وَلَا تَـقُوْلُوْا لِمَنْ يُّقْتَلُ فِيْ سَبِيْلِ اللّٰهِ اَمْوَاتٌ ۭ بَلْ اَحْيَاۗءٌ وَّلٰكِنْ لَّا تَشْعُرُوْنَ

اور اللہ تعالٰی کی راہ کے شہیدوں کو مردہ مت کہو وہ زندہ ہیں، لیکن تم نہیں سمجھتے۔(البقرۃ:۱۵۴)

اس عظیم شخصیت کی سوانح عمری پر اس مختصر وقت میں صرف چند چشم دید واقعات جو 1982 سے تادم مرگ (شہادت ) سے تعلق رکھتے ہیں کے بیان کرنے پر اکتفا کرتا ہوں جس کا خلاصہ دن و رات کی مسلسل کوشش جو دین اسلام کی حقانیت کو واضح کرنے کے لیے اور قرآن و حدیث پر مبنی صحیح عقیدہ کی تبلیغ کے لئے مسلمانوں کے لئے ایک خالص دینی ادارہ قائم کیا جو جامعہ ابی بکر الاسلامیہ سے معروف ہے۔میں اس وقت میٹرک کا طالب علم تھا جب میں نے نوائے وقت میں جامعہ کا اشتہار پڑھا جس میں یہ تھا کہ قرآن و حدیث کی تعلیم عربی زبان میں دی جائے گی اور قیام و طعام کے ساتھ معقول وظیفہ بھی دیا جائے گا۔

پہلی ملاقات :

جامعہ جانے کے بعد میرا کچھ ہی عرصہ بعد 1982 میں جامعہ الملک سعود ریاض میں داخلہ ہو گیا جاتے ہی معلوم ہوا کہ چودھری محمد ظفر اللہ رحمہ اللہ بھی جامعۃ الامام محمد بن سعودمیں ہی ایم فل(ماجستیر) کر رہے ہیں ۔ پہلی ملاقات میں بہت خوشی ہوئی انہی دنوں جامعہ ابی بکر الاسلامیہ کا تعمیری کام بھی جاری تھا چودھری صاحب کو ساتھیوں کی ضرورت تھی ہم نے پہلے دن ہی مطلع کر دیا کہ ہماری جہاں اور جب بھی ضرورت ہو خدمت کے لئے حاضر ہیں ۔ اسی زمانہ طالب علمی کے چند واقعات پیش نظر ہیں ۔

ایک مرتبہ جمعہ کے دن شیخ محمد ظفر اللہ رحمہ اللہ صاحب صبح صبح ہوسٹل آئے اور کہا آج دمام جانا ہے لمبا سفر ہے جلدی تیار ہوجائیں ریاض سے تقریبا پانچ سو کلو میٹر کا فاصلہ ہے۔جب دمام کی مرکزی مسجد پہنچے تو پہلی مرتبہ اس مسجد میں تعاون کے لئے اعلان کیا گیا ہم لوگ مقامی لوگوںمیں تعاون کا جذبہ دیکھ کر ششدر رہ گئے۔ ایک سعودی شیخ محمد ظفر اللہ رحمہ اللہ کو گاڑی تک لے گیا اور دونوں ہاتھوں سے ڈگی کھولی جس سے پیسے نکال کر جھولی میں ڈال رہا تھا۔چونکہ چودھری صاحب کے پاس سعودی بڑے بڑے علمائے کرام کی طرف سے تصدیق نامے تھے اس لئے لوگ یقین کے ساتھ تعاون کرتے تھے کہ ہمارا پیسہ ضائع نہیں جائے گا۔

انوکھا واقعہ:

ایک دن اچانک ریاض سےحرمین جانے کا پروگرام بنایا کزن ساتھ تھے راستے میں مغرب کا وقت ہو گیا گاڑی خراب ہو گئی لائٹ بھی کام نہیں کر رہی تھی پولیس کی گاڑی آگئی انہیں بتایا کہ میں کراچی یونیورسٹی کا پروفیسر اور جامعۃ الامام کا طالب علم ہوں لمبی داڑھی، بارعب شخصیت ،سرپر جناح کیمپ اور شیروانی زیب تن تھی مرعوب ہوگئے گاڑی ورکشاب پر پہنچائی حالانکہ نہ گاڑی اپنی تھی اور نہ لائیسنس تھا نہ ہی گاڑی کے کاغذات ،کس طرح اللہ نے مدد کی ۔

ہر چیز کاٹتی ہے:

ایک دن ریاض اکٹھے سفر کر رہے تھے بتا رہے تھے کہ جس رات تہجد کی نماز نہیں پڑھتا ہر چیز کاٹتی ہے کسی بھی کام میں برکت نہیں ہوتی نماز کا جہاں بھی وقت ہو جاتا سب سے پہلے نماز ادا کرتے۔ ایک مرتبہ گرمیوں کا موسم تھا کراچی یونیورسٹی سے جامعہ ابی بکر آرہے تھے راستے میں لوگ لوٹ مار کر رہے تھے شیخ صاحب کو روکا اور پوچھا کہاں جا رہے ہو تو آپ نے بتایا نماز پڑھنے جا رہا ہوں تو کہنے لگے جاؤ۔

ایک غلطی کا ازالہ:

کم از کم دو دفعہ ہم نے خود ان سے سنا ہے کہ جب جامعہ کا پلاٹ خریدا تو بعض لوگ تعاون کرنے کے لئے تیار تھے اور بعض ہنسی مذاق بھی کر رہے تھے ۔ ایک دن چند ساتھیوں کو لے کر پلاٹ میں سے جھاڑیاں کاٹ رہے تھے اسی دن ساتھ ہی مدنی مسجد کا لینٹر ڈالا جا رہا تھا شیخ ثانی بن عبد اللہ رحمہ اللہ نے دیکھا لوگوں سے پوچھا کہ یہ کون لوگ ہیں بتایا گیا کوئی کراچی یونیورسٹی کا پروفیسر ہے۔لمبی داڑھی، اونچی شلوار،سر پر جناح کیپ شلوار اور قمیص پہنے دینی مدرسہ بنانا چاہتا ہے بلایا اور کہا کل مدرسہ کے کاغذات اور نقشے لے کر میرے پاس آجانا اس طرح چند دنوں کے بعد جامعہ کا تعمیر ی کام شروع ہو گیا ۔جزاھم اللہ خیراً کثیراً

مطبخ الیرموک کا قیام:

شیخ صاحب کی ہمیشہ کوشش تھی کہ جامعہ خود کفیل ہو اس لئے مکہ مکرمہ حرم مکی کے سامنے ایک ہوٹل کھولا گیا تاکہ اس کی آمدنی سے جامعہ کا نان و نفقہ چل سکے بعد میں حرم کو توسیع کرنے کے لئے حکومت کو منہدم کرنا پڑا۔

میرا جامعہ میں آنے کا سبب:

سعودیہ سے آنے کے بعد دوبارہ جانے کا پروگرام بنا یہاں کراچی شیخ محمد ظفر اللہ رحمہ اللہ سے ملاقات کی والد صاحب مرحوم میرے ساتھ تھے تو انہوں نے ہمیں سعودیہ جانے سے روک دیا کہ آپ ہمارے ساتھی ہیں نہ جائیں ہم ادھر مل کر کام کرتے ہیں چند دنوں کے بعدمہتمم جیسا اہم عہدہ دیاگیا۔

عظیم خدمت:

شیخ محمد ظفر اللہ رحمہ اللہ سعودیہ سے آتے ہی پنجاب چلے گئے معلوم ہوا کہ قرآن مجید ریکارڈ کرا رہے ہیں اس کام کے لئے عالم اور باعمل شخصیت کی ضرورت تھی تو حافظ محمد یحییٰ میر محمدی رحمۃ اللہ تعالیٰ کا انتخاب کیااور خود ان کے پاس مرکز البدر پھول نگر لاہور گئے حافظ صاحب کو اس شرط پر راضی کیا کہ آپ کو ہر اسلامی مہینے کا پہلا جمعہ پڑھانے کے لئے ہوائی جہاز کا ٹکٹ دیا جائے گا۔حافظ صاحب نے 1987میں اس کام کو شروع کیاجو کہ ڈاکٹر عبدالحسیب کی زیر نگرانی شروع ہوا اور دو سال کے اندر قرآن مجید کا ترجمہ و مختصر تفسیر ریکارڈ کیا گیا جو 45کیسٹ پر مشتمل تھا چالیس ہزار کیسٹ تیار کی گئی پاکستان کے علاوہ دوسرے ممالک میں بھی تقسیم کی گئیں۔

مختلف شہروں میں اس سیٹ کے ساتھ ایک ٹیپ اور الماری بھی دی گئی یہ پہلا ایسا موقعہ تھا جب قرآن مجید کو آسان اردو میں کیسٹ کی شکل میں پیش کیا گیا ۔

جب آبدیدہ ہو گئے:

سپر ہائی وے دنبہ گوٹھ مین ہائی وے روڈ پر الحمد اللہ جامعہ ابی بکر الاسلامیہ کی تقریباًنوے ایکٹر زمین ہے شروع میں وہاں سے پانی کا چشمہ بھی پھوٹا تھا اب بند ہو گیا ہے۔پروگرام بنایا گیا کیوں نہ وہاں جائیں کیونکہ شعبہ تحفیظ کی کلاسیں ادھر لگتی ہیں اورچیکو،بیر،امرود ،ناریل کے باغات اور ایک بڑی مسجد ہے ۔تحفیظ کے لیے کلاس رومز اور رہائش و کھانے کابھی انتظام ہے۔

کراچی یونیورسٹی کے بعض اساتذہ ،کیماڑی کے بعض پروفیسر ز ،ماڈل کالونی کے بعض حضرات ،جامعہ کے تمام طلبہ و اساتذہ کرام وہاں پہنچ گئے وہاں ایک نشست تھی اپنے اپنے زندگی کے حالات چند اشخاص نے تعارف کرایا لیکن شیخ صاحب کی باری آئی مختصر بتایا کہاں کہاں پڑھا اور کس طرح کراچی یونیورسٹی میں خدمت کا موقعہ ملا آخر میں بتا رہے تھے کتنے لوگ ایسے ہیں جومنصوبے بناتے بناتے اللہ کے ہاں چلے جاتے ہیں پایۂ تکمیل تک نہیں پہنچا سکتےمیرے رب کا مجھ پر اتنا کرم ہے کہ رات کو منصوبہ بناتا ہوں صبح کام شروع کر دیتا ہوں یہ کہہ رہے تھے کہ آبدیدہ ہو گئے بیٹھ گئے آگے بات کرنے کی ہمت نہ ہوئی۔

طلبہ سے محبت:

ظہر کے بعد جامعہ آئے دفتر سے نکلے ایک طالب علم رو رہا تھا داخلہ ہو گیا ہے دل نہیں لگ رہا جیب سے سو روپیہ نکال کر دیا اور تسلی دی ۔دوسرا طالب علم بھی رو رہا ہے کہ میرا داخلہ نہیں ہوا اس کو بھی سو روپیہ دیا اور کہا آپ کا داخلہ بھی ہوجائے گا۔ایک دن مہمان کے ساتھ باہر گئے آئس کریم کھانے کا موڈ بنا تو اس دوران وہاں سے گزرنے والے طلبہ کو بھی آئس کریم کھلائی ۔کوئی بھی طالب علم یا استاد راستہ میں مل جاتا تو اسے گاڑی میں اپنےساتھ بیٹھا لیتے پڑھائی ، کھانے اور رہائش کے بارے میں معلومات حاصل کرتے۔

جب بنگلہ لینے سے انکار کیا:

ایک سعودی تاجر کو گھر لے گئے وہ تاجر نامکمل اور جامعہ سے دور گھر دیکھ کر پریشان ہو گئے اور کہا میں آپ کو جامعہ کے قریب گھر لے کردیتا ہوں تو آپ نے کہا میرا گزارا ہو رہا ہے وہ پیسہ آپ جامعہ کو دے دیں۔

جذبہ دعوت و جہاد:

شیخ محمد ظفر اللہ رحمہ اللہ کی زبان میں تاثیر تھی فرمایا کرتے تھے آپ جب اورجہاں چاہیں میں تمام مسالک کے لوگوں کو یکجا کرسکتا ہوں کئی مرتبہ دیکھا کہ دوسرے مسالک کے لوگوںکو توحیدکا بیان کیا کرتے تھے یہی وجہ تھی ان کے اخلاص کی وجہ سے تمام مسالک کے لوگ ان کا احترام کیاکرتے تھے اور اسی عقیدہ کی وجہ سے شیخ الاسلام محمد بن عبد الوہاب رحمہ اللہ کی معروف کتاب “کتاب التوحید” چھپوا کرتقسیم کروائی تھی ۔

حکیم صاحب مسجد میں امام و خطیب تھے:

شیخ محمد ظفر اللہ رحمہ اللہ ناشتے میں آم کا آچار، رات کی روٹی اور پانی تناول کرتے۔ حکیم یعقوب طاہر حفظہ اللہ بتا رہے تھےکہ ایک دن بازار گئے کھانے کا وقت ہو گیاایک مائی کے تندور پر چلے گئے سادہ دال روٹی کھائی اور پیٹ بھر لیا۔جامعہ کا کھانا بالکل نہیں کھاتے تھے اگر کبھی مہمان کے ساتھ کھالیتے تو کیشئر کو پیسے جمع کرواتے۔

کتب سے محبت:

جب بھی سعودیہ جاتے اور کچھ لاتے یا نہ لاتے لائبریری کے لئے جدید مطبوعہ کتب ضرور لاتے۔ ان کی محنت اور کوششوں کا نتیجہ ہے کہ جامعہ کی لائبریری اتنی بڑی ہے کہ ہر مسلک کی کتب مل جاتی ہیں جوکہ تقریباً پچاس ہزار کے لگ بھگ ہیں ۔لائبریری میں کتاب جمع کرانے کے بعد رسید ضرور لیا کرتے تھے۔

عربی زبان سے محبت:

فرمایا کرتے تھے کوئی بھی درخواست لکھی جائے عربی میں ہونی چاہئے ۔

اقرباء پروری سے اجتناب:

کہا کرتے تھے یہ ادارہ جماعت مجاہدین کا ادارہ ہے کسی کی ذاتی ملکیت نہیں ۔اور اس حوالے سے کسی بھی عزیز کو ان کا یہی کہنا ہوتا تھا کہ میری آپ سے رشتہ داری جامعہ سے باہر ہے ۔حتی کے ایک مرتبہ صاحبزادے اپنے فرزند کا معاملہ مدیر تعلیم کےساتھ الجھ گیا توآپ نے کہا کہ خود آپ اس معاملے کو حل کریں میں دخل نہیں دوں گا۔ان کی زندگی میں جامعہ کے کسی بھی معاملے میں دخل دینے کی جرأت نہیں ہوتی تھی۔

قاہرہ کا سفر:

زندگی میں سب سے زیادہ خوشی کا موقعہ تھا جب مصرجانے کا پروگرام بنا وہاں سیر وسیاحت کے لئے نہیں جانا تھا بلکہ جامعہ کی نمائندگی کے لئے جانا تھا۔جامعہ کا نام بین الاقوامی دنیا کی مشہور ترین جامعات میں آگیا تھا جب وہاں پہنچے کئی ساتھیوں اور اساتذہ سے ملاقات ہوئی ویڈیوبنانے والے بار بار شیخ صاحب کی طرف کیمرہ کر رہے تھے کہ یہ ہے عظیم شخصیت جنہوں نے چند سالوں میں دین کا عظیم کام کیا ۔پوری اور لمبی داڑھی جناح کیپ شیروانی بارعب چہرہ شلوار و قمیص پہنے ہوئے تھے واپسی پر بہت خوش تھے۔

آخری عمرہ کی ادائیگی:

قاہر ہ سے واپسی پر عمرہ کا پروگرام بنا لیا اس سال لمبا عرصہ گزارا حتیٰ کہ مجیب الرحمن صاحب نے کہا ماما جی آپ کو ہر دفعہ جلدی ہوا کرتی تھی اس دفعہ کہہ رہے ہیں کہ سب کو سکون سے مل کر جانا ہے کیا معلوم تھا سبھی کہ یہ آخری ملاقاتیں ہیں۔

آخری دعوت:

ہر سال آموں کے موسم میں دعوت کیا کرتے تھے اس سال سپر ہائی وے کا پروگرام بنایا عبد اللطیف صاحب مصری سے کافی گپ شپ لگائی کبھی اتنے خوش دکھائی نہیں دیئے جتنے آخری دعوت میں تھے۔سعودیہ سے آتے ہی رشتہ داروں سے ملنے چلے گئے واپسی پر کوٹ سمابا رحیم یار خان میںگاڑی کا حادثہ ہو گیا ۔

انا للہ وانا الیہ راجعون
اللھم اغفرلہم وارحمہم

کوئی بھی کام کرنے کے لئے پوری جماعت ساتھ ہوتی ہے شیخ صاحب کو اللہ تعالیٰ نے ایسے ساتھی دیئے تھے جو تن من دھن قربان کر کے اخلاص کےساتھ چلے تھے۔چند اصحاب کا مختصر ذکر کر دینا ضروری سمجھتا ہوں۔

صوفی عبد اللہ رحمۃ اللہ علیہ ان کے خاص خدمت گزاروں میں شمار ہوتا تھا ۔کہا کرتے تھے ظفر اللہ، اللہ آپ سے دین کا عظیم کام لے گا ۔

حضرت غاز ی عبد الکریم رحمۃ اللہ علیہ ان کی جان تھے رئیس المجاہدین اور رئیس الجامعہ تھے سال میں کم از کم ایک ماہ ضرور اپنے پاس رکھتے اورخیر و برکت کی دعائیں کراتے۔

مولانا رضی اللہ رحمۃ اللہ علیہ آخری وقت تک جامعہ کے نائب مدیر رہے ہیں طبیعت کی ناسازی کی وجہ سے ان کا قیام مشکل ہوتا تھا۔

چودھری عبدالحفیظ رحمۃ اللہ علیہ شیخ صاحب کی وفات کے بعد جامعہ کے نظام کو چلاتے رہے۔بیماری کی وجہ سے اللہ کو پیارے ہو گئے۔

چودھری عبد الرحمن رحمہ اللہ ان کے خاص یعنی دایاں بازو تھے بے لوث خدمت کرتے تھے ریٹائر ہونے کے بعد ان کا زیادہ وقت جامعہ میں گزرتا تھا آخر تک خزانچی رہے ہیں ان کے صاحبزادے کا تعلق بھی جامعہ سے ہے۔

شیخ امین رحمہ اللہ خاص آدمیوں میں شمار ہوتے تھے حال ہی میں اللہ کو پیارے ہوئے ہیں بڑے تاجر تھے ان کی نگرانی میں چند سال پہلے وہ کام ہوئے جن کی اشد ضرورت تھی۔

حاجی قیام الدینؒ:جامعہ میں پانی کی اشد ضرورت تھی انہوں نے محنت اور دور دراز سے پانی کا بندوبست کیا رات ودن جامعہ کی ترقی کے لئے کام کرتے تھے۔

شاہدؒ صاحب: کوئی بھی جامعہ کا نقشہ تیار کروانا ہوتا شاہد صاحب کو ضرور بلاتے ان کا بھی حال ہی میں انتقال ہوتا ہے۔

انس صاحب : شیخ صاحب کے اہم لوگوں میں ان کا شمار ہے جامعہ کے امور حسابات کے نگران ہیں۔

مولانا عبد الرحمن: شیخ صاحب کے خاص ساتھیوں میں شمار ہوتا ہے جتنا اعتماد ان پر ہے شاید ہی کسی اور پر ہو مدتوں سے میس انچارج ہیں۔جامعہ کے اندر کوئی بھی ڈیوٹی دی جائے کبھی انکار نہیں کیا طلبہ سے ایسے محبت کرتے تھے جیسے ماں بیٹے سے محبت کرتی ہے۔شیخ صاحب کو ان کی موجودگی میں کوئی فکر نہیں ہوتی تھی۔

شیخ عبد الحنان صاحب آف کوئٹہ: جب بھی کوئٹہ جاتے شاہ صاحب سے ضرور ملاقات کرتے کئی مرتبہ ان کوپروگرام میں شریک کیا وہ بھی دل و جان سے جامعہ سے محبت کرتے تھے۔

ائمہ کرام سے بھی خاص محبت تھی جب بھی سعودیہ جاتے سبھی سے ملاقات کرتے۔

شیخ عبد اللہ بن سبیل جب بھی پاکستان آتے جامعہ میں تشریف لاتے بلکہ جامعہ کا سنگ بنیاد بھی انہوں نے ہی رکھا تھا۔

شیخ صالح الحصین رئیس حرمین ہیں خاص تعلقات تھے ان کو بھی دلی محبت تھی اس لئے ایک ماہ ادھر ٹھہرے بھی تھے۔

شیخ صاحب کے ساتھ جتنے بھی ساتھی تھے سب دل وجان سے محبت کرتے تھےاور اپنا تن من دھن قربان کر دینے والے تھے۔بعض اوقات ساتھیوں یعنی جامعہ کے عملہ کے ساتھ سخت گرم ہو جاتے ڈانٹنا پڑتا بعد میں اس سے زیادہ پیار کرتے جیسے ماں بچے کو ڈانٹ بھی لیتی ہے دوبارہ اس کو بوسے دینا شروع کر دیتی ہے۔

کہا کرتے تھے کام زیادہ ہے اور وقت کم ہے لیکن اللہ تعالیٰ نے جس سے جنتا کام لینا ہوتا ہے لیتے ہیں اس کے بعد اپنے پاس بلا لیتے ہیں ۔اللہ تعالیٰ ان کی لغزشیں معاف فرمائے ،غلطیوں سے درگزر کرے ،قبر کو منور فرمائے اورجنت الفردوس میں اعلیٰ مقام عطا کرے آمین یا رب العالمین۔اللہ تعالیٰ اگر پوچھیں گے کہ میرے لئے کیا کیا ہے تو کہہ دیں گے جامعہ ابی بکر الاسلامیہ کی شکل میں صدقہ جاریہ کا کام کیا ہےان شاء اللہ بخشش کے لئے کافی ہو گا اللہ تعالیٰ ہم سے بھی دین کا کام لے لیں۔ آمین یا رب العالمین

زندگی کیا ہے عناصر میں ظہور تربیت

موت کیا ہے انہی اجزاء کا پریشان ہونا

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے