بِسْمِ اللهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ وَالْعَصْرِ اِنَّ الْاِنْسَانَ لَفِيْ خُسْرٍ اِلَّا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا وَعَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ وَتَوَاصَوْا بِالْحَقِّ ڏ وَتَوَاصَوْا بِالصَّبْرِ

زمانے کی قسم ! یقیناً تمام انسان خسارے میں ہیں۔ مگر وہ لوگ جو ایمان لے آئے ۔ اور نیک اعمال کرتے رہے ۔ اور ایک دوسرے کو حق بات کی نصیحت اور صبرکی تلقین کرتے رہے۔

اس کا چہرہ ہمیشہ کھلی کتاب تھا اور آج بھی یہی کیفیت تھی، مگر پہلے وہاں اطمینان، اعتماد اور معصومیت کی خوبصورتی رقم دکھائی دیتی تھی اور آج۔۔۔ آج یہ سب کچھ غائب تھا۔۔۔ اس کے بجائے غم، دکھ، کرب اور اضطراب کے آثار واضح تھے۔

اچھا معلم، وہی ہوتا ہے جو کتاب کی طرح شاگردکا چہرہ بھی پڑھنا جانتا ہو اور الحمد للہ یہ عنایت، اللہ نے مجھ پر بھی کررکھی تھی اور بھلا میں فائزہ کا چہرہ پڑھنے میں غلطی کیسے کرسکتی تھی!

دوران ِ سبق میں نے اسے ذہنی طور پر غیر حاضر پایا اور مجھے کئی موقعے ایسے ملے تھے کہ میں سبق کے متعلق اس سے کوئی سوال پوچھتی اور اس کی خاموشی اس کےلیے شرمندگی کا باعث بن جاتی، مگر میں ان اساتذہ میں سے نہیں جو اپنے شاگردوں کو سزا کے چابک سے آگے بڑھاتے ہیں۔ میرے خیال میں شاگرد کی غفلت دور کرنےکےلیے پہلے اس کی غفلت کا سبب جاننا ضروری ہے۔ تبھی اس کے لیے کوئی مناسب علاج تجویز کیا جاسکتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ میں نے کلاس کی دوسری طالبات کے سامنے فائزہ سے کوئی سوال نہ پوچھا۔ کلاس ختم ہونے کے بعد میں نے اسے اپنے کمرے میں بلایا اور ہمدردی سے پوچھا:

لگتا ہے آج ہماری ہونہار شاگردہ کچھ پریشان پریشان سی ہے۔۔۔ خیریت تو ہے؟

وہ قدرے خاموشی کے بعد بولی: نہیں، سبق کے متعلق کوئی پریشانی نہیں ہے!

اس موقعے پر اس نے مسکرانے کی ناکام کوشش کی، مگر چہرے نے اس کا ساتھ نہ دیا۔ میں نے کہا:

نہیں بیٹی فائزہ، سبق تو آپ سے دھیان سے سناہی نہیں گیا، اس لیے اس کے متعلق کسی سوال کے پیدا ہونے کے کیا معنی۔۔ میں تو وہ وجہ جاننا چاہتی ہوں جس نے تمہارے چہرے سے سکون چھین کر تمہیں عجیب اذیت سے دوچار کردیا ہے۔

اس دفعہ وہ خاموش رہی۔ اس کا چہرہ بتا رہا تھا کہ الفاظ اس کی نوک ِ زبان پر آرہے ہیں لیکن وہ آپس میں گڈ مڈ ہورہے ہیں۔ میں اپنی کرسی سے اٹھی اور اس کے سر پر محبت بھرا ہاتھ رکھ کر بولی:

بیٹی، تم مجھے اپنا ہمدرد پاؤ گی، بہترین رازداں پاؤ گی، بولو۔۔۔ تاکہ تمہارا غم ہلکا ہو۔

اس دفعہ اس کی آنکھوں سے دو آ نسو ٹپ ٹپ میز کے صاف شفاف شیشے پر گر پڑے۔ اس نے لمحے بھر کو نظریں اُٹھا کر پھر جھکا لیں اور بمشکل بولی: میں۔۔۔ بھلا وہ سب کچھ کیسے بتا سکتی ہوں۔۔۔ مجھے۔۔۔

حیا آڑے آتی ہے۔۔۔ میں نے اس کا ادھورا جملہ مکمل کیا۔۔۔ اور ایک دفعہ پھر اس کے سر پر محبت بھرا ہاتھ رکھ کر کہا:

فائزہ بیٹی، میں تمہیں یقین دلاتی ہوں کہ تمہاری بات سہیلی بن کر سنوں گی اور تمہارا مسئلہ ایک ماں بن کر سلجھاؤں گی۔۔۔ تم کہو تو سہی!

میری ڈھارس اسے اپنے راز سے پردہ ہٹانے میں کامیاب نظر آرہی تھی۔ چند لمحوں کے بعد آخروہ بولی: یہ ایک تقریب کی بات ہے، کچھ ایسا اتفاق ہوا کہ میری اُس سے بات ہوگئی۔۔۔

یہاں تک کہہ کر وہ پھر خاموش ہوگئی۔ اس کا چہرہ حیا سے سرخ ہوگیا۔ میں نے پھر اس کی ہمت بندھائی تو وہ دوبارہ بولی:اُس کی گفتگو بڑی مہذب اور دل کش تھی۔ اس میں خلوص جھلکتا تھا اور یہ میراپہلا تجربہ تھا۔ نہ جانے کیوں مجھے اپنا دل اس کی طرف مائل محسوس ہونے لگا، مگر میں نے اس سے ایسی کوئی بات نہ کہی جس سے میری اِ س کیفیت کا اظہار ہوتا ہو۔۔۔

وہ کچھ لمحوں کےلیے خاموش ہوئی تو میں نے کہا: اور اِ س کے بعد تمہیں اُس کا فون آیا ہوگا!

میری یہ بات سن کر وہ بھونچکا رہ گئی۔۔۔ تھوک نگلتے ہوئے بمشکل یہی الفاظ ادا کرسکی: آپ کو کیسے معلوم ہوا؟

میں نے ہلکی سی مسکراہٹ کے ساتھ کہا: اس کے بعد یوں ہی ہوتا ہے پیاری بیٹی۔ تمہارے ساتھ ہرگز کوئی انوکھا واقعہ نہیں ہوا۔ تم بے دھڑک پوری بات بتاؤ!

میرے اس جملے نےمیرے متعلق اس کے اعتماد میں بے پناہ اضافہ کردیا تھا۔۔۔ وہ کہنے لگی:

اس ٹیلی فون کے بعد وہ روزانہ فون کرنے لگا۔۔ سچی بات تو یہ ہے کہ اس کی گفتگو میں مجھے کوئی خرابی نہیں لگتی ، بلکہ وہ ایک بھلا آدمی ہی محسوس ہوتا تھا۔ ۔ ۔ پھر ایک دن اُ س نے کھلے لفظوں میں مجھ سے اپنی دلی وابستگی کا اظہار کردیا۔۔ میں نے بھی کہا کہ ایسے ہی جذبات میں اس کےلیے محسوس کرتی ہوں ۔ اس کے بعد ہم ٹیلی فون پر رات گئے تک لمبی لمبی گفتگو کرتے۔۔

وہ لمحہ بھر کےلیے رُکی، مگر میں نے کوئی مداخلت نہ کی اور خاموش رہی۔ اس نے بھی اپنی بات کو آگے بڑھایا۔۔۔

اور چند روز قبل ا س نے کہا کہ میں کسی نہ کسی طریقے سے اس سے ملاقات کروں تاکہ ہم شادی کے متعلق آپس میں بات کرسکیں، مگر میں نے صاف انکار کردیا۔۔۔ میں نے کہا: بھلا یہ کیسے ممکن ہے؟ لیکن اس کی باتوں کے سامنے میں بالکل ڈھیر ہوگئی۔ اس نے کہا: شادی سے پہلے ایک آدھ ملاقات کی شریعت اجازت دیتی ہے۔ میں نے کہا: یہ تو ٹھیک ہے ، مگر اتنی ہمت نہیں پاتی کہ گھر سے نکل کر تم سے ملاقات کروں، تب اس نے اپنی محبت کا واسطہ دے دیا۔۔۔ لیکن میں ہمت نہ کرسکی اور اس کے بعد تین دن تک اس کا کوئی فون نہ آیا، مگر پچھلی رات اس نے صاف صاف کہہ دیا کہ اگر میں نے آج ملاقات کے متعلق نہ بتایا تو وہ مجھ سے ناراض ہوجائے گا۔۔۔

اور اسی بات نے تمہیں پریشان کردیا ہے! میں نے دل ہی دل میں اس کی نادانی پر ہنستے ہوئے کہا:ہاں! یہ بھی پریشانی کی بات ہے، مگر اصل وجہ یہ ہے کہ مجھے شک ہوگیا ہے کہ ہمارے تعلقات کا علم میرے گھر والوں کو بھی ہوگیا ہے ۔۔۔

یہاں تک پہنچ کر اس کی آواز گلوگیر ہوگئی۔۔۔ اور وہ خاموشی سے میرے رد ِ عمل کا انتظار کرنے لگی۔

میں اس شکاری کے متعلق سوچ رہی تھی جس نے اپنی لچھے دار گفتگو سے معصوم فائزہ کو کامیابی سے شکار کیا تھا۔ مجھے فائزہ کو فون کرنے والے کے مطلب پرست ہونے کا یقین تھا۔ اس کی بڑی واضح وجہ تھی’ وہ یہ کہ اگر اس کا فائزہ سے واقعی شادی کرنے کا ارادہ ہوتا تو اس پر ڈورے ڈالنے اور اسے گھر سے باہر نکل کر ملاقات کرنے کےغیر شرعی فعل پر آمادہ کرنے کی بجائے، اپنے ماں باپ سے رابطہ کرتا اور وہ معروف طریقے کے مطابق فائزہ کے بزرگوں کو شادی کا پیغام دیتے، لیکن وہ تو دراصل پھول پھول پر منڈلانے والا آوارہ بھنورا تھا۔

میں انہی خیالوں میں الجھی ہوئی تھی کہ فائزہ کی بے چین آواز نے مجھے چونکا دیا: میں نے اپنی ساری باتیں آپ کو اپنا سمجھ کر بتادی ہے ۔۔۔ مگر آپ۔۔۔ اس کی آواز ایک دفعہ پھر رُندھ گئی۔

میں نے فوراً کہا: نہیں بیٹی! ایسی بات نہیں۔۔۔ میں سوچ رہی تھی کہ تم سے تفصیل سے بات کروں، مگر یہاں اس کا موقع نہیں ہوگا۔ تم ایسا کرو کہ شام کو میرے گھر آؤ۔۔۔ وہاں تم سے کھل کر بات ہوگی۔۔۔ اور فکر مت کرو ۔ تمہارا مسئلہ اللہ کی مہربانی سے حل ہوجائے گا۔۔۔ اور ہاں’ ایک غلط فہمی میں ابھی سے دور کرنا چاہتی ہوں، وہ یہ کہ شریعت نے شادی سے پہلے ملاقات کی نہیں بلکہ ایک نظر دیکھنے کی اجازت دی ہے۔

میری اس تسلی اور اپنے دل کا حال کہہ دینے کے بعد وہ پہلے سے بہت بہتر دکھائی دے رہی تھی۔ اس نے شام کو آنے کا وعدہ کیا اور ممنونیت کا اظہار کرتے ہوئے رخصت ہوگئی۔

مجھے فائزہ کی ذہنی اور دلی کیفیت کا بخوبی اندازہ تھا۔ مجھے علم تھا کہ اگر اس موقعے پر اس پر توجہ نہ دی گئی تو وہ اپنی زندگی تباہ کرڈالے گی۔ میں نے اسی وقت اپنی بعض خاص سہیلیوں کو فون کرکے انہیں مسئلے کی نزاکت سے آگاہ کیا اور گزارش کی کہ وہ شام کو گھر تشریف لائیں۔شام مقررہ وقت پر فائزہ کو اس کا بھائی گھر چھوڑ گیا۔وہ جب ڈرائنگ روم میں داخل ہوئی تو دیگر خواتین کو دیکھ کر حیران رہ گئی۔ میں نے اسے بتایا کہ یہ مہمان ہیں۔ پھر میں نے فائزہ کا تعارف کرایا کہ وہ میری ایک ہونہار شاگردہ ہیں۔ اسی دوران ملازمہ نے چائے کے برتن رکھے۔ کچھ دیر مہمان خواتین کی فائزہ سے تعارفی گفتگو ہوتی رہی۔میں نے جب محسوس کیا کہ اب اجنبیت خاصی حد تک کم ہوگئی ہے تو بات کا آغاز کیا۔ میں نے فائزہ کو مخاطب کیا:بیٹی’ میں نے ان خواتین کو اس لیے نہیں بلایا کہ تمہاری بات ان کے سامنے رکھوں’ بلکہ ان کو اس لیے زحمت دی ہے کہ یہ اپنی زندگی کے کچھ اہم واقعات تمہارے سامنے رکھیں، ان کے تجربات کی روشنی میں تم اپنے معاملات کو بہتر طور پر دیکھ سکو گی۔

پھر میں نے دائیں طرف بیٹھی اپنی ایک پرانی شاگردہ ثویبہ خالد کی طرف اشارہ کیا اور کہا: ثویبہ’ میری آپ سے گزارش ہے کہ جس واقعے نے آپ کی زندگی میں ایک ہل چل مچا دی تھی اور اگر اللہ کا فضل وکرم شامل نہ ہوتا تو زندگی آپ کےلیے سوہان روح بن جاتی۔۔۔ وہ واقعہ آج ایک مرتبہ پھر ہمیں سنائیں!

ثویبہ نے ہاتھ میں پکڑے چائے کے کپ سے آخری گھونٹ لیا’ کچھ لمحے فضا میں گھورا اور پھر ایسے معلوم ہوا جیسے وہ اپنے ماضی میں کھو گئی ہو۔ وہ خیالوں ہی خیالوں میں اسی عمر میں پہنچ گئی تھی ’ جس میں اب فائزہ تھی۔ وہ کہہ رہی تھی:

کہانیاں ہمیشہ اتفاقات سے شروع ہوتی ہیں او ریہ بھی ایک اتفاق ہی تھا کہ فون کی گھنٹی بجی تو معمول کے خلاف’ رسیور میں نےاُٹھایا۔ وہ کوئی بھلی سی آواز والا مرد تھا۔ بڑی مہذب اور پر اعتماد آواز میں بولا: آپ کون بول رہی ہیں؟

میں نے سمجھا کہ ابو کے جاننے والے کوئی صاحب ہیں، اس لیے آواز سے مرعوب ہوکر بتادیا کہ ثویبہ ہوں، مگر قدرے ہچکچاتے ہوئے پوچھا کہ آپ کو کس سے بات کرنی ہے؟آپ سے! اس نے تُرت جواب دیا۔

میں گھبرا گئی۔ بولی: جی آپ کون ہیں؟ اس سوال پر کچھ خاموشی کے بعد اس نے کہا: بھئی سیدھی سی بات ہے ، غلطی سے رانگ نمبر مل گیا۔۔۔ مگر گزارش یہ ہے کہ۔۔۔

اس نے اتنا ہی کہا تھا کہ میں نے فون بند کردیا’ مگر کچھ لمحوں کے بعد فون دوبارہ بول اُٹھا، میں نے اشتیاق اور تجسس کی ملی جلی کیفیت سے رسیور دوبارہ اُٹھایا۔۔۔ وہی تھا۔۔۔ کہنے لگا:دیکھئے محترمہ، آپ بے شک مجھ سے بات نہ کریں لیکن عرض ہے کہ میں تو آپ کے سوال کا جواب دے رہا تھا لیکن آپ نے رابطہ ہی منقطع کردیا۔ خود انصاف کیجئے، کیا یہ بد اخلاقی نہیں ہے؟ دیکھیں آپ۔۔۔

میں بس یہی دو لفظ کہہ پائی۔۔۔ کسی اجنبی سے اس سے زیادہ بات کرنے کی مجھ میں ہمت ہی نہ تھی۔ اس نے میری کیفیت کو بھانپ لیا اور بولا:چلیں چھوڑیں، آپ مجھے اجازت دیں کہ میں اپنا تعارف کرا سکوں!

حیرت کی بات تھی کہ میں بھول چکی تھی کہ میں ایک اجنبی سے بات کررہی ہوں اور مجھے فون بند کردینا چاہیے۔ میں خاموش رہی اور وہ بولنے لگا:میرا نام شہریار ہے ۔ یونیورسٹی میں فائنل ایئر کا طالب علم ہوں۔ گلبرگ میں رہتا ہوں اور مطالعے کے علاوہ اچھے لوگوں سے دوستی میرا مشغلہ ہے! اور آپ ؟

اس کے سوال نے ایک مرتبہ پھر مجھ پر گھبراہٹ طاری کردی اور میں نے فون بند کردیا۔

پھر اس کا فون اگلے دن آیا۔۔۔ اور سچی بات ہے کہ میں خواہش رکھتی تھی کہ وہ مجھے دوبارہ فون کرے، بلکہ میں تو سارا دن اسی کے فون کے متعلق سوچتی رہی اور اس کے بارے میں کسی کو کچھ نہ بتایا۔

اس دفعہ میں نے بھی اپنا تعارف کرایا کہ میں کالج میں بی۔ اے کی طالبہ ہوں۔ دراصل میں نے دل ہی دل میں وہ ساری باتیں سوچ رکھی تھیں جو اپنے متعلق بتانی تھیں۔ باہمی تعارف کے بعد، اس نے میرے گھر والوں کے متعلق پوچھا، پھر کالج اور مضامین پر بات کرنے لگا اور یوں میری اس سے گفتگو چل نکلی۔

گھر والوں کے متعلق معلوم ہوجانے کے بعد وہ ایسے وقت فون کرتا تھا جب فون پر میں ہی ہوتی۔ آہستہ آہستہ ہماری ٹیلی فون پر گفتگو شناسائی میں بدلنے لگی اور دوسرے ہی ہفتے مجھے اندازہ ہوگیا کہ شہریار مجھ سے بے پناہ لگاؤ رکھتا ہے اور میں بھی اس کےلیے دل میں مچلنے والے جذبات کو محسوس کررہی تھی۔ چنانچہ جب اس نے مجھ سے محبت کا اظہارکیا تو میرے لیے اسے قبول کرنے میں کوئی رکاوٹ نہیں تھی۔

شہریار کی ایک بات بہت عجیب تھی، وہ یہ کہ جب اس کا فون گھر کا کوئی دوسرا فرد اُٹھاتا تو رسیور مجھے دے دیا جاتا کہ تمہاری سہیلی کا فون ہے۔ بعد میں وہ مجھے بتاتا کہ رسیور پر میری آواز نہ پاکر وہ نسوانی آواز میں میرے متعلق پوچھتا تھا۔۔۔ اس وقت تو میں اسے ایک شرارت سمجھتی اور خوب ہنستی تھی لیکن اگر میری عقل پر جذبات غالب نہ آگئے ہوتے تو اس میں بھی شہریار کو پہچاننے میں مدد مل سکتی تھی۔۔۔لیکن میں نے تو اپنے آپ کو شیطان کے حوالے کردیا تھا۔۔۔ اور پھر ایک دن اس نے مجھ سے ملاقات کرنے کی خواہش ظاہر کی۔

اپنی آپ بیتی سنانے والی خاتون چند لمحوں کےلیے رُکی۔ فائزہ کےلیے اس کی کہانی کا یہ حصہ بہت اہم تھا۔ اس وقت وہ ہمہ تن گوش تھی۔ وہ خاتون بتانے لگی:پہلے تو میں آمادہ نہ ہوسکی لیکن اس کے مسلسل اصرا ر کے بعد یہ طے پایا کہ وہ کالج کے باہر گاڑی میں اس کا انتظار کرے گا اور میں کالج جانے کے بجائے اس کے ساتھ چلی جاؤں گی۔ اور اللہ مجھے معاف کرے، میں نے ایسا ہی کیا۔میں نے اسے دیکھا تو نہیں ہواتھا، اس لیے اس نے مجھے اپنی گاڑی کا نمبر اور رنگ بتا دیا تھا۔ چنانچہ مجھے اسے پہچاننے میں دقت نہ ہوئی اور میں اس کی گاڑی میں بیٹھ گئی۔ گاڑی میں بیٹھتے ہی مجھ پر عجیب گھبراہٹ طاری ہوگئی۔ میرا ضمیر مجھے بری طرح ملامت کرنے لگا۔دوسری طرف شہریار بہت خوش تھا۔ لیکن مجھے اس سے عجیب طرح کا خوف محسوس ہورہا تھا۔ مجھے نہ جانے کیوں اس کی آنکھوں میں ایک شیطانی چمک محسوس ہورہی تھی۔ گاڑی میں اِدھر اُدھر کی سیر کرنے کے بعد اس نے کہا کہ وہ مجھے ایک دوست کے گھر لے جائے گا، جہاں ہم بیٹھ کر آرام سے گفتگو کرسکیں گے۔ میں بھلا اس وقت کیا کہہ سکتی تھی، خاموش رہی۔شہریار اب اندرون شہر تنگ تنگ سڑکوں پر گاڑی بھگاتا ایک محلے میں داخل ہوا۔

میں یہ بات محسوس کیے بغیر نہ رہ سکی کہ یہاں ہر گزرنے والا شہریار کو عجیب وغریب طریقے سے سلام کررہا ہے۔

میرے ذہن میں خوف ناک اندیشوں نے جنم لینا شروع کردیا تھا۔آخر ہم ایک مکان میں داخل ہوئے۔ مجھے ایک سجے ہوئے ڈرائنگ روم میں بٹھایا گیا اور خود شہریار اندر چلا گیا۔ ڈرائنگ روم میں لگی عورتوں اور مردوں کی ناقابل ِبیان تصویروں سے حقیقت انتہائی تلخ ہوکر میرے سامنے آگئی تھی۔ میں فوراً اُٹھ کھڑی ہوئی۔

اسی دوران مجھے شہریار کی کسی سے باتیں کرنے کی آواز سنائی دی۔میں تجسس کے ہاتھوں مجبور ہوکر آواز کی طرف لپکی۔ پھر ایک پردے کے پیچھے مجھے آواز کچھ بہتر سنائی دینے لگی۔ یہ دو آوازیں تھیں، ایک عورت کی اور دوسری مرد کی۔ مرد کی آواز شہریار ہی کی تھی لیکن عورت اسے رشید کے نام سے پکار رہی تھی۔پھر جونہی میرے کان میں شہریار کا یہ جملہ پڑا کہ میں پچاس ہزار سے ایک پیسہ کم نہیں لوں گا! تو حقیقت انتہائی معنوں میں مجھ پر واضح ہوچکی تھی۔میں فوراً واپس پلٹی او ر دھڑکتے دل اور انتہائی خوف کی حالت میں ، مگر انتہائی خاموشی کے ساتھ گھر سے باہر نکل گئی۔میری خوش قسمتی تھی کہ چند ایک گلیوں میں چلنے کے بعد ایک بڑی سٹرک پر آگئی۔ وہاں سے ایک رکشے پر بیٹھ کر گھر آگئی۔ گھر آکر مجھے کالج سے جلدی آنے کا جواز پیش کرنے کےلیے طبیعت کی خرابی کا جھوٹ بولنا پڑا۔رات کو شہریار کا مخصوص وقت پر فون آیا۔ اس نے مجھے دھمکی دی کہ وہ مجھے اغوا کرلے گا اور عنقریب میرے والدین کو بتا دے گا کہ میں دن بھر کہاں رہی۔ میں سخت پریشان ہوئی اور اگلے دن میری مہربان معلمہ نے میرا پریشان چہرہ دیکھ کر مجھ سے ہمدردی کی اور پھر میں نے اپنا دل ان کے آگے کھول کررکھ دیا۔ انہوں نے تسلی دی اور اللہ سے مدد مانگنے کا مشورہ دیا۔اس دوران شہریار نے میرے بھائی سے فون پر نہ جانے کیا کہا کہ گھر والے مجھ سے نفرت کرنے لگے۔ اس موقعے پر پھر اسی مہربان معلمہ نے مدد کی اور والدین کو سمجھایا۔ کچھ دنوں کے بعد ہمارا فون تبدیل کردیا گیا اور یوں میں نے شہریار سے نجات حاصل کرلی اور آہستہ آہستہ گھر والوں کا رویہ بھی نارمل ہوگیا۔چند لمحوں کی خاموشی کے بعد وہ تشکر آمیز نظروں سے میری طرف دیکھتے ہوئے بولی: انہوں نے میرے راز کو راز رکھا اور آج پہلی مرتبہ تحدیث نعمت اور اپنی مہربان معلمہ کی خاطر میں نے اسے بیان کیا ہے!

میں نے فائزہ کی طرف دیکھا تو اس کے چہر پر عجیب کیفیات ظاہر ہورہی تھیں۔

میں نے اب دوسری خاتون سے گزارش کی کہ وہ اپنی داستان ِ غم سنائیں۔

 

 

یہ خاتون میری ایک بہت ہی پیاری اور معصوم شاگردہ کی والدہ ہیں۔ وہ غم زدہ سی آواز میں بولیں:میں نے محترمہ .4معلمہ سے گزارش کررکھی ہے کہ جب بھی کسی لڑکی کا میری بیٹی جیسا معاملہ ہو، تو اسے میری داستان ضرورسنائی جائے۔

وہ سرد آہ بھرتے ہوئے بولی: یہ آج سے چند برس پہلے کا واقعہ ہے کہ ایک خاندان کی تقریب میں ، اس کا ایک نوجوان سے رابطہ ہوا۔ ہم گھر والے اس کے بارے میں بالکل لاعلم رہے، بس کبھی کبھار ہم نے اسے کچھ چھپ چھپا کر لکھتے دیکھا تھا، مگر واقعے کے بعد معلوم ہوا کہ دونوں کا خطوط کے ذریعے رابطہ ہے ۔ اس سلسلے میں اس کی ایک سہیلی دونوں میں رابطے کا کام دیتی تھی۔ پھر ایک صبح ہماری بیٹی غائب ہوگئی۔ ہم سخت پریشان ہوئے۔ رسوائی کے باعث کسی کو بتانے سے بھی گریز کر رہے تھے۔ ابھی ہم نے پولیس میں رپورٹ در ج نہیں کرائی تھی کہ دوسرے روز وہ انتہائی بری حالت میں گھر پہنچی۔ وہ اپنا سب کچھ لٹا چکی تھی۔ وہ مارنے ، ڈانٹنے اور پیار سے۔۔۔ کسی بھی طرح کچھ بتانے پر آمادہ نہ ہوئی۔ دوسرے ہی روز اس نے بجلی کے ننگے تار کو چھو لیا اور خودکشی جیسا حرام کام کرلیا۔

اس کا یہ اقدام بتارہا تھا کہ اس پر کیا قیامت گزر چکی ہے! جس بھیڑئیے نے اس کا یہ حشر کیا تھا، اس کا پتہ ان خطوط سے لگ گیا جو وہ میری بیٹی کو لکھتا رہا تھا۔ پولیس نے اسے گرفتار بھی کرلیا اور تفتیش سے معلوم ہوا کہ اس شیطان نے اس سے پہلے کئی لڑکیوں کو بہلا پھسلا کر ، محبت کا دھوکا دے کر، ان کی زندگیوں کو اجاڑا ہے، لیکن والدین اپنی عزت کی خاطر خاموش رہے، مگر میں تو ہر ماں ، باپ اور اس دوراہے پر کھڑی بچی کو عبرت کےلیے اپنی بیٹی کی داستان سناتی ہوں تاکہ کسی دوسری ماں پر وہ کچھ نہ گزرے جو مجھ پر گزر چکی ہے۔۔۔ کوئی بیٹی اس گھناؤنے گناہ کا ارتکاب نہ کرے جومیری نادان بیٹی نے کیا تھا۔۔۔

ان محترمہ نے جب اپنی بات ختم کی تو ان کی آنکھوں میں آنسو آچکے تھے۔ محفل پر ایک گھمبیر اور اداس خاموشی چھا گئی۔ میں نے اس خاموشی کو توڑا اور تیسری خاتون سے گزارش کی کہ وہ اب لب کشائی کریں۔

میری یہ مہمان فائزہ سے چند برس بڑی تھیں۔ ان کو میں نے خاص طو رپر مدعو کیا تھا۔ وہ کہنے لگیں:میں ایک بدنصیب عورت ہوں اور اللہ نے مجھ پر بہت ہی کرم کیا ہے۔ میری بدنصیبی کی داستان اس وقت شروع ہوئی جب میں اپنے ایک محلے دار کے اشاروں کو محبت سمجھ بیٹھی۔ جلد ہی ٹیلی فون کے ذریعے ، پھر بہانوں بہانوں سے اس کے گھر آنے جانے سےیہ تعلق نام نہاد محبت میں تبدیل ہوگیا، مگر اس کا ہمارے گھروالوں کو علم ہوگیا۔ لیکن اپنے اس قبیح فعل پر نادم ہونے کے بجائے میں نے مطالبہ کردیا کہ میری اسی لڑکے سے شادی کردی جائے۔ والدین نے بہت سمجھایا لیکن میں تو افسانوں اور بیہودہ ڈائجسٹوں کی کہانیوں کی خیالی دنیا میں مگن، ٹی وی اور فلموں کی ماری ہوئی تھی۔ یہی سمجھتی تھی کہ محبت کا یہ روپ ہی اصل رشتہ ہے۔ والدین نے محسوس کرلیا کہ اگر انہوں نے میری ضد نہ مانی تو میں ان کی رسوائی کا باعث بنوں گی۔ چنانچہ ہماری شادی ہوگئی ۔ چند ماہ بعد میرے محبوب شوہر نے اپنے رنگ دکھانے شروع کردیئے۔ مجھے جلد ہی معلوم ہوگیا کہ موصوف بڑے دل پھینک قسم کے آدمی ہیں اور ان کے جن اشاروں اور اظہار ِ محبت پر میں فریفتہ ہوئی تھی ، وہ تو ان کی فطرت ِ ثانیہ ہے۔ اب میری آنکھیں کھلیں۔ میں نے اپنے شوہر کو محبت کے وہ جملے اور الفاظ یاد دلائے جو وہ شادی سے پہلے میرے لیے بولتا تھا تو اس نے مجھے ان تمام فلموں اور ڈراموں کے نام بتا دیئے جن سے اس نےیہ جادو بھرے جملے اخذ کیے تھے۔دراصل وہ بہت واہیات قسم کا آدمی تھا۔ اس نے مجھے کہا کہ یہ دنیا انجوائے (لطف اندوزی) کرنے کےلیے ہے، جس طرح انسان ایک ہی قسم کے کھانے پر گزارا نہیں کرسکتا، اسی طرح ایک مرد ایک ہی عورت کو زیادہ عرصہ گوارا نہیں سکتا۔ اسے تو بھنورے کی طرح ہر پھول کا رس چوسنا چاہیے۔میرے لیے اس کی یہ ذہنیت کسی صدمے سے کم نہ تھی۔ میں نے گھر جاکر اپنے والدین کو ساری صورت حال بتائی تو انہوں نے میرا خوب مذاق اُڑایا۔ اور دراصل انہیں ایسا .4کرنے کا حق بھی تھا۔ انہوں نے سمجھانے کی بڑی کوشش کی تھی لیکن میری آنکھوں پر تو محبت کی سیاہ پٹی بندھی ہوئی تھی!

یہاں تک پہنچ کر وہ تھوڑی دیر کےلیے رکی۔ آنکھوں میں آئے آنسو صاف کیے اور میری طرف اشارہ کرتے ہوئے بولیں:

یہ ہماری محلے دار ہیں۔ ان کے گھر ہر ہفتے قرآن مجید کا درس ہوتاتھا۔ جب میرے شوہر کی بے رخی حد سے بڑھی تو میں اپنی پریشانی کم کرنےکےلیے ان کا درس سننے لگی۔ اللہ تعالیٰ کےخصوصی کرم سے مجھے بہت تسلی ہوئی اور پھر میری ان سے ملاقات بھی بڑھی۔ انہیں دوسروں کا غم گسار پاکر ایک دن میں نے بھی اپنا دکھڑا بیان کردیا۔

انہی دنوں میرے شوہر نے مجھ سے ایک اور مطالبہ شروع کردیا۔ وہ چاہتا تھا کہ میں اس کے دوستوں کو بھی خوش کروں۔ ظاہر ہے یہ میرے بس سے باہر تھا۔

پھر وہ میری طرف اشارہ کرتے ہوئے بولیں: میں نے انہیں اس کے بارے میں مطلع کیا تو یہ میرے والدین کے پاس گئیں۔ پھر جلد ہی میرے ماں باپ نے مجھے معاف کردیا۔

اس دوران جب میں نے اپنے شوہر کی خلاف ِ شریعت بات ماننے سے صاف صاف انکار کردیا تو اس نے مجھے بہت مارا پیٹا، مجھے بری طرح زخمی کرنے کےبعد اس نے مجھے طلاق دے دی اور الٹا مجھ پر بےہودہ الزام لگائے، لیکن اللہ نے میری مدد کی۔محلے والوں اور دوسرے عزیزوں کو اصل صورت حال کا علم تھا۔ اس لیے سب نے مجھےسے ہمدردی کی اور میرے حوصلے کی قدر کی کہ میں نے ایک دفعہ غلطی کرنے کے بعد اسے دہرایا نہیں۔ عدت گزرنے کے بعد میری اس محسنہ نے ایک شریف شخص سے میرا عقد ثانی کرادیا۔ میرے یہ شوہر انتہائی نیک اور خوش اخلاق ہیں۔

اپنی داستان مکمل کرنے کے بعد وہ چند لمحوں کےلیے خاموش ہوگئیں پھر دوبارہ بولیں:مجھے بتایا گیا تھا کہ محبت کے حوالے سے ایک لڑکی فیصلے کےدوراہے پر کھڑی ہے۔ اگر میں اپنی داستان سناؤں تو ہوسکتا ہے اسے فیصلہ کرنے میں آسانی ہو اور وہ کسی بہتر نتیجے پر پہنچ سکے۔ اگرچہ اس داستان میں مجھے اپنے تکلیف دہ ماضی کو یاد کرنا پڑا، لیکن میں یہ چاہوں گی کہ اپنی داستان ہر اس لڑکی کو سناؤں جو اپنی قسمت نام نہاد محبت کے حوالے کرنے پر آمادہ ہے!

فائزہ ان تین خواتین کی زندگی کا حال سن چکی تھی اور اس کا چہرہ بتا رہا تھا کہ وہ کسی نتیجے پر پہنچ چکی ہے۔ میں نے ان تینوں مہما ن عورتوں کا شکریہ ادا کیا اور فائزہ کو مخاطب . کرتے ہوئے کہا:مجھے امید ہے کہ ان خواتین کے تجربات نے آپ کی بہترین رہنمائی کی ہوگی۔ اگر اس حوالے سے پھر بھی کوئی بات دل میں کھٹکتی ہو تو ضرور کہیے

(جاری ہے)

 

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے