انقلاب کا لفظ آج کل اتنا عام ہو گیا ہے کہ ذرا ذرا سی سطحی تبدیلیوں کے لئے بھی اسے استعمال کیا جاتا ہے، ایسی زندگیاں جو نہ زندگی کا رخ بدلتی ہیں ،نہ سوچ کے انداز میں کوئی تغیر لاتی ہیں ،نہ تہذیب و تمدن کے سلسلے میں کسی صحت مندانہ تبدیلی کا اہتمام کرتی ہیں اور جن کےذریعے سے اگر کوئی شئے جبراً کسی تبدیلی کا شکار ہوتی ہے تو استحکام اور پائیداری کے حوالے سے کوئی قابل ذکر تاریخی اثاثہ نہیں چھوڑتی ۔جبکہ حقیقتاً اگر ہمہ جہتی تبدیلی کا کوئی پائیدار،مستحکم اور لاثانی انقلاب کہیں روئے زمین پر کبھی برپا ہوا ہے تو یہ بات بلا خوف تردید کہی جا سکتی ہے کہ وہ واحد انقلاب وہی ہے جس کے رہنما محمد رسول اللہ eہیں ۔اس لئے کہ ان کے لائے ہوئے اس انقلاب نے زندگی کے کسی ایک پہلو میں ہی تبدیلی نہیں کی بلکہ اس کے فکروعمل کے سارے انداز و اطوار بدل دیے ،بنیادی سوچ بدل دی،عقیدہ تبدیل کر دیا،رسومات ،بندگی سے لے کر معاملات زندگی تک،فرد سے لے کر جماعت تک،خاندان سے لے کر قبیلے تک، معاشرے سے لے کر ریاست تک اور معیشت سے لے کر سیاست تک ہر چیز کو ایسا بدلا کہ اس کی بینادیں ہی تبدیل کر دیں۔یہ تبدیلی نہ وقتی تھی اور نہ جزوی بلکہ اتنی ہمہ گیر تھی کہ آج ہمیں تاریخ سے پوچھنا پڑتا ہے کہ اسلام کے لائے ہوئے اس انقلاب سے پہلے انسان اور اس کا اجتماعی نظام کہاں کھڑا تھا۔اور آج اسلام انہی قدروں کو کہاں لے آیا ہے ۔اسلام کے اس انقلاب کا استحکام بھی ایسا ہی حیران کن ہے کہ اس کی پائیداری زندگی پر ایسی حاوی ہوئی کہ بے عملی کی ہزار طوفانی ہوائیں اور وقت کے بےشمار حوادثات بھی اس انقلابی کام کو اپنی منزل سے ہٹا نہیں سکے۔

اسلام کے اس فکری انقلاب کا آغاز اللہ کے رسول e نے جس مقام سے کیا وہ انسانوں کا وہ مشترکہ سرمایہ ہے جو حضور eکی آمد سے پہلے بھی لوگوں کے پاس موجود تھا،چاہے اس کا تصور حقیقت سے کتنا ہی دور ہو گیا تھا مگر بہر حال انسانی معاشرے کے پاس اس عقیدے کی صورت میں خالق کائنات کا ایک تصور موجود تھا اور وہ یہ تھاکہ ہمارا ایک بنانے والاہے مگر اب ہماری زندگی میں اس کا کوئی دخل نہیں ہے ۔اس کو راضی کرنے کے لئے دو چار پرستش کی رسمیں ہر ایک کے پاس موجود تھیں مگر اس کے ایک ہونے ،بااختیار ہونے اور اس کے سامنے جوابدہ ہونے کا تصور مشرک معاشروں میں مفقود ہو گیا تھااور کتابی معاشروں میں دھند لا گیا تھا اور انسانوں نے اپنی تقدیریں اپنے خود ساختہ معبودوں کے حوالے کر دی تھیں ۔اور صورت حال یہ تھی کہ دنیا میں ذرے سے آفتاب تک اور پانی سے پہاڑ تک ہر چیز خدا بن گئی تھی۔

کہیں معبود تھے پتھر کہیں مسجود شجر

ایسے ماحول میں محمد eنے اللہ کے ایک ہونے ،اسی کی عبادت کرنے ،اسی سے لو لگانے اور اسی سے اپنی ضرورتوں میں رجوع کرنے کی دعوت کا اعلان فرمایا۔ اسی اللہ کی طرف بلایا جو خالق بھی ہے اور مالک بھی، بادشاہ بھی ہے اور رہنمائی دینے والا بھی۔اسلامی انقلاب کی یہ وہ سب سے پہلی اور بنیادی بات ہے ،جس سے اس انقلاب کے دوسرے اجزا فراہم ہوتے ہیں اور اس کے دوحصے ہیں ایک یہ تصور کے الٰہ ہے اور دوسرا یہ عقیدہ کہ خدا کی ان صفات کا حامل کوئی اور دوسرا نہیں ۔ یہاں یہ بات پھر دہرانے کی ہے کہ دنیا خدا کو مانتی تھی مگر اس صورت میں کہ اللہ ہے ۔مگرحضورeنے جو پیغامات دعوت دیا اس کا امتیازی وصف یہ ہے کہ اللہ ہی ہے یعنی اللہ کے سوا نہ کوئی معبود ہے نہ کوئی مسجود ہے ،نہ رب ہے، نہ الٰہ ،نہ مالک ہے ،نہ بادشاہ اور وہ کسی ایک کا نہیں سب کا ہے۔قرآن نے اس کی وضاحت اپنی دعوت کے آغاز ہی میں کر دی ۔

وَرَبَّکَ فَکَبِّرْ (سورۃ المدثر)

’’آپ اپنے رب کی بڑائی بیان کیجئے۔‘‘

اور وہ رب کیسا ہے۔؟

قُلْ ھُوَاللہُ اَحَدٌ (اخلاص)

’’آپ فرما دیجئے کہ وہ اللہ یکتا ہے۔‘‘

نہ کوئی اس کا شریک ہے نہ اس جیسا۔یہی عقیدہ توحید وہ سارا سرمایہ انقلاب ہے جس نے اسلام کے انقلابی پیغام کو زندگی کے سارے گوشوں پر پھیلایا اور اسی کو قبول کرنے کا نتیجہ تھا کہ انسانی معاشرے میں وہ انقلاب عظیم برپا ہوا جس نے زندگی کےپورے نظام کو بنیادی طور پر تبدیل کر دیا۔

عقیدہ توحید کی طرف حضور eکی دعوت کئی پہلوؤں سے غور و فکر کے کئی دروازے وا کرتی ہےجن میںسب سے پہلی بات یہ ہے کہ عقیدہ توحید سے دعوت انقلاب کا آغاز اس بات کی دلیل ہے کہ یہ تبدیلی جہاں سے شروع ہو رہی ہے یا انسانوں کا جو معاشرہ داعی توحید کے سامنے ہے ،اس سے نہ کسی مصالحت کی امید ہے نہ کچھ لو اور دو کی بنیاد پر کوئی وقتی تبدیلی لانا مطلوب ہے بلکہ یہ انقلاب پہلی ضرب انسانی عقیدے پر لگا رہا ہے اور عقیدہ آدمی کا سب سے نازک معاملہ ہوتا ہے جس پر کوئی شخص کچھ سننے کے لئے تیار نہیں ہوتا۔ا س نازک معاملے سے دعوت کا آغاز کرنا اس بات کی دلیل ہے کہ انقلاب برپا کرنے والا حقیقتاً اپنے فلسفہ انقلاب کا خالق نہیں بلکہ وہ کسی اور کا مقرر کردہ بااختیار نمائندہ ہے جو اپنے مالک کی فراہم کردہ دعوت انقلاب کو اسی کی ہدایت و رہنما ئی میں اور اسی کے مقرر کئے ہوئے طریقہ کا ر کے مطابق برپاکرنے کے لئے سعی کر رہا ہے لہٰذا یہیں سے اس فکری انقلاب کی دوسری بنیاد بھی سامنے آجاتی ہے اور وہ یہ ہے اسلام کا تصور رسالت کہ لوگو،میں کوئی نیا پیغام لایا ہوں نہ کوئی نئی بات کہنے آیا ہوں ،نہ اپنے کام پر تم سے کسی معاوضے کا طلبگار ہوں ،نہ ستائش کا امید وار بلکہ میں تو تمہیں وہی بھولا ہوا سبق یاد دلانے کے لئے آیا ہوں جو زمین پر آنے والے انسان کو دیا گیا تھا اور تسلسل کے ساتھ یاد دلایا جاتا رہایہاں تک کہ اب اسی کی تکمیلی اور اختتامی یاد دہانی کے لئے میں آگیا ہوں۔اور وہ سبق یہ ہے:

يٰٓا أَيُّهَا النَّاسُ اعْبُدُوا رَبَّكُمُ الَّذِي خَلَقَكُمْ وَالَّذِينَ مِنْ قَبْلِكُمْ لَعَلَّكُمْ تَتَّقُونَ

(سورۃ البقرہ:آیت 21)

’’لوگو،اپنے اس رب کی بندگی کرو جس نے تمہیں پیدا کیا اور تم سے پہلے لوگوں کو بھی پیدا کیا تاکہ تم پرہیز گار بن جاؤ ۔‘‘

اس فکری انقلابی دعوت میں ایک پہلو یہ بھی غور طلب ہے کہ یہ انسانوں کو اپنے اعمال کے لئے جوابدہ بھی قرار دیتی ہے اور یہ اس فکری انقلاب کی تیسری بنیاد ہے جسے ہم تصور آخرت سے تعبیر کرتے ہیں یعنی مرنے کے بعد زندہ ہونا ہے اور پھر اپنے سارے اعمال کے لئے اللہ کے سامنے جوابدہ ہونا ہے۔اور جس طرح ہر مظاہر پرست ،سطحی ذہن رکھنے والے آدمی کے لئے اپنے خود ساختہ معبودوں کی فوج ظفر موج کو چھوڑ کر ایک اکیلے خدا پر راضی ہو جانا بڑا مشکل کام تھا۔۔۔اور اسی لئے مشرکین مکہ نے حضور eکی مخالفت میں اپنا بھرپور زور لگا دیا اور عقیدئہ توحید کے ماننے والوں کے خلاف جبر و ظلم کا ہر ہتھکنڈا بے دریغ استعمال کیا۔اسی طرح کسی مفاد پرست ظالم غاصب اور خائن فرد کے لئے تصور آخرت کو تسلیم کرکے اس کے مطابق اپنے اندر تبدیلی لانا بہت مشکل کام ہے کیونکہ یہ تصور آدمی کو ذمہ دار اور خود احتساب بناتا ہے کہ ان دیکھے خدا کے سامنے حاضری کو حق الیقین اور عین الیقین کی طرح مانے بغیر یہ بات ممکن نہیں کہ کوئی آدمی اپنی حد میں رہے اور جب کوئی نہ دیکھ رہا ہو تب بھی خیانت نہ کرے ۔جب کوئی گواہ نہ ہو تب بھی چوری سے اجتناب کرے،جب کوئی روکنے والا نہ ہو تب بھی دست درازی سے گریزاں ہو۔یہ اسی عقیدے کا خاصہ ہے کہ جس نے اس فکری انقلاب کو ایک ایسا حیران کن منظر اظہار بخشا کہ اسے مان لینے کے بعد انسانی معاشرہ عظمت کردار کے اس مقام پر آگیا جہاں لوگوں نے خود اپنے آپ کو ،اگر کبھی ان سے جرم سرزد ہو گیا ،سزا کے لئے پیش کر دیا۔

رسول اللہ eکا لایا ہوا یہ انقلاب عظیم اپنی ان فکری بنیادوں پر باشعور انسانوں کا بلا جبر واکراہ ،رضاکارانہ طور پر قبول کیا ہو اور وہ انقلاب ہے جس نے تیئس سال میں ان کی زندگی کے پورے نظام کو اس طرح بدل دیا کہ اس میں ان کے عہد جہالت یعنی ماضی کا کوئی شائبہ بھی باقی نہ رہا ۔ہزاروں بتوں کو عبادت گاہوں سے لے کر دلوں کی فضاؤں تک سے ایسا دیس نکالا کہ پھر بت خانے اپنی ویرانی کا نوحہ پڑھنے کو بھی باقی نہ رہے۔اور انسانی معاشرے ،اونچ نیچ ،ادنیٰ و اعلیٰ ،گورے اور کالے ،شرقی و غربی کے سارے خود ساختہ اضافی امتیازات سے ایسے پاک ہوئے کہ :

ایک ہی صف میں کھڑے ہوگئے محمود و ایاز

نہ کوئی بندہ رہا اور نہ کوئی بندہ نواز

یہ انقلاب ایسا عجیب و غریب انقلاب ہے کہ جو صدیوں  سے زندہ و تابندہ بھی ہے ،مستحکم بھی ہے اور رواں دواں بھی۔اگر کہیں کوئی تعطل آتا ہے تو محض وقتی طور پر،کوئی خرابی نظر آتی ہے تو عارضی ہے ،کوئی رکاوٹ سدراہ ہوتی ہے تو ذرا قوت سعی کو مہمیز کرنے کے لئے اور اپنی صفوں کو دوبارہ منظّم کرنے کے لئے اور اس انقلاب کو ماننے والے،اسے لے کر چلنے والے اس پہلی جماعت صحابہy سے لے کر آج تک کبھی اپنی راہ انقلاب سے ہٹے نہیں ہیں،اگر چہ کبھی کبھی رک ضرور گئے ہیں ،کچھ تعطل کے وقفے بھی آئے ہیں مگر ان کی ایسی ہی صورت ہے کہ جیسے صورت خورشید جینے والوں کی۔

ادھر ڈوبے ادھر نکلے   ادھر ڈوبے ادھر نکلے

یہ انقلاب ہمہ جہت بھی ہے اور ہمہ عہد بھی ۔لہٰذا زندگی کے ہر گوشے پر اس کی برکات سایہ فگن ہیں اور ہر عہد کے لوگوں کو اپنے قافلہ انقلاب میں شامل کرتے ہوئے یہ انقلاب اپنی منزل کی طرف رواں دواں ہے ۔ماضی کی صدیاں اس کے نور سے جگمگا رہی ہیں۔ حال کی اضطرابی کیفیتیں اس کے آغوش سکون میں اپنے لئے جگہ پانے کی منتظر ہیں اور مستقبل کے پاس اس کے سوا کوئی چارہ کار نہیں کہ سارے وقتی اورجزوی انقلابات سے دست بردار ہو کر اس کے سایہ رحمت میں آجائے اور دنیاایک بار پھر جبر وظلم سے نجات پائے ،انسانوں کی گردنوں سے انسانوں کی غلامی کے طوق اتر جائیں ،اللہ کے بندے اللہ سے تعلق کی بنیاد پر اپنے دلوں کی دنیا پرسکون بنا کر عدل و انصاف کا علم اُٹھائے رضائے الٰہی کی خاطر اپنا پیغام انقلاب لے کر اُٹھیں اور سب کے لئے اللہ کی رحمتوں کے دروازے اللہ کے حکم سے وا کر دیں۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے