادارے، مدرسے ،مساجد ہیں جن کی بنیاد خود الشیخ ظفر اللہ رحمہ اللہ نے رکھی یا ان کے متعلقین نے ان کے مشورے اور معاونت سے رکھی یہ ان کا دینی روحانی فیض عام ہے جو دنیا کو سیراب کر رہا ہے ۔میرا گمان غالب ہے ان شاء اللہ العزیز اللہ تعالیٰ الشیخ محمد ظفر اللہ رحمہ اللہ کوجنت الفردوس میں اعلیٰ مقام نصیب فرمائے گا ۔

حدیث نمبر 366میں امام بخاری رحمہ اللہ نے ذکر کیا کہ خواب میں عبد اللہ بن سلام رحمہ اللہ نے اپنے آپ کو سرسبز باغ میں دیکھا تو آپ نے تعبیر دی کہ باغ سے مراد ایمان و اسلام ہے ۔اسی طرح عثمان بن مظعون رضی اللہ عنہ کو اُم العلاء انصاریہ رضی اللہ عنہا نے دیکھا ان کے لئے چشمہ پانی کا جاری ہے تو آپ نے فرمایا کہ یہ ان کا صدقہ جاریہ ہے۔

اوصاف حمیدہ:

الشیخ محمد ظفر اللہ کو اللہ تعالیٰ نے بہت سی خصوصیا ت سے نوازا تھا۔خلق خدا کے ہمدرد و خیرخواہ ،تعانوا علی البر والتقویٰ کی تفسیر ، علماء کے قدر دان ،طلبہ کے لئے سراپا شفقت ،غریبوں کے معاون،مستحقین کی معاونت لازمی خیال کرتے تھے ۔اگر کسی کو مسلک کی تبلیغ کرنا ہوتی تو حکمت اور دانائی سے کام لینا شیوہ تھا ۔تفریق سے متنفر تھے ۔اصلاح بین المسلمین شعار تھا ۔فروغ کتاب وسنت کا داعیہ اور جذبہ کار فرما تھا۔

اخلاق کا پیکر:

مؤرخ اسلام والمسلمین مولانا محمد اسحاق بھٹی نے کیا خوب تحریر کیا ۔الشیخ ظفر اللہ رحمہ اللہ کے متعلق تحریر فرماتے ہیں اگر کوئی ایسا آلہ ایجاد ہو جائے جس سے اُن نسیت کی تہہ تک ہماری نظر کی رسائی ہو سکے تو اس میں ان خلوص تقویٰ ،جذبہ اطاعت ،کتاب و سنت ،دین داری صالحیت اور صلاحیت کار اور اشاعت علم اور نشر دین کے علاوہ کوئی شے دکھائی نہیں دے گی۔

موت:

بعض افراد کی موت المناک ہوتی ہے جو بھلانے سے بھی نہیں بھولتیں ۔ماضی قریب میں علامہ احسان الٰہی ظہیر ؒرحمہ اللہ اور ان کے رفقاء کرام کی موت اس طرح الشیخ محمد ظفر اللہ کی موت جو گھر کے پانچ افراد پر مشتمل ہے۔جماعتِ قوم اور ملک کے لئے ایک بڑا سانحہ تھا ۔یہ حادثہ 3جون 1997 کو پیش آیا۔

إِنَّا لِلَّهِ وَإِنَّا إِلَيْهِ رَاجِعُونَ اللھم اغفر لھم واَرْحمھم واعف عنھم اکرم نزلھم

مولانا رضی اللہ نائب مدیر اول جامعہ ابی بکراسلامیہ کراچی

ولدیت: قادر بخش

ولادت: 1940؁ء بمطابق 1359ھ یا 1358ھ بڈھیمال ضلع فیروز پور (بھارت)

مولانا رضی اللہ حافظ احمد اللہ رحمہ اللہ، شیخ الحدیث جامعہ سلفیہ فیصل آباد کے چھوٹے بھائی ہیں ۔حافظ عبد العزیز رحمہ اللہ شیخ الحدیث مدرسہ ا لحدیث راولپنڈی اور حافظ محمد عبد اللہ بڈھیمالوی بھی آپ کے اعزّہ واقرباء میں سے ہیں۔

تعلیم:

مولانا رضی اللہ رحمہ اللہ پرائمری پاس کرنے کے بعد ابتدائی دینی کتب دارالقرآن والحدیث جناح کالونی فیصل آباد سے پڑھیں پھر کچھ عرصہ جامعہ سلفیہ فیصل آباد میں گزارا اور جامعہ تعلیم الاسلام ماموں کانجن سے سند الفراغ حاصل کی اس دوران آپ نے فاضل عربی کا امتحان بھی پاس کر لیا۔

اساتذہ کرام:

آپ نے امام العصر حضرت حافظ محمد گوندلویؒ شیخ الحدیث حضرت حافظ محمد عبد اللہ بڈھیمالوی حضرت حافظ احمد اللہ بڈھیمالوی اور مولانا یعقوب ملہوی کے سامنے زانوے تلمذ تہ کئے۔

تدریسی خدمات:1965؁ء سے 1977؁ تک آپ جامعہ تعلیم الاسلام ماموں کانجن فیصل آباد میں تدریسی خدمات سر انجام دیتے رہے۔

جامعہ ابی بکر الاسلامیہ کراچی:

1977؁ء کو الشیخ محمد ظفر اللہ کی دعوت پر کراچی جامعہ ابی بکر میں تشریف لے گئے جامعہ کے انتظام وانصرام میں نائب مدیر کے طور پر کام کرنے لگے ۔جامعہ کے ابتدائی مراحل میں کئی رکاوٹیں آئیں تو مولانا رضی اللہ نےاپنی خداداد صلاحیتوں سے حل فرمایا ۔تعمیر جامعہ سے پہلے قبوری لوگوں نے عدالت میں کیس درج کر دیا کہ یہ جگہ ہم کو ملنی چاہئے۔الشیخ ظفر اللہ اعلیٰ تعلیم کے لئے سعودی عرب گئے تھے شیخ صاحب نے ان سے رابطہ کیا اور جواب دعویٰ کے لئے غنی خان ایڈووکیٹ کو تیار کیا جو جامعہ کےقانونی مشیر تھے ۔رات کو مولانا رضی اللہ نے حسبنا اللہ ونعم الوکیل کا وظیفہ کیا اور سو گئے خواب میں دیکھتے ہیں کہ بڑے بڑے کالے سانپ دوڑ رہے ہیں مولانا فرماتے ہیں کہ ایک ڈنڈے سے میں نے تقریباً اکثر سانپوں کو ختم کر دیا باقی بھاگ گئے صبح پیشی تھی غنی ایڈووکیٹ چودھری عبد الرحمن ،مولانا رضی اللہ نائب مدیر جامعہ ابی بکر اور قاری عبد الرشید ایک دو اور ساتھی تھے دوسری جانب چوٹی کے نامور لوگ جو ایم پی اے اور ایم این اے موجود تھے ۔

عجیب واقعہ

واقعہ یہ پیش آیا کہ جب بڑے لوگ عدالت میں پیش ہوئے تو جج نے ان کو کرسیاں پیش کیں ۔ہمارے وکیل غنی خان نے عدالت شروع ہوتے ہی جج پر اعتراض کیا کہ جناب اس عدالت میں مجھے انصاف کی توقع نہیں ہین جس میں ایک فریق کے لئے کرسیاں پیش کیں گئیں اور دوسری طرف مدعا علیہ کو پوچھا نہیں گیا ۔جج منصف مزاج آدمی تھا ۔دوسرا کون ہے غنی خان ،مولانا رضی اللہ چودھری،عبد الرحمن اور قاری عبد الرشید کی طرف اشارہ کیا ۔فرمایا ان کے لئے کرسیاں پیش کی جائیں کیس کی سماعت ہوئی تو جج نے پہلی پیشی میں فیصلہ جامعہ ابی بکر کے حق میں کر دیاکالے ناگ ختم ہو گئے اور جامعہ ابی بکر کا چشمہ جاری ہے پوری دنیا کو سیراب کرتا ہے ۔شیخ ظفر اللہ رحمہ اللہ اکثر فرمایا کرتے تھے مولانا رضی اللہ میری روح ہیں اور میری صلاحیتوں کے امین ہیں ۔میں ظاہر ہوں اور یہ میرا باطنی جسم ہیں ۔مولانا نے جامعہ میں ابتدائی مراحل میں جوخدمات سر انجام دیں وہ اُن کا حصہ ہیں ۔مولانا رضی اللہ باعث فخر ہیں اس قسم کے کردار فی الحقیقت تاریخ ساز ہوتے ہیں جو خاموشی میں محو عمل رہتے ہیں جواپنے خون جگر سے مستقبل کی تاریخ رقم کرتے ہیں بہت سستے لوگوں نے جامعہ میں دام اور نام کمایا لیکن مولانا رضی اللہ نے رضا ئے الٰہی کمائی اور اپنے کام سے اسم بامسمٰی ثابت ہوئے۔

اللھم اغفر لہ وارحمہ راقم الحروف کو بطور شاگرد بھی شرف تلمذ حاصل ہوا اور بطور کارکن جامعہ ابی بکر میں ابتدائی مرحلہ میں خادم کی حیثیت سے مولانا کے زیر اثر کام کرنے کا موقعہ ملا ۔میں نے مولانا کو ایک فقیر الی اللہ ، صابرو شاکر اور متقی پایا۔اللہ تعالیٰ ان کی قبر روشن فرمائے۔آمین ثم آمین

کردار ساز مبلغ:

1996؁ء قاضی محمد اسلم سیف ناظم جامعہ تعلیم الاسلام اللہ کو پیارے ہو گئے میں اُن کی تعزیت کے لئے جامعہ تعلیم الاسلام گیا سب سے پہلے مولانا رضی اللہ سے ملا،تعزیت کی مولانا صاحب قاضی صاحب کے گھر لے گئے قاضی صاحب کے لڑکوں سے ملاقات ہوئی تعزیت کی اور نماز عصر کا ٹائم ہو گیا عصر کی نماز کی ادائیگی کے لئے جامعہ تعلیم الاسلام چلے گئے ۔نماز کے بعد دفتر جامعہ حاضری کا موقعہ ملا ۔مولوی عبد الرب جامعہ کے عملہ میں تنخواہ تقسیم کر رہے تھے مولانا رضی اللہ نے تنخواہ وصول کی جو تقریبا ً 4500روپے تھی۔میں نے عرض کیا مولانا 4500روپے میں آپ کا گزار ہو جاتا ہے ؟مولانا نے فرمایا ماہ بہت جلدی سے گزر جاتاہے پتہ نہیں چلتا میں اُن ایام میں سوچ رہا تھا کہ سکول کے بعد کوئی کاروبار اختیار کرنا چاہئے چنانچہ اُسی وقت فیصلہ کیا کہ آئندہ ان شاء اللہ سکول ڈیوٹی کے بعد کوئی کاروبار نہیں بلکہ دین کے لئے وقت وقف کرنا چاہئے حالانکہ میں اُن کا شاگرد ہوں مولانا کا 4500روپے میں گزارا ہوجاتا ہے اُس وقت میری آمدنی تقریبا 14000تھی فوراً دماغ نے سوچا کہ مولانا کا 4500روپے میں وقت بسر ہو میرا 14000میں وقت پاس کیوں نہیں ہوتا یہ خاموش مبلغ کا دعوت عمل تھا میں نے اپنی زندگی کا رخ بدل لیا ۔ آئندہ کے لئے اپنے آپ کو دعوت دین کے لئے ،صرف دین کے لئے وقف کرنے کا ارادہ کر لیا ۔

الحمد للہ علیٰ ذالک تقبل اللہ منی

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے