وہ انقلاب جو رسول اللہe لائے، اس کی ابھری ہوئی خصوصیات کیا ہیں؟ اس روئے زمین پر جو انقلابات برپا ہوئے، ان کے تقابلی مطالعہ سے یہ حقیقت واضح ہو جاتی ہے کہ ان میں سے بعض انقلاب محض سیاسی تھے، بعض اقتصادی تھے، بعض ثقافتی تھے، مگر وہ انقلاب جو رسول اللہe نے اس روئے زمین پر برپا کیا، وہ اخلاقی بھی تھا، روحانی بھی تھا، ثقافتی بھی تھا، سیاسی اور اقتصادی بھی تھا۔ طبعیاتی (PHYSICAL) بھی تھا، مابعد الطبیعاتی (META PHYSICAL) بھی تھا۔ لینن اور مائو کا انقلاب محض اقتصادی اور سیاسی تھا، اخلاقی اور روحانی نہ تھا۔ لینن اور مائوجدلیاتی مادیت (DISLECTICAL MATERIALISM) کے قائل ہونے کی وجہ سے مابعد الطبیعات کے سرے سے منکر ہیں۔ پس لینن اور مائو کے برپا کیے ہوے انقلاب بھی ناقص اور ادھوے ہیں۔ مختلف انقلابوں کے تقابلی مطالعہ سے یہ بات مجھ پر منکشف ہوئی کہ رسول اللہe کے انقلاب سے زیادہ جامع، ہمہ گیر اور بھر پور انقلاب اس روئے زمین پر آج تک برپا نہیں ہوا۔

محمدی انقلاب ابتدائی مرحلوں میں

یہ کہنا حقائق کی سراسر تکذیب ہے کہ رسول اللہe جو انقلاب لائے،وہ ابتدائی مرحلوں میں صرف اخلاقی اور روحانی انقلاب تھا اور معاشی مسائل پر توجہ بہت بعد میں منعطف کی گئی۔ اگر ابتدائی مکی سورتوں کا غور سے مطالعہ کیاجائے تو بات بالکل واضح ہو جاتی ہے کہ ابتدائی مرحلے میں جہاں نماز کی تلقین کی گئی ہے، اللہ سے تعلق جوڑنے کی ترغیب دی گئی، معاشی انقلاب کا آغاز بھی اسی مرحلے میں ہو گیا تھا۔

سورۃ الھُمزہ مکی سورت ہے۔ اس کا آغاز یوں ہوتا ہے:

وَيْلٌ لِّكُلِّ هُمَزَةٍ لُّمَزَةِۨ ۝ الَّذِيْ جَمَعَ مَالًا وَّعَدَّدَهٗ يَحْسَبُ اَنَّ مَالَهٗٓ اَخْلَدَهٗ ۝ كَلَّا لَيُنْۢبَذَنَّ فِي الْحُطَمَةِ ۝

’’ہلاکت ہے ہر طعنہ زنی اور عیب چینی کرنے والے کے لیے جس نے مال سمیٹا اور گن گن کر (تجوریوں میں) رکھا۔ اس کا گمان ہے کہ اس کا مال اس کے ساتھ سدا رہے گا۔ ہر گز نہیں۔ ہڈیوں کو چٹخا دینے والی دوزخ میں اسے جھونک دیا جائے گا۔‘‘

سورۃ تکاثر میں دیکھیے:

أَلْهَاكُمُ التَّكَاثُرُ Oحَتَّى زُرْتُمُ الْمَقَابِرَOكَلَّا سَوْفَ تَعْلَمُونَO

’’مال کی بہتات کی ہوس نے تمہیں غافل کر دیا اور یہ ہوس تمہیں مرتے دم تک لگی رہتی ہے۔ ہوش کرو اس کا انجام تمہیں بہت جلد معلوم ہو جائیگا۔ ‘‘

ابو لہب بہت مال دار آدمی تھا۔ انقلاب کے ابتدائی مکی دور میں اس کا نام لیکر اعلان کیا گیا:

تَبَّتْ يَدَا أَبِي لَهَبٍ وَتَبَّO مَا أَغْنَى عَنْهُ مَالُهُ وَمَاكَسَبَO

’’ابو لہب کے ہاتھ ٹوٹ گئے اور وہ ہلاک ہوا۔ اس کا مال اور دولت جو اس نے سمیٹی تھی اس کے کام نہ آسکی۔‘‘(سورة المسد 1-2)

پھر سورۃ ماعون ملاحظہ فرمائیے:

أَرَأَيْتَ الَّذِي يُكَذِّبُ بِالدِّينِOفَذَلِكَ الَّذِي يَدُعُّ الْيَتِيمOوَلَا يَحُضُّ عَلَى طَعَامِ الْمِسْكِينِO

’’کیا تو نے اس شخص کو دیکھا جو جھٹلاتا ہے ارتکاز دولت کی سزا کو۔ یہی ہے جو یتیم کو دھکے دیتا ہے اور مسکین کو خود کھانا کھلانا تو درکنار اس کی ترغیب بھی نہیں دیتا۔‘‘

ایک دوسرے کی ضد میں، ایک دوسرے کے ساتھ حریفانہ کش مکش میں ہم نے حقیقتوں کا چہر مسخ کیا۔ ہم نے اس انقلاب کا حلیہ بگاڑا۔ رسول اکرم ﷺ نے معاشرے کو معاشی اعتبار سے شدت سے جھنجوڑا اور اس انقلاب کاا ٓغاز اپنی ذات سے کیا۔

؎لوح بھی تو، قلم بھی تو، تیرا وجود الکتاب

آغاز اپنی ذات سے کیا:

اسباب راحت اور اسباب تعیش کا تو وہاں گزر نہ تھا، اپنی بنیادی ضروریات زندگی بھی معاشرے کے حوالے کر دیں۔ خود فقر و فاقہ کی سختیاں جھیلتے رہے اور غریبوں، مسکینوں اور بے نوائوں کی چارہ سازی کرتے رہے۔ سیدہ فاطمہr کے ہاتھوں پر چکی چلانے سے گٹے پڑ گئے تھے، خود جھاڑو دیتی تھیں اور گرد اڑ کر ان کے کپڑوں پر پڑتی تھی۔ خود پانی بھرتی تھیں اور مشکیزے کے پٹے کے نشان ان کے کندھوں پر پڑ گئے تھے۔ ایک دن اپنے بابا سے خادم مانگا تو رسول اللہe نے فرمایا

: اتقی اللہ یا فاطمہ وأدی فریضۃ ربک واعملی عمل اھلک، ھی خیر لک من الخادم۔

(سنن أبی داؤد : 2990)

’’اے فاطمہ اللہ سے ڈرتی رہو، اپنے رب کے فرائض ادا کرتی رہو اور اپنے گھر والوں کے کام کاج میں لگی رہو۔ خادم ہونے سے یہ زندگی جو تم بسر کر رہی ہو تمہارے لیے بہتر ہے۔‘‘

اس انقلاب کا آغاز رسول اللہe کی ذات اور گھر سے ہوا۔ انقلاب مارکس اور لینن کا ہو یا مائو کا ہو یا رسول اللہe کا ہو، یاد رکھیئے، وہ ہمیشہ انقلابی کی ذات اور گھر سے شروع ہوتاہے۔ تاریخ عالم اس بات کو جھٹلاتی ہے کہ کبھی ایسا ہوا ہو کہ انقلابی خود راحت اور تعیش میں ڈوبا ہواہو اور اس نے معاشی انقلاب برپا کیا ہو۔

محنت کش اور مزدور کو عزت بخشی

رسول اللہe نے جھوٹے وقار (FALSE PRESTIGE) کے خلاف جہاد کیا۔ وہ گھر کا کام کاج اپنے ہاتھوں سے کرتے تھے۔ صحاح ستہ کی مختلف روایات، جو سیدہ عائشہr، امام حسن بصریA اورسیدنا ابو سعیدرضی اللہ عنہسے مروی ہیں، سے پتہ چلتا ہے کہ رسول اللہeبکری کا دودھ خود دوہ لیتے تھے، کپڑے کو پیوند خود لگا لیتے تھے۔ اپنی جوتیاں خود گانٹھ لیتے تھے۔ گھر میں جھاڑو دینے میں بھی عار نہ تھا۔ بازار سے سودا سلف خود اٹھا کر لاتے۔

مسجد قبا کی تعمیر شروع ہوئی تو صحابہ کرام کے ساتھ آپ بھاری پتھر اٹھا کر لاتے تھے۔ صحابہ عرض کرتے یا رسول اللہe! آپ رہنے دیجئے ہم جو اٹھا رہے ہیں مگر آپ برابر پتھر اٹھا اٹھا کر لاتے رہے۔ پھر مسجد نبوی تعمیر ہوئی تو آپ صحابہy کے ساتھ مل کر کچی اینٹیں بنانے کا کام کرتے رہے اور خود اینٹیں اٹھا اٹھا کر لاتے اور صحابہ کرامy   یہ شعر پڑھتے تھے۔

لئن قعدنا والنبی یعمل
فداک منا العمل المضلل

(فتح الباری۔ جلد ۷)

(اگر ہم بیٹھ جائیں اور نبیﷺ کام کریں تو ہمارا بیٹھ جانا بہت ہی برا عمل ہوگا)

رسول اللہe نے فرمایا:

خیر الکاسب العامل اذا نصح

(مجمع الزوائد)

’’کسب معاش کرنے والوں میں سب سے بہتر محنت کش ہے جب وہ اخلاص سے کام کرتا ہے۔‘‘

حدیث میں ہم رسول اللہe کے بارے میں پڑھتے ہیں کہ کان یأکل مع الخادم۔ ’’وہ اپنے خادم کے ساتھ بیٹھ کر کھانا کھاتے تھے۔‘‘ یہ اسلامی نظام حیات کی ابجد ہے۔ یہ ایک المیہ ہے کہ جو لوگ معاشرے میں اسلام کی طرف دعوت دینے والے ہیں، وہ عملی طور پر اس کی ابجد ہوّز سے بھی محروم ہیں اور نوکر کو اپنے دسترخوان پر بٹھانا تو ان کے لیے ناقابل تصور ہے۔ لاہور میں گزشتہ دنوں ایک ڈنر میں شرکت کا اتفاق ہوا۔ جس میں بڑے بڑے حامیان دین اور مفتیان شرح متین شریک تھے۔ میں نے میزبان سے کہا کہ میرے ڈرائیور کو اندر بلا لیجئے۔ وہ کھانامیرے ساتھ کھائے گا۔ میرے ڈرائیور کو تو انہوں نے ذرا سی پیش و پس کے بعد بلا لیا مگر بیسیوں ڈرائیور اور چپڑاسی رات گیارہ بجے تک بھوکے بیٹھے رہے۔ میرے ڈرائیور ے مجھے بعد میں بتایا کہ سب ڈرائیور اور چپراسی ان اسلام کے علمبرداروں کو گالیاں دیتے رہے اور ان پر لعنتیں بھیجتے رہے۔ یہ ایک المیہ ہے کہ ہم اسلام کا نام محض (SLOGAN) کے طور پر بولتے ہیں اور اس ملک میں سوشلزم کا لفظ بھی (SLOGAN) کے طور استعمال ہوتا ہے۔

رخ پر نقاب مصلحتوں کے پڑے ہوئے

لب پہ زمانہ سازی کی مہریں لگی ہوئیں

جیسے زبان و دل میں کوئی ربط ہی نہیں

موقف کی بنیاد ضد اور عناد پر نہیں رکھنی چاہیے۔ یہ نہیں کہ دشمن اگر صاف ستھرے کپڑے پہنتا ہے تو آپ گندے اور غلیظ کپڑے پہننے لگیں۔ یہ نہیں کہ اگر آپ کا دشمن سچ بولتا ہے تو آپ اس کی ضد میں آکر جھوٹ بولنے لگیں۔ یہ نہیں کہ آپ کا حریف غریب مزدور اور کسان کی حمایت کرتا ہے تو آ پ ان کی حمایت سے دستبردار ہو جائیں یا ارتکاز دولت کرنے والوں کی حمایت کرنے لگیں۔

علامہ اقبالؒ حقیقی معنوں میں حکیم الامت تھے۔ انہوں نے مزدور اور کسان کی حمایت میں بھر پور آوازہ بلند کیا۔ ایک ایسا آوازہ جس میں سب آوازیں مدھم ہونے لگیں۔

آشنا اپنی حقیقت سے ہو اے دہقاں ذرا

دانہ تو، کھیتی بھی تو، باراں بھی تو، حاصل بھی تو

اپنی نظم ’’سرمایہ و محنت‘‘ میں کہا

دست دولت آفریں کو مزدیوں ملتی رہی

اہل ثروت جیسے دیتے ہیں غریبوں کو زکوۃ

اور اپنی نظم ’’الارض‘‘ میں جاگیر داروں کو شدت سے جھنجوڑا ۔

دہ خدایا! یہ زمیں تیری نہیں ، تیری نہیں

تیرے آبا کی نہیں ، تیری نہیں ، میری نہیں!

اپنے ایک مضمون میں یوں رقمطراز ہیں۔

’’مجھے افسوس ہے کہ مسلمانوں نے اسلام کے اقتصادی پہلو کا مطالعہ نہیں کیا ورنہ انہیں معلوم ہوتا کہ اس خاص اعتبار سے اسلام کتنی بڑی نعمت ہے۔

فَأَصْبَحْتُم بِنِعْمَتِهِ إِخْوَانًا

’’اس کی نوازش سے تم بھائی بھائی ہو گئے۔‘‘

میرا اسی نعمت کی طرف اشارہ ہے کیونکہ کسی قوم کے افراد صحیح معنوں میں ایک دوسرے کے اخوان نہیں ہوسکتے جب کہ وہ ہر پہلو سے ایک دوسرے کے ساتھ مساوات نہ رکھتے ہوں اور اس مساوات کا حصول بغیر ایک ایسے سوشل نظام کے ممکن نہیں۔ جس کا مقصود سرمایہ کی قوت کو مناسب حدود کے اندر رکھ کر مذکورہ بالا مساوات کی تخلیق اور تولیدہو۔‘‘(زمیندار ۲۴، جون ۱۹۲۳ء)

قرآن مجید بار بار دولت مندوں سے کہتا ہے کہ تمہارے مال میں غریبوں کا حق ہے یعنی تم ان پر کوئی احسان نہیں کرتے ہو۔

وَلِلہِ مُلْكُ السَّمَاوَاتِ وَالأَرْضِ

ارض وسما کے ہم ہی مالک ہیں اور نَّحْنُ نَرْزُقُكُمْ وَإِيَّاهُمْ اور ہم ہی ہیں کہ تمہیں بھی اور انہیں بھی رزق دیتے ہیں، اسی لیے قرآن و حدیث میں بار بار کہا گیا ہے کہ تمہارے مال میں غریبوں کا حق ہے:

وَفِي أَمْوَالِهِمْ حَقٌّ لِّلسَّائِلِ وَالْمَحْرُومِ (الذاریات:۱۹)

’’ان کے مال میں سائل اور محروم کا حق ہے۔‘‘

اور فرمایا

وَآتِ ذَا الْقُرْبَى حَقَّهُ وَالْمِسْكِينَ               (الإسراء:۲۶)

’’یعنی مسکینوں کا حق انہیں دے دو۔‘‘

اور رسول اللہe نے فرمایا:

’’ان فی المال حقا سویٰ الزکوٰۃ‘‘

’’یقینا مال میں زکوۃ کے علاوہ بھی حق ہے۔‘‘

رسول اللہe نے بھی لفظ ’’حق ‘‘ ہی استعمال فرمایا۔ ساری دقتیں اور دشواریاں دولت کو گردش میں لانے کے سلسلے میں اسی لیے ابھرتی ہیں کہ ہمیں اس بات کا یقین نہیں آتا کہ ہمارے مال میں غریبوں کا حق ہے۔ حقدار کو حق دلانا ہر حکومت کا فرض ہوتا ہے او رجب بھی کوئی حق غضب کرتا ہے تو حکومت جبراً حقدار کو حق دلاتی ہے۔ اگر ہمیں یہ یقین آجائے کہ غریبوں اور مزدوروں کا ہمارے مال میں حق ہے تو منطقی اعتبار سے ہمیں یہ بھی تسلیم کرنا چاہیے کہ اگر غاصبان حق برضا و رغبت حقداروں کو ان کا حق دینے پر آمادہ نہ ہوں، تو حکومت جیسے دوسرے حق حقداروں کو جبراً دلاتی ہے، یہ بھی غریبوں کو جبراً دلائے۔ ’’تشکیل الہیات جدیدہ‘‘ میں علامہ اقبالؒ نے امام ابن حزمؒ کا چھ بار ذکر کیا ہے۔ امام ابن حزمؒ جو بہت بڑے محدث تھے۔ المحلی کی چھٹی جلد میں لکھتے ہیں کہ ایک دن رسول اللہe نے صحابہ سے فرمایا کہ تم میں سے جس کے پاس فالتو سواری ہے وہ اسے لوٹا دے، جس کے پاس سواری نہیں ہے اور جس کے پاس اپنی ضروت سے زائد غذا ہے، وہ ان لوگوں کو لوٹا دے جن کے پاس غذا نہیں ہے۔ (ص157)

آپ غور کیجئے کہ رسول اللہe نے یہ نہیں فرمایا کہ عطا کر دیجیے یا بخش دیجیے بلکہ لوٹانے کا لفظ استعمال فرمایا۔ اس لفظ کے استعمال سے یہ وضاحت فرمادی کہ تم حقداروں کو ان کا حق لوٹا رہے ہو کوئی احسان تو نہیں کر رہے ہو۔ ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہe نے ایک ایک جنس اور مال کی ایک ایک قسم کا جدا جدا ذکر کیا حتی کہ ہمیں یقین آگیا کہ فالتو مال پر ہمارا کوئی حق نہیں رہا۔

سیدنا ابو عبیدہ بن جراحt نے ایک سال جب غلے کا شدید قحط ہوا، احکام صادر کیے کہ میں نے غلہ سٹا ک کرنے کے مختلف مرکز بنا دیئے ہیں اور وہ تمام لوگ جن کے گھروں میں غلہ پڑا ہے،ا ن مرکزوں میں اس غلے کو اکٹھا کر دیں۔ سیدنا ابو عبیدہt ہر گھر کے افراد کے تناسب کے اعتبار سے اس غلے کو مساوی طور پر تقسیم فرماتے رہے۔ میں پوچھتا ہوں کہ ابو عبیدہ بن جراحt نے ان جاگیر داروں کو اس غلے کا کونسا معاوضہ دیا تھا۔ بلال بن حارث المزنیt کو ایک بہت بڑا رقبہ رسول اللہe نے عطا کیا۔ سیدنا عمرt نے جب زرعی اصلاحات شروع کیں تو زمین کا وہ حصہ جسے وہ کاشت نہ کرسکے، ان سے چھین لیا اور مسلمانوں میں بانٹ دیا۔ یہ واقعہ’’ کتاب الخراج‘‘ میں بھی لکھا ہے اور کنز العمال‘‘ میں بھی ہے۔ میں پھر اس بات کی وضاحت کرتا ہوں کہ سیدنا بلال بن حارثt کو سیدنا عمرt نے اس چھینی ہوئی زمین کا کوئی معاوضہ نہ دیا تھا۔ بعض دوستوں نے کہا کہ یہ باتیں تو درست ہیں لیکن ان باتوں کو ذاتی انتقام کے لیے استعمال کیا جائے گا۔ اس لیے ان باتوں کا اظہار نہ کرنا ہی مناسب ہے۔ میں کہتا ہوں کہ ذاتی انتقام کے لیے تو تمام تعزیرات کو استعمال کیا جا سکتا ہے، تو کیا اس خدشے کی بنا پر تمام تعزیرات میں تحریف اور تاویل کی جائے۔ اگر کوئی احکام الہی کو ذاتی انتقام کی خاطر استعمال کرتا ہے تو وہ اللہ اور معاشرے کے سامنے جوابدہ ہے اور اللہ کے قانون جزا ور سزا سے بچ نہ سکے گا۔

سب کچھ لٹا دیا

ام المومنین سیدہ خدیجہr حجا زکی ممتاز متمول خاتون تھیں اور رسول اللہe ان کے مال سے تجارت کرتے تھے۔ جب اس ہمہ گیر اور بھر پور انقلاب کو برپا کرنے کا کام آپ نے شروع کیا تو ان کا کاروبار مندا پڑنے لگا۔ جب آپ نے یہ آوازہ بلند کیا کہ تمام انسان اللہ کی نظر میں برابر ہیں۔ سیدنا بلال حبشیt سرداران قریش سے افضل ہے تو عربوں کی حمیت جاہلیہ کو سخت دھچکا لگا۔ پھر ہمہ تن انقلاب کے کام میں مصروف ہو جانے کی وجہ سے رسول اللہe کو تجارت کا کام بند کر دینا پڑا۔ رسول اللہe اور سیدہ خدیجہr کے پاس جس قدر اندوختہ تھا، اسلام پھیلانے کی خاطر خرچ کر ڈالا۔ تمام اثاثہ اس راہ میں لٹا دیا گیا۔ نوبت یہاں تک پہنچی کہ جب رسول اللہe تبلیغ کے لیے طائف تشریف لے گئے تو آپ کے پاس سواری کے لیے کوئی جانور بھی نہ تھا۔

سرداران قریش نے جب اس تحریک کو شدت سے ابھرتے ہوئے اور جھوٹی قدروں کو مسمار ہوتے ہوئے دیکھا تو رسول اللہe کو حجاز کا حکمران بنانے کے لیے تیار ہو گئے اور کہا کہ ہم آپ کو اپنا فرمانروا بنالیں گے، ہم عرب کے حسین ترین عورت آپ کے نکاح میں دینے کے لیے تیار ہیں، ہم دولت کے ڈھیر آپ کے قدموں میں لگا دیں گے بشرطیکہ آپ اسلامی نظریۂ حیات کے پرچار سے باز آجائیں۔ مگر اس انسان نے جو تمام کائنات کی فلاح و بہبود کے لیے اٹھا تھا اور جو دونوں جہاں کی سعادتیں بنی نوع انسان کی جھولی میں ڈالنا چاہتا تھا، ان تمام پیشکشوں کو ٹھکرا دیا اور گالیاں اور پتھر کھانے پر راضی ہو گیا۔

قریش اور عرب کے سرداروں نے رسول اللہe سے کہا۔ ہم تمہارے پاس کیسے آکر بیٹھیں، تمہارے مجلس میں ہر وقت غریب، مفلس اور نچلے طبقے کے لوگ بیٹھے رہتے ہیں۔ ان لوگوں کو اپنے پاس سے ہٹائوں تو ہم آکر بیٹھیں گے، مگر وہ انسان جو رنگ، نسل، خون اور خاک کے بتوں کو توڑنے کے لیے آیا تھا، اس نے ان سرداروں کی خاطر غریبوں کو دھتکارنے سے انکار کر دیا۔

تمام انسانوں کے لیے یکساں رحمت تھے

اس تحریک کی ایک ابھری ہوئی خصوصیت یہ ہے کہ رسول اللہe نے اپنے ملک، اپنی قوم، اپنے قبیلے، اپنے خاندان کے مفاد کو بنی نوع انسان کے مفاد پر ترجیح نہ دی۔ آپ ہر قسم کی کنبہ پروری اور اقربا نوازی سے برتر رہے۔ اسی بات نے دنیا والوں کو یقین دلایا کہ آپ تمام اقوام کے لیے سراپا رحمت بن کر آئے ہیں۔ اسی وجہ سے آپ کی آواز پر ہر قسم کے انسانوں نے لبیک کہا۔ اگر آپ اپنے گھرانے کی برتری کے لیے کام کرتے تو غیر ہاشمیوں کو کیا پڑی تھی کہ آپ کا ساتھ دیتے؟ اگر آپ کو یہ فکر لاحق ہوتی کہ قریش کی برتری اور اقتدار کو تو کسی طرح بچا لوں تو غیر قریش عربوں کو کیا دلچسپی ہو سکتی تھی کہ وہ اس کام میں شریک ہوتے۔ اگر آپ عرب کا بول بالا کرنے کے لیے اٹھتے تو سیدنا بلال حبشیt اور سیدنا صہیب رومیt اور سیدنا سلمان فارسیt کو کیا پڑی تھی کہ آپ کا ساتھ دیتے۔ وہ بات جس کی وجہ سے تمام بنی نوع انسان آپ کی طرف کھنچتے چلے آئے آپ کی بے لوث الله پرستی تھی اور آپ کا تمام ذاتی، خاندانی اور نسلی مفادات سے بلند و برتر ہونا تھا۔

جب آپ نے یہ آوازہ بلند کیا کہ سیدنا بلال حبشیt سرداران عرب سے افضل ہیں اور ہر طرح کی فضیلت اور شرف تقوی اور پرہیزگاری کی بنا پر ہے اور قریشی اور ہاشمی ہونے کی بنا پر تمہیں کوئی فضیلت حاصل نہیں ہے، تو قریش اور عرب کے سردار رسول اللہe کے خون کے پیاسے ہو گئے۔ آپ کے قتل کی سازشیں کرنے لگے۔ رسول اللہe کو مکہ مکرمہ کو خیر باد کہنا پڑا۔ جب آپ مکہ سے جارہے تھے اور آپe نے سیدنا علیt سے کہا: علی! تم یہیں رہ جائو، یہ لوگ جو میرے قتل کے درپے ہیں ان کی امانتیں لوٹا دینا۔ رسول اللہe اپنے جانی دشمنوں اور خون کے پیاسوں کی امانتیں بھی لوٹا دینے والے اور ہم سیاست کی بنیادیں غنڈہ گردی اور شہداپن پر قائم کرنے والے، ہمیں رسول اللہe سے کیا نسبت؟

جب مکہ فتح ہوا تو آپ کی راہ میں کانٹے بچھانے والے، آپ پر اوجھڑیاں پھینکنے والے، آپ کے قتل کی سازشیں کرنے والے سب سر جھکائے کھڑے تھے۔ آپe نے فرمایا:

اذھبوا انتم الطلقاء لا تثریب علیکم الیوم۔

جائو میں تم سب کو رہا کرتا ہوں، آج کے دن کے بعد تم پر کوئی ملامت نہیں ہے آج بات ختم ہو گئی اور میں نے تم سب کو معاف کیا۔ بات بات پر اپنے مسلمان بھائیوں سے یہ کہنا کہ میں تمہیں معاف نہیںکروں گا، حد درجہ غیر اسلامی بات ہے۔ یہ فقرہ ابو جہل اور ابو لہب کہتے تھے کہ ہم تمہیں کبھی معاف نہیں کریں گے۔ پس ہر وہ شخص جو بار بار اپنے مسلمان بھائیوں سے یہ کہتا ہے کہ میں تمہیں کبھی معاف نہیں کروں گا ، وہ ابوجہل اور ابولہب کے طریقے پر کاربند ہے۔

منتشر اجزاء کو مرتب کیا

محمدی انقلاب کی ایک ابھری ہوئی خصوصیت یہ ہے کہ رسول اللہe نے معاشرے کے اجزا کو مرتب اور مربوط کیا اور اسے باطل سے ٹکرا دیا۔ انہوں نے یہ نہیں کہا کہ جوانوں کو بوڑھوں سے ٹکرا دیا ہو اور GENERATION GAP کا سوال پیدا کر دیا ہو۔ انہوں نے یہ نہیں کیا کہ غریبوں کو امیروں سے بھڑا دیا ہو۔ انہوں نے یہ نہیں کیا کہ مزدوروں کو صنعتکاروں سے اور کسانوں کو زمینداروں سے ٹکرا دیا ہو اور معاشرے کے مختلف طبقوں کو آپس میں گتھم گھتا کر دیا ہو جیسا کہ کارل مارکس اور لینن نے کیا۔ آپ نے جوانوں سے کہا کہ بوڑھوں کے سفید بالوں کا خیال کرو، آپ نے بوڑھوں سے کہا کہ بچوں پر شفقت کرو۔

من لم یؤقر کبیرنا ولم یرحم صغیرنا فلیس منا۔

(مسند أحمد )

( جو بڑوں کا احترام نہیں کرتا اور چھوٹوں پر شفقت نہیں کرتا وہ ہم میں سے نہیں ہے۔)

رسول اللہe نے اپنا سب کچھ معاشرے کی فلاح و بہبود پر لگا دیا تو اپنے قائد کے اس ایثار کو دیکھ کر معاشرے کے متمول افراد کے اندر غریب پروری کا جذبہ خود بخود ابھرنے لگا اور کسی جبر اور تشدد کے بغیر بلکہ شدید رضاء ورغبت کے ساتھ معاشرے کی خوشحالی پر بے دریغ خرچ کرنے لگے۔ رسول اللہe نے امیروںسے کہا کہ تمہارے پاس جو کچھ مال و منال ہے، سب اللہ کا بخشا ہوا ہے اور غریبوں کا تمہارے مال میں حق ہے۔ ان کا حق ان کو لوٹادو۔ یوں رسول اللہe نے معاشرے کے مختلف طبقوں کو باہم متحد اور منظم کیا اور حق کی حمایت میں باطل کے خلاف سب کو صف آرا کر دیا۔

رسول اللہe نے فرمایا:

والله ليتمن الله هذا الأمر حتى يسير الراكب من المدينة إلى حضر موت لا يخاف الا الله عز و جل والذئب على غنمه ولكنكم تستعجلون (مسندأحمد)

’’خدا کی قسم دعوت اسلام کا جو کام ہوا ہے پایہ تکمل کو پہنچ کر رہے گا۔ یہاں تک کہ صنعا، یمن سے حضر موت تک مسافر چلا جائے گا اور اسے کسی کا کھٹکا نہ ہوگا۔‘‘

سیدنا عدی بن حاتمt کہتے ہیں کہ رسول اللہe نے فرمایا: ’’لَتُفْتَحَنَّ كُنُوزُ كِسْرَى‘‘(بخاری،مسند أحمد)

وہ وقت یقینی طور پر آنے والا ہے جب کسری کے خزانے تمہارے قدموں پر ڈھیر ہوں گے۔‘‘ رسول اللہe نے جب یہ الفاظ فرمائے مسلمانوں کی بے چارگی کا یہ حال تھا کہ خود ان کے وطن کے دروازے ان پر بند تھے، قیصر و کسری کے خزانوں کا نام سن کر متعجب ہوئے۔ سیدنا عدی بن حاتمt ضبط نہ کر سکے۔ حیران ہو کر پوچھا: ’’کون کسریٰ؟ کسریٰ بن حرمز شہنشاہ ایران؟‘‘ فرمایا: ’’ہاں! وہی اور کون۔‘‘ آپ نے فرمایا عدی:

’’لئن طالت بک حیاۃ لترین الرجل یخرج ملٔ کفہ من ذھب یطلب من یقبلہ فلا یجد احدا‘‘                                                 (صحیح بخاری)

’’یعنی عدی تمہیں اس پر تعجب کیوں ہے۔ اگر تم زندہ رہے تو اپنی آنکھوں سے دیکھ لو گے کہ اسلامی معاشرے کی خوشحالیوں کا یہ حال ہوگا کہ ایک شخص مٹھی بھر سونا لے کر صدقہ و خیرات کے لیے نکلے گا مگر کوئی خیرات لینے والا نہ ملے گا۔ سب آسودہ حال ہوں گے۔‘‘

عدی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں زندہ رہا اور میں ان لوگوں میں سے ہوں جنہوں نے فتح ایران کے بعد کسری کے خزانہ کوکھولا اور صحابہ نے اسلامی معاشرے کی خوشحالی کا وہ دور دیکھا کہ صدقہ و خیرات لینے والا کوئی شخص نہ ملتا تھا۔

محمدی انقلاب امن اور سلامتی، آسودگی اور خوشحالی کا ضامن ہے،۔ ایک لمحے کے لیے غور کیجئے کہ اپنے آقاe سے بے وفائی کر کے ہم نے کیا پایا ہے۔ چوریاں اور ڈکیتیاں جن کے تذکرے سے آدھا اخبار بھرا ہوتا ہے۔ افلاس، بھوک، چیتھڑے اور دھجیاں۔

ساتھیو! وقت کا سب سے اہم تقاضا یہ ہے کہ اس ملک میں محمدی انقلاب برپا کرنے کے لیے ہم اپنا مال، اپنا وقت، اپنی توانائی، اپنی تمام جسمانی اور ذہنی صلاحیتوں کو کھپا دیں، نتائج گو اللہ ہی کے ہاتھ میں ہیں۔ تمام عواقب اور نتائج سے بے پروا ہو کر اس عظیم مقصد کے لیے جسم وجان کی بازی لگا دینی چاہیے۔

جس دھج سے کوئی مقتل میں گیا

وہ شان سلامت رہتی ہے

یہ جان تو آنی جانی ہے

اس جاں کی تو کوئی بات نہیں

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے