تھے تو آبا وہ تمہارے ہی ، مگر تم کیا ہو

ہاتھ پر ہاتھ دھرے منتظر فردا ہو

حمید غرناطہ کو خیرباد کہتے ہوئے مراکش کی طرف رخ سفر کرتا ہے اور دل میں یہ کہہ رہا ہے کہ قسمت میں ہوا تو دیدار نصیب ہو، یہاں کا خون سفید ہوچکا ہے اور اسلام و مسلمان ضوء النہار میں شمع لیکر بھی دکھائی نہیں دیتا۔

تحریک سرفروش کا بانی جس نے قسطلہ کے عیسائیوں کے سامنے جھکنے سے انکار کردیا اور سر پرکفن باندھ کر اپنے ساتھیوں کے ہمراہ جہاد کیا اور عیسائیوں کو لوہے کے چنے چبوادئیے، مگر یہ اکیلا اور اس کے چند ساتھی کتنا عرصہ دشمن کا سامنا کرتے ،جبکہ اپنے ہی مخالف ہوں اور انہیں باغی کہہ رہے ہوں، نام نہاد مولوی ان پر بغاوت کے فتوے صادر کر رہےہوں، اور بذاتِ خود عیسائیوں کے آگے سر جھکاکر انہیں آقا تسلیم کررہے ہوں، بلکہ حد تو یہ ہوئی جو کل تک قرآن و حدیث اور فقہ کی تعلیم دینے والےتھے آج وہ بذاتِ خود اصطباغ(عیسائیت) کو تسلیم کر رہےہیں اور گلے میں صلیب اور بغل میں انجیل لئے گھوم رہے ہیں۔

ابن سلیمان غرناطہ کے معزز و محترم علماء میں جس کا شمار ہوتا تھا ظاہراً ایک پکا و سچا مسلمان کا خیر خواہ جبکہ مخفی طور پر وہ قسطلہ عیسائی سلطنت کا پٹو، جس نے ملک میں ایساانتشار برپا کیا کہ لوگ جہاد سے متنفر اور غلامی کے سامنے سرتسلیم خم کرنے پرتیار ہوگئے۔

قارئین کرام ! جو قوم اپنی تاریخ کو خیرباد کہہ دے وہ کبھی کامیابی وکامرانی کی منزلوں کو طے نہیں کرسکتی، تاریخ اگلی منزلوں کو طے کرنے کے لئے رفیق سفر ہے۔ جو گزرے ہوئے تجربات سے آگاہ کرتی ہے اور صحیح راہ کا تعین بتاتی ہے۔

اس مختصر تمہید کامقصد اپنے حالات پر نظر دوڑانا اور دیکھنا ہے کہ ابن سلیمان، مرزا احمد قادیانی اور ان جیسے نام نہاد غدار جو علماء کی صفوں میں شامل ہوکر انہیں ان کے مقصد سے غافل و بزدل وکاہل بنانے میں کس طرح مشغول ہیں۔

آج دنیا کی سب سے بڑی قوم مسلمان ہےمگر اس کے باوجود یہ ذلیل و خوار ہیں، کیا وجہ ہے کہ مسلمان افرادی قوت میں طاقتور اور کثیر العدد ہونے کے باجود دنیامیں مار کھا رہے ہیں، شاید کہ انکا مسلمان ہونا اس دنیا میںجرم عظیم ہے جس کی انہیں سزا دی جارہی ہے، یا پھر ان کی دین سے دوری، اور ترک جہاد ان کی خوارگی کے اسباب ہیں، آج کا مسلمان کلمہ گو ہونے کے باوجود بھی مسلمان نہیں، اس کے بازو کمزور اور اس کی تلوار زنگ آلود ہے، آج کسبِ دنیا اس کا مقصد حیات ہے، طمع و لالچ، حسد و بغض، غداری و بت فروشی اس کا طرہ امتیاز ہے۔

ایک وقت وہ تھا جب ایک مظلوم عورت کی پکار پر سندھ کو زیر کیا جاتا ہے، تو دوسری طرف ایک عیسائی دوشیزہ کی فریاد پر اسپین میں پرچم اسلام کو سربلند کیا جاتا ہے اور عیسائیت کے سورج کو تاریک کردیا جاتا ہے مگر آج عافیہ اور اس جیسی کتنی ہی بہنیں اور بیٹیاں فریادیں کر رہی ہیں کہ ان کی مدد کو کوئی ابن قاسم یا طارق بن زیاد آئے مگر یہ ایسے خواب ہیں جو کبھی شرمندہ تعبیر نہیں ہوئے۔

آج ہم تفرق پر تفخر اور ذات پات کی تشہیر کو اپنے لئے اعزاز سمجھتے ہیں، قتل و غارت، دھوکہ دہی، راہ زنی، فریب اور غداری کو اپنے لئے حلال سمجھتے ہیں۔

اے مسلمانو! ہم کب ہوش کے ناخن لیں گے، جب پانی ہمیں بہالے جائے گا، یا پھر دشمن سرعام ہماری بہنوں اور بیٹیوں کی عزت کو پامال کرےگا۔

اے نوجوانو ! کیا تمہیں برما، کشمیر، افغانستان، فلسطین چیچنیا کے مظلوموں کی آہیں سنائی نہیں دیتی، کیا تمہیں ان کی لاشوں کے کہسار خون گرمانے کے لئے کافی نہیں ہیں۔

اصحاب علم وفضل ! کیوں آپ نے خانقاہوں کو اپنی آماجگاہ بنالیا ہے۔ آپ انبیاء کے ورثاء، جن کا مقصد دین کی ترویج اور لوگوں میں شعور بیدار کرنا تھا تاکہ وہ دشمن کے مد مقابل ہوسکیں،ناکہ لوگوں میں نفرت اور فرقہ واریت کو فرغ دینا تھا، آج اجتماع کی ضرورت ہے۔ناکہ افتراق کی، کوئی فاتحہ پڑھے یا نہ پڑھے یکدم تین طلاقیںدے یا نہ دے وہ دائرہ اسلام سے خارج نہیں، ہاں اگر جو تفرق کرے، عصبیت کو اجاگر کرے اور اسی کی سربلندی کی خاطر اپنی جان دے دے تو وہ دائرہ اسلام سے ضرور خارج ہے۔

نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے ارشاد فرمایا: لَيْسَ مِنَّا مَنْ دَعَا إِلَى عَصَبِيَّةٍ وَلَيْسَ مِنَّا مَنْ قَاتَلَ عَلَى عَصَبِيَّةٍ وَلَيْسَ مِنَّا مَنْ مَاتَ عَلَى عَصَبِيَّةٍ (سنن أبی داؤد:5123)

جس نے عصبیت کی دعوت دی وہ ہم میں سے نہیں جس نے عصبیت پر لڑائی کی وہ ہم میں سے نہیں جس کی موت عصبیت پر ہوئی وہ ہم میں سے نہیں۔

خبررساں اداروں کے منتظمین و ممبران !کیا وجہ ہے کہ ملالہ پر حملہ ہوتو صبح و شام ملالہ،اس ملالہ کی خاطر خاص پروگراموں کو تشکیل دیا جارہا ہے، نیٹ پر خاص صفحات اس کے لئے وقف کئے جارہے ہیں، کیا آپ کو کشمیر کی بیٹیاں، برما کی بہنیں، فلسطین و شام کی مائیں دکھائی نہیں دیتیں، کیا وہ مسلمان نہیں یا وہ انسان نہیں؟ امریکا، برطانیہ اور پوری ملت کفرمل کر مسلمانوں کی نسل کشی کرنے پر دھرے ہوئے ہیں وہ آپ کی آنکھوں سے اوجھل ہیں، آپ اقبال کے دلدادے ہونے کے باوجود اس کے پیغام سے کوسوں دور ہیں۔ کیا وجہ ہے کہ مسلم ہوکر مسلم کی حمایت سے دست برداری! اور کفار کی سرپرستی اور بغل گیری پر مسرت کا احساس اور اس کی خاطر ملت فروشی بھی حلال ہے۔

اے مسلمانو ! واعتصموا بحبل اللہ جمیعا کی تصویر بن جاؤ، اپنے اتحاد اور یگانگت کو سارے عالم پر عیاں کردو، توپھر کیوں نہیں، تمہارے لئے قدسی مدد نازل ہوتی، رب کائنات تو تمہارے التفات کا منتظر ہے۔ اس کی قدسی فوج تو تیار کھڑی تمہاری مدد کے لئے مگر تم بھی تو کچھ استعداد کرو۔

مسلمانو اب بھی وقت ہے لوٹ آؤ۔۔۔۔ اسلام کی طرف لوٹ آؤ۔۔۔۔ خدار۔۔۔۔ لوٹ آؤ، کامیابی و کامرانی تمہاری منتظر ہے۔ اور اس دنیا کی بادشاہی تمہارے انتظار میں تڑپ رہی ہے۔ یہ آسمان تمہیں اوجِ ثریا پر چڑھانے کے لئے بے قرار ہے۔ یہ ہوائیں، یہ فضائیں تمہارے نعروں کی گونج کو ہر سو پہنچانے کے لئے ہمہ دم تیار ہیں۔ کائنات کی ہر شے تمہاری منتظر ہے۔ آگ تمہارے لئے گلزار بننے کو تیار ہے۔ سمندر کی موجیں تھمنے کے لئے تیار ہیں۔ ابابیل کنکریاں چونچوں اور پنجوں میں دبائے محوِ پرواز ہیں کہ کب تم اپنے رب سے مطالبہ کرو اور وہ حکم کی تعمیل کریں۔

عرب و عجم کا تفرق کوئی معنیٰ نہیں رکھتا ، نہ ہی گورے اور کالے کا، بلکہ متقی مکرم ہے۔ نبی آخر الزمان نے ارشاد فرمایا :

أَلَا لَا فَضْلَ لِعَرَبِيٍّ عَلَى عَجَمِيٍّ، وَلَا لِعَجَمِيٍّ عَلَى عَرَبِيٍّ، وَلَا لِأَحْمَرَ عَلَى أَسْوَدَ، وَلَا أَسْوَدَ عَلَى أَحْمَرَ، إِلَّا بِالتَّقْوَى(شعب الإيمان (7/ 132)

’’خبردار! کسی عربی کو کسی عجمی پر کسی عجمی کو کسی عربی پر کسی سرخ کو سیاہ پر اور کسی سیاہ کو کسی سرخ پر” سوائے تقویٰ کے ۔‘‘ تو پھر کیا چیز مانع ہے، جو اتحاد کے لئے گریزاں ہے، ہر شے تمہاری منتظر، تو تم کس کے منتظر ہو، بس میں یہی کہوں گا

کی محمد سے وفا تو نے تو ہم تیرے ہیں

یہ جہاں چیز ہے کیا لوح و قلم تیرے ہیں

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے