!

دلوں کو کرتی تھی تسخیر گفتگو اس کی

ہر ایک شخص کو رہتی تھی آرزو اس کی

مجھے یہ جان کر بے حد خوشی ہوئی کہ جامعہ ابی بکر الاسلامیہ کراچی (سندھ) کا مؤقر مجلہ ماہنامہ اسوۂ حسنہ برصغیر کے نامور عالم پروفیسر ظفراللہ کی شخصیت پر ایک نمبر نکالنے کا اعزاز حاصل کر رہا ہے۔

کئی ایسی خوش نصیب، خوش قسمت، نیک نام، نیک بخت ہستیاں ہوتیں ہیں جب وہ دنیا فانی سے کوچ کر کے دائمی جہاں جاتی ہیں اور وہ موت العالم موت العالم کے مصداق ہوتی ہیں، چنانچہ ان عظیم المرتبت شخصیات میں سے ایک شخص پروفیسر محمد ظفراللہ مرحوم بھی ہیں چودھری صاحب سے میری پچھلی ملاقات 1994 میں تاریخ یاد نہیں ہے۔ جامعہ دارالعلوم السلفیہ میں مولانا منشی صاحب سے ملنے آئے تھے کیونکہ مولانا منشی صاحب تعلیم الاسلام ماموں کانجن سے پڑھ کر آئے تھے راقم ان دنوں جامعہ دارالعلوم سلفیہ میں زیر تعلیم تھا مجھے بھی مولانا منشی صاحب کے ہمراہ محترم پروفیسر ظفراللہ مرحوم سے ملاقات کا شرف حاصل ہوا درمیانہ قد، سرخی مائل گندمی رنگ، شلوار قمیض میں ملبوس سر پرقد قلی ٹوپی مکمل داڑھی سفید بالوں کا غلبہ گاڑی کے اسٹیرنگ پر خود بیٹھے تھے میں نے جاکر دونوں ہاتھ آگے کرکے ان سے ہاتھ ملایا انہوں نےپوچھا بیٹا مولانا منشی صاحب ہیں میں نے کہا جی ہاں موجود ہیں۔ آپ فورا مولانا منشی صاحب کے کمرہ میں تشریف لائے آپ کے ہمراہ فضیلۃ الشیخ با باعائش محمد صاحب مدظلہ العالی اور جامعہ کے طلبہ تقریبا آدھا گھنٹہ یہاں رکے رہے بعد میں طے ہوا کہ جیمس آباد عرف کوٹ غلام محمد کے قرب میں مسلک اہلحدیث کے کچھ گوٹھ ہیں سکریاری عادیوال اور بوریوال دیٹھ اور 333 چک وغیرہ میں تبلیغی پروگرام کرنے ہیں اور خطبہ جمعۃ المبارک مختلف علماء نے مختلف مقامات پر پڑھانے ہیں۔ راقم بھی اس قافلہ دعوت و تبلیغ میں شامل ہو گیا۔ میر پور خاص شہر سے نکل کر ہمارے ممدوح پروفیسر ظفراللہ صاحب طلبہ سے عربی میں نصیحت کرنے لگے ۔ پورا سفر انتہائی خوشگوار ماحول میں گزرا۔ مجھے اچھی طرح یاد ہے پروفیسر ظفراللہ مرحوم نے ہمیں کہا کہ تم بھی خطبہ جمعہ کی تیاری کرو اورگوٹھوں میں جا کر جمعہ پڑھایا کرو۔ راقم نے ان کی اس نصیحت کو قبول کرتے ہوئے تقریر کا آغاز خطبہ جمعۃ المبارک سے کیا دوسری ملاقات راقم اور جناب فضیلۃ الشیخ افتخار احمد ازھری صاحب پروفیسر ظفراللہ مرحوم سے ملنے کے لئے کراچی گئے۔ جامعہ کراچی میں آپ کے آفس میں ملاقات ہوئی ہمیں دیکھ کر بہت خوش ہوئے۔ ہماری بہت عمدہ تواضع کی۔ شیخ افتخار احمد ازھری صاحب نے ان سے مشورہ لیا کہ مجھےایم۔اےکرنا ہے تو آپ نے ازراہ شفقت فرمایا کہ بیٹا آ پ جام شورو یونیورسٹی سے کریں تو بہتر ہوگا وہاں آپ کا نتیجہ اچھا آئے گا کافی دیر تک محو گفتگو رہے ہمیں الوداع کرنے کے لئے باہر تک آئے۔ ان میں الحب فی اللہ کی خوبی رقم تھی۔ تیسری ملاقات راقم سے میرپور خاص جامعہ دارالعلوم السلفیہ میں ہوئی جب آپ صائم افطار کے سلسلہ میں آئے تھے انہوں نے مولانا منشی صاحب کو صائم افطار کے پیسے دیئے تھے کہ آپ تھر پار کر کے پسماندہ علاقے کے لوگوں میں تقسیم کریں یہ ملاقات آخری ثابت ہوئی۔

آپ نہایت عمدہ شخصیت کے مالک تھے اور انتہائی پیار کے لہجے میں بہت عمدہ باتیں کرتے تھے۔ ہر بات میں خلوص کا رس بھرا ہوا اور ہر جملہ متانت کا آئینہ دار اور دل کی صفائی کا غماز ایسے لوگ اب کہاں ۔وصاح صرف الدھر این الکمال ومات الرجل۔ ہر نیک مرد اخروی سفر کی تیاری میں مصروف کار نظر آ رہا ہے ہر مرد مخلص اس پر فریب دنیا سے اکتایا ہوا دکھائی دیتا ہے۔

تعلیم:

آپ کے والد چودھری عطاء اللہ اپنے بیٹے ظفراللہ کو میٹرک کے بعد دینی علوم کے حصول کی غرض سے صوفی عبداللہ مرحوم کی خدمت میں لائل پور کے تحصیل سمندری کے ایک گائوں اوڈاں والا چک ۴۹۳ گ۔ب میں لے گئے تھے اور یہ گائوں دینی علوم کی تدریس کا مشہور مرکز تھا اور مرکز ہے جہاں دارالعلوم تعلیم الاسلام کے نام سے ایک بہت بڑی درس گاہ قائم تھی جو اللہ کے فضل سے اب بھی قائم ہے اس درس گاہ کے بانی اور اولین منتظم جماعت مجاہدین کے مشہور رہنما صوفی عبداللہ تھے جنہیں نہ صرف اس علاقے میں بلکہ پورے پاکستان میں نہایت اثر و احترام کا مقام حاصل تھا جس زمانے میں ماموں کانجن میں دارالعلوم کی عمارت زیر تعمیر تھی اس زمانہ میں پروفیسر ظفراللہ مرحوم زیر تعلیم تھے اور ساتھ ساتھ عمارت کی تعمیر میں حصہ ڈالتے تھے۔

جماعت مجاہدین اور ظفراللہ مرحوم:

پروفیسر ظفراللہ مرحوم کا تعلق صوفی عبداللہ کے اثر صحبت سے جماعت مجاہدین سے ہو گیا جو ہمیشہ قائم رہا مجاہدین سے ان کے اثر تعلق ہی کا نتیجہ تھا کہ انہوں نے کراچی کے علاقے گلشن اقبال میں زمین خریدی اور ۱۹۷۸ میں اسکی رجسٹری امیر جماعت مجاہدین پاکستان غازی عبدالکریم کے نام کرائی جہاں اس وقت جامعہ ابی بکر اسلامیہ قائم ہے جو پروفیسر ظفراللہ مرحوم کی سرگرمیوں کا اصل مرکز کہنا چاہیے۔ کیونکہ ان کی زندگی کے لیل و نہار کے تمام لمحات اسی محور کے گرد گھومتے تھے۔ وہ اپنے اس تعلیمی مرکز کو برصغیر کے تمام مراکز تعلیمی سے منفرد مقام دینے کے خواہاں تھے اور آپ اس میں کامیاب ہوئے اس کی انفرادیت کا اندازہ اس حقیقت سے کیجئے کہ

جامعہ کی چند خوبیاں:

1)جامعہ میں ذریعہ تعلیم عربی قرار دیا گیا جو بحمداللہ کامیابی سے چل رہا ہے یہ کسی غیر عرب ملک کی پہلی غیر سرکاری جامعہ ہے جس میں ذریعہ تعلیم عربی ہے۔

2)جامعہ کا نصاب تعلیم مدینہ منورہ کی جامعہ اسلامیہ اور یاض کی جامعہ امام محمد بن سعود سے ہم آہنگ ہے۔

3) اس کے اساتذہ کے تقرر کا معاملہ عام جامعات سے بالکل مختلف ہے۔ اساتذہ کا انتخاب عالم اسلامی کی سات مشہور جامعات سے کیا گیا ہے۔

یعنی (1) جامعہ ام القری مکہ مکرمہ (2)جامعہ اسلامیہ مدینہ منورہ (3)جامعہ امام محمد بن سعود ریاض (4)جامعہ ازھر مصر (5)جامعہ خرطوم سوڈان 6) جامعہ بغداد عراق (7) جامعہ ابی بکر اسلامیہ کراچی ۔

4)نصاب تعلیم کے علاوہ عقیدہ سلف کی نشر و اشاعت

5) اسلامی اور غیر اسلامی ملکوں کے بہت سارے طلبہ زیر تعلیم

6)فارغ التحصیل علماء کی چالیس ممالک میں تدریسی و تبلیغی خدمات

7) بین الاقوامی اسلامی جامعات کی رکنیت کا اعزاز جو رابطہ الجامعات الاسلامیہ کے نام سے موسوم ہے۔

یقینا یہ پروفیسر ظفراللہ مرحوم کے لئے صدقہ جاریہ ہو گا جس کا اجر انہیں بارگاہ الہی سے ہمیشہ ملتا رہے گا۔

جیسا کہ بیان ہو چکا ہے کہ پروفیسر ظفر اللہ مرحوم کا تعلق جماعت مجاہدین تھا اور یہ وہ جماعت ہے جس کی اساس سید احمد شہید اور شاہ اسماعیل شہید نے رکھی۔ برصغیر کی اولین جماعت ہے جو انتہائی اخلاص کے ساتھ محض اس لئے میدان میں آئی کہ ۔لتکون کلمۃ اللہ ھی العلیا۔ یہ عظیم مقصد تھا جس کا اس جماعت نے برملا اعلان کیا اور ہر سچے اور پکے اور پختہ فکر مسلمان کا بنیادی مقصد بھی یہی ہوتا ہے۔ اور ہونا بھی چائیے یہ جماعت جو عزائم لیکر اٹھی اور اس کے عالی ہمت ارکان کو اللہ تعالی نے جس عزیمت اور استقامت کی نعمت عظمی سے نوازا ان کی داستان اس موجوع کی کتب میں مرکوز ہیں یہ عالی کردار مجاہدین جن علاقوں سے گزرے جن وادیوں کو عبور کیا اور جن دشت و دریا اور جن ندی نالوں پر ان کے قدم پڑے انہیں جہاد اسلامی کی تاریخ کا ایسا عظیم الشان حصہ بنا دیا جو ہمیشہ یاد رہے گا۔

اس جماعت کی تنظیم اب بھی موجود ہے۔ لیکن یہ لوگ اپنے عمل و سعی کو اخباری کالموں میں نمایاں کرنے کے خواں نہیں ہیں جو کچھ کرتے ہیں اس سے مقصود صرف رضائے الہی ہے لوگوں میں اس کا ڈھنڈورا پیٹنے اور ایسی سر گرمیوں کی تشہیر کرنے کی انہیں عادت نہیں ہے۔ اس جماعت کے امیر صوفی عبداللہ رحمہ اللہ تھے آپ کا شمار ان برگزیدہ شخصیات میں ہوتا ہے جنہیں اللہ پاک نے بے پناہ اوصاف و کمالات اور انعامات و اکرام سے نوازا تھا۔ سید احمد شہید اور شاہ اسماعیل شہید کی تحریک جہاد کے سر گرم رکن اور آخر میں اس تحریک کے امیر رہے۔

آپ مولانا فضل الٰہی رحمہ اللہ کی شفقت و محبت سے پروان چڑھے علم و عمل کا آفتاب اپنے علم و عمل سے اکنافِ عالم کو منور کر کے 28 اپریل 1975میں وفات پا کر جامعہ تعلیم الاسلام کے آنگن میں دفن ہوگئے۔ نور اللہ مرقدہ۔ وجعل الجنۃ مثواہ

پروفیسر ظفراللہ مرحوم جماعت مجاہدین کے نائب امیر تھے۔آپ بہت سی خصوصیات کے مالک تھے۔ نہایت ہمدرد خیر خواہ امور خیر میں تعاون کرنے والے بہت اچھے دوست دل کے صاف معاملے کے کھرے طلباء کے لئے سراپا شفقت اساتذہ کے لئے پیکر احترام سب کے دکھ درد میں شریک وسیع معاشرتی تعلقات رکھنے والے گفتگو میں نرم اور سنجیدہ علماء کے قدر دان غریبوں کے معاون مستحقین کی مرد کرنے والے۔

پروفیسر ظفراللہ مرحوم کا تھر پارکر کی جماعت سے محبت:

1992ء میں پروفیسر ظفراللہ مرحوم دو ساتھیوں کے ساتھ مٹھی میں پروفیسر حافظ محمد کھٹی سابق امیر جمعیت اہل حدیث تھر پارکر کے ہاں ایک خاص مقصد کے لئے آئے۔ سابق وزیر اعظم میاں محمد نواز شریف نے ایک ارب تیس کروڑ کا اضافی بجٹ دے کر بیت المال کے نام سے تعمیر کیا۔ اس کی ابتداء کرنے کے لئے ایک خاص طریقہ کار یہ رکھا کہ ہر صوبے میں دو پروگرام رکھے جائیں گے اور ہر پروگرام بڑی مسجد میں ہو گا اور ہر پروگرام میں ایک سو مستحقین رکھے جائیں گے۔ اور وزیر اعظم خود آکر ان کو بیت المال کے چیک پیش کریں گے۔ ڈاکٹر محمد راشد رندھاوا بیت المال کے چیئر مین مقرر ہوئے تھے۔ ڈاکٹر صاحب نے سندھ کے لئے پروفیسر ظفراللہ مرحوم کو منتخب کیا پروفیسر ظفراللہ مرحوم نے ایک پروگرام کی جگہ کراچی منتخب کی اور دوسرے پروگرام کے لئے انہوں نے تھر پارکر کی جگہ کا انتخاب کیا۔

21 مارچ 1992 کو وزیر اعظم کا پروگرام ضلع تھرپارکر کے لئے طے ہوا۔

یہ تمام پروگرام پروفیسر ظفراللہ صاحب نے مسلک کی بنیاد پر کیا ۔جماعت کے ساتھ محبت عقیدت کی بنیاد تھی خالی گورنمنٹ کا پروگرام ہی نہیں بلکہ ایک مرتبہ ریاض سعودی عرب سے کچھ احباب زکوۃ دینے آئے تو پروفیسر ظفراللہ مرحوم انہیں ضلع تھرپارکرلے کر آئے احباب جماعت میں وہ رقم تقسیم فرمائی ورنہ غریب بیوہ یتیم تو کراچی و دیگر مقامات پر بھی تو بہت تھے لیکن انہیں تھرپارکر میں جماعت سے محبت و عقیدت تھی جس بنیاد پر وہ تھرپاکر کی جماعت کے ساتھ ان کے دکھ میں شریک رہ کر معاون بنے رہے۔ 1991 میں جامعہ ابی بکر الاسلامیہ ایک ورکشاپ ہوئی۔ جس میں میر پور خاص سے الشیخ افتخار احمد ازھری صاحب ضلع تھر پارکر سے مولانا محمد حسن سموں اور امیر مرکزی جمعیت اہل حدیث تھر پارکر شریک رہے پروفیسر ظفراللہ مرحوم نےا لشیخ محمد حسن سموں رحمہ اللہ سے وعدہ کیا کہ آپ خطبہ جمعہ کے لئے آئیں گے۔

لیکن کچھ مجبوری کی وجہ سے آپ تشریف تو نہیں لا سکے مگر وعدہ وفا کرنے کے لئے اپنی جگہ محترم محمد ابراہیم طارق صاحب ناظم اعلیٰ مرکزی جمعیت اہل حدیث سندھ کو بھیجا انہوں نے گھوٹھ حاجی ابراہیم سموں میں خطبہ جمعہ پڑھایا اور پروفیسر ظفراللہ مرحوم کی نہ آنے کی وجہ بیان کی۔ اس طرح آپ گوٹھ حاجی سموں کنری متعدد بار تشریف لائے وہاں خطیب کے معاوضہ میں تعاون کیا کرتے تھے اور ضلع تھرپار کر میں افطار الصائم کے سلسلہ میں احباب کے ساتھ تعاون کرتے تھے۔ قربانی کے حوالے سے بھی کافی تعاون کرتے تھے۔

آپ جدید و قدیم علوم پر نگاہ رکھتے تھے مطالعہ وسیع تھا آپ نے مطالعہ کی وسعت کی بناء پر کوشش کر کے جامعہ کا ایک بہت بڑا کتب خانہ قائم فرمایا جس میں تفسیر، حدیث، فقہ، رجال،تاریخ، فلسفہ، منطق، ادبیات، معاشیات، سیاسیات وغیرہ موضوع اور تقریبا ہر زبان کی کتب فراہم کی۔

ان کے ذہن میں فروغ علم کا ایک خاص جذبہ کا فرما تھا جس کا اظہار ان کے قول و فعل و حرکت سے ہوتا تھا۔

آپ کی موت کا واقعہ جس نے آپ کے رشتہ داروں اور متعلقین کے لئے انتہائی حزن و ملال باعث میں مبتلا کیا۔ وہاں احباب جماعت کو بھی خصوصا تھرپارکرکی جماعت بھی اپنے قائد ہمدرد خیرخواہ کے اچانک حادثہ نے بہت غمزدہ کیا۔

اللہ تعالی آپ کو کروٹ کروٹ جنت الفردوس میں جگہ عطا فرمائے۔ یہ حادثہ جس کی شدت ہمیشہ کے لئے محسوس کی جائے گی ۔

اللھم اغفرلھم وارحمھم ووسع مدخلھم وادخلھم جنت الفردوس

 

رَبَّنَا اغْفِرْ لَنَا وَلِاِخْوَانِنَا الَّذِيْنَ سَبَقُوْنَا بِالْاِيْمَانِ وَلَا تَجْعَلْ فِيْ قُلُوْبِنَا غِلًّا لِّلَّذِيْنَ اٰمَنُوْا رَبَّنَآ اِنَّكَ رَءُوْفٌ رَّحِيْمٌ     ۝

اور (ان کے لئے) جو ان کے بعد آئیں اور کہیں گے کہ اے ہمارے پروردگار ہمیں بخش دے اور ہمارے ان بھائیوں کو بھی جو ہم سے پہلے ایمان لاچکے اور ایمانداروں کی طرف ہمارے دل میں کہیں (اور دشمنی) نہ ڈال اے ہمارے !رب بیشک تو شفقت و مہربانی کرنے والا ہے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے