يٰٓاَيَّتُهَا النَّفْسُ الْمُطْمَىِٕنَّةُ   ؀ ارْجِعِيْٓ اِلٰى رَبِّكِ رَاضِيَةً مَّرْضِيَّةً ؀

اے اطمینان پانے والی روح! اپنے پروردگار کی طرف لوٹ چل تو اس سے راضی، وہ تجھ سے راضی

رواں سال جاتے جاتے ہم سے ہمارا ایک عظیم علمی اثاثہ بھی لے گیا، امور حرمین شریفین کی کمیٹی کے سابق سربراہ اور امام حرم مکی الشیخ محمد بن عبد اللہ السبیل رحمہ اللہ جو کہ گذشتہ ہفتہ نوے سال کی عمر میں قضائے الہی سے وفات پا گئے انا اللہ و انا الیہ راجعون۔ اللہ رب العزت نے بقائے خلد کسی ذی نفس کے لیے نہیں رکھی یہ اللہ تعالی کی سنت ہے جس سے کسی بھی صورت میں کسی بھی انسان کے لئے مفر ممکن نہیں جیسا کہ قرآن مجید میں بیان کیا گیا :

{ إِنَّكَ مَيِّتٌ وَإِنَّهُمْ مَيِّتُونَ } [الزمر: 30]

اور ایک مقام پر فرمایا :

{كُلُّ نَفْسٍ ذَائِقَةُ الْمَوْتِ } [العنكبوت: 57]

قرآن مجید نے موت کو مصیبت (فَأَصَابَتْكُمْ مُصِيبَةُ الْمَوْتِ (المائدہ106)کے نام سے یاد کیا ہے غالبا نہیں بلکہ یقینا ایسے ہی افراد کی موت مصیبت ہو سکتی ہے اور شاید ایوب السختیانی رحمہ اللہ کا قول ایسی ہی کسی موت کے لیے کہا گیا ہے : مجھے جب بھی اہل سنت میں سے کسی فرد کی موت کا بتایا جاتا ہے گویا کہ میں اپنے جسم کے بعض اعضا سے محروم ہو جاتا ہوں۔ (الکائی)

میرے اور اہل سنت و جماعت کے ممدوح فضیلۃ الشیخ امام کعبہ محمدعبد اللہ بن السبیل رحمہ اللہ جنہوں نے تقریبا 45 سال مسجد الحرام کی امامت کی اور مختلف علمی اور انتظامی مناصب پر فائز رہے۔ بلکہ عبد اللہ جہیمان کی بغاوت کا واقعہ بھی اسی دوران پیش آیا جب آپ فجر کی نماز پڑھا کر فارغ ہی ہوئے تھے جو کہ یکم محرم 1400 کی میں پیش آیا تھا۔ مسجد الحرام میں آپ نے آخری نماز 11 ربیع الاول 1428 ہجری میں پڑھائی تھی۔

شیخ محترم رحمہ اللہ عالم اسلام کی ایک مقبول شخصیت تھے اور اسلامی ممالک کے سربراہوں سے والہانہ محبت کیا کرتے تھے ۔ شیخ محترم رحمہ اللہ معاشرے کے تمام طبقات کے ساتھ خیر اور بھلائی کے عملی قائل تھے۔ پوری دنیا میں اسلامی تحریکوں اور دین اسلام کی نشر واشاعت کے لیے کام کرنے والی تنظیموں کی سرپرستی اور مدد بھی کیا کرتے تھے ۔ یہی وجہ تھی کہ ان کے انتقال پر ہر طبقہ کے افراد نے اظہار تأسف کیا۔

جامعہ ابی بکر الاسلامیہ میں ظہر کی نماز کے بعد وکیل الجامعہ شیخ ضیا الرحمن اور شیخ نور محمد حفظہما اللہ نے دین اسلام کی نشر و اشاعت کے حوالے سے شیخ محترم رحمہ اللہ کی خدمات کا تذکرہ کیا اور غائبانہ نماز جنازہ شیخ نور محمد نے پڑھائی۔ اس کے علاوہ جماعت غربا اہلحدیث کے تحت جمعہ کے اجتماعات میں شیخ کے لیے غائبانہ نماز جنازہ کا اہتمام کیا گیا ۔ اور جامعہ بنوریہ عالمیہ کے مہتمم شیخ الحدیث مفتی محمد نعیم نے امام کعبہ محمد عبد اللہ بن سبیل رحمہ اللہ کے انتقال پر گہرے رنج و الم کا اظہار کیا۔

آپ کا مکمل نام محمد بن عبد اللہ بن محمد بن عبد العزیز السبیل ہے۔ آپ 1345 ھجری ⁄ 1924 میلادی میں مشہور شہر قصیم کے علاقے البکیریة میں پیدا ہوئے۔ ابتدائی تعلیم ایک مقامی مدرسہ میں حاصل کی۔ آپ کے اساتذہ میں آپ کے والد محترم رحمہ اللہ جو کہ قصیم میں قاضی تھے اور الشیخ عبد الرحمن الکریدیس سے بہت چھوٹی عمر میں مختلف کتب پڑھی جب آپ کی عمر صرف 14 سال تھی ۔ اس سے پہلے آپ نے بہتچھوٹی عمر میں اپنے والد صاحب رحمہ اللہ کے پاس قرآن مجید حفظ کر لیا تھا۔ اور کہا جاتا ہے کہ آپ اپنے آبائی علاقے میں اتنی کم عمری میں قرآن حفط کرنے والے اولین فرد تھے۔

فن تجوید اور قرات آپ نے معروف قاری الشیخ سعدی یاسین سے حاصل کیا اور اس کے بعد آپ نے اپنے بڑے بھائی عبد العزیز السبیلرحمہ اللہ جو کہ اپنے والد کی جگہ پر قصیم کے قاضی رہے، الشیخ محمد مقبل اور الشیخ عبد اللہ بن حمید رحمہم اللہ جمیعا سے علوم شرعیہ حاصل کیے۔

اس کے علاوہ مکۃ المکرمہ میں آپ نے مشہور محدث عبد الحق الہاشمی اور الشیخ ابو سعید عبد اللہ الہندی رحمہ اللہ سے علم حدیث میں اجازت حاصل کی۔

آپ نے تین شادیاں کی تھی اور ان تین بیویوں سے کل چار بیٹے ہوئے

پہلے بیٹے عمر السبیل جو کہ حرم کے امام تھے جن کا انتقال (1999)کےایک حادثے میں ہوا تھا

دوم ڈاکٹر عبد العزیز جو وزارت ثقافت و ٹیکنالوجی میں وکیل رہےاور ابھی سعودی عرب کے وزیر تعلیم کے مشیر ہیں۔

سوم ڈاکٹر عبد المالک جو کہ جامعۃ ام القری مکۃ المکرمہ میں تدریس کے فرائض انجام دے رہے ہیں

چہارم پروفیسر عبد اللہ السبیل جو کہ وزارت بلدیات میں وکیل کی حیثیت سے فرائض سر انجام دے رہے ہیں اور اسی حوالے سے کویت میں بھی کچھ عرصے رہے۔

فراغت کے بعد شیخ محمد سبیل رحمہ اللہ نے وزارۃ المعارف اور دیگر تعلیمی اداروں اور مختلف مساجد میں توحید، تفسیر، فقہ، اور اصول فقہ، فرائض ، نحو ، بلاغہ ، عروض اور قوافی وغیرہ کے حوالے سے تقریبا 20 برس تک تدریسی خدمات سر انجام دیں ۔ اسی دوران مدرسہ بکیریہ میں 1367 ھ میں ان کی تعیناتی بطور مدرس ہوئی اور 1373 ھ میں بریدہ کے مشہور المعہد العلمی میں مدرس کے طور پر منتخب ہوئے اور 1385 ھ میں شاہی فرمان کے مطابق مسجد حرام کے امام وخطیب اور صدرالمدرسین مقرر ہوئےیعنی مسجد حرام میں دروس دینے والے تمام مدرسین اور مراقبین کی ذمہ داری بھی سونپ دی گئی سال 1390 ہجری میں حرم مکی میں مذہبی امور سے متعلق کمیٹی کے نائب سربراہ مقرر ہوئے سال 1411ھ میں حرمین شریفین میں عمومی امور سے متعلق کمیٹی کے سربراہ بنائے گئے ۔ اور اس کے علاوہ شیخ سعودی عرب میں کبار علما کی کمیٹی اور رابطہ عالم اسلامی کے تحت المجمع الفقہی کے رکن بھی تھے۔

شیخ محمد بن عبد اللہ السبیل رحمہ اللہ طویل عرصہ حرم مکی کی امامت پر فائز رہے اور ان کے ایک بیٹے عمر بن محمد بن عبد اللہ السبیل رحمہ اللہ بھی حرم کی امامت پر فائز رہے اور انتہائی خوبصورت آواز کے مالک تھے جو چند سال قبل ٹریفک کے ایک حادثے میں شہید ہو گئے تھے۔

عالم اسلام پر چہار اطراف سے دشمنان اسلام کی فکری یلغار سے شیخ محترم رحمہ اللہ یہ محسوس کرتے تھے کہ عالم اسلام ان کاروائیوں سے آپس میں اختلافات کا شکار ہو سکتا ہے لہذا اس سے بچنا ازحد ضروری ہے جیسا کہ اپنے ایک مکتوب میں رقم طراز ہیں :

اعداء اسلام کی عادت رہی ہے ماضی و حال میں اسلام کی بیخ کنی کرنے پر ابناء اسلام کے قلوب سے ۔ اور ان کے سوایل خبیثہ میں سے ہے کہ وہ فقہ و فقہاء کے بارے میں شکوک و شبہات پیدا کرنے کے راستے پر چلے اور بعض جاہلوں اور بےوقوفوں کو مسخر کیا۔ سو انہوں نے مذاہب کے متبعین ( یعنی مقلدین) کے سامنے اختلافی مسائل کو اچھالا تاکہ ایک طرف تو وہ ان کے درمیان فسادو نزاع برپا کریں اور ان کو ان اختلافی مسائل کی وجہ سے ایسے امور سے غافل کردیں جو ان فقہاء کو گھیرے ہوے ہیں اور دوسری طرف مسلمانوں کو فقہ وفقہاء پر اعتماد کی دولت سے محروم کر دیں اور ان کو احکام دین اور مذاہب سے باہر کر دیں نتیجہ وہ اہواء و آراء کے شرک میں مبتلا ہو جائیں۔ اور البتہ تحقیق ماضی میں ائمہ اعلام ان سازشوں پر متنبہ ہوے تو انہوں نے ان اعداء اسلام کے چہروں سے نقاب الٹ دیا اور ان کے تمام راستوں میں ان کا تعاقب کیا۔ سو انہوں نے اختلاف فقہاء کی حقیقت کو واضح کرنے کے لیے چھوٹی اور بڑی کتابیں تالیف کیں۔ اور انہوں نے اصولی وفروعی اختلاف کے درمیان فرق واضح کیا۔ اور لوگوں پر ان اعداء اسلام کی بری نیات اور فساد مقاصد کو بھی خوب واضح کیا۔ شیخ الاسلام ابن تیمیہ کا فرمان جو بعض فقہی اختلافی مسائل پر بحث کے بعد ہے ملاحظہ ہو شیخ نے فرمایا۔

اور اس کی وجہ سے ان لوگوں کا معاون بن گیا جو اہل سنت کے مذاہب کے درمیان فتنہ پیدا کرتے ہیں تاکہ یہ داعیہ بن جاے ان کے اہل السنت والجماعت سے نکلنے کا اور رافضیوں اور ملحدین کے مذاہب میں داخل ہونے کا۔

اور اپنے ایک مکتوب میں مسلمانوں کو نصیحت کرتے ہوئے فرماتے ہیں :

آخر میں عرض یہ ہے کہ بے شک آج مسلمانوں کے لیے مناسب یہ ہے کہ وہ اپنے اندر اس وسعت اور فراخدلی کو قایم رکھیں جو ان کے سلف صالحین میں تھی اور اپنے نفسوں پر اس امر کے بارے میں تنگی پیدا نہ کریں جس میں اللہ نے وسعت رکھی ہے ۔ میں اللہ سبحانہ و تعالیٰ سے سوال کرتا ہوں کہ وہ مسلمانوں کو حق بات پر جمع کر دے تو یہ کہ وہ ہمیں ہدایت کنندہ اور ہدایت یافتہ بنا دے ۔ اللہ تمہارا نگہبان ہو ۔

شیخ محترم رحمہ اللہ امت مسلمہ میں اتحاد کے داعی تھے اس اعتبار سے آپ نے 50 سے زائد مختلف ممالک کے سو سے زائد سفر کیے۔ جس میں 1415 ھ کا مالی کا سفر قابل ذکر ہے جس میں مالی کے رئیس الفا عمر کوناری نے آپ سے درخواست کی کہ مالی کے مختلف قبائل میں کافی عرصے سے خونریز جنگ جاری ہے آپ ان کے مابین اصلاح احوال کی دعا کریں شیخ محترم رحمہ اللہ نے نہ صرف دعا کی بلکہ عملا ان قبائل کے زعما سے باقاعدہ مذاکرات کیے یہاں تک کہ ان قبائل میں صلح ہو گئی اور امن و امان قائم ہو گیا۔

سعودی عرب کا مشہور قرآن مجید کے حوالے سے جاری پروگرام ’’نور علی الدرب ‘‘آپ کی شرکت سے ہی مشہور ہوا اور اب وہ عالم عرب کا مقبول ترین پروگرام ہے ۔

شیخ کے معروف شاگردوں میں سے الشیخ صالح الفوزان جو کہ ھیئۃ الکبار کے رکن ہیں ، الشیخ عبد الرحمن الکلیہ جو کہ محکمہ علیا کے رئیس ہیں ، الشیخ مقبل بن ھادی الدواعی رحمہ اللہ جو کہ معروف یمنی محدث ہیں ۔

شیخ محترم کی معروف تالیفات

شیخ محترم رحمہ اللہ کی علمی جہود درج ذیل ہیں

۱۔         رسالۃ فی حد السرقۃ

۲۔         ردِّ قادیانیت پر رسالہ

۳۔        علم فرائض

۴۔        من منبر مسجد الحرام

۵۔        بیان حق الراعی و الرعیۃ

۶۔         حکم الاستغاثۃ بغیر المسلمین فی الجہاد

۷۔        الخط المشیر الی الحجر الاسود و مدی مشروعیتہ

۸۔        دعوۃ المصطفی صلی اللہ علیہ وسلم

۹۔         فتاوی و رسائل مختارۃ

۱۰۔        من ھدی المصطفی ﷺ جس میں منتخب احادیث کی شرح بیان کی گئی ہے۔

۱۱۔        حکم التجنیس بجنسیہ دولۃ غیر اسلامیہ

۱۲۔        دیوان شعر

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے