بھلا سکے گا نہ اہل زمانہ صدیوں تک میری وفا کے، میری وفکر و فن کے افسانے

ایک ایسا لیڈر جس نے سوئی ہوئی قوم کو بیدار کیا اور بلند مقاصد سے آشنا کر کے قوم کے افراد کو گھروں سے نکال کر میدان میں لاکھڑا کیا۔

قوموں کی بد قسمتی کا نکتہ عروج ایسی قیادت کا مسلط ہونا ہوتاہے جو اپنی کم ہمتی، بزدلی اور نا اہلی کے باعث قوموں کو سر بلندی کے خوابوں سے بھی محروم کر دیتی ہے۔ احساس کمتری کی ماری ایسی قیادتیں اپنی بقا کے لیے صرف اس بات کی محتاج ہو تی ہیں کہ قوم انتشار کا شکار ہو، حقیر مقاصد کے لیے آپس میں ایک دوسرے سے گتھم گتھا ہو، شعورو آگہی کا کوئی دروازہ ان پر نہ کھلنے پائے، جرأت و بہادری کی کوئی آواز بلند نہ ہو سکے ، جماعت انکے گھر کی لونڈی بنی رہے اور وہ خود سیاست کے بازاروں میں قوم کا سودا کر کے اپنے مفادات سمیٹتے رہیں۔ نا اہل قیادت کبھی قوم کو جرأت و بہادری کا سبق نہیں دیتی اور نہ ہی بڑے مقاصد اور مشکل اہداف قوم کے سامنے رکھتی ہے۔ ڈھیلی قیادت کی کوشش ہو تی ہے کہ قوم اپنے عزائم ، ارادوں اور جدوجہد کے اعتبار سے ڈھیلی بنی رہے۔ ایسی قیادت سر گرم، فعال اور چوکس بھی ہو تی ہے لیکن قومی مقاصد کے لیے نہیں اپنی قیادت کے تحفظ کے لیے ۔ ایسی قیادتوں کو اگر اپنی بر قراری کا کوئی چیلنج در پیش آجائے پھر ان سے زیادہ ہو شیار، حالات کو سمجھنے والا، بر وقت اقدام کر نیوالا بڑے فیصلے کرنے والا اور قوم کے افراد کو میدان میں نکالنے والا بھی کوئی نہیں ہوتا۔ یہ اپنی قیادت کے لیے خطرہ بننے والوں کے خلاف ترکش کے تمام تیروں کے ساتھ صف آراء ہوجاتے ہیں۔ جنھوں نے کبھی قومی مقاصد کے لیے بڑا جلسہ نہیں کیا ہو تا وہ بڑ ا جلسہ کر گزرتے ہیں۔ جنھوںنے کبھی جماعت کے لیے میڈیا سیل کی ضرورت محسوس نہیں کی ہوتی وہ میڈیا سیل کو فعال کرنے پر توجہ دینے لگتے ہیں جو کبھی فعال کارکنان کو منہ نہیں لگاتے تھے ان پر یکدم مہربان ہوجاتے ہیں جنھیں کبھی یہ فکر دامن گیر نہیں ہو تی تھی کہ قوم سوئی ہو ئی ہے علاقائی اور ضلعی نظم غیر فعال ہیں وہ یکدم تنظیمی و جماعتی دوروں پر نکل کھڑے ہوتے ہیں۔ کاش رد عمل کی یہ فعالیت بڑے نتیجے دے سکتی۔ قوم کے استحکام اور ترقی کا باعث بن سکتی۔ افسوس رد عمل کی فعالیت بد نیتی کے باعث نا پائیدار اور غیر مؤثر ہو تی ہے۔ ایسی فعالیت سے قوم میں کوئی استحکام نہیں آتا حقیقی بیداری کی کوئی لہر پیدا نہیں ہوتی۔ ایسی قیادتیں اپنے لیے خطرہ بننے والے فرد یا گروہ کے لیے انتہائی سفاک اور بے رحم بھی بن جاتی ہیں۔ جنھوں نے کبھی اپنی قوم کے لوگوں کو فائدہ پہنچانے کے لیے اپنا سیاسی اثر و رسوخ استعمال کرنے کی زحمت نہیں کی ہو تی وہ اپنی قیادت کے لیے خطرہ بننے والوں کے خلاف اپنا تمام اثرو رسوخ استعمال کرنے کے لیے تیار ہوجاتے ہیں۔ ایسی قیادتوں کو تاریخ اپنے صفحات میں جگہ نہیں دیتی ہاں تاریخ انھیں ایک صورت میں یاد رکھتی ہے کہ علامہ احسان الٰہی ظہیررحمہ اللہ جیسا کوئی ہیرو انکے دور میں جنم لے اور انھیں قیادت کے تحفظ کی کشمکش سے دو چار کر دے اور وہ تاریخ میں اس طور پر یاد رکھے جائیں کہ علامہ ظہیررحمہ اللہ جیسے شیر کو انھوںنے اپنے پنجرے میں قید کرنے کی ہر ممکن کوشش کی لیکن ناکام رہے۔ گویا تاریخ میں انکا حوالہ انکی اپنی شخصیت نہیں بلکہ علامہ ظہیر رحمہ اللہ کی شخصیت بن جائے۔

علامہ احسان الٰہی ظہیر رحمہ اللہ نے جس دور میں آنکھ کھولی اس وقت جماعت اہلحدیث مولانا دائود غزنوی رحمہ اللہ کی علمی، تحریکی اور سیاسی قیادت سے محروم ہو چکی تھی۔ برصغیر میں اہلحدیث کے عروج و ترقی کا جو سفر میاں نذیر حسین محدث دہلوی رحمہ اللہ کی فروغ علم حدیث کی تحریک سے شروع ہوا تھا وہ زرا دھیما اور تھما ہوا محسوس ہوتا تھا۔ ماضی کی اہلحدیث قیادت انتہائی بابصیرت اور سخت جان واقع ہوئی تھی۔ انگریزوں نے ریاستی طاقت کے ذریعے اہلحدیث کو مسلمانوں میں اچھوت بنانے کی کوشش کی۔ ایک ایسی سازش کا مقابلہ کرنا جسکی پشت پر ریاستی طاقت ہو کوئی معمولی بات نہیں ہے ۔ اس دور میں اہلحدیث قیادت نے دعوت و تبلیغ سے لیکر سیاست تک تمام محاذوں پر بھر پور صلاحیت کا مظاہرہ کیا تھا۔ مناظروں اور تبلیغی جلسوں کے اسٹیج پر علمائے اہلحدیث باطل مذاہب اور گمراہ فرقوں کے عقائد کے بخیے ادھیڑتے تھے اور دوسری طرف سیاسی جلسوں کے میدان میں اہلحدیث سیاسی قیادت اپنے عوام کو منظم رکھنے کی سعی کر رہی تھی تصنیف و تالیف کا محاذ بھی گرم تھا اور گلی محلوں میں دعوت و تبلیغ بھی جاری تھی بہت سی کوتاہیوں کے باوجود مجموعی طور پر جماعت ترقی ہی کی طرف گامزن تھی اہلحدیث قیادت نے اس دور میں نہ صرف سازشوں کو ناکام بنایا بلکہ ہر میدان میں قابل ذکر کا ر کر دگی کا مظاہرہ کیا تاہم جب مولانا دائود غزنوی رحمہ اللہ کی وفات کے بعد جماعت پر علمی رسوخ، تحریکی جوش اور سیاسی بصیرت رکھنے والی قیادت کی جگہ روایتی قیادت مسلط ہو گئی تو گویا شاہین کا نشیمن زاغوں کے تصرف میں آگیا تحریک کی جگہ جمود نے لے لی تمام محاذ ٹھنڈے پڑنے لگے۔ انفرادی انفرادی طور پر اہلحدیث شہسوار اگر چہ مناظروں، خطابت، تصنیف و تالیف اور تعلیم و تدریس کے میدانوں میں سر گرم تھے لیکن جماعت کی مجموعی کارکر دگی اس قدر غیر اطمینان بخش تھی کہ کارکنان میں مایوسی انتشار اور بد دلی کا سبب بننے لگی۔ جماعت کی سیاسی شناخت بھی اس حد تک کمزور پڑ چکی تھی کہ قومی سطح کے اتحادوں میں اسے پوچھا نہیں جا تا تھا۔ پسماندگی اور تاریکی کے ایسے دور میں جماعت کے افق پر علامہ ظہیررحمہ اللہ جیسا روشن ستارہ نمو دار ہوا۔ جو نہ موروثی لیڈر تھا اور نہ مصنوعی اور خود ساختہ قائد بلکہ اسکی شخصیت فطری طور پر قائدانہ اوصاف کی حامل تھی۔ دینی غیرت و حمیت سے لبریز ، کام کے جنون میں مبتلا ء جوش اور جذبۂ قربانی سے سر شار، سیاسی شعور و بصیرت کا حامل، ملک و قوم کے لیے کچھ کر گزرنے کے خواہشمند ، پُر اعتماد و پر عزم، سخت جان و مہم جو، گہرے دینی و دنیاوی علوم سے مسلح، مقناطیسی شخصیت کے حامل، بے داغ و مضبوط کردار، جرأتمند و بہادر، سخی و فیاض مشاور ت پسند، حق گو مصلحت و مداہنت سے گریزاں، سیاسی و مذہبی خطابت کا بادشاہ اور تصنیف و تالیف کا شہسوار ، جسکی خطابت میں ادب کی چاشنی اور تحریر میں خطیبانہ جلال تھا۔ علامہ ظہیر رحمہ اللہ ایسی ہمہ گیر اور ہمہ جہت شخصیت جو ایسے درجنوں شخصی اوصاف کی مالک تھی جو اگر کسی میں ایک آدھ بھی ہو تو اسے ممتاز بنا دیتا ہے۔

علامہ ظہیر رحمہ اللہ نے اپنے آپ کو خود اپنے ارادے کے تحت نفاذ اسلام کی جدوجہد کی بھٹی میں اتارا جہاں خطرات و خدشات ، تکالیف ومصائب ، لالچ و دھمکیاں اور گھٹیا پروپیگنڈے اور الزام تراشیوں کی آگ بھڑک رہی تھی ۔ علامہ ظہیر رحمہ اللہ نے میدان عمل میں اپنی صلاحیتوں اور اعلیٰ اوصاف کو ثابت کیا۔ اہلحدیث کی سیاسی طاقت کی تشکیل سے لیکر نفاذ اسلام کی طاقتور تحریک تک، جماعتی سر گرمیوں میں عوام اہلحدیث کو سر گرم کرنے سے لیکر سیاسی جدوجہد کے میدان میں انھیں اتارنے تک علامہ ظہیر رحمہ اللہ کی قائدانہ صلاحیتیں اظہر من الشمس ہیں۔ علامہ صاحب ملک کے صف اول کے رہنمائوں میں شمار کئے جاتے تھے اور علامہ کی جماعت ہم عصر تمام مذہبی جماعتوں کو پیچھے چھوڑ کر سیاست کے میدان کی مقبول ترین مذہبی جماعت بن گئی تھی۔

علامہ ظہیر رحمہ اللہ ایک ویژنری قائد تھے جو نہ صرف پاکستان بلکہ پوری اسلامی دنیا میں قرآن و سنت پر مبنی حقیقی اسلام کے فروغ اور فرقہ وارانہ اسلام جو شرک و بدعات اور گمراہی سے آلودہ تھا اسے پسپا اور مغلوب کرنے کے لیے کوشاں تھے انھوں نے اپنی تحریر و تقریر کو انھیں اہداف پر فوکس کیا اور اپنے تمام سیاسی قد کا ٹھ اور عالمی اثرو رسوخ کو انھیں مقاصد کے لیے استعمال کیا۔ علامہ ظہیر رحمہ اللہ دین اسلام کو زندگی کے تمام شعبوں کے لیے رہنما سمجھتے تھے نہ وہ اسقدر تنگ نظر تھے کہ ’’چاندنی‘‘ کو بھی حضرت حرام کہتے ہیں ‘‘ اور نہ اس قدر آزاد خیال کہ دین اسلام کی پابندیاں گراں گزریں۔ وہ ایک راسخ العقیدہ ، با عمل اور با اخلاق مسلمان تھے۔ سیاست کی نیر نگیوں کے درمیان اپنے کر دار کو داغ دھبوں سے بچانا تقوے کے بغیر ممکن نہیں تھا۔ میں نے ملک کے ممتاز سیاستدان جناب جاوید ہاشمی صاحب سے علامہ صاحب کی شخصیت کے بارے میں انکی رائے جاننے کے لیے سوال کیا تو انھوں نے علامہ صاحب کے پاکیزہ کر دار کی گواہی دی۔

بد قسمتی سے علامہ صاحب پر لکھنے اور بولنے والے نادانستگی میں انھیں انڈر ا سٹیمیٹ کر جاتے ہیں عام طور پر انھیں ایک بہت بڑے عالم اور عظیم خطیب کے طور پر پیش کیا جا تا ہے اور تحریروں اور تقریروں میں ان ہی اوصاف کو اجاگر کیا جا تا ہے حالانکہ علامہ صاحب نظریاتی و تحریکی لیڈر تھے آپ کی زندگی نفاذ اسلام کی سرگرم جدوجہد سے عبارت تھی آپ غلبہ اسلام کی عالمی تحریکوں کے لیے رول ماڈل کا درجہ رکھتے تھے۔ علامہ صاحب کے افکار و نظریات آج بھی منہج سلف پر کار بند جماعتوں کے لیے عصر حاضر میں نفاذ اسلام کی جدوجہد کے لیے رہنمائی فراہم کرتے ہیں۔ علامہ کی شخصیت میں قائدانہ اوصاف جمع تھے آپ ایک با کر دار سیاستدان اور بے داغ شخصیت کے مالک عظیم لیڈر تھے۔ علامہ صاحب کی جدوجہد اور افکار یہ وہ موضوعات ہیں کہ جن پر لکھا جانا اور بولا جانا چاہئے انکی سوانح محض ایک عالم اور خطیب کی سوانح نہیں ایک لیڈر اور اسلامی انقلاب کے ایک مجاہد کی سوانح ہے ایک ایسا لیڈر جس نے سوئی ہوئی قوم کو بیدار کیا اور جس نے بلند مقاصد سے آشنا کر کے قوم کے لوگوں کو گھروں سے نکال کر میدان میں لا کھڑا کیا۔ اب جبکہ جماعت کے با صلاحیت افراد مایوسی کے عالم میں میدانوں سے گھروں کا رخ کر رہے ہیں بہت ضروری ہے کہ علامہ احسان الٰہی ظہیر رحمہ اللہ کی جدوجہد اور افکار کو اجاگر کیا جائے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے