ارشاد باری تعالیٰ ہے:

{وَاعْتَصِمُوْا بِحَبْلِ اللّٰہِ جَمِیْعاً وَّلاَ تَفَرَّقُوْا}(آل عمران)

’’اللہ کی رسی کو مضبوطی سے تھامے رکھو اور تفرقوں میں مت پڑو۔‘‘

{اِنَّمَا الْمُؤْمِنُوْنَ اِخْوَۃٌ}

بیشک مسلمان آپس میں بھائی بھائی ہیں۔‘‘

رسول عربی   کا فرمان ہے :

عن أبی ھریرۃ رضی اللہ عنہ قال قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم : المسلم أخو المسلم لا یظلمہ ولا یخذلہ ولا یحقرہ التقوی ھھنا ویشیر الی صدرہ ثلاث مرار بحسب امرئٍ من الشر أن یحقر أخاہ المسلم کل المسلم علی المسلم حرام دمہ ومالہ وعرضہ ۔ (رواہ مسلم )

سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ e نے ارشاد فرمایا: مسلمان، مسلمان کا بھائی ہے، نہ وہ اس پر ظلم کرتاہے اورنہ بے مددگار چھوڑتاہے نہ اس کو بے یار اورنہ ہی اس کو حقیر سمجھتاہے۔ (تین بار اپنے سینہ مبارک کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایاتقویٰ یہاں ہے ) انسان کے شر کے لئے اتنا ہی کافی ہے کہ وہ مسلمان بھائی کو حقیر سمجھے ، ہر مسلمان کا خون ، مال اور عزت دیگر مسلمانوں پر حرام ہے۔

قارئین کرام!ہم بے راہ ہورہے ہیں کیونکہ ہم سب نے مل کر ایک نئے مرض کو جنم دیا ہے۔ ایک نئے فتنے کو ہوا دی ہے ایک نئی وبا پھیلی ہے اس وبا کا زہر مسلمانوں کی رگوں میں خون کی طرح گردش کررہا ہے۔ فرقہ واریت، قوم پرستی اورعصبیت مسلمانوں میں کوٹ کوٹ کر بھری جا چکی ہے۔ اس عصبیت نے مسلمانوں کی حالت تباہ کردی عزیز ذلیل ہوگئے ہیں، شریف خاک میں مل گئے ہیں علم کا خاتمہ ہو چکاہے دین کا صرف نام باقی ہے جس دین نے ہمیں سکھایا کہ{اِنَّمَا الْمُؤْمِنُوْنَ اِخْوَۃٌ} بیشک مسلمان آپس میں بھائی بھائی ہیں۔‘‘لیکن ہم نے أپنے دین کو پس پشت ڈالا اور اپنے اس غلیظ مرض کو مقدم کیا جس کو دیکھ کر شاعر مشرق نے کیا خوب کہا :

نسل اگر مسلم کی مذہب پر مقدم ہوگئی

اڑ گیا دنیا سے تو مانند خاک رہگزر

اسی عصبیت کی وجہ سے مسلمانوں کے اخلاق بالکل بگڑ گئے ہیں اور بگڑتے جاتے ہیں افلاس کی گھر گھر پکار اورپیٹ کی چاروں طرف دھائی ہے۔ تعصب کی گھنگھور گھٹا تمام قوم پر چھائی ہوئی ہے ۔ رسم ورواج کی بیڑی ایک ایک کے پاؤں میں پڑی ہے اور جہالت اور تقلید سب کی گردن پر سوار ۔ امراء جو قوم کو بہت کچھ فائدہ پہنچا سکتے تھے غافل اور بے پروا ہیں جن کو قوم کی اصلاح میں بہت بڑا دخل ہے۔ زمانے کی ضرورتوں اور مصلحتوں سے ناواقف ہیں۔ آج ہم مسلمان دوسرے مسلمان سے غافل ہیں۔ آپس کی لڑائیوں میں مبتلا ہیں باہمی چپلقش کو خود بڑھا رہے ہیں ہر طرف جنگ وجدل کا سماں بپاہے۔

بقول شاعر:

جو تفرقے اقوام کے آیا تھا مٹانے

اس دین میں خود تفرقہ اب آکے پڑاہے

جس دین نے غیروں کے تھے دل آ کے ملائے

اس دین میں خود بھائی سے بھائی جدا ہے

جو دین کہ ہمدرد بنی نوع بشر تھا

اب جنگ وجدل چار طرف اس میں بپاہے

یہ عصبیت ہمارے دلوں میں گھرکر چکی ہے۔ آج اگر ہمارے پڑوس میں کوئی تکلیف میں مبتلا ہوتاہے تو ہم اس عصبیت کی بنا پر اس کی تیمارداری کو نہیں جاتے عصبیت کا گندا مادہ ہماری رگوں میں خون کی طرح گردش کر رہا ہے ہمارے دلوں پر قفل لگ چکے ہیں ۔ افسردگی ہے یاس ہے غرضیکہ تمام فضا پر کامل سکوت اور بے حسی چھا رہی ہے۔ سب پر مردنی چھائی ہوئی ہے زندہ دلی کے آثار ناپید ہیں ۔

ارے او مسلمان! تو جس نبی کا امتی ہے اس کی زبان مبارک سے تو یہ کلمات ادا ہوئے کہ’’ مسلمان تو ایک جسم کی مانند ہے اگر جسم کے کسی حصے میں تکلیف ہوتی ہے تو سارا جسم اس تکلیف کو محسوس کرتاہے‘‘ مگر تیرے پاؤں فرقہ واریت، قوم پرستی کی بیڑی میں کیوں جکڑ ے گئے تو کن ناپید آفات میں مبتلا ہوچکاہے ؟ ہمارے نبی معظم eنے تو ہمیں یہ سب نہیں سکھایا تھا۔

یادکرو اس وقت کو جب مدینہ میں مساوات کی فضا قائم ہوئی تھی جب اخوت اوربھائی چارے کا درس دیاگیا تھا۔ جب انصار ومہاجرین کو آپس میں بھائی بنایا گیا تھا۔

آج کے مسلمان ! ان کی محبت کی طرف نظر ثانی توکر، ایک مرتبہ پلٹ کر اپنے اسلاف کی حیات طیبہ کا بغور مشاہدہ تو کر شاید کہ تیری عقل سے، تیرے دل ودماغ سے عصبیت کا غلاف اتر جائے اور تو حقیقت کو جان سکے۔ صحابہ کرام yنے تو عصبیت کی جڑیں اکھاڑ ڈالی تھیں ، اس بیج کو انہوں نے اپنے دلوں میں نہیں بویا بلکہ اس کو نکال باہر کیا انہوں نے تو زبان مبارک سے یہ پاکیزہ کلمات سنے تھے ’’المسلم أخو المسلم‘‘ مسلمان ، مسلمان کا بھائی ہے‘‘ ۔ مگرہم نے سب کچھ پڑھ کر بھی گنوا دیا اگرہمارا یہی حال رہا تو یاد رکھنا ایک دن ہمارا نام ونشان تک صفحۂ ہستی سے مٹ جائے گا ۔

ہمیں اس طلسم کو توڑنا ہوگا جس کے فسوں نے ساری قوم کو مردہ بنا رکھا ہے ہمیں چاہیے کہ پھر سے عہد نبوی کے شاندار شب وروز اجاگر کریں۔   اسلامی سوسائٹی ان پرانی روایات پر پھر سے کیسے قائم کی جاسکتی ہے۔ ’’تاریخ قوم کے لئے وہی کام دیتی ہے ، جو حافظہ فرد کیلئے‘‘ مسلمانوں کی تمام حیات ماضی ان کے تمام محسوسات ومزعومات، عزائم اور کامیابیاں اس دن سے ہیںجب ان میں قومی ومذہبی زندگی کا احساس پیدا ہوا۔ اوراق تاریخ میں غیر فانی طور پر محفوظ ہیں اور تاریخ کو اپنے آپ کو دہرانا چاہیے ، زندگی کو سادہ بناؤ اس میں جھوٹے تصنع، فرقہ وارانہ خیالات ، غیر مخلصانہ اور خود غرضانہ خواہشات کا گزر نہ ہو۔

اخلاقی ، دماغی اور سیاسی بزدلی جو آج اسلام کی انفرادی حیثیت کی جڑیں کاٹ رہی ہے اسے دور کرو۔ اس عصبیت نے فاتح سندھ کو میدان جہاد سے اٹھا کر سلاخوں کے پیچھے دھکیل دیا۔ تاریخ شاہد ہے اس عصبیت نے مسلمانوں کو کس قدر مغلوب کرکے رکھ دیا۔ مسلمانوں کے زوال کی وجوہات ان کے اپنے مسلم بھائی ہی تھے۔

تیری رگوں میں وہ خون باقی نہیں ہے

وہ دل وہ آرزو باقی نہیں ہے

نماز و روزہ قربانی و حج

یہ سب باقی ہیں تو باقی نہیں ہے

اس غلیظ وبا کی پھوٹ اعداء المسلمین نے مسلمانوں میں جھونکی۔ انہوں نے مسلمانوں پر تسلط حاصل کرنے کے لئے ان کے اخلاق، ان کے مذہب، ان کی معاشرتی روایات، ان کے ادب اور ان کے اموال پردست تطاول دراز کئے۔ پھر ان میں تفرقہ ڈال کر ان کو خوں ریزی اور برادر کشی میں مصروف کردیا تاکہ وہ انسانیت اور اپنے مسلمان ہونے سے غافل رہیں۔ اور استعمار کی جونک چپ چاپ ان کاخون پیتی رہے شاعر مشرق نے کیا خوب کہا ہے ۔

اپنوںسے بیر رکھنا تو نے بتوں سے سیکھا

جنگ وجدل سکھایا واعظ کو بھی خدا نے

تنگ آکے میں نے آخر دیر وحرم کو چھوڑا

واعظ کا واعظ چھوڑا، چھوڑے تیرے فسانے

اقبال وطنیت کے نہ خود قائل تھے بلکہ اوروں کو بھی اس کی تعلیم دیتے تھے لیکن بعد میں ہندوستانیوں کی تاریک ذہنیت ، تباہ کن فرقہ وارانہ تعصبات فسادات اور اتحاد قومی واحساس یگانگت کے فقدان کی وجہ سے ان سے مایوس ہوجاتے ہیں اور اس مایوسی کی صراحت ان کے اپنے ایک شعر سے ہوتی ہے۔

بخاک ہند توائے حیات بے اثراست

کہ مردہ زندہ نگرددیہ نغمۂ داؤد

اسرارِ خودی اور رموزِ بے خودی کا مقصد اتحاد بین المسلمین کی تاسیس اور استواری ہے ۔

علامہ اقبال نے کہا:

رُلاتا ہے ترا نظارہ اے ہندوستان مجھ کو

کہ عبرت خیز ہے تیرا افسانہ سب افسانوں سے

شجر ہے فرقہ آرائی تعصب ہے ثمر اس کا

یہ وہ پھل ہے کہ جنت سے نکلواتا ہے آدم کو

دور حاضر کو علوم عصریہ عقلیہ اور سائنس کی عدیم المثال ترقی پر بڑا فخر ہے اور یہ فخر وناز یقینا حق بجانب ہے۔ آج زمان ومکان کی پہنائیاں سمٹ رہی ہیں اور انسان نے فطرت کے اسرار کی نقاب کشائی اور تسخیر میں حیرت انگیز کامیابی حاصل کی ہے لیکن اس تمام ترقی کے باوجود اس زمانے میں ملوکیت کے جبر واستبداد نے جمہوریت، قومیت، اشتراکیت، فسطائیت وعصبیت اور نہ جانے کیا کیا نقاب اوڑھ رکھے ہیں اور ان نقابوں کی آڑ میں دنیا بھر میں قدر حریت اور شرف انسانیت کی ایسی مٹی پلید ہورہی ہے کہ تاریخ عالم کا کوئی تاریک سے تاریک صفحہ بھی ایسی مثال پیش نہیںکرسکتا۔ جب تک اس نام نہاد جمہوریت ،اس ناپاک قوم پرستی اور اس ذلیل ملوکیت کی لعنتوں کو پاش پاش نہ کردیا جائے اورجب تک ہم اپنے عمل کے اعتبار سے الخلق عیال اللہ کے اصول نہ اپنالیں جب تک جغرافی وطن پرستی اور رنگ ونسل کے امتیازات کو نہ مٹایا جائے گا اس وقت تک مسلمان اس دنیا میں فلاح وسعادت کی زندگی بسر نہ کرسکیں گے اور اخوت وحریت اور مساوات کے شاندار الفاظ شرمندہ معنی وتعبیر نہ ہوں گے۔ اسلامی تہذیب کی ہمارے نزدیک سب سے بڑی خصوصیت یہی ہونی چاہیے کہ ہم نسل ورنگ کے ظاہری امتیازات سے ہمیشہ بالاترر ہیں۔

فطرت نے مجھے بخشے ہیں جوہر ملکوتی

خاکی ہوں مگر خاک سے رکھتا نہیں پیوند

درویش خدامست نہ شرقی ہے نہ غربی

گھر میرا نہ دلی نہ صفاہاں نہ سمرقند

ہم جہاں بھی ہوں دنیا کے کسی خطے میں بھی ہوں ہمیں مسلمان ہونے پر فخر ہونا چاہیے نہ کہ اپنی قومیت پر جس سے انتشار پھیلے۔اور انسانیت کا دم گھٹے۔ مسلمانوں کی جڑیں کھوکھلی ہوں۔ اعداء المسلمین کو اپنی مکاری کا موقع ملے اور یہ سب چیزیں مسلمانوں کو زیب نہیں دیتیں۔ اور یہ ظلم ہے ۔

نبی کریم نے فرمایا :

’’الظلم ظلمات یوم القیامۃ‘‘

ظلم قیامت کے روز ظالم کے لئے اندھیرا بن جائے گا۔‘‘

ہمیں اس طلسم کو توڑنا ہوگا جس کے فسوں نے ساری قوم کو مردہ بنا رکھاہے۔ ہمیں اس عصبیت کی زنجیر کو توڑنا ہوگا ورنہ ہم سب ایک ہی ناؤ میں سوار ہیں اور ساری ناؤ کی سلامتی میں ہماری سلامتی ہے۔

تڑپنے پھڑکنے کی توفیق دے

دل مرتضیٰ سوزِ صدیق دے

جگر سے وہی تیر پھر پار کر

تمنا کو سینوں میں بیدار کر

اللہ ہمیں اور ہر مسلمان کو اس لعنت سے دور رہنے کی توفیق دے ۔ آمین

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے