اسلام کی پہلی وحی ’’ اقراء ‘‘ کے لفظ سے شروع ہوئی ۔ اس ابتدائی وحی کی روحانی تاثیر ہی کا نتیجہ تھا کہ اس امت کے حاملین میں جس قدر علم پروری کے رجحانات پروان چڑھے اس کی نظیر کوئی دوسری امت پیش کرنے سے قاصر ہے ۔ نہ ہی کوئی مذہب اسلام کی علمی روش کی برابری و ہمسری کا دعویٰ کر سکتا ہے۔ مسلمانوں نے اپنے نبی کریم ﷺ کی سیرت اور اس سیرت کی ہر اک جہت کی تلاش کو اپنے لیے ایک سعادتِ عظمیٰ سمجھا ۔ اپنی زندگی کی ساعتوں کو علوم نبوت کی تحصیل کے لیے وقف کردیا ۔پھر یہ سلسلہ محض کچھ عرصے یا چند صدیوں پر ہی محیط نہیں رہا بلکہ مسلمانوں کی علم پروری نے کاشانۂ نبوت سے نکلنے والے علوم کو مستقل فن اور ایک زندہ علم کی حیثیت دے دی ۔ یہی وجہ ہے کہ آج چودہ صدیاں بیت جانے کے بعد بھی تعلیمات محمدی ﷺ کی حیرت انگیز تاثیر برقرار ہے ۔ اور یہی تاثیر اسلام اور غیر اسلامی تہذیب و تمدن کے مابین مابہ الامتیاز ہے ۔

علم کی تحصیل اور اس کی تدریس کے ساتھ ساتھ درسگاہوں کے قیام کو بھی ایک سعادت سمجھا گیا ۔ اسے بھی اخروی نجات کا ایک اہم ترین ذریعہ قرار دیا گیا ۔ چنانچہ ماضی میں ہمیں بکثرت ایسی مثالیں ملتی ہیں کہ متعدد بادشاہوں نے عالیشان درسگاہیں قائم کیں ۔ کثیر تعداد میں ایسے ارباب خیر کا وجود اس امت میں رہا ہے جنہوں نے اپنی دولت کو دین اسلام کی ترویج و اشاعت کے لیے ذریعۂ اظہار بنایا۔ برصغیر کی علمی تاریخ ایسی مثالوں سے بھری پڑی ہے ۔ جہاں کہیں کسی صاحبِ علم کے علمی کمالات نے نشوو نما پائی متعدد طلاب علم نے اس کی خوشہ چینی کو اپنے لیے سعادت سمجھ لیا پھر جلد ہی ایک درسگاہ کا وجود عمل میں آگیا ۔ اسی لیے ہمیں شمالی ہند کے خطوں میں ہر گائوں ، دیہات میں درسگاہوں کے بیشمار نقوش ملتے ہیں ۔ مولانا ابو الحسنات عبد الشکور ندوی نے اپنی کتاب ’’ ہندوستان کی قدیم اسلامی درسگاہیں ‘‘ میں بڑی عرق ریزی کے ساتھ ان قیمتی معلومات کو اکٹھا کیا ہے ۔

ماضیِ قریب کی ایک شخصیت اسلاف کی انہیں زریں روایات کی امین رہی ہے ۔ میری مراد جناب شیخ ظفر اللہ ( رحمۃ اللہ علیہ ) بانی ’’ جامعہ ابی بکر الاسلامیہ ‘‘ کراچی کی ذات گرامی ہے ۔ شیخ ظفر اللہ ۲۰ مئی ۱۹۴۳ء کو مشرقی پنجاب کے مشہور شہر انبالہ کی تحصیل روپڑ کے ایک گائوں ملک پور میں پیدا ہوئے ۔ قیام پاکستان کے بعد ان کا خاندان مشرقی پنجاب سے ہجرت کرکے نوابشاہ کے نواحی گائوں قاضی احمد میں سکونت پذیر ہوا ۔ شیخ صاحب کا خاندان صوفی محمد عبد اللہ کا ارادت مند تھا ۔ جب شیخ ظفر اللہ نے کچھ ابتدائی تعلیم حاصل کرلی تو مزید اعلیٰ تعلیم کے لیے ان کے والد انہیں صوفی محمد عبد اللہ کی خدمت میں لے گئے ۔ صوفی محمد عبد اللہ نے ۱۹۳۲ء میں اوڈانوالہ ( فیصل آباد ) میں ’’ جامعہ تقویۃ الاسلام ‘‘ کے نام سے ایک دینی درسگاہ قائم کی تھی ۔ یہیں شیخ ظفر اللہ نے کسبِ علم کے مراحل طے کیے ۔ ان کی ذہانت وفطانت اور اخلاص و بے غرضی نے انہیں جلد ہی اساتذہ کا محبوب شاگرد بنادیا ۔ صوفی محمد عبد اللہ نے بھی انہیں اپنی امیدوں کا مرکز بنالیا ۔ شیخ ظفر اللہ کو شروع ہی سے دینی درسگاہوں کے قیام و تعمیر سے خاص انسیت تھی ۔ جس زمانے میں وہ طلبِ علم کے منازل طے کررہے تھے ۔ مامونکانجن میں ’’ جامعہ تقویۃ الاسلام ‘‘ کی عمارت زیر تعمیر تھی فراغت کے اوقات میں شیخ ظفر اللہ دیگر طالب علموں کے ہمراہ اس کی تعمیر میں بذات خود حصہ لیتے ۔ اللہ کے لیے اپنے ہاتھوں کو مٹی میں گوندھتے ، اپنی پیٹھ پر بجری کی بوریاں لادتے اور اپنے سر پر سیمنٹ کے تھیلے اٹھاتے ۔ نہ معلوم وہ کونسی مبارک ساعت تھی جب اللہ کو اپنے مزدور کی یہ مزدوری پسند آگئی ۔ بلاشبہ { و اللہ یختص برحمتہ من یشاء }

شیخ ظفر اللہ کی زندگی کا سب سے بڑا کارنامہ ’’ جامعہ ابی بکر الاسلامیہ ‘‘ کراچی کا قیام ہے ۔ جس کے لیے انہوں نے اپنے دنوں کے تیش اور شبوں کے گداز کو تج دیا ۔ اپنی تمام ہمتیں اور حوصلے صرف کردیے ۔ تآنکہ۱۹۷۸ء میں کراچی میں ’’ جامعہ ابی بکر الاسلامیہ ‘‘ جیسی مہتمم بالشان درسگاہ قائم کردی ۔ شیخ ظفر اللہ کی دینی خدمات کا سلسلہ جاری ہی تھا کہ تقدیرِ الٰہی نے انہیں پیغام اجل بھیج دیا ۔ ۳۰جون ۱۹۹۷ء کو ایک کار حادثے میں ان کا انتقال ہوگیا ۔ وہ لاہور سے بذریعہ روڈ اپنی ذاتی گاڑی میں کراچی آ رہے تھے کہ رحیم یار خان کے مقام پر حادثے سے دوچار ہوئے ، حادثہ اس قدر شدید تھا کہ وہ جانبر نہ ہوسکے اور موقع پر ہی دم توڑ گئے ۔ انا للہ و انا الیہ راجعون

شیخ ظفر اللہ نے جن صدقات جاریہ کا آغاز اپنی زندگی میں کیا تھا وہ آج بھی جاری ہے اور انشاء اللہ العزیز ان کے نامۂ اعمال میں اضافۂ حسنات کا باعث ہے ۔ وہ محض دیواروں کو گھیر کر عمارتیں تعمیر کرنے کے خواہشمند نہیں تھے ۔ بلکہ انہوں نے جامعہ ابی بکر کا قیام پورے شعور و ادراک کے ساتھ کیا تھا ۔ وہ اپنا ایک نظریہ تعلیم و تربیت رکھتے تھے ۔ جدید اسالیب و مناہج کے ساتھ وہ ایک ایسی درسگاہ کے قیام کے خواہشمند تھے جہاں سے فراغت حاصل کرنے کے بعد طلاب معاشرے میں مفید اور انقلابی کردار ادا کرسکیں ۔ جامعہ ابی بکرالاسلامیہ کا قیام ۱۹۷۸ء میں عمل میں آیا ۔ یہ محض شیخ صاحب کا اخلاص ہی تھا کہ اس کا افتتاح شیخ محمد بن عبد اللہ السبیل امام حرم مکہ نے کیا ۔اسے اپنے قیام کے ساتھ ہی عالمی معیار کی درسگاہوں میں شمار کیا جانے لگا ۔ روزِ اوّل ہی سے اسے شہرت و ناموری کا اوجِ کمال میسر آیا ۔

جامعہ شیخ ظفر اللہ کے خوابوں کی عملی تعبیر تھا ۔ وہ اس میں وہ سب کچھ چاہتے تھے جس کا انہوں نے کبھی اپنے تخیل میں تصور کیا تھا ۔ اب وقت آگیا تھا کہ ان کا تخیل حقیقت بن جائے ۔ چنانچہ وہ اس کی کامیابی کے لیے مصروف عمل و حرکت ہوگئے ۔ اپنے خواب کی عملی تعبیر کے لیے ان کی جدو جہد جاری ہی تھی کہ انہیں پیام اجل نے آلیا ۔ نہ معلوم کیا کچھ تشنۂ تکمیل رہ گیا ۔ مگر ان کا نظریۂ تعلیم و تربیت بہت اہمیت رکھتا ہے ۔ جس سے نہ صرف ان کے جانشینوں کو عمل کی روشنی ملتی ہے بلکہ دیگر مدارس و درسگاہوں کے مہتممین کے لیے بھی فکر کے دریچے وا ہوتے ہیں۔

شیخ ظفر اللہ دینی درسگاہوں میں صرف انگریزی زبان کی تدریس ہی کے قائل نہ تھے بلکہ دیگر جدید علوم و فنون کو بھی پڑھانا چاہتے تھے ۔ تاکہ ایک عالم دین پُر وقار انداز سے معاشرے کا حصہ بن سکے ۔ وہ چاہتے تھے کہ ملک میں دینی و دنیاوی تعلیم کی تفریق ختم ہوجائے ۔ اس کے لیے انہوں نے ’’ جامعہ ابی بکر ‘‘ کو عملی نظیر بنانے کا ارادہ کیا تھا ۔

وہ غریب مگر با صلاحیت طالب علموں کی خصوصی کفالت کے بھی قائل تھے تاکہ محض معاشی مجبوریوں کی وجہ سے اس کی تعلیمی زندگی برباد نہ ہو ۔ اس کی صلاحیتیں ابھرنے سے پہلے مرجھا نہ جائیں ۔

وہ چاہتے تھے کہ دینی مدارس اپنے وسائل خود پیدا کریں اور اپنی ذرا ذرا سی ضرورتوں کے لیے لوگوں کے سامنے کاسۂ گدائی نہ پھیلائیں ۔ اسی طرح وہ جامعہ کے زیر انتظام متعدد تعلیمی شاخیں قائم کرنا چاہتے تھے تاکہ فارغ التحصیل طلاب علم کی صلاحیتوں کو میدانِ عمل فراہم کیا جا سکے ۔ ایسا نہ ہو کہ وہ طالب علم فراغت کے بعد فکرِ معاش کی الجھنووں میں اپنی دینی صلاحیتیں برباد کر بیٹھے ۔

وہ اپنے قائم کردہ دینی درسگاہ کو عالمی سطح کے اس معیار پر لے جانا چاہتے تھے کہ جس سے دنیا جہاں کے طلاب علم استفادہ کرنے میں فخر محسوس کریں ۔

شیخ ظفر اللہ رحمہ اللہ نے اپنی پوری زندگی اپنے نظریے کے لیے گزار دی ۔ ان کا مقصد ان کی زندگی تھا ۔ انہوں یہ سچ ثابت کردیا کہ ایک مسلمان کی زندگی کا مقصد اس کی زندگی سے بڑھ کر ہوتا ہے ۔ ان کی فکر سے خشک ذہنوں کو غذا ملے گی ۔ اندھیروں میں روشنی کی کرنیں پھوٹیں گی ۔ ایک ان کی فکر اور ان کا نظریہ دیگر مدارس و جامعات کے لیے ایک عملی نظیر پیش کرتا ہے تو دوسری طرف خود ان کے جانشینوں کو دعوت عمل بھی دیتا ہے ۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے