اجارہ عربی زبان کا لفظ ہے اور یہ بڑے وسیع معنوں میں استعمال ہوتا ہے۔ مثلا زمین کو ٹھیکہ دینا اور مکان ودکان کو ٹھیکہ پر دینا بھی اجارہ ہے اور اسی طرح کوئی جانور گھوڑا وغیرہ اور کوئی سواری موٹر سائیکل، کار، وغیرہ کرایہ پر لینا دینا بھی اجارہ ہے اور کسی کو ایک معین مدت کے لئے مزدور رکھنا بھی اجارہ ہے۔

اجرت کے عوض کسی دوسرے کی خاطر محنت کرنے کو اسلام اس طرح کی قدر و منزلت کی نگاہ سے دیکھتا ہے کہ مزدور کی اجرت کو بلا کسی تاخیر اور بلا کسی تخفیف کے پوری پوری ادا کرنے کا حکم دیتا ہے۔

خود قرآن انسان کو اس عمل پر اکساتا ہے اور اسے نگاہوں کامرکز اور غور کا مقام قرار دیتا ہے۔

ارشاد ربانی ہے :

وَقُلِ اعْمَلُوْا فَسَيَرَى اللّٰهُ عَمَلَكُمْ وَرَسُوْلُهٗ وَالْمُؤْمِنُوْنَ

’’اور کہہ دیجئے کہ عمل کر کے دکھائو اللہ اور اسکا رسول اور مومنین تمہارے عمل کا جائزہ لیں گے۔‘‘(التوبہ: 105)

اس آیت کریمہ میں کام کو حسن و سلیقہ اور خوش اسلوبی سے انجام دینے پر ابھارا گیا ہے اور ایک دوسرے مقام پر عمل اور اسکی خاطر زمین میں چلنے پھرنے پر ابھارا گیا ہے۔

ارشاد خداوندی ہے۔ ’’فامشوا فی منا کبھا وکلوا من رزقہ‘‘ (سورۃ الملک آیت15)

اس کی اطراف میں چلو پھرو اور اللہ کا رزق کھاؤ

اور محنت کی فضیلت پر متعدد فرامین رسول اللہﷺ موجود ہیں۔

فرمان نبویﷺ ہے:

’’ان اللہ یحب العبد المومن المحترف‘‘

’’اللہ تعالی اس بندہ مومن کو عزیز رکھتا ہے جو کسی پیشے کے ذریعے اپنی روزی کماتا ہے۔‘‘ (اس حدیث کو امام قرطبی نے اپنی تفسیر میں نقل کیا ہے)

چاہے وہ پیشہ جو بھی ہو لیکن راستہ حلال ہونا چاہئے۔

اور دوسرے مقام پر ارشاد فرمایا :

ما اکل احد کم طعاما قط خیرا من عمل یدہ  

ترجمہ:۔ ’’اپنے ہاتھ کی کمائی والے کھانے سے بہتر تم نے کبھی کوئی کھانا نہ کھایا ہوگا۔‘‘(بخاری)

محنت کی قدر و منزلت اور اس کی بزرگی اور احترام کے اس نظریہ کی بنیاد پر اسلام مزدور کے حق اجرت کو ایک مقدس حق قرار دیتا ہے چنانچہ وہ سب سے پہلے اس کو ٹھیک ٹھیک ادا کرنے کی تلقین کرتا ہے اور جو کوئی محنت کشوں کا یہ حق دبانے کی کوشش کرے اسے اسلام ڈراتا ہے کہ ایسا کرنے والا دراصل اللہ سے لڑائی مول لیتا ہے اور اللہ کے خلاف اعلان جنگ کرتا ہے۔ سیدنا ابوھریرہ فرماتے ہیں: قال رسول اللہﷺ قال اللہ عزوجل ثلاثہ انا خصمھم یوم القیامۃ رجل اعطی بی ثم غدر ورجل باء حُرًا فاکل ثمنہ ورجل استاجرا اجیرا فاستوفی منہ ولم یعطہ اجرہ

امام کائناتﷺ نے بتایا ہے کہ اللہ تعالی فرماتا ہے تین طرح کے لوگ ایسے ہی کہ قیامت کے دن ان سے نپٹنے والا خود میں ہوں گا ایک وہ شخص جس نے میری قسم کھا کر کسی کو زبان دی اور پھر اپنے وعدے سے مکر گیا دوسرا وہ شخص جس نے کسی آزاد شخص کو بیچ کر اس کی قیمت کھا جائے اور تیسرا وہ شخص جس نے کسی مزدو رکو اجرت پر بلایا ہو اور اس سے پورا کام لینے کے بعد بھی اسے اسی مزدوری نہ دے۔(بخاری کتاب الاجارات)

جبکہ دوسرے مقام پر ارشاد نبوی ہے:

اعطوا لاجیر حقہ قبل ان یجف عرقہ

’’مزدور کو اس کی مزدوری پسینہ خشک ہونے سے پہلے ادا کرو۔‘‘ (مصابیح السنہ فی الصحاح)

اجرت کی یہ قدر و منزلت تھی جو اسلام محنت کش مزدور کو عنایت کرتا ہے۔

اب جائزہ لیتے ہیں موجودہ دو رکے مزدوروں اور سرمایہ داروں کا۔ وہ ایک وقت تھا کہ جب مزدور کو مظلوم تصور کیا جاتا تھا کیونکہ وہ کمزور اور ضرورت مند تھا لہذا اس کا استحصال کیا جاتا او سرمایہ دار کو ظالم گردانہ جاتا تھا۔ مگر انقلاب روس کے بعد یہ صورت حال بالکل بدل گئی مزدوروں نے عالمی سطح پر منظم ہونا شروع کیا اور ایک چھوٹے سے کاروباری یونٹ سے لیکر بڑے کارخانے تک مزدوروں نے اپنی انجمنیں تشکیل دے دیں اور اس اجتماعی طاقت کے بل بوتے پر ان سرمایہ داروں کو ناک چنے چبوائے اور بعض اوقات ان کے کروڑوں کے کاروبار کو پیوند خاک کر کے بھی دکھایا جس کی وجہ پرانے مظالم کا بدلہ چکانا تھی اس غیر مناسب صورت کا علاج کرنے اور سرمایہ دار اور محنت کش کے تنازعہ کا حل نکالنے اور آجر اور اجیر کی سنگینی کو محسوس کرتے ہوئے انسانی بستی کے دانائوں اور ماہرین معاشیات نے کوشش کر کے اقوام متحدہ کی زیرنگرانی ایک عالمی ادارہ محنت International Labour Organization کا قیام وجود میں لایا گیا جس کے تیار کردہ قوانینِ محنت اس وقت دنیا کے تمام ممالک مسلم اور غیر مسلم میں نہ صرف رواج پذیر ہیں بلکہ انھیں قانونی درجہ بھی حاصل ہے۔

مگر اسلام! دین فطرت کا قانون محنت و اجرت جسے اللہ کریم نے آجر و اجیر کے تعلقات کو محبت، انسانی برادری اور برابری پر استوار کرنے کے لئے اتارا اور آج بھی مالک اور مزدور کے تنازعہ کے حل کی بنیاد اخوت اور بھائی چارہ پر مبنی ہے اور اگر آج کے دور میں بھی سرمایہ دار اور مزدور کے تنازعہ کی اصل وجہ آپ شمار کرنا چاہیں تو آپ کو ایسے سرمایہ دار ملیں گے جو بالخصوص معاشی فکر میں پلے بڑھے ہوں اور ماہرین معاشیات بھی وہ ملیں گے (جنہیں علاج سے زیادہ مرض سے دلچسپی ہوتی ہے) جب ہمارے سرمایہ دار اور ماہر معاشیات ایسے افراد ہوں تو پھر تنازعہ کی وجہ کی ایک لمبی فہرست ہم تیار کر سکتے ہیں۔ اور اگربنظر عمیق جائزہ لیا جائے تو یہ تمام وجوہ تنازعات اور ان سے پیدا شدہ اثرات صرف ایک ہی وجہ پر مبنی ہیں اور وہ ہے خیر خواہی کے جذبہ سے عاری ہونا اور خود غرضی سے لبریز ذہنیت جو آج کے سرمایہ دار اور مزدور دونوں میں موجود ہے حالانکہ اسلام نے آقا اور مزدور کے درمیان تعلقات کی خوشگواری کے لئے کچھ قوانین مقرر کیے ہیں۔

مزدور کے حقوق:

آقا اور غلام، مالک اور مزدور، زمیندار اور جاگیر دارو کسان وغیرہ ان سب انواع میں ایک بات مشترک یہ پائی جاتی ہے کہ آقا یا مالک اپنے آپ کو برتر اور فریق ثانی کو کمتر سمجھتا ہے اور یہی تصور اسے فریق ثانی پر طرح طرح کی زیادتیوں پر دلیر بنا دیتا ہے اور اسلام نے اسی برتری کے تصور پر کاری ضرب لگائی ہے اور ان کے حقوق متعین کیے چنانچہ فرمان نبوی ہے:

اخوانکم خولکم جعلھم اللہ تحت ایدیکم فمن کان اخوہ تحت یدہ فلیطعمہ مما یا کل ولیلبسہ مما یلبس ولا تکلفوھم ما یغلبھم فان کلفتموھم فاعینوھم

ترجمہ: ’’تمہارے خادم، ملازم، مزدور اور غلام تمہارے بھائی ہیں لہٰذا تم میں سے جس کے قبضے میں اس کا کوئی بھائی ہو تو اس کو ویسا ہی کھلائے اور پہنائے جیسا وہ خود کھاتا، اور پہنتا ہے اور اسکو کوئی ایسا کام کرنے کو نہ کہے جس کے کرنے کی وہ استطاعت نہ رکھا ہو اور کبھی ایسا کام کرنے کو کہے بھی تو خود اسکا ہاتھ بٹائے۔‘‘(بخاری کتاب الایمان باب المعاصی من المور الجاہلیۃ)

مزدور کے حقوق کا تحفظ:

سیدنا ابو ذرغفاری رضی اللہ عنہ جس پایہ کے صحابی تھے وہ سب جانتے ہیں آپ السابقون الاولون میں سے تھے امام کائنات کو سیدنا ابو ذررضی اللہ عنہ سے خصوصی محبت اور پیار تھا آپ انتہا درجے کے قناعت پسند اور زائد از ضرورت مال اپنے پاس رکھنا حرام سمجھتے تھے۔

سیدنا معروررضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ میں ربذہ میں ابو ذر سے ملا وہ ایک سوٹ پہنے ہوئے تھے اور انکا غلام بھی ویسا ہی سوٹ پہنے ہوئے تھا تو میں نے ان سے اس کی وجہ دریافت کی تو انہوں نے جواب دیا کہ میں نے ایک شخص سے گالی گلوچ کی اور اس کو ماں کی گالی دی تو،امام کائناتﷺ نے مجھ سے فرمایا: یا اباذر عیرتہ بامہ انک امرء فیک امرالجاھلیۃ

ترجمہ:۔ ’’اے ابو ذر تو نے اسے (سیدنا بلال کو) اسکی ماں سے عار دلائی ہے تو ایسا شخص ہے جس میں ابھی تک جاہلیت کا اثر باقی ہے۔(بخاری کتاب الایمان باب المعاصی۔۔)

یہ شخص سیدنا بلال رضی اللہ عنہ تھے اور سیدنا ابوذر رضی اللہ عنہ نے جو ماں کی گالی دی تھی وہ صرف یہ تھی انہوں نے کہا تھا اے کالی ماں کے کالے بیٹے اور جب امام کائنات نے عتاب فرمایا تو سیدنا ابوذر رضی اللہ عنہ نے سیدنا بلال رضی اللہ عنہ سے معافی مانگی اور اپنا گال زمین پر رکھ کہ کہنے گلے کہ اس وقت تک گال نہ اٹھائوں گا جب تک بلال رضی اللہ عنہ اپنے پائوں سے نہ روندیں۔

معاشی حقوق کا تحفظ:

رسول مکرمﷺ کا ارشاد مبارک اتنا مشہور ہے کہ ہر مزدور کو اگر اس کے عربی الفاظ یاد نہ بھی ہوں تو مفہوم ضرور یاد ہوتا ہے ’’اعطوا الاجیر الاجر قبل ان یجف عرقہ‘‘ (ابن ماجہ کتاب البیوع باب اجر الاجیر)

اور یہ ارشاد مبارک اکثر کارخانوں اور فرموں میں آویزاں بھی ہوتا ہے۔

مزدور کی ذمہ داریاں:

مالک کا احترام: آقا و غلام یا مالک و مزدور اور ملازم کی معاشرتی سطح برابر کرنے کا یہ مطلب ہر گز نہیں ہے کہ اسلام نے فرق و مراتب کو ختم ہی کر دیا ہے۔ مراتب کا فرق بہرحال بدستور باقی رہے گا اس کی مثال یوں سمجھئے کہ والدین اور اولاد کی معاشرتی سطح تو پہلے ہی ایک ہوتی ہے پھر والدین کو اپنی اولاد سے حسن سلوک کا حکم بھی دیا گیا ہے تو اس کا یہ مطلب نہیں کہ اب والدین اور اولاد ہر لحاظ سے ایک سطح پر آگئے ہیں بلکہ دوسری طرف اسلام نے اولاد کو اپنے والدین کے ادب و احترام ان کی خدمت اور ان سے حسن سلوک کی انتہائی تاکید فرمائی یہی صورت حال ہمارے زیر بحث مسئلہ میں بھی ہے فرق و مراتب کا لحاظ رکھنے کے متعلق اسلام نے ایک عام اصول دیا ہے ’’ لَيْسَ مِنَّا مَنْ لَمْ يَرحمُ صَغيرَنا ولَمْ يَعرِفْ شَرَفَکبيرِنا‘‘(سنن ابی داؤد1920)

کام چوری اور سینہ زوری سے اجتناب:

جس طرح طے شدہ معاوضہ کے مقابلے میں کام چوری گناہ اور زیادتی کا کام ہے بالکل اسی طرح محنت کے مقابلہ میں مالک سے زیادہ اجرت کا مطالبہ کرنا اور اسے اس مطالبہ کو تسلیم کرنے پر مجبور کرنا بھی زیادتی ہے دور فاروقی کا ایک واقعہ ہے کہ سیدنا مغیرہ بن شعبہ کا ایک غلام ابو لؤ لؤ فروز نامی تھا جو ایک ماہر صناع (کاریگر) تھا اس نے سیدنا عمر کے پاس اپنا مقدمہ پیش کیا کہ میرے مالک (سیدنا مغیرہ) نے مجھ پر یومیہ ادائیگی زیادہ عائد کر رکھی ہے آپ کم کرا دیجئے سیدنا عمر نے پوچھا کہ تمہاری یومیہ ادائیگی کیا ہے تو اس نے جواب دیا دو درہم روزانہ پھر آپ رضی اللہ عنہ نے پوچھا کہ تم کیا کچھ کام جانتے ہو؟ اس نے کہا نجاری، نقاشی اور آہن گری جانتا ہوں آپ نے فرمایا تمہاری مہارت کے مقابلہ میں یہ ادائیگی کچھ زیادہ نہیں ہے اور اس کا مقدمہ خارج کر دیا۔ (الفاروق شبلی نعمانی ص177)

آج بھی اگر غور کیا جائے تو ان تمام مسائل کا حل وہی ہے جو کہ اسلام نے پیش کیا ہے یعنی مسائل کے حل کا زیادہ تر انحصار اخلاقیات پر رکھا ہے اور اخلاق کی پاکیزگی اور عمدگی کے لئے تقوی کی ضرورت ہے لہٰذا ضرورت اس امر کی ہے کہ اسلامی تعلیمات کو عام کیا جائے اور لوگوں کے اندر ایک ایمانی جذبہ پیدا کیا جائے۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کو عمل کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے