اسلامی تعلیمات کا بنیادی مقصد انسانی معاشرے کی اصلاح ہے، اس طرح اصلاح کرنا کہ دنیا میں تمام انسان امن و امان کی زندگی بسر کریں، اور اس طرح زندہ رہیں کہ اخلاق کا دامن کبھی ہاتھ سے نہ چھوٹے اور آخرت کی ابدی زندگی کے لئے پورے اخلاق اور تقوی کے ساتھ تیاری کریں کہ اللہ ان سے راضی ہوجائے۔ اسلامی تعلیم کا یہ بنیادی مقصد صرف اس طرح حاصل ہوسکتا ہے کہ اللہ کے حکم کے مطابق ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اسوئہ حسنہ کی پیروی کرتے ہوئے یہ معلوم کریں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے معاشرہ کی اصلاح کس طرح کی تھی۔

ہمارے لئے اس دنیا کے کسی دوسرے مفکر یا دانشور ، مصلح فلسفی کی ضرورت نہیں ہے کیوں کہ ہمارے سامنے ہر کام کی غایت اللہ کی رضا ہے اور اللہ نے واضح طور پر قرآن حکیم میں ہمیں یہ حکم دیا ہے کہ اس کی رضا اور خوشنودی صرف رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اتباع اور پیروی سے حاصل ہوسکتی ہے بلکہ اس نے ہم سے یہ وعدہ بھی کیا ہے کہ اگر تم اللہ کے رسول کی پیروی کرو گے تو اللہ تم سے محبت کرے گا،ذرا غور کریں کہ کسی انسان کے لئے اس سے زیادہ اور بڑا مرتبہ کیا ہوسکتا ہے کہ خود اللہ اس سے محبت کرنے لگے۔

اس تمہید سے یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ اصلاح معاشرہ کے لئے بھی ہمیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ہی اتباع کرنا ہوگی اور آپ ہی کی بتائی ہوئی راہ پر چلنا ہوگا اور آپ کی حیات طیبہ کا مطالعہ کرنا ہوگا، ہماری خوش قسمتی یہ ہے کہ اللہ کے آخری رسول محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی پوری زندگی کا ریکارڈ ہمارے اسلاف نے ہمارے لئے جمع کر دیا ہے، اس کے علاوہ اماں عائشہ رضی اللہ عنہا کے بلیغ ارشاد کے مطابق خود قرآن حکیم ہی آپ کی مبارک زندگی کا سب سے قابل اعتماد وسیلہ موجود ہے۔اصلاح معاشرہ کے لئے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جو کامیابی حاصل کی وہ دنیا کی تاریخ کا سب سے بڑا اور اہم واقعہ ہے، عرب کے باشندے مختلف ٹولیوں میں بٹے ہوئے تھے، جہالت اور سرکشی نے انہیں ایسے اوصاف سے بھی محروم کر دیا کہ جو تمام انسانوں کے لئے تو کیا خود ان کے لئے ہی پر امن معاشرہ تشکیل کرتے، ایسے وقت میں اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم پیدا ہوئے اور اللہ نے آپ کو نبوت سے سرفراز کیا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ذمہ یہ کام لگایا کہ آپ معاشرہ کی اصلاح کریں اور اسے برائیوں سے پاک کریں،اس طرح اصلاح کریں کہ وہ دنیا کا مثالی معاشرہ بن جائے اور افراد معاشرہ دنیا کے لئے بہترین افراد بن جائیں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی حیات طیبہ کے مطالعے سے معلوم ہوتا ہے کہ اصلاح معاشرہ کے لئے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دو بنیادی اصولوں پر عمل کیا، ایک تو یہ کہ آپ نے کبھی ایسی بات نہیں کی جس پر پہلے خود عمل نہ فرماتے ہوں،آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے قول اور فعل میں کبھی تضاد نہیں آیا، جو فرماتے تھے خود اس پر عمل کرتے تھے، اب یہ بات واضح ہوگئی کہ اصلاح معاشرہ کی کوئی کوشش اس وقت تک کامیاب نہیں ہوسکتی جب تک اصلاح کرنے والا خود اس پر عمل نہ کرتا ہو، کتنے ہی مفکر مصلح، فلسفی اور دانائی کی باتوں کے پہاڑ کھڑے کرنے والے ایسے ہیں جن کی باتوں کا اثر نظر نہیں آتا، صرف اس لئے کہ وہ خود دوسروں کو تو روشنی دکھاتے ہیں لیکن خود اندھیرے سے باہر نہیں آتے،رحم اور کرم کا سبق پڑھاتے ہیں لیکن خود رحم نہیں کھاتے، آج ہمارے معاشرے کا کیا حال ہے اور ہم کہاں کھڑے ہیں، قرآن اس بارے میں کہتا ہے:

ولا تلقوا بایدیکم الی التہلکۃ

اپنے تئیں خود کو ہلاکت میں نہ ڈالو۔

احکام الہٰی کی رو سے خود کو ہلاکت میں ڈالنا منع ہے، مگر ہم نے اللہ اور اس رسول کی تعلیمات سے صرفِ نظر کر کے خود کو اور پوری ملت اسلامیہ کو اس راہ پر ڈالے رکھا جو ہلاکت کی طرف لے جاتی ہے۔ آج ہمارے معاشرے کا حال یہ ہے کہ اس میں ہر طرح کے رذائل سرائیت کر چکے ہیں، حد تو یہ ہے کہ عزت اور جان اپنے ہی بھائیوں کے ہاتھوں خطرے میں رہتی ہے، ایسا بھی نہیں ہے کہ اصلاح کی کوششیں نہ ہورہی ہوں،مبلغین اور واعظین کی جانب سے نصیحت اور وعظ کا ایک سلسلہ ہے جو مسلسل جاری ہے، مسجدوں کے امام ہر جمعہ کے خطبات میں لوگوں کو اچھا بننے کی تلقین کرتے نظر آتے ہیں، لیکن ان تمام کوششوں کا بظاہر کوئی نتیجہ نظر نہیں آتا،اس کی ایک بڑی وجہ یہی ہے کہ ہم جس کام سے منع کر رہے ہوتے ہیں اس سے خود منع نہیں ہوتے، یہ طریقہ اصلاح سنت نبوی کے خلاف ہے اس لئے کبھی بارآور نہیں ہوسکتا،اصلاح معاشرہ کا ایک بنیادی نکتہ یہ ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اوائل زندگی سے ہی سچائی اور راست بازی پر سختی سے عمل کیا اور مسلمانوں کو جھوٹ سے بچنے کی تلقین کرتے رہے،آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ وصف بعثت سے قبل بھی اس قدر نمایاں تھا کہ کفار اور مشرکین بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو صادق اور امین مانتے تھے، معاشرے کی تمام برائیوں میں سر فہرست جھوٹ ہے، اسلام کی لغت کا سخت ترین لفظ’’لعنت‘‘ہے قرآن پاک میں اس کا مستحق شیطان، اور اس کے بعد مشرک کافر اور منافق کو بتایا گیا ہے، لیکن کسی مومن کو جھوٹ کے سوا اور کسی فعل کی بناء پر لعنت سے یاد نہیں کیا گیا ہے، اس کا مطلب یہ ہے کہ جھوٹ ایسی بیماری ہے جو مسلمان سے بھی سر زد ہو تو اس کے لئے لعنت کی وعید ہے،۔

پاکستان کا معاشرہ کئی قسم کی برائیوں میں مبتلا ہے، چیزوں میں ملاوٹ، ناپ تول میں کمی، آپس میں ہی ایک دوسرے کو نقصان پہنچانے کی کوشش،لوٹ مار ڈاکا، انسانوں کا اغواء، قتل و غارت، وعدہ خلافی، خیانت اور بد دیانتی، چغل خوری ،بہتان اور غیبت، رشوت جوا اور سود عام ہیں، سوال یہ ہے کہ معاشرے کی اصلاح کیونکر ہو؟ اس کا عملی جواب یہ ہے کہ سربراہان معاشرہ اپنے کردار کو درست کریں، اور ان تمام برائیوں کو چھوڑنے کی کوشش کریں تو معاشرہ بتدریج اصلاح کی راہ پر گامزن ہوجائے گا، ان شاء اللہ۔

دعاء ہے کہ ہم سنت نبوی پر عمل کرتے ہوئے خود کو اور معاشرہ کو ان تمام برائیوں سے بچانے کی کوشش کریں تاکہ ہمارہ معاشرہ اور ہمارا ملک صحیح معنوں میں اسلامی فلاحی ریاست بن سکے۔ آمین

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے