اسلامی اخوت کا ایک اہم اور مثالی مظہر مواخات ہے جس کا تذکرہ سیرت کی عام کتب میں ملتا ہے۔ عام طور پر مواخات کا ذکراس انداز سے کیا جاتا ہے کہ یہ محض انصار و مہاجرین کے درمیان بھائی چارا پیدا کرنے کے لئے کیا گیا تھا جس کے نتیجہ میں ان دونوں طبقوں کے درمیان گہرا رشتہ ا خوت استوار ہو گیا تھا۔ ہمارے بعض سیرت نگار حضرات نے اس کے معاشی پہلو کی طرف بھی اشارہ کیا ہے جسے رسول اللہ ﷺ نے عمل مواخات میں ملحوظ رکھا تھا۔

لیکن اگر مواخات کا بنظرغائر مطالعہ کیا جائے اور ان حالات و اسباب کے پس منظر میں اس پر سوچ بچار کی جائے جن میں یہ عمل وجود پذیر ہوا تھا تو اور بہت سے دوسرے پہلو بھی اجاگر ہوتے ہیں جن سے اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ رسول اللہﷺ کی فکر و بصیرت میں کس قدر وسعت و گہرائی تھی۔

رسول اللہ ﷺ کی زندگی میں مواخات کا عمل دو مرتبہ پیش آیا(١)۔ پہلی مرتبہ مواخات مکہ مکرمہ میں کرائی گئی، یہ مواخات ان لوگوں کے درمیان کرائی گئی تھی جو اسلام قبول کر چکے تھے، ان میں زیادہ تر لوگ مکہ مکرمہ ہی کے رہنے والے تھے لیکن کچھ ایسے حضرات بھی تھے جو حبشہ، فارس اور دیگر دور دراز علاقوں سے تعلق رکھتے تھے۔

مکی زندگی میں جن لوگوں نے اسلام قبول کیا تھا خواہ ان کا تعلق سرزمین مکہ سے تھا یا بیرون مکہ سے، وہ مختلف قبائل اور گھرانوں کے ایک ایک دو دو افراد تھے۔ ان میں صاحب ثروت بھی تھے اور غریب و نادار بھی، قریش جیسے سیاسی و معاشی طور پر مستحکم قبیلہ کے لوگ بھی تھے اور دیگر نسبتا کمزور قبائل کے لوگ بھی تھے چونکہ وہ مختلف قبائل کے اکاد کا لوگ تھے اس لیے انہیں حلقہ اسلام میں داخل ہونے کے خمیازہ کے طور پر اپنے ہی خاندان کی دشمنی مول لینا پڑی تھی۔ اپنے گھر والے ہی منہ موڑ لیتے تھے اور رشتہ دار اور احباب نہ صرف قطع تعلق کر لیتے بلکہ سخت رد عمل کا مظاہرہ کرتے ہوئے ان کے خلاف ظالمانہ کاروائیاں کرنے لگتے تھے۔ قبائلی نظام میں خاندان کی سرپرستی اور ضمانت کی بڑی اہمیت ہوتی ہے۔ یہ سرپرستی اور تحفظ کی ضمانت ختم ہوجائے تو اس سے جو خلا پیدا ہوتا ہے یا عدم تحفظ کا جو احساس ابھرتا ہے وہ بہت سے معاشرتی مسائل پیدا کرتا ہے۔ اس صورت حال میں یہ لوگ اپنے آپ کو تنہا محسوس کرنے لگے تھے۔ مصائب و ابتلاء کے دور میں یہ احساس شدت سے ابھر رہا تھا کہ کوئی ان کا قریبی دوست ایسا ہوتا جس سے وہ حال دل کہہ سکیں، کوئی ایسا شریک غم ہوتا جس کے سامنے اپنے غم کو ہلکا کر سکیں۔ خونی رشتوں کے منقطع ہوجانے کی وجہ سے جس انس و محبت اور تعلق کے فقدان کا احساس ہو رہا تھا وہ کسی طرح ختم ہو جائے۔

یہ ایک معاشرتی مسئلہ تھا جسے حل کرنا ضروری تھا۔ اس کے ساتھ ایک دوسرا مسئلہ بھی درپیش تھا جو اس سے بھی زیادہ اہم تھا۔ وہ مسئلہ ان غلاموں کی تعلیم و تربیت کا تھا جو اسلام قبول کر کے مسلم معاشرہ کا حصہ بن گئے تھے لیکن علمی اور فکری طور پر بہت پیچھے تھے ان کی ذہنی سطح بھی بہت پست تھی۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ انہیں معاشرہ میں کبھی بھی انسانیت کے مقام پر فائز نہیں سمجھا گیا تھا، نہ انہیں کبھی ایسے مواقع ہی مہیا کیے گئے تھے جس میں وہ علم و تربیت کی طرف متوجہ ہو سکتے۔

رسول اللہﷺ چاہتے تھےکہ غلاموں کی تمام صلاحیتوں کو اجاگر کر کے انہیں معاشرہ میں انسانیت کے قابل احترام مقام پر لایا جائے، تاکہ ان کی ان صلاحیتوں سے معاشرہ کو استفادہ کا موقع ملے جو اللہ تعالی نے ان میں ودیعت کر رکھی ہیں۔

رسول اللہﷺ نے ان دونوں مسائل کو حل کرنے کے لئے اسلام قبول کرنیو الے بھائیوں کے درمیان مواخات کرائی۔

محمد بن حبیب (م ٢٤٥ھ) نے مکہ مکرمہ کی مواخات کا تذکرہ کرتے ہوئے لکھا ہے کہ اخی بینھم علی الحق والمواساۃ وذلک بمکہ کہ رسول اللہﷺ نے باہمی ہمدردی و تعاون کی بنیاد پر مواخات کرائی اور یہ مکہ مکرمہ میں وقوع پذیر ہوئی تھی۔ (۲)

یہ مواخات مندرجہ ذیل افراد کے درمیان کرائی گئی:

سیدناحمزہ بن عبدالمطلب رضی اللہ عنہ او زید بن حارثہ رضی اللہ عنہ (رسول اللہﷺ کے آزاد کردہ غلام) کے درمیان۔

سیدنا ابو بکر رضی اللہ عنہ اورسیدناعمر بن الخطاب رضی اللہ عنہ کے مابین۔

سیدناعثمان رضی اللہ عنہ اور سیدنا عبد الرحمان بن عوف رضی اللہ عنہ کے درمیان۔

سیدنا زبیر بن عوام رضی اللہ عنہ اور سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کے درمیان۔

سیدنا عبیدہ بن الحارث رضی اللہ عنہ اورسیدنا بلال بن رباح رضی اللہ عنہ کے مابین۔

سیدنا مصعب بن عمیر رضی اللہ عنہ اور سیدنا سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ کے مابین۔

سیدنا ابو عبیدہ بن الجراح رضی اللہ عنہ اور سیدنا سالم الموالی ابی حذیفہ رضی اللہ عنہ کے درمیان۔

سیدناسعید بن زیدرضی اللہ عنہ اور سیدنا طلحہ بن عبیداللہ رضی اللہ عنہ کے مابین۔(۳)

اس موقع پر سیدناعلی رضی اللہ عنہ نے رسول اللہ ﷺ سے عرض کیا کہ یا رسول اللہﷺ آپ نے ان لوگوں کے درمیان تو مواخات کرادی، میں رہ گیا ہوں، میرا بھائی کون ہوگا؟ اس پر آپ ﷺنے فرمایا کہ میں تمہارا بھائی ہوں۔(۴) سیدناعلی تو پہلے ہی سے رسول اللہﷺ کے ساتھ رہتے تھے اور آپﷺ ہی ان کی کفالت فرمایا کرتے تھے اس لیے شاید آپﷺ نے ان کے لیے یہ ضرورت محسوس نہ کی ہو، بہر حال یہ فرما کر کہ میں تمہارا بھائی ہوں سیدنا علی رضی اللہ عنہ کی دلجوئی فرمائی۔

دوسری مرتبہ مواخات مدینہ منورہ میں ہجرت کے تقریبا پانچ ماہ بعد انصار و مہاجرین کے مابین کرائی گئی۔ اس مواخات کا آغاز سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ کے گھر سے ہوا۔ سیدنا انس کے گھر پر جو مواخات منعقد ہوئی اس میں ان انصار و مہاجرین کو آپس میں بھائی بھائی بنایا گیا جو اس وقت وہاں موجود تھے۔ بعد میں بھی یہ سلسلہ جاری رہا چنانچہ جو لوگ ہجرت کر کے مدینہ منورہ آتے رسول اللہﷺ کسی نہ کسی انصاری کا بھائی بنا دیتے۔ مورخین اور سیرت نگار پنتالیس اور پچاس مہاجرین کا ذکر کرتے ہیں جنہیں اتنے ہی انصار کے ساتھ اس رشتہ میں وابستہ کر دیا گیا، اس طرح تقریبا پچاس مہاجر خاندان پچاس انصار خاندانوں کے ساتھ رشتہ مواخات میں منسلک ہو گئے۔

بظاہر ایسا معلوم ہوتا ہے کہ پنتالیس یا پچاس مہاجرین اور پنتالیس یا پچاس انصار وہ تھے جن کے درمیان اجتماعی طور پر سیدناانس بن مالک رضی اللہ عنہ کے گھر میں مواخات کرائی گئی گھی۔ بعد میں اکادکا خاندان آتے رہے اور ان کے درمیان بھی یہ عمل کرایا جاتا رہا، اس لیے کہ تاریخ و سیرت کی کتب میں اس سے کہیں زیادہ اسمائے گرامی ملتے ہیں جن کے مابین مواخات کرائی گئی تھی۔

ابن ہشام نے سولہ مہاجرین اور سولہ انصار کے ناموں کا تذکرہ کیا ہے۔ (۵)

بلا ذری نے انساب الاشراف میں بائیس انصار اور بائیس مہاجرین کے ناموں کا ذکر کیا ہے۔ البتہ وہ بعض مورخین کی اس رائے کا ذکر بھی کرتے ہیں کہ انصار و مہاجرین میں کوئی بھی ایسا نہیں بچا تھا جو سلسلہ مواخات میں منسلک نہ کر دیا گیا ہو۔(۶)

یہ رائے زیادہ صائب معلوم ہوتی ہے، اس لیے کہ جن مقاصد کے حصول کے لیے مواخات کرائی گئی تھی ان کے لیے سب ہی کا اس میں شریک ہونا ضروری تھا۔

سیرت نگاروں اور مورخین نے ان انصار و مہاجرین کے ناموں کو جمع کیا ہے۔ ابن حبیب نے چھپن انصار اور چھپن مہاجرین کے نام ذکر کیے ہیں۔ (۷)

ابن سید الناس نے پنتالیس انصار اور پنتالیس مہاجرین کے ناموں کا احاطہ کیا ہے۔(۸)کچھ ناموں میں اختلاف بھی پایا جاتا ہے۔ اگر تمام ناموں کو اکھٹا کیا جائے تو تقریبا پینسٹھ انصار اور پینسٹھ مہاجرین کے اسمائے گرامی ملتے ہیں۔ اس طرح کل ایک سو تیس انصار و مہاجرین کے ناموں کو مورخین نے محفوظ کیا ہے جن کے درمیان مواخات کرائی گئی۔ اہل علم کی دلچسپی کے لئے کچھ مشہور صحابہ کرام کے اسمائے گرامی دیے جارہے ہیں:

١: سیدنا ابو بکر صدیق — سیدنا خارجہ بن زید بن ابی زہیر

٢: سیدنا عمر فاروق — سیدنا عتبان بن مالک

٣: سیدنا عبدالرحمن بن عوف–سیدنا سعد بن الربیع

٤: سیدنا عثمان بن عفان–سیدنا اوس بن ثابت

٥: سیدنا ابو عبیدہ بن الجراح–سیدنا سعد بن معاذ

٦: سیدنا زبیر بن العوام –سیدنا سلمہ بن سلامہ

٧: سیدنا مصعب بن عمیر– سیدنا ابو ایوب خالد بن زید

٨: سیدنا عمار بن یاسر– سیدنا حذیفہ بن الیمان

٩: سیدنا ابو حذیفہ بن عتبہ– سیدنا عباد بن بشر

١٠: سیدنا بلال بن رباح–سیدنا ابو رویحہ عبداللہ بن عبدالرحمن الخشعمی

١١: سیدنا عبیدہ بن الحارث بن المطلب–سیدنا عمیر بن الحمام اسلمی

١٢: سیدنا سلمان الفارسی–سیدنا ابو الدرداء

١٣: سیدنا سعد بن ابی وقاص–سیدنا سعد بن معاذ

١٤: سیدنا عثمان بن مظعون– سیدنا ابو الہیثم بن التہان

١٥: سیدنا ارقم بن الارقم–سیدنا طلحہ بن زید بن سہل

١٦: سیدنا علی بن ابی طالب–سیدنا سہل بن حنیف

١٧: سیدنا زید بن الخطاب–سیدنا معن بن عدی

١٨: سیدنا عمر و بن سراقہ– سیدنا سعد بن زید

١٩: سیدنا عبداللہ بن مظعون– سیدنا قطبہ بن عامر

٢٠: سیدنا شماع بن وھب          –سیدنا اوس بن خوالی

٢١: سیدنا عبداللہ بن جحش — سیدنا عاصم بن ثابت بن ابی افلح

٢٢: سیدنا ابو سلمہ بن عبدالاسد– سیدنا سعد بن خیشمہ

٢٣: سیدنا طفیل بن الحارث –سیدنا مقدر بن محمد

٢٤: سیدنا سالم مولی ابی حذیفہ–سیدنا معاذ بن ماعص

٢٥: سیدنا خباب بن الارت–سیدنا جبار بن صحر

٢٦: سیدنا صہیب بن سنان– سیدنا حارث بن الصمہ

٢٧: سیدنا عامر بن ربیعہ الغزی–سیدنا یزید بن المقدر

٢٨: سیدنا سعید بن زید بن عمرو– سیدنا رافع بن مالک

٢٩: سیدنا وھب بن سرخ          –سیدنا سوید بن عمرو

٣٠: سیدنا معمر بن الحارث–سیدنا معاذ بن عفراء

٣١: سیدنا عمیر بن ابی وقاص– سیدنا عمر بن معاذ

٣٢: سیدنا زید بن حارثہ–سیدنا اسید بن حضیر

رضی اللہ عنہم اجمعین

مسلمان کے اجتماعی مسائل کے حل کے سلسلہ میں رسول اللہ ﷺکی زندگی میں تین اصول نمایاں طور پر نظر آتے ہیں، باقاعدہ منصوبہ بندی، ترجیحات کا تعین اور حصول مقاصد کے لیے عملی جدوجہد۔ مواخات کا عمل بھی آپ کی منصوبہ بندی کا حصہ تھا اور ہجرت کے بعد ترجیحات میں سرفہرست تھا۔ مدینہ منورہ تشریف لانے کے بعد سب سے اہم مسائل مدینہ منورہ کا دفاع اور مہاجرین کی آبادکاری تھے۔ دفاعی سلسلہ میں رسول اکرمﷺ نے جہاں اور بہت سے اقدام کیے ان میں ایک اہم قدم امت مسلمہ کی وحدت اور یکجہتی بھی تھا۔

ہجرت سے قبل مدینہ منورہ خانہ جنگی کا شکار تھا، شہر مدینہ جو چھوٹی چھوٹی بہت سی آبادیوں کا مجموعہ تھا۔ مختلف جنگی قبائل میں بٹا ہوا تھا۔ یہاں کی باہمی جنگوں میں عبداللہ بن اُبی بن سلول نے اپنے آپ کو کسی حد تک غیر جانب دار رکھ کر اس بات کے لیے راہ ہموار کر لی تھی کہ مدینہ منورہ کے عرب و یہودی قبائل اسے اپنا لیڈر تسلیم کر لیں اور اسے مدینہ کا حکمران مان لیں تاکہ وہ اس خطہ میں امن قائم کرے۔ کچھ قبائل جو خانہ جنگی سے تنگ آئے ہوئے تھے، اسے حکمران بنانے پر تیار ہو گئے تھے۔ چنانچہ عبداللہ بن اُبی نے اپنی تاج پوشی کے لیے تیاریاں بھی شروع کر دی تھیں۔ ہجرت کی وجہ سے اس کا حکمرانی کا خواب شرمندہ تعبیر نہ ہو سکا۔ شاید اسی وجہ سے عبداللہ بن اُبی کا رویہ شروع سے معاندانہ رہا۔ وہ کھل کر ظاہر طور پر تو رسول اللہﷺ اور مسلمانوں کی مخالفت نہ کر سکا لیکن خفیہ طور پر امت مسلمہ کو نقصان پہنچانے کا کوئی موقع اس نے ہاتھ سے جانے نہیں دیا۔

مہاجرین جب مکہ مکرمہ سے ہجرت کر کے مدینہ منورہ آئے تو انصار اور مہاجرین میں جو تہذیبی فرق تھا عبداللہ بن اُبی اس سے فائدہ اٹھانا چاہتا تھا۔ مکہ مکرمہ سے آنے والے مہاجرین کا تعلق عدنانی عربوں سے تھا۔ یہ لوگ مکہ مکرمہ اور حجا زکے صحرائی علاقوں میں آباد تھے۔ ان کی تمام عادات و اطوار میں صحرائی اقوام کے اثرات تھے۔ صحرا کی آزاد اور بدویانہ زندگی کے یہ لوگ دلدادہ تھے، ان کی تہذیب و تمدن اور رسوم و رواج میں صحرائی تہذیب ہی رچی بسی ہوئی تھی۔ صحرا کی آزادانہ زندگی کے ساتھ ہی اہل مکہ نے اپنا شہری نظام وضع کر لیا تھا اور معاش کے لیے تجارت اور شکار پر بھروسہ کرتے تھے۔ تجارت کو انہوں نے زیادہ بہتر طور پر منظم کر لیا تھا۔

انصار میں زیادہ تر اوس اور خزرج کے قبائل سے تعلق رکھنے والے لوگ تھے۔ یہ افراد صدیوں سے زراعت پیشہ چلے آرہے تھے۔ مدینہ منورہ میں آباد ہونے سے قبل یہ لوگ یمن میں آباد تھے۔ وہاںبھی زراعت اور کاشت کاری ہی ان کا پیشہ تھا۔ یمن میں آباد عربوں نے زراعت میں بہت ترقی حاص کر لی تھی۔ انہوں نے اپنی زمینوں کی آباد کاری کے لیے ایک عظیم الشان بند تعمیر کیا تھا جو تاریخ میں سدمآرب کے نام سے مشہور ہے۔ پانی کی کثرت اور زرخیر زمینوں کی وجہ سے یہ لوگ خوشحال تھے۔ قرآن حکیم میں بھی ان کی خوشحالی اور زراعت کی طرف سے اشارہ اور ان کے تعمیر کردہ بند مآرب کا تذکرہ ملتا ہے۔ یہ بند بعد میں ایک طوفانی سیلاب سے تباہ ہو گیا تھا جس کی وجہ سے زبردست سیلاب آیا اور اہل یمن کے بہت سے زراعت پیشہ لوگوں کو ترک وطن کرنا پڑا۔ یہ لوگ یمن سے نکلے تو ایسی جگہوں پر جا کر آباد ہوئے جہاں زمینیں قابل کاشت تھیں اور آپ پاشی کے لیے پانی موجود تھا۔ ان میں کچھ لوگ مدینہ منورہ آکر آباد ہوگئے اور یہاں زراعت میں مصروف ہو گئے۔ ان لوگوں کی تہذیب و ثقافت میں متمدن اور متمول قومون کے اثرات تھے۔ ان کی تہذیب زرعی تہذیب تھی جو صحرا کی تہذیب و تمدن سے مختلف تھی۔ مدینہ منورہ میں ہجرت کے بعد ان دو تہذیبوں کا اجتماع ہو گیا تھا۔ ایک صحرائی تہذیب تھی تو دوسری کا تعلق زرعی تہذیب سے تھا۔ عبداللہ بن اُبی اور اس کے معاونین اس تہذیبی اختلاف سے ناجائز فائدہ اٹھانا چاہتے تھے۔

رسول اللہﷺ نے مدینہ منورہ تشریف لانے کے بعد اسلامی معاشرہ کی تشکیل کے لیے جو منصوبہ بندی فرمائی تھی اس کا ایک حصہ یہ تھا کہ انصار و مہاجرین کے مابین اس تہذیبی اختلاف کو جلد از جلد ختم کیا جائے، اور کسی گروہ کو یہ موقع نہ دیا جائے کہ وہ اس اختلاف سے کوئی ناجائز فائدہ اٹھائے۔ چنانچہ مواخات کے عمل کا ایک مقصد یہ بھی تھا کہ انصار و مہاجرین مل جل کر ایک ساتھ رہیں، ایک دوسرے کو اچھی طرح سمجھیں اور ایک دوسرے کی اچھی عادات و اطوار کو اپنائیں۔ رسول اللہﷺ نے تعلیم و تربیت کے ذریعہ سے ان حضرات کا عقیدہ اس قدر مضبوط کر دیا کہ اس کی بنیاد پر ایک نئی تہذیب وجود میں آنے لگی اور انصار و مہاجرین کے مابین تہذیبی اختلاف بتدریج ختم ہو گیا۔ عبداللہ بن اُبی اور اس کے گروہ کے علاوہ یہودی بھی اس کوشش میں لگے رہتے تھے کہ کسی طرح مسلمانوں کے درمیان باہمی نسلی تعصب کو ابھار کر یا مقامی اور غیر مقامی کا مسئلہ اٹھا کر ایک دوسرے سے لڑادیا جائے۔ لیکن منافقین اور یہودیوں کی یہ کوششیں کامیاب نہ ہو سکیں، اس لیے کہ رسول اللہﷺ نے اس چیز کو پہلے ہی بھانپ لیا تھا، چنانچہ آپ نے مواخات کرا کے منافقین کی اس قسم کی سازشوں کا سد باب کر دیا۔

مواخات اولی ہو یا مواخات ثانیہ، اس منصوبہ کا ایک اہم پہلو یہ بھی تھا کہ اس کے ذریعہ سے موالی (آزاد شدہ غلام) کی ذہنی و فکری تعلیم و تربیت کا ایسا اہتمام کیا جائے کہ وہ لوگ جو صدیوں سے ذہنی و فکر پستی کا شکار چلے آرہے تھے، انہیں آزاد لوگوں کے ہم پلہ کیا جائے اور غلامی نے جو ان کی فکر اور نفسیات کو متاثر کیا ہوا تھا، وہ ختم ہو جائے تاکہ یہ لوگ بھی معاشرہ میں اپنا بھر پور کردار ادا کر سکیں۔

غلامی کی تاریخ پر نظر رکھنے والے افراد اچھی طرح جانتے ہیں کہ جن لوگوں کے ساتھ مال و متاع کے جیساسلوک کیا جاتا ہو اور جو آزاد فکری سے محروم رکھے گئے ہوں ان کی ذہنی و فکری سطح کس قدر پست ہو جاتی ہے۔ جدید دور میں بھی بھارت میں ایسے گروہ ملتے ہیں جنہیں نیچی ذات قرار دے کر دھتکار اور نسلی طور پر کمتر قرار دیا جاتا ہے۔ ان لوگوں کے ساتھ غیر انسانی سلوک ہوتا ہے اس وجہ سے یہ زیادہ تر احساس کمتری کا شکار اور ذہنی و فکری اعتبار سے بہت پیچھے ہوتے ہیں۔ ان لوگوں کو سامنے رکھ کر اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ ان لوگوں کا کیا حال ہوگا جو جسمانی طور پر غلام چلے آرہے تھے۔

رسول اللہﷺ کو ان آزاد شدہ غلاموں کی تعلیم و تربیت کی بہت فکر تھی۔ آپ چاہتے تھے کہ یہ لوگ احساس کمتری کے جال سے نکل آئیں اور فطرت نے انہیں جو صلاحیتیں عطا کی ہیں انہیں اجاگر کیا جائے تاکہ یہ لوگ بھی اس قابل ہو جائیں کہ وہ کردار ادا کر سکیں جو قائدانہ صلاحیت رکھنے والے آزاد لوگ انجام دے رہے تھے۔

موالی کے بارے میں یہ بات قابل ذکر ہے کہ رسول اللہﷺ نے ان میں سے کچھ کو ایسے لوگوں کے ساتھ مواخات میں منسلک کیا تھا جو قریش میں نمایاں قائدانہ صلاحیتوں کے مالک تھے مثلا سیدنا بلال بن رباح کو سیدناعبیدہ بن الحارث کا بھائی بنا دیا گیا۔ سیدنا سالم مولی ابی حذیفہ کو سیدنا ابو عبیدہ کا بھائی بنایا گیا۔ مدنی مواخات میں سیدنا سالم کو سیدنا معاذ بن ماعص کا بھائی بنایا گیا۔ سیدنا صہیب بن سنان سیدناحارث بن الصم کے بھائی قرار پائے، سیدنا خباب بن الارت سیدنا جبار بن صحر کے بھائی بن گئے۔ اور رسول اللہﷺ کے آزاد کردہ غلام سیدنا زید بن حارثہ، سیدنااسید بن حضیر کے بھائی قرار پائے۔ان حضرات میں آزادی اور مساوات کی بنیاد پر آزاد لوگوں کی صحبت میں رہنے اور ان کے ساتھ افکار و خیالات کا تبادلہ کرنے سے نفسیاتی طور پر زبردست تبدیلی آئی، ان کی ذہنی و فکری سطح بلند ہوئی اور غلامی کے اثرات دھل گئے، ان کے عزائم اور طبیعت میں قائدین کا سا ولولہ پیدا ہو گیا، خیالات میں وسعت و بلندی پیدا ہوئی اور بہت جلد یہ لوگ اعلی درجہ کی قائدانہ صلاحیتوں کے مالک بن گئے۔ سیدنا ابو حذیفہ کے آزاد کردہ غلام کا مقام تو اس قدر بلند ہوا کہ اس کا اندازہ سیدنا عمررضی اللہ عنہ کے اس قول سے لگایا جا سکتا ہے جو انہوں نے اپنی وفات کے وقت سیدنا سالم کے بارے میں فرمایا تھا کہ ’’کاش اگر آج سالم مولی ابی حذیفہ زندہ ہوتے تو میں انہیں مسلمانوں کا خلیفہ مقرر کر دیتا۔‘‘(٩)

سیدنا عمر کے ان الفاظ سے انداہ لگایا جا سکتا ہے کہ سیدنا سالم میں کس قدر تبدیلی آگئی تھی کہ وہ بہت سے آزاد اور نمایاں حیثیت رکھنے و الوں سے بھی سبقت لے گئے تھے۔ منصب خلافت کوئی معمولی عہدہ نہ تھا۔ سیدنا عمر کی رائے میں سیدناسالم میں وہ تمام صلاحیتیں پیدا ہو گئی تھیں جو اس عظیم الشان منصب کے لیے ضروری ہیں۔ نو آزاد غلاموں میں اتنا بڑا نقلاب رسول اللہﷺ کی کامیاب منصوبہ بندی کا نتیجہ تھا۔ اسلامی نظام زندگی ہی یہ عظیم الشان انقلاب پیدا کر سکتا تھا۔ عہد نبوی کے بعد بھی یہی اسلامی روح کار فرما نظر آتی ہے۔ موالی کو اسلامی معاشرہ میں وہ تمام سہولیتیں میسر تھیں جو کسی بھی آزاد فرد کو حاصل ہوسکتی تھیں۔ سہولتوں سے زیادہ اہم مسئلہ معاشرہ میں ان کے ساتھ سلوک اور طرز عمل کا ہے۔ اسلامی معاشرہ میں ان کے ساتھ باعزت سلوک ہوتا تھا، ان کی عزت نفس اور وقار کا پورا پوا خیال رکھا جاتا تھا۔ اس کا نتیجہ یہ برآمد ہوا کہ علم و فکر کے میدان میں موالی نے شاندار خدمات انجام دیں۔ چند مثالوں سے اندازہ کیا جا سکتاہے کہ مسلم معاشرہ میں انہیں کیا مقام حاصل رہا او ر انہوں نے کس طرح اپنا کردار ادا کیا۔ مثلا مدینہ منورہ میں سیدنا نافع مولی عبداللہ بن عمر، امام مالک کے اساتذہ میں شمار ہوتے ہیں۔ مکہ مکرمہ میں عطاء بن رباح، یمن میں طائوس بن کیسان، بصرہ میں حسن البصری، خراسان میں ضحاک بن مزاحم، شام میں امام مکحول، مصر میں یزید بن حبیب، جزیرہ میں میمون بن مہران وغیرہ اور اسی طرح مجاہد بن جبیر، سعید بن جبیر، عکرمہ مولی عبداللہ بن عباس، وہ حضرات ہیں جو علم حدیث اور علم تفسیر کے ائمہ شمار ہوتے ہیں اور ان کے بغیر علم حدیث اور علم تفسیر کا تصور نہیں کیا جا سکتا۔ بڑے بڑے حکمران اپنے بچوں کو حصول علم کے لیے ان کے پاس بھیجنے میں فخر محسوس کرتے تھے۔ مجاہد بن جبیر کہتے ہیں کہ انہوں نے سیدنا عبداللہ بن عباس سے تیس مرتبہ قرآن کریم پڑھا، تین مرتبہ تو اس طرح پڑھا کہ ایک ایک آیت پر رک رک کر اس کی تفسیر کی وضاحت معلوم کی اور مقام و کیفیت نزول کے بارے میں علم حاصل کیا۔ ابوزناد عبدالرحمن بن ذکوان موالی میں سے تھے، یہ بھی امام مالک کے اساتذہ میں رہے، عمر بن عبدالعزیز نے انہیں عراق میں وصولی خرج کا افسر اعلی مقرر فرمایا تھا۔ عبدالملک بن الماجیشوں بنو تمیم کے موالی میں سے تھے، علم فقہ میں ان کا اہم مقام تھا۔ شرجیل بن سعد بھی آزاد کردہ غلام تھے، سیرت و فتاوی میں ان کو بلند مقام حاصل ہے۔ سعید بن جبیر نے جمع تدوین حدیث و آثار پر بڑا کام کیا ہے۔ ابو عبید القاسم بن سلام (متوفی ٢٣٠ھ) بھی ابتدا میں غلام تھے بعض نے انہیں انصار کا غلام لکھا ہے، وہ اپنے دور کے سب سے بڑے عالم تھے، بہت سی کتابوں کے مصنف ہیں، ان میں سب سے زیادہ شہرت کتاب الاموال کو حاصل ہے۔ یہ سب کچھ اس لیے ممکن ہو ا کہ مواخات کے عمل نے آزاد غلام کے درمیان فرق کو ختم کر کے نفسیاتی طور پر موالی کی تعلیم وتربیت کے لیے بہترین ماحول مہیا کر دیا تھا۔

مواخات کا ایک پہلو معاشی مسائل کا حل بھی تھا۔ مہاجرین مکہ مکرمہ سے ترک وطن کر کے مدینہ منورہ آئے تو یہ لوگ اپنا تمام مال و متاع مکہ مکرمہ چھوڑ آئے تھے۔ مدینہ منورہ میں ان کی آباد کاری کا مسئلہ تھا، نیز شہر مدینہ کے وسائل محدود تھے، چند سو مہاجرین کی آمد سے یہاں معاشی مشکلات بڑھ گئیں تھیں۔ رسول اللہ ﷺ ان مسائل کو احسن طریقہ پر حل کرنا چاہتے تھے، چنانچہ انصار و مہاجرین کے درمیان مواخات کے ذریعہ سے غریب مہاجرین کو وقتی طور پر انصار کے اموال میں شریک کر دیا گیا اور وفات کی صورت میں ایک دوسرے کی وراثت میں بھی شریک قرار دیے گئے۔ اس عمل کا فوری طور پر اقتصادی فائدہ یہ ہوا کہ بے خانماں مہاجرین کی آباد کاری کا مسئلہ حل ہو گیا۔

مدینہ منورہ کے معاشی وسائل کو وسعت دینا بھی آپﷺ کے منصوبہ کا حصہ تھا۔ اہل مدینہ (اوس و خزرج) زراعت پیشہ لوگ تھے۔ ان کی ساری معاشی جدوجہد زراعت تک محدود تھی، تجارت اور اس کے اصول و ضوابط سے یہ لوگ ناواقف تھے۔ مدینہ منورہ میں تجارتی سرگرمیاں محدود تھیں، ان پر بھی مکمل طور پر یہودیوں کا قبضہ تھا۔اوس و خزرج کے لوگ عام طو پر یہودیوں کے مقروض رہتے تھے، یہودی انہیں سود پر قرضہ دیا کرتے تھے۔ عمل مواخات کا ایک مقصد یہ بھی تھا کہ انصار و مہاجرین ایک دوسرے کے معاشی تجربات اور صلاحیتوں سے فائدہ اٹھائیں۔ مہاجرین نے انصار کے تعاون سے یہاں نہ صرف تجارتی سرگرمیاں شروع کیں بلکہ زراعت کو بھی بہتر بنانے کی کوششیں کیں۔

قرآن کریم نے تجارت کے ذریعہ حصول معاش کو اپنی نعمت اور فضل قرار دیا اور لوگوں کو آمادہ کیا کہ تجارت کو فروغ دیں۔ خود رسول اللہﷺ نے تجارت کو حصول معاش کا ذریعہ بنایا۔ دوسری طرف زراعت کو اس قدر اہمیت دی کہ ایک پودا لگانا بھی عبادت قرار پایا اور اس کا پھل خواہ انسان کھائے،پرندہ یا چوپایہ، درخت لگانے والے کے لیے صدقہ قرار دیا گیا۔(۱۰)

انصار و مہاجرین کی مشترکہ کوششوں سے مدینہ منورہ کے معاشی وسائل میں اضافہ ہوا اور جلد ہی تجارت پر یہودیوں کی اجارہ داری بھی ختم ہوگئی۔ اس طرح مواخات کا عمل معاشی مسائل کو حل کرنے اور معاشی بنیادیوں کو از سرنو منظم کرنے میں بہت مفید اور مئوثر ثابت ہوا۔

مواخات کا تعلیمی پہلو بھی اپنی جگہ بہت اہمیت رکھتا ہے۔ رسول اللہ نے مواخات کے ذریعہ سے مدینہ منورہ کے ہرمسلم گھرانہ کو ایک تعلیمی ادارہ میں ڈھال دیا تھا۔

دراصل تعلیم کے میدان میں مہاجرین اور انصار کے درمیان فرق پیدا ہو گیا تھا۔ رسول اللہﷺ اس فرق کو ختم کرنا چاہتے تھے۔ مہاجرین تیرہ برس رسول اللہﷺ کی خدمت میں حاضر رہے، انہوں نے مکی دور میں بھی نزول وحی کا مشاہدہ کیا تھا، وہ مقامات وحی سے بھی واقف تھے، یہ لوگ تیرہ برس تک وحی کی تعبیر و تشریح رسول اللہﷺ سے سنتے رہے اور یہ تمام عرصہ رسول اللہﷺ کی صحبت میں گزارا اور آپﷺ کے اعمال و اقوال کو دیکھتے اور سنتے رہے اور انہیں اپنی زندگی میں منتقل کرتے رہے۔ صحابہ کرام صرف عمل ہی کو اپنے اندر منتقل نہیں کرتے تھے بلکہ جذبات و احساسات کو بھی منتقل کرتے تھے۔ اس صحبت کی وجہ سے ان کے اعمال میں رسول اللہﷺ کے اعمال کی روح جھلکتی تھی اس تقدیم ایمانی کی وجہ سے انہیں علم کے میدان میں بھی سبقت حاصل تھی اور وہ انصار سے تیرہ برس آگے تھے۔

رسول اللہﷺ چاہتے تھے کہ معرفت و علم کا یہ فرق ختم ہو جائے اور مہاجرین کے پاس جو مکی دور کا علم ہے وہ تمام کا تمام انصار کو منتقل کیا جائے تاکہ نہ صرف یہ کہ شرح تعلیم میں اضافہ ہو جائے بلکہ مسلم معاشرہ کے تمام افراد کی ذہنی و فکری صلاحیتون کو بھی نشوونما دیا جا سکے۔ مواخات کے عمل کی وجہ سے ہر گھر غیر رسمی تعلیمی ادارہ کی شکل اختیارکر گیا۔ مہاجرین نے نہ صرف یہ کہ مکی دور کے علم وحی کو انصار تک منتقل کیا بلکہ وہ علم و تجربہ بھی منتقل کیا جو انہیں تجارت کے میدان میں حاصل تھا۔ اسی طرح صنعت و زراعت سے متعلق جو علم اہل مدینہ کے پاس تھا مہاجرین نے وہ ان سے حاصل کیا۔ یوں علم و ہنر کے میدان میں بہت بڑی تبدیلی آئی اور یہ اُمّی قوم جلد ہی علمی و فکری میدان میں دنیا کی قیادت کے لیے تیار ہو گئی۔

مندرجہ بالا گفتگو سے بخوبی اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ رسول اللہﷺ کا مواخات کا عملی قدم بہت کامیاب رہا اس لیے کہ انصار و مہاجرین کے اس قریبی تعلق و باہمی اخوت اور محبت اور تعاون سے ایک نئی تہذیب اور نیا تمدن وجود میں آیا، وہ تہذیب و تمدن جس کی بنیاد اسلامی عقائد، اخلاق حسنہ اور اعمال صالحہ تھے۔ یہ عقیدہ کی قوت اور جذبہ عمل ہی تھا جس نے انصار کے دلوں میں اپنے مہاجرین بھائیوں کے لیے بے پناہ قربانیوں کا جذبہ پیدا کیا۔ انصار کی جانب سے جذبہ قربانی کو قرآن نے ہمیشہ کے لیے محفوظ کر دیا:

ویوثرون علی انفسھم ولو کان بھم خصاصہ (الحشر ۵۹:۹)

’’وہ اپنے بھائیوں کو اپنے اوپر ترجیح دیتے ہیں خواہ خود ہی ضرورت مند کیوں نہ ہوں۔‘‘

انصار کے لیے قرآن کریم کی یہ شہادت باعث سعادت و صدافتخار ہے۔

مواخات کا عمل آج بھی دہرایا جاسکتا ہے۔ اس کا صرف ایک پہلو یعنی وراثت میں بھی شریک ہونا قرآن کریم نے منسوخ کر دیا تھا، لہٰذا وراثت میں توشریک نہیں کیا جاسکتا، البتہ مال ومتاع میں بے خانماں مہاجرین کو شریک کر کے ان کے مسائل کو حل کیا جاسکتا ہے۔ آج بوسنیا، کوسوو، کشمیر، افغانستان، عراق، فلسطین، برما اور بہت سے شورش زدہ علاقوں کے مسلمان معاشی، معاشرتی، تہذیبی مسائل کا شکار ہیں۔ برما، فلپائن اور بعض دیگر علاقوں میں بھی مسلمان پر عرصہ حیات تنگ ہے۔ بعض علاقوں میں مسلمان بچوں کے لیے تعلیم و تربیت کے مسائل ہیں۔ کہیں کفار کے سیاسی و معاشی غلبہ کی وجہ سے تہذیبی مشکلات درپیش ہیں، کہیں علم و تہذیبی غلبہ نے مسائل پیدا کئے ہوئے ہیں۔ امت مسلمہ کو ان مشکلات سے چھٹکارا حاصل کرنے کے لیے اپنی ذمہ داریوں اور اپنے فرائض کا احساس کرنا چاہیے اور مواخات کے ادارے کا احیاء کرنا چاہیے۔ رسول اللہﷺ کا اسوہ حسنہ ہر دور اور ہر زمانہ میں واجب العمل ہے۔ ہماری رائے میں اسلامی کانفرنس کی تنظیم (OIC) کو اس سلسلہ میں قدم اٹھانا چاہیے اور اجتماعی طور پر امت مسئلہ کے معاشی و معاشرتی مسائل کو حل کرنے کے لئے سیرت طیبہ سے روشنی حاصل کرنی چاہیے، اس لیے کہ سیرت طیبہ کی پیروی ہی میں ہماری نجات و کامیابی کا راز مضمر ہے۔

مراجع و مصادر:

١: المہووی، وفاء الوفاء (احیاء التراث العربی، بیروت ١٣٩٣ھ) ج ١، ص ٢٦٦

٢: ابن حبیب،المحبر (المکتب التجاری، بیروت)، ص ٧٠

٣: البلاذری، احمد بن یحی، انساب الاشراف (تحقیق محمد حمید اللہ (دارالمعارف مصر ١٩٥٩)، ج١، ص ٢٧٠، ابن حبیب المحبر، ٧٠، ٧١

٤: المہودی وفاء الوفاء (بیروت ١٣٩٣ھ) ج ١، ص ٢٦٦

٥:                ابن ہشام، السیرۃ النبویہ (بیروت) ج ٢، ص ١٥١۔ ١٥٣

٦: الباذری، احمد بن یحی، انسا ب الاشراف (تحقیق محمد حمیداللہ (دارالمعارف مصر ١٩٥٩)، ج١، ص ٢٧٠، ٢٧١

٧:       ابن حبیب، المحبر، ص ٧١۔٧٥

٨: ابن سید الناس، عیون الاثر (دارالمعرفہ، بیروت)، ج١، ص ٢٠٠۔ ٢٠٢

٩:       ابن الاثیر، اسد الغابہ فی معرفۃ الصحابہ، ج٢، ص ٢٤٦

             ابن عبدالبر، الاستیعاب فی معرفۃ الاصحاب، ج٢، ص ٦٨

١٠:   فاذا قضیت الصلوۃ فانتشروا فی الارض وابتغوا من فضل اللہ (الجمعۃ: ١٠) ۔۔۔۔ وتری الفلک فیہ مواخرلتبتغوا من فضلہ (فاطر: ١٢) صحیح بخاری میں ہے مامن مسلم یغرس غر سافیا کل منہ طیر او انسان او بھیمۃ الاکان لہ بہ صدقۃ، (حدیث نمبر ٢٣٢٠)

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے