منافقین کابیان

وَيَقُوْلُوْنَ اٰمَنَّا بِاللّٰهِ وَبِالرَّسُوْلِ وَاَطَعْنَا ثُمَّ يَتَوَلّٰى فَرِيْقٌ مِّنْهُمْ مِّنْۢ بَعْدِ ذٰلِكَ ۭ وَمَآ اُولٰۗىِٕكَ بِالْمُؤْمِنِيْنَ ؀ وَاِذَا دُعُوْٓا اِلَى اللّٰهِ وَرَسُوْلِهٖ لِيَحْكُمَ بَيْنَهُمْ اِذَا فَرِيْقٌ مِّنْهُمْ مُّعْرِضُوْنَ ؀ وَاِنْ يَّكُنْ لَّهُمُ الْحَقُّ يَاْتُوْٓا اِلَيْهِ مُذْعِنِيْنَ ؀ اَفِيْ قُلُوْبِهِمْ مَّرَضٌ اَمِ ارْتَابُوْٓا اَمْ يَخَافُوْنَ اَنْ يَّحِيْفَ اللّٰهُ عَلَيْهِمْ وَرَسُوْلُهٗ ۭ بَلْ اُولٰۗىِٕكَ هُمُ الظّٰلِمُوْنَ ؀ اِنَّمَا كَانَ قَوْلَ الْمُؤْمِنِيْنَ اِذَا دُعُوْٓا اِلَى اللّٰهِ وَرَسُوْلِهٖ لِيَحْكُمَ بَيْنَهُمْ اَنْ يَّقُوْلُوْا سَمِعْنَا وَاَطَعْنَا ۭ وَاُولٰۗىِٕكَ هُمُ الْمُفْلِحُوْنَ ؀وَمَنْ يُّطِعِ اللّٰهَ وَرَسُوْلَهٗ وَيَخْشَ اللّٰهَ وَيَتَّقْهِ فَاُولٰۗىِٕكَ هُمُ الْفَاۗىِٕزُوْنَ؀ وَاَقْسَمُوْا بِاللّٰهِ جَهْدَ اَيْمَانِهِمْ لَىِٕنْ اَمَرْتَهُمْ لَيَخْرُجُنَّ ۭ قُلْ لَّا تُقْسِمُوْا ۚ طَاعَةٌ مَّعْرُوْفَةٌ ۭ اِنَّ اللّٰهَ خَبِيْرٌۢ بِمَا تَعْمَلُوْنَ ؀ قُلْ اَطِيْعُوا اللّٰهَ وَاَطِيْعُوا الرَّسُوْلَ ۚ فَاِنْ تَوَلَّوْا فَاِنَّمَا عَلَيْهِ مَا حُمِّلَ وَعَلَيْكُمْ مَّا حُمِّلْتُمْ ۭ وَاِنْ تُطِيْعُوْهُ تَهْتَدُوْا ۭ وَمَا عَلَي الرَّسُوْلِ اِلَّا الْبَلٰغُ الْمُبِيْنُ ؀(النور47تا54)

اور کہتے ہیں کہ ہم اللہ تعالیٰ اور رسول پر ایمان لائے اور فرمان بردار ہوئے پھر ان میں سے ایک فرقہ والے اس کے بعد بھی پھر جاتے ہیں یہ ایمان والے ہیں ہی نہیں ۔ جب یہ اس بات کی طرف بلائے جاتے ہیں کہ اللہ اور اس کا رسول ان کے جھگڑے چکادے تو بھی ان کی ایک جماعت منہ موڑنے والی بن جاتی ہے۔ ہاں اگر انہی کو حق پہنچتا ہو تو مطیع و فرمان بردار بن کر اس کی طرف چلے آتے ہیں ۔ کیا ان کے دلوں میں بیماری ہے؟ یا یہ شک و شبہ میں پڑے ہوئے ہیں ؟ یا انہیں اس بات کا ڈر ہے کہ اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول ان کی حق تلفی نہ کریں ؟ بات یہ ہے کہ لوگ خود ہی بڑے ظالم ہیں ۔ ایمان والوں کا قول تو یہ ہے کہ جب انہیں اس لئے بلایاجاتا ہے کہ اللہ اور اس کے رسول ان میں فیصلہ کردے تو وہ کہتے ہیں کہ ہم نے سنا اور مان لیا اور یہی لوگ کامیاب ہونے والے ہیں ۔ جو بھی اللہ تعالیٰ کی اور اس کے رسول کی فرمان برداری کریں ، خوفِ الٰہی رکھیں اور اس کے عذابوں سے ڈرتے رہیں وہی نجات پانے والے ہیں ۔ بڑی پختگی کے ساتھ اللہ تعالیٰ کی قسمیں کھاکھا کر کہتے ہیں کہ آپ کا حکم ہوتے ہی نکل کھڑے ہوں گے کہہ دیجئے بس قسمیں نہ کھاؤ، تمہاری اطاعت کی حقیقت معلوم ہے ، جو کچھ تم کر رہے ہو اللہ تعالیٰ اس سے باخبر ہے۔ کہہ دیجئے کہ اللہ تعالیٰ کا حکم مانو، رسول اللہ کی اطاعت کرو پھر بھی اگر تم نے روگردانی کی تو رسول کے ذمے تو صرف وہی ہے جو اس پر لازم کردیا گیا ہے اور تم پر اس کی جواب دہی ہے جو تم پر رکھا گیا ہے ہدایت تو تمہیں اس وقت ملے گی جب رسول کی ماتحتی کروگے سنو! رسول کے ذمے تو صرف صاف طور پرپہنچادینا ہے۔

شرح کلمات:

آمنا:

آمن یومن ایمان۔ امن دینے والا یا امن کی ضمانت دینے والا۔ ابن فارس نے اس کے تین معانی لکھے ہیں ۔ خیانت کی ضد، اطمینان قلب، تصدیق کرنا۔

قرآن مجید میں یہ مادہ ایک سے زیادہ معانی میں استعمال ہوا ہے۔ جو کہ درج ذیل ہیں ۔

1 یقین کرنا، ماننا، تسلیم کرنا، یعنی انکار نہ کرنا۔

2 تصدیق کرنا، اقرار کرنا، تکذیب نہ کرنا۔

3 اعتماد اور بھروسہ کرنا۔

4 بات ماننا، اطاعت کرنا، سرتسلیم خم کرنا۔

اصلاحی معانی:

زبان سے اقرار، دل سے تصدیق اور عمل سے گواہی ایمان ان تینوں مراحل سے گزر کر ہی مکمل ہوتا ہے۔

شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ عقیدہ واسطیہ میں لکھتے ہیں : فرقہ ناجیہ کا عقیدہ یہ ہے

وھو الایمان باللہ، وملائکتہ، و کتبہ، و رسلہ، والبعث بعد الموت، والایمان بالقدر خیرہ و شرہ

اور وہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ، فرشتوں ، کتب سماویہ، رسولوں پر، یومِ آخرت اور تقدیر پر ایمان لانا ہے۔ اور یہ سب اراکین قرآن و حدیث سے ماخوذ ہیں ۔ مزید تفصیل کے لئے ملاحظہ فرمائیں سورۃ النساء136، القمر49، صحیح بخاری50، مسلم9

باللہ:

اللہ کے معانی میں مختلف اقوال ہیں لیکن مختصرا اللہ قرآن مجید میں ربّ العالمین کے لئے استعمال ہوا ہے، عربی زبان کا یہ لفظ انگلش کے GODاور فارسی کے خدا، ہندی کے بھگوان سے اس اعتبار سے متمیز ہے کہ یہ صرف رب العالمین کے لئے استعمال ہوتا ہے۔ جبکہ مذکورہ بالا کلمات کا استعمال سب کے لئے ہوا ہےلہٰذا ’’اللہ‘‘ کے لئےچند ملاحظات اہم ہیں جو درج ذیل ہیں ۔

1 رب العالمین کے لئے ہم ایسے تمام الفاظ استعمال کرنے سے گریز کریں جس میں کسی بھی قسم یا اعتبار سے خالق اور مخلوق کے مابین مشابہت پائی جائے اور بہتر تو یہ ہے کہ وہ لفظ استعمال کریں جو قرآن و حدیث میں استعمال ہوا ہے یعنی ’’اللہ‘‘۔

2 اللہ تعالیٰ پر ایمان صرف اس وقت مقبول ہوگا جب یہ ایمان اس معیار کے مطابق ہوگا جس کے مطابق کتاب و سنت کی تعلیمات موجود ہیں یعنی وحدانیت کا وہی تصور درست و صحیح ہوگا جو کتاب و سنت کی تعلیمات کے مطابق ہوگا نہ کہ کسی انسانی تصورات و خواہشات کے مطابق۔

الرسول:

وہ شخص جو اللہ تعالیٰ کی طرف سے بنی نوعِ انسان کی طرف ان کی ہدایت کے لئے بھیجا جائے خواہ اس کے ساتھ کتاب ہو یا نہ ہو۔ قرآن مجید نے ان کو انبیاء بھی کہا ہے۔ بظاہر رسول اور نبی میں کوئی فرق نہیں ایک ہی منصب کے دو نام ہیں قرآن مجید میں دونوں نام ایک ہی معانی میں استعمال ہوئے ہیں اور مختلف معانی میں بھی استعمال ہوئے ہیں ۔ اللہ تعالیٰ کی طرف سے وحی کا ملنا اور رسالت اس وحی کا بنی نوعِ انسان تک پہنچانا نہ تو نبوت رسالت کے بغیر ممکن ہے اور نہ ہی رسالت نبوت کے بغیر ممکن ہے۔ سورۃ البقرہ 213، سورۃ الحدید58 وغیرہ

مختصراً قرآن مجید نے ان کلمات کو ایک معنیٰ اور دو معانی میں بھی استعمال کیا ہے۔

رسالت اپنے فرائض کے آئینے میں :

تمام رسول انسانوں میں سے تھے، مردوں میں سے تھے، سب سے پہلے رسول خود اپنی وحی پر ایمان لاتا یعنی سب سے قبل خود اس پر عمل پیرا ہوتا ہے۔ بنی نوعِ انسان کی ہدایت کے لئے سعی و جہد میں ساری زندگی گزارانا، رسول کی اطاعت اللہ کی اطاعت سے الگ نہیں بلکہ رسول کی اطاعت کے بغیر اللہ کی اطاعت ممکن نہیں ۔

رسول کسی سے اجرِ رسالت نہیں مانگتا

رسولوں کے بیوی بچے ہوتے ہیں ، تمام رسول اپنے وقت پر آئے اور تشریف لے گئے

رسول صرف راستے دکھاتے ہیں ۔ وغیرہ وغیرہ

یہ مختصراً چند کلمات درج کئے گئے ہیں ۔ جو کتاب و سنت سے ماخوذ ہیں ۔

اَطَعْنَا:

اطاعت کا مطلب ہے کہ کسی کام کو بطیب خاطر، دل کی کشاد اور پسندیدگی سے کرنا اس لئے قرآن میں طوعاً کے مقابلے میں کرھاً کا لفظ آیا ہے جس کا مطلب ہے کہ کسی کام کو ناگواری اور دل کے جبر سے کرنا۔ (تاج العروس) ابن فارس نے لکھا ہے اس کا مطلب ہے کہ کسی کے ساتھ لگنے اور تابعدار ہوجانے کے ہیں ۔

یتولیٰ:

ولّی یتولی متضاد معانی میں استعمال ہوا ہے کسی کی طرف رجوع کرنا بھی اور کسی سے اعراض کرنا بھی قرآن مجید میں یہ مادہ ان تمام مختلف معانی میں استعمال ہوا ہے۔

کسی کی طرف رخ کرنا(البقرہ115) رو گردانی کرنا (آل عمران142) حاکم بن جانا (البقرہ205) غلبہ و اقتدار (البقرہ45)مددگار، حمایتی(البقرہ111) وارث اور رشتہ دار وغیرہ کے معانی میں بھی استعمال ہوا ہے۔

چنانچہ یتولّی لفظ قرآن میں ایمان کے مقابلے میں استعمال ہوا ہے اور کہیں اسلام کے مقابلہ میں اور کہیں اطاعت کے مقابلہ میں استعمال ہوا ہے۔

لیحکم:

تاکہ فیصلہ کیا جائے۔

معرضون:

اعراض سے ماخوذ ہے۔ یعنی منہ پھیرنا، پیٹھ پھیرلینا، قرآن مجید نے معرضون کی تشریح تولیتم سے کردی ہے۔ یعنی روگردانی کرنے والے، گریز کی راہیں نکالنے والے، پھر جانے والے، ایک طرف ہٹ جانے والے۔

مذعنین:

اذعن، یذعن، اذعان۔ اطاعت میں جلدی کرنا، دوڑکر حکم کی تعمیل کرنا۔

ارتابوا:

شک و شبہ، بے چینی(تاج العروس)، نفسیاتی الجھن اور اضطراب نفس(القاموس المحیط) گمان اور تہمت(تاج العروس)

یخافون:

خوف کا تعلق مستقبل میں ہونے والے واقعات و حادثات سے ہوتا ہے جبکہ حزن ماضی کے حادثات سے تعلق رکھتا ہے۔ مؤمن ہمیشہ دوکیفیات کے مابین ہوتا ہے امید اور خوف اور دونوں میں توازن رکھتا ہے کسی بھی جانب اگر زیادتی ہوجائے تو وہ توازن قائم نہیں رہتا لہٰذا مومن کے لئے یہ توازن بہت ضروری ہے۔

المفلحون:

فلاح پانے والے، کامیابی اور بقاء کے لئے بھی استعمال ہوتا ہے۔(ابن فارس)

یخش:

خشی، یخشی، خشیۃ یعنی کسی کام کے انجام کا علم ہونے کی وجہ اس سے اندیشہ کرنا یا اسے ناپسند کرنا، خشیت الٰہی کا مطلب ہے رب العالمین کی نافرمانی و معاصی کے خوفناک نتائج و عواقب کا احساس(تاج العروس، راغب، ابن فارس)

صاحب محیط نے کلیات کے حوالے سے لکھا ہے کہ خشیۃ، خوف سے زیادہ شدید ہوتا ہے، اسی لئے قرآن مجید میں ہے کہ

اِنَّمَا يَخْشَى اللّٰهَ مِنْ عِبَادِهِ الْعُلَمٰۗؤُا(فاطر28)

بلاشبہ اللہ کے بندوں میں سے اس سے ڈرتے وہی ہیں جو علم رکھنے والے ہیں ۔

اور ایک جگہ ہے:

مَنْ خَشِيَ الرَّحْمٰنَ بِالْغَيْبِ (ق33)

جو رحمن سے بن دیکھے ڈرتا رہا۔

یتقہ:

یتقہ میں تخفیف کی وجہ سے لفظ کی شکل کچھ بدل گئی ہے اور اس قسم کی تخفیف عربی میں عام ہے اور اس سے مراد تقویٰ ہے تقویٰ کا مادہ ہے وقی، یقی، وقیاً و وقایۃ یعنی کسی چیز کی حفاظت کرنا، نگہبانی ونگہداشت کرنا اسے مضر اور تکلیف دہ چیز سے بچانا، قرآن مجید میں ’’واق‘‘ محفوظ رکھنے والا، بچانے والا کے مفہوم میں آیا ہے۔

مَا لَكَ مِنَ اللهِ مِنْ وَلِيٍّ وَّلَا وَاقٍ (الرعد37)

اللہ کے مقابلہ میں آپ کا نہ کوئی حمایتی ہوگا اور نہ (اس کی گرفت سے) بچانے والا۔

لیکن یہ لفظ ’’واتقوا اللہ‘‘ کی صورت میں بھی آیا ہے اس کے مفہوم کا تعین کرنے سے قبل یہ واضح کردیا جائے کہ لفظ تقویٰ قرآن مجید میں عدوان، غاوین، فجار کے مقابلے میں آیا ہے اور یہ ساری منفی اور ناپسندیدہ صفات ہیں ۔ قرآن مجیدنے اپنا تعارف ہی متقین کے لئے ہدایت کہہ کر کردیا گیا ہے، لہٰذا ’’واتقوا اللہ‘‘ کا مطلب ہوا کہ رب العالمین اور رسول اکرم ﷺ کی اطاعت میں اپنی زندگی گزارنا اور ایسی ہر کیفیت سے بچنا جو صراطِ مستقیم سے دور کردے۔ قرآن مجید کے اردو زبان کے تراجم میں تقویٰ کا ترجمہ پرہیزگاری کیا جاتا ہے۔ پرہیزگاری بچنا کے مفہوم میں ہے یعنی ایک سلبی کیفیت ہے جبکہ تقویٰ میں صرف پرہیزگاری کے ساتھ ساتھ احکام الٰہیہ پر مکمل عمل در آمد بھی شامل ہے، لہٰذا اس ترجمہ کو ادھوراکہا جاسکتا ہے۔

اجمالی مفہوم:

سورۃ النور کی مذکورہ بالا آیات جو آیت نمبر 47 تا آیت نمبر54 پر مشتمل ہیں ، ان آیات میں گذشتہ آیات میں توحید کے دلائل و براہین کے بیان کے بعد ان لوگوں کا تذکرہ کیا جارہا ہے جو زبان سے تو دینِ اسلام کا اعتراف کرتے ہیں اور دل سے اس کا انکار کرتے ہیں ، ان آیات میں منافقین کی مختلف صفات ذکر کی گئی ہیں ۔ مثلاً :

اسلام کا دعویٰ کرتے تھےلیکن اس کے احکام اور آداب کو اختیار نہیں کرتے تھے۔

ان لوگوں کو اللہ اور اس کے رسول کا فیصلہ منظور نہیں ۔

منافقین کا کردار ہر دور میں دوغلا رہا ہے۔

ان کے علاوہ بھی منافقین کی صفات قرآن مجید میں بہت شرح و بسط سےبیان کی گئی ہیں ۔ جس کو مختصراً بیان کیا جاتا ہے۔

نفاق اور جہالت کا بہت گہرا تعلق ہے۔(التوبہ97،98،101)

منافقت کی صفات میں سے:

1کفر کو چھپانا:

(النساء60،88،89) (المائدہ41،61) (التوبہ54،63،66،74)

2بخل:

(توبہ67)(الاحزاب19) (المنافقون7)

3بغض:

(اٰل عمران118،119)

4حق اور باطل کے مابین تذبذب:

(النساء141،143) (التوبہ45)

5ایمان کو ظاہر کرنا:

(البقرہ8،14،76)(ا ٰل عمران119)(النساء60) (المائدہ41) الخ

6خصوم(جھگڑا کرنا):(البقرہ204)

7ذلت:(المنافقون:8)

8ریاء کاری:(النساء142)

9شماتۃ:کسی کی تکلیف پر خوش ہونا(اٰل عمران120) (النساء72،73)

0گمراہی: (النساء60،88)

! طغیان(سرکشی)(البقرہ15)

@ مرض قلب(البقرہ10) ( المائدہ52) (الانفال49) الخ

# غرور و تکبر(الحدید13،14)

$ غیظ و غضب( اٰل عمران119)

%فسق(التوبہ53،67،96) (المنافقون6)

^کذب(البقرہ10) (التوبہ42،43،77،90) (المجادلۃ14)

&عبادات میں سستی(النساء142) (التوبہ54)

اسلامی معاشرے میں منافقین کا طرزِ عمل ظاہر ہے۔ دوہرے کردار پر مشتمل ہے اور اس حوالے سے وہ صرف خود غرض اور مفاد پرستی کے تحت زندگی گزارنے کے قائل ہوتے ہیں اور اس حوالے سے ان کا طرزِ عمل کبھی تو فتنہ پھیلانے کے لئے ہے۔ کبھی خواہشاتِ نفسانی کی پیروی میں اور بات چیت میں وعدہ خلافی، منکرات کو رائج کرتے ہیں اور اپنے مسائل میں غیر اللہ کی طرف رجوع کرنا امت مسلمہ کے اجتماع کی مخالفت جہاد سے پیچھے رہنا، تکبر کا مظاہرہ، جھوٹی قسمیں ، مکرو فریب، اطاعت نہ کرنا، موت کا خوف، ظلم کرنا، کفار کی دوستی، معروفات سے منع کرنا۔

یہ سب منافقین کے مختلف طرزِ عمل ہیں مزید تفصیل کے لئے قرآنِ مجید کی متعلقہ آیات کا مطالعہ کیا جاسکتا ہے۔ منافقین کی زندگی صرف اور صرف ایک جملے کے گرد گھومتی ہے ’’میں اور میرے لئے‘‘

جبکہ مسلمان کی زندگی کی ابتداء میں سے ہم تک جاتی ہے اور وہ سب کے لئے سوچتا ہے۔

ان کے مابین مسائل میں فیصلہ کرنے کے لئے جب ان کو بلایا جاتا ہے تو اگر ان کا مفاد اس فیصلہ میں ہو تو فوراً آتے ہیں ۔ ورنہ منہ پھیرلیتے ہیں اور ان کے اس نفاق کا اثبات ربّ العالمین نے مختلف سوالوں سے کیا کہ کیا ان کے دلوں میں بیماری ہے؟ کیا یہ شک و شبہ میں پڑے ہوئے ہیں ، کیا انہیں اس بات کا ڈر ہے کہ اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول ان پر ظلم کریں گے۔پھر آیت کا آخری حصہ ان کی گمراہی اور ظلم پر قطعی دلیل ہے۔

اور بر سبیل تذکرہ بطورِ دلیل اہل ایمان کا تذکرہ بھی کردیا گیا کہ انہیں جب اس قسم کے مسائل کے فیصلہ کے لئے بلایا جاتا ہے تو وہ فوراً آتے ہیں اور پھر سمعاً و طاعۃً کی کیفیت ہوتی ہے۔

اور منافقین کی ایک بہت بڑی علامت کہ یہ بات بات پر قسم کھاتے ہیں اپنی بات پر قسمیں کھانا گویا کہ خود ان کو بھی اپنی بات پر یقین اور بھروسہ نہیں ہوتا اسی لئے قسمیں در قسمیں کھاتے ہیں ۔

آخرمیں اس بات کی وضاحت کردی گئی کہ ہدایت صرف اطاعتِ الٰہی اور اطاعتِ رسولﷺ میں ہے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے