جامعہ ابی بکر الاسلامیہ مملکت خداداد پاکستان میں سب سے پہلا مکمل عربی میڈیم ادارہ ہے جو کہ پروفیسر ظفراللہ رحمہ اللہ مرحوم کا عمل صالح اور صدقہ جاریہ ہے۔ (ان شاء اللہ) راقم کو اس عظیم ادارہ سے دو نسبتیں ہیں۔

طالب علمی: مئی 1983ء سے اگست 1989ء تک

تدریس:ستمبر 1993 سے اپریل 2000ء تک

بانی جامعہ ابی بکر الاسلامیہ پروفیسر محمد ظفراللہ مرحوم کو مئی 1983 سے 1997 تک مختلف روپ میں دیکھنے کا اتفاق رہا۔ ان چودہ برسوں میں لا تعداد ملاقاتیں اور ان گنت یادیں ہیں مگر مجلہ اسوۃ حسنہ کے اصرار پر صرف چند ضبط تحریر میں لا رہا ہوں۔

اس سے قبل ایک مضمون میں جامعہ ابی بکر الاسلامیہ کے ساتھ بطور طالب علم کی روداد لکھ چکا ہوں جو اسی مجلہ میں شائع ہوا۔ تاہم اس موقع پر ایک مرتبہ پھرارباب جامعہ کی دعوت پہ دہرائے دیتا ہوں۔ اس وقت 1983 میں جامعہ ھذا میں تین شعبہ جات قائم تھے۔ تحفیظ القرآن لکریم، مرکز اللغۃ العربیۃ (تین سال) اور کلیۃ الحدیث (چار سال) ۔ میں مرکز ا للغۃ العربیۃ میں داخلے کا امید وار تھا کم از کم تعلیمی قابلیت میٹرک مطلوب تھی مگر چند امیدوار گریجویٹس تھے اور قریبا 250 امیدوار اس شعبہ کی کلاس اول میں داخلے کے خواہشمند تھے مذکورہ کلاس کے لیےصرف ایک کلاس روم مختص ہونے کی وجہ سے صرف چالیس نشستیں موجود تھیں (واضح رہے کہ اس وقت جامعہ کی عمارت کی صرف دو منزلیں تھیں)

تحریری امتحان ہوا 50 امید وار کامیاب قرار پائے تین دنوں کے بعد انٹرویو ہوا جس میں صرف چالیس طلباء داخلے کے اہل ٹھہرے۔ (الحمداللہ میں بھی ان خوش نصیبوں میں شامل تھا)۔ رجسٹریشن، تحریری امتحان، نتیجہ انٹرویو اور حتمی فہرست کے اس عمل میں قریبا بارہ دن لگے، دلچسپ بات یہ ہے کہ مدیر جامعہ پروفیسر ظفراللہ مرحوم کراچی یونیورسٹی کے شعبہ اسلامیات میں مستقل استاد ہونے کے باوجود نہ صرف کہ نئے داخلے کے اس عمل کی خود نگرانی کر رہے تھے بلکہ صبح سے شام تک (ان ایام میں) جامعہ میں دکھائی دیتے تھے۔

ملاحظہ: ا ن کے نزدیک اس عمل کی اہمیت کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔

مرکز اللغۃ العربیۃ کی فصل اول میں حدیث کی کتاب ’’بلوغ المرام‘‘ نصاب میں شامل تھی غالب ایک ماہ تک شیخ محمد ظفراللہ مرحوم نے تدریس کی مگر اپنی دیگر مصروفیات کی بنیاد پر جاری نہ رکھ سکے چنانچہ شیخ عبدالغفار اعوان حفظہ اللہ صاحب کو یہ مضمون دے دیا گیا۔

یونیورسٹی میں استاد ہونکے ناطے عصری تعلیم کی اہمیت سے بخوبی آگاہ تھے تا ہم جامعہ ابی بکر الاسلامیہ میں زیر تعلیم مبتدی طلباء کو (بالخصوص) صرف دینی تعلیم کے حصول پر اپنی توجہ مرکوز رکھنے کا حکم کرتے تھے اور کالج جانے سے روکتے تھے تاکہ ایک مرتبہ شرعی علوم میں طالب علم کی بنیاد اچھی ہو جائے۔ اسی طرف یکسوئی کی تلقین فرماتے تھے۔ اسی طرح تنظیمی سر گرمیوں کو بھی حصول علم کے راستے میں رکاوٹ گردانتے اور اس حوالے سے بھی طلباء پر نظر رکھتے تھے۔ تاہم تشدد کی پالیسی سے ہمیشہ اجتناب کیا اس بنیاد پر کسی طالب علم کا اخراج درست نہ سمجھتے تھے۔ اسی لیے میں بھی اخراج سے بچ گیا ۔ الحمدللہ علی ذلک

1989ء میں جب میرا داخلہ مدینہ یونیورسٹی میں ہوا شیخ مرحوم سے الوداعی ملاقات کے لئے معلوم کر وایا مگر کراچی شہر سے باہر تھے اس لئے ملاقات نہ ہو سکی البتہ مدینہ منورہ پہنچنے کے چند ماہ بعد وہیں ملاقات ہوئی تو میں نے عرض کیاکہ شیخ صاحب! میرا یہاں داخلہ معجزانہ طور پر ہوا ہے آپ کا بہت اثرو رسوخ ہے ۔ جامعہ ابی بکر الاسلامیہ کا کوٹہ منظور کر والیں تاکہ طلباء کے لئے یہاں آنا آسان ہو جائے مجھے تھپکی دی اور فرمایا اب میں سنجیدگی سے کوشش کرونگا اور بہت جلد جامعہ ابی بکر کے طلباء کے لئے چند نشستیں منظور ہو جائیں گی۔ إن شاء اللہ

چنانچہ اگلے سال جب ملاقات ہوئی تو کہنے لگے شیخ علی سلطان الحکمی رحمہ اللہ نے اس سلسلہ میں میری بہت مدد کی بحمداللہ کام بن گیا ہے۔

مدینہ یونیورسٹی سے فراغت کے بعد اساتذہ اور شیخ مرحوم سے ملاقات کے لئے حاضر ہوا اور عرض کی کہ جامعہ ابی بکر میں مدرس کی آسامی خالی ہو تو بندہ حاضر ہے۔ مسکرائے اور کہنے لگے درخواست لکھ کر جمع کروا دو۔ چند روز بعد دوبارہ ملاقات ہوئی تو مدیر معھدکو حکم دیا کہ معھد کی مختلف کلاسوں میں انہیں اسباق دیںپھرچیک کر کے مجھے رپورٹ دیں۔ شیخ محمد یونس صدیقی، شیخ یعقوب طاہر اور مدیر تعلیم شیخ خلیل الرحمن لکھوی تینوں کی طرف سے ok ہونے کے باوجود کہنے لگے میں خود دیکھنا چاہتا ہوں چنانچہ ایک دن اچانک میری کلاس میں تشریف لائے اور مصطلح الحدیث پر میرا لیکچر بیٹھ کر سنا، مجھے دفتر میں بلوایا بہت داد دی اور یہ لفظ ارشاد فرمائے شیخ تمہاری خود اعتمادی اور کتب بند کر کے پڑھانا پرانے اساتذہ میں بھی دیکھنا چاہتا ہوں۔ ایک مرتبہ لائبریری میں مجھے دیکھا کہنے لگے کہ آج شام کو ایک جگہ میرا لیکچر ہے چند احادیث کی تخریج کر دوں میں مکمل نہ کر پایا تھا کہ پیریڈ کے لیے گھنٹی بجی میں نے عرض کیا شیخ صاحب اب میرا سبق شروع ہو رہا ہے کہنے لگے مکمل کر لیتے میں نے (حسب عادت) عرض کیا ’’شیخ صاحب مجھے آپ تنخواہ تدریس کی دیتے ہیں نہ کہ اس کام کی‘‘ برا ماننے کی بجائے قہقہہ لگا کر ہنسے۔

وفاقی گورنمنٹ اردو کالج کے باہر ملاقات ہوئی ہاتھ میں دیکھ کر دریافت کیا یہاں کیسے؟ میں نے عرض کیا ایل ایل بی کر رہا ہوں مسکرا کر آگے چل دیے۔ چند روز بعد جب میں جامعہ سے باہر نکل رہا تھا، گاڑی میں بیٹھاکر کراچی یونیورسٹی لے گئے (ان دنوں اسلامک لرننگ کے چیئرمین تھے) پی ایچ ڈی کے مختلف مقالہ جات دکھانے لگے اور ایک فائل میرے ہاتھ میں تھماتے ہوئے فرمایا اس میں پی ایچ ڈی کے لیے منظور شدہ موضوعات کی فہرست ہے دیکھو اور مناسب موضوع اختیار کرو میں تمہیں یہاں سے پی ایچ ڈی کر وائونگا۔ انکی شفقت اور ترقی کا یہ جذبہ کبھی فراموش نہیں کیا جاسکتا۔

اپریل 1997ء میں جب میں نے المرکز المدنی کی بنیاد رکھی تقریبا ایک ماہ بعد سپر ھائی وے پر جامعہ کی شاخ میںدعوت طعام پر ملاقات ہوئی (آہ وہ انکے ساتھ آخری ملاقات ثابت ہوئی) میں نے بتا یا کہ ایئر پورٹ کے عقب کچی آبادی بھٹائی آباد میں اہلحدیث مسجد کی تعمیر شروع کی ہے دعا فرمائیں۔ بہت خوش ہوئے اور کہا یونیورسٹی کے طلباء کو لیکر پنچاب جا رہا ہوں واپسی پر میں آپ کے پاس آئونگا اور بیٹھ کر مشورہ کریں گے میں چاہتا ہوں کہ اس علاقے میں ایک ہوٹل تعمیر کیا جائے تاکہ بیرونی مہمانوں کو ایئر پورٹ کے قریب رہائش بھی دے سکیں اور ادارے کو مالی سپورٹ بھی ملے: (اس وقت اس طرح کا منصوبہ میرے لئے اچھنبے سے کم نہیں تھا شیخ مرحوم کی دور اندیشی کو داد دیتا ہوں)مگر افسوس یہ عظیم انسان پنجاب کے اس سفر سے زندہ واپس نہ آسکا۔ چنانچہ ہوٹل کا منصوبہ شرمندہ تعبیر نہ ہو سکا البتہ مسجد، مدرسہ، اسکول، ویلفئر ہسپتال اور رفاہی ہوٹل پر مشتمل یہ ادارہ المرکز المدنی کے نام سے دینی و سماجی خدمات میں مصروف عمل ہے بالخصوص ویلفئر ہسپتال جہاں جامعہ ابی بکر الاسلامیہ کے بھی بعض مستحق طلباء اور اساتذہ ان طبی سہولیات سے مستفید ہوتے ہیں ۔ وللہ الحمد

وللہ الحمد۔ چونکہ شیخ مرحوم نے اس ادارے کے ساتھ معاونت کا ارادہ کر لیا تھا اس لئے اس نیک نیت کا اجر انہیں اللہ تعالی عطا فرمائے گا۔

(ان شاء اللہ العزیز)
اللھم اغفرلہ وارحمہ و اکرم نزلہ ووسع مدخلہ،

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے