انسان میں صرف عقل و ذہانت(intellect) ہی نہیں ہوتی بلکہ اس کے باطن میں جذبات و احساسات کا ایک سمندر بھی موجزن ہوتا ہے۔ اور کسی بھی معاشرے میں جہاں اس کی عقلی، فکری اور فلسفیانہ اساسات کو اہمیت حاصل ہے، وہاں جذبات کے لئے بھی کسی مرکز کا وجود لازمی اور لابدی ہوتا ہے، جس کے ساتھ اگر جذباتی وابستگی نہ ہوگی تو دل پھٹے رہیں گے، محبت و رافت کے سوتے خشک ہوجائیں گے، آپس میں بیگانگی اور افتراق کی روش پروان چڑھے گی اور ثقافت میں کوئی یک رنگی پیدا نہ ہوسکے گی، چنانچہ کوئی تہذیبی و ثقافتی ہم آہنگی وجود میں نہ آسکے گی ۔ یہ در حقیقت وہ جذباتی بنیاد ہے۔ جس سے ہمارے تمدن اور تہذیب کے خدوخال نمایاں ہوتے ہیں اور امت مسلمہ کے لئے اس مطلوبہ کیفیت کا حصول نبی اکرم ﷺ کی اتباع میں ہی مضمر ہے۔ امت مسلمہ حیات ملی کے استحکام اور اس کی شیرازہ بندی کے لئے جس چیز کو مرکزی نقطہ کی حیثیت حاصل ہے اور جو ایک مسلمان کے ایمان قلبی کو جلا بخشتا ہے وہ ہے نبی کریم ﷺ کی بے لوث اور والہانہ محبت، عقیدت و احترام، عزت و توقیر، گویا فی الجملہ آپﷺ کی محبت اور تعظیم ہر مسلمان کے دل کی اتھاہ گہرائیوں تک جاگزین ہونی چاہئے، لیکن عوام الناس کا معاملہ یہ ہے کہ وہ محض عید میلاد النبی ﷺ مناکر، جلسے کرکے، جلوس نکال کر، سیرت کانفرنسیں کرکے یا ذوق و شوق کے ساتھ درود و سلام بھیج کر اور جھوم جھوم کر نعتیں پڑھ کر، یہ سمجھ لیتے ہیں کہ ہم نے بحیثیت امتی اپنی ذمہ داری پوری کردی اور نبی اکرم ﷺ کے جو حقوق ہم پر عائد ہوتے ہیں وہ ہم نے ادا کردئیے، یہ جھوٹا اطمینان ہمیں اس طرف متوجہ نہیں ہونے دیتا کہ ہم یہ معلوم کریں کہ از روے قرآن حکیم نبی اکرم ﷺ سے ہمارے تعلق کی حقیقی اساسات اور صحیح بنیادیں کیا ہیں؟ ارشاد ربانی ہے

قُلْ يٰٓاَيُّھَا النَّاسُ اِنِّىْ رَسُوْلُ اللّٰهِ اِلَيْكُمْ جَمِيْعَۨا الَّذِيْ لَهٗ مُلْكُ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ ۚ لَآ اِلٰهَ اِلَّا هُوَ يُـحْيٖ وَيُمِيْتُ ۠ فَاٰمِنُوْا بِاللّٰهِ وَرَسُوْلِهِ النَّبِيِّ الْاُمِّيِّ الَّذِيْ يُؤْمِنُ بِاللّٰهِ وَكَلِمٰتِهٖ وَاتَّبِعُوْهُ لَعَلَّكُمْ تَهْتَدُوْنَ ؁

آپ کہہ دیجیے:لوگو ! میں تم سب کی طرف اس اللہ کا رسول ہوں جو آسمانوں اور زمین کی سلطنت کا مالک ہے۔ اس کے سوا کوئی الٰہ نہیں، وہی زندہ کرتا اور مارتا ہے۔ لہٰذا اللہ اور اس کے رسول نبی اُمی پر ایمان لاؤ، جو اللہ اور اس کے ارشادات پر ایمان لاتا ہے اور اسی کی پیروی کرو۔ امید ہے کہ تم راہ راست پالو گے۔(الاعراف158)

اس آیت مبارکہ کی روشنی میں یہ بات واضح ہوتی ہے کہ انسانی معاشرے کی فوزوفلاح اور کامل ہدایت کے لئےنبی اکرمﷺکی اطاعت اور اتباع نا گزیر ہے۔ یہاں یہ بات ذہن میں واضح رہے کہ اطاعت اور اتباع میں بہت بڑا فرق و تفاوت ہے۔اطاعت نام ہے اس چیز کا کہ جو حکم ملے اسے بلا چوں چُرا بجالایا جائےـ،کسی بھی قسم کی حیل و حجت اور قیل وقال کی قطعی کوئی گنجائش نہیں ہے۔سمع و طاعت والی کیفیت درکار ہے۔فرمان الٰہی ہے:

مَنْ يُّطِعِ الرَّسُوْلَ فَقَدْ اَطَاعَ اللّٰهَ   ۚ

جس کسی نے رسول کی اطاعت کی تو اس نے اللہ کی اطاعت کی (النساء : 80)

جس نے رسول ﷺکی اطاعت کی اس نے اللہ کی اطاعت کیــ اور اس کی حیثیت دین میں دستوری اور آئینی ہے۔البتہ اتباع رسول کا دائرہ بہت وسیع ہے۔یعنی جو عمل بھی اس ہستی سے منسوب ہے جسےاللہ کا رسولﷺ مانا گیا۔جس پر ایمان لایا گیا ہے،جس کی اللہ کے نبی اوررسولﷺکی حیثیت سے تصدیق کی گئی ہے۔اس ہستی کی نشست وبرخاست،اس کی گفتگو،اس کا رہن سہن،اس کی وضع وقطع،اس کی تہذیب اور اس کی نجی و مجلسی زندگی کا جو بھی انداز ہو۔اس پورے نقشے کو اپنی سیرت و کردار اور قول و عمل میں جذب کرنا ہو گا۔اسی رویے اور اسی کیفیت کا نام دراصل اتباع ہے۔صحابہ کرام۔رضی اللہ عنھم۔رسول اکرمﷺکی صرف اطاعت ہی نہیں بلکہ آپﷺکی بھر پور اتباع بھی کرتے تھے۔وہ جانتے تھےکہ اللہ کی محبت اور رضا کا حصول رسولﷺکی اتباع میں مضمر ہے۔

بفحوائےقرآن

قُلْ اِنْ كُنْتُمْ تُحِبُّوْنَ اللّٰهَ فَاتَّبِعُوْنِيْ يُحْبِبْكُمُ اللّٰهُ(آل عمران ۳۱)

اے نبیﷺکہہ دو کہ اگر تم اللہ سے محبت رکھتے ہو تو میری اتباع کرو اللہ تم سے محبت کرے گا۔

مسلمانوں کی تہذیب اور اس کے تمدن کے جو اصل خدوخال ہیں وہ در حقیقت اسی اتباع رسولﷺ سےوجودمیںآئےہیں۔کیونکہ یہ انسانی طبیعت کی کمزوری ہےکہ کسی دلنوازشخصیت کی اسے حاجت ہوتی ہے جس سے اس کو قلبی لگاـؤہو اور جس کی صحبت میںرہ کر پورا معاشرہ امن وآشتی کا گہوارہ بن جائے۔کوئی ایسی ہستی ان کے درمیان موجود ہو جو معاشرے کی شیرازہ بندی میں نقطہ ما سکہ کا کردار ادا کر سکے۔چنانچہ دیگر انسانی معاشروں کو ایسی شخصیتیںخود تراشنی پڑتی ہیں۔اس لئے کہ یہ ان کی ضرورت ہے کہ جذباتی وابستگی کے لئےکسی مرکزومحور کا وجود لازمی ہے۔

امت مسلمہ کی یہ کتنی بڑی خوش قسمتی ہے کہ یہاں کوئی مصنوعی شخصیت تراشنے کی ضرورت ہی نہیں ہے۔کیونکہ مصنوعی شخصیتیں تراشنے میں ہر دور میں ایک نئ شخصیت گھڑنی پڑتی ہے۔ بقول علامہ اقبال:

’’ می تراشد فکر ما ہر دم خدا وندےدگر!‘‘

لیکن ہمارے پاس نبی اکرمﷺجیسی محبوب، دلنواز، معراج انسانیت پرفائزشخصیت جن کی سیرت و کردار پر کوئی دشمن بھی کہیں کوئی انگلی نہ رکھ سکا،انسان کامل، انسانی عظمت و کردار کی مظہراتم شخصیت موجود ہے۔ آپﷺکی ذات پاک ہماری ملّی شیرازہ بندی کے لئے ایک مرکزی ستون ہے۔چنانچہ آپ ﷺکے ساتھ قلبی محبت،آپﷺکا ادب،آپﷺکی تعظیم، آپﷺسےعقیدت سچےاور حقیقی جذبےکے ساتھ موجود ہو توہمارا اسلامی معاشرہ ایک بنیان مرصوص بنا رہے گا۔آپﷺہی وہ ہستی ہیں جن کے متعلق کیا خوب کہا گیا ہےـ:

ادب گاہیست زیر آسماں از عرش نازک تر

نفس کر دہ می آید جنید وبایزید ایںجا

نبی اکرمﷺکی ذات اقدس کو اپنا معیار زندگی اور رول ماڈل بنانا،ہماری تہذیبی و ثقافتی ہم آہنگی کی ضمانت دیتاہے۔اوراسی تہذیبی وثقافتی ہم رنگی ہم آہنگی، اوریکسانیت کے ساتھ تہذیب وثقافت کا ایک تسلسل و تواتر ہے جو چودہ سو برس سے جاری وساری ہے۔وضع قطع اور لباس کے حدودوقیود اور نشست وبرخاست کے انداز، آپﷺکے اسوہ حسنہ سے مسلمانوں میں فروغ پذیر ہوئے۔یہی وجہ ہےکہ مسلمان خواہ مشرق بعید کا ہو یا مغرب بعید کا یادنیا کے کسی بھی خطے میں رہنےوالےمسلمان ہوں،ان سب کےمابین مناسبت، ہم آہنگی،اوریکسانیت نمایاں نظر آتی ہے اوریہ سب اسی لئے ہےکہ ان کے لئےمرکزی اور بنیادی شخصیت ہمیشہ ہمیشہ کے لئے جناب محمد رسول اللہ ﷺکی ہے۔ دل کی حقیقت،طبیعت کی پوری آمادگی اور گہرے قلبی لگاؤ کےساتھ انسان کسی کا اتباع کرتا ہےتووہ صرف اس حکم کی پیروی نہیں کرتا جیسےوہ اپنی زبان سے واضح الفاظ دےرہا ہو بلکہ وہ اس کی ہر اداکی پیروی کرنے کو اپنے لئے باعث سعادت سمجھتا ہے اوراس کےچشم و ابرو کے اشاروں کا منتظررہتاہے۔محبوب کی ہرادا کی نقالی اور اس کے ہر قدم کی پیروی اپنے اوپر لازم کر لیتا ہےـ:

جہاں تیر انقش قدم دیکھتے ہیں

خیاباں خیاباں ارم دیکھتے ہیں

اسی طرزعمل کا دوسرا نام اتباع ہے۔جس کی زندہ مثالیں صحابہ کرام رضوان اللہ علیھم کی زندگی میں نظر آتی ہیں۔ سیرت کی کتابوں میں سیدناعبداللہ ابن عمر رضی اللہ عنہ کے واقعات میں ایک واقعہ مرقوم ہے جس سے ان کے جذبہ اتباع کا پتہ چلتا ہےکہ ایک مرتبہ وہ سفر میں رسول کریمﷺکےہمراہ تھےکہ نبیﷺاتفاقا ایک خاص درخت کےنیچےسے گزرے۔لیکن ابن عمر رضی اللہ عنہ نے اپنے اوپر لازم کر لیا کہ جب وہاں سے گزر ہوتاآپ رضی اللہ عنہ اس درخت کے نیچےسے ہی گزرتے۔اگرچہ شریعت کےلحاظ سے آپﷺ کےیہ اعمال واجب التعمیل بھی نہیں تھے۔بلکہ خالص عقلیت پرست (RATIONALISTS)لوگ تو شاید اس کو جنون اور خوامخواہ کا (FANATICISM) ہی کہیں گے۔لیکن حبّ رسولﷺمیں محبوب کی ہر نقش کی پیروی دستور محبت شمار ہوتی ہے۔اگر کوئی فنا فی حب رسولﷺہو جائےتواس کا طرز عمل اور رویہ یہی ہونا چاہئے۔اسی طرح سِیَرِصحابہ رضوان اللہ علیھم میں ایک صحابی کا ذکر ملتا ہےجو کسی دور دراز علاقےسےآکر رسول اکرمﷺکے ہاتھ پر مشرف باسلام ہوئے تھے۔ انہوںنےآپﷺکو بس ایک موقع پر دیکھا تھا اور اس وقت اتفاق سےآپﷺکا گریبان کھلا ہوا تھا۔ آپﷺکو کھلےگریباں کے ساتھ دیکھ کر ان صحابی رضی اللہ عنہ نےپھر ساری عمر اپنےگریبان کے بٹن نہیں لگائے۔

حالانکہ حضورﷺکی طرف سے انہیں ایسا نہ کرنے کا کوئی حکم تو کجا،کسی ادنی درجے میں اشارہ تک نہیں کیا گیا۔ اور شریعت کی رو سے یہ نہ فرض ہے نہ واجب، لیکن یہ محبت کے لوازم میں سے ہے کہ محبوب کےہر نقشِ قدم کی پیروی اور ہر ادا کی نقالی اپنے اوپر لازم کر لی جائے،اسی طرز عمل کا نام قرآن حکیم کی اصطلاح میں ’’اتباع‘‘ہے۔

سورہ آل عمران کی آیت 31کے حوالے سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ اللہ تعالیٰ سے محبت کا لازمی تقاضا نبی اکرمﷺکا اتباع ہے۔اس اتباع کا ایک نتیجہ تو یہ نکلے گا کہ ہم اللہ کی محبت میں پختہ تر اور مضبوط تر ہوتے چلے جائیں گےاور دوسرا نتیجہ یہ نکلے گا کہ ہم اللہ کے محبوب اور اس کی مغفرت ورحمت کے سزا وار قرارپائیں گے۔ جن کو یہ مرتبہ مل جائےکہ وہ اللہ کے محبوب قرار پائیں ان کی خوش نصیبی اور خوش بختی کا کیا کہنا!

اس کے برعکس اگر یہ طرز عمل اختیار کیا جائے کہ محبت رسولﷺکے محض دعوے ہیں،لیکن اطاعت نہیں، فرائض کی ادائیگی نہیں،اوامر ونواہی کی پرواہ نہیں،احکام شریعت کا سرے سے کوئی لحاظ ہی نہیں،تو یہ طرز عمل سرا سر معصیت اور فسق وفجورپر مبنی ہے۔محبت کا یہ خالی خولی دعویٰ اللہ کے ہاں سرے سے قبول ہی نہیں ہو گا۔ایسا دعویٰ جس میں روحِ محبت ہی نہ ہو اس دنیا میں بھی قبول نہیں ہو سکتا۔بلکہ مہمل قرار پاتا ہے کہ ایک طرف محبت کا دعویٰ ہو اور دوسری طرف اطاعت اور رضا جوئی کا سرے سے کوئی اہتمام نہ ہو۔حُب رسولﷺ کے بلند دعوے،بڑی وجد آفریں نعتیں اور بڑے لمبے چوڑے سلام،بڑے جوش و خروش اور شان وشوکت سے نکالے ہوئے جلوس،جو اکثر عوام کے روز مرہ کے معمولات اور ان کی آمدورفت میں بڑی مشکلات کھڑی کر دیتے ہیں،پھر بڑے ہی اہتمام سے منعقد کی ہوئی میلاد کی محفلیں،شہر بھر میں چراغاں،اگر یہ سب جذبہ اطاعت سے خالی اور اتباعِ سنت کے جذبے سے عاری ہیں تو یہ سب کچھ سرا پا ڈھونگ ہے،فریبِ نفس ہے۔اس کی نہ کوئی حقیقت ہے اور نہ میزان میں اس کا کوئی وزن۔اور اللہ تعالیٰ کے نزدیک اس طرز عمل کی پرِکاہ کے برابر بھی وقعت اور قدر نہیں بلکہ یہ ملمع کاری قابل مؤاخذہ ہے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے