دنیا کے علماء واکابرین مفکرین ومصلحین نے عملی زندگی میں سیکھ لیا تھا کہ لوگوں کے قصور معاف کر دینے میں بھلائی اور بہتری ہے۔ بزرگ سچ کہتے ہیں کہ عفو ودرگزر معافی تلافی سے ذہنی تسکین اور آسودگی حاصل ہوتی ہے جبکہ اس کے برعکس جذباتیت تندئ مزاج اور تلخی سے بنے کام بگڑ جاتے ہیں اور پھر ہمارے احساسات وجذبات بھی معاندانہ ہوجاتے ہیں۔

جدید طبی تحقیقات سے بھی معلوم ہوا ہے کہ معاف کر دینے،درگزر کی عادت اپنانے ملا ئم طبیعت کے مالک لوگوں کو عوارض قلب میں بھی بہت کمی واقعہ ہوئی ہے ہمارے نرم رویوں سے فشار الدم( بلڈ پریشر) جیسے امراض پر بھی نہ صرف قابو پایا گیا ہے بلکہ شوگر اور ذہنی دباؤ میں بھی کمی واقعہ ہوئی اور ٹھنڈے مزاج سے زندگی کے صبح وشام پُر سکون گزرتے ہیں ، تجربات ومشاہدات کی بنیاد پر بغض وکینہ،کدورت حسد ،نا معقولیت ،جذباتیت، سطحیت کو دل ودماغ میں جگہ نہ دینا چاہیے۔ چونکہ ان منفی جذبات سے دامن بچانے میں ہی امن وعافیت ہے ۔بے جا شکوک وشبہات ، توھمات وتلخ کلامی پورے معاشرہ میں آگ کی طرح سرایت کرتی جارہی ہیں مزید یہ کہ ہمیشہ فخر سے گردن اکڑی رکھنے اور تعصبات بھرے موڈ سے اپنا ہی نقصان ہوتا ہے۔

زندگی زندہ دلی کا نام ہے

مرد ہ دل کیا خاک جیا کرتے ہیں !

بلکہ جب ہم اعتدال، سنجیدگی، وقارکو اپنی زندگی کا مقصد بنا کر بغض وعناد کینے وکدورت جیسے جذبات سے فارغ ہونگے تب ذہنی سکون طمانیت اور یکسوئی نصیب ہوگی ، مشاہدات سے یہ بات بھی ثابت ہوئی کہ وہ افراد جو اکھڑ پن اور بے جا غرور سے لوگوں کے ساتھ پیش آتے ہیں وہ اپنے سچے دوستوں سے ہمیشہ محروم ہو جاتے ہیں ۔

اے دوست دل میں گردِ کدورت نہ چاہیے

اچھے تو کیا بروں سے بھی نفر ت نہ چاہیے

چونکہ عوام الناس کو ایسے احباب سے قطعاً کوئی ہمدردی نہیں ہوتی جو عفوودرگزر کو کمزوری اور بزدلی پر محمول کرتے ہوئے بزور شمشیر اپنی تعظیم کرنے پر زور دیتے ہوں۔ چونکہ ’’نفسیات‘‘ نے ثابت کیا ہے کہ کچھ لوگ جو اپنے بڑے پن اور غرور کا شکار نظر آتے ہیں وہ دراصل اپنی ہی احساس کمتری اور کوتاہیوں کو لوگوں سے چھپانے کی سعی لاحاصل کرتے ہیں۔

احباب خوش ہوئے خلش دردمِٹ گئی

کس کو خبر کے اب یہ دل چارہ گر میں ہے

اگر ہم اپنی دنیا وعقبیٰ اچھی چاہتے ہیں تو یقیناً ہمیں اپنے دلوں سے بغض وعناد ، تعصب وحسد جیسے امراض خبیثہ کا خاتمہ کرنا ہوگا ، ان کی جگہ عفو ودرگزر ، برداشت واعتدال ، محبت والفت کے جذبات پیدا کرنے ہوں گے جس سے یقیناً ایک مفید اور محترم معاشرہ تشکیل پائے گا ، لغوی لحاظ سے عفوودرگزر سے مراد یہ ہے کہ دوسروں کی خطاؤں اور قصوروں کو معاف کیا جائے انتقام کی طاقت رکھتے ہوئے بھی بخش دیا جائے جب کوئی غلطی کرنے والا اپنی غلطی پر نادم ہو تو عفوودرگزر کا مقام ومرتبہ اور بھی بڑھ جاتاہے ، ’’علم الاخلاق‘‘ کے علاوہ ، قرآن وحدیث ، تاریخ وسیرت طیبہ میں اس وصف کا بلند مقام ہے ۔اللہ تعالیٰ ایسے لوگوں سے محبت کرتا ہے مثلاً ایک جگہ رب العزت ارشاد فرماتے ہیں کہ وہ بندے جو راہ تعالیٰ میں خرچ کرتے ہیں خوشحالی اور تنگی میں بھی اور جو پی جانے والے ہیں غصہ کو اور معاف کر دینے والے ہیں لوگوں کے قصور اللہ تعالیٰ ایسے نیکو کاروں سے محبت کرتا ہے۔(آل عمران: 133134)

سورۃ الشوریٰ میں ارشاد باری تعالی کہ :

وَلَمَنْ صَبَرَ وَغَفَرَ إِنَّ ذَلِكَ لَمِنْ عَزْمِ الْأُمُورِ(الشوریٰ : 43)

’’اور وہ بندے جو برداشت کرلیں اورمعاف کردیں تویہ بڑی عزیمت اور بلند ہمتی کی بات ہے۔

اسی سورت میں دوسری جگہ ارشاد باری تعالیٰ ہے : ’’اور جب( کسی کی شرارت اور بدتمیزی پر) ان کو غصہ آجاتاہے (تو وہ انتقام نہیں لیتے بلکہ) معاف کردیتے ہیں۔‘‘(الشوری37)

سورۃ التغابن میں ارشاد باری تعالیٰ ہے :

وَإِنْ تَعْفُوا وَتَصْفَحُوا وَتَغْفِرُوا فَإِنَّ اللَّهَ غَفُورٌ رَحِيمٌ (التغابن:14)

’’اور اگر تم درگزر کیا کرو اور نظر انداز کیا کرو تو اللہ تعالیٰ بھی بہت بخشنے والا مہربان ہے۔‘‘

آسائش دو گیتی تفسیر ایں دو حرف ست

با دوستاں تلطف با دشمناں مدا را

(دیوان حافظ شیرازی)

معلم اخلاق محسن انسانیت کی ہدایات بھی اخلاق کریمانہ اور عفوودرگزر میں ایک اہم مقام کی حامل ہیںچونکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات میں صبرو تحمل کے علاوہ غصہ کو قابو میں رکھنے کی عادات بھی اتم درجہ موجود تھیں آپ کا علم و حلم ، عفو وکرم ہمیشہ غصہ وغضب پر غالب رہا۔ آپ کی شفقت ، متانت ، رحمت پوری کائنات پر عام تھی ، آپ بے پناہ مصائب کو بھی خندہ پیشانی سے برداشت کرنے اور پوری نوع انسانیت کو احترام کی نگاہ نوازش سے دیکھنے کی صفات عالیہ سے متصف تھے۔ رب کعبہ نے بھی آپ کی ان مثالی خصوصیات کی وجہ سے آپ کو ان الفاظ میں یاد فرمایا ہے ۔ اے میرے حبیب صلی اللہ علیہ وسلم ! آپ کی رحمت کی وجہ سے ان لوگوں کے لیے آپ نرم مزاج ہیں اگر (خدانخواستہ)  آپ اس کے برعکس تند مزاج ہوتے تو یہ لوگ آپ کے اردگرد سے بھاگ جاتے پس آپ ان سے درگزر کیجیے۔( آل عمران : 159) 

ایک اور جگہ آپ کے بہترین برتاؤ حسن خلق، اعلیٰ مرتبہ کا ذکر کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا :’’ ہم نے آپ کو تمام جہانوں(پوری کائنات) کے لیے (ابَر) رحمت بنا کر بھیجا ہے۔‘‘ (الانبیاء:107)

بھلا ہمیں کسی اور کی اتباع کی ضرورت بھی کیا ؟

اپنے ذاتی نوکر اور غلام کی نادانیوں سے بھی درگزر فرماتے تھے۔ سیدنا انس رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ میں آٹھ برس کا تھا اور مجھے آپ کی خدمت عالیہ میں رہنے کا شرف حاصل ہوا ، دس برس تک میں نے آپ کی خدمت میں گزارے (اس دوران) اگر میرے ہاتھ سے کچھ نقصان ہوجاتا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کبھی مجھے ملامت نہ کرتے جو آپ کے گھر والوں سے مجھے کوئی ملامت کرتا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ’’اسے چھوڑ دو ، جو چیز ضائع ہونی ہے وہ تقدیر سے ضائع ہوکر ہی رہتی ہے ۔‘‘ (مشکوٰۃ : 5819)

سیدنا موسی علیہ السلام نے رب العالمین سے گزارش کی کہ ’’یَا رَبِّ مَن اَعَزَّ عِبَادَکَ ؟ قَالَ مَن إِذَا قَدَرَ غَفَرَ ۔ ( بیہقی)

’’اے میرے رب آپ کے بندوں میں کون آپ کو اپنی بارگاہ میں زیادہ باعزت ہیں۔ ارشاد خداوندی ہوا کہ وہ بندے جو (قصور وار پر) قابو پانے کے بعد بھی سزا دینے کی قدرت رکھنے کے باوجود اس کو معاف کردیں۔

یہ شہادت گہہ الفت میں قدم رکھنا ہے

لوگ آسان سمجھتے ہیں مسلماں ہونا

(اقبال)

سیدنا حذیفہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول معظم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ آپ اس بات کا انتظار نہ کریں کہ دوسرا آپ پر احسان کرے تو آپ بھی احسان کریں بلکہ دوسروں کی برائی کے جواب میں احسان کیا کرو احسان کی ادنیٰ صورت یہ ہے کہ لوگوں سے خندہ پیشانی سے پیش آؤ ۔ ارشادِ باری تعالیٰ ہے

إدْفَعْ بِالَّتِي هِيَ أَحْسَنُ فَإِذَا الَّذِي بَيْنَكَ وَبَيْنَهُ عَدَاوَةٌ كَأَنَّهُ وَلِيٌّ حَمِيمٌ ( فصلت : 34)

’’بلاشبہ آپ کی بعثت سے پہلے پوری انسانیت ظلم وجور قتل وغارت دہشت وبربریت کا شکار تھی۔ یقیناً سیدناموسیٰ علیہ السلام اور سیدناعیسیٰ علیہ السلام کی شریعتوں کا بغور مطالعہ کیا جائے تو معلوم ہوگا کہ یہود ونصاریٰ کے ہاں جو قوانین رائج تھے ان میں کوئی اعتدال نہ پایا جاتا تھا اس کے برعکس شریعت محمدی صلی اللہ علیہ وسلم میں اعتدال، توازن، رحمدلی، عفو ودرگزر کا عنصر نمایاں نظر آتاہے آپ کی شریعت میں سابقہ ادیان کی خوبیاں نمایاں ہیں ۔

آنچہ خوباں ہمہ دارند، تو تنہا داری

احسان ورحم کا پہلو آپ کی سیرت طیبہ میں دنیا کے دیگر ادیان کےمقابلہ میں نمایاں نظر آتا ہے مثلاً آپ نے ارشاد فرمایا ’’ جو تم سے توڑے تم اس سے رشتہ جوڑو جو تم پر ظلم کرے اس کو معاف کرو اور جو تمہارے ساتھ برائی کرے اس کے ساتھ احسان کرو ، مشہور سیرت نگار علامہ سید سلیمان ندوی رحمہ اللہ نے ایک جگہ لکھا ہے کہ :

اسلامی قوانین کوپیش نظر رکھ کر مخالفین نے اکثر کہا ہے کہ پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم اسلام کی تعلیمات میں اخلاقی روح نہیں ، لیکن وہ قانون محمدی کے ساتھ ساتھ اخلاق محمدی صلی اللہ علیہ وسلم کو بھی سامنے رکھتے تو ان کو یہ شُبہ نظر نہ آتا۔ ( سیرت النبی صلی اللہ علیہ وسلم جلد ششم)

مُنَزَّہُ عَن شَرِیکٍ فِی مُحَاسِنِہِ

فَجَوھَرُ الحُسنِ فِیہِ غَیرُ مُنقَسَمِ

آپ کی پوری حیات طیبہ میں جو خوش نصیب لوگ دائرہ اسلام میں داخل ہوئے ان کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے دامن رحمت اور سایۂ عاطفت سے سرفراز کیا اور پھر یہ لوگ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم جیسے اعلیٰ وافضل منصب پر فائز ہوئے، اُن میں وَحشی، ہندہ، ھباربن الاسود اور سُراقہ بن جعشم جیسے لوگ بھی شامل تھے جن کا ماضی کتنا داغدار اور قابل حقارت تھا مگر جب بزم نبویصلی اللہ علیہ وسلم میں آئے تو کتنے اعزازو منصب سے نوازے گئے۔ ان کے علاوہ کعب بن زھیر اور ابن ابو جہل جیسے بھی شرم سے منہ جھکائے کھڑے تھے لیکن آپ کی نرم مزاجی عفو ودرگزر کی صفات عالیہ ، حوصلہ مندی، وسیع ظفری، قوت برداشت بلاشبہ مثالی تھی آپ کی آتش انتقام کو عفو ودرگزر نے معاف کردیاایسے میں بڑے حلیم الطبع بھی اپنے جذبات پر قابو نہیں پاسکتے مگر یہ تو انسان کامل تھے۔

بہ مصطفے برساں خویش را کہ دین ہمہ اوست

اگر بہ او نرسیدی تمام بو لہبی است

تاریخ اسلام کے اوراق گواہ ہیں کہ ہندوستان میں سات سو برس اور اسپین میں آٹھ سو برس کے قریب مسلمانوں کو حق حکمرانی حاصل رہا لیکن یہود ونصاریٰ ہنود واغیار کو کوئی گزند نہ پہنچا مگر جب زمانہ نے کروٹ لی تو ان اقوام نے امت مسلمہ کے ساتھ کیا برتاؤ کیا یہ تاریخ کا حصہ ہے!!!

بہر حال عفو ودرگزر کی صفت کے لیے چند اور امور کا بھی آپس میں چولی دامن کا تعلق ہے ، مثلاً : حوادث زمانہ نے ثابت کیا ہے کہ بڑے بڑے مصلح داعیان حق کا بھی بعض اوقات پیمانہ صبر لبریز ہو جاتاہے مگر صاحب خلق عظیم کی حیات طیبہ ہر ہر ساعت،ہر ہرلمحہ اس پر زندہ ثبوت ہے کہ آپ نے حوصلہ شکن بے پناہ مصائب کو بھی جام شیرین سمجھ کر نوش کیا کسی بھی لمحہ آپ نے پیمانہ صبر وشکر کو اپنے دامن سے جدا نہ ہونے دیا ۔

بد اخلاقیوں میں تکبر وغرور بھی ایک بدترین عادت ہے یہ خبیث مرض جسے لاحق ہوجاتاہے وہ اپنے سوا پوری دنیا کو چونٹیوں سے کم تر اور سفلہ مزاج سمجھ کر ان پر بےدردی سے چڑھ دوڑتا ہے لیکن معلم اخلاق نے تکبر کی لعنت کی شدید الفاظ میں مذمت فرمائی۔

سیدنا عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ ’’ وہ آدمی جنت میں داخل نہیں ہوگا جس کے دل میں رائی کے برابر بھی غرور ہوگا۔( ترمذی )

تکبر عزازیل را خوار کرد

بہ زندان لعنت گرفتار کرد

آپ صلی اللہ علیہ وسلم انتہائی رقیق القلب ، نرم طبع کے مالک بھی تھے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ جس شخص کو نرمی سے حصہ مل گیا اسے دنیا وآخرت کی بھلائی مل گئی جو اس سے محروم رہا وہ دنیا وعقبیٰ کی بھلائی سے محروم رہا ۔

( مشکوٰۃ ، کتاب الآداب )

آخر میں محسن انسانیت کی حیات طیبہ سے بطور نمونہ ایک واقعہ ذکر کرنے پر اکتفا کرتاہوں ۔ جس سے ثابت ہوگا کہ معلم انسانیت کی سیرت طیبہ پوری کائنات کے لیے آئینہ حیات ہے ۔

جنگ احد کے موقع پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بعض ہدایات کے خلاف قدم اٹھانے کی وجہ سے مسلمانوں کا نقصان ہوا اور آپ کےدشمنوںنے گھیر لیا، اور آپ کی زندگی تمام کر دینے کے لیے ٹوٹ پڑے، اور آپ بھی زخمی ہوگئے آپ کا دانت مبارک شہید ہوگیا ۔ چہرے پر بھی خراشیں آئیں ایسے وقت میں بعض صحابہ رضی اللہ عنہم نے آپ سے درخواست کی کہ آپ ان بدبختوں کے لئے بددعا کریں ، مگر مجسمہ صبر نے ارشاد فرمایا کہ مجھے اللہ تعالیٰ نے ملامت کرنے والا بنا کر نہیں بھیجا ، مجھے تو داعی الی الخیر اور رحمت عالم بنا کر بھیجا ہے ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : اے اللہ! میری قوم کو ہدایت عطا فرما، کیونکہ یہ لوگ حقیقت نہیں جانتے اسی احد کے معرکہ میں سید الشہداء سیدنا حمزہ رضی اللہ عنہ بھی شہید ہوئے جو آب کے عزیز ترین چچا تھے اور ان کاشمار عرب کے شہسواروں میں ہوتا تھا ان کو ایک وحشی نامی غلام نے شہید کیا تھا جو ’’ہندہ‘‘ زوجہ ابو سفیان کی ترغیب وتحریص پر ہوا تھا جب سید الشہداء رضی اللہ عنہ گرے تو زوجہ ابو سفیان ہندہ نے سیدنا حمزہ رضی اللہ عنہ کی لاش کو تلاش کرکے دل اور کلیجہ نکال کر اپنے دانتوں سے چبایا۔

سلام اس پر کہ جس نے خوں کے پیاسوں کو قبائیں دیں

سلام اس پر کہ جس نے گالیاں سن کر دعائیں دیں

پھر انقلاب زمانہ دیکھئے! کہ ایک دن وہی ’’وحشی‘‘ اور ’’ہندہ‘‘ دونوں مسلمان ہوکررسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے پیش ہوئے آپ نے نہ صرف دونوں کا اسلام قبول فرمایا بلکہ ہندہ کے لیے اپنے رب سے استغفار بھی طلب کیا، اور وحشی کو صرف اتنے تاریخی جملے کہے کہ وحشی!!

تم میرے سامنے نہ آیا کرو مجھے سید الشہداء کی یادیں تڑپاتیں ہیں پھر جب آپ فتح مکہ کے وقت دس ہزار صحابہ رضی اللہ عنہم کے ساتھ شان وشوکت سے شہر مکہ میں ایک فاتح کی حیثیت سے داخل ہوئے تو گیارہ سال سے کینہ پرور قریش جنہوں نے آپ کو ستانے میں کوئی کسر نہ اٹھا رکھی تھی جنہوں نے ابو جندل کی پیٹھ سے لے کر بلال حبشی رضی اللہ عنہ کے سینے تک کتنے جسم تھے جن بے گناہوں کو چھیدا گیا بڑی بات کے محمد بن عبد اللہ کو گھر سے بے گھر ہونا پڑا ۔ دریتیم آمنہ کے چہرے کو لہولہان کیاگیا وہ سب آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے ذلت کے مارے کھڑے تھے۔ اپنے مستقبل کے فیصلے کا انتظار کررہے تھے۔ ایسے میں آپ نے وہ تاریخی الفاظ ارشاد فرمائے جس کی نظیر پوری تاریخ انسانیت میں کہیں نہیں ملتی آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا :

لا تثريبَ عليكم اليوم ، اذهبوا فأنتم الطلقاءُ ( فقه السيرة -(البانی) الصفحة أو الرقم: 382)

جاؤ آج تم پر کوئی مؤاخذہ نہیں میری طرف سے تم آزاد ہو یہ بات صرف حیات طیبہ تک ہی محدود نہیں بلکہ اسی مثالی کارواںسے سیدنا ابو بکر صدیق ، سیدنا عمر فاروق، سیدنا عثمان اور سیدنا علی رضی اللہ عنہم کے علاوہ عمر بن عبد العزیز ، غازی صلاح الدین ایوبی ، ابن قاسم رحمہم اللہ علیہم اسلام کے خلفاء ، علماء اور فلاسفہ قائدین اسلام کی زندگیاں تاریخ میں شاہد ہیں ۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے