روزنامہ”جدید خبر“ نئی دہلی کے 26 ستمبر کے شمارے میں ایک چونکا دینے والی خبر شائع ہوئی کہ صدیوں ترکی پر فرماں روائی کرنے والے عثمانی خلفا کے آخری جاں نشین کا استنبول کے اسی شہرمیں انتقال ہو گیا جو کبھی تین براعظموں پر پھیلی اس عظیم سلطنت کا دارالحکومت تھا۔ ارطغرل عثمانی سلطنت کے ختم نہ ہونے کی صورت میں ترکی کے عثمانی سلطان عبدالحمید دوم کے پوتے تھے ۔

ان کی عمر97 سال کی تھی اور وہ کمال اتاترک کے ہاتھوں عثمانی خلافت کے خاتمے اور ترک جمہوریہ کے قیام کے بعد سے امریکا میں مقیم تھے۔ ارطغرل عثمان1912ء میں استنبول میں پیدا ہوئے۔ اور 1923ء میں سلطنت کے خاتمے کے وقت وہ آسٹریا کے شہر ویانا میں ایک اسکول میں پڑھ رہے تھے ۔ انہیں ویانا میں یہ خبر ملی کہ اتاترک نے ان کے خاندان کے تمام افراد کو جلا وطن کرنے کا حکم دیا ہے ۔

ان کی بیش تر زندگی امریکا کے شہر نیویارک میں گزری ، جہاں ساٹھ برس تک وہ ایک ریستوراں کے اوپر کی منزل میں ایک چھوٹے سے فلیٹ میں رہے ۔ ارطغرل عثمان ہمیشہ یہ کہتے تھے کہ ان کے کوئی سیاسی عزائم نہیں تھے اور وہ1990ء تک ترکی واپس نہیں لوٹے۔ وہ ترکی حکومت کی دعوت پر واپس گئے تھے ، لیکن انہوں نے تب بھی کوئی وی آئی پی پروٹوکول قبول نہیں کیا۔ جب وہ اپنے خاندان کے سابق محلات دیکھنے گئے تو بھی وہ سیاحوں کے ایک گروپ میں شامل ہو کر اپنے آبا واجداد کی سابق رہائش گاہیں دیکھتے رہے۔ وہ وہی محل تھا، جہاں ان کا اپنا خاندان بھی رہتا تھا او رجہاں ان کا بچپن گزرا تھا۔

اس پس منظر میں مسلمانوں کے لیے یہ جاننا دلچسپی سے خالی نہ ہو گا کہ آخر وہ کون سی عالمی اور خاص طور پر صہیونی سازشیں تھیں، جن کے نتیجے میں عالم اسلام کو ترکی میں خلافت عثمانیہ سے محروم ہونا پڑا۔ حالات پر نظر ڈالیں تو پتا چلے گا کہ آج سے 62 سال قبل مغربی طاقتوں نے 15 مئی 1948ء کو فلسطینی عوام کے سینے میں اسرائیل نام کا ایک خنجر گھونپا تھا، جس کی کسک ابھی تک محسوس کی جارہی ہے ۔

اس سے ایک دن پہلے برطانیہ نے اس علاقے سے اپنے اقتدارِ اعلیٰ کے خاتمے کا اعلان کر دیا تھا، جس پر اس نے پہلی عالمی جنگ میں ترکی کو شکست دے کر قبضہ کر لیا تھا۔ ضروری ہے کہ ان ریشہ دوانیوں پر نظر ڈالی جائے ، جن کے ذریعے اسرائیل کے قیام سے 30 سال قبل خلافت عثمانیہ کے خلاف سازشوں کا جال بنا گیا تھا۔

پہلی عالمی جنگ کا سلسلہ 1914ء میں شروع ہوا تھا، جو 1918ء میں ترکی اور جرمنی کی شکست پر ختم ہوا۔ اس جنگ میں ایک طرف برطانیہ اور اس کے حواری تھے تو دوسری طرف قیصر جرمنی اور ترکی کے آخری خلیفہ سلطان عبدالحمید کی افواج صف آرا تھیں۔ جنگ کے خاتمے کے بعد ترکی میں اسلام پسند قوتوں کا بتدریج زوال ہوتا گیا اور مصطفی کمال پاشا کی قیادت میں دہریوں کا اثر ورسوخ بڑھتا گیا۔

اس کا نتیجہ خلافت عثمانیہ کے خاتمے کی شکل میں نکلا۔ ناقدین کی نظر میں الله کے رسول صلی الله علیہ وسلم کی وفات حسرت آیات کے بعد تاریخ اسلام کا بدترین اور درد ناک سانحہ شاید 1923ء میں خلافت عثمانیہ کے خاتمے کی صورت میں نمودار ہوا، کیوں کہ ترکی میں خلافت جیسی بھی تھی ، اس کے خاتمے نے ملت اسلامیہ کی رہی سہی مرکزیت کو ختم کرکے رکھ دیا۔ یہی وجہ تھی کہ ہندوستان کے مسلمان خلافت عثمانیہ کے خاتمے پر تڑپ اٹھے اور علی برادران محمد علی جوہر او رشوکت علی نے تحریک خلافت شروع کی، اس کا اثر کتنا پڑا، اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ جب ہندوستان کے گلی کوچوں میں یہ شعر پڑھاجاتا تھا

بولی اماں محمد علی کی

جان بیٹا خلافت پہ دے دو

کہا جاتا ہے کہ سلطان عبدالحمید کے دورِ حکومت میں یہودیوں کے ایک وفد نے خلیفہ سے ملاقات کی تھی۔ یہ انیسویں صدی کے اواخر کی بات ہے۔ اس زمانے میں خلافت عثمانیہ بے حد کمزور ہو چکی تھی۔ ترکی کی مالی حالت خستہ تھی، حکومت بھی مقروض تھی۔ اس وفد نے خلیفہ سے کہا تھا کہ:

” اگر آپ بیت المقدس اور فلسطین ہمیں دے دیں تو ہم خلافت عثمانیہ کا سارا قرضہ اتار دیں گے اور مزید کئی ٹن سونا بھی دیں گے۔“

اس گئے گزرے خلیفہ عبدالحمید کی دینی حمیت دیکھیے کہ اس نے وہ جواب دیا ، جسے تاریخ کبھی فراموش نہیں کرسکتی۔ خلیفہ نے اپنے پاؤں کی انگلی سے زمین کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا:

”اگر اپنی ساری دولت دے تم لوگ بیت المقدس کی ذرا سی مٹی بھی مانگو گے تو ہم نہیں دیں گے۔“

اس وفد کا سربراہ ایک ترکی یہودی قرہ صوہ آفندی تھا۔ بس پھر کیا تھا، خلافت عثمانیہ کے خلاف سازشوں کا سلسلہ شروع ہو گیا، چناں چہ چند برسوں بعد جو شخص مصطفی کمال پاشا کی طرف سے خلافت عثمانیہ کے خاتمے کا پروانہ لے کر خلیفہ عبدالحمید کے پاس گیا تھا، وہ کوئی اور نہیں ، بلکہ یہی ترک یہودی قرہ صوہ آفندی ہی تھا۔

خود مصطفی کمال پاشا بھی یہودی النسل تھا۔ اس کی ماں یہودن تھی اور باپ ترک قبائلی مسلمان تھا۔ پھر ساری دنیا نے دیکھا کہ خلافت عثمانیہ کے خاتمے کے بعد ترکی میں نوجوان ترکوں کا غلبہ شروع ہو گیا۔ یہیں سے Youngs Turks کی اصطلاح نکلی، جنہوں نے مصطفی کمال پاشا کی قیادت میں اسلام پسندوں پر مظالم ڈھائے، علما کا قتل عام کیا،نماز کی ادائیگی اور تمام اسلامی رسومات پر پابندی لگا دی۔ عربی زبان میں خطبہ، اذان اور نماز بند کر دی گئی ۔ مساجد کے اماموں کو پابند کیا گیا کہ وہ ”ترک“ زبان میں اذان دیں ، نماز ادا کریں اور خطبہ پڑھیں۔ اسلامی لباس اترواکر عوام کو یورپی کپڑے پہننے پر مجبور کیا گیا۔ مصطفی کمال پاشا اور اس کے ساتھی نوجوان ترکوں نے ترکی میں اسلام کو کچلنے کے لیے جتنی گرم جوشی کا مظاہرہ کیا اور مسلمانوں کو جتنا نقصان پہنچایا، اس کی مثال روس اور دیگر کمیونسٹ ملکوں کے علاوہ شاید کہیں نہ ملے۔

خلافت عثمانیہ کے اندرون ملک یہودیوں نے جو سازشی جال پھیلایا تھا، اس کی ایک جھلک دکھلانے کے لیے خلیفہ عبدالحمید کا ایک تاریخی خط پیش کیا جاتا ہے ، جو انہوں نے اپنے شیخ ابو الشامات محمود آفندی کو اس وقت لکھا تھا ، جب انہیں خلافت سے معزول کرکے سلانیکی میں جلا وطنی اور قید تنہائی پر مجبو کر دیا گیا تھا۔

اس خط کے مندرجات سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ امت مسلمہ کے نظام خلافت کی بیخ کنی کے لیے صہیونی طاقتوں نے کیسی سازشیں کی تھیں او ران سازشوں میں کون شریک تھا؟ خلیفہ عبدالحمید کے خط کا اردو ترجمہ پیش ہے :

” میں انتہائی نیاز مندی کے ساتھ طریقہ شاذلیہ کے اس عظیم المرتبت شیخ ابوا لشامات آفندی کی خدمت میں بعد تقدیم احترام عرض گزار ہوں کہ مجھے آپ کا 22 مئی 1913ء کا لکھا ہوا گرامی نامہ موصول ہوا۔

جناب والا! میں یہ بات صاف صاف بتانا چاہتا ہوں کہ میں امت مسلمہ کی خلافت کی ذمے داریوں سے از خود دست بردار نہیں ہوا، بلکہ مجھے ایسا کرنے پر مجبور کیا گیا۔ یونینسٹ پارٹی (Unionist Party) نے میرے راستے میں بے شمار رکاوٹیں پیدا کر دی تھیں۔ مجھ پر بہت زیادہ اور ہر طرح کا دباؤ ڈالا گیا۔ صرف اتنا ہی نہیں ، مجھے دھمکیاں بھی دی گئیں اور سازشوں کے ذریعے مجھے خلافت چھوڑنے پر مجبور کیا گیا۔

یونینسٹ پارٹی، جونوجوانانِ ترک (Young Turks) کے نام سے بھی مشہور ہے ، نے پہلے تو مجھ پر اس بات کے لیے دباؤ ڈالا کہ میں مقدس سر زمین فلسطین میں یہودیوں کی قومی حکومت کے قیام سے اتفاق کر لوں۔ مجھے اس پر مجبو رکرنے کی کوششیں بھی کی گئیں ، لیکن تمام دباؤ کے باوجود میں نے اس مطالبے کو ماننے سے صاف انکار کر دیا۔ میرے اس ا نکار کے بعد ان لوگوں نے مجھے ایک سو پچاس ملین اسٹرلنگ پاؤنڈ سونا دینے کی پیش کش کی۔

میں نے اس پیش کش کو بھی یہ کہہ کر رد کر دیا کہ یہ ایک سو پچاس ملین اسٹرلنگ پاؤنڈ سونا تو ایک طرف، اگر تم یہ کرہٴ ارض سونے سے بھر کر پیش کرو تو بھی میں اس گھناؤنی تجویز کو نہیں مان سکتا۔30 سال سے زیادہ عرصے تک امت محمدیہ کی خدمت کرتا رہا ہوں۔ اس تمام عرصے میں، میں نے کبھی اس امت کی تاریخ کو داغ دار نہیں کیا۔

میرے آباواجداد اور خلافت عثمانیہ کے حکمرانوں نے بھی ملت اسلامیہ کی خدمت کی ہے ، لہٰذا میں کسی بھی حالت اور کسی بھی صورت میں اس تجویز کو نہیں مان سکتا۔ میرے اس طرح سے صاف انکار کرنے کے بعد مجھے خلافت سے ہٹانے کا فیصلہ کیا گیا۔ اس فیصلے سے مجھے مطلع کر دیا گیا اور بتایا گیا کہ مجھے سلانیکی میں جلا وطن کیا جارہا ہے۔ مجھے اس فیصلے کو قبول کرنا پڑا، کیوں میں خلافت عثمانیہ او رملت اسلامیہ کے چہرے کو داغ دار نہیں کرسکتا تھا۔ خلافت کے دور میں فلسطین میں یہودیوں کی قومی حکومت کا قیام ملت اسلامیہ کے لیے انتہائی شرم ناک حرکت ہوتی اور دائمی رسوائی کا سبب بنتی۔

خلافت ختم ہونے کے بعد جو کچھ ہونا تھا ہو گیا۔ میں تو الله تعالیٰ کی بارگاہ میں سربسجود ہوں اور ہمیشہ اس کا شکر بجالاتا ہوں کہ اس رسوائی کا داغ میرے ہاتھوں نہیں لگا۔ بس اس عرض کے ساتھ اپنی تحریر ختم کرتا ہوں ۔“

(والسلام)

22/ایلول1329 ،( عثمانی کلینڈر کے مطابق)

ملت اسلامیہ کا خادم: عبدالحمید بن عبدالمجید

خلیفہ عبدالحمید کے اس خط کا بغور مطالعہ کرنے سے بہت سے حقائق سامنے آتے ہیں: سب سے پہلی بات تو یہ ہے کہ انہیں الله تعالیٰ کی ذات پر غیر متزلزل یقین تھا۔ انہوں نے یہودیوں کی اتنی بڑی مادی پیش کش کو ٹھکرا دیا۔ ملت اسلامیہ کی تاریخ کو اپنے عہد میں داغ دار ہونے سے بچائے رکھا۔ اہل الله اور اہل علم سے انہیں گہرا قلبی تعلق تھا۔ تزکیہٴ قلب اور روح کے لیے باقاعدہ سلسلہٴ شاذلیہ سے وابستہ تھے۔ یہود اور مغرب کی سامراجی طاقتوں کے سامنے عزم اور استقامت کے ساتھ ڈٹے رہے۔ اپنے دورِ خلافت میں یہودیوں کو سرزمین فلسطین میں قطعہ زمین کسی بھی قیمت پر خریدنے کی اجازت نہیں دی۔

یہ ایک تاریخی حقیقت ہے کہ جب تک ترکی میں خلافت عثمانیہ قائم رہی ، اس وقت تک استعماری قوتوں کا فلسطین میں یہودی مملکت کے قیام کا خواب شرمندہٴ تعبیر نہ ہوسکا۔

مسلمانوں اور یہودیوں کی کشمکش:

مسلمانوں اور یہودیوں کی کشمکش یوں تو بہت پرانی ہے ، لیکن نئے انداز میں اس کا آغاز1897ء میں ہوا، جب یہودی اکابرین نے خفیہ طور پر جمع ہو کر طے کیا کہ خلافت عثمانیہ پر کاری ضرب لگائی جائے، کیوں کہ ان کے عزائم کی تکمیل میں سب سے بڑی رکاوٹ عالم اسلام کی مرکزیت تھی، چنانچہ طے شدہ پروگرام کے مطابق خلیفہ سلطان عبدالحمید کی خدمت میں ایک عیارانہ درخواست پیش کی گئی کہ ” ہمیں فلسطین میں ایک خطہ زمین دیا جائے۔ ہم اس کی بڑی سے بڑی قیمت دینے کے لیے تیار ہیں ۔“

زیرک سلطان نے یہودیوں کے عزائم کو بھانپ کر ان کی درخواست رد کر دی۔ بس پھرکیا تھا، سلطان کے خلاف ملک کے اندر او رباہر زہریلے پروپیگنڈے کی مہم شروع کر دی گئی ۔ عیسائی حکومتیں پہلے ہی خلافت عثمانیہ سے خارکھائے بیٹھی تھیں۔ ان کی فوجی طاقت اور یہودیوں کی خفیہ سازشوں کے ذریعے مسلمانوں کی مرکزیت ہمیشہ کے لیے ختم کر دی گئی اور ترکی کے اندر مصطفی کمال پاشا کی قیادت میں ایک تنظیم یونینسٹ پارٹی کی داغ بیل ڈالی گئی۔ اس میں زیادہ تر بھولے ترک جوان شامل تھے۔

اس انجمن کے اجتماعات کے لیے ” فری میسن“ لاج تھے۔ فری میسن تحریک دراصل یہودیوں کے دماغ کی اختراع ہے ، جس میں خاص طور پر ایسے لوگوں کو شامل کیا جاتا ہے ، جن کا تعلق تو کسی نہ کسی مذہب سے ہونا ضروری ہے۔لیکن حقیقت میں وہ مذہب سے بے زار ہوتے ہیں، چنانچہ وہ بڑے بڑے لوگ جن کے بارے میں متعین طور پر معلوم ہے کہ وہ فری میسن تحریک کے سرگرم کارکن تھے، ان میں مصطفی کمال پاشا بھی شامل ہیں ۔ اس تنظیم کے ہاتھوں خلافت عثمانیہ کا شیرازہ بکھیرا گیا اوراستعمال کیا گیا مصطفی کمال پاشا کو ۔ پھر عالم اسلام ایک ایسے انتشار کا شکارہو گیا کہ آج تک بلادِ اسلامیہ کے اتحاد کی تمام تحریکیں بے اثر ثابت ہوئی ہیں۔

بہرحال1923ء میں ترکی سے خلافت عثمانیہ کا خاتمہ ہو گیا۔ یونینسٹ پارٹی برسر اقتدار آگئی۔ آخری خلیفہ سلطان عبدالحمید کو اقتدار سے بے دخل کرکے جلا وطنی کی زندگی گزارنے پر مجبو رکر دیا گیا۔ ترکی میں دہریوں کا راج ہو گیا۔ مذہب بے زار فوج کا بول بالا ہو گیا۔

اور ٹھیک 25 سال بعد 15 مئی1948ء کو فلسطین میں یہودی مملکت اسرائیل کا قیام عمل میں آگیا۔ حالات کی ستم ظریفی دیکھیے جس ” خلیفہ “ نے ہر طرح کی لالچ اور دھمکیوں کے باوجود یہودیوں کو فلسطین کی رتی بھر زمین دینے سے انکار کر دیا تھا، اسی فلسطین میں اسرائیل کو تسلیم کرکے اس کے ساتھ سفارتی تعلقات قائم کرنے والا پہلا مسلم ملک کوئی اور نہیں، بلکہ اتاترک کا ترکی تھا۔

اسلام کا پھر بول بالا:

یہ بات پہلے بھی بتائی جاچکی ہے کہ کمال اتاترک نے اسلام کو کچلنے کے لیے جتنی گرم جوشی کا مظاہرہ کیا اور ترکی میں اسلام او رمسلمانوں کو جتنا نقصان ان کی ذات سے پہنچا ، اتنا تو شاید روس میں کمیونسٹوں نے بھی نہ کیا ہو گا، لیکن 86 سال تک کچلے رہنے کے بعد آج ترکی کے کونے کونے سے پھر ایک بار ”الله اکبر“ کی گونج سنائی دینے لگی ہے ۔ سارے ترکی میں چھوٹی بڑی مساجد کی تعداد میں تیزی سے اضافہ ہو رہا ہے ۔

اس سے ملک میں اسلام کی بڑھتی ہوئی مقبولیت کا اندازہ ہوتا ہے ، جس کی ترقی میں اتاترک کے برسراقتدار آنے کے بعد کمی آگئی تھی ، لیکن آج صورت حال بالکل مختلف ہے ۔ ترکی میں اسلام پسندی کی سمت پہلی جرأ ت مرحوم وزیراعظم عدنان مندریس اور اس وقت کے صدر جلال بایار نے کی تھی او راس وقت بدقسمتی سے فوج انتہائی طاقت ور تھی۔ جسے چاہتی گدی پر بٹھا دیتی، چناں چہ فوج نے حکومت کا تختہ پلٹ دیا۔

عدنان مندریس کو جیل بھیج دیا اور بد عنوانی کا الزام لگا کر، جھوٹا مقدمہ چلا کر پھانسی پر لٹکا دیا۔ جلال بایار کو ضعیف العمری کی بنا پر کچھ عرصے تک نظر بند رکھ کر رہا کر دیا گیا۔ اب یہ الگ بات ہے کہ وزیراعظم طیب اردگان کی طاقت ور موجودہ حکومت نے عدنان مندریس کو بدعنوانی کے تمام الزامات سے بری کرکے ان کے قومی وقار کو بحال کر دیا ہے ، لیکن اس عمل سے ایک بے گناہ اسلام پسند وزیراعظم کی جان تو واپس نہیں آسکی۔

اس کے بعد پھر 90 کی دہائی میں وزیراعظم نجم الدین اربکان کی قیادت میں اسلام پسند ویلفیئر پارٹی برسراقتدار آئی۔ اس نے مسلمانوں کو نماز کی ادائیگی او رمسجدوں کی تعمیر کی اجازت دے دی، چناں چہ محکمہ مذہبی امور کے مطابق 1990ء میں پورے ترکی میں مساجد کی تعداد 65794 ہو گئی ۔ ملک کی تمام مساجد میں پنج گانہ نماز باقاعدہ ادا کی جانے لگی اور نتیجہ یہ نکلا کہ نمازِ جمعہ میں مساجد میں جگہ ملنا دشوار ہو گیا۔

اس وقت ترکی میں 54600 امام اور560 دینی تعلیم کے مدارس ہیں۔ فوج90 کی دہائی میں بھی طاقت ور تھی، اس لیے وزیراعظم اربکان کو اقتدار سے سبک دوش ہونے پر مجبور کر دیا گیا۔ اس کے بعد ایک عرصے تک فوج کی حمایتی حکومتیں ایک کے بعد ایک اقتدار میں آتی اورجاتی رہیں ، چناں چہ پچھلے پانچ عشروں میں ترکی میں چار منتخب شدہ حکومتوں کو فوجی انقلاب کے ذریعے ہٹایا جا چکا ہے،

البتہ ایک عظیم سیاسی اور جمہوری انقلاب کے ذریعے پچھلے عام انتخابات میں ترکی کے اسلام پسند عوام نے پارلیمنٹ کی 550 نشستوں میں 341 نشستیں جسٹس اینڈ ڈیولپمنٹ پارٹی کو دلوا کر وزیراعظم طیب اردگان اور صدر عبدالله گل کو اقتدار کی باگ ڈور سونپ دی ہے، تاکہ وہ ترکی میں اسلامی نظام نافذ کر سکیں۔ صدر کی بیگم اسکارف پہنتی ہیں۔

سازشوں کا سلسلہ جاری:

ترکی میں اسلام کے احیا اور اس کے ساتھ ساتھ مغرب میں اسلام کی مقبولیت سے ظاہر ہے کہ صہیونیت کی زیر اثر طاقتوں کے ہوش اڑ گئے اوران کی راتوں کی نیند حرام ہو گئی ہے ، اس لیے اس طرح کا پروپیگنڈا شروع ہو گیا ہے کہ برسراقتدار پارٹی اپنے پروگراموں کی تشہیر اور اپنی سرگرمیوں کے لیے ترکی میں مساجد کو استعمال کر رہی ہے۔ اسلام دشمن حلقوں کاالزام ہے کہ ترکی کے اوسط طبقے سے تعلق رکھنے والوں کی مذہب میں دلچسپی میں اضافے سے بنیاد پرستی کو شہ مل رہی ہے۔

چنانچہ مبینہ طور پر انقلاب لانے اور طیب اردگان کی حکومت کا تختہ پلٹنے کی کوشش میں ملوث ہونے کے الزام میں ایک قوم پرست تنظیم ”ارگنکون“ سے تعلق رکھنے والے 88 افراد کو گرفتار کر لیا گیا ہے۔ اس تنظیم کاکہنا ہے کہ اردگان کی حکومت ترکی کے سیکولر تشخص کو ختم کرکے اسلامی اقدار کو بڑھاوا دینا چاہتی ہے۔

دوسری طرف اس قسم کے بھی مسلسل الزامات لگائے جارہے ہیں کہ فوج بھی حکومت کا تختہ پلٹنے کی منصوبہ بندی کر رہی ہے، لیکن فوج کے سربراہ نے ان الزامات سے انکار کیا ہے او رکہا ہے کہ فوج خود اس معاملے کی تفتیش کرے گی۔ اس پس منظر میں وزیراعظم طیب اردگان نے سرکاری وکیلوں سے کہا ہے کہ وہ مسلح افواج کے خلاف تحقیقات کریں ۔

انہوں نے متنبہ کیا ہے کہ ضروری ہوا تو اس سازش میں ملوث افراد کے خلاف عدالتی چارہ جوئی کی جائے گی، کیوں کہ حکومت خاموش تماشائی نہیں بن سکتی۔ وزیراعظم نے کہا ہے کہ برسراقتدار پارٹی کے خلاف غیر قانونی سرگرمیوں کے سد باب کے لیے ہر ممکن قدم اٹھایا جائے گا۔

اب دیکھنا یہ ہے کہ اندرونِ ملک دہریوں، عدلیہ وفوج اور بیرونِ ملک صہیونی او رمغربی طاقتوں کی سازشوں کے خلاف طیب اردگان کی اسلام پسند حکومت کتنی کامیاب رہتی ہے؟ بظاہر تو ایسا لگتا ہے کہ ترکی میں اسلام کے احیا کا جو سلسلہ شروع ہوا ہے ، وہ جاری رہے گا اور اسلام دشمن طاقتوں کو ناکامی کا منھ دیکھنا پڑے گا۔

ان شاء الله (بشکریہ: ماہنامہ اللہ کی پکار)

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے