نام و نسب:

نام:عبد اللہ

کنیت: ابوبکر

لقب: صدیق و عتیق

والد کانام: عثمان اور کنیت ابو قحافہ

والدہ کانام: سلمیٰ اور کنیت اُم الخیر

والد کی طرف سے پورا سلسلہ نسب یہ ہے۔عبد اللہ بن عثمان بن عمرو بن کعب بن سعد بن تیم بن مرہ بن کعب بن لوئی القرشی التمیمی۔

سیدنا ابو بکر کا سلسلہ نسب چھٹی پست میں مرہ پر امام کائنات صلی اللہ علیہ وسلم سے مل جاتا ہے(طبقات ابن سعد قسم اول جزء ثالث صفحہ 119)

سیدنا ابو بکر کے والد:

ابو قحافہ عثمان بن عمرو شرفائے مکہ میں سے تھے اور نہایت معمر تھے ابتداء جیسا کہ بوڑھوں کا قاعدہ ہے وہ اسلام کی تحریک کو بازیچہء اطفال سمجھتے تھے چنانچہ سیدنا عبد اللہ رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ جب امام کائنات صلی اللہ علیہ وسلم نے ہجرت فرمائی تو میں امام کائنات کی تلاش میں ابو بکر کے گھر آیا اور وہاں ابوقحافہ موجود تھے انہوں نے سیدنا علی رضی اللہ عنہ کو ایک طرف سے گزرتے ہوئے دیکھ کر نہایت برہمی سے کہا کہ ان بچوں نےمیرے لڑکے کو بھی خراب کر دیا ہے۔ (الاصابہ جلد 4 صفحہ 221)

ابو قحافہ فتح مکہ تک اپنے آبائی مذہب پر قائم رہے فتح مکہ کے بعد جب رسول اللہ مسجد میں تشریف فرماتھے اور وہ اپنے فرزند سعید سیدنا ابو بکر کے ساتھ بارگاہ نبوت میں حاضر ہوئے اور امام کائنات نے ان کی ضعف پیری کو دیکھ کر فرمایا کہ انہیں کیوں تکلیف دی ہے میں خود ان کے پاس پہنچ جاتا اس کے بعد امام کائنات نے نہایت شفقت سے ان کے سینہ پر ہاتھ پھیرا اور کلمات طیبات تلقین کر کے مشرف بہ اسلام فرمایا سیدنا ابو قحافہ نے بڑی عمر پائی۔ امام کائنات کے بعد اپنے فرزند ارجمند سیدنا ابو بکر کے بعد بھی کچھ دنوں تک زندہ رہے آخر عمر میں بہت ضعیف ہوگئے تھے اور آنکھوں کی بصارت چلی گئی تھی۔ 14ھ میں 97 برس کی عمر میں وفات پائی۔ (الاصابہ جلد4 صفحہ 222)

صدیق قبل اسلام:

سیدنا ابوبکر صدیق اسلام سے قبل ایک متمول تاجر کی حیثیت رکھتے تھے اور ان کی دیانتداری اور راست بازی کا خاصہ شہرہ تھا اہل مکہ ان کو علم تجربہ اور حسن خلق کے باعث نہایت معزز سمجھتے تھے ایام جاہلیت میں خون بہا کا مال آپ ہی کے پاس جمع کرایا جاتا تھا اگر کبھی کسی دوسرے شخص کے یہاں جمع ہوتا توقریش اس کو تسلیم نہیں کرتے تھے۔سیدنا صدیق کو ایام جاہلیت میں بھی شراب نوشی سے نفرت تھی جیسی زمانہ اسلام میں تھی اس قسم کے ایک سوال کے جواب میں فرمایا کہ شراب نوشی میں نقصان آبرو ہے رحمت کائنات کے ساتھ بچپن ہی سے ان کوخاص انس اور خلوص تھااور امام کائنات کے حلقہ ء احباب میں ہی داخل تھے اکثر تجارت کے سفروں میں بھی ہمراہی کا شرف حاصل ہوتا تھا۔

اسلام اور صدیق:

رحمت کائنات کو جب خلعت نبوت عطا ہوا اور امام کائنات نے مخفی طور پر احباب مخلصین اورمحرمان راز کے سامنے اس حقیقت کو ظاہر فرمایا تو مردوں میں سے سیدنا ابو بکر نے سب سے پہلے بیعت کے لیے ہاتھ بڑھایا اور بعض ارباب سیر نے ان کے قبول اسلام کے متعلق بہت سے طویل قصے نقل کیے ہیں لیکن یہ سب حقیقت سے دور ہیں اصل یہ ہے کہ سیدنا ابوبکر کا آئینہ دل پہلے ہی سے صاف تھا فقط خورشید حقیقت کے عکس افگنی کی دیر تھی کیونکہ گذشتہ صحبتوں کے تجربوں نے نبوت کے خدوخال کو اس طرح واضح کر دیا تھا کہ معرضت حق کے لیے کوئی انتظار باقی نہ رہا البتہ ان کے اول مسلمان ہونے میں بعض مؤرخین اور اہل آثار نے کلام کیا ہے بعض روایات سے ظاہر ہوتا ہے کہ سیدہ خدیجہ کا اسلام سب سے مقدم ہے اور بعض سے معلوم ہوتا ہے کہ سیدنا علی کو اولیت کا فخر حاصل ہے۔اور بعض کا خیال ہے کہ سیدنا زید بن ثابت بھی سیدنا ابوبکر سے پہلے مسلمان ہوچکے تھے لیکن اس کے مقابلہ میں ایسی اخبار وآثار بھی بکثرت موجود ہیں جن سے ثابت ہوتا ہے کہ اولیت کا طغرائے شرف و امتیاز صرف اسی ذات گرامی کےلیے مخصوص ہے اور سیدنا حسان بن ثابت کے ایک قصیدہ سے بھی اسی خیال کی تائید ہوتی ہے۔

اذاتذکرت شجوا من اخی ثقۃ
فاذکر اخاک ابابکر بما فعلا

جب تم صداقت شعار ہستی کے دکھ درد کو یا د کرنے لگو تو اپنے بھائی ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے کارناموں کو یاد کرلینا۔

خیر البریۃ اتقاھا واعدلہا
بعدالنبی واوفاہا بما حملا

جو نبی کریم صلی اللہ علیہ والہ وسلم اور انبیاء کرام کے بعد تمام مخلوق میں سب سے بہتر، سب سے زیادہ پرہیزگار اور سب سے زیادہ انصاف پسند ہیں ،ونیز ذمہ داری میں سب سے زیادہ ذمہ داریوں کو پورا کرنے والے ہیں ۔

والثانی التالی المحمود مشہدہ
واول الناس ممن صدق الرسلا

نبی صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے یار غار ، ہمیشہ آپ کی صحبت میں رہنے والے اور مخلوق میں قابل تعریف ہیں ‘ اور سب سے پہلے رسولوں کی تصدیق کرنے والے ہیں ۔

محقیقن نے ان مختلف احادیث وآثار میں اس طرح تطبیق دی ہے کہ ام المؤمنین سیدہ خدیجہ عورتوں میں سیدنا علی بچوں میں سیدنا زید بن حارثہ غلاموں میں اور سیدنا صدیق آزاد اور بالغ مردوں میں سب سے اول مومن ہیں۔ (فتح الباری ج7 ص 130)

صدیق اسلام اور مکی زندگی:

رحمت کائنات نے بعثت کے بعد کفار کی ایذا رسانی کے باوجود تیرہ برس تک مکہ میں دعوت و تبلیغ کا سلسلہ جاری رکھا سیدنا ابو بکر اس بے بسی کی زندگی میں جان مال رائے اور مشورہ غرض ہر حیثیت سے رحمت کائنات صلی اللہ علیہ وسلم کے رنج و راحت میں دست و بازوبنے رہے امام کائنات روزانہ صبح وشام سیدنا ابو بکر کے گھر تشریف لے جاتے اور دیر تک مجلس راز قائم رہتی۔(بخاری باب الہجرۃ النبی واصحابہ الی المدینہ)

مکہ میں ابتداً جن لوگوں نے داعی توحید کو لبیک کہا ان میں کثیر تعداد غلاموں اور لونڈیوں کی تھی جو اپنے مشرک آقاؤں کے پنجہء ظلم و ستم میں گرفتار ہونے بندگانِ توحید کو ان کے جفاکار مالکوں سے خرید کر آزاد کردیا۔ چنانچہ سیدنا بلال عامر بن فہیرہ، نہدیہ، جاریہ بنی مؤمل اور بنت نہدیہ وغیرہ اس صدیقی جودوکرم کے ذریعہ نجات پائی۔ لیکن آج معاملہ اس کے برعکس نظر آتا ہے کہ ایک نام نہاد مسلم حاکم وقت جس نے ایک آزاد بنت حوا ڈاکٹر عافیہ صدیقی کو کافروں اور اسلام کے دشمنوں کے حوالے کیا گیا آج کہاں ہیں صلاح الدین ایوبی اور طارق بن زیاد کے روحانی فرزند جو زیاد کی طرح اپنی بہن کی عصمت کےلیے لبیک کہیں؟ اور وہ صدیق تھے کہ جب بھی کفار مکہ امام کائنات پر دست درازی کرتے تو یہ مخلص جانثار اپنی جان کی پرواہ نہ کرتے ہوئے کافروں کےآگے سینہ سپر ہو جاتے ایک دفعہ رحمت کائنات خانہ کعبہ میں تقریر کر رہے تھے اور مشرکین مکہ اس تقریر سے سخت برہم ہوئے اور اس قدر مارا کہ امام کائنات بے ہوش ہوگئے اور ابو بکر نے آگے بڑھ کر کہا کہ اللہ تمہیں سمجھائے کیا تم ان کو اس لیے قتل کرو گے کہ یہ صرف ایک اللہ کا نام لیتاہے۔(فتح الباری ج7 ص 129) ایسےپیچیدہ حالات کی وجہ سے رحمت کائنات نے ہجرت مدینہ کا ارادہ کیا اور مشرکین مکہ اپنے تمام مکروں کو آزمانے کے باوجود اپنی ناکامی پر سخت برہم ہوئے اور اسی وقت رحمت کائنات کی گرفتاری کا اعلان کیا کہ جوشخص محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو گرفتار کرکے لائے گا اس کو سو اونٹ انعام میں دیئے جائیں گے چنانچہ متعدد بہادروں نے اپنے باطل مذہب کا جوش اور انعام کی طمع و لالچ میں امام کائنات کی تلاش میں نکلے یہاں تک کہ مکہ کے اطراف میں کوئی آبادی ویرانہ جنگل اورپہاڑ یا سنسان میدان ایسا نہ ہوگا جس کا جائزہ نہ لیا گیا ہو یہاں تک کہ ایک جماعت غارثور کے پاس جاپہنچی(جوکہ ہجرت کے دوران سب سے پہلی آرام گاہ تھی) اس وقت سیدنا صدیق کو نہایت اضطراب ہوا اور حزن و یاس کے عالم میں بولے اللہ کے رسول اگر وہ ذرا سی بھی نیچے کی طرف نگاہ کریں گے توہمیں دیکھ لیں گے مگر امام کائنات نے صدیق کو تشفی دی اور فرمایا مایوس وغمزدہ نہ ہوں ہم صرف دو نہیں ہیں ایک تیسرا (یعنی اللہ) بھی ہمارے ساتھ ہے۔ (مسلم فضائل ابی بکر الصدیق)

اس تشفی آمیز فقرہ سے سیدنا ابو بکر صدیق کو اطمینان ہو گیا اور ان مضطرب دل امداد غیبی کے تیقن پر لازوال جرأت و استقلال سے مملو ہوگیا خدا کی قدرت کہ کفارجو تلاش کرتے ہوئے اس غار تک پہنچے تھے ان کو مطلق محسوس نہ ہوا کہ ان کا گوہر مقصود اسی کان میں پنہاں ہے اور وہ ناکام واپس چلے گئے۔ فرمایا امام کائنات نے (من کان للہ کان اللہ لہ۔۔۔) اسی طرح یہ مختصر قافلہ دشمنوں کی گھاٹیوں سے بچتا ہوا بارہویں ربیع الاول سنہ نبوت کے چودہویں سال مدینہ کے قریب پہنچا اور انصار کو امام کائنات کی روانگی کا حال معلوم ہو چکاتھا وہ نہایت بے چینی سے آپ کا انتظار کر رہے تھے امام کائنات شہر کے قریب پہنچے تو انصار مدینہ استقبال کے لیے نکلے اور ہادی برحق کو حلقہ میں لے کر شہر قبا کی طرف بڑھے امام کائنات نے اس قافلے کو داہنی طرف مڑنے کا حکم دیا اور بنی عمرو بن عوف میں قیام پذیر ہوئے اور یہاں انصار جوق در جوق زیارت کےلیے آنے لگے اور رحمت کائنات خاموشی کے ساتھ تشریف فرماتھے اور سیدنا ابوبکر کھڑے ہو کر لوگوں کا استقبال کر رہے تھے بہت سے انصار جوپہلے رحمت کائنات کی زیارت سے مشرف نہیں ہوئے تھے وہ غلطی سے سیدنا ابو بکر کے گرد جمع ہونے لگے یہاں تک کہ جب آفتاب نبوت سامنے آنے لگا اور جانثار خادم نے بڑھ کر اپنی چادر سے آقائے نامدار پر سایہ کیا تو اس وقت خادم اور مخدوم میں امتیاز ہو گیا اور لوگوں نے رسالت مآب کو پہنچانا۔(بخاری باب ہجرۃ النبی واصحابہ)

ایک المناک سانحہ پر سیدنا صدیق کی ثابت قدمی:

جب اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم اس دنیا سے رخصت ہوئے تو سیدنا ابوبکر صدیق مدینہ کی مشرقی جانب سُخ نام گاؤں میں مقیم تھے یہ جگہ اب مدینہ کے ائیرپورٹ کے قرب وجوار میں بنتی ہے جیسے ہی ان کو اس عظیم سانحے کی اطلاع ملی تو فوراً گھوڑے پر سوار ہوکر سُخ سے مدینہ منورہ تشریف لائے اور گھوڑے سے اترتے ہی مسجد بنوی میں داخل ہوئے لوگوں سے گفتگو نہیں کی سیدھے سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کے حجرے میں پہنچے جہاں رسول اللہ کا جسد اطہر یمنی کپڑے سے ڈھکا ہواتھا سیدنا ابوبکر نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے چہرہ مبارک سے کپڑا ہٹایا اور جھک کر آپ کے سر مبارک کا بوسہ لیا اور فرط غم سے رونے لگے پھر فرمایا:

بِأَبِي أَنْتَ يَا نَبِيَّ اللهِ لاَ يَجْمَعُ اللَّهُ عَلَيْكَ مَوْتَتَيْنِ أَمَّا الْمَوْتَةُ الَّتِي كُتِبَتْ عَلَيْكَ فَقَدْ مُتَّهَا

صحيح البخاري (2/ 90)

اللہ کے نبی! میرا باپ آپ پر قربان ہو! اللہ آپ کو دو مرتبہ موت نہیں دے گا جوموت آپ کےلیے لکھی تھی وہ آچکی ہے۔

سیدنا ابو بکررضی اللہ عنہ حجرے سے باہر نکلے سیدنا عمر لوگوں سے محو گفتگو تھے آپ نے فرمایا(اجلس یا عمر!) عمر بیٹھ جائیے لیکن سیدنا عمر نے جوش و غضب میں اپنی گفتگو جاری رکھی سیدنا ابو بکر کھڑے ہو گئے اور خطبہ دینے لگے آپ نےاللہ کی حمد و ثناء بیان کرنے کے بعد وہ الفاظ ارشاد فرمائے کہ اگر ان الفاظ کو سونے کے پانی سے لکھا جائے تو پھر بھی حق ادا نہیں ہوگا۔

فَمَنْ كَانَ مِنْكُمْ يَعْبُدُ مُحَمَّدًا صلى الله عليه وسلم فَإِنَّ مُحَمَّدًا صلى الله عليه وسلم قَدْ مَاتَ وَمَنْ كَانَ يَعْبُدُ اللَّهَ فَإِنَّ اللَّهَ حَىٌّ لاَ يَمُوتُ

صحيح البخاري(2/ 91)

جو شخص محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی عبادت کرتا تھا تو وہ جان لے کہ وہ فوت ہوگئے ہیںاور جو شخص اللہ تعالیٰ کی عبادت کرتا تھا وہ جان لے کہ اللہ تعالیٰ زندہ ہے۔

خلافت علی منہاج النبوۃ:

امام کائنات کو خواب میں دوخلفاء دکھانے گئے جن کی خلافت عین منہج نبوی کے مطابق ہوگی اور وہ آپ کے طریقے سے ذرہ برابر انحراف نہیں کریں گےرحمت کائنات فرماتےہیں میں سویا ہواتھا مجھے خواب میں دکھایا گیا کہ میں نے اپنے حوض سے پانی نکال کر لوگوں کو پلا رہا ہوں اتنے میں ابو بکر آگئے انہوں نے میرے ہاتھ سے ڈول لے لیا تاکہ مجھے آرام وسکون کا موقع دیں انہوں نے دو ڈول نکالے لیکن ان کے ڈول نکالنے میں کمزوری تھی اللہ تعالیٰ ان کی مغفرت فرمائے پھر عمر آگئے انہوں نے ابوبکر سے ڈول لے کر(خوب پانی نکالا) میں نے کبھی اس سے زیادہ قوت کےساتھ ڈول کھینچتےکسی کو نہیں دیکھا حتی کہ لوگ سیر ہوکر چلے گئے اور حوض ابھی بھرا ہوا تھا اور بڑے جوش کے ساتھ پھوٹ رہا تھا۔(صحیح مسلم حدیث 2392)

پہلا خطبہ خلافت:

بیعت کے بعد سیدنا ابو بکر نے خطبہ ارشاد فرماتے ہوئے اللہ تعالیٰ کی شان اقدس کے لائق حمد وثنا بیان کی اور فرمایا حاضرین کرام مجھے تمہارا سربراہ بنایا گیا ہے اور میںخود کو تم سے بہتر نہیں سمجھتا اگر میں درست کام کروں تو میری مدد کرنا اگر مجھ سے غلطی ہو جائے تو میری اصلاح کرنا۔ سچ امانت ہے اور جھوٹ خیانت ہے تمہارا کمزور شخص میرے نزدیک طاقت ور ہے حتی کہ اس سے مظلوم کا حق وصول کر لوں ان شاءاللہ جب کوئی قوم جہاد فی سبیل اللہ سے منہ موڑ لیتی ہے تو اللہ تعالیٰ اسے ذلیل کر دیتےہے جس قوم میں بے حیائی عام ہوجائے اللہ تعالیٰ ان پر عمومی عذاب نازل کر دیتاہے میری اطاعت اس وقت تک کرنا جب تک میں اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کرتا رہوں جب میں اللہ اور اس کے رسول کی نافرمانی کرنے لگے تو تم پر میری اطاعت ضروری نہیں اُٹھو نماز ادا کرو اللہ تعالیٰ تم پر رحم فرمائے۔ (البدایہ و النہایہ 305-306/6)

جبکہ آج ہمارے حکمرانوں کی تیاریاں عروج پر ہیں غریب عوام کا خون چوسنے کےلیے ہر طرح کے جال بچھائے جا رہے ہیں اور کروڑوں روپے کا سرمایہ رائیگاں کیا جارہاہے حالانکہ یہ منصب حکومت امام کائنات اور صحابہ کرام کا تشکیل دیا ہوا ہے آج اس منصب پر مسلط ہونے کے لیے ہر دنیا دار آدمی تیار ہے جو کہ دین اسلام سے کورے نظر آتے ہیں جیسے کہ امیدواران الیکشن سے کچھ سوالات پوچھے جا رہے تھے اور سوالات بھی ایسے کہ جن کے جوابات ایک دینی گھرانے سے تعلق رکھنے والا بچہ بھی بآسانی دے سکتا ہے کسی سے فجر کی نماز کی رکعتیں پوچھی جا رہی ہیں اور کسی سے قرآن پاک کے پاروں کے متعلق پوچھا جا رہا ہے جوکہ انسانیت کےلیے اللہ نے ضابطہ حیات اتارا ہے تو ان کے سوالوں کے جواب بھی نہیں آرہے تھے یہاں تک کہ ایک نام نہاد مسلم بول پڑا کہ قرآنی سوالات کیوں کیے جا رہے ہیں؟ یہی وجہ ہے کہ قرآن و حدیث سے دوری نے انہیں جلاد بنادیا ہے کہ غریبوں کے چھوٹے چھوٹے بچے بھوک پیاس سے ان کے سامنے تڑپتے رہیں اور انکے رونگٹے بھی کھڑے نہ ہوں اور انکی سیاست بھی ایک جھوٹ کا حال ہے آج اپنے مفاد کی سیاست کی جاتی ہے اور عوام کو جھوٹ پے جھوٹ تحفۃ پیش کیا جاتاہے۔ (الامان والحفیظ) اور ایک وہ بھی تو سیاسی لیڈر تھے۔

صدیق اور سیاسی بصیرت:

سیدنا ابو بکربے پناہ سیاسی بصیرت کے حامل تھے اور حالات کے نشیب و فراز پر گہری نگاہ رکھتے تھے اپنے دور کی حکومتوں اور ان کےقوانین سے بھی پوری طرح آگاہ تھے اس وقت ایران اور روم کی دو مملکتوںکا تمام دنیا میں شہرہ تھا اور کسی معاصر حکومت کو ان کے سامنے سر اٹھانے کی جرأت نہ تھی اور جمہوریت کا اس زمانے میں کہیں نام و نشان نہ تھا تمام حکومتیں جبروآمریت کی بنیاد پر قائم تھیں آج کے حکمرانوں کی طرح رعایا ان کے ہاتھوں سخت تکلیف میں مبتلا تھی ہر باشندہ ملک کو انہوں نے دبا کر رکھا ہواتھا اور لوگوں سے اچھوتوں کا سا برتاؤ رکھا جاتا تھا سیدنا ابو بکر کے عہد خلافت میں دنیا کی ان دو عظیم مملکتوں کے جو علاقے مسلمانوں کے ہاتھوں فتح ہوئے وہاں کامل مساوات کا قانون نافذ کیا گیا سیدنا صدیق نے فوج کے سر براہوں کے نام حکم جاری کیا کہ بلا امتیاز مذہب و ملت سب سے یکساں معاملہ کیا جائے کسی سے بے گارنہ لی جائے اور کسی کو محکوم اور مفتوح سمجھ کر مبتلائے اذیت نہ کیا جائے چھوٹے بڑے ہر طبقے کے لوگوں سے عدل و انصاف کیا جائے کسی قوم کی عبادت گاہوں کو منہدم نہ کیا جائے مذہبی اور معاشرتی آزادی کا کھلنے الفاظ میں اعلان کیا جائے حالانکہ مفتوحہ علاقے کے لوگوں نے مساوات کا کبھی نام تک بھی نہیں سناتھا وہ مسلمانوں کے اس طرز عمل اور طریق گفتگو سے نہایت خوش ہوئے اور بہت سے لوگ صرف ان کے اس رویے سے متاثر ہو کر دائرہ اسلام میں داخل ہو گئے۔(ابو بکر صدیق لمحمد حسین ھیکل صفحہ 25)

جیسے حکمران ویسی رعایا:

ایک بدوی خاتون نے سیدنا صدیق سے پوچھا اے خلیفہ رسول جاہلیت کے بعد اللہ نے ہمیں اسلام کیوجہ سے جو نعمت عطا کی ہے ہم اس پر کب تک قائم رہیں گے صدیق نے فرمایا:

بَقَاؤُكُمْ عَلَيْهِ مَا اسْتَقَامَتْ بِكُمْ أَئِمَّتُكُمْ

تم لوگ اس پر اس وقت تک قائم رہو گے جب تک تمہارے حکمران اسلام پر قائم رہیں گے وہ کہنے لگی حکمرانوں سے کون لوگ مراد ہیں؟ صدیق نے فرمایا:

أَمَا كَانَ لِقَوْمِكِ رُؤُوسٌ وَأَشْرَافٌ يَأْمُرُونَهُمْ فَيُطِيعُونَهُمْ

کیا تمہاری قوم کے شرفاء اور سردار نہیں ہیں جو قبیلے والوں کو حکم دیتے ہیںاور وہ ان کی اطاعت کرتے ہیں اس نے کہا بالکل ہیں۔ جناب صدیق نے فرمایا:

فَهُمْ أُولَئِكَ عَلَى النَّاسِ

یہی لوگ تو حکمران ہیں۔ (صحیح بخاری3834)

وسعت علم اور صدیق:

رحمت کائنات نے دنیائے اسلام کے پہلے حج میں سیدنا صدیق کو مدینہ منورہ سے امیر الحج بناکر روانہ فرمایا عبادات میں سے مناسک حج کا علم انتہائی دقیق ہے اگر صدیق کے پاس وسعت علم نہ ہوتی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کبھی امیر الحج نہ بناتے اور اسی طرح نماز کے معاملہ میں بھی رحمت کائنات نے سیدنا صدیق ہی کو اپنا نائب بنایا اور رسول اکرم نے سیدنا انس سےجو کتاب الصدقہ لکھوائی تھی اس کو سیدنا صدیق سے روایت کیا ہے وہ صدقہ کے بارے میں سب سے زیادہ قابل اعتماد دستاویز ہیں کوئی شرعی مسئلہ ایسا نہیں جس میں سیدنا صدیق نے غلطی کی ہو۔ جبکہ دیگر صحابہ کرام کے کئی ایک ایسے مسئلے مذکور ہیں جن میں انکو غلطی لگی۔ (ابو بکر افضل الصحابہ ص 60)

اجتہاد اور صدیق:

سیدنا صدیق کے سامنے کوئی ایسا مسئلہ پیش آتا جس کی اصل کتاب اللہ اور سنت رسول اللہ سے نہ ملتی تو وہ اس میں اجتہاد کرتے اور کہا کرتے تھے:

أَقُولُ فِيهَا بِرَأْي فَإِنْ يَكُنْ صَوَابًا فَمِنَ اللَّهِ، وَإِنْ يَكُنْ خَطَأً فَمِنِّي وَمَنَ الشَّيْطَانِ

السنن الصغير للبيهقي (2/ 362)

میں اپنی رائے سے کہتا ہوں اگر یہ صحیح ہے تو اللہ کی طرف سے ہے اور اگر غلط ہے تو یہ میری غلطی ہے اور شیطان کی طرف سے ہے۔

جب بھی ان کے پاس کوئی مسئلہ آتا تو وہ کتاب اللہ سے اس کا حل ڈھونڈتے اگر مل جاتا تو اس کے مطابق فیصلہ کرتے اگر نہ ملتا تو پھر صحابہ کرام سے اس بارے میں پوچھتے ایسے موقعوں پر آپ کہا کرتے تھے:

اَلْحَمْدُ لِلَّهِ الَّذِى جَعَلَ فِينَا مَنْ يَحْفَظُ عَنْ نَبِيِّنَاصلى الله عليه وسلم

السنن الكبرى للبيهقي (10/ 114)

اللہ کا شکر ہے ہم میں ایسے لوگ موجو دہیں جنہوں نے رسول کی سنت کو محفوظ کر رکھا ہے۔

لیکن دور حاضر میں اہل الرائے کا ایک ٹولہ دلیلیں تو ابو بکر و عمر کے اجتہاد کی پیش کرتے ہیں لیکن ان کے اکثر و بیشتر مسائل حدیث رسول سے ٹکرا رہے ہوتے ہیں ۔ سچ کہا تھا سیدنا علی نے (الکلمۃ حق أرید بہا الباطل) آئیڈیل اور نمونہ تو صحابہ کے اجتہاد کو پیش کرتے ہیں لیکن حقیقت میں شریعت کی مخالفت کرتے ہیں اللہ انہیں ہدایت دے اور دین کی سمجھ دے۔

صدیق بطور فیصل:

سیدنا ابو بکر صدیق نے اپنے نہایت معتمد ساتھی سیدنا عمر فاروق کے خلاف ایک مقدمہ میں فیصلہ دیا تھا۔آئیے اس واقعہ کے بارے میں ان کا موقف پڑھتے ہیں ہوا کچھ یوں کہ سیدنا عمر نے اپنی ایک انصاری اہلیہ کو طلاق دے دی تھی اس خاتون سے ان کا بیٹا عاصم تھا کچھ عرصہ بعد سیدنا عمر نے دیکھا کہ وہ انصاری خاتون اپنے بیٹے کو اٹھائے تھی اور بچہ دودھ پینا چھوڑ چکا تھا اور اب چلنے پھرنے کےقابل ہوگیا تھا سیدنا عمر نے بیٹے کا ہاتھ پکڑ کر ماں سے چھیننا چاہا اور تھوڑی سختی بھی کی کہ بچہ رونے لگا سیدنا عمر کہنے لگے میں اپنے بیٹے کا تمہاری نسبت زیادہ حقدار ہوں یہ جھگڑا سیدنا صدیق تک پہنچا تو سیدنا صدیق نے ماں کے حق میں فیصلہ دے دیا اور فرمایا اس بچے کے لیے ماں کی محبت و شفقت اس کو گود اور بستر تمہاری نسبت زیادہ بہتر ہے حتی کہ بچہ جوان نہ ہوجائے اور اپنا فیصلہ خود نہ کرے کہ وہ کس کے پاس رہنا چاہتا ہے اور ایک روایت میں یہ الفاظ ہیں ماں زیادہ مشفق و مہربان زیادہ رحم دل زیادہ محبت کرنے والی اور زیادہ نرم مزاج ہےجب تک وہ عورت دوسری شادی نہ کرے تب تک وہ بچے کی زیادہ حقدار ہے۔ (مصنف عبدالرزاق 54/7 حدیث 2600)

صدیق بطور خطیب:

سیدنا ابو بکر نے لشکر اسامہ کے فوجیوں سے خطاب کرتے ہوئے فرمایا اے لوگو! ٹہرو میں تمہیں کچھ ہدایات دینا چاہتا ہوں۔ انہیں اچھی طرح یاد کرلو، نہ خیانت کرنا، نہ مال غنیمت چرانا، نہ بد عہدی کرنا، نہ لاشوں کی بے حرمتی کرنا، نہ پھل دار درخت کاٹنا، نہ بلاضرورت بکری گائے اور اونٹ ذبح کرنا۔(اب ذرا سوچئے جتنے کاموں سے سیدنا صدیق نےمنع کیا ہے ان میں سے وہ کونسا ایسا کام ہے جو ہم اورہمارے حکمران نہیں کرتے؟ پھر فرق صرف اتنا پڑتا ہے کہ وہ ان سب امور کی پانبدی کر کے فتح عزت وعظمت و کامیابی ان کا ثمرہ بنتی تھی اور ہم ان سب کاموں میں مخالفت کرتے ہیں تو ذلت و رسوائی آج ہمارا مقدر بن چکی ہے) عنقریب تم ایسے لوگوں کے پاس سے گزروگے جو گرجا گھروں میں عبادت میں مصروف ہوں گے۔ان سے تعرض نہ کرنا، تم ایسے لوگوں کے پاس جا رہے ہوجو تمہارے لیے رنگ برنگے کھانے لائیں گے تم ہر کھانے سے پہلے بسم اللہ پڑھنا تمہارا ایسے لوگوں سے مقابلہ ہوگا جنہوں نے اپنے سر درمیان سے مونڈ رکھے ہونگے اور بقیہ بالوں کو پٹیوں کی مانند چھوڑ دیا ہوگا ایسے لوگوں کو تہ تیغ کر دینا، اب اللہ کا نام لیکر روانہ ہو جاؤ۔پھر سیدنا ابوبکر نے سیدنا اسامہ کو نصیحت کرتے ہوئے فرمایا:

اصنع ما أمرك به نبي الله صلى الله عليه و سلم ابدأ ببلاد قضاعة ثم إيت آبل ولا تقصرن في شيء من أمر رسول الله صلى الله عليه و سلم ولا تعجلن لما خلفت عن عهده

رسول کے حکم کی تعمیل کرنا جنگ کی ابتدا بلاد قضاعہ سے کرنا پھر آبل (موجودہ اردن کے جنوب میں واقع ایک شہر ہے) پر حملہ آور ہونا لیکن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے کسی حکم میںذرہ بھر بھی کوتاہی نہ کرنا اور رحمت کائنات کے عہد سے پیچھے مت ہٹنا۔

سیدنا اسامہ کا لشکر چلاگیا اہل لشکر امام کائنات کے حکم کے مطابق قضاعہ کےقبائل پر حملہ آور ہوئے آبل فتح کیا اور مال غنیمت او رفتح کے ساتھ سرخرو ہوکر لوٹے ان کا یہ پورا مشن چالیس روزہ تھا اور چالیس ہی دن میں مکمل کامیابی مل گئی۔ (تاریخ الطبری 45-47/4،والسیرہ النبویۃ الصحیحہ للدکتور العمری 470-467/2)

سیدنا صدیق کی اولو العزمی:

سیدنا صدیق نہایت درجہ اولو العزم اور صمیم القلب خلیفہ تھے ان کی اولوالعزمی کے واقعات تو بہت ہیں لیکن یہاں ہم چند ایک ذکر کرتے ہیں۔

1۔ مرتدین اور مانعین زکاۃ کا فتنہ بپا ہوا تو سیدنا صدیق نے فتنہ بپا کرنے والوں کے خلاف جنگ کرنےکااعلان فرمایا زیادہ تر صحابہ نے اس بات سے اختلاف کیا جن میں سیدنا عمر بھی شامل تھے لیکن سیدنا صدیق اپنے ارادے پر قائم رہے اور بہ درجہ غایت اولوالعزمی کا مظاہرہ کرتے ہوئے صاف لفظوں میں فرمایا کہ جو لوگ نماز اور زکاۃ میں فرق کرینگے میں ان سے ضرور جنگ کروں گا چاہے مجھے اکیلا ہی کیوں نا مقابلہ کرنا پڑے۔

2۔ عراق میں مثنی بن حارثہ شیبانی جب برسر پیکار تھے تو انہوں نے دربار خلافت سے مزید فوج کا مطالبہ کیا تو سیدنا صدیق نے ان کی امداد کےلیے خالد بن ولید کو اچھی خاصی فوج دیکر عراق روانہ کیا۔

3۔ شام کے محاذ پر فوج بھیجنے کی ضرورت پڑی تو تمام عرب سے فوجیں جمع کیں پھر سیدنا ابو عبیدہ بن جراح اور اسلامی فوج کے سربراہوں کی طرف سے جو شام میں مقیم تھے دشمن پر حملہ کرنے میں کچھ ہچکچاہٹ سی ہوئی تو سیدنا خالد بن ولید کو وہاں پہنچنے اور حملہ کرنے کا حکم دیا۔ (الصدیق ابو بکر لمحمد حسین ھیکل ص 40،41)

سیدنا صدیق کا وقت رحلت:

سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ سیدنا ابوبکر کی بیماری کی ابتدا اس طرح ہوئی کہ انہوں نے سخت سردی والے دن غسل کیا تو انہیں بخار ہوگیا جو پندرہ دن تک جاری رہا بیماری کی شدت کے باعث آپ ان دنوں مسجد نہ جا سکتے تھے اس لیے سیدنا عمر کو نماز پڑھانے کا حکم دیتے تھے۔ صحابہ کرام آپ کی تیمارداری کرنے آتے تھے سب سے زیادہ خبر گیری سیدنا عثمان کرتے تھے۔ (اصحاب الرسول صلی اللہ علیہ وسلم لمحمود المصری)

جب انکی بیماری شدید ہوگئی تو ان سے عرض کیا گیا ہم آپ کے لیے طبیب بلائیں؟ تو فرمایا:

قَدْ رَآنِي فَقَالَ: إِنِّي فَعَّالٌ لِمَا أُرِيدُ
ترتیب و تہذیب البدیہ والنہایہ للدکتور السلمی،ص 33

طبیب نے مجھے دیکھ لیا ہے اور وہ کہتا ہے بیشک میں جو چاہتا ہوں کرتاہوں۔

سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں: سیدنا ابو بکر نے فرمایا:

انظروا ماذا زاد في مالي منذ دخلت في الإمارة فابعثوا به إلى الخليفة بعدي
صفۃ الصفوۃ لابن الجوزی 265/1

جب سےمیں خلیفہ بنا ہوں اس دوران جتنا مال بڑھا ہے وہ میرے بعد والے خلیفہ کو پہنچا دینا۔

ہم نے جب ان کا مال چیک کیا تو ایک نوبی غلام تھا مصر کے جنوب میں سوڈان کے شہر نوبہ میں ایک قوم آباد تھی یہ غلام انہیں میں سے تھا اور یہ خلیفہ کے بچے کھلاتا تھا۔اس کے علاوہ ایک اونٹ تھا جو ان کے باغ کو سیراب کرتا تھا ہم نے یہ دونوں چیزیں سیدنا عمر کی خدمت میں بھیج دیں تو وہ رو پڑے اور روتے روتے فرمایا: ابو بکر پر اللہ کی رحمتیں ہوں انہوں نے اپنے بعد والوں کو مشکل میں ڈال دیا ہے۔(صفۃ الصفوۃ لابن الجوزی 265/1)

صدیق اکبر کے آخری لمحات:

سیدہ عائشہ فرماتی ہیں سیدناابو بکر کا مرض پندرہ دن جاری رہا حتی کہ جب 13 ہجری 22 جمادی الآخرہ کو پیر کا دن ہوا تو انہوں نے مجھ سے پوچھا:

فِي أَيِّ يَوْمٍ مَاتَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کس دن رحلت فرمائی تھی؟

میں نے جواب دیا پیر کے دن، تو ابو بکر نے فرمایا:

إِنِّي لأَرْجُو فِيمَا بَيْنِي وَبَيْنَ اللَّيْلِ

مسند أحمد(6/ 132)

مجھے امید ہے کہ میں آج دن کو یا رات کو کسی وقت فوت ہو جاؤں گا۔

پھر پوچھا: فَفِيمَ كَفَّنْتُمُوهُ ؟تم لوگوں نے رسول اللہ کو کتنی چادروں میں کفن دیا تھا؟ انہوں نے جواب دیا یمن کی دھاری دار تین چادروں میں۔ اس میں قمیص اور عمامہ نہیں تھا، سیدنا ابو بکر نے فرمایا: میری چادر میں زعفران یا گیرو کا نشان ہے اسے دھو دینا اور دیگر دو چادریں ملا کر میرا کفن بنادینا، ان سے عرض کیا گیا اللہ تعالیٰ نے ہمیں بہت کچھ دیا ہے خوب احسان فرمایا ہے ہم آپ کو نئی چادروں میں کفن دیں گے انہوں نے فرمایا: زندہ شخص کو نئے لباس کی زیادہ ضرورت ہوتی ہے تاکہ اپنے آپ کو محفوظ رکھ سکے جبکہ میت کا انجام تو گلنا سڑنا ہوتاہے اور لباس کا بوسیدہ ہونا ہوتاہے سیدنا ابو بکر نے وصیت کی کہ انہیں ان کی بیوی سیدہ اسماء بنت عمیس غسل دیں اور انہیں رسول اللہ کے پہلو میں دفن کیا جائے۔

اس دینا سے رخصت ہوتے وقت صدیق اکبر کی زبان سے جو آخری صدا نکلی وہ قرآن پاک کی یہ آیت مبارکہ تھی:

تَوَفَّنِيْ مُسْلِمًا وَّاَلْحِقْنِيْ بِالصّٰلِحِيْنَ

(اے اللہ) اسلام پر میرا خاتمہ کر اور مجھے نیک لوگوں میں شامل کرلے(سورت یوسف آیت 101)

وفات کے وقت ان کی عمر 63 برس تھی۔

اصحاب الرسول لمحمود المصری106/1 والتاریخ الاسلامی لمحمود شاکر ص 104)

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے