ترجمہ :ڈاکٹر عبد الرشید اظہر رحمہ اللہ

انتخاب و تلخیص: شاہ فیض الابرارصدیقی

اللہ رب العزت نے رسول اللہ ﷺ کو ہدایت اور دین حق کے ساتھ مبعوث فرمایا، تاکہ آپ تمام انسانوں کو ان کے غالب و ستودہ صفات پروردگار کے حکم کے مطابق اندھیروں سے روشنی کی طرف نکال لائیں ۔ اللہ تعالیٰ نے آپ ﷺ کو عبادت کی حقیقت واضح کرنے کے لیے مبعوث فرمایا بندگی کا اظہار صرف اسی طرح ممکن ہے کہ اللہ تعالیٰ کے اوامر کی مکمل اطاعت اور اس کی منع کردہ اشیاء سے مکمل اجتناب کیا جائے، نیز اس کے احکام عالیہ کو خواہشات و شہوات نفسانیہ پر مقدم کرتے ہوئے اس کے حضور خاکساری اور انتہائی تواضع کی جائے۔

اس دور میں کچھ لوگوں نے پردے کے متعلق نا مناسب انداز میں گفتگو شروع کر دی ہے، ان لوگوں کو دیکھ کر جو پردے کے قائل ہی نہیں یا کم از کم چہرے کو کھلا رکھنے میں کوئی حرج نہیں سمجھتے، اورکچھ لوگ شریعت مطہرہ کے اس حکم بالخصوص چہرہ ڈھانپنے کے متعلق غلط فہمی کا شکار ہونے لگے ہیں ۔ ان کی طرف سے یہ سوال کیا جانے لگا ہے کہ پردہ واجب ہے یا مستحب؟یہ شرعی حکم ہے یا اس معاملہ میں ماحول، عادات اور رسم و رواج کو پیش نظر رکھ کر فیصلہ کرنا چاہیے؟کیا ایسا تو نہیں کہ اس کی کوئی شرعی حیثیت ہی نہ ہو کہ اس کے واجب یا مستحب ہونے کا حکم لگایا جا سکے؟

اس قسم کے شکوک و شبہات، غلط فہمیوں کے ازالے اور حقیقت حال کی وضاحت کے لیے میں نے مناسب سمجھا کہ وہ دلائل مرتب کر دوں جو اس کا حکم واضح کرنے کے لیے مجھے میسر آئے۔

رسول اللہ ﷺ کی بعثت کا مقصد مکارم اخلاق کی تکمیل تھا۔ آپ ﷺ نے ہر طریقے سے فضائل کی دعوت دی۔ لوگوں کو رذائل اور برے اخلاق سے بچنے کی ہر ممکن طریقے سے تلقین فرمائی۔

رسول اللہ ﷺ کو جن اعلیٰ اخلاق کے ساتھ مبعوث کیا گیا، ان میں سے ایک نہایت بلند مرتبہ اور گراں قدر وصف “حیا” ہے جسے آپ ﷺ نے ایمان کا جز اور اس کی شاخوں میں سے ایک شاخ قرار دیا ہے۔ کوئی عقل مند اس حقیقت سے انکار نہیں کر سکتا کہ عورت کا با وقار اور ایسے عادات و اطوار کے ساتھ رہنا جو اسے مشکوک مقامات اور فتنوں سے دور رکھیں ، اس حیا کا حصہ ہیں جس کا عورت کو اسلامی شریعت اور اسلامی معاشرے میں حکم دیا گیا ہے۔ اس میں شک کی کوئی گنجائش نہیں کہ عورت کا اپنے چہرے اور جسم کے دیگر پُر کشش مقامات کو ڈھانپ کر با پردہ رہنا ہی اس کے لیے سب سے بڑا وقار ہے جس سے وہ اپنے آپ کو آراستہ کر سکتی ہے،

چہرے کے پردے کا وجوب

ہر مسلمان کو چاہیے کہ غیر محرم مردوں سے عورت کا پردہ کرنا اور منہ ڈھانپنا فرض ہے۔ اس کی فرضیت کے دلائل رب العزت کی کتاب عظیم اور نبی رحمت ﷺ کی سنت مطہرہ میں موجود ہیں ۔ اس کے علاوہ اجتہاد اور درست فقہی قیاس بھی اسی کے متقاضی ہیں ۔

قرآن حکیم سے چند دلائل

پہلی دلیل ارشاد باری تعالیٰ ہے:

وَقُلْ لِلْمُؤْمِنَاتِ يَغْضُضْنَ مِنْ أَبْصَارِهِنَّ وَيَحْفَظْنَ فُرُوجَهُنَّ وَلا يُبْدِينَ زِينَتَهُنَّ إِلا مَا ظَهَرَ مِنْهَا وَلْيَضْرِبْنَ بِخُمُرِهِنَّ عَلَى جُيُوبِهِنَّ وَلا يُبْدِينَ زِينَتَهُنَّ إِلا لِبُعُولَتِهِنَّ أَوْ آبَائِهِنَّ أَوْ آبَاءِ بُعُولَتِهِنَّ أَوْ أَبْنَائِهِنَّ أَوْ أَبْنَاءِ بُعُولَتِهِنَّ أَوْ إِخْوَانِهِنَّ أَوْ بَنِي إِخْوَانِهِنَّ أَوْ بَنِي أَخَوَاتِهِنَّ أَوْ نِسَائِهِنَّ أَوْ مَا مَلَكَتْ أَيْمَانُهُنَّ أَوِ التَّابِعِينَ غَيْرِ أُولِي الإرْبَةِ مِنَ الرِّجَالِ أَوِ الطِّفْلِ الَّذِينَ لَمْ يَظْهَرُوا عَلَى عَوْرَاتِ النِّسَاءِ وَلا يَضْرِبْنَ بِأَرْجُلِهِنَّ لِيُعْلَمَ مَا يُخْفِينَ مِنْ زِينَتِهِنَّ وَتُوبُوا إِلَى اللَّهِ جَمِيعًا أَيُّهَا الْمُؤْمِنُونَ لَعَلَّكُمْ تُفْلِحُونَ (سورۃ النور، آیت 31)

ترجمہ:اور ایمان والیوں سے کہہ دو کہ اپنی نگاہ نیچی رکھیں اور اپنی عصمت کی حفاظت کریں اور اپنی زینت کو ظاہر نہ کریں مگر جو جگہ اس میں سے کھلی رہتی ہے اور اپنے دوپٹے اپنے سینوں پر ڈالے رکھیں اور اپنی زینت ظاہر نہ کریں مگر اپنے خاوندوں پر یا اپنے باپ یا خاوند کے باپ یا اپنے بھائیوں یا بھتیجوں یا بھانجوں پر یا اپنی عورتوں پر یا اپنے غلاموں پر یا ان خدمت گاروں پر جنہیں عورت کی حاجت نہیں یا ان لڑکوں پر جو عورتوں کی پردہ کی چیزوں سے واقف نہیں اور اپنے پاؤں زمین پر زور سے نہ ماریں کہ ان کا مخفی زیور معلوم ہو جائے اور اے مسلمانو تم سب الله کے سامنے توبہ کرو تاکہ تم نجات پاؤ۔

یہ آیت مبارکہ چہرے کے پردے کے وجوب پر مندرجہ ذیل طریقوں سے دلالت کرتی ہے:

(1)اللہ عزوجل نے مومن عورتوں کو اپنی عصمت کی حفاظت کا حکم دیا ہے اور عصمت کی حفاظت کے حکم کا تقاضا یہ ہے کہ وہ تمام وسائل و ذرائع اختیار کیے جائیں جو اس مقصد کے حصول میں مددگار ہو سکتے ہیں اور ہر عقلمند آدمی جانتا ہے کہ چہرے کا پردہ عصمت کی حفاظت کے منجملہ وسائل میں سے ہے کیونکہ چہرہ کھلا رکھنا غیر محرم مردوں کے لیے اس کی طرف دیکھنے کا ذریعہ بنتا ہے اور مردوں کو اس کے خدوخال کا جائزہ لینے کا موقع ملتا ہے جس سے بات چیت میل ملاقات بلکہ بسا اوقات ناجائز تعلقات تک جا پہنچتی ہے۔ حدیث نبوی ہے:

آنکھیں بھی زنا کرتی ہیں اور ان کا زنا (ناجائز) دیکھا ہے۔(مسند احمد:2/343)

پھر رسول اللہ ﷺ نے ہاتھ پاؤں وغیرہ کے زنا کا ذکر کرنے کے بعد آخر میں فرمایا:

(ترجمہ)شرمگاہ اس کی تصدیق کرتی ہے یا تکذیب۔ (مسند احمد: 2/343)

لہٰذا جب چہرے کا پردہ حفظ ناموس و عصمت کا ذریعہ ٹھہرا تو وہ بھی اس طرح فرض ہو گا جس طرح کہ حفظ ناموس و عصمت فرض ہے۔ اُن وسائل و ذرائع کا بھی وہی حکم ہوتا ہے جو ان مقاصد کے حصول کے لیے بروئے کار لائے جاتے ہیں ۔

(2)اللہ جل شانہ کا ارشاد ہے:

يُدْنِيْنَ عَلَيْهِنَّ مِنْ جَلَابِيْبِهِنَّ

ترجمہ: اور وہ اپنے گریبانوں پردوپٹے ڈال لیا کریں ۔(سورۃ النور، آیت 31)

خمار اس کپڑے کو کہتے ہیں جسے عورت اپنا سر ڈھانپنے کے لیے اوڑھتی ہے، مثلاً برقعے کا نقاب وغیرہ۔ جب عورت کو یہ حکم ہے کہ وہ اپنے سینے پر دوپٹہ ڈال کر رکھے تو چہرہ ڈھانپنا بھی فرض ہو گا کیونکہ یا تو چہرہ لازما اس حکم میں داخل ہو جاتا ہے یا پھر قیاس صحیح اس کا تقاضا کرتا ہے۔ وہ اس طرح کہ جب گردن و سینہ کو ڈھانپنا فرض ہے تو چہرے کے پردے کی فرضیت تو بدرجہ اولیٰ ہونی چاہیے کیونکہ وہی خوبصورتی کا مظہر اور فتنے کا موجب ہے۔ اور ظاہری حسن کے متلاشی صرف چہرہ ہی دیکھتے ہیں ۔ چہرہ خوبصورت ہو تو باقی اعضاء کو زیادہ اہمیت کی نظر سے نہیں دیکھا جاتا۔ جب کہا جاتا ہے کہ فلاں خوبصورت ہے تو اس سے بھی چہرے کا جمال ہی مراد ہوتا ہے۔ اس سے واضح ہوا کہ چہرے کا حسن و جمال ہی پوچھنے اور بتانے والوں کی گفتگو کا محور ہوتا ہے۔

مذکورہ بالا حقائق کی روشنی میں کیسے ممکن ہے کہ حکمت پر مبنی شریعت سینہ و گردن کے پردے کا تو حکم دے لیکن چہرہ کھلا رکھنے کی رخصت دے۔

(3)اللہ تعالیٰ نے زینت کے اظہار سے بالکل منع کر دیا ہے۔ اس حکم سے صرف وہ زینت مستثنی ہے جس کے اظہار سے کوئی چارہ کار ہی نہیں ، مثلاً بیرونی لباس، اسی لیے قرآن نے (إِلَا مَا ظَهَرَ مِنْهَا)سوائے اس زینت کے جو از خود ظاہر ہو جائے”کے الفاظ سے تعبیر کیا ہے، یوں نہیں فرمایا: سوائے اس زینت کے جسے عورتیں ظاہر کریں ۔

(4) پھر اسی آیت میں زینت کے اظہار سے دوبارہ منع فرمایا اور بتایا کہ صرف ان افراد کے سامنے زینت ظاہر کی جا سکتی ہے جنہیں مستثنی کیا گیا ہے۔ اس سے یہ بھی معلوم ہوا کہ دوسرے مقام پر مذکورہ زینت پہلے مقام پر مذکورہ زینت سے مختلف اور علیحدہ ہے۔ پہلے مقام پر اس زینت کا حکم بتایا گیا ہے جو ہر ایک کے لیے ظاہر ہوتی ہے اور اس کا پردہ ممکن نہیں جب کہ دوسرے مقام پر مخفی زیبائش مراد ہے، یعنی جس کے ذریعے سے عورت خود کو مزین کرتی ہے۔ اگر اس آرائش و زیبائش کا اظہار بھی ہر ایک کے سامنے جائز ہو تو پہلی زینت کے اظہار کی عام اجازت اور دوسری زینت کے اظہار کے حکم سے بعض افراد کے استثنا کا کوئی خاص فائدہ نہیں رہ جاتا۔

طفیلی قسم کے افراد جو صرف کھانا کھانے کے لیے کسی کے گھر میں رہتے ہوں اور ان میں صنفی میلان ختم ہو چکا ہے، مردانہ اوصاف سے محروم خدام اور وہ نابالغ بچے جو عورتوں کی پوشیدہ باتیں سمجھ نہیں پاتے تو ایسے افراد کے سامنے اللہ تعالیٰ نے مخفی زینت کو کھلا رکھنے کی اجازت دی ہے۔ اس سے دو امور ثابت ہوئے:

مذکورہ بالا دو قسم کے افراد کے سوا مخفی زیبائش کو کسی کے سامنے کھلا رکھنا جائز نہیں ہے۔

بلاشبہ پردے کے حکم کا دارومدار اور اس کے واجب ہونے کی علت عورت کی طرف دیکھ کر (مردوں کا) فتنے میں مبتلا اور وارفتگی کا شکار ہو جانے کا اندیشہ ہے، اور اس میں کوئی شک نہیں کہ چہرہ ہی سب سے زیادہ حسن کا مرکز اور فتنے کا مقام ہوتا ہے، لہذا اس کا ڈھانپنا ضروری ہو گا تاکہ مرد حضرات بشری تقاضوں کے باعث کسی آزمائش میں مبتلا نہ ہو جائیں ۔

(5)فرمان باری تعالیٰ ہے:

وَلايَضْرِبْنَ بِأَرْجُلِهِنَّ لِيُعْلَمَ مَا يُخْفِينَ مِنْ زِينَتِهِنَّ ۚ

ترجمہ: اور اپنے پاؤں زمین پر زور سے نہ ماریں کہ ان کا مخفی زیور معلوم ہو جائے (سورۃ النور:آیت 31)

یعنی عورت اس انداز سے نہ چلے کہ معلوم ہو کہ وہ پازیب وغیرہ پہنے ہوئے ہے جس سے وہ اپنے خاوند کے لیے آراستہ ہوتی ہے۔ جب عورت کو زمین پر شدت سے پاؤں مارنے سے منع کر دیا گیا، مبادا غیر محرم مرد اس کے زیور کی جھنکار ہی سے فتنے میں پڑ جائیں تو چہرہ کھلا رکھنا کیسے جائز ہو سکتا ہے؟

غور فرمائیے!فتنے میں پڑنے اور بہک جانے کا امکان کہاں زیادہ ہوتا ہے۔ کیا اس صورت میں کہ ایک آدمی کسی عورت کے پاؤں میں پڑی پازیب کی جھنکار سنتا ہے اسے معلوم نہیں کہ وہ عورت جوان ہے یا عمر رسیدہ، حسین و جمیل ہے یا بدصورت یا اس صورت میں کہ ایک مرد کسی دوشیزہ کا کھلا چہرہ دیکھے جو حسن و زیبائی سے بھرپور ہو اور مشاطگی نے اس کے فتنے کو دو چند کہ ہر دیکھنے والا دیکھتا ہی رہ جائے؟ہر با شعور انسان بخوبی سمجھ سکتا ہے کہ دونوں میں سے کون سی زینت زیادہ فتنے کا باعث اور مستور و مخفی رہنے کی زیادہ حقدار ہے۔

دوسری دلیل ارشاد باری تعالیٰ ہے:

وَالْقَوَاعِدُ مِنَ النِّسَاءِ اللاتِي لا يَرْجُونَ نِكَاحًا فَلَيْسَ عَلَيْهِنَّ جُنَاحٌ أَنْ يَضَعْنَ ثِيَابَهُنَّ غَيْرَ مُتَبَرِّجَاتٍ بِزِينَةٍ وَأَنْ يَسْتَعْفِفْنَ خَيْرٌ لَهُنَّ وَاللَّهُ سَمِيعٌ عَلِيمٌ

ترجمہ: اور وہ بڑی بوڑھی عورتیں جو نکاح کی رغبت نہیں رکھتیں ان پر اس بات میں کوئی گناہ نہیں کہ اپنے کپڑے اتار رکھیں بشرطیکہ زینت کا اظہار نہ کریں اور اس سے بھی بچیں تو ان کے لیے بہتر ہے اور الله سننے والا جاننے والا ہے (سورۃ النور، آیت 60)

اس آیت کریمہ سے پردے کے واجب ہونے پر وجہ استدلال یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ان بوڑھی عورتوں سے گناہ کی نفی کی ہے جو سن رسیدہ ہونے کے سبب نکاح کی اُمید نہیں رکھتیں ، اس لیے کہ بوڑھی ہونے کی وجہ سے مردوں کو ان کے ساتھ نکاح میں کوئی رغبت نہیں ہوتی لیکن اس عمر میں بھی چادر اتار رکھنے پر گناہ نہ ہونا اس شرط کے ساتھ مشروط ہے کہ اس سے ان کا مقصد زیب و زینت کی نمائش نہ ہو چادر اتار دینے کا مطلب یہ ہرگز نہیں ہے کہ وہ کپڑے اتار کر بالکل برہنہ ہو جائیں بلکہ اس سے صرف کپڑے مراد ہیں جو عام لباس کے اوپر اس لیے اوڑھے جاتے ہیں کہ جسم کے وہ حصے جو عام لباس سے عموما باہر رہتے ہیں ، جیسے چہرہ اور ہاتھ، چھپ جائیں ، لہذا ان بوڑھی عورتوں کو جنہیں کپڑے اتارنے کی رخصت دی گئی ہے اس سے مراد مذکورہ اضافی کپڑے (چادریں ، برقعے وغیرہ) ہیں جو پورے جسم کو ڈھانپتے ہیں ۔ اس حکم کی عمر رسیدہ خواتین کے ساتھ تخصیصی دلیل یہ ہے کہ جو ان نکاح کی عمر والی عورتوں کا حکم ان سے مختلف ہے کیونکہ اگر سب عورتوں کے لیے اضافی کپڑے اتار دینے اور صرف عام لباس پہننے کی اجازت ہوتی تو سن رسیدہ و نکاح کی عمر سے گزری ہوئی عورتوں کا بالخصوص ذکر کرنے کا کوئی مقصد نہیں رہ جاتا۔

مذکورہ آیت کریمہ کے الفاظ (غَيْرَ مُتَبَرِّجَاتٍ بِزِينَةٍ) بشرطیکہ یہ بوڑھی عورتیں اپنی زینت کا مظاہرہ نہ کرتی پھریں اس بات کی ایک اور دلیل ہے کہ نکاح کے قابل، عورتوں پر پردہ فرض ہے چونکہ عام طور پر جب وہ اپنا چہرہ کھلا رکھتی ہیں تو اس کا مقصد زینت کی نمائش اور حسن و جمال کی مدح و توصیف ہوتا ہے اس قماش کی عورتوں میں نیک نیت شاذونادر ہی ہوتی ہیں اور شاذونادر صورتوں کو عام قوانین کی بنیاد نہیں بنایا جا سکتا۔

تیسری دلیل ارشاد باری تعالیٰ ہے:

يٰٓا أَيُّهَا النَّبِيُّ قُلْ لأزْوَاجِكَ وَبَنَاتِكَ وَنِسَاءِ الْمُؤْمِنِينَ يُدْنِينَ عَلَيْهِنَّ مِنْ جَلابِيبِهِنَّ ذَلِكَ أَدْنَى أَنْ يُعْرَفْنَ فَلا يُؤْذَيْنَ وَكَانَ اللَّهُ غَفُورًا رَحِيمًا

ترجمہ: اے نبی اپنی بیویوں اور بیٹیوں اور مسلمانوں کی عورتوں سے کہہ دو کہ اپنے مونہوں پر نقاب ڈالا کریں یہ اس سے زیادہ قریب ہے کہ پہچانی جائیں پھر نہ ستائی جائیں اور الله بخشنے والا نہایت رحم والا ہے (الاحزاب 59)

ترجمان القرآن حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ اس آیت کی تفسیر میں فرماتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے مسلمان عورتوں کو حکم دیا ہے کہ جب وہ کسی کام کے لیے اپنے گھروں سے نکلیں تو سر کے اوپر سے اپنی چادریں لٹکا کر اپنے چہروں کو ڈھانپ لیا کریں اور صرف ایک آنکھ کی جگہ کھلی رکھیں ۔ صحابی کی تفسیر حجت ہے بلکہ بعض علماء کے نزدیک مرفوع حدیث کے حکم میں ہے۔

حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ کے قول میں مذکور ایک آنکھ کھلی رکھنے کی رخصت بھی راستہ دیکھنے کی ضرورت کے پیش نظر دی گئی ہے، لہذا جہاں راستہ دیکھنے کی ضرورت نہ ہو گی وہاں ایک آنکھ سے بھی پردہ ہٹانے کی کوئی وجہ نہیں ۔

اور’’جلباب‘‘ اس چادر کو کہتے ہیں جو دوپٹے کے اوپر سے عبا (گاؤن) کی طرح اوڑھی یا پہنی جائے۔ حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ جب یہ آیت نازل ہوئی تو انصاری خواتین گھروں سے نکلتے وقت اس سکون و اطمینان سے چلتیں گویا ان کے سروں پر پرندے بیٹھے ہیں اور انہوں نے سیاہ رنگ کی چادریں لپیٹ رکھی ہوتیں ۔

عبیدۃ السلمانی رحمۃ اللہ علیہ کا بیان ہے ہے کہ مسلمان عورتیں سروں کے اوپر سے چادریں اس طرح اوڑھا کرتی تھیں کہ آنکھوں کے سوا کچھ ظاہر نہ ہوتا اور وہ بھی اس لیے کہ راستہ دیکھ سکیں ۔ (تفسیر ابن کثیر، تفسیر سورۃ الاحزاب، آیت :59)

چوتھی دلیل ارشاد باری تعالیٰ ہے:

لا جُنَاحَ عَلَيْهِنَّ فِي آبَائِهِنَّ وَلا أَبْنَائِهِنَّ وَلا إِخْوَانِهِنَّ وَلا أَبْنَاءِ إِخْوَانِهِنَّ وَلا أَبْنَاءِ أَخَوَاتِهِنَّ وَلا نِسَائِهِنَّ وَلا مَا مَلَكَتْ أَيْمَانُهُنَّ وَاتَّقِينَ اللَّهَ إِنَّ اللَّهَ كَانَ عَلَى كُلِّ شَيْءٍ شَهِيدًا

ترجمہ: ان پر اپنے باپوں کے سامنے ہونے میں کوئی گناہ نہیں اور نہ اپنے بیٹوں کے اور نہ اپنے بھائیوں کے اور نہ اپنے بھتیجوں کے اورنہ اپنے بھانجوں کے اور نہ اپنی عورتوں کے اور نہ اپنے غلاموں کے اور الله سے ڈرتی رہو بے شک ہر چیز الله کے سامنے ہے ( الاحزاب 55)

حافظ ابن کثیر رحمۃ اللہ علیہ بیان کرتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے جب عورتوں کو غیر محرم مردوں سے پردہ کرنے کا حکم دیا تو یہ بھی بیان فرما دیا کہ فلاں فلاں قریبی رشتہ داروں سے پردہ واجب نہیں ہے جیسا کہ ارشاد باری تعالیٰ ہے: اور اپنی زینت کو ظاہر نہ کریں مگر جو جگہ اس میں سے کھلی رہتی ہے اور اپنے دوپٹے اپنے سینوں پر ڈالے رکھیں اور اپنی زینت ظاہر نہ کریں مگر اپنے خاوندوں پر یا اپنے باپ یا خاوند کے باپ یا اپنے بھائیوں یا بھتیجوں یا بھانجوں پر یا اپنی عورتوں پر یا اپنے غلاموں پر یا ان خدمت گاروں پر جنہیں عورت کی حاجت نہیں یا ان لڑکوں پر جو عورتوں کی پردہ کی چیزوں سے واقف نہیں (النور 31)

قرآن حکیم میں سے یہ چار دلائل ہیں جن سے ثابت ہوتا ہے کہ غیر محرم مردوں سے عورت کو پردہ کرنا واجب ہے اور جیسا کہ اوپر بیان کیا جا چکا ہے صرف پہلی آیت اس مسئلہ پر پانچ وجوہ سے دلالت کرتی ہے۔

سنت مطہرہ سے دلائل

اب سنت نبوی سے چہرے کا پردہ واجب ہونے کے چند دلائل ذکر کیے جاتے ہیں :

(1)رسول اکرم ﷺ کا فرمان ہے:

جب کوئی آدمی کسی عورت کو نکاح کا پیغام بھیجے تو اگر اس کے لیے عورت کا داعیہ نکاح (حسن و جمال اور قد کاٹھ وغیرہ) دیکھنا ممکن ہو تو وہ دیکھ لے۔ (مسند احمد، 3/334)

وجہ استدلال: وجہ استدلال اس حدیث میں یہ ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے خاطب (پیغام نکاح دینے والے) سے گناہ کا مرتفع ہونا اس حالت کے ساتھ مشروط کیا ہے کہ وہ خِطبہ (پیغام نکاح)کے لیے دیکھ رہا ہے۔ پس ثابت ہوا کہ اس مقصد کے بغیر دیکھنے والا گناہ گار ہے۔ اسی طرح اگر خاطب بھی خِطبہ کے لیے نہیں بلکہ صرف لطف اندوز ہونے کے لیے دیکھ رہا ہے تو وہ بھی گناہ گار ہو گا۔

اگر یہ کہا جائے کہ اس حدیث میں دیکھی جانی والی چیز کی تخصیص نہیں ، لہذا، سینہ، چھاتی اور گردن وغیرہ کا دیکھنا بھی مراد ہو سکتا ہے۔ تو اس کا جواب یہ ہے کہ ہر شخص بخوبی جانتا ہے کہ جمال پسند خاطب کا مقصود چہرے کے جمال کا جائزہ لینا ہوتا ہے، باقی اعضاء کا حسن تو اس کے تابع ہے، اس لیے عورت کے انتخاب میں ظاہری حسن و جمال کو ترجیح دینے والا خاطب چہرہ ہی دیکھے گا۔

(2) جب رسول اکرم ﷺ نے عورتوں کے متعلق یہ حکم دیا کہ وہ بھی عیدگاہ کو جائیں تو وہ کہنے لگیں : اے اللہ کے رسول ﷺ ! ہم میں سے بعض کے پاس چادر نہیں ہوتی۔ رسول اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا:

لتلبسها صاحبتها من جلبابها

جس کے پاس اپنی چادر نہ ہو تو اسے کوئی دوسری بہن چادر دے دے۔(صحیح بخاری، الصلوۃ، باب وجوب الصلاۃ فی الثیاب، حدیث:351)

یہ حدیث واضح طور پر بتا رہی ہے کہ صحابیات میں چادر کے بغیر باہر نکلنے کا معمول نہیں تھا بلکہ چادر پاس نہ ہونے کی صرت میں باہر نکلنے کو وہ ممکن ہی نہیں سمجھتی تھی۔ اسی لیے رسول اکرم ﷺ نے انہیں نماز عید کے لیے عید گاہ جانے کا حکم دیا تو انہوں نے اس امر، یعنی چادر نہ ہونے کا عذر کیا۔ اس پر آپ ﷺ نے وضاحت فرمائی کہ یہ مشکل اس طرح حل ہو سکتی ہے کہ ایسی عورت کو کوئی دوسری مسلمان بہن اپنی چادر مستعار دے دے۔

گویا رسول اکرم ﷺ نے عورتوں کو یہ اجازت نہیں دی کہ وہ چادر اوڑھے بغیر عیدگاہ تک بھی جائیں ، حالانکہ وہاں جانے کا حکم مرد و عورت سب کو ہے۔ جب ایک ایسے کام کے لیے جس کا شریعت نے حکم دیا ہے، رسول اللہ ﷺ نے عورتوں کو چادر اوڑھے بغیر باہر نکلنے کی اجازت نہیں دی تو ایسے امور کے لیے بغیر چادر اوڑھے گھر سے باہر آنے کی اجازت کیسے دی جا سکتی ہے جن کا شریعت میں حکم دیا گیا ہے نہ ان ان کی کوئی ضرورت ہے، بالخصوص جب مقصد صرف بازاروں میں گھومنا پھرنا، مردوں کے ساتھ میل جول اور تماش بینی ہو جس میں کوئی فائدہ نہیں ۔

علاوہ ازیں چادر اوڑھنے کا حکم بجائے خود اس بات کی دلیل ہے کہ عورت کا مکمل با پردہ رہنا ضروری ہے۔ واللہ اعلم۔

(3)ام المومنین حضرت عائشہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے:

مومن عورتیں رسول اکرم ﷺ کے ساتھ فجر کی نماز ادا کرنے کے لیے چادروں میں لپٹی ہوئی آتیں ۔ پھر نماز کے بعد وہ اپنے گھروں کو لوٹتیں تو اندھیرے کے سبب انہیں کوئی پہچان نہ سکتا۔ (صحیح البخاری، مواقیت الصلاۃ، باب وقت الفجر، حدیث :578)

حضرت عائشہ رضی اللہ عنہ نے مزید فرمایا: (ترجمہ) عورتوں کے جو اطوار ہم نے دیکھے ہیں اگر رسول اللہ ﷺ دیکھ لیتے تو انہیں مسجد میں آنے سے اسی طرح منع کر دیتے جس طرح بنی اسرائیل نے اپنی عورتوں کو منع کر دیا تھا۔(صحیح البخاری، الاذان، باب انتظار الناس قیام الامام العالم، حدیث :869 و صحیح مسلم الصلاۃ، باب خروج النساء الی المساجد، حدیث :445)

تقریباً اسی قسم کے الفاظ حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے بھی مروی ہیں ۔ یہ حدیث پردے کے وجوب پر دو طریقوں سے دلالت کرتی ہے:

پردہ کرنا اور اپنے جسم کو مکمل طور پر ڈھانپنا صحابیات رضی اللہ عنھن کے معمول میں سے تھا اور صحابہ کرام رضی اللہ عنھم کا زمانہ تمام زمانوں سے بہتر اور اللہ تعالیٰ کے ہاں سب سے زیادہ منزلت رکھتا ہے۔ وہ اخلاق و آداب میں بلند، ایمان میں کامل اور اعمال میں زیادہ صالح تھے۔ وہی قابل اتباع نمونہ ہیں کہ خود ان کو ان کی بطریق احسن پیروی کرنے والوں کو اللہ تعالیٰ نے اپنی خوشنودی کی نوید سنائی۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:

ترجمہ: اور جو لوگ قدیم میں پہلے ہجرت کرنے والوں اور مدد دینے والو ں میں سے اور وہ لوگ جو نیکی میں ان کی پیروی کرنے والے ہیں الله ان سے راضی ہوئے اور وہ اس سے راضی ہوئے ان کے لیے ایسے باغ تیار کیے ہیں جن کے نیچے نہریں بہتی ہیں ان میں ہمیشہ رہیں گے یہ بڑی کامیابی ہے (سورۃ التوبہ، آیت 100)

جب صحابہ کرام رضی اللہ عنھم کے مبارک عہد میں عورتوں کا طریقہ یہ تھا (جو اوپر ذکر کیا گیا) تو ہمارے لیے کس طرح مستحسن ہو سکتا ہے کہ اس طریقے سے ہٹ جائیں جس پر چلنے ہی سے اللہ تعالیٰ کی خوشنودی کا حصول ممکن ہے۔ خصوصاً جب کہ اللہ تعالیٰ نے یہ بھی فرمایا ہے:

ترجمہ: اور جو شخص سیدھا رستہ معلوم ہونے کے بعد رسول کی مخالف کرے اور مومنوں کے رستے کے سوا اور رستے پر چلے تو جدھر وہ چلتا ہے ہم اسے ادھر ہی چلنے دیں گے اور (قیامت کے دن) جہنم میں داخل کریں گے اور وہ بری جگہ ہے(سورۃ النساء، آیت 115)

ام المومنین حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں : “اگر رسول اکرم ﷺ عورتوں کے وہ اعمال و اطوار دیکھ لیتے جو ہم نے دیکھے ہیں تو انہیں مساجد میں آنے سے قطعی طور پر منع کر دیتے۔

اور یہ اس زمانے میں ہوا جس کی فضیلت احادیث میں وارد ہے، یعنی عہد نبوی کے مقابلے میں عورتوں کی حالت اس حد تک بدل گئی کہ انہیں مساجد میں آنے سے روک دینے کا تقاضا کر رہی تھی، تو ہمارے زمانے میں بے پردہ نکلنے کی اجازت کیوں کر دی جا سکتی ہے جبکہ عصر نبوی کو گزرے تیرہ صدیاں گزر چکی ہیں ۔ اخلاقی بے راہ روی عام ہو چکی ہے۔ شرم و حیا تقریبا رخصت ہو چکے ہیں اور لوگوں کے دلوں میں دینی حمیت کمزور پڑ چکی ہے۔ یعنی اگر کسی کام کے نتیجہ میں ایسے امور سامنے آئیں جنہیں شریعت حرام قرار دیتی ہے تو وہ کام بھی شرعاً حرام ہو گا، خواہ بظاہر جائز ہی نظر آتا ہو۔

رسول اکرم ﷺ نے جب ازار بند کے ٹخنوں سے نیچے لٹکانے کی حرمت بیان کی تو اس پر حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہ نے سوال کیا: تو عورتیں اپنی چادریں کس حد تک لٹکائیں ۔ رسول اکرم ﷺ نے فرمایا:

ایک بالشت بھر لٹکائیں ۔ حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا نے عرض کیا: اس طرح تو ان کے پاؤں نظر آئیں گے۔ نبی ﷺ نے فرمایا:تو ایک ہاتھ کے برابر کاٹ لیں اس سے زیادہ نہ لٹکائیں ۔ (سنن ابی داود، اللباس باب فی قدر الذیل، حدیث :4117)

مندرجہ بالا حدیث سے ثابت ہوا کہ عورت پر پاؤں ڈھانپنا فرض ہے۔ اس سے یہ بھی واضح ہوا کہ یہ حکم تمام صحابیات رضی اللہ عنھن کو معلوم تھا اور بلاشبہ پاؤں میں ، ہاتھوں اور چہرے کی نسبت کم کشش پائی جاتی ہے۔ کم تر کشش والے مقام کے حکم کی تصریح خودبخود تنبیہ کر رہی ہے کہ اس سے زیادہ پر کشش اور اس حکم کے زیادہ حقدار مقامات کا کیا حکم ہونا چاہیے۔ یہ بات شرع متن کی حکمت کے منافی ہے کہ کم تر کشش اور قلیل تر فتنے کے باعث اعضاء کو ڈھانپنا فرض ہو لیکن زیادہ فتنے کے باعث اور پُر کشش اعضاء کو کھلا رکھنے کی اجازت دے دی جائے۔ اللہ تعالیٰ کی حکمت و شریعت میں اس قسم کا تضاد پایا جانا ناممکن ہے۔

رسول اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا:

اگر کسی عورت کے مکاتب غلام کے پاس اس قدر مال ہو جس سے وہ معاہدے میں طے شدہ رقم ادا کر سکتا ہو تو اس عورت کو چاہیے کہ وہ اپنے اس غلام سے پردہ کرے۔ (سنن ابی داود، العنق، باب فی المکاتب یودی بعض کتابہ، حدیث :3928 وضعفہ البانی)

مذکورہ حدیث سے پردے کا واجب ہونا اس طرح ثابت ہوتا ہے کہ مالکہ کے لیے اپنے غلام کے سامنے اس وقت تک چہرہ کھلا رکھنا جائز ہے جب کہ وہ اس کی ملکیت میں ہو اور جب غلام پر اس کی ملکیت ختم ہو جائے تو اس پر واجب ہے کہ وہ اس سے پردہ کرے کیونکہ اب وہ غیر محرم ہو گیا ہے۔ ثابت ہوا کہ عورت کا غیر محرم مردوں سے پردہ کرنا واجب ہے۔

حضرت عائشہ رضی اللہ عنہ بیان فرماتی ہیں :

جب ہم رسول اللہ ﷺ کی معیت میں احرام باندھے ہوئے ہوتیں تو اونٹ سوار قافلے ہمارے پاس سے گزرتے تھے۔ وہ جس وقت سامنے ہوتے تو ہم اپنے سروں کے اوپر سے چادر چہرے پر لٹکا لیتیں ۔ جب وہ آگے گزر جاتے تو ہم پھر سے چادر کو چہرہ پر سے ہٹا لیتیں ۔ (سنن ابی داود، الناسک، باب المحرمۃ تغطی وجھھا، حدیث :1833 وسنن ابن ماجہ المناسک، باب المحرمۃ تسدل الثوب علی وجھھا، حدیث :2935 وحسن اسنادہ الالبانی فی الجلباب المراۃ، ص :107)

حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کا یہ فرمانا کہ “جب وہ (سوار) ہمارے سامنے ہوتے تو ہم اپنے چہروں پر چادریں ڈال لیتیں ، واضح دلیل ہے کہ عورت پر چہرہ ڈھانپنا واجب ہے۔ اس لیے کہ حالت احرام میں چہرہ کھلا رکھنے کا حکم ہے، لہذا اگر اس واجبی حکم کی بجا آوری میں کوئی زور دار شرعی رکاوٹ موجود نہ ہوتی تو چہرہ کھلا رکھنا ضروری تھا، خواہ لوگ پاس سے گزرتے رہیں ۔

اس استدلال کی وضاحت اس طرح کی جا سکتی ہے کہ اکثر اہل علم کے نزدیک حالت احرام میں عورتوں پر چہرہ کھلا رکھنا واجب ہے۔ اور ایک واجب کو اس سے قوی تر واجب ادا کرنے کی خاطر ہی ترک کیا جا سکتا ہے۔ اس لیے اگر غیر محرم عورتوں سے پردہ کرنا اور چہرہ ڈھانپنا واجب نہ ہوتا تو احرام کی حالت میں اس کے کھلا رکھنے کا حکم جو واجب ہے ترک کرنا جائز نہ ہوتا جب کہ صحیح بخاری و صحیح مسلم وغیرہ میں حدیث ہے (جس کا مفہوم) کہ حالت احرام میں عورت کے لیے نقاب ڈالنا اور دستانے پہننا جائز نہیں ہے۔

شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ یہ حدیث منجملہ دلائل میں سے ہے کہ رسول اکرم ﷺ کے عہد مبارک میں حالت احرام کے سوا خواتین میں (چہرے کے پردے کے لیے) نقاب اور (ہاتھوں کے پردے کے لیے)دستانوں کا رواج عام تھا۔ اس کا تقاضا بھی یہی ہے کہ چہرے اور ہاتھوں کا پردہ کرنا واجب ہے۔

سنت مطہرہ میں سے یہ چھ دلائل ہیں کہ عورت پر پردہ کرنا اور غیر محرم مردوں کی نظر سے چہرہ ڈھانپنا فرض ہے۔

قرآن میں سے مذکور چار دلائل بھی ان میں جمع کر لیں تو کتاب و سنت سے کل دس دلیلیں ہوئیں ۔ تلک عشرۃ کاملۃ۔ وباللہ التوفیق۔

قیاس صحیح کی روسے چہرے کے پردے کا وجوب:

اسلامی تعلیمات کے مطابق ہر مسلمان کو شرعی کاموں میں اجتہاد اور درست فقہی قیاس پر عمل پیرا ہونا چاہیے۔ یعنی مصالح اور ان کے حصول کے ذرائع کو برقرار رکھنے کی ترغیب اور مفاسد اور ان کے وسائل کی مذمت اور ان سے اجتناب کرنے کی تلقین جیسے سنہری اصول پر عمل پیرا ہونا چاہیے۔ چنانچہ ہر وہ کام جس میں خالصتا مصلحت ہو یا اس کے نقصانات کی نسبت مصلحت کا پہلو روشن ہو تو اس کا حکم علی الترتیب پہلی صورت میں واجب اور دوسری صورت میں کم از کم مستحب ہو گا اور وہ کام جس میں صرف نقصان ہو یا نقصان ہو یا نقصان اس کی مصلحت سے زیادہ ہو تو اس کام کا حکم علی الترتیب حرام یا مکروہ ہو گا۔

اس قاعدے کی روشنی میں جب ہم غیر محرم مردوں کے سامنے عورت کا چہرہ بے پردہ رکھنے پر غور کرتے ہیں تو دیکھتے ہیں کہ یہ بے حجابی بے شمار مفاسد لیے ہوئے ہے۔ اگر بالفرض کوئی مصلحت ہے بھی تو اس سے پیدا ہونے والے شدید نقصانات کے بالمقابل یہ انتہائی بے معنی مصلحت ہے۔

عُریاں چہرے کے نقصانات

عورت کے چہرے کو بے پردہ رکھنے کے بڑے بڑے نقصانات مندرجہ ذیل ہیں :

فتنے میں پڑنا: عورت جب اپنے چہرے کو بے پردہ رکھتی ہے تو اپنے آپ کو فتنے میں ڈالتی ہے کیونکہ اسے ان چیزوں کا اہتمام و التزام کرنا پڑتا ہے جس سے اس کا چہرہ خوبصورت، جاذب نظر اور دلکش دکھائی دے۔ اس طرح وہ دوسروں کے لیے فتنے کا باعث بنتی ہے اور یہ شر و فساد کے بڑے اسباب میں سے ہے۔

شرم و حیا کا جاتے رہنا: اس عادتِ بد کی وجہ سے رفتہ رفتہ عورت سے شرم و حیا ختم ہوتی جاتی ہے جو ایمان کا جز ار فطرت کا لازمی تقاضا ہے۔ ایک زمانے میں عورت شرم و حیا میں ضرب المثل ہوتی تھی، مثلاً کہا جاتا تھا:

احیا من العذراء فی خدرھا

فلاں تو پردہ نشین دوشیزہ سے بھی زیادہ شرمیلا ہے۔

شرم و حیا کا جاتے رہنا نہ صرف یہ کہ عورت کے لیے دین و ایمان کی غارت گری ہے بلکہ اس فطرت کے خلاف بغاوت بھی ہے جس پر اسے خالق کائنات نے پیدا کیا ہے۔

مَردوں کا فتنے میں مبتلا ہونا: بے پردہ عورت سے مردوں کا فتنے میں پڑنا طبعی امر ہے، خصوصاً جبکہ وہ خوبصورت بھی ہو، نیز ملنساری، خوش گفتاری یا ہنسی مذاق کا مظاہرہ کرے۔ ایسا بہت سی بے پردہ خواتین کے ساتھ ہو چکا ہے۔ جیسا کہ کسی نے کہا ہے:

نظرۃ فسلام فموعد فلقاء

نگاہیں ملیں ، سلام ہوا، بات چیت ہونے لگی، پھر قول و قرار ہوئے اور معاملہ باہم ملاقاتوں تک جا پہنچا۔

شیطان انسانی جسم میں خون کی طرح رواں دواں ہے بار ہا ایسا ہوا ہے کہ باہمی مذاق کے نتیجے میں کوئی مرد کسی عورت پر یا عورت کسی مرد پر فریفتہ ہو گئی جس سے ایسی خرابی پیدا ہوئی کہ اس سے بچاؤ کی کوئی تدبیر نہ بن آئی۔ اللہ تعالیٰ سب کو سلامت رکھے۔

مرد و عورت کا آزادانہ میل جول: چہرے کی بے پردگی سے عورتوں اور مَردوں کا اختلاط عمل میں آتا ہے۔ جب عورت دیکھتی ہے کہ وہ بھی مَردوں کی طرح چہرہ کھول کر بے پردہ گھوم پھر سکتی ہے تو آہستہ آہستہ اسے مَردوں سے کھلم کھلا دھکم پیل کرنے میں بھی شرم و حیا محسوس نہیں ہوتی اور اس طرح کے میل جول میں بہت بڑا فتنہ اور وسیع فساد مضمر ہے۔

ایک دن رسول اللہ ﷺ مسجد سے باہر تشریف لائے۔ آپ نے عورتوں کو مَردوں کے ساتھ راستے میں چلتے ہوئے دیکھا، تو عورتوں سے ارشاد فرمایا:”ایک طرف ہٹ جاؤ۔ راستے کے درمیان چلنا تمہارا حق نہیں ہے۔ ایک طرف ہو کر چلا کرو۔

استاخرن فانہ لیس لکن ان تحققن الطریق علیکن بحافات الطریق

(رواہ ابو داود، الادب، باب فی مشی ،حدیث: 5282)

رسول اکرم ﷺ کے اس فرمان کے بعد خواتین راستے کے ایک طرف ہو کر اس طرح چلتیں کہ بسا اوقات ان کی چادریں دیوار کو چھو رہی ہوتیں ۔ اس حدیث کو ابن کثیر رحمۃ اللہ علیہ نے

قُل لِّلْمُؤْمِنِينَ يَغُضُّوا۟ مِنْ أَبْصٰرِهِمْ

ترجمہ: ایمان والوں سے کہہ دو کہ وہ اپنی نگاہ نیچی رکھا کریں (سورۃ النور، آیت 30) کی تفسیر کرتے ہوئے ذکر کیا ہے۔ شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمۃ اللہ علیہ نے بھی غیر محرم مَردوں سے عورتوں کے پردہ کرنے کے واجب ہونے کی تصریح کی ہے، چنانچہ وہ آیت:

وَلَا يُبْدِينَ زِينَتَهُنَّ إِلَّا مَا ظَهَرَ مِنْهَا       ۖ

ترجمہ: اور اپنی زینت کو ظاہر نہ کریں مگر جو جگہ اس میں سے کھلی رہتی ہے (سورۃ النور، آیت31)

کے تحت فرماتے ہیں کہ نماز میں عورت کا ظاہری زینت کو ظاہر کرنا جائز ہے علاوہ باطنی زینت کے، اور سلف صالحین کا زینت ظاہرہ میں اختلاف ہے۔ حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ اور ان کے موافقین کے نزدیک “زینت ظاہرہ” سے مراد کپڑے ہیں جبکہ حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ اور ان کے موافقین کے نزدیک “زینت ظاہرہ” سے مراد چہرے اور ہاتھ کی چیزیں ہیں جیسے انگوٹھی اور سرمہ وغیرہ۔ ان دو مختلف اقوال کے لحاظ سے اجنبی عورت کی طرف دیکھنے میں فقہاء نے اختلاف کیا ہے۔ ایک قول یہ ہے کہ بغیر شہوت کے اجنبی عورت کے چہرے اور ہاتھوں کو دیکھنا جائز ہے، یہ امام ابو حنیفہ اور امام شافعی رحمۃ اللہ علیھم کا مذہب ہے اور ایک قول کے مطابق امام احمد رحمۃ اللہ علیہ کا بھی۔ دوسرا قول یہ ہے کہ دیکھنا ناجائز ہے یہ امام احمد رحمۃ اللہ علیہ کا (صحیح روایات کے مطابق) مذہب ہے۔ اور امام مالک رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ عورت کا ہر عضو ستر ہے حتی کہ اس کے ناخن بھی۔ اس کے بعد شیخ الاسلام رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں :

حقیقت یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے عورت کی زینت کے دو درجے مقرر کیے ہیں :

(1)زینت ظاہرہ (2) زینت غیر ظاہرہ

زینت ظاہرہ کو عورت اپنے شوہر اور محرم مَردوں کے علاوہ دوسرے لوگوں کے سامنے بھی کھلا رکھ سکتی ہے۔ آیت حجاب نازل ہونے سے پہلے عورتیں چادر اوڑھے بغیر نکلتی تھیں ۔ مَردوں کی نظر ان کے ہاتھ اور چہرے پر پڑتی تھی۔ اس دور میں عورتوں کے لیے جائز تھا کہ چہرہ اور ہاتھ کھلا رکھیں اور مَردوں کے لیے بھی ان کی طرف دیکھنا مباح تھا کیونکہ ان کا کھلا رکھنا جائز تھا۔ پھر جب اللہ تعالیٰ نے آیت حجاب نازل فرمائی جس میں ارشاد فرمایا:

يٰآ أَيُّهَا النَّبِيُّ قُلْ لأزْوَاجِكَ وَبَنَاتِكَ وَنِسَاءِ الْمُؤْمِنِينَ يُدْنِينَ عَلَيْهِنَّ مِنْ جَلابِيبِهِنَّ ذَلِكَ أَدْنَى أَنْ يُعْرَفْنَ فَلا يُؤْذَيْنَ وَكَانَ اللَّهُ غَفُورًا رَحِيمًا

ترجمہ: اے نبی اپنی بیویوں اور بیٹیوں اور مسلمانوں کی عورتوں سے کہہ دو کہ وہ اپنے اوپر اپنی چادریں لٹکا لیا کریں (سورۃ الاحزاب، آیت 59)

تو عورتیں مکمل طور پر پردہ کرنے لگیں ۔ (مجموع الفتاوی : 22/110)

اس کے بعد شیخ الاسلام فرماتے ہیں : :جلباب چادر کا نام ہے۔

حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ اسے ردا (اوڑھنی) اور عام لوگ اسے ازار (تہہ بند)کہتے ہیں ۔ اس سے مراد بڑا تہہ بند ہے جو عورت کے سر سمیت پورے جسم کو ڈھانپ لے۔ جب عورتوں کو چادر اوڑھنے کا حکم اس لیے ہوا کہ وہ پہچانی جا سکیں تو یہ مقصد چہرہ ڈھانپنے یا اس پر نقاب وغیرہ ڈالنے ہی سے حاصل ہو گا، لہذا چہرہ اور ہاتھ اس زینت میں سے ہوں گے جس کے بارے میں عورت کو حکم ہے کہ کہ یہ غیر محرم مَردوں کے سامنے ظاہر نہیں کرنی چاہیے۔ اس طرح ظاہر کپڑوں کے سوا کوئی زینت باقی نہ رہی جس کا دیکھنا غیر محرم مَردوں کے لیے مباح ہو۔

اس تفصیل سے یہ معلوم ہوا کہ حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے آخری حکم ذکر کیا ہے اور حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ نے (نسخ سے) پہلے کا حکم ذکر کیا ہے۔

آخر میں شیخ الاسلام فرماتے ہیں : “نسخ سے پہلے کے حکم کے برعکس اب عورت کے لیے چہرہ، ہاتھ اور پاؤں غیر محرم مَردوں کے سامنے ظاہر کرنا جائز نہیں ہے بلکہ کپڑوں کے سوا کوئی چیز بھی ظاہر نہیں کر سکتی۔ “(مجموع الفتاوی لابن تیمیہ : 22/114)

اسی جز میں صفحہ 117 اور صفحہ 118 پر فرماتے ہیں : عورت کو چہرہ، ہاتھ اور پاؤں صرف غیر محرم مَردوں کے سامنے ظاہر کرنے سے منع کیا گیا ورنہ عورتوں اور محرم مَردوں کے سامنے ان اعضاء کے ظاہر کرنے کی اجازت ہے۔

ایک اور مقام پر فرمایا: اس مسئلہ میں بنیادی بات یہ سمجھ لیجیے کہ شارع کے دو مقاصد ہیں :اول تو یہ کہ مرد و عورت میں امتیاز رہے، دوم یہ کہ عورتیں حجاب میں رہیں ۔ (مجموع الفتاوی لابن تیمیہ: 22/117-118)

’’المنتہی‘‘ میں ہے کہ نامرد، خواجہ سرا اور ہیجڑے کے لیے بھی عورت کی طرف دیکھنا حرام ہے۔ “”الاقناع” میں لکھا ہے ” نامرد ہیجڑے کا عورت کی طرف دیکھنا حرام ہے۔ ” اسی کتاب میں ایک اور مقام پر ہے: “آزاد غیر محرم عورت کی طرف قصداً دیکھنا، نیز اس کے بالوں کو دیکھنا حرام ہے۔ “”الدلیل ” کے متن میں ہے: “دیکھنا آٹھ طرح سے ہوتا ہے۔ پہلی قسم یہ ہے کہ بالغ مرد (خواہ اس کا عضو کٹا ہوا ہو ) آزاد غیر محرم عورت کی طرف بلا ضرورت دیکھے۔ اس صورت میں عورت کے کسی بھی عضو کو بلا شرعی ضرورت کے دیکھنا حرام ہے حتی کہ اس کے (سر پر لگے) مصنوعی بالوں کی طرف نگاہ کرنا بھی جائز نہیں ہے۔ ” شافعی فقہاء کا موقف یہ ہے کہ بالغ آدمی کی نگاہ بطریق شہوت ہو یا اس کے بہک جانے کا اندیشہ ہو تو بلا اختلاف قطعی طور پر حرام ہے۔ اگر بطریق شہوت نہ ہو اور فتنے کا اندیشہ بھی نہ ہو تو ان کے ہاں دو قول ہیں ۔ مولف “شرح الاقناع” نے انہیں نقل کرنے کے بعد کہا ہے : :صحیح بات یہ ہے کہ اس قسم کی نگاہ بھی حرام ہے جیسا کہ فقہ شافعی کی مشہور کتاب “منہاج” میں ہے۔ ” اس کی یہ توجیہ بیان کی ہے کہ عورتوں کا بے پردہ کھلے چہرے کے ساتھ باہر نکلنا تمام اہل اسلام کے نزدیک بالاتفاق ممنوع ہے، نیز یہ کہ نگاہ فتنے کا مقام اور شہوت کی محرک ہے۔

اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:

قُل لِّلْمُؤْمِنِينَ يَغُضُّوا۟ مِنْ أَبْصٰرِهِمْ

ترجمہ: مومنوں سے کہہ دو کہ نگاہ نیچی رکھا کریں (سورۃ النور، آیت 31)

احکام شریعت میں ملحوظ حکمتوں کے شایان شان امر یہی ہے کہ فتنے کی طرف کھلنے والا دروازہ بند کیا جائے اور حالات کے تفاوت کو بہانہ بنانے سے گریز کیا جائے۔

نیل الاوطار شرح منتقی الاخبار میں ہے: عورتوں کا بے پردہ کھلے چہرے کے ساتھ باہر نکلنا بالخصوص اس زمانے میں جہاں بدقماش لوگوں کی کثرت ہو، بالاتفاق اہل اسلام حرام ہے۔

چہرے کے پردے کو واجب نہ سمجھنے والوں کے دلائل اور ان کا جواب:

جہاں تک مجھے علم ہے، غیر محرم عورتوں کے چہرے اور ہاتھوں کی طرف دیکھنے کو جائز قرار دینے والوں کے پاس کتاب و سنت سے صرف مندرجہ ذیل دلائل ہیں :

(1) فرمان باری تعالیٰ ہے:

وَلَا يُبْدِينَ زِينَتَهُنَّ إِلَّا مَا ظَهَرَ مِنْهَا       ۖ

ترجمہ: “اور اپنی زینت ظاہر نہ کریں مگر جو اس میں سے ظاہر ہو”(سورۃ النور، آیت 31)

کیونکہ حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ کا قول ہے کہ إِلَّا مَا ظَهَرَ مِنْهَا     ۖ   سے مراد عورت کا چہرہ، اس کے ہاتھ کی انگوٹھی ہے۔ یہ قول امام اعمش نے سعید بن جبیر کے واسطے سے حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت کیا ہے۔ اور جیسا کہ پہلے بیان کیا جا چکا ہے کہ صحابی کی تفسیر حجت ہے۔

(2) ام المومنین حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ اسماء بنت ابی بکر رضی اللہ عنہا باریک کپڑے پہنے ہوئے رسول اللہ ﷺ کے پاس آئیں تو آپ (ﷺ) نے چہرہ مبارک دوسری طرف پھیر لیا، نیز چہرے اور ہاتھوں کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا:

یااسماء ! ان المراۃ اذا بلغت المحیض لم یصلح لھا ان یری منھا الا ھذا وھذا، واشار الی وجھہ وکفیہ

اے اسماء! جب عورت بالغ ہو جائے تو جائز نہیں کہ اس کے چہرے اور ہاتھوں کے سوا کچھ نظر آئے۔

(سنن ابی داود، اللباس، باب فیما تبدی المراۃ من زینتھا، حدیث : 4104)

(3)حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، وہ فرماتے ہیں :

(حجۃ الوداع میں ان کے بھائی) فضل بن عباس رضی اللہ عنہ نبی اکرم ﷺ کے پیچھے سواری پر بیٹھے تھے کہ اسی دوران میں خثعم قبیلے کی ایک عورت آئی۔ فضل بن عباس رضی اللہ عنہ اس کی طرف اور وہ فضل کی طرف دیکھنے لگی تو رسول اللہ ﷺ نے فضل بن عباس رضی اللہ عنہ کا چہرہ دوسری جانب کر دیا۔ “

ان حضرات کی رائے میں یہ اس امر کی دلیل ہے کہ وہ عورت اپنا چہرہ کھلا رکھے ہوئے تھی۔

(4)حضرت جابر رضی اللہ عنہ نبی اکرم ﷺ کے نماز عید پڑھانے کے بارے میں بیان کرتے ہیں کہ رسول اکرم ﷺ نے نماز پڑھانے کے بعد لوگوں سے خطاب فرمایا اور وعظ و نصیحت کی، پھر چل کر عورتوں کے قریب تشریف لے گئے۔ ان سے بھی خطاب کیا اور وعظ و نصیحت کرتے ہوئے فرمایا:

(اے عورتوں کی جماعت! صدقہ کیا کرو کیونکہ جہنم کا زیادہ تر ایندھن تم (عورتیں ) ہی ہو۔ اس پر ایک کم درجے کی عورت جس کے رخسار سیاہی مائل تھے، نے کہا۔۔ )

(مسند احمد: 3/318، وسنن النسائی، صلاۃ العیدین، باب قیام۔۔۔، حدیث :1576)

اگر اس عورت کا چہرہ کھلا نہ ہوتا تو حضرت جابر رضی اللہ عنہ کو پتہ نہ چلتا کہ اس عورت کے رخسار سیاہی مائل ہیں ۔

میری دانست میں یہی وہ دلائل ہیں جن سے غیر محرم مَردوں کے سامنے چہرہ کھلا رکھنے کے جواز پر استدلال کیا جا سکتا ہے۔

مذکورہ بالا دلائل کا جواب

یہ دلائل اس درجے کے نہیں ہیں کہ ان کے پیش نظر گزشتہ صفحات میں مذکور دلائل سے صرف نظر کیا جا سکے جو چہرے کے پردہ کے واجب ہونے پر واضح دلالت کرتے ہیں ۔ پردے کے وجوب کے دلائل درج ذیل وجوہ کی بنا پر راجح ہیں ۔

جن دلائل میں چہرہ ڈھانپنے کا ذکر ہے ان میں ایک مستقل اور نیا حکم ہے۔ چہرہ کھلا رکھنے کے جواز کے دلائل اپنے اندر کوئی حکم نہیں رکھتے (کیونکہ یہ تو پردے کے احکام نازل ہونے سے پہلے کا عام معمول تھا۔ ) علمائے اصول کے ہاں یہ ضابطہ مشہور و معروف ہے کہ عام حالت کے خلاف کوئی دلیل ہو تو اسے ترجیح دی جاتی ہے کیونکہ عام حالت کے خلاف جب تک دلیل نہ ملے (اس پر کوئی حکم نہیں لگایا جاتا)اسے برقرار رکھا جاتا ہے اور جب نئے حکم کی کوئی دلیل مل جائےتو اصل اور پہلی حالت کو برقرار رکھنے کے بجائے نئے حکم کے ذریعے سے اس میں تبدیلی کر دی جاتی ہے۔ اسی لیے ہم کہتے ہیں کہ جو شخص نئے حکم (چہرہ ڈھانپنے ) کی دلیل دیتا ہے اس کے پاس ایک نئی چیز کا علم ہے، وہ یہ کہ پہلی اور عمومی حالت بدل چکی ہے اور چہرہ ڈھانپنا فرض ہو گیا ہے۔ جب کہ دوسرے فریق کےکو ئی دلائل نہیں مل سکے، لہٰذا مثبت کو نافی پر اس کے زائد علم کی وجہ سے ترجیح حاصل ہوگی۔

یہ ان حضرات کے پیش کردہ دلائل کا اجمالی جواب ہے۔ بالفرض اگر تسلیم کر لیا جائے کہ فریقین کے دلائل ثبوت اور دلالت کے اعتبار سے برابر ہیں ، پھر بھی اس مسلمہ اصولی قاعدے کے پیش نظر چہرہ ڈھانپنے کی فرضیت کے دلائل مقدم ہوں گے۔

*جب ہم چہرہ کھلا رکھنے کے جواز کے دلائل پر غور کرتے ہیں تو یہ حقیقت ثابت ہوتی ہے کہ یہ دلائل چہرہ کھلا رکھنے کی ممانعت کے دلائل کے ہم پلہ نہیں ہیں جیسا کہ آئندہ صفحات میں ہر ایک دلیل کے الگ الگ جواب سے واضح ہو گا۔

سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ سے مروی تفسیر کے تین جواب ہیں :

ہو سکتا ہے کہ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ نے پردے کی آیت نازل ہونے سے پہلے کی حالت ذکر کی ہو جیسا کہ شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمۃ اللہ علیہ کے کلام میں ابھی گزرا ہے۔

یہ بھی ہو سکتا ہے کہ ان کا مقصد اس زینت کا بیان ہو جس کا ظاہر کرنا منع ہے جیسا کہ حافظ ابن کثیر رحمۃ اللہ علیہ نے ذکر کیا ہے۔ ان دونوں باتوں کی تائید حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ سے اس آیت:

يٰٓأَيُّهَا ٱلنَّبِىُّ قُل لِّأَزْوٰجِكَ وَبَنَاتِكَ وَنِسَآءِ ٱلْمُؤْمِنِينَ يُدْنِينَ عَلَيْهِنَّ مِن جَلٰبِيبِهِنَّ ۚ

ترجمہ: اے نبی اپنی بیویوں اور بیٹیوں اور مسلمانوں کی عورتوں سے کہہ دو کہ وہ اپنے اوپر اپنی چادریں لٹکا لیا کریں (سورۃ الاحزاب، آیت 59)

کے متعلق منقول تفسیر سے ہوتی ہے، چنانچہ گزشتہ صفحات میں قرآن حکیم کی آیات سے پردے کے دلائل کے ضمن میں اس کا ذکر گزر چکا ہے۔ اگر ہم مذکورہ بالا دونوں احتمالات تسلیم نہ کریں تو تیسرا جواب یہ ہے کہ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ کی تفسیر صرف اس وقت حجت ہو سکتی ہے جب کسی دوسرے صحابی کا قول اس کے مقابل نہ ہو۔ بصورت دیگر اس قول پر عمل کیا جائے گا جسے دوسرے دلائل کی بدولت ترجیح حاصل ہو۔

حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ کی تفسیر کے بالمقابل حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کا قول ہے جس میں انہوں نے سوائے اس زینت کے جو از خود ظاہر ہوجائےکی تفسیر چادر اور دوسرے ایسے کپڑوں وغیرہ سے کی ہے جو بہرحال ظاہر ہوتے ہیں اور ان کے ڈھانپنے کی کوئی صورت نہیں ہے۔ (تفسیر ابن کثیر، تفسیر سورۃ النور آیت :31)

اس صورت میں ضروری ہے کہ ان دونوں اصحاب رضی اللہ عنھما کی تفسیر میں سے ایک کو دلائل کی رو سے ترجیح دی جائے اور جو قول راجح قرار پائے، اس پر عمل کیا جائے۔

*حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی حدیث دو وجوہ کی بنا پر ضعیف ہے:

1خالد بن دریک نے جس راوی کے واسطے سے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت بیان کی ہے، اس کا ذکر نہیں کیا ہے، لہذا اس کی سند منقطع ہے جیسا کہ خود امام ابو داود نے اس کی نشاندہی کی ہے۔ وہ فرماتے ہیں کہ “خالد بن دریک نے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے براہ راست نہیں سنا۔ “اس حدیث کے ضعیف ہونے کی یہی وجہ ابو حاتم رازی نے بھی بیان کی ہے۔

2اس حدیث کی سند میں سعید بن بشیر البصری نزیل دمشق نامی راوی ہے۔ ابن مدی نے اسے ناقابل اعتماد سمجھ کر ترک کیا۔ امام احمد، ابن معین، ابن مدینی نسائی رحمۃ اللہ علیھم جیسے اساطین علم حدیث نے اسے ضعیف قرار دیا ہے۔ لہذا یہ حدیث ضعیف ہے اور متذکرہ صدر صحیح احادیث کا مقابلہ نہیں کر سکتی۔

علاوہ ازیں حضرت اسماء بنت ابی بکر رضی اللہ عنہ کی عمر ہجرت کے وقت ستائیس سال تھی۔ یہ نا ممکن ہے کہ اس بڑی عمر میں وہ نبی ﷺ کے سامنے ایسے کپڑے پہن کر جائیں جن سے ان کے ہاتھوں اور چہرے کے علاوہ بدن کے اوصاف ظاہر ہو رہے ہوں ۔ بالفرض اگر حدیث صحیح بھی ہو تو کہا جا سکتا ہے کہ یہ واقعہ پردے کا حکم نازل ہونے سے پہلے کا ہے اور پردہ واجب کرنے والی نصوص نے اس حکم کو بدل دیا ہے، لہذا وہ ان پر مقدم ہوں گی۔ واللہ اعلم۔

*حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ کی روایت کردہ حدیث سے استدلال کا جواب یہ ہے کہ اس میں غیر محرم عورت کے چہرے کی طرف دیکھنے کے جواز کی کوئی دلیل نہیں ہے کیونکہ نبی ﷺ نے حضرت فضل بن عباس رضی اللہ عنہ کے اس فعل پر سکوت نہیں فرمایا بلکہ اس کا چہرہ دوسری جانب پھیر دیا، اسی لیے امام نووی رحمۃ اللہ علیہ نے صحیح مسلم کی شرح میں ذکر کیا ہے کہ اس حدیث سے ثابت ہونے والے مسائل میں سے یہ بھی ہے کہ “غیر محرم عورت کی طرف دیکھنا حرام ہے۔ “

حافظ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ نے فتح الباری میں اس حدیث کے فوائد میں یہ بھی ذکر کیا ہے: “اس سے یہ بھی معلوم ہوا کہ غیر محرم عورتوں کی طرف دیکھنا شرعاً ممنوع اور نگاہ نیچی کرنا واجب ہے۔ “قاضی عیاض رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں : “بعض کا خیال ہے کہ نظر نیچی رکھنا صرف اس صورت میں واجب ہے کہ جب فتنے کا اندیشہ ہو۔ (اس لیے کہ آپ ﷺ نے فضل بن عباس رضی اللہ عنہ کو منع نہیں کیا) لیکن میرے نزدیک نبی ﷺ کا یہ عمل، بعض روایات کے مطابق، کہ آپ (ﷺ) نے فضل کا چہرہ ڈھانپ دیا، زبانی منع کرنے سے کہیں زیادہ تاکید کا حامل ہے۔

اگر کوئی یہ کہے کہ آپ ﷺ نے اس عورت کو پردہ کرنے کا حکم کیوں نہیں دیا، تو اس کا جواب یہ ہے کہ وہ حالت احرام میں تھی اور احرام میں عورت کے بارے میں شرعی حکم یہی ہے کہ جب غیر محرموں میں سے کوئی اسے نہ دیکھ رہا ہو تو چہرہ کھلا رکھے۔ یہ بھی امکان ہے کہ نبی ﷺ نے بعد میں اسے یہ حکم بھی دیا ہو۔ کیونکہ راوی کا اس بات کا ذکر نہ کرنا اس امر کی دلیل نہیں ہے کہ آپ (ﷺ) نے اس عورت کو چہرہ ڈھانپنے کا حکم نہیں دیا۔ کسی بات کے نقل نہ ہونے کا مطلب یہ نہیں ہوتا کہ وہ بات سرے سے ہوئی ہی نہیں ۔

حضرت جریر بن عبداللہ البجلی رضی اللہ عنہ نے رسول اللہ ﷺ سے اچانک نظر پڑ جانے کے متعلق عرض کیا تو آپ (ﷺ) نے ارشاد فرمایا: “اصرف بصرک”(صحیح مسلم، الآداب و سنن ابی داود، النکاح) “اپنی نگاہ دوسری طرف پھیر لو۔ “

*رہی حضرت جابر رضی اللہ عنہ کی حدیث، تو اس میں یہ تصریح نہیں ہے کہ یہ کس سال کا واقعہ ہے۔ یا تو وہ خاتون بوڑھی عورتوں میں سے ہو گی جنہیں نکاح سے کوئی سروکار نہیں ہوتا، تو ایسی خواتین کے لیے چہرہ کھلا رکھنے کی اجازت ہے اس سے دوسری عورتوں پر حجاب کا وجوب ختم نہیں ہو سکتا۔ یا پھر یہ واقعہ آیت حجاب کے نزول سے پہلے کا ہے کیونکہ سورۃ الاحزاب (جس میں پردے کے احکام ہیں ) 5 ہجری یا 6 ہجری میں نازل ہوئی اور نماز عید 2 ہجری سے مشروع چلی آتی ہے۔

واضح رہے کہ اس مسئلہ میں تفصیل کے ساتھ کلام کرنے کی وجہ یہ ہے کہ اس اہم معاشرتی مسئلے میں عام لوگوں کے لیے شرعی حکم کا جاننا ضروری ہے اور بہت سے ایسے لوگ اس پر قلم اٹھا چکے ہیں جو بے پردگی کو رواج دینا چاہتے ہیں ۔ ان لوگوں نے اس مسئلے میں کماحقہٗ تحقیق کی نہ غور و فکر سے کام لیا، حالانکہ اہل تحقیق کی ذمہ داری ہے کہ عدل کے تقاضوں کو ملحوظ رکھیں اور ضروری معلومات حاصل کیے بغیر ایسے مسائل میں گفتگو کرنے سے اجتناب کریں ۔

محقق کا فرض ہے کہ مختلف دلائل کے درمیان منصف جج کی طرح عدل و انصاف کے ساتھ غیر جانبدارانہ جائزہ لے اور حق کے مطابق فیصلہ کرے۔ کسی ایک جانب کی دلیل کے بغیر راجح قرار نہ دے بلکہ تمام زاویوں سے غور کرے۔ ایسا نہ ہو کہ وہ ایک نظریہ رکھتا ہو اور مبالغہ سے کام لے کر اس کے دلائل کو محکم اور مخالف کے دلائل کو بلاوجہ کمزور اور ناقابل توجہ قرار دے۔ اسی لیے علماء نے کہا ہے کہ اعتقاد رکھنے سے پہلے اس کے دلائل کا بغور جائزہ لینا چاہیے تاکہ اس کا عقیدہ دلیل کے تابع ہو نہ کہ دلیل اس کے عقیدے کے تابع، یعنی دلائل کا جائزہ لینے کے بعد عقیدہ بنائے نہ کہ عقیدہ قائم کر کے دلائل کی تلاش میں نکل کھڑا ہو۔ کیونکہ جو شخص دلائل دیکھنے سے پہلے عقیدہ بنا لیتا ہے وہ اپنے عقیدے کے مخالف دلائل کو عموماً رد کرتا ہے۔ اگر ایسا ممکن نہ ہو تو ان کی تحریفات کا مرتکب ہوتا ہے۔

عقیدہ قائم کر لینے کے بعد دلائل کی تلاش کے نقصانات ہمارے بلکہ سب کے مشاہدے میں ہیں کہ ایسا کرنے والا کس طرح ضعیف احادیث کو بتکلف صحیح قرار دیتا ہے یا نصوص سے ایسے معانی کشید کرنے کی سعی میں مصروف نظر آتا ہے جو اس میں پائے نہیں جاتے، لیکن صرف اپنی بات کو ثابت و مدلل کرنے کے لیے یہ سب کچھ اسے کرنا پڑتا ہے۔

مثلاً راقم نے ایک صاحب کا رسالہ “پردے کے عدم وجوب” کے موضوع پر پڑھا۔ اس میں حضرت عائشہ رضی اللہ عنہ کی حدیث جو سنن ابی داود میں ہے جس میں ہے کہ حضرت اسماء رضی اللہ عنہا کا باریک کپڑوں میں رسول اللہ ﷺ کے پاس آنا اور آپ ﷺ کا فرمانا کہ “جب عورت سن بلوغت کو پہنچ جائے تو ان اعضاء کے سوا کچھ نظر نہیں آنا چاہیے اور ہاتھوں اور چہرے کی طرف اشارہ کیا۔ ” یہ حدیث ذکر کرنے کے بعد مقالہ نگار نے لکھا ہے کہ یہ حدیث متفق علیہ ہے، یعنی امام بخاری اور امام مسلم رحمۃ اللہ علیھم اس کے صحیح ہونے پر متفق ہیں ، حالانکہ ایسا نہیں ہے۔ امام بخاری اور امام مسلم کا اتفاق کہاں ؟ خود اسے روایت کرنے والے امام ابو داود نے اسے مرسل ہونے کے سبب معطل قرار دیا ہے اور اس کی سند میں ایک ایسا راوی ہے جسے امام احمد اور دوسرے ائمہ حدیث نے ضعیف قرار دیا ہے۔

اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ ہمیں حق کو حق سمجھنے اور اس کی پیروی کرنے کی توفیق عطا فرمائے، نیز باطل کو باطل سمجھنے اور اس سے مکمل طور پر اجتناب کی ہمت دے اور اپنی سیدھی راہ کی طرف ہدایت دے کہ وہی بخشنے والا مہربان ہے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے