قرار داد پاکستان اور ہماری ذمہ داری

ڈاکٹر مقبول احمد مکی

23 مارچ 1940ء کادن ہماری تاریخ کا ایک سنہری دن ہے جس میں مسلمانانِ ہند نے اسلام کی عالمگیر دعوت واعتصموا بحبل اللہ جمیعاً ولا تفرقوا ( أل عمران 103 ) کو اپنایا تھا مسلمانوں کے اس عظیم الشان اتحاد کو تاریخ میں قرار داد پاکستان کے نام سےیاد کیا جاتاہے۔دراصل قرارداد پاکستان میں اس بات کا عہد کیا گیا تھا کہ ہندوستان کے مسلمانوں کے لیے ایک علیحدہ مملکت قائم کرنے کی مخلصانہ جدوجہد کی جائے گی۔جہاں وہ اپنے صحیح اسلامی عقائد کے مطابق زندگی بسر کر سکیں گے کیونکہ جس طرح اللہ تعالیٰ کی ربوبیت اس کی وحدانیت اور رسول معظم صلی اللہ علیہ وسلم کی رسالت اور ختم نبوت کی گواہی دئیے بغیر مسلمان کی عبادات نماز،روزہ،حج اور زکوٰۃ قبول نہیں ہوسکتیں۔ایسے ہی اسلام کے نام پر قائم ہونے والی اسلامی مملکت پاکستان کی قرآن و حدیث سے وابستگی کے علمی و عملی تقاضے پورے کئے بغیر اپنا نظریاتی تشخص برقرار نہیں رکھ سکتی۔مگر آج یہ بڑے دکھ سے کہنا پڑ رہا ہے کہ ہمارے ملک میں ایک دانشور طبقہ قیام پاکستان کی بنیادی اساس کی نفی کرتے ہوئے اغیار کے ایجنڈے کو ترقی دیتے ہوئے یہ مؤقف اختیار کرتا ہے کہ مسلمانان ہند کی الگ مملکت اسلامی ریاست نہ تھی بلکہ سیکولر تھی اور یہ بھی کہاجاتا ہے کہ بانی پاکستان محمد علی جناح نے بھی سیکولر ریاست کے لیے جدوجہد کی تھی۔ان نام نہاد دانشوروں کو معلوم ہونا چاہیے کہ محمد علی جناح نے 1941ء کی عام مردم شماری میں اپیل کی تھی کہ مذہب اور زبان کے خانوں میں صرف اسلام اور اردو زبان لکھیں۔یہ وہ فیصلہ تھا جس کا ذکر کلام اقبال میں بھی باربار کیاگیا ہے اور مذکورہ مردم شماری میں پنجابی ، بلوچی ، سرحدی ،سندھی ، بنگالی ، اور قبائلی مسلمانوں نے اردو زبان کو قومی و ملّی رابطہ کی زبان تسلیم کیااور مختلف مذہبی گروہی شناخت کو ترک کرکے خالصتاًقرآن و سنت پر مبنی واحد اسلامی شناخت قراردیا۔

اس طرح محمد علی جناح کی 1940ء کے عشرے کی تقاریر کو اگر پڑھا جائے تو انہوں نے 90 سے زیادہ بار اسلامی قانون،اسلامی طرزِحکمرانی اور اسلامی معاشرے کا ذکر کیا ہے۔

محمد علی جناح سے دو مختلف اصحاب نے مختلف اوقات میں سوال کئے ایک صاحب نے محمد علی جناح سے کہا کہ لاہور قرارداد تو پاس ہو گئی مگر پاکستان شاید 100 برس میں بھی نہ بن سکے گا۔ ہماری قوم میں بڑی کمزوریاں ہیں ہم کیسے کامیاب ہونگے۔’’محمد علی جناح نے میز پر رکھے ہوئے قرآن پاک کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا اس کی موجودگی میں ہمیں ڈرنے یا شک و شبہ میں پڑنے کی ضرورت نہیں“۔ دوسرے صاحب نے پوچھا سر جو آپ پاکستان بنانا چاہتے ہیں تو اس کا کیا دستور ہوگا ”محمد علی جناح نے جواب دیا کہ اس کے متعلق پریشان ہونے کی ضرورت نہیں۔ آپ کے پاس تیرہ سو سال سے دستور (قرآن مجید) موجود ہے“۔(”قائد اعظم چند یادیں“از آفتاب احمد قریشی )

1945 ءکو پیام عید میں محمد علی جناح نےکہا تھا کہ ”قرآن مجید مسلمانوں کا ہمہ گیر ضابطہ حیات ہے۔ مذہبی، سماجی، شہری، کاروباری، فوجی، عدالتی، تعزیری اور قانونی ضابطہ حیات جو مذہبی تقریب سے لے کر روزمرہ زندگی کے معاملات تک روح کی نجات سے لے کر جسم کی صحت تک تمام افراد سے لے کر ایک فرد کے حقوق تک اخلاق سے لے کر جرم تک، اس دنیا میں جزا اور سزا سے لے کر اگلے جہاں تک کی سزا و جزا تک کی حد بندی کرتا ہے۔

اسی طرح لاہور میں ایک عظیم الشان جلسہ میں جو قرار داد پیش ہوئی وہ دو قومی نظریہ پر مبنی تھی جس میں محمد علی جناح نے یوں کہا ”اسلام اور ہندومت حقیقت میں دو مذہب ہی نہیں بلکہ ایک دوسرے سے مختلف دو معاشرتی نظام ہیں اور متحدہ قومیت ایک ایسا خواب ہے جو کبھی شرمندہ تعبیر نہیں ہوسکتا۔ ہندو اور مسلم الگ الگ تہذیبوں سے تعلق رکھتے ہیں۔

ہماری روایات، ہماری تہذیب و تمدن، ہماری رسومات، ہماری معاشرت، ہمارا نصب العین، ہمارا اعتقاد غرض ہر چیز ہندو مت سے مختلف ہے۔ ہم بحیثیت ایک قوم ایک ساتھ نہیں رہ سکتے“۔کیونکہ یہ دو قومی نظریہ ہی پاکستان کی بنیادی اساس ہے اور قیام پاکستان کی بنیاد اسلام پر ہی رکھی گئی ہے۔ 13 جنوری 1948ءکو اسلامیہ کالج پشاور میں طلبہ سے خطاب کرتے ہوئے محمد علی جناح نے یہ کہہ کر بات واضح کردی تھی کہ ”اسلام ہماری زندگی اور ہمارے وجود کا بنیادی سرچشمہ ہے ہم نے پاکستان کا مطالبہ زمین کا ایک ٹکڑا حاصل کرنے کے لئے نہیں کیا تھا بلکہ ہم ایک ایسی تجربہ گاہ حاصل کرنا چاہتے تھے جہاں اسلام کے اصولوں کو آزما سکیں“۔

اس اجلاس اور قرار داد کے بعد قیام پاکستان کے لئے مسلمانوں کی جدو جہد کو واضح شکل دیدی گئی اور مسلمانوں کی جدوجہد آازادی میں تیزی آتی گئی اور بالآخر 14اگست 1947ء کو برصغیر میں ایک آزاد اسلامی مملکت ”پاکستان“ کا قیام عمل میں آیا۔

ہمارے اکابرین نے ہندؤں کے ساتھ رہنے اور ان کا رویہ دیکھنے کے بعد الگ ملک کاخواب دیکھا اور اپنی کوشش سے اس خواب کو تعبیر میں بدلنے میں کامیاب بھی ہوئے لیکن افسوس کہ آج ہم نے اپنی آزادی کی قدر کھو دی ہے۔ مسلمان بزرگوں نے ہندؤں کے متعصبانہ رویّے کے بعد دو قومی نظریہ پیش کیا اور آج ہم دو قومی نظریے کی نفی کرتے ہوئے مسلمانوں کے دشمن بھارت کے ساتھ دوستی اور محبت کے گن گا رہے ہیں۔ اور بھارت کو پسندیدہ ترین ملک قراردیاجارہا ہےایسا کرنا دراصل مسئلہ کشمیر سے عملاً انحراف ،مظلوم کشمیریوں کےزخموں پر نمک پاشی اور جدوجہد آزادی کشمیر کی پیٹھ میں چھرا گھونپنے کے مترادف ہے تجارت اور اعتماد سازی کے نام پر اصل اور بنیادی مسائل سے غفلت ایک مجرمانہ فعل ہے۔اس میں کوئی شک نہیں کہ قوموں کی برادری میں اپنے پڑوسی ممالک کے ساتھ دوستانہ تعلقات قائم کرنا بہت ضرری ہوتا ہے لیکن یہ تعلقات دو طرفہ ہوتے ہیں یکطرفہ طور پر دوستی کی پینگیں بڑھانا نقصان دہ ثابت ہوتا ہے۔

آج دو قومی نظریے کی نفی کرتے ہوئے ایک بار پھر ہندوؤں کے ساتھ مشترکہ تہذیب، مشترکہ ثقافت کا شوشہ چھوڑا جارہا ہے۔ آج ہمارے نوجوان اردو زبان تک سے نا واقف ہوتے جارہے ہیں۔ ڈراموں اور پروگرامات میں ہندی رسوم ورواج پیش کئے جارہے ہیں، اردو زبان کو ختم کیا جارہا ہے۔ اور اب تو میڈیا اور ایڈور ٹائزنگ کمپنیاں بھی اپنے اشتہارات، ہورڈنگز، سائن بورڈز پر اردو یا انگریزی کے بجائے رومن اردومیں اشتہارات پیش کررہے ہیں۔ یہ سلسلہ بڑھے گا تو ایک وقت آئے گا کہ ہماری نئی نسلیں اپنی قومی زبان ”اردو“ تک سے نا آشنا ہوجائیں گی۔ اور کسی قوم کی تباہی کےلیے اتنا ہی کافی ہے کہ اس کی قومی زبان کو تباہ کر کے اس کے نوجوانوں کے لیے ناپید کردیا جائے۔اس طرح بغیر فوجی جنگ کے وہ قوم تباہ ہو جائے گی اور آج ہمیں اسی خاموش تباہی کی طرف دھکیلا جارہاہےاور ہم ہیں کہ اپنی نیند سے بیدار ہونے کو تیار ہی نہیں ہیں اور اس کی مثال ہم خود بنتے جا رہے ہیں۔

آج مشترکہ تہذیب اور ثقافت کے نام پر امن و آتشی کی امید کو فروغ دیا جارہا ہے لیکن یہ بھارت بہت مکار ہے۔ ایک جانب ہمیں فلموں، گانوں، لافٹر اور کھانوں کے مقابلوں میں الجھا کر خود اپنا کام کیے جارہا ہے۔ مقبوضہ کشمیر میں دریاؤں پر ڈیم تعمیر کیےجارہے ہیں اور یہ ڈیم پاکستان کے لئے تباہی کا باعث ہیں کیوں کہ اب انڈیا جب چاہے گا ہمارا پانی روک دے گا اور جب چاہےگا بغیر اطلاع کے ہمارے دریاؤں میں پانی چھوڑ کر سیلاب کی کیفیت پیدا کردے گا۔ مقبوضہ کشمیر میں تجارت کے نام پر سبز باغ دکھا کر مسئلہ کشمیر کو پس پشت ڈالا جارہا ہے۔

کیا یہی جدو جہد آزادی کا مقصد تھا؟کیا ہم نے فراموش کردیا ہے کہ بغل میں چھری منہ میں رام رام کن لوگوں کے بارے میں کہا گیا ہے؟کیا یہی دو قومی نظریہ تھا؟

آج ضرورت اس بات کی ہے کہ ہم سراب کے پیچھے بھاگنے کے بجائے قرارداد پاکستان اور قیام پاکستان کے اصل مقاصد کو سامنے رکھیں اور اپنی ذمہ داریوں کا ادراک کریں اور ان مقاصد کی روشنی میں تعمیر پاکستان کا کام کریں۔ یاد رکھیں کہ یہ کام میں اور آپ ہی کریں گے۔ ہم نے مل کر ہی اپنے وطن کو سنوارنا ہے۔ اسے اسلامی وفلاحی مملکت بناناہےاوراس ملک سے لاقانونیت کو ختم کرنا ہے ہر شہری کی جان ومال عزت وآبرو کی حفاظت کرنی ہے،قتل وغارت گری کی لعنت کو نیست ونابود کرنا ہے پورے ملک سے خاص طور پر کراچی سے ٹارگٹ کلنگ،بھتہ خوری،ٹارچرسَیلوں اور بوری بند لاشوں کےخلاف متحد ہو کرآوازبلند کرنی اور عدالت کے دست و بازو بنناہے تاکہ اس ملک کو ان تمام برائیوں سے پاک کیا جاسکے اور مملکت اسلامی کو امن و سلامتی کا گہوارہ بنایا جاسکے اور قرارداد پاکستان کے اصل مقصد کو حاصل کیاجاسکے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے