اسلام ایک مکمل ضابطہ حیات ہے جس نے خوشی کے تہوار، فضیلت والے مہینے دن اور رات بتلا دیے ہیں ا ور ان میں کیے جانے والے کام بھی وضاحت سے سمجھا دیے ہیں اب کسی دن ،رات یا مہینے کو فضیلت دے کر اس کو خاص اندازمیں منانے کے طریقے جاری کرنا درست نہیں ۔

رسول اللہﷺ کی تاریخ ولادت با سعادت کس مہینہ میں ہو ئی اس میں مؤرخین اور سیرت نگاروں کا اختلاف ہے ۔اکثر نے ربیع الاول کا مہینہ بیان کیا تو پھر اس ماہ کی تاریخ میں بھی اختلاف پایا گیا ۔یہ اختلاف اس بات کی طرف اشارہ کرتا ہے کہ نبی علیہ السلام کے دور میں یاصحابہ رضی اللہ عنہم یا تابعین رحمہم اللہ کے دور میں آپﷺ کی ولادت کا دن نہیں منایا گیا ۔کیونکہ جو دن ہر سال خاص اندا زمیں منایا جائے اس میں اختلاف نہیں ہوتا جس طر ح عیدین میں کوئی اختلاف نہیں ۔

یہ بات بھی قابلِ غور ہے کہ آپﷺ ربیع الاول کو پیدا ہوئے لیکن فضیلت رمضان المبارک کو ہے ،آپ ﷺ سوموار کو پیدا ہو ئے لیکن فضیلت جمعۃ المبارک کو ہے ۔ اسلام کا آغاز ربیع الاول کی بجائے محرم سے ہے ۔بارہ مہینوں میں چار حرمت والے مہینے ہیں لیکن ربیع الاول ان میں شامل نہیں ۔

اس سے معلوم ہوا کہ شریعت میں عید میلاد کا وجود ہو تا تو کسی موقع پر اس مہینہ یا اس تاریخ کا اہتمام کیا جاتا ۔

عید میلاد کی شرعی حیثیت علمائے کرام کے مندرجہ ذیل اقوال سے واضح ہو جاتی ہے ۔

(۱) علامہ تقی الدین احمد بن علی مقریزی رحمہ اللہ فرماتے ہیں فاطمی خلفاء (جو رافضی شیعہ تھے ) نے میلاد النبی ﷺمیلاد علی،میلاد حسن و حسین ،میلاد فاطمہ رضی اللہ عنہم اور موجودہ خلیفہ کا میلاد ایجاد کیا۔

(المواعظ والاعتبار بذکر الخطط الآثار440/1)

(۲)شاہِ اربل ابو سعید مظفر کوکپوری نے 604ھ میں میلاد النبیﷺ ایجاد کیا۔ (الحاوی للفتاوٰی ص242)

مظفر الدین بادشاہ کے بارے میں علامہ یا قوت الحموی رحمہ اللہ فرماتے ہیں :یہ بادشاہ بہت زیاد ہ ظلم کر نے والا عوام پر بہت ستم کر نے والا اور لوگوںکا مال بلا وجہ غصب کرنے والا تھا۔ (معجم البلدان 138/1)

آپ ﷺ کی تاریخ ولادت کے اختلاف کی وجہ سے ایک سال 8ربیع الاول اور دوسرے سال 12ربیع الاول کو عید مناتا تھا (وفیات الاعیان 118/4)

(۳)میلاد النبی ﷺ کو متعارف کرانے کے لیے ابو الخطاب عمر بن حسین المعروف ’’ابن دحیہ‘‘ نے کتاب ’’التنویر فی مولد السراج المنیرو البشیر‘‘لکھ کر ابو سعید کوکپوری کو دی اور ایک ہزار دینار حاصل کیے ۔

(ابن خلکان 275/3وطبع آخر119/4)

اس مولوی ابن دحیہ کے بارے میںحافظ ضیاء مقدسی فرماتے ہیں کہ یہ آئمہ دین کے حق میں سخت گستاخ تھا۔(الحاوی للفتاوٰی2920)ابن نجار فرماتے ہیں کہ اس کے کذاب ہونے پر تمام کا اتفاق ہے اور یہ ایسی باتیں کر دیتا تھا جو کسی سے سنی نہ ہوتیں۔ (لسان المیزا ن 290/4)

(۴) امام ابن عابدین شامی فرماتے ہیں : دوسری بدعتوں سے زیادہ قبیح یہ ہے کہ رقص و آلات موسیقی کی دھنوں کے ساتھ میناروں اور گنبدوں پر میلاد پڑھا جائے ا ور اس کا ثواب مصطفیﷺ کو پہنچایا جائے ۔

(شامی ،صوائق الھییہ،ص235)

(۵)حضرت مجدد الف ثانی رحمہ ا للہ فرماتے ہیں :بنظر انصاف دیکھو کہ اگر بالفرض حضور اکرم ﷺ اس زمانے میں زندہ ہو تے اور یہ میلاد کی مجلس اور اجتماعات دیکھتے تو کیا اس پر راضی ہو تے ؟فقیر کا یقین ہے کہ آپؑ اس کو ہرگز پسند نہ کرتے بلکہ اس کا انکار کرتے ۔

(مکتوبات حصہ پنجم ،ص22مکتوب نمبر203)

(۶)مولانا عبد السمیع رامپوری بریلوی فرماتے ہیں یہ سامان فرحت و سرور اور وہ بھی مخصوص مہینے ربیع الاول کے ساتھ اور خاص وہی بارہواں دن میلاد شریف کا متعین بعد میں ہوا ۔ یعنی چھٹی صدی کے آخر میں۔

(انوار ساطعہ ،ص159)

(۷) مولانا احمد یار نعیمی بریلوی فرماتے ہیں :اس (میلاد ) کو تین زمانوںمیں سے کسی نے نہیں کیا ،بعد میں ایجاد ہواہے ۔(جاء الحق 236/1)

(۸)مولانا غلام رسول سعیدی بریلوی فرماتے ہیں: سلف صالحین یعنی صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اور تابعین رحمہ اللہ نے محافل میلاد نہیں منعقد کیں ،بجا ہے ۔صحابہ رضی اللہ عنہم اور تابعین رحمہم اللہ کے محافل میلاد منعقد نہ کرنے کی ایک وجہ یہ بھی ہو سکتی ہے کہ وہ دن رات دین کے زیادہ اہم کاموں میں مشغول رہتے تھے۔ (شرح صحیح مسلم 179/3)

(۹) مولانا مفتی محمد حسین نعیمی فرماتے ہیں :عاشوراء اور ربیع الاول کے جلسے جلوس یادگاروں کے سلسلے میں نکالے جاتے ہیں ۔ یہ مذہبی نقطہ نظر سے نہ فرض ہے نہ واجب ۔ ایسے جلسے جلوس دنیا کے دیگر اسلامی ممالک میں نہیں نکالے جاتے کیونکہ یہ دین کا حصہ نہیں۔

(روزنامہ جنگ لاہور 13اکتوبر 1984)

(۱۰)متحدہ ہندوستان میں 1933ء کو پہلی مرتبہ لاہور میں جلوس انجمن فرزندانِ توحید نے نکالا ۔

(اخبار کوہستان ،22جولائی 1964)

ملاحظہ :

عید میلاد النبی ﷺ منانے والے مسلمان بھائیوں کے لیے لمحہ فکریہ ہے کہ جو کام خود نبی ﷺ نے زندگی بھر نہ کیا اور نہ ہی صحابہ رضی اللہ عنہم ،تابعین ؒرحمہم اللہ اور آئمہ دین نے کیا حتیٰ کہ امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ اور ان کے تلامذہ نے بھی نہ کیا وہ دین اور نیکی کیسے بن سکتا ہے ؟

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے