دین اسلام باری تعالیٰ کا پسندیدہ اور منتخب کردہ دین ہے۔ یہ اپنی امتیازی خصوصیات اور منفرد تعلیمات کی بنا پر ہر دور میں فطرت پسند اور ذوی العقول افراد میں مقبول رہا ہے۔ اس کی امتیازی خصوصیات میں سے نمایاں خصوصیت یہ بھی ہے کہ اس کی پہلی وحی کا پیغام تعلیم و تعلّم اور وسائل تعلیم سے تعلق رکھتا ہے۔

قرآن و حدیث دین اسلام کے بنیادی مصدر ہیں۔ قرآن و حدیث میں علم کی ترغیب علماء کی فضیلت اور ان کے کردار و گفتار سے متعلق بہت ساری ہدایات موجود ہیں۔

قرآن و حدیث کی روشن تعلیمات میں مصروف عمل ادارے، دنیا میں بالعموم اور پاکستان میں بالخصوص بہت بڑی تعداد کو بلا معاوضہ روٹی، کپڑا، رہائش سمیت زندگی کی بنیادی ضرورت فراہم کر رہے ہیں۔

ملک عزیز پاکستان میں بڑھتی ہوئی غربت،بے روزگاری اور مہنگائی کے باوجود یہ ادارے بفضل اللہ اپنے مشن میں مگن ہیں۔

حکومتِ وقت کو چاہئے تو یہ تھا کہ ان اداروں کے منتظمین اور ذمہ دار حضرات کا شکریہ ادا کرتی اور ان کی معاونت کے لیے سبیل نکالتی، مگر صد افسوس غیر ملکی آقائوں کی خوشنودی کے لئے ان فلاحی اداروں پر طرح طرح کی پابندیاں لگاکر ان کے لیے مشکلات میں اضافہ کیا جاتا رہاہے۔

موجودہ دور حکومت میں فلاح معاشرہ میں مشغول ان قابل احترام مدارس اور جامعات کے لیے بے پناہ مسائل پیدا کئے جا رہے ہیں۔ کہیں انہیں کوائف جمع کرانے کی ہدایات جاری کی جاتی ہیں تو کہیں جھوٹی اطلاعات کی بنیاد پر چھاپے مار کر انہیں ہراساں کیا جارہا ہے۔ ظلم کی انتہاء تو اس دن ہوئی جب ان مکاتب کے مقدس اور معصوم طلباء کو انتہائی بے دردی ہے ساتھ ابدی نیند سلا دیا گیا۔

مؤرخہ 10نومبر 2012 بروز جمعہ گلشن اقبال میں رونما ہونے والے اس حادثہ میں جامعہ ابی بکر الاسلامیہ کے ہونہار طالب علم حافظ محب اللہ بن سیف اللہ رحمہ اللہ بھی جام شہادت نوش کر گئے۔ شہید جامعہ ابی بکر الاسلامیہ میں کلیہ الحدیث (فیکلٹی آف حدیث) میں آخری سال میں زیر تعلیم تھے اور خوش قسمتی سے ان کا دنیا کی عظیم الشان اسلامی یونیورسٹی الجامعۃ الاسلامیہ مدینہ منورہ میں داخلہ ہو چکا تھا۔ محب اللہ رحمہ اللہ ان دنوں جامعہ کے قریب واقع درزی کی دوکان پر کپڑے سلوانے گئے تھے مگر واپسی پر دہشت گردوں کی کاروائی کی زد میں آگئے انا للہ وانا الیہ راجعون۔ جامعہ میںا ن کی شہادت کی خبر سن کر ہر آدمی سکتہ میں آگیا۔ جملہ اساتذہ کرام، متعلقین جامعہ اور طلبا کرام مرحوم کی صفات حسنہ کے ذکر میں مصروف نظر آیا۔ ہسپتال سے ان کو نعش لانے کے لیے وکیل جامعہ فضیلۃ الشیخ ضیاء الرحمن المدنی حفظ اللہ نے خصوصی کوششیں کی مرحوم کے غسل و کفن کا انتظام جامعہ میں ہی کیا گیا نماز جنازہ میں جامعہ ابی بکر کے جملہ اساتذہ طلبہ اور دیگر شخصیات نے شرکت کی۔ نماز جنازہ میں امامت کے فرائض فضیلہ الشیخ صیاء الرحمن المدنی نے ادا فرمائی۔انہوں نے نماز جنازہ میں مرحوم کی مغفرت اور بلندی درجات کے لیے انتہائی رقت آمیز انداز میں دعائیں مانگی۔

نماز جنازہ میں شریک طلبا و اساتذہ مرحوم کے لیے رو رو کر دعائیں مانگتے رہے۔ جنازہ کے بعد ان کی میت کو خصوصی ایمبولینس کے ذریعے ان کے آبائی علاقے (خضدار) بلوچستان روانہ کیا گیا۔

فضیلہ الشیخ ضیاء الرحمن المدنی اور فضیلۃ الشیخ شاہد نجیب حفظہما اللہ جامعہ کی نمائندگی اور مرحوم کے لواحقین کو صبر جمیل کی تلقین کے لیے میت کے ہمراہ گئے۔

نمائندہ وفد نے واپسی پر محترم شہید بھائی کے والدین کے صبر اور عزمِ صمیم سے آگاہ کیا اور بتلایا کہ مرحوم آبائی علاقے میں تبلیغ دین میں پوری دلجمعی کے ساتھ مصروف عمل تھے۔کوئٹہ خضدار شہر سمیت متعدد مقامات پر غائبانہ نمازِجنازہ کا بھرپور انتظام کیا گیا تھا، جس میں لوگوں کی کثیر تعداد میں شرکت فرماکر مرحوم کی صدق بیانی اور وحدانیت کی شہادت دی۔ اللہم ارحمہ وعافہ واعف عنہ

محترم محب اللہ شہید کا شمار جامعہ کے مثالی طلباء میں ہوتا تھا۔ شہادت کے دن فجر کی اذان کی سعادت بھی اللہ نے ان کی قسمت میں لکھی تھی۔ انہوں نے اپنی شہادت سے چند گھنٹے پہلے حسب معمول قرآن مجید کا ایک سپارہ سنایا۔

یقیناً ان کی شہادت سے جامعہ ابی بکر ایک لائق فرزند امت مسلمہ ایک محنتی عالم دین اور اللہ کی دھرتی ایک نیک وجود سے محروم ہو چکی ہے۔ اس کی شہادت سے والدین نے بڑھاپے کا سہارا اور ان کی شریک حیات نے شجر سایہ دار کو کھو دیا ہے مگر کاش کوئی ان خوش قسمت والدین کو بتا دے کہ ان کا فرزند مرا نہیں امر ہو چکا ہے۔ ان کی آنکھوں کا منور تارا بجھا نہیں بلکہ کئی چراغ روشن کر گیا ہے۔خمیدہ کمر والے بوڑھے والد کو کوئی اطلاع دے دے کہ محب اللہ فی سبیل اللہ جام شہادت نوش کر چکا ہے۔

کیونکہ رسول معظمﷺ نے ارشاد فرمایا کہ علم کی جستجو میں مصروف عمل انسان سبیل اللہ میں ہوتا ہے۔ اس کی موت شہادت کی موت ہوتی ہے پھر محب اللہ بھائی ناصرف طالب علم تھا بلکہ یہ تو ناحق قتل کئے گئے ہیں۔

اس افسوسناک واقعہ کے بعد مدارس کے منتظمین کو اتفاق و اتحاد کے ساتھ اس سازش کا مقابلہ کرنا ہوگا تاکہ مستقبل میں ایسے تخریبی واقعات کا سد باب ہو سکے۔ دہشت گردی کی اس مذموم کاروائی سے ملک عزیز کے نام نہاد آزاد میڈیا کا اصل چہرہ بھی بے نقاب ہو چکا ہے۔

ملالہ زئی واقعہ کی کوریج کے لیے بے تاب میڈیا کو مقدس لاشے کیوں نظر نہ آئے؟منٹوں کے حساب سے تنخواہ پانے والے اینکر پرسن کی زبانیں گنگ کیوںہو گئی۔ الفاظ جن کے آگے پائوں باندھے کھڑے نظر آتے ہیں اوراستعارات جن کی جیب گھڑی ہے ایسے کالم نگاروں کو اس واقعہ پر لکھنے کے لیے الفاظ کیوں نہ مل سکے؟ بڑے بڑے اخبارات کسی سیاسی مشیر کے بیان کو بھی سرخی بنا کر شائع کرتے ہیں انہی اخبارات میں یہ واقعات چند کالمی خبر کیوں بن کر رہ گیا۔ ملالہ پر حملہ تعلیم پرحملہ تھا تو اس طالبان علم نبوت پر حملہ کس زمرے میں آتا ہے۔

حقیقت یہی ہے کہ میڈیا مغرب کا زر خرید غلام ہے اس کے نزدیک بریکنگ نیوز صرف وہی واقعہ ہوتا ہے جس میں ان کے آقائوں کی خوشنود ہوں۔

آخر میں ہم ملک عزیز کے سیکورٹی اداروں سے اپیل کرتے ہیں وہ اس واقعہ کے ذمہ داروں کو گرفتار کر کے جلد از جلد قرار واقع سزا دیں تاکہ کسی سفاک انسان کو پاکستان کے امن پسند اور صلح پسند افراد کو دوبارہ نقصان پہنچانے کی ہمت نہ ہو۔

دعا ہے کہ اللہ رب العزت محبت اللہ شہید رحمہ اللہ کے درجات کو بلند فرمائے اور انہیں جنت الفردوس میں اعلیٰ مقام عطا فرمائے۔ آمین۔

اللھم اغفرلہ وارحمہ واکرم نزلہ ووسع مدخلہ واغسلہ بالماء والثلج والبرد

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے