مترجم:محمد حافظ محمد ساجد حفظہ اللہ                تفہیم و تصحیح: ڈاکٹر مقبول احمد مکی

زکوٰۃ ادا کرنے کی ترغیب اور اس کے وجوب کی تاکید

وعن أبی الدردائِ رضی اللّٰہ عنہ قال: قال رسول اللّٰہﷺ: (( خمسٌ مَن جاء بھنَّ مع إیمانٍ دخلَ الجنۃَ: مَن حافظَ علی الصلواتِ الخمسِ، علی وضوئِھنَّ ورکوعِھنَّ وسجودھنَّ ومواقیتِھنّ ، وصامَ رمضانَ، وحجَّ البیتَ إنِ استطاعَ إلیہ سبیلاً ، وأعطی الزکاۃَ طیِّبۃً بھا نفسُہُ )) ۔

سیدنا ابودرداءt سے روایت ہے کہ رسول اللہe نے ارشاد فرمایا: پانچ چیزیں ایسی ہیں کہ جو شخص ان کو (اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں) ایمان کے ساتھ لے کر آئے تو وہ جنت میں داخل ہوگا۔ 1 جو شخص پانچ نمازوں کو ان کے وقت میں پڑھنے کا اہتمام کرے2 ان کے وضوء، رکوع اور سجدہ کو بھی احسن طریقے سے ادا کرے 3 رمضان المبارک کے روزے رکھے 4اگر استطاعت ہو تو بیت اللہ کا حج بھی کرے 5 اور خوش دلی کے ساتھ زکوٰۃ ادا کرے۔   [طبرانی،کبیر۔حسن]

وعن حذیفۃ رضی اللّٰہ عنہ عن النبیﷺ قال: ((الاسلامُ ثمانیۃُ أسھمٍ الإسلامُ سھمٌ، والصلاۃُ سَھْمٌ، والزکاۃُ سھمٌ، والصومُ سھمٌ، وحجُّ البیتِ سھمٌ، والأمر بالمعروف سھمٌ، والنھیُ عن المنکرِ سھمٌ، والجھاد فی سبیل اللّٰہ سھمٌ، وقد خاب من لاسھم لہ))

سیدنا حذیفہt سے روایت ہے کہ نبی اکرمe نے فرمایا:اسلام کے آٹھ حصے ہیں۔1قبولِ اسلام2 نماز 3زکوٰۃ 4 روزہ 5 بیت اللہ کا حج 6 نیکی کا حکم دینا 7 برائی سے روکنا 8 اللہ تعالیٰ کی راہ میں جہاد ۔ اور یقینا وہ شخص ناکام اور نامراد ہوگیا جس کے لیے (ان میں سے کوئی ایک بھی) حصہ نہ ہوا۔ [البزار۔حسن لغیرہ]

وعن جابر رضی اللّٰہ عنہ قال: قال رجل: یا رسول اللّٰہ! أر أیت إنْ أدَّی الرجلُ زکاۃَ مالہِ؟ فقال رسول اللّٰہ ﷺ: (( مَن أدّی زکاۃَ مالہِ: فقد ذھب عنہ شَرُّہ ))

سیدنا جابرt سے روایت ہے کہ ایک شخص نے عرض کیا: اے اللہ کے رسولe اگر ایک شخص اپنے مال کی زکوٰۃ ادا کرتا ہے تو آپe اس کے متعلق کیا فرماتے ہیں۔ رسول اللہe نے ارشاد فرمایا جس شخص نے اپنے مال کی زکوٰۃ ادا کی یقینا اس سے اس کے مال کا شر زائل ہوگیا۔ [طبرانی، صحیح ابن خزیمۃ۔ حسن لغیرہ]

وعن سَمُرۃ رضی اللّٰہ عنہ قال: قال رسول اللّٰہﷺ:(( أقیموا الصلاۃ، وآتُوا الزکاۃ، وحجُّوا، واعتمِروا، واستقیموا یُستَقَمْ بکم ))

سیدنا سمرۃt سے روایت ہے کہ رسول اللہe نے فرمایا: نماز قائم کرو اور زکوٰۃ کو ادا کرو (بیت اللہ کا) حج اور عمرہ کرو، اور سیدھے رہو (دین اسلام پر قائم رہو) تمہارے معاملات درست ہوجائینگے۔[طبرانی فی الثلاثۃ۔ صحیح لغیرہ]

وعن أبی ھریرۃ رضی اللّٰہ عنہ:أنّ أعرابیاً أتی النبیَّﷺ فقال: یا رسولَ اللّٰہ! دُلَّنی علی عمل اذا عمِلْتُہ دخلتُ الجنۃ۔ قال:(( تعبدُ اللّٰہَ لاتشرکُ بہ شیئاً، وتقیمُ الصلاۃَ المکتوبۃَ ، وتؤتی الزکاۃَ المفروضۃَ، وتصومُ رمَضانَ )) قال: والذی نفسی بیدہ لا أزید علی ھذا ولا أنقُص منہ۔ فلما ولَّی، قال النبیﷺ:((مَن سَرَّہُ أنْ یَنظرَ الی رجلٍ من أھل الجنۃِ، فلینْظر إلی ھذا ))

سیدنا ابوہریرہt سے روایت ہے کہ ایک اعرابی (دیہاتی) نبی اکرمﷺ کی خدمت میں حاضر ہوکر کہنے لگا اے اللہ کے رسول e! مجھے کوئی ایسا عمل بتائیے کہ جس کے کرنے سے میں جنت میں داخل ہو جاؤں؟ آپe نے فرمایا: ایک اللہ کی عبادت کر اور اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہرا، فرض نماز کو قائم کر اور فرض زکوٰۃ ادا کر، اور رمضان المبارک کے روزے رکھ۔ اعرابی کہنے لگا اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے میں اس پر نہ کچھ اضافہ کروں گا اور نہ ہی اس میں سے کچھ کمی کروں گا جب وہ جانے لگا تو نبی کریمﷺ نے فرمایا جو شخص یہ چاہتا ہے کہ میں کسی جنتی آدمی کو دیکھوں وہ اس کو دیکھ لے۔ [بخاری، مسلم]

وعن عمرو بن مُرَّۃَ الجھنی رضی اللّٰہ عنہ قال: جاء رجلٌ من قُضاعَۃَ إلی رسول اللّٰہﷺ فقال:إنی شھدتُ أنْ لا إلہَ إلا اللّٰہُ ، وأنک رسولُ اللّٰہِ ، وصلیتُ الصلواتِ الخمسَ ، وصمتُ رمضانَ وقمتُہ، وآتیت الزکاۃ۔ فقال رسول اللّٰہﷺ: (( من ماتَ علی ھذا کان من الصدّیقین والشھداء ))

سیدنا عمرو بن مرہ الجھنیt سے روایت ہے کہ قضاعۃ (قبیلہ) کا ایک شخص رسول اللہe کی خدمت میں حاضر ہوکر عرض کرنے لگا یقینا میں نے اس بات کی گواہی دی کہ اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی حقیقی معبود نہیں اور یہ کہ آپe اللہ تعالیٰ کے (سچے) رسول اکرمe ہیں اور میں نے پانچ نمازیں پڑھیں اور رمضان کے روزے رکھے اور اس کی راتوں میں قیام کیا اور زکوٰۃ بھی ادا کی۔ (یہ سن کر) رسول اللہe نے فرمایا (جو اس پر قائم رہا حتیٰ کہ) اس کی موت اسی پر واقع ہوئی وہ (قیامت کے دن) صدیقین اور شھداء میں سے ہوگا۔ [البزار، ابن خزیمہ، ابن حبان۔ صحیح]

وعن عبداللّٰہِ بن معاویۃَ الغاضری رضی اللّٰہ عنہ قال: قال رسول اللّٰہ ﷺ: (( ثلاثٌ من فعلھنَّ فقد طَعِمَ طَعْمَ الإیمان: مَن عَبَدَ اللّٰہ وحدَہ ، وعلم أنْ لا إلہَ إلا اللّٰہُ ، وأعطی زکاۃَ مالہِ طیِّبۃً بھا نفسُہ، رافدۃً علیہ کلَّ عامٍ، ولم یُعطِ الھَرِمَۃَ ، ولا الدَّرِنَۃَ ، ولا المریضۃَ ، ولا الشَّرَط اللئیمۃ، ولکنْ مِن وَسَطِ أموالکم ، فانّ اللّٰہ لم یسألْکُمْ خَیرَہ ، ولم یأمرْکُمْ بشرِّہ ))

سیدنا عبداللہ بن معاویہ الغاضریt سے روایت ہے کہ رسول اللہe نے فرمایا: جس شخص نے تین اعمال کیے اس نے ایمان کی لذت کو پالیا 1 جس نے ایک اللہ وحدہ لاشریک کی عبادت کی2 اور بخوبی جان لیا کہ اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی حقیقی معبود نہیں 3 اور ہر سال خوش دلی سے زکوٰۃ ادا کی (بوجھ نہ سمجھا) اور اس نے (جانوروں کی زکوٰۃ میں) بوڑھا جانور، خارش زدہ، مریض یا گھٹیا قسم کا جانور نہ دیا۔ تم زکوٰۃ میں متوسط جانور دیا کرو یقینا اللہ تعالیٰ زکوٰۃ میں تمہارے بہترین مال نہیں چاہتا اور نہ ہی (زکوٰۃ میں) ناقص مال دینے کا حکم دیتا ہے۔   [ابوداؤد۔ صحیح لغیرہ]

وعن أبی ھریرۃ رضی اللّٰہ عنہ: أن رسول اللّٰہﷺ قال: (( إذا أدیتَ الزکاۃَ فقد قضیتَ ما علیک، ومن جمعَ مالاً حراماً ثم تصدق بہ: لم یکن لہ فیہ أجر، وکان إصرہ علیہ ))

سیدنا ابوہریرہt سے روایت ہے کہ رسول اللہe نے فرمایا: کہ جب تونے (اپنے مال کی) زکوٰۃ کو ادا کردیا تو جو فرض (واجب) تجھ پر تھا وہ تونے ادا کردیا، اور جس شخص نے (ناجائز ذرائع سے) حرام کا مال جمع کرکے اس میں سے صدقہ کیا تو اس کے لیے اس صدقہ کا کوئی اجر نہ ہوگا بلکہ اس حرام کمائی کا وبال اس پر ہوگا۔ [ابن خزیمہ، ابن حبان، حاکم۔ حسن]

زکوٰۃ ادا نہ کرنے پر وعید اور زیور کی زکوٰۃ کا حکم

عن أبی ھریرۃ رضی اللّٰہ عنہ قال: قال رسول اللّٰہ ﷺ:(( ما مِن صاحبِ ذھبٍ ولا فضۃٍ لا یؤدّی منھا حقَّھا إلا إذا کان یومُ القیامۃ صفّحَتْ لہ صفائحُ من نارٍ ، فأُحمیَ علیھا فی نار جَھَنَّمَ ، فیُکوَی بھا جَنْبُہ وجَبینُہ وظَھرُہ ، کلَّما بَرَدَتْ أُعیدَتْ لہ {فی یومٍ کان مقدارُہ خمسین ألفَ سنۃٍ } ، حتی یُقضی بین العباد، فیری سبیلَہ، إما إلی الجنۃ، ، وإماّ إلی النار )) قیل : یا رسولَ اللّٰہ ! فالإبل ؟ قال:(( ولا صاحبُ إبلٍ لا یؤدِّی منھا حقَّھا۔ ومن حقھا حَلَبُھا یومَ وِردِھا۔ إلا إذا کان یوم القیامۃ بُطح لھا بقاع قَرقَرٍ أوفَرَ ما کانت، لا یفقدُ منھا فَصیلاً واحداً ، تَطؤہ بأخفافِھا ، وتَعَضُّہ بأفواھھا ، کلما مَرَّ علیہ أُولاھا رُدَّ علیہ أُخراھا، {فی یومٍ کان مقدارُہ خمسین ألف سَنَۃٍ } ، حتی یُقضی بین العباد، فَیَری سبیلَہ إما إلی الجنۃ ، وإما إلی النار ))۔ قیل: یا رسولَ اللّٰہ ! فالبقرُ والغنمُ؟ قال: (( ولا صاحبُ بقرٍ ولا غَنَم لا یؤدَّی منھا حقّھا إلا إذا کان یومُ القیامۃ بُطِح لھا بقاعٍ قرقرٍ أوفرَ ما کانت، لا یفقِد منھا شیئاً ، لیس فیھا عقصائُ ولا جَلحائُ ، ولا عَضبائُ ، تَنْطَحُہُ بقرونھا، وتطؤہ بأظلافھا، کلما مرَّ علیہ أُولاھا، رُدَّ علیہ أُخراھا، { فی یومٍ کان مقدارُہ خمسینَ ألفَ سنۃ} ، حتی یُقضی بین العباد، فیری سبیلَہ، إماَّ إلی الجنۃِ ، وإما إلی النار )) ۔ قیل: یا رسول اللّٰہ! فالخیلُ؟ قال: (( الخیل ثلاثۃٌ ، ھی لرجلٍ وِزرٌ ، وھی لرجلٍ سِترٌ ، وھی لرجل أجْرٌ ، فأما التی ھی لہ وزْر : فرجلٌ رَبَطَھا ریائً وفخراً ونِواء لأھلِ الإسلام، فھی لہ وزر۔ وأما التی ھی لہ سِتْر: فرجلٌ رَبَطھا فی سبیل اللّٰہِ ، ثم لم یَنْسَ حقّ اللّٰہِ فی ظھورِھا ولا رقابھا، فھی لہ سِتر۔ وأما التی ھی لہ أجر: فرجلٌ ربطھا فی سبیل اللّٰہ لأھل الإسلام ، فی مَرْج أو رَوضۃٍ ، فما أکلتْ من ذلک المرج أو الروضۃِ من شیء إلا کُتِب لہ عَدَدَ ما أکلتْ حسنات، وکُتب لہ عَدَدَ أرْواثِھا وأبوالھا حسناتٌ، ولا تقطع طِولَھا فاسْتَنَّتْ شَرَفاً أو شَرَفَین إلا کُتِبَ لہ عَدَدَ آثارِھا وأرواثِھا حسناتٍ ، ولا مَرَّبھا صاحبُھا علی نھرٍ فَشَربتْ منہ ، ولا یرید أن یسقیَھا : إلا کتبَ اللّٰہ تعالٰی لہ عَدَدَ ما شربتْ حَسَنَاتٍ ))۔ قیل: یا رسول اللّٰہ ! فالحمُرُ ؟ قال: (( ما أُنْزلَ علَیّ فی الحمُرِ إلا ھذہ الآیۃُ الفاذَّۃُ الجامعۃُ : { فَمَنْ یعملْ مثقالَ ذرۃٍ خیرا یَرَہُ ۔ وَمَنْ یَعمل مثقالَ ذَرَّۃٍ شرا یرہُ}))۔

سیدنا بوہریرہt سے روایت ہے کہ رسول اللہe نے فرمایا: جس شخص کے پاس بھی سونا اور چاندی ہے اور وہ اس میں سے زکوٰۃ ادا نہیں کرتا تو قیامت کے دن اس کے لیے آگ سے سونے اور چاندی کے پترے (لوہے کے راڈ) بنائے جائیں گے پھر جہنم کی آگ میں ان کو تپایا جائے گا، پھر ان پتروں (لوہے کے راڈوں) سے ان کے پہلوؤں، پیشانی اور کمر کو داغا جائے گا پچاس ہزار سال کی مقدار کے برابر کے دن میں یہاں تک کہ بندوں کے درمیان فیصلہ کردیا جائے گا۔ جب بھی ان کی تپش کم ہوگی دوبارہ پھر سے انہیں تپایا جائے گا پھر وہ اپنی راہ کو دیکھے گا جنت کی طرف یا جہنم کی طرف صحابہy نے عرض: کیا اے اللہ تعالیٰ کے رسولe! اونٹ (کی زکوٰۃ اگر نہ دی گئی اس) کا کیا (حشر) ہوگا؟ آپe نے فرمایا: جو اونٹوں والا اپنے اونٹوں کی زکوٰۃ ادا نہیں کرتا اور اونٹوں میں (زکوٰۃ کے علاوہ ایک مستحب) حق یہ بھی ہے کہ جس دن ان کو پانی پلانے کے لیے لے جایا جائے تو ان کا دودھ دھو کر (محتاجوں میں) تقسیم کردیا جائے، جب قیامت کا دن ہوگا (اونٹوں کی زکوٰۃ نہ دینے والے کو) ایک وسیع و ہموار چٹیل میدان میں منہ کے بل گرا دیا جائے گا، اونٹ پہلے سے زیادہ موٹے تازے اور کثیر تعداد میں ہوں گے وہ شخص اپنے اونٹوں میں سے ایک بچہ بھی غائب نہ پائے گا، وہ سب کے سب اپنے قدموں سے اسے روندیں گے اور دانتوں سے کاٹ رہے ہوں گے جب اس پر سے پہلا دستہ (روندتا ہوا) گزر جائے گا تو پھر اس پر دوسرا دستہ گزرے گا (مسلسل یہی ہوتا رہے گا) اس پورے (قیامت کے) دن میں کہ جس کی مقدار پچاس ہزار سال کے برابر ہے، یہاں تک کہ لوگوں کے درمیان فیصلہ کر دیا جائے گا اور وہ شخص اپنا مقام دیکھ لے گا جنت میں یا جہنم میں۔ عرض کیا گیا گائے اور بکریوں کے متعلق کیا (حکم) ہے؟ آپe نے فرمایا گائے اور بکریوں کا جو مالک ان کی زکوٰۃ ادا نہیں کرتا تو قیامت کے دن اسے منہ کے بل چٹیل اور وسیع میدان میں گرایا جائے گا وہ جانور دنیا کے اعتبار سے بہت زیادہ موٹے اور تازے ہوں گے، وہ ان میں سے کسی کو بھی غائب نہ پائے گا، ان میں مڑے ہوئے سینگوں والا، بغیر سینگوں والا اور ٹوٹے ہوئے سینگوں والا کوئی جانورغائب نہ ہوگا (بلکہ سب جانور لمبے اور نوک دار سینگوں والے ہوں گے) جانور اسے سینگ ماریں گے اور اپنے قدموں سے روندیں گے، جب اس پر سے پہلا دستہ (روندتے ہوئے) گزر جائے گا تو پھر اس پر سے دوسرا دستہ گزرے گا (مسلسل یہی ہوتا رہے گا) اس پورے (قیامت کے) دن میں جس کی مقدار پچاس ہزار سال کے برابر ہے، یہاں تک لوگوں کے درمیان فیصلہ کردیا جائے گا تو شخص اپنا ٹھکانہ دیکھ لے گا جنت میں یا دوزخ میں۔ عرض کیا گیا گھوڑوں کے متعلق کیا (حکم) ہے؟ آپe نے فرمایا! گھوڑے (مالک کی نیت کے اعتبار) تین قسم کے ہیں، کسی شخص کے لیے گھوڑے وبال (عذاب) ہوں گے اور بعض کے لیے پردہ پوشی کا ذریعہ ، اور کچھ لوگوں کے لیے گھوڑے باعث ثواب ہوں گے۔ جس شخص کے لیے یہ وبال (عذاب) کا ذریعہ ہوں گے یہ تو وہ شخص ہے کہ جس نے گھوڑے، فخر اور مسلمانوں کی عداوت کے لیے رکھے ہوں گے۔ اور جس شخص کے لیے یہ پردہ (بچاؤ، عزت و رفعت کا ذریعہ) ہیں یہ وہ شخص ہے کہ جس نے انہیں اللہ کی راہ کے لیے رکھا ہوا ہے، نیز ان کی پشتوں اور گردنوں (جانوں) میں جو حقوق ہیں وہ ان کی ادائیگی میںغفلت نہیں کرتا، اس شخص کے لیے یہ گھوڑے باعث اجر و ثواب ہیں کہ جس نے ان کو اہل اسلام کے لیے فی سبیل اللہ سرسبز چراگاہوں اور باغیچوں میں پال رکھا ہے، وہ گھوڑے وہاں سے جو کچھ بھی (گھاس وغیرہ) کھاتے ہیں تو ان کے مالک کے لیے اس کے برابر نیکیاں نامہ اعمال میں لکھی جاتی ہیں۔ یہاں تک وہ جس قدر گوبر و پیشاب کرتے ہیں اس کے برابر ان مالک کے لیے نیکیاں لکھی جاتی ہیں او جب یہ گھوڑے رسی کو توڑ کر ایک یا دو ٹیلوں پر اچھلتے اور کودتے ہیں ان کے(قدموں کے) تمام نشانات اور گوبر کے برابر نیکیاں لکھی جاتی ہیں، اور جب بھی ان کا مالک ان کو لے کر کسی نہر کے پاس سے گزرتا ہے اور وہ نہر سے پانی پیتے ہیں حالانکہ مالک کا ان کو اس نہر سے پانی پلانے کا ارادہ نہیں تھا تو جس قدر ان گھوڑوں نے پانی پیا اس کے برابراس کے لیے نیکیاں لکھی جاتی ہیں۔ عرض کیا گیا گدھوں کے بارے میں کیا (حکم) ہے؟ آپe نے فرمایا کہ گدھوں کے متعلق مجھ پر اس ایک جامع اور بے مثل آیت مبارکہ کے اور کچھ بھی نازل نہیں کیا گیا:

فَمَنْ یَّعْمَلْ مِثْقَالَ ذَرَّۃٍ خَیْرًا یَّرَہٗ o وَمَنْ یَّعْمَلْ مِثْقَالَ ذَرَّۃٍ شَرًّایَّرَہٗ‘

جس شخص نے (دنیا میں) ذرہ برابر نیکی کی وہ اس کو بھی (قیامت کے دن) دیکھ لے گا اور جس نے ذرہ برابر بھی برائی کی وہ اس کو بھی دیکھ لے گا۔ [بخاری، مسلم، نسائی۔ صحیح]

وعن جابرٍ رضی اللّٰہ عنہ قال: سمعت رسول اللّٰہﷺ یقول: (( ولا صاحبِ کنزلا یفعل فیہ حَقَّہ إلا جاء کنزُہ یومَ القیامۃ شجاعاً أقرعَ ، یتبعُہ فاتحاً فاہ، فاذا أتاہ فَرَّمنہ ، فینادیہ: خذ کنزک الذی خَبَّأتَہ ، فأنا عنہ غَنیٌّ، فاذا رأی أَنْ لا بدلہ منہ سلک یدہ فی فیہ، فَیَقضمھا قَضْم الفحل )) ۔

سیدنا جابرt سے مروی ہے کہ میں نے رسول اللہe کو فرماتے ہوئے سنا کہ جس مال دار نے اس مال کا حق ادا نہ کیا تو قیامت والے دن اس کا مال گنجے زہریلے سانپ کی شکل اختیار کرکے اس کے پیچھے منہ کھول کر دوڑے گا مال کا حق ادا نہ کرنے والا اس سے دور بھاگے گا پس وہ (سانپ) اس سے کہے گا اب پکڑ اپنا خزانہ جو تونے جمع کر رکھا تھا مجھے اس کی کوئی ضرورت نہیں پھر جب وہ دیکھے گا اس (سانپ) سے بچنے کا کوئی راستہ نہیں تو وہ اس کے منہ میں ہاتھ ڈال دے گا وہ (سانپ) اس کے ہاتھ کو اس طرح چبائے گا جیسے اونٹ چباتا ہے۔ [مسلم۔صحیح]

وعن مسروق قال: قال عبداللّٰہ: (( آکلُ الربا، ومُوکِلُہ ، وشاھداہ إذا علماہ ، والواشمۃ والموتَشِمَۃُ ، ولاوی الصدقۃِ ، والمرتدُّ أعرابیاً بعد الھجرۃ: ملعونون علی لسان محمدٍﷺ یوم القیامۃ )) ۔

سیدنا مسروقa سے مروی ہے کہ سیدنا عبداللہt نے فرمایا سود لینے والا، سود دینے والا، سود کی حقیقت کو جان لینے کے باوجود اس پر گواہ بننے والے، گودنے والی اور گدوانے والی، زکوٰۃ ادا نہ کرنے والا، اور ہجرت کے بعد مرتد ہو جانے والا دیہاتی (یہ سب) قیامت کے دن محمدe کی زبان سے لعنتی قرار دئیے جائینگے۔   [ابن خزیمہ۔ حسن لغیرہ]

وروی الأصبھانی عن علی رضی اللّٰہ عنہ قال: ((لعنَ رسولُ اللّٰہ ﷺ آکلَ الربا، وموکلَہ ، وشاھدَہ، وکاتبہ، والواشمۃَ ، والمستوشمۃَ ، ومانعَ الصدقۃ، والمحلِّلَ والمحلَّلَ لہ ))

اصبہانی نے سیدنا علیt سے روایت کی ہے کہ رسول اللہe نے سود لینے والے، سود دینے والے، اس کے گواہوں پر، اس کے تحریر کرنے والوں پر، گودنے والی اور گدوانے والی پر، زکوٰۃ ادا نہ کرنے والوں پر، حلالہ کرنے والے اور جس کے لیے حلالہ کیا گیا ہے (ان سب پر) لعنت کی ہے۔   [اصبہانی۔ حسن لغیرہ]

وعن أبی ھریرۃ رضی اللہ عنہ عن النبیﷺ قال: (( مَن آتاہ اللہ مالًا فلم یؤدِّ زکاتَہ: مُثِّلَ لہ یومَ القیامۃِ شجاعاً أقرَع، لہ زبیبتان یُطَوِّقُہ یومَ القیامۃ ، ثم یأخذ بِلِھزِمَتَیْہ (یعنی شِدقَیہ) ، ثم یقول: أنا مالُکَ ، أنا کنزک!)) ۔ ثم تلاھذہ الآیۃ: { ولا تَحْسَبَّن الذین یَبْخَلُونَ} (اٰل عمران180)

سیدنا ابوہریرہt سے روایت ہے کہ رسول اللہe نے فرمایا: جس شخص کو اللہ نے مال عطا کیا (لیکن) اس نے اس (مال) کی زکوٰۃ ادا نہ کی تو قیامت کے دن اس کا مال زہریلے گنجے سانپ کی شکل اختیار کرے گا جس کی آنکھوں پر دو سیاہ نقطے ہوں گے اور وہ اس کی گردن میں طوق کی طرح ڈال دیا جائے گا وہ اس کے دونوں جبڑوں کو پکڑ کر کہے گا میں تیرا مال ہوں، میں تیرا خزانہ ہوں (جس کی تونے زکوٰۃ ادا نہ کی تھی) اس کے بعد رسول اللہe نے یہ آیت تلاوت کی (جس کا ترجمہ ہے) ’’ وہ لوگ ہرگز خیال نہ کریں جو بخل کرتے ہیں‘‘ مکمل آیت پڑھی۔   [بخاری، نسائی،مسلم۔ صحیح]

وعن أنس بن مالک رضی اللّٰہ عنہ قال: قال رسول اللّٰہﷺ : (( مانعُ الزکاۃ یومَ القیامۃ فی النار ))

سیدنا انس بن مالکt سے روایت ہے کہ رسول اللہe نے فرمایا: زکوٰۃ کو روکنے والا (ادا نہ کرنے والا) قیامت کے دن (جہنم کی) آگ میں ہوگا۔   [طبرانی فی (الصغیر)۔ حسن صحیح]

وعن بُریدۃ رضیَ اللہ عنہ قال: قال رسول اللّٰہﷺ :(( ما منعَ قومٌ الزکاۃَ إلا ابتلاھم اللّٰہ بالسنین)) رواہ الطبرانی فی (الأوسط)، والحاکم والبیھقی فی حدیث: إلا أنھما قالا: (( ولا مَنَعَ قومٌ الزکاۃَ إلا حَبَسَ اللّٰہُ عنھم القَطْرَ ))

سیدنا بریدہtسے روایت ہے کہ رسول اللہe نے فرمایا: جو قوم بھی زکوٰۃ کو روک لیتی ہے (ادا نہیں کرتی) تو اللہ تعالیٰ انہیں قحط سالی میں مبتلا کردیتے ہیں۔   [طبرانی]

وعن ابن عمر رضی اللّٰہ عنھما أن رسول اللّٰہ ﷺ قال: (( یا معشرَ المھاجرین! خصالٌ خمسٌ إن ابتُلِیتُم بھنَّ ، وَنَزَلْنَ بکم۔ [و] أعوذ باللّٰہِ أنْ تُدرکوھنَّ ۔ لم تظھر الفاحشۃُ فی قومٍ قطُّ حتی یُعلنوا بھا : إلا فشا فیھم [الطاعون و] الأوجاعُ التی لم تکن فی أسلافِھم ، ولم یَنْقُصُوا المِکیالَ والمیزان : إلا أُخِذوا بالسنین وشِدَّۃِ المؤنۃِ وجَوْرِ السلطان، ولم یَمنعوا زکاۃَ أموالِھم: إلا مُنعوا القَطْر من السماء ، ولولا البھائم لم یُمطروا ،ولا نَقَضوا عھدَ اللّٰہِ وعھدَ رسولِہ : إلا سُلِّطَ علیھم عدوٌّ من غیرِھم ، فیأْخذ بعضَ ما فی أیدیھم ، ومالم تحکم أئمتھم بکتاب اللّٰہ إلا جُعِل بأْسھم بینھم ))

سیدنا عبداللہ بن عمر t سے روایت ہے کہ رسول اللہe نے فرمایا: اے مہاجرین کی جماعت! پانچ چیزیں ایسی ہیں کہ اگر تم ان میں مبتلا کردئیے جاؤ اور وہ تم پر واقع ہو جائے تو میں تو اللہ سے پناہ مانگتا ہوں کہ کہیں تم ان میں مبتلا نہ ہو جاؤ۔ 1 فحاشی اور بدکاری جس بھی قوم میں عام ہو جائے اور علی الاعلان کرتے ہو تو اس قوم میں ایسی ایسی بیماریاں جنم لیتی ہیں جو پہلے کبھی بھی نہ تھیں2 جو قوم ناپ اور تول میں کمی کرنے لگے ان پر قحط، مشقت اور حکمران کا ظلم مسلط ہو جائے گا 3 اور جس بھی قوم نے زکوٰۃ کو ادا نہ کیا تو ان سے بارشیں روک لی جائیں گی (یاد رکھو) اگر جانور نہ ہوں تو بالکل بھی بارش نہ ہو 4 اور جو لوگ اللہ تعالیٰ اور اس کے رسولe کے عہدوپیماں کی خلاف ورزی کے مرتکب ہوں گے ان پر دوسری (دشمن) قوموں کو مسلط کردیا جائے گا جو ان کے مال و اسباب کو لوٹ لیں گی 5 اور جس قوم کے حکمران اللہ تعالیٰ کی کتاب کے مطابق فیصلے نہ کریں گے ان میں خانہ جنگی ہوکر رہے گی۔   [بیہقی، ابن ماجہ، البزار۔ حسن۔ صحیح ]

وعن ابن عباس رضی اللّٰہ عنھما قال: قال رسول اللّٰہﷺ: (( خمسٌ بخمس )) قیل: یا رسول اللّٰہ ! ماخمسٌ بخمسٍ ؟ قال: (( ما نقض قومٌ العھدَ إلا سُلِّط علیھم عدوُّھم ، وما حکموا بغیر ما أنزل اللّٰہ إلا فشا فیھم [الفقرُ ، ولا ظھرت فیھم الفاحشۃُ إلا فشا فیھم ] الموت، ولا منعوا الزکاۃ إلا حُبِسَ عنھم القَطْرُ ، ولا طَفَّفُوا المکیالَ : إلا حُبِسَ عنھم النباتُ ، وأُخذوا بالسنین ))

سیدنا عبداللہ بن عباسw سے روایت ہے کہ رسول اللہe نے فرمایا: پانچ چیزیں پانچ چیزوں کے بدلے میں ہیں۔ عرض کیا گیا کن پانچ چیزوں کے بدلے پانچ چیزیں ہیں؟ تو آپe نے فرمایا: جو بھی قوم معاہدہ کی خلاف ورزی کرتی ہے تو اس پر ان کے دشمن مسلط کردئیے جاتے ہیں جو لوگ اللہ تعالیٰ کے نازل کردہ حکم کے خلاف فیصلہ کریں ان میں موت کی کثرت ہونے لگے گی، فقر بڑھ جائے گا اور فحاشی بھی عام ہوجائے گی۔ جن لوگوں نے زکوٰۃ کو روک لیا ان سے بارشیں روک لی جائیں گی اور جس قوم نے ناپ و تول میں کمی کی ان کی پیداوار کم ہو جائے گی اور وہ قحط سالی میں مبتلا کردئیے جائیں گے۔ [طبرانی فی (الکبیر)۔ صحیح لغیرہ]

وعن الأحنف بن قیسٍ قال: جلستُ إلی مَلَاٍ ٔمن قریشٍ ، فجاء رجلٌ خَشِنُ الشعَرِ والثیابِ والھیئۃ ، حتی قام علیھم فَسَلَّمَ ، ثم قال: (( بَشِّر الکانِزین برضفٍ یُحمَی علیہ فی نارِ جھنمَ ، ثم یوضع علی حَلَمَۃِ ثَدْیِ أحدِھم حتی یخرج من نُغْضِ کتِفِہ ، ویوضع علی نُغْض کتفہ حتی یخرج من حَلَمَۃِ ثَدیِہ یَتَزَلْزَلُ )) ثم ولیّ فجلس إلی ساریۃ ، وتَبعْتُہ ، وجلستُ إلیہ، وأنا لا أدری من ھو؟ فقلت: لا أری القومَ إلا قد کرھوا الذی قلتَ ۔ قال: إنھم لا یعقلون شیئاً ، قال لی خلیلی۔ قلت: مَن خلیلک ؟ قال: النبیﷺ: (( [یا أباذر! أ] تُبْصِرُ أُحُداً؟ ))
قال: فنظرت إلی الشمسِ ما بقی من النھار؟ وأنا أری رسولَ اللّٰہﷺ یرسلنی فی حاجۃ لہ۔ قلت: نعم۔ قال:
(( ما أُحِبُّ أنَّ لی مثلَ أُحدٍ ذھباً أُنفقہ کلَّہ ، إلا ثلاثۃَ دنانیر )) وإن ھؤلائِ لا یعقلون، إنما یجمعون الدنیا، لا واللّٰہ۔ لا أسألھم دُنیا، ولا أستفتیھم عن دِین، حتی ألقی اللّٰہَ عزوجل۔ رواہ البخاری ومسلم۔
وفی روایۃ لمسلم أنہ قال: (( بَشِّر الکانزین بِکیٍّ فی ظھورھم یخرج من جنوبھم، وبِکیٍّ من قِبَلِ أقفائِھم یخرج من جِباھِھم ))قال: ثم تَنَحَّی فقعد۔ قال: قلتُ : من ھذا؟ قالوا: ھذا أبو ذر۔ قال: فقمتُ إلیہ فقلت: ماشیئٌ سمعتُک تقول قُبَیْلُ ؟ قال: ما قلتُ إلا شیئاً قد سمعتُہ من نبیھمﷺ۔ قال: قلت: ما تقول فی ھذا العطاء؟ قال: خُذہ: فانّ فیہ الیومَ مَعُونَۃً ، فاذا کان ثمناً لدِینک فَدَعْہُ۔

جناب احنف بن قیسa کہتے ہیں میں قریش کی جماعت کے ساتھ بیٹھا ہوا تھا ایک سخت بالوں اور موٹے کپڑوں والا شخص آیا کہ جس کی حالت بھی انتہائی سادہ اور معمولی تھی۔ اور کھڑے ہوکر سب کو سلام کیا پھر کہنے لگا۔ خزانہ جمع کرنے والوں کو بشارت دو جہنم کی آگ میں تپائے ہوئے پتھر کی پھر وہ اس کی چھاتی پر رکھ دیا جائے گا جس کی حرارت اور شدت اس قدر ہوگی کہ وہ کندھے کی طرف سے پشت کی طرف پار ہوجائے گا۔ اور پھر کندھے کی پتلی ہڈی پر رکھ دیا جائے گا تو سینے کی طرف پار ہو جائے گا، اسی طرح وہ پتھر برابر ڈھلکتا (آر پار ہوتا) رہے گا یہ کہہ کر وہ چلا گیا اور ایک ستون کے ساتھ ٹیک لگا کر بیٹھ گیا، احنفa کہتےہیں میں بھی ان کے پاس جاکر بیٹھ گیا حالانکہ میں اُسے جانتا بھی نہیں تھا، میں نے کہا لوگوں نے آپ کی بات کو ناپسند کیا ہے وہ کہنے لگا یہ بیوقوف ہیں کچھ نہیں سمجھتے مجھ سے میرے خلیل (محبوب) نے کہا احنفa نے کہا آپ کا خلیل کون ہے، اس نے کہا نبی اکرمe ۔

اے ابوذرt! کیا اُحد پہاڑ دیکھ رہے ہو ابوذرt کہتے ہیں میں نے سورج کی طرف نظر اُٹھا کر دیکھا کہ کتنا دن باقی ہے اور میں سمجھا کہ آپe مجھے کسی جگہ کام کے لیے بھیجنا چاہتے ہیں۔ میں نے عرض کیا جی ہاں تو آپe نے فرمایا کہ اگر میرے پاس اُحد پہاڑ کے برابر سونا ہو تو میرا دل چاہتا ہے کہ میں اس سارے کو اللہ کی راہ میں خرچ کردوں مگر تین دینار (قرض وغیرہ کی ادائیگی کے لیے پاس رکھوں)۔

اس کے بعد ابوذرt فرمانے لگے یہ لوگ سمجھتے نہیں صرف دنیا کو جمع کرنے میں لگے ہوئے ہیں۔

اللہ کی قسم! نہ تو میں ان سے دنیا کے مال کا سوال کرتا ہوں اور نہ ہی دین کا کوئی مسئلہ ان سے پوچھوں گا۔ یہاں تک کہ میں اللہ سے جاملوں۔ (متفق علیہ)

مسلم کی ایک روایت میں ہے کہ خزانے جمع کرنے والوں کو ایسے عذاب کی خوشخبری سنا دو جو ان کی پیٹھوں پر ایسے داغ سے جو ان کے پیٹ پر لگائے جائیں گے تو ان کے پہلوؤں سے نکل آئیں گے۔ اور ان کی گُدی پر لگائے جائیں گے تو ان کی پیشانی سے نکل آئیں گے یہ کہہ کر وہ ایک طرف ہوگئے۔ میں نے لوگوں سے پوچھا یہ کون ہیں؟ انہوں نے کہا یہ (صحابی رسول) سیدنا ابوذرt ہیں میں ان کے پاس گیا اور عرض کیا کہ جو آپ ابھی فرما رہے تھے اس کا کیا معنیٰ ہے؟ انہوں نے فرمایا کہ میں نے وہی کہا جو میں نے رسول اللہe سے سنا تھا۔ پھر میں نے عرض کیا کہ آپ اس عطیہ کے بارے میں کیا فرماتے ہیں (جو مال غنیمت وغیرہ سے امراء مسلمانوں کو دیں)۔ انہوں نے فرمایا اس کو لے آج یہ تمہارا معاون ہے اور اگر یہ مال تیرے دین کا عوض بن جائے تو اسے چھوڑ دو۔   [بخاری،مسلم۔صحیح]

عن عمروِ بنِ شعیبٍ عن أبیہ عن جدہ: أنّ امرأۃ أتَتِ النبیﷺ ومعھا ابنۃٌ لھا، وفی ید ابنتھا مَسْکتان غلیظتان من ذھب، فقال لھا: (( أتعطین زکاۃَ ھذا؟ )) قالت: لا۔ قال:(( أیسرُّکِ أن یُسَوِّرَکِ اللّٰہُ بھما یوم القیامۃ سواَریْن مِن نارٍ ؟ !)) قال: فخلَعَتْھما فألقَتْھما إلی النبی ﷺ ، وقالت: ھما للّٰہ ولرسولہ۔

سیدنا عمرو بن شعیب، ان کے والد، ان کے دادا سے بیان کرتے ہیں ایک عورت اپنی بیٹی کے ساتھ رسول اللہe کی خدمت میں حاضر ہوئی۔ اس کی بیٹی کے ہاتھ میں دو بھاری بھرکم سونے کے کنگن تھے رسول اللہe نے فرمایا: کیا تو اس کی زکوٰۃ دیتی ہے وہ کہنے لگی نہیں تو آپe نے فرمایا کیا تجھے یہ بات اچھی لگتی ہے کہ قیامت کے دن اللہ تعالیٰ تجھے ان کے بدلے (جن کی تو زکوٰۃ نہیں دیتی) آگ کے دو کنگن پہنا دے۔

اس عورت نے (اسی وقت یہ سن کر) دونوں کنگن اتارے اور رسول اللہe کی خدمت میں پیش کرکے کہنے لگی یہ اللہ تعالیٰ اور اس کے رسولe کے لیے ہیں۔   [احمد، ابوداؤد، ترمذی، دارقطنی۔حسن ]

صدقہ (خیرات) کرنے کی ترغیب اور کم آمدنی والے کے صدقہ و خیرات کرنے میں کوشش کا بیان اور ایسا صدقہ کرنے کی ممانعت جو خود کو بھی پسند نہ ہو

وعن أبی ھریرۃ رضی اللّٰہ عنہ ؛ أنَّ رسول اللّٰہ ﷺ قال:(( ما نقصتْ صدقۃٌ من مال، وما زاد اللّٰہ عبداً بعفوٍ إلا عزاً ، وما تواضع أحد للّٰہ إلا رفعہ اللّٰہ عزوجل ))

سیدنا بوہریرہt سے مروی ہے کہ رسول اللہe نے فرمایا کہ صدقہ مال کو کم نہیں کرتا (بلکہ برکت کے نزول کا سبب ہوتا ہے) اور معاف کردینے سے اللہ تعالیٰ انسان کی عزت میں اضافہ فرماتے ہیں۔ اور جو کوئی اللہ تعالیٰ کے لیے عاجزی و انکساری کرتا ہے تو اللہ تعالیٰ اس کے مقام و مرتبے کو بلند فرما دیتے ہیں۔ [مسلم، ترمذی۔ صحیح]

(عن ابی ہریرۃ رضی اللّٰہ تعالٰی عنہ قَالَ: قَالَ رسول اللّٰۃﷺ:) (( إن العبدَ إذا تصدق من طیب تقبلھا اللّٰہ منہ ، وأخذھا بیمینہ فَرَبَّاھَا، کما یربِّی احدکم مُھرہ أو فصیلہ ، وإن الرجلَ لیتصدقُ باللقمۃ ، فتربو فی ید اللّٰہ ۔ أو قال: فی کفِّ اللّٰہ۔ حتی تکون مثل الجبل ، فَتَصَدَّقُوْا )) وفی روایۃ صحیحۃ للترمذی : قال رسول اللّٰہﷺ: (( إن اللّٰہ یقبلُ الصدقۃ ، ویأخذُھا بیمینہ ، فیربیھا لأحدکم کما یُربّی أحدُکم مُھرہ ، حتی إنّ اللقمۃَ لتصیرُ مثلَ أُحدٍ ))

(سیدنا ابوہریرہ t سے روایت ہے )رسول اللہe نے فرمایا: بندہ جب بھی رزق حلال سے صدقہ و خیرات کرتا ہے تو اللہ تعالیٰ اس کے صدقہ کو شرفِ قبولیت بخشتے ہیں، اور دائیں ہاتھ مبارک میں لے کر اس کی اس طرح نشونما فرماتے ہیں جیسا کہ تم میں سے کوئی اپنے بچھڑے کی یا اونٹ کے بچے کی پرورش کرتا ہے اور بلاشبہ آدمی اگر ایک لقمے کا بھی صدقہ کرے تو وہ (لقمہ) اللہ تعالیٰ کے ہاتھ میں نشوونما پاتا ہے یہاں تک کہ وہ (اللہ تعالیٰ کی رحمت سے) پہاڑ کی مانند ہو جاتا ہے [ابن خزیمہ۔ صحیح]

ایک دوسری روایت میں ہے کہ رسول اللہe نے فرمایا: بے شک اللہ تعالیٰ (بندے کا) صدقہ قبول فرما کر اپنے دائیں ہاتھ میں لے کر اس کی اس طرح نشوونما کرتے ہیں جس طرح کہ تم میں سے کوئی اپنے اونٹ کے بچے کی پرورش کرتا ہے۔ یہاں تک کہ وہ (صدقہ کا ایک )لقمہ احد پہاڑ کی مانند ہو جاتا ہے۔ [ترمذی۔ صحیح]

وعن عائشۃ رضی اللّٰہ عنھا: أنَّھم ذبحوا شاۃ ، فقال النبیﷺ: (( ما بقی منھا ؟ ))
قالت: ما بقی منھا إلا کتفھا ۔ قال: (( بقی کلُّھا غیرُ کتفھا ))

سیدہ عائشہ r سے مروی ہے کہ انہوں (گھر کے آدمیوں نے یا صحابہ کرامy) نے ایک بکری ذبح کی تو نبیe نے فرمایا کہ (کتنا گوشت تقسیم ہوچکا ہے اور) کتنا (گوشت) باقی بچا ہے سیدہ عائشہr نے عرض کیا صرف ایک شانہ باقی رہ گیا ہے تو رسول اللہe نے فرمایا شانے کے سوا باقی سب کچھ بچ گیا۔ (یعنی جو اللہ تعالیٰ کی راہ میں صدقہ کیا وہ ہی تو باقی بچا یعنی اللہ کے ہاں ذخیرہ ہوا)۔ [ترمذی۔ صحیح]

وعن أبی ھریرۃ رضی اللّٰہ عنہ قال: قال رسول اللّٰہﷺ : (( یقول العبدُ: مالی مالی ، وانما لہ من مالہ ثلاثٌ : ما أکل فأَفنی، أو لَبس فأبلی ، أو أعطی فاقْتنی ، وما سوی ذلک فھو ذاھب وتارکہ للناس ))

سیدنا بوہریرہt سے روایت ہے کہ رسول اللہe نے فرمایا کہ بندہ کہتا ہے میرا مال میرا مال، حقیقت میں اس کے (اصلی) مال کے تین حصے ہیں۔ 1 جو کھا کر ختم کردیا 2 جو پہن کر بوسیدہ کردیا 3 یا (اللہ تعالیٰ کی راہ میں) خرچ کرکے (آخرت کے لیے) ذخیرہ کرلیا اور اس کے علاوہ جو بچے گا وہ اُسے لوگوں کے لیے چھوڑ کر جانے والا ہے۔ [مسلم۔صحیح]

وعن ابن مسعود رضی اللّٰہ عنہ قال: قال رسول اللّٰہ ﷺ: (( أیُّکم مالُ وارثِہ أحبُّ إلیہ من مالہ؟ )) قالوا: یارسول اللّٰہ! ما منا أحدٌ إلا مالُہ أحبُّ إلیہ ۔ قال: (( فانَّ مالہ ما قدَّم ، ومالَ وارثہ ما أخَّر ))

سیدنا عبداللہ بن مسعودt سے روایت ہے کہ رسول اللہe نے فرمایا کہ تم میں کس کو اپنے وارث کا مال اپنے مال سے زیادہ پسند ہے؟ صحابہ کرامy نے عرض کیا اے اللہ تعالیٰ کے رسولe ! ہم میں سے ہر ایک کو اپنا مال اپنے وارث کے مال سے زیادہ محبوب ہے۔ تو رسول اللہe نے فرمایا انسان کا تو (حقیقی) مال وہ ہے جو اس نے (ذخیرہ بناکر) آگے بھیجا اور وہ مال تو اس کے وارث کا ہے جو اس نے اپنے پیچھے چھوڑا۔   [بخاری، نسائی۔ صحیح]

وعن أبی ھریرۃ رضی اللّٰہ عنہ قال: قال رسول اللّٰہ ﷺ: (( بینا رجل فی فلاۃٍ من الأرض ، فسمع صوتاً فی سحابۃ: اسقِ حدیقۃَ فلان۔ فتنحی ذلک السحاب، فأفرغ ماء ہ فی حَرَّۃٍ ، فاذا شَرْجَۃٌ من تلک الشِراج قد استوعبتْ ذلک الماء کلَّہ ، فتتبع الماء ،فإذا رجل قائم فی حدیقۃ یُحَوِّل الماء بمسحاتِہ ، فقال [لہ] : یا عبداللّٰہ! ما اسمک؟ : قَالَ فلان ، لِلاسم الذی سمع فی السحابۃ ۔ فقال لہ: یا عبداللّٰہ! لم سألتنی عن اسمی ؟ قال: [إنی] سمعتُ [ صوتاً] فی السحاب الذی ھذا ماؤہ یقول: اسقِ حدیقۃَ فلان؛ لاسمک، فما تصنع فیھا؟ قال: أما إذ قلتَ ھذا ، فإنِّی أنظر إلی ما یخرج منھا فأتصدَّقُ بثلثہ ، وآکل أنا وعیالی ثلثاً ، وأرُدَّ فیھا ثلثہ ))

سیدنا ابوہریرہt سے روایت ہے کہ رسول اللہe نے فرمایا ایک دفعہ کا ذکر ہے کہ ایک شخص چٹیل میدان میں تھا اس نے بادل میں سے یہ آواز سنی کہ فلاں شخص کے باغ کو پانی سیراب کرو۔ چنانچہ بادل ایک طرف چلا اور پتھریلی زمین میں خوب بارش برسی اور وہ سارا پانی ایک نالے میں جمع ہوکر چلنے لگا۔ چنانچہ وہ شخص (جس نے آواز سنی تھی) اس پانی کے پیچھے چل دیا۔ (کیا دیکھتا ہے) کہ وہاں ایک شخص کھڑا ہوا ہےاور اپنی کسی (بیلچہ) سے اپنے باغ میں اس (بارشی) پانی کو پھیر رہا ہے۔ اس نے پوچھا اے للہ کے بندے تیرا نام کیا ہے؟ وہ کہنے لگا کہ میرا نام فلاں ہے یہ وہی نام تھا جو اس نے بادل میں سے سنا تھا۔ (باغ کا مالک) کہنے لگا اے اللہ کے بندے! تو نے میرا نام کس لیے پوچھا ہے؟ اس نے کہا کہ میں نے اس بادل سے آواز سنی تھی (جس کا یہ پانی تیرے باغ میں آرہا ہے) کہ فلاں شخص کے باغ کو پانی پلاؤ (سیراب کرو) آپ بتائیں کہ (اس باغ) کا نظام کیسے چلاتے ہیں؟ (باغ کا مالک) کہنے لگا کہ جب تم نے یہ سب کہا تو (مجھے بھی یہ کہنا پڑا سنو) میں اس (باغ) کی آمدن کا جائزہ لیتا ہوں اور اس (کی آمدن) سے ایک تہائی صدقہ دیتا ہوں۔ ایک تہائی میں اور میرے اہل و عیال کھاتے ہیں (یعنی ہم اپنے اخراجات اس پر سے پورے کرتے ہیں) اور ایک تہائی میں پھر سے اس باغ (کی ضروریات) پر لگا دیتا ہوں۔   [مسلم۔ صحیح]

وعن عدی بن حاتم رضی اللّٰہ عنہ قال: سمعت رسول اللّٰہﷺ یقول:(( ما منکم من أحد إلا سیکلمُہ اللّٰہ ، لیس بینہ وبینہ ترجُمان، فینظر أیمنَ منہ، فلا یری إلا ما قدم ، فینظر أشأم منہ، فلا یری إلا ما قدم ، فینظر بین یدیہ، فلا یری إلا النار تلقاء وجھہ ، فاتقوا النار ولو بشِقِّ تمرۃ )) وفی روایۃ: (( من استطاع منکم أنْ یَستَتِر من النار ولو بشق تمرۃ؛ فلیفعل ))

سیدنا عدی بن حاتمt سے روایت ہے کہ انہوں نے رسول اللہe کو فرماتے ہوئے سنا کہ تم میں سے ہر ایک سے اللہ تعالیٰ (براہِ راست) عنقریب بات کرے گا۔ اللہ اور بندہ کے درمیان کوئی (واسطہ) ترجمان نہ ہوگا۔ جب بندہ اپنے دائیں طرف دیکھے تو اسے وہ ہی اعمال نظر آئیں گے جو اس نے آگے بھیجے۔ پھر وہ اپنی بائیں جانب دیکھے تو اسے وہی اعمال نظر آئیں کے جو اس نے آگے بھیجے پھر وہ اپنے سامنے دیکھے گا تو اسے اپنے سامنے سوائے آگ کے اور کچھ نظر نہ آئے گا۔ لہٰذا خود کو جہنم کی آگ سے بچاؤ اگرچے کھجور کے ایک ٹکڑے کے صدقے سے ہی کیوں نہ ہو۔ ایک روایت ہے کہ جو تم میں سے اس بات کی استطاعت رکھتا ہے کہ وہ جہنم کی آگ سے اپنا بچاؤ کھجور کے ٹکڑے کے (صدقے کے) ساتھ ہی کیوں نہ کرے تو وہ ایسا ضرور کرے۔   [بخاری و مسلم۔ صحیح]

وعن معاذ بن جبل قال: کنت مع النبیﷺ فی سفر۔ فذکر الحدیث إلی أن قال فیہ: ثم قال یعنی النبیﷺ: (( ألا أدلکَ علی أبوابِ الخیر؟ )) قلت: بلی یا رسول اللّٰہ! قال: (( الصوم جُنۃ ، والصدقۃ تطفیئُ الخطیئۃَ کما یطفیئُ المائُ النارَ ))

سیدنا معاذ بن جبلt سے مروی ہے کہ میں نبیe کے ساتھ سفر میں تھا پھر لمبی حدیث بیان کی جس میں یہ بھی ہے کہ نبیe نے فرمایا کیا میں تجھے خیر کے دروازے نہ بتاؤں؟ میں نے عرض کیا کیوں نہیں اے اللہ تعالیٰ کے رسولe: تو رسولe نے فرمایا روزہ ڈھال (یعنی گناہوں سے بچاتا) ہے۔ اور صدقہ خطاؤں کو اس طرح مٹا دیتا ہے جسے پانی آگ کو بجھا دیتا ہے۔   [ترمذی۔ صحیح لغیرہ]

وعن أبی کبشۃ الأنماری رضی اللّٰہ عنہ: أنَّہ سمع رسول اللّٰہﷺ یقول:(( ثلاث أُقسم علیھن، وأحدثکم حدیثاً فاحفظوہ، قال: ما نقص مالُ عبدٍ من صدقۃ ، ولا ظُلمَ عبدٌ مظْلمۃً صبر علیھا؛ إلا زادہ اللّٰہ عزاً ، ولا فتح عبدٌ باب مسألۃٍ ؛ إلا فتحَ اللّٰہ علیہ باب فقرٍ ۔ أو کلمۃ نحوھا۔ وأحدثکم حدیثاً فاحفظوہ، قال: إنما الدنیا لأربعۃ نَفَرٍ : عبدٌ رزقہ اللّٰہ مالاً وعلماً ، فھو یتقی فیہ ربہ ، ویصل فیہ رحِمَہ ، ویَعلمُ للّٰہ فیہ حقاً، فھذا بأفضل المنازل۔ وعبدٌ رزقہ اللّٰہ علماً ، ولم یرزقہ مالاً فھو صادقُ النیۃ : یقول: لو أنَّ لی مالاً لعمِلتُ بعملِ فلان، فھو بنیتہ ، فأجرھما سواء۔ وعبد رزقہ اللّٰہ مالاً ، ولم یرزقہ علماً ؛ یَخبِطُ فی مالہ بغیر علمٍ ، ولا یتقی فیہ ربہ، ولا یصِلُ فیہ رحِمہ ، ولا یعلم للّٰہ فیہ حقاً ۔ فھذا بأخبث المنازل۔ وعبدٌ لم یرزقْہ اللّٰہ مالاً ولا علماً ، فھو یقول: لو أنَّ لی مالا لعملتُ بعملِ فلان، فھو بنیتہ ، فوزرھما سواء ))

سیدنا ابوکبشہ انماریt سے روایت ہے کہ انہوں نے رسول اللہe کو فرماتے ہوئے سنا کہ تین چیزوں پر میں قسم اُٹھاتا ہوں اور ایک اہم حدیث (بات) تمہیں بتاؤں گا اس کو خوب اچھی طرح یاد کرلو۔ وہ تین باتیں جن پر میں قسم کھاتا ہوں وہ یہ ہیں۔ 1 صدقہ کرنے سے بندے کا مال کم نہیں ہوتا 2 جس شخص پر ظلم و زیادتی کی گئی اور اس نے اس پر صبر کیا تو اللہ عزوجل اس صبر کے سبب اس کی عزت بڑھا دیتے ہیں 3 جس شخص نے (بغیر ضرورت کے) لوگوں کے سامنے مانگنے کا دروازہ کھولا تو اللہ عزوجل اس پر فقر (تنگدستی) کا دروازہ کھول دیتے ہیں۔

اب میں تمہیں ایک (اور) حدیث (بات) بتاتا ہوں اسے بھی خوب اچھی طرح یاد کرلو۔ دنیا میں چار قسم کے لوگ ہوتے ہیں 1 وہ شخص کہ جسے اللہ تعالیٰ نے مال اور علم عطا فرمایا اور وہ (اپنے علم کے سبب) اپنے مال میں اللہ تعالیٰ سے ڈرتا ہے (اللہ تعالیٰ کی مرضی کے خلاف خرچ نہیں کرتا بلکہ) اس مال کے ذریعے صلہ رحمی کرتا ہے اور وہ خوب جانتا ہے کہ اس مال میں دینے والے اللہ تعالیٰ کا حق ہے (زکوٰۃ وغیرہ) یہ شخص (انسانوں میں سے) سب سے بہترین مقام و مرتبے والا ہے۔ 2وہ شخص جسے اللہ تعالیٰ نے علم کے ساتھ تو نوازا لیکن مال نہیں دیا لیکن وہ نیت کا سچا ہے، اور وہ تمنا کرتا ہے اگر میرے پاس مال ہوتا تو میں بھی فلاں کی طرح اسے نیک کاموں میں خرچ کرتا تو اس کو اللہ تعالیٰ اس کی نیت کی وجہ سے وہی ثواب عطا کرتے ہیں جو پہلے (شخص) کا ہے لہٰذا یہ دونوں اجر و ثواب میں برابر ہو جاتے ہیں 3 وہ شخص جسے اللہ تعالیٰ نے مال تو دیا مگر اسے علم نہ دیا وہ اپنے مال کو بے جا صرف کرتا ہے نہ تو اس میں اللہ کا خوف کرتا ہے، نہ اس سے صلہ رحمی کرتا ہے اور نہ ہی اس سے اللہ تعالیٰ کا حق ادا کرتا ہے۔ یہ شخص سب سے بدترین درجہ میں ہے۔ 4 وہ شخص کہ جسے اللہ تعالیٰ نے نہ تو مال دیا اور نہ ہی علم وہ تمنا کرتا ہے کہ اگر میرے پاس مال ہوتا تو میں اسی طرح بے جا اپنا مال صرف کرتا تو اس کو اس بری نیت کا گناہ ہوگا۔ اور وبال میں یہ دونوں برابر ہو جائیں گے۔   [ترمذی، ابن ماجہ۔ صحیح لغیرہ]

عن عقبۃ بن عامر رضی اللّٰہ عنہ قال: قال رسول اللّٰہﷺ:(( إن الصدقۃ لتطفیء عن أھلھا حر القبورِ ، وإنما یستظِلُّ المؤمنُ یومَ القیامۃِ فی ظل صدقتہ ))

سیدنا عقبہ بن عامرt سے روایت ہے کہ رسول اللہe نے فرمایا: بے شک صدقہ صاحب صدقہ کو قبر کی گرمی سے بچائے گا اور مومن روز قیامت اپنے صدقے کے سایہ تلے ہوگا۔   [طبرانی فی الکبیر، بیہقی۔ حسن ]

عن ابن عمر رضی اللّٰہ عنھما عن النبیﷺ أنہ قال: (( إنَّ اللّٰہ إذا استُودع شیئاً حفظہ ))

حضرت عبداللہ بن عمرt سے روایت ہے کہ نبیe نے فرمایا: کہ جو چیز بھی اللہ تعالیٰ کے سپرد کی جائے وہ اس کی حفاظت فرماتے ہیں۔ [ابن حبان۔ صحیح]

وعن أنسٍ رضی اللّٰہ عنہ قال: (( کان أبو طلحۃَ أکثر الأنصار بالمدینۃ مالاً من نخلٍ ، وکان أحب أموالہ إلیہ (بِئرَحاء) ، وکانت مستقبلۃَ المسجدِ ، وکان رسول اللّٰہﷺ یدخلھا، ویشرب من ماء فیھا طیب۔ قال أنس: فلما نزلت ھذہ الآیۃ: { لَنْ تنالوا البِرَّ حتی تُنْفِقُوا مما تُحبُّون} قام أبو طلحۃ إلی رسول اللّٰہ ﷺ فقال: یا رسول اللّٰہ! إن اللّٰہ تبارک و تعالٰی یقول: { لَنْ تنالوا البِرَّ حتی تُنفِقُوا مما تحبون } ، وإنَّ أحبَّ أموالی إِلَیَّ(بیرَحاء) ، وإنَّھا صدقۃٌ أرجو بِرَّھا وذُخرھا عند اللّٰہ ، فضعھا یا رسولَ اللّٰہ حیث أراک اللّٰہ ۔ قال: فقال رسول اللّٰہ ﷺ : (( بخٍ ذاک مال رابح ، بخٍ ذاک مال رابح ))

سیدنا انسt سے روایت ہے کہ انصار میں سے سب سے زیادہ کھجوروں کے درخت ابوطلحہt کے پاس تھے اور ان کا باغ جس کا نام ’’بئرحاء‘‘ تھا وہ انہیں اپنے مال میں سے سب سے زیادہ پسند تھا۔ یہ باغ مسجد نبوی کے بالکل سامنے ہی تھا۔ رسول اللہe اکثر اس باغ میں جاتے اور اس کا بہترین پانی نوش فرمایا کرتے تھے۔ جب یہ آیت نازل ہوئی: {لَنْ تَنَالُوْا الْبِرَّ حَتَّی تَنْفِقُوْا مِمَّا تُحِبُّوْنَ} [آل عمران92] ’’ اے مسلمانو! تم نیکی کو حاصل نہ کرسکو گے یہاں تک کہ اس چیز کو اللہ کی راہ میں خرچ کرو جو تمھیں بہت زیادہ پسند ہے۔‘‘ تو ابو طلحہt رسول اللہe کی خدمت میں حاضر ہوکر عرض کرنے لگے اے اللہ تعالیٰ کے رسولe ! اللہ تعالیٰ عزوجل ارشاد فرماتے ہیں {لَنْ تَنَالُوْا الْبِرَّ حَتَّی تَنْفِقُوْا مِمَّا تُحِبُّوْنَ} اور مجھے میرے سارے مال و اسباب میں سے ’’بئرحاء‘‘ باغ سب سے زیادہ پسند ہے اور میں اجر و ثواب کی اُمید رکھتے ہوئے اسے اللہ تعالیٰ کی راہ میں صدقہ کرتا ہوں آپe جہاں زیادہ مناسب سمجھیں اس راہ اِلٰہ میں خرچ فرما دیں۔ رسول اللہe نے فرمایا بہت خوب یہ مال (صدقہ) انتہائی نفع بخش ہے۔ [بخاری، مسلم، ترمذی، نسائی۔ صحیح]

عن یزید بن أبی حبیب عن مرثد بن أبی عبداللّٰہ الیَزَنی:(( أنَّہ کان أولَ أھل مصر یروح إلی المسجد ، وما رأیتہ داخلاً المسجد قَطُّ إلا فی کُمِّہ صدقۃ ، إمَّا فلوس ، وإمَّا قمح ۔ قال: حتی ربما رأیت البصلَ یحملہ ، قال: فأقول : یا أبا الخیر! إنَّ ھذا یُنتِنُ ثیابَک۔ قال: فیقول: یا ابنَ أبی حبیب! أمَا إنی لم أجدْ فی البیتِ شیئاً أتصدق بہ غیرہ ، إنَّہ حدثنی رجلٌ من أصحاب رسول اللّٰہﷺ ؛ أنَّ رسول اللّٰہﷺ قال:(( ظِلُّ المؤمن یومَ القیامۃ صدقتُہُ ))

یزید بن ابی حبیبh کہتے ہیں کہ مرثد بن ابی عبداللہ الیزنیh مصریوں میں سے سب سے پہلے مسجد میں آیا کرتے تھے جب بھی میں نے انہیں مسجد میں داخل ہوتے ہوئے دیکھا تو ان کی آستین میں صدقہ ضرور ہوتا تھا، یا تو پیسے ہوتے یا روٹی اور یا گندم ہوتی بسا اوقات میں نے انہیں صدقہ کے لیے پیاز اُٹھائے ہوئے دیکھا۔ میں نے کہا اے ابو الخیر! یہ تو آپ کے کپڑوں کو بدبو دار کردے گا۔ تو وہ کہتے اے ابن ابی حبیبh مجھے اپنے گھر میں صدقہ کرنے کے لیے پیاز کے علاوہ اور کوئی چیز نہ ملی۔ مجھے رسول اللہe کے ایک صحابیt نے یہ حدیث بیان کی ہے کہ رسول اللہe نے فرمایا: قیامت کے دن مؤمن کا سایہ اس کا صدقہ ہوگا۔   [ابن خزیمۃ۔ حسن ]  

وعن أبی ھریرۃ رضی اللّٰہ عنہ قال قال رسول اللّٰہﷺ: (( ومن جمعَ مالاً حراماً ثم تصدق بہ لم یکن لہ فیہ أجرٌ ، وکان اصرہُ علیہ ))۔

سیدنا ابوہریرہt سے روایت ہے کہ رسول اللہe نے ارشاد فرمایا: جس نے حرام کا مال جمع کیا پھر اس کو صدقہ کردیا تو اس کو اس صدقہ کا کوئی اجر نہ ملے گا بلکہ اس پر اس (حرام مال کمانے ) کا وبال ہوگا۔ [ابن خزیمہ، ابن حبان، حاکم۔ حسن]

وعنہ أنَّہ قال: یا رسول اللّٰہ! أی الصدقۃ أفضل؟ قال: (( جُھدُ الُمقِلِّ، وابدأ بمن تعول ))

سیدنا ابوہریرہt سے مروی ہے کہ انہوں نے عرض کیا اے اللہ کے رسولe! کون سا صدقہ سب سے افضل ہے؟ تو آپe نے فرمایا: کم مال والے کا صدقہ کرنا اور (خرچ کرنا) شروع ان سے کرو جن کی عیال داری تمہارے ذمہ ہے۔   [ابوداؤد، ابن خزیمۃ،حاکم۔ صحیح]

وعن أبی ھریرۃ قال، قال رسول اللّٰہ ﷺ: (( سبق درھمٌ مئۃَ ألفِ درھمٍ )) فقال رجل: وکیف ذاک یا رسول اللّٰہ؟ قال: (( رجلٌ لہ مال کثیرٌ ، أخذ من عُرضِہ مئۃَ ألفٍ تصدَّقَ بھا، ورجل لیس لہ الا درھمان، فأخذ أحدھما فتصدق بہ ))

سیدنا ابوہریرہt سے مروی ہے کہ رسول اللہe نے فرمایا ایک درہم (اجر و ثواب میں) ایک لاکھ درہم سے سبقت لے گیا (آگے نکل گیا)۔ ایک آدمی نے عرض کیا اے اللہ کے رسولe! یہ کیسے ہوا؟ تو آپe نے فرمایا ایک شخص بہت مالدار تھا اس نے اپنے مالِ (کثیر سے) ایک لاکھ درہم صدقہ کیا۔ (جبکہ) دوسرے آدمی کے پاس صرف دو ہی درہم تھے اس نے ایک درہم صدقہ کردیا۔ (یعنی آدھا مال صدقہ کرکے اجر و ثواب میں آگے نکل گیا)۔ [نسائی، ابن خزیمہ، ابن حبان، حاکم۔ حسن]

وعن المغیرۃ بنِ عبداللّٰہ الجعفی قال: جلسنا إلی رجل من أصحاب النبیﷺ یقال لہ: خَصفۃ [أو] ابن خصفۃ ، فجعل ینظر إلی رجل سمین، فقلت: ماتنظر إلیہ؟ فقال: ذکرت حدیثاً سمعتہ من رسول اللّٰہﷺ ، سمعتہ یقول: (( ھل تدرون ما الشدید؟ ))۔قلنا: الرجلُ یَصرعُ الرجلَ ۔ قال: (( إنَّ الشدیدَ کلَّ الشدید: الرجل الذی یملک نفسہ عند الغضبِ تدرون ما الرَّقوب؟ )) قلنا: الرجل الذی لا یولد لہ۔ قال: (( إنَّ الرقوب: الرجلُ الذی لہ الولد، ولم یقدم منھم شیئاً ))

سیدنا مغیرہ بن عبداللہ الجعفی بیان کرتے ہیں کہ ہم رسول اللہe کے ایک صحابی جس کا نام خصفۃ یا ابن خصفۃ تھا کے پاس بیٹھے ہوئے تھے تو وہ ایک طاقتور آدمی کی طرف غور سے دیکھنے لگے میں نے عرض کیا آپ اس کی طرف کیا دیکھ رہے ہیں؟ وہ فرمانے لگے مجھے وہ حدیث یاد آگئی جو میں نے رسول اللہe کی زبان مبارک سے سنی تھی آپe نے فرمایا: کیا تم جانتے ہو کہ طاقتور کیسے کہتے ہیں؟ ہم نے عرض کیا طاقتور تو وہ ہے جو مدمقابل کو پچھاڑ دے، تو آپe نے فرمایا: اصلی طاقتور تو وہ ہے جو غصہ کے وقت اپنے جذبات کو قابو میں رکھے۔ پھر آپe نے فرمایا: کیا تم جانتے ہو کہ رقوب (بانجھ، بے اولاد) کون ہے؟ ہم نے عرض کیا رقوب تو وہ شخص ہے کہ جو بے اولاد ہو، تو آپe نے فرمایا: حقیقی بے اولاد تو وہ ہے کہ جس کی اولاد تو ہو لیکن مرنے کے بعد اسے ان کی طرف سے کوئی صدقہ جاریہ یا دعا نہ پہنچے۔   [بیہقی۔ صحیح لغیرہ]

وعن أم بجید رضی اللّٰہ عنھا ؛ أنَّھا قالت: یا رسول اللّٰہ ! إن المسکین لیقومُ علی بابی فما أجد لہ شیئاً أعطیہ إیاہ۔ فقال لھا رسول اللّٰہ ﷺ: (( ان لم تجدی إلا ظلفًا محرقاً ، فادفعیہ إلیہ فی یدہ ))۔

سیدۃ ام بجیدr سے روایت ہے کہ انہوں نے عرض کیا اے اللہ تعالیٰ کے رسولe! (بعض اوقات) مسکین میرے دروازے پر کھڑا ہو جاتا ہے (اور سوال کرتا ہے) لیکن اسے دینے کے لیے میرے پاس کچھ بھی نہیں ہوتا تو رسول اللہe نے فرمایا اگر تجھے اور کچھ بھی نہ ملے (دینے کے لیے تو کم از کم) جلا ہوا کھر (پایا) ہو تو وہی اسے دو۔ [ترمذی، ابن خزیمہ۔ صحیح]  

وعن عوف بن مالک رضی اللّٰہ عنہ قال: خرج رسول اللّٰہ ﷺ وبیدہ عصا، وقد علقّ رجل قِنوَ حَشَفٍ، فجعل یَطعنُ فی ذلک القنو، فقال: (( لو شاء ربُّ ھذہ الصدقۃ تصدق باطٔیب من ھذا ، إنَّ ربَّ ھذہ الصدقۃ یأکل حَشَفاً یوم القیامۃ ))

سیدنا عوف بن مالکt سے روایت ہے کہ رسول اللہe باہر تشریف لائے آپe کے ہاتھ میں عصا (لاٹھی) تھی اور کسی شخص نے ناقص کھجوروں کا خوشہ لٹکا رکھا تھا (کہ ضرورت مند اس سے کھا سکیں)۔ رسول اللہe اس خوشہ کو لکڑی سے چھونے لگے اور فرمایا اگر یہ صدقہ کرنے والا چاہتا تو اس سے بہتر چیز صدقہ کردیتا ، یقینا یہ نکمی کھجوریں صدقہ کرنے والا قیامت کے دن نکمی اور ردی کھجوریں ہی کھائے گا۔ [نسائی، ابوداؤد، ابن ماجہ، ابن خزیمۃ، ابن حبان۔ حسن ]

مخفی (چھپ کر) صدقہ کرنے کی ترغیب

عن أبی ھریرۃ رضی اللّٰہ عنہ قال: سمعت رسول اللّٰہ ﷺ یقول: (( سبعۃٌ یظلھم اللّٰہ فی ظِلِّہٖ یومَ لا ظلَّ إلا ظلُّہ الإمامُ العادل، وشابٌ نشأ فی عبادۃِ اللّٰہ عزوجل، ورجلٌ قلبہ معلقٌ بالمساجد ، ورجلان تحابا فی اللّٰہ ، اجتمعا علی ذلک، وتفرقا علیہ ، ورجلٌ دعتہ امرأۃ ذات منصب وجمال، فقال: إنی أخاف اللّٰہ ، ورجل تصدق بصدقۃ فأخفاھا، حتی لا تعلمَ شمالہ ما تُنفق یمینہ، ورجلٌ ذکر اللّٰہ خالیاً ففاضت عیناہ ))

سیدنا ابوہریرہt سے روایت ہے کہ میں نے رسول اللہe کو فرماتے ہوئے سنا سات افراد ایسے ہیں کہ جنہیں اللہ تعالیٰ اپنے (عرش کے) سائے میں جگہ دے گا اور اس دن اس کے (عرش کے) سائے کے علاوہ اور کوئی سایہ نہ ہوگا 1عادل حکمران 2 وہ نوجوان جس کی نشوونما اللہ کی عبادت کے ساتھ ہوئی 3 وہ آدمی جس کا دل مسجدوں کے ساتھ لٹکا ہوا ہے 4 وہ دو آدمی جنہوں نے آپس میں ایک دوسرے سے اللہ تعالیٰ کی رضا کے لیے محبت کی اسی پراکٹھے ہوئے اور اسی پر جدا ہوئے 5 وہ آدمی کو جس کو اچھے حسب و نسب والی خوبصورت عورت نے دعوت (زنا) دی تو اس نے کہا: میں اللہ تعالیٰ سے ڈرتا ہوں 6 وہ آدمی جس نے اس طرح خفیہ (چھپ کر) صدقہ کیا کہ اس کے بائیں ہاتھ کو بھی معلوم نہ ہوسکا کہ اس کے دائیں ہاتھ نے کیا خرچ کیا ہے 7 وہ آدمی جس نے تنہائی میں اللہ تعالیٰ کو یاد کیا تو اس کی آنکھوں سے آنسو بہہ نکلے۔   [بخاری، مسلم۔ صحیح ]  

وعن معاویۃ بن حَیْدۃ رضی اللّٰہ عنہ عن النبیﷺ قال:(( إنَّ صدقۃ السر تُطفیء غضبَ الربِّ تبارک وتعالیٰ ))

سیدنا معاویہ بن حیدہt سے روایت ہے کہ نبیe نے فرمایا: یقینا پوشیدہ صدقہ رب تعالیٰ کے غضب (کی آگ) کو بجھا دیتا ہے۔ [طبرانی کبیر۔ حسن لغیرہ]

ورُوی عن أم سلمۃ رضی اللّٰہ عنھا قالت: قال رسول اللّٰہ ﷺ: (( صنائع المعروف تقی مصارع السوء، والصدقۃُ خَفِیاً تُطْفیء غضبَ الربِّ ، وصِلَۃُ الرحم تزید فی العمر، وکلُّ معروف صدقۃ ، وأھل المعروف فی الدنیا ھم أھل المعروف فی الآخرۃ…))

سیدۃام سلمۃr سے روایت ہے کہ رسول اللہe نے فرمایا: نیک اعمال (انسان کو) بری موت سے بچالیتے ہیں چھپ کر صدقہ کرنا اللہ تعالیٰ کے غضب (کی آگ) کو بجھا دیتا ہے۔ اور صلہ رحمی عمر میں اضافہ کا سبب بنتی ہے اور ہر نیکی صدقہ ہے دنیا میں۔ [طبرانی فی الاؤسط۔ حسن لغیرہ]

نیکی کے کاموں میں فراخدلی کے ساتھ خرچ کرنے کی ترغیب اور بخل و کنجوسی پر وعید

عن أبی ھریرۃ رضی اللّٰہ عنہ قال: قال رسول اللّٰہ صلی اللہ علیہ و سلم : (( ما من یوم یُصبحُ العبادُ فیہ إلاّ ملکان ینزلان ، فیقول أحدھما: اللھم أعطِ منفقاً خَلفاً، ویقول الآخر: اللھم أعط ممسکاً تلفاً ))۔

سیدناابوہریرہt سے روایت ہے کہ رسول اللہe نے فرمایا: ہر روز صبح کے وقت آسمان سے دو فرشتے نازل ہوتے ہیں۔ ایک دعا کرتا ہے اے اللہ! خرچ کرنے والے کو اس کا (بہترین) نعم البدل عطا فرما۔ اور دوسرا کہتا ہے اے اللہ! (مال کو) روکے رکھنے (بخل کرنے) والے کو بربادی سے دو چار کر۔ [بخاری، مسلم۔ صحیح]

(عن أبی ھریرۃ رضی اللّٰہ تعالیٰ عنہ قَالَ : قَالَ رسول اللّٰہﷺ ) : (( إن مَلَکاً ببابٍ من أبوابِ الجنۃِ یقول: من یُقْرِضِ الیومَ یُجْزَ غداً ، ومَلَکٌ بباب آخر یقول: اللھم أعطِ منفقاً خلفاً ، وأعط ممسکاً تلَفاً ))

سیدنا ابوہریرہt سے روایت ہے)کہ رسول اللہe نے فرمایا جنت کے دروازوں میں سے ایک دروازے پر فرشتہ اعلان کرتا ہے: جو آج قرض دے (اللہ کی راہ میں خرچ کرے) کل (آخرت میں) اس کو بدلہ دیا جائے گا اور دوسرے دروازے پر ایک فرشتہ کھڑا دعا کرتا ہے اے اللہ خرچ کرنے والے کو اس (صدقہ) کا نعم البدل عطا فرما اور روکے رکھنے والے (بخل کرنے والے) کو تباہی سے دو چار کر۔ [ابن حبان۔ صحیح]

وعن ابی الدردآء رضی اللّٰہ عنہ قال: قال رسول اللّٰہ ﷺ : ما من یوم طلعت شمسُہ إلا وکان بجَنْبَتَیْھا مَلَکان ینادیان ندائً یسمعہ ما خلق اللّٰہ کلُّھم غیرُ الثقلین: ((یا أیھا الناس ھَلُمَّوا إلی ربکم: فانَّ ما قَلَّ وکفی، خیرٌ مما کثُرَ وألھی ))۔ ولا آبت الشمسُ إلا وکان بجنْبَتَیھا مَلَکان ینادیان ندائً یسمعہ خلق اللّٰہ کلھم غیر الثقلین: (( اللھم أعطِ منفقاً خلفاً ، وأعط ممسکاً تلفاً)) وأنزل اللّٰہ فی ذلک قرآنا فی قول المَلَکین: (( یا أیھا الناس ھلموا إلی ربکم)) فی سورۃ {یونس} : { واللّٰہ یدعو إلی دارالسلام ویَھدی من یشاء إلی صراطٍ مستقیم} ، وأنزل فی قولھما : ((اللھم أعطِ منفقاً خلفاً ، وأعطِ ممسکاً تلفاً )) : {واللیل إذا یغشی۔ والنھارِ إذا تجلَّی۔ وما خلق الذکر والاْنثی } ۔ إلی قولہ: {للعسری}

سیدناابودردآءt سے روایت ہے کہ رسول اللہe نے فرمایا: جب بھی سورج طلوع ہوتا ہے تو اس کے دونوں طرف دو فرشتے اعلان کرتے ہیںجس کو جنوں اور انسانوں کے سوا باقی سب (مخلوق) سنتے ہیں۔ (فرشتے کہتے ہیں) اے لوگو! اپنے رب کی طرف چلو تھوڑی چیز جو کفایت کرسکے اس زیادہ مقدار والی چیز سے بہت بہتر ہے جو اللہ تعالیٰ کی یاد سے غافل کردے۔ اور جب سورج غروب ہوتا تو اس کے دونوں طرف دو فرشتے دعا کرتے ہیں جس کو جن و انس کے سوا سب سنتے ہیں۔ اے اللہ! خرچ کرنے والے (صدقہ کرنے والے) کو اس (صدقہ) کا بہترین نعم البدل عطا فرما اور بخل کرنے والے (کنجوس) کے مال کو برباد کردے اللہ تعالیٰ نے فرشتوں کی اس فریاد و اعلان کے متعلق قرآن مجید میں سورہ یونس میں فرمایا (اور اللہ بلاتا ہے سلام کے گھر کی طرف اور جس کو چاہتا ہے سیدھی راہ دکھا دیتا ہے اور فرشتوں کی دعا کہ ’’اے اللہ خرچ کرنے والے کو بہترین نعم البدل عطا فرما اور بخل کرنے والے کے مال کو برباد کر‘‘ کے متعلق قرآن میں یہ آیات نازل کیں قسم ہے رات کی جب وہ چھاجائے اور دن کی جب وہ روشن ہو، اور اس کی جو اس نے پیدا کیا نر اور مادہ۔ تمہاری کمائی کئی طرح کی ہے جس نے خرچ کیا (صدقہ کیا) اور (اللہ سے) ڈر گیا اور حق بات کو سچ جانا تو اس کو ہم انتہائی آسانی و راحت میں پہنچا دیں گے اور جس نے نہ دیا (صدقہ وغیرہ) اور بے پرواہ رہا اورجھوٹ جانا حق بات کو تو اس کو آہستہ آہستہ انتہائی سختی میں پہنچا دیں گے۔ [بیہقی۔ حسن]

وعن أنس رضی اللّٰہ عنہ قال: قال رسول اللّٰہﷺ :(( الأخلاّئُ ثلاثۃٌ : فأمَّا خلیلٌ فیقول: أنا معک حتی تأتی قَبرَک ، وأمَّا خلیلٌ فیقول: لکَ ما أُعطیتَ ، وما أمسکتَ فلیس لک، فذلک مالُک ، وأمَّا خلیلٌ فیقول: أنا معک حیث دخلْتَ ، وحیث خرجْتَ، فذلک عملہ ، فیقول: واللّٰہ لقد کنتَ من أھون الثلاثۃ علیَّ ))۔

سیدنا انسt سے روایت ہے کہ رسول اللہe نے فرمایا: دوست تین قسم کے ہیں 1 ایک دوست کہتا ہے میں تیرے ساتھ صرف قبر تک ہوں۔ (یہ اہل و عیال اور رشتہ دار وغیرہ ہیں)۔ 2 دوسرا کہتا ہے جتنا تو نے صدقہ کردیا وہ تیرا ہے اور جتنا تو نے روکے رکھا وہ تیرا نہیں یہ تیرا مال ہے۔ 3 تیسرا دوست کہتا ہے تو جہاں بھی جائے گا، جہاں سے بھی نکلے گا میں ہر جگہ تیرا ساتھ ہوں۔ یہ انسان کا عمل ہے انسان کہتا ہے اللہ کی قسم (اے عمل) تو تینوں دوستوں میں سے سب سے زیادہ مجھ پر آسانی کرنے والا ہے۔ [حاکم۔ صحیح]

وعن ابن مسعود رضی اللّٰہ عنہ قال: دخل النبیﷺ علی بلالٍ وعندہ صبراۃ من تمر، فقال: (( ما ھذا یا بلالُ ؟ )) قال: أُعِدُّ ذلک لأضیافک۔ قال:(( أما تخشی أنْ یکون لک دخان فی نار جھنم؟ أنفق بلالُ ! ولا تخش من ذی العرش إقلالا ))

سیدنا عبداللہ بن مسعودt سے روایت ہے کہ رسول اللہe سیدنا بلالt کے پاس گئے تو ان کے پاس کھجوروں کا ڈھیر تھا۔ فرمایا: بلالt یہ کیا ہے؟ عرض کیا یہ میں نے آپe کے مہمانوں کے لیے رکھا ہوا ہے فرمایا: کیا تم ڈرتے نہیں کہ جہنم کی آگ کا دھواں تمہیں لگے؟ بلالt خرچ کردو، عرش والے سے کمی (وقلت) کا اندیشہ نہ رکھو۔ [بزار، طبرانی کبیر۔ صحیح لغیرہ]  

وعن أسماء بنت أبی بکر رضی اللّٰہ عنھما قالت: قال لی رسول اللّٰہﷺ: (( لا تُوکی فیوکی علیکِ)) وفی روایۃ : (( أنفقی أو انفَحی أو انضَحی ، ولا تُحصی فیحصی اللّٰہ علیکِ، ولا تُوعی فیوعی اللّٰہُ علیکِ ))

سیدۃاسماء بنت ابی بکرw سے روایت ہے کہ رسول اللہe نے مجھ سے فرمایا (اے اسمآء!) تم (اپنی تھیلی کا) منہ بند کرکے نہ رکھو ورنہ اللہ اپنا فضل و کرم تجھ سے روک لے گا۔ ایک روایت میں ہے خرچ کرو اور گن گن کر نہ رکھو اللہ تعالیٰ تمہیں بھی گن گن کر دے گا جمع کرکے نہ رکھو ورنہ اللہ تعالیٰ بھی تم سے اپنی نعمتیں روک لے گا۔ [بخاری، مسلم، ابوداؤد۔ صحیح]

وعن ابن مسعود رضی اللّٰہ عنہ عن النبی ﷺ قال: (( لا حسدَ إلا فی اثنتین : رجل آتاہ اللّٰہ مالاً : فسلَّطَہ علی ھَلَکَتہِ فی الحق، ورجلٌ آتاہ اللّٰہ حکمۃً : فھو یقضی بھا ویُعلَّمھا )) وفی روایۃ: (( لا حسد إلا فی اثنتین: رجلٌ آتاہ اللّٰہ القرآن : فھو یقوم بہ آنائَ اللیل وآناء النھار، ورجلٌ آتاہ اللّٰہ مالا: فھو یُنفقہ آناء اللیل وآناء النھار )) ۔

سیدناعبداللہ بن مسعود t سے روایت ہے کہ نبیe نے فرمایا: صرف دو آدمیوں پر رشک کرنا جائز ہے ایک وہ آدمی جسے اللہ نے مال عطا کیا اور اسے مال کو جائز جگہ پر خرچ کرنے پر مسلط کیا۔ اور دوسرا وہ شخص کہ جسے اللہ تعالیٰ نے حکمت و دانائی سے نوازا وہ اس کے مطابق فیصلے کرتا ہے اور لوگوں کو اس کی تعلیم بھی دیتا ہے۔ ایک روایت میں ہے کہ رشک صرف دو آدمیوں پر جائز ہے ایک وہ شخص جسے اللہ تعالیٰ نے قرآن عطا کیا (حفظ کرنے کی توفیق دی) وہ اس قرآن کے ساتھ رات اور دن کی گھڑیوں میں قیام کرتا ہے۔ (عبادت کرتا ہے) اور دوسرا وہ شخص کہ جسے اللہ نے مال و دولت سے نوازا وہ اسے (اللہ کی راہ میں) رات اور دن کی گھڑیوں میں خرچ کرتا ہے۔ [بخاری، مسلم۔ صحیح]

وعن مالک الدار: أنَّ عمر بن الخطاب رضی اللّٰہ عنہ أخذ أربعَمئۃ دینار ، فجعلھا فی صُرۃٍ، فقال للغلام: اذھب بھا إلی أبی عبیدۃَ بن الجراحِ ، ثم تَلَہَّ فی البیتِ ساعۃً ؛ تنظر ما یصنع ؟ فذھب بھا الغلام إلیہ ، فقال: یقول لک أمیر المؤمنین: اجعل ھذہ فی بعض حاجتِک۔ فقال: وصَلَہُ اللّٰہ ورحمَہُ ، ثم قال: تعالی یا جاریۃ ! اذھبی بھذہ السبعۃ إلی فلان ، وبھذہ الخمسۃ إلی فلان، حتی أنفذھا ، ورجعَ الغلامُ إلی عمر ، فأخبرہ ، فوجدہ قد أعدَّ مثلھا لمعاذ بن جبل ، فقال: اذھب بھا إلی معاذِ بن جبل، وتَلَہَّ فی البیت [ساعۃً] حتی تنظر ما یصنع ؟ فذھب بھا إلیہ ، فقال: یقولُ لک أمیرُ المؤمنین: اجعل ھذہ فی بعض حاجتک، فقال رحمہ اللّٰہ ووصلہ، تعالی یا جاریۃ! اذھبی إلی بیت فلان بکذا ، اذھبی إلی بیت فلان بکذا ، اذھبی إلی بیت فلان بکذا ، فاطلعت امرأۃُ معاذ وقالت: نحن واللّٰہ مساکینُ : فأعطنا، فلم یبقَ فی الخرقۃِ إلا دیناران، فدحی بھما إلیھا، ورجع الغلامُ إلی عمرَ فأخبرہ ، فسُرَّ بذلک، فقال: إنھم إخوۃ، بعضھم من بعض۔

مالک الدار a کہتے ہیں کہ سیدنا عمر بن خطابt نے چار سو دینار تھیلی میں رکھ کر اپنے غلام کو حکم دیا کہ یہ تھیلی سیدنا ابوعبیدہ بن جراحt کو دے آؤ۔ پھر کچھ دیر بہانے سے گھر میں کام میں لگ جانا اور دیکھنا کہ وہ اس مال سے کیا کرتے ہیں؟ غلام وہ تھیلی لیکر روانہ ہوا اور سیدنا ابوعبیدہt سے عرض کیا کہ یہ امیر المومنین نے دئیے ہیں اور کہا ہے کہ اس سے اپنی چند ضروریات کو پورا کرلیں۔سیدنا ابوعبیدہt فرمانے لگے! اللہ تعالیٰ امیر المومنین پر رحمت کرے اور رحمت سے انہیں ملا دے پھر اپنی لونڈی کو بلایا اور فرمایا یہ سات اشرفیاں فلاں کو دے آؤ یہ پانچ اشرفیاں فلاں کودے آؤ۔ اور یہ پانچ فلاں کو دے آؤ یہاں تک کہ سارا مال خرچ کر ڈالا (تقسیم کردیا)۔ غلام نے واپس آکرسیدنا عمرt کو سارا واقعہ بیان فرمایا:

سیدناعمرt نے اس جیسی تھیلی سیدنا معاذ بن جبلt کے لیے بھی تیار کر رکھی تھی اور غلام کو حکم دیا یہ سیدنا معاذ بن جبلt کو دے آؤ اور کچھ دیر وہاں ٹھہر کر دیکھنا کہ وہ اس مال کے ساتھ کیا کرتے ہیں۔ غلام تھیلی لے کر سیدنا معاذt کے پاس پہنچا اور عرض کی کہ یہ تھیلی مال سے بھری آپ کے لیے امیر المومنین نے بھیجی ہے اور فرمایا ہے کہ اس سے اپنی بعض ضروریات پوری کرلیں۔ سیدنا معاذt نے فرمایا اللہ امیر المومنین پر رحمت کرے اور رحمت سے انہیں ملا دے۔ پھر اپنی لونڈی کو بلایا اور حکم دیا کہ اتنی اتنی اشرفیاں لے جا کر فلاں فلاں کے گھر دے آؤ اور اتنی اتنی فلاں کو دے آؤ۔ اتنے میں سیدنا معاذ بن جبلt کی بیوی نے اندر سے جھانکا اور فرمایا اللہ کی قسم! ہم تو خود مسکین ہیں ہمیں بھی کچھ دیجیے۔ ان کے کپڑے میں صرف دو دینار ہی بچے تھے وہ دو اشرفیاں ان کی طرف پھینک دی اور کہا یہ لو: غلام سیدنا عمرt کے پاس واپس آیا اور سارا واقعہ بیان کیا۔ سیدنا عمرt یہ سن کر بہت خوش ہوئے اور فرمایا یہ (سیدنا ابوعبیدہt اور سیدنا معاذt اور ان جیسے دوسرے) سب ایک جیسے ایک دوسرے کے بھائی ہیں۔ [طبرانی کبیر۔ حسن،موقوف]

وعن سھل بن سعد رضی اللّٰہ عنہ قال: کانت عند رسول اللّٰہﷺ سبعۃُ دنانیر وضعھا عند عائشۃ، فلما کان عند مرضہ قال: یا عائشۃ! ابعثی بالذھب إلی عَلِیٍّ ۔ ثم أغمی علیہ ، وشَغَلَ عائشۃ مابہ ، حتی قال ذلک مراراً ، کلُّ ذلک یُغمی علی رسول اللّٰہﷺ ، ویَشغَلُ عائشۃَ مابہ ، فبعث إلی علی ، فتصدق بھا ، وأمسی رسول اللّٰہﷺ لیلۃ الاثنین فی جدید الموت، فأرسلت عائشۃ بمصباح لھا إلی امرأۃ من نسائھا ، فقالت: أھدی لنا فی مصباحنا من عُکَّتِک السمنَ ، فإنَّ رسول اللّٰہﷺ أمسی فی جدید الموت۔

سیدنا سہل بن سعدt سے روایت ہے کہ رسول اللہe نے کے پاس سات دینار تھے جو آپe نے سیدۃ عائشہr کے پاس رکھے ہوئے تھے۔ جب نبیe مرض الوفات میں تھے تو سیدۃ عائشہr سے فرمایا سونے (کی سات اشرفیاں) کو سیدنا علیt کے پاس بھجوا دو (تاکہ وہ صدقہ کردیں) پھر آپ e پر بے ہوشی طاری ہوگئی اورسیدۃ عائشہr آپe کی تیماری داری میں مشغول ہوکر سیدنا علیt کی طرف وہ دینار بھجوانا بھول گئیں۔ کئی بار آپeنے یہ بات فرمائی لیکن ہر مرتبہ آپe پر بے ہوشی طاری ہوجاتی اور یہ آپe کی کیفیت سیدۃ عائشہr کو اس قدر مشغول کردیتی کہ وہ دینار سیدنا علیt کے پاس بھجوانا بھول جاتیں کہ وہ صدقہ کردیں۔ پیر کی رات رسول اللہe سکرات الموت میں تھے۔ سیدۃ عائشہ r نے اپنی کسی جاننے والی عورت کے گھر چراغ بھیجا اور کہلا بھیجا کہ اپنی کُپی میں سے کچھ گھی ہمارے چراغ میں ڈال دو۔ (یعنی چراغ جلانے کے لیے تیل نہ تھا) اس لیے کہ رسول اللہe آج شام سخت بیماری کی حالت میں ہیں۔ [طبرانی کبیر۔ صحیح]

وعن عبداللّٰہ بن الصامت قال: کنتُ مع أبی ذر رضی اللّٰہ عنہ، فخرج عطاؤہ ، ومعہ جاریۃٌ لہ، قال: فجعلتْ تقضی حوائجَہ ، ففضل معھا سبعۃً ، فأمرھا أنْ تشتری بہ فلوساً۔ قال: قلت: لو أَخّرتَہ للحاجۃ تَنُوبُک، أو للضیف ینزل بک؟ قال : إنَّ خلیلی عَھِد إلیَّ: أیما ذھبٍ أو فضۃٍ أُوکِی علیہ، فھو جمرٌ علی صاحبہ حتی یُفرِغَہ فی سبیل اللّٰہ عزوجل۔

سیدناعبداللہ بن صامتt سے روایت ہے کہ میں سیدنا ابوذرt کے ساتھ تھا۔سیدنا ابوذرt کا وظیفہ (بیت المال سے) نکلا اور ان کے ساتھ ان کی لونڈی تھی وہ ان کی ضرورتیں پوری کرتی رہتی تھی سات اشرفیاں بچ گئیں تو انہوں نے لونڈی سے کہا ان (سو نے کی) سات اشرفیوں سے پیسے خرید لو (تاکہ ہم صدقہ کردیں)۔ میں نے عرض کیا اگر آپ انہیں اپنی ضرورت کے لیے رکھ لیتے اور جب ضرورت پڑتی تو خرچ کرلیتے اور مہمان کی مہمان نوازی پر خرچ کرلیتے تو سیدنا ابو ذرt نے فرمایا کہ بے شک مجھ سے میرے خلیل (محمد رسول اللہe ) نے فرمایا تھا۔ جو بھی سونا اور چاندی (بخل کرتے ہوئے) روکے رکھا جائے وہ جہنم کا انگارہ ہوگا۔ یہاں تک کہ انسان اس کو اللہ تعالیٰ کی راہ میں خرچ نہ کردے۔ [احمد۔ صحیح]  

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے