عر بی وہ مبارک زبان ہے جس کو اللہ رب العالمین نے اپنے کلام کے لیے منتخب فر مایا،قرآن کر یم کی آیات بینات اسی زبان کے پیرائے میں نازل فرمائیں ۔خا تم النبین ، سید ولد آدم محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی لسان سے اسے جمال عطاہواتو کلام الہیٰ کی نسبت سے اسے اوج کمال عطاہوا۔ اسی زبان کی ’’ا‘‘ سے اللہ اور اسی کی’’ب‘‘ سے بسم اللہ، اسی کی ’’اقرا‘‘ سے آغازِ وحی اور اسی کی’’الیوم اکملت‘‘ پہ اکمالِ دین، اسی کے گلستان میں دین کی بہار کھلی، اس کے شبستان میں احکامِ شریعت کا مہتاب چمکا، اسی کی آغوش میں صحابہ رضی اللہ عنھم نے دین سیکھا،اسی کے وا سطہ سے محد ثین نے حد یث کا ابلاغ کیا اور اسی کے ذریعہ سے آئمہ نے علم کا پر چار کیا۔

میرے ذا تی تجر بہ کی رو شنی میں عر بی زبان کی معرفت کے بغیر ، دین اسلام کے مبادیات و جزئیات کوکما حقہ سمجھنا محال ہے۔اس لیے عر بی زبان کی تعلیم و تسھیل دراصل دین اسلام کی خد مت ہے، بالخصوص قرآن و احادیث کے متون کے وسیلہ سے عر بی کی تعلیم نہا یت ہی ارفع عمل ہے۔

چند ماہ قبل ایک اہل علم کی سوا نح حیات (سہ ماہی مجلہ: بحرالعلوم شیخ العرب والعجم نمبر) نظر سے گزری،یکا یک خیال کوندا کہ محترم دکتور۔ ف۔ عبدالرحیم کی شخصیت کو پاکستانی طلباء و علماء سے متعارف ہوناچا ہیے،

آپ کو فون کیا سلام کے بعد مد عا بیان کیا ، فر مانے لگے’’میں نے کچھ ایسا خا ص نہیں کیا کہ میرے بارے میں آپ کچھ لکھیں‘‘میں نے عر ض کی، ’’محترم اگر گستاخی نہ ہو تو یہ آپ کی را ئے ہے اور میری رائے آپ سے مختلف ہے‘‘آپ نے میری رائے کو قبول کر لیا اور کچھ معلو مات دینے کی حا می بھری۔پھر آپ سے بذریعہ برقی ڈاک را بطہ رہا۔ آپ نے وہی معلومات فراہم کیں جو مختلف ذرائع سے شا ئع ہو چکی اس کی وجہ شا ید آپ کا انکسار ہی ہے۔

تعلق کی ابتداء:

جا معہ اسلامیہ مد ینہ میں تعلم کے ابتدائی ایا م (2000؁ تا 2004) تھے، ایک روز محترم طاہر جمیل جومجھ سے متفوق (سینئر) تھے سے عر بی زبا ن کے سیکھنے کے بارے میں تبا دلۂ خیال جاری تھا کہ انھوں نے دریافت کیا ’’ کیا آپ محتر م دکتورف -عبد الرحیم (عربی میں ڈاکٹر کے لئے دکتور کا لفظ مستعمل ہے)سے ملے ہیں؟‘‘ میں نے نفی میں جواب دیا تو کہنے لگے،’’ ان سے ملئے وہ جا معہ میں عر بی زبان کی تد ریس کر تے رہے ہیں اور

’دروس اللغۃ العر بیۃ لغیرالنا طقین بھا‘

ان ہی کی تا لیف ہے۔‘‘ تب ذہن میں ایک روشنی سی چمکی اور یاد آیا کہ جو کتاب ہم شعبۃ تعلیم اللغۃ العر بیۃ (حا لیہ معھد تعلیم اللغۃ العربیۃ)میںبطور نصاب پڑھ رہے ہیں، اس کے سر ورق پر دکتو رف -عبدالرحیم لکھا ہے۔ طاہر صا حب سے پو چھا، ’’را بطہ کیسے ہو گا‘‘؟کہا، ’’میں آپ کو فون نمبر فراہم کروں گا اس وقت میرے پاس نہیں‘‘ کچھ روز بعد طا ہر صا حب سے تقا ضا کیا تو انھو ں نے محترم ضیاء الر حمن اعظمی صا حب(کلیۃ الحد یث) کا فون نمبر دیا اور کہا ’’ ان کے ہمسائے میں رہتے ہیں،آپ کا رابطہ کر وا دیں گے‘‘۔ فون کیا اور محترم دکتور ف-عبدالرحیم سے را بطہ ہو گیا۔ان سے ملاقات کا وقت طلب کیا تو فرمایا ’’آپ الطاف ما لا نی (کلیۃ اللغۃ العربیۃ) سے را بطہ کر یں ۔ ان کو میرے مسکن کا علم ہے ان کے ہمراہ آجا ئیے‘‘ ۔الطاف مالانی کو تلاش کیا اور بالآخر ایک شام میں محترم دکتورف -عبد الرحیم کے پاس جاپہنچا۔پہلی ملاقات کی تفصیل تو اس وقت میرے ذہن میں محفوظ نہیں لیکن یہ یا د ہے کہ بہت پر تپاک انداز میں ملے۔ مناسب قد، روشن آنکھیں،چہرے پر متانت، سرپر سفید رومال، عر بی چو غہ میں ملبوس ، سفید ر یش ،ناک پر ٹکی عینک،معمر خدوخال اور نفیس شخصیت، یہ ہیں محترم دکتورف -عبد الر حیم ۔

یادیں:

میں نے جب بھی آپ کے پاس حا ضر ہو نے کی اجازت چا ہی آپ نے بخو شی دی، جب حا ضر ہو تا تو مشروب سے مہمان داری کر تے اور اکثر اپنی کو ئی تصنیف تحفہ کے طور پر عطا کر تے ۔آپ نے دروس اللغۃ العر بیۃ لغیر الناطقین بھا کی انگر یزی کلید جب تحفتاً عنا یت کی توانگر یزی دان طلبہ مجھ سے وہ عاریتاً لے کر اس کی نقل کر واتے رہے ۔ مجھے یا د پڑتا ہے ایک مر تبہ میرے طالب علم سا تھیو ں میں سے حا فظ عبد اللہ خا ں (سنابل ایجوکیشنل کمپلیکس، ساہیوال کے منتظم اور حافظ ثناء اللہ مدنی کے داماد) اور حا فظ ضیاء الاسلام (گوجرانوالہ) بھی میرے ہمراہ تھے، اس وقت بھی آپ نے بہت شفقت فرمائی تھی۔

آپ کے مہما ن خا نے میں عر بی طرزکی فر شی نشست تھی وہیں پر آپ سے ملاقا ت ہو تی ، ایک طرف الماری تھی جس میں کتب قر ینے سے سجی تھیں۔ مختلف مو ضو عات پر آپ سے وقتاً فوقتاً استفادہ کر تا رہا ۔ایک بار آپ نے اس بات پر رنج کا اظہار کیا کہ پا کستا ن میں عیسا ئی مشنری بہت تند ہی سے کام کر رہی ہے اور عیسا ئیو ں (نصرا نیوں )کی تعداد میں بہت تیزی سے اضا فہ ہو رہا ہے پھر آپ نے اعدادوشمار سے بھی آگاہ کیا۔ایک دفعہ فرمانے لگے کہ پاکستانی مسلمانوں سے میری بہت سی توقعات وابستہ ہیں اور یہ میرے لئیے امید کی کر ن ہیں۔

کبھی کو ئی کام ذمہ لگا دیتے جو میرے لئے با عث فر حت رہا ۔ایک مر تبہ میں تعطیلات ِمو سم گر ما کے لئے پاکستان آ رہا تھا تو آپ نے ’’دروس اللغۃ العر بیۃ لغیر الناطقین بھا‘‘ کے پاکستان میں طبع شدہ نسخہ طلب کیے تھے۔آپ کی اجازت سے پا کستان میں اس کے حقوق طباعت محترم محمد بشیر (دارالعلم ، اسلام آباد)کے پاس تھے۔غا لباً ڈاک سے وہ مطبوعات مجھ تک پہنچیں اور پھر میں ان کو اپنے ہمراہ سعو دیہ لے گیا۔

آپ قرآن کر یم کے حوالہ سے کسی پرا جیکٹ پر کام کررہے تھے تو آپ نے مجھ سے کچھ معلومات حا صل کر نے کے لئے کہا ۔ میں اس سلسلہ میں لاہو ر گیا اور ’’قرآن کیلی گرافی ریسرچ پروجیکٹ‘‘ کا تعا رفی کتا بچہ حا صل کیا،یہ قرآن کر یم کی مختلف رسم الخط میں خطا طی و کتا بت کے متعلق سا فٹ وئیرکی تفصیلات پر مشتمل تھا، سعو دیہ جا کر میں نے کتا بچہ آپ کے حوالہ کیا، آپ نے اس پر اظہا ر مسرت کیا ۔ایک مر تبہ میں آپ کے لیے انگر یزی کتاب ’’American Jihad ‘‘ پا کستان سے تحفتاً لے گیا تو آپ نے خو شی کا اظہا ر کیا۔

جا معہ اسلامیہ سے پا کستان وا پسی کے بعد بھی آپ سے را بطہ رہا ۔2008؁ء میں جب حج کے لیے گیا تو ایک روز آپ کو فو ن کیا ، ملاقات کی اجازت چا ہی تو کہنے لگے، ’’میں خود آتا ہو ں‘‘اور مسجد نبو ی تشریف لے آئے ، اور باوجود اس کے کہ میں اپنی نشست کے محل وقوع کے بارے میں غلطی کر بیٹھا خفگی کا اظہار نہ کیا۔کا فی دیر گفتگو کر تے رہے اور پھر اپنی تازہ تصنیفEurope Speaks Arabic کے نسخہ عطا کیا۔ ایک نسخہ محترم عبدالجبار شا کررحمہ اللہ کے لیے دیا اور تا کید کی کہ یہ نسخہ ان تک پہنچا دوں ۔ پا کستان لو ٹنے کے بعد عبدالجبار شاکر رحمہ اللہ سے را بطہ کیا ۔ غا لباً وہ اس وقت اسلام آباد میں تھے ، پتا دریا فت کیا اور کتاب ان کو ارسال کی ۔ چند روز بعد عبد الجبار شا کر کے تو سط سے ایک صا حب کا فو ن آگیا کہ اس کتاب کا ایک نسخہ چا ہیے، فو ٹو کا پی پر وہ آما دہ نہ تھے،آخر کا ر فیصلہ ہوا کہ میں فو ن کر کے ایک نسخہ کی درخواست محترم دکتورف – عبد الر حیم کو دوں گا۔ فون کیا تو آپ نے کمال شفقت کا مظا ہرہ کیا اور ان صا حب کے پتاپر سعو دیہ سے کتاب بھیج دی۔پھر وہ صا حب سعودیہ گئے تو دکتورف – عبد الر حیم سے ملاقات کے لیے مجھ سے ان کا مو با ئل نمبر طلب کیا اور بعد میں کسی وقت بتلایا کہ ان سے ملاقات خو شگوار رہی ۔

ایک روز مکتبہ میں کسی مسئلہ کی جزئیات پر غور کر تے فتاویٰ میں ایک لفظ پر آ کر اٹک گیا ،عبارت کا مفہوم تو وا ضح ہورہا تھا، لیکن ایک لفظ ’’شراّب‘‘ کا معنی سمجھ میں نہ آیا، جملہ کچھ یوں تھا :’’ یجوز المسح علی الشراب ۔۔۔۔ (فتاوی اللجنۃ الد ائمۃ للبحوث العلمیۃ و الافتاء ۵/۲۴۳) کئی لغات دیکھیں عر بی، انگر یزی لغت بھی دیکھ ڈا لی ،یک بیک A Dictionary of Modern Arabic(Han Wehr`s) پر نظر پڑی متعلقہ لفظ وہاںڈھو نڈ ا تو مسئلہ حل ہو گیا۔بے اختیار محترم-ف- عبد الر حیم کے لیے دل سے دعا نکلی، یہ کتاب خر ید نے کا مشورہ غا لباً انھو ں نے ہی دیاتھا۔وہ دروس اللغۃ کی Key Part IIIکے پیش لفظ میں بھی طلبہ کو یہ مشورہ دیتے نظر آتے ہیں۔

معا صرین کی را ئے:

محترم دکتورف-عبد الرحیم کی تصنیف ’’پردہ اٹھا دوںاگر چہرۂ الفاظ سے۔۔‘‘کے حرف اول میں محترم عبد الجبار شاکر رحمہ اللہ آپ کے تعارف میں رقم طراز ہیں: ’’مصنف مذکو ر چونکہ عر بی ، انگریزی، فا رسی ، ہندی اور اردو زبانوں کے مزا ج سے گہری وا قفیت رکھنے کے علاوہ دوسری زبا نوں کے لغوی سر ما ئے سے بھی شنا سا ہیں،

قار ئین کے علم میں ہو نا چا ہیے کہ فا ضل مصنف عر بی اور انگر یزی کے جید استاد رہے ہیں ۔ اور ان زبانوں میں ان کے علمی اور تحقیقی کا م کو ایک علمی وثوق اور تحقیقی اعتبار حاصل ہے ۔

اسی با عث اپنی حیا ت کے اس آٹھو یں عشرے میں وہ مجمع ملک فہد مد ینہ منو رہ کے اس ادارے سے وا بستہ ہیں جہا ں قر آن مجید کے دنیا کی مختلف زبا نو ں میں ترا جم کی تیا ری ہو تی ہے۔ اس مجمع سے ابھی تک چا لیس سے زائد(یہ تعداد اب 60 سے زائدہوچکی ہے) عا لمی زبانوںمیں’’ الکتاب‘‘ کے ترا جم شا ئع ہو چکے ہیں اور اس ذمہ دارانہ محنت کی ٹیکنیکل ایڈیٹنگ کے پس منظر میں ایک ما ہر لسا نیات اور فا ضل ڈا کٹر ف۔ عبد الر حیم کی صورت میں مو جو د ہے۔ وہ غیر عربوں کو عربی زبان پڑھا نے والی تد ریسی کا وشوں کے سلسلے میں ایک اتھا رٹی اور استناد کا درجہ رکھتے ہیں ۔عر بی لسا نیات میں ان کا اختصاصی مطالعۂ تحقیق ’’ المعرب والدخیل‘‘ جیسے مو ضوع سے متعلق ہے۔ خا لص علمی اور تحقیقی ما حو ل کا یہی وہ فیضان ہے جو ا ن کی پیش نظر تصنیف میں انہیں ایک امتیاز پیش کر تا ہے۔مصنف مذکو ر نے پیش نظر کتاب میں لفظوں کی لغوی اور لسا نی تاریخ کے حوالے سے ایک لطیف ادبی اسلوب کو اختیار کیا ہے۔ کہیں کہیں وہ عر بی، فارسی اردو اور انگریزی اشعار کے ایسے بر محل اور بر جستہ نمونے پیش کر تے ہیں جو ان کے پختہ ادبی مزاج کی نشاندہی کر تے ہیں ۔ تر جمہ و تحقیق اور لغوی مباحث سے منسلک ہو نے کے با عث ان میں فن ترجمہ کی ایک عمدہ صلاحیت پیدا ہو ئی ہے۔ ’’روبوٹ‘‘ ایک ایسا آلہ ہے جو انسانی خدمات کا ایک ادنیٰ اور انو کھا نعم البدل ہے۔ فاضل مصنف نے اس کا تر جمہ ’’انسا لہ‘‘ کیا ہے جو ان کی تخلیقی اپج کا آئینہ دار ہے ۔ اس کتاب کی لسانی اہمیت مسلم ہے اور اس کاصحیح اندا زہ اس کا تفصیلی مطالعہ کیے بغیر ممکن نہیں ہے‘‘۔

اسلوب:

محترم دکتورف۔عبد الر حیم ’’پر دہ اٹھا دوں اگر چہرہ الفاظ سے‘‘کے پیش لفظ میں لفظMammetیا Maumet کا پس منظر بیان کر تے ہو ئے لکھتے ہیں، ’’اس کے متعدد معانی ہیں، ان میں سے ایک’’ بت‘‘ ہے۔ بت کے علاوہ یہ گڑیا کے لیے بھی بولا جاتا ہے۔یہ لفظ کسی کی تحقیر و تذلیل کے لیے بھی استعمال ہو تا ہے۔یہ لفظ ایک لفظ ہی نہیں،بلکہ تاریخ کی ایک ضخیم کتاب ہے:یو رپی نصا ریٰ کے تعصب کی تا ریخ،ان کی جہا لت کی تا ریخ ، اسلام اور نبی اسلام صلی اللہ علیہ وسلم سے ان کی عداوت کی تا ریخ ۔ یہ لفظ (Mammet)نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے نام نامی اسم گرامی کو بگاڑ کر بنایاگیا ہے‘‘(صفحہ ۲۹-۳۰)

اور صفحہ ۶۸ پر لکھتے ہیں :-’’جلو س: عربی میں جلوس کے معنی بیٹھنے کے ہیں۔لیکن یہ لفظ جب ہندوستان پہنچا اور اردو میں دا خل ہوا تو اٹھ کھڑا ہوا اور چل پھر نے لگا،اور اس کے جلو میں ہزا روں لو گ چلنے لگے۔یہ اردو کا کر شمہ ہے کہ بیٹھے ہوئوں کو چلا دے،اورچلنے وا لوں کا تما شہ بنا دے۔

جنوں کا نام خردرکھ دیا،خرد کا جنوں

جو چاہے آپ کا حسن کر شمہ ساز کر ے

یہ آپ کے خو بصورت اسلوبِ تحریر کی ایک جھلک ہے۔

محترم دکتورف ۔عبد الر حیم ’’فی بلاط ھرقل(حد یث ابی سفیان رضی اللہ عنہ فی مجلس ھرقل ملک الروم)‘‘ کے مقدمہ میں لکھتے ہیں:’’وفی مجال شر ح المسا ئل النحو یۃ و الصر فیۃ، أ کثر نا من الأ مثلۃ، فبا لتمثیل تتضح القا عدہ۔ و راعینا أن تکون الأمثلۃ متصلۃ بحیا ۃ الدراس ،و متجد دۃ،غیر محنطۃ ک ((قام زید))لا اقامہ اللّٰہ!‘‘   پھر حا شیہ میں لکھتے ہیں: ’’قد لا یفھم القراء العرب سبب غضبی علی زید فا نھم لم یعانوا و یلاتہ- لقد نشط زید فی بلاد العجم ، و بخا صۃ فی بلاد شبہ القا رۃ الھندیۃ، فمعلمو اللغۃ العر بیۃ فی مدارس ھذہ القا رۃ و تلامذ تھم لا یعر فون الا مثالًا واحدا لمعظم المسائل النحویۃ، و ھذا المثال یتکون من زید و قیا مہ ، أو انطلاقہ ،أو ضر بہ، فمثا ل الفا عل:قام زید، و مثال المبتد أ: زید قا ئم ، و مثال الا سم المجرور: مررت بزید و من تجر بتي مع طلاب ھذہ القارۃ التی استمرت ستا و عشر ین سنۃ با لجامعۃ الا سلامیۃ با لمدینۃ المنورۃ اتضح لی أنھم عا جزون عن تکوین جملۃ تخلو من زید! و من ثم قلت فی مقدمۃ کتا بی المسعف: (( لن یتعلم المرء اللغۃ العربیۃ ما دام زید قا ئما)) افلا تری- أیھا القاریٔ الکریم-فی ضوء ما مضی أن یجبر زید علی القعود ، بل علی التقاعد، وأننی لم أظلمہ بد عا ئی علیہ؟‘‘

حالیہ سفر حجاز میں ملاقات:

حا لیہ سفرِ حجاز(فروری-مارچ2012) میں مسجد نبوی میں آپ سے ملا قات طے پائی، آپ نے حسب ِ سا بق شفقت کا مظا ھرہ کیا اور ملنے کے لیے خصوصی طور پر تشریف لائے۔ جب میں نے فون کر کے اپنی آمد سے آگاہ کیا تو خو شی کا اظہار فر ما یا اور بلا تردد ملاقات پر آمادگی ظا ہر کی ۔بعد از صلوٰۃ مغرب آپ سے ملاقات رہی اور آپ کو اس مضمو ن کا کچھ حصہ بآواز بلند سنا یا ۔پھر آپ سے مختلف مو ضو عا ت پر گفت و شنید ہو تی رہی۔دورانِ گفتگوکہنے لگے،’’میرے پاس ’پردہ اٹھا دوں اگر چہرئہ الفاظ سے۔۔‘کے پا کستانی طبع کے نسخہ جات ختم ہو چکے ہیں،آپ سے گزارش ہے کہ مجھے پانچ کتابیں بھجوادیجئےگا‘‘گویا آپ چھو ٹوں پر شفقت ہی نہیں کرتے بلکہ ان کی تکر یم بھی کر تے ہیں۔

آپ کی حا لیہ مصروفیات میں سے ایک جد ید انداز میں قرآن کر یم کی طبا عت ہے۔اس پراجیکٹ پر کئی بر سوں سے کام جاری ہے۔ اس پرا جیکٹ کا مقصدیہ ہے کہ نومسلموں اور عر بی سے نا آشنا مسلما نو ں کے لئے ایسا مصحف متعارف کر وا یا جا ئے جو’’قاری دوست‘‘ (Reader friendly )ہو۔تفصیل اس اجمال کی یہ ہے کہ عر بی حروف کی تعداد 28ہے اور اگر ہرحرف کی دو شکلیں بھی ہوں تو یہ 60تک پہنچ جا تی ہے۔لیکن خطاط کی جدت آ فرینی سے یہ تعداد 280تک پہنچ چکی ہے۔جیسے حرف ’’ک‘‘ لکھنے ہی کے کئی انداز ہیں۔ نتیجتاً نوآموزقا ری کو قرآن کر یم کی تلاوت میں دقت پیش آتی ہے۔ دوسرا نکتہ یہ ہے کہ خطاط حضرات ندرت آفر ینی سے الفاظ قرآن کو دوران ِ کتابت انتہائی قر یب لکھ دیتے ہیں ، کبھی ایک لفظ دوسرے کے اوپر بھی لکھ دیا جاتا ہے۔اس مصحف میں رعایت کی گئی ہے کہ ایک حرف کی دو سے زائد اشکال نہ ہوں اور الفاظ کے درمیان فاصلہ برابر ہو تاکہ نو آموز قاری یانو مسلم حروف اور الفاظِ قرآن کی کم از کم وقت میں پہچان کر کے ،درست اندازمیں تلاوت کر ے۔

محترم دکتورف -عبدالر حیم مجھے کہنے لگے ’’ یہ کمالیات (Luxuries)میں سے ہے ‘‘ میں نے ادب سے گزارش کی’’ محترم میری رائے میں تو یہ ضروریات میں سے ہے‘‘ دکتوریہ سن کر مسکرا دئیے ۔یہ مصحف AL-Quran Centre، چنا ئی سے شا ئع ہوا ہے، اور محترم ف-عبد الر حیم نے اس کا ایک نسخہ مجھے بھی ھد یہ کیا۔آپ نے حا لیہ سفرِحجاز میں مجھے اپنی تازہ تحقیقی کتاب’’معجم الدخیل فی اللغۃ العر بیۃ الحدیثۃ و لھجاتھا‘‘کاایک نسخہ مر حمت فر مایا اور صفحہ اول پر درج ذیل الفاظ مر قوم ہیں: ’

د’ اھدا لأخی العزیز اعجاز حسن حفظہ اللہ ، مع تحیاتی ۱۵/۴/۱۴۳۳،المسجد النبوی الشریف ، المدینۃ المنورۃ‘‘اس کتاب سے ایک اقتباس ’’ایمیل :بکسر الھمزۃ، وامالۃ فتحۃالمیم البر ید الا لکترونی،و ھو الرسالۃ المر سلۃ بالا نترنت اوبالانترا نت۔.. وکذ لک اقتر ح ان نسمی عنوان البرید الا لکترونی :((العلوان))با للا م(و ھو لغۃ فی’’عنوان‘‘) فنقول مثلاً: (اکتب لی عنوانک و علوانک) و اللا م تشیر ای ((الکترونی))             (صفحہ ۴۵)

افکار و خیا لات:

دکتورف-عبد الر حیم فر ماتے ہیں :

٭مسلمانو ں کی عر بی زبان سے دوری کی ایک وجہ طریقہ تدریس بھی ہے۔عربی ایک روا یتی طر یقہ سے سیکھا ئی جا تی ہے۔عمومی طور پرہمارے اداروں میں عربی زبان سکھانے کے جد ید طر یقہ کار اور وسا ئل نہیں۔مد ینہ یو نیور سٹی میں ہمارے پاس جد ید سہو لیات سے مزین لینگوئج لیبارٹریز ہیں اور ہم سو سے زا ئد و یڈیو ز اور بہت سے تعلیمی چارٹ بنا چکے

٭ سب سے زیا دہ آسان وسیلہ تختہ سیاہ اور چا ک کے مختلف رنگوں کے ٹکڑے ہیں۔یہ ایک اچھا نتیجہ پیدا کرسکتے ہیں،لیکن بد قسمتی سے ہم اس کا استعمال بھی نہیں کر تے۔

٭ استاد پہلے سبق ہی سے عر بی زبان بولے ۔طلبہ کو عر بی زبان سیکھنے کے لیے کلاس میں زیا دہ محنت کی ضرورت ہے۔استاد کو عر بی زبان سکھانے کے لیے لیکچردینےکی ضرورت نہیں۔

٭تر جمہ کی مدد سے آپ زبان نہیں سیکھ سکتے۔

٭ اسلامی اداروں میں ہم یہ چا ہتے ہیں کہ طلبہ زبان اور اسلام دونوں سیکھے۔دیوان متنبی نہ اسلام سے متعلق ہے نہ اس کی زبان حجت ہے۔متنبی حجت کی مدت کے بعد آتا ہے ۔میری رائے میں اس کتاب کو اسلامی اداروں میں سکھانا انتہائی غیر منا سب ہے۔اسی طر ح کلیلہ دمنہ پنچ تنترا کا تر جمہ ہے اورہندو تہذیب پر مبنی ہے۔

٭ طلبہ کو جدید عر بی بھی سیکھنی چا ہیے تا کہ وہ اس کو بو ل سکیں اور لکھ سکیں۔ہمیں ایسے لو گو ں کی بھی ضرورت ہے جو اسلام کے لیے لکھ سکیں اور اسلام مخا لف تحر یر وں کا جواب دیں سکیں۔علم شر عی اور صحا فت دونوں کو جا ننے والے افراد آج بہت کم ہیں۔

تعلیم و خدمات:

دکتورف ۔ عبد الر حیم ابن جناب عبد السبحان صا حب مرحوم کی ولادت وانمباڑی میں ۷ مئیِ ۱۹۳۳؁ء کو ہو ئی، تمل نا ڈو کا یہ شہر جہاں آپ کی ولادت ہوئی ، عصری اور دینی علوم کا ایک اہم مر کز ہے۔ مدرسہ معدن العلوم، اسلا میہ کالج ، اسلا میہ گر لز کا لج،اسلامیہ ہا ئر سکنڈری اسکول، مدرسئہ نسواں اور معہد اسلامی برائے صنعت وحرفت اس شہر کے معروف ادارے ہیں۔آپ کے نام کے ساتھ جو ’’ف‘‘کا سا بقہ ہے وہ بھی اس شہر کی عطا ہے۔آپ کی پیدا ئش ’’وا نمبا ڑی‘‘میں ہو ئی،جنوب ہند میں روا ج ہے کہ لقب نام سے پہلے آتا ہے تو آپ کا مکمل نام کچھ یوں ہوا :’’وانمباڑی،عبد الر حیم‘‘۔انگر یزی میں وانمباڑی ( Vaniyambadi) کی ابتدا ء ’’V‘‘ سے ہو تی ہے۔اور عر بی میں ’’V‘‘ کے متبادل ’’ف‘‘ کا حرف استعمال ہو تا ہے ۔تو یو ں وا نمبا ڑی سے مد ینہ تک کے سفر میں ’’ف‘‘کا ظہور ہوا۔

دکتورف۔ عبد الر حیم کی ابتدائی تعلیم اسی شہرمیں مدرسہ ہائی اسکول میں ہو ئی۔ بعدازاں اسلامیہ کالج سے آپ نے انٹر کیا ، اور اس کے بعد شہر مدراس میں آپ نے ’پریسیڈنسی کالج‘سے انگر یزی زبان و ادب میں بی۔اے ۔آنرز کیا۔ آپ نے مدراس یو نیورسٹی سے افضل العلماء اور علی گڑھ مسلم یو نیورسٹی سے ایم۔اے۔ عربی کی ڈگری حا صل کی۔اس کے بعد جا معہ ازہر، مصر چلے گئے جہاں آپ نے ایم ۔فل اور ڈا کٹریٹ کی ڈگری حا صل کی۔آپ نے مصرجانے سے پہلے اسلامیہ ہائی اسکول میں ایک سال بحیثیت استاد خدمت انجام دی اور انگریزی پڑھاتے رہے۔آپ کی علمی صلا حیت کو دیکھ کر اسلامیہ کالج وا لوں نے آپ کو کا لج بلا لیا۔جہاں آپ نے شروع میں انگر یزی پڑھائی، اس کے بعد آپ نے اپنی کو شش سے عر بی زبان کا با قا عدہ کو رس شروع کیا۔ اور آپ انگریزی کے ساتھ ساتھ عربی بھی پڑھانے لگے۔

۱۹۶۴؁ ء میں آپ نے جامعہ ازھر سے Arabic Philologyمیں ایم ۔فل کیا۔ڈا کٹریٹ کی ڈگری کے لئے آپ جامعہ ازھر ہی میں رجسٹریشن کراکے آپ۱۹۶۶؁ میں سوڈان چلے گئے ، جہاں آپ نے ام درمان یونیو رسٹی میں تقر یباً تین سال خد مت انجام دی۔ ۱۹۶۹؁ میں آپ مد ینہ منورہ کی مشہور یو نیو رسٹی جا معہ اسلامیہ تشریف لے گئے۔ جہاں آپ پہلے ایک سال انگر یزی پڑھاتے رہے ، اس کے بعد آپ غیر عر بو ں کو عر بی پڑ ھا تے رھے، اس کے ساتھ آپ کلیۃاللغۃ العر بیۃ میں خد مت انجام د یتے رہے۔

۱۹۹۲ ؁ء میں آپ ریٹا ئر ہو گئے۔ چو نکہ آپ کو عر بی اور انگر یزی کے علاوہ دیگر زبا نو ں جیسے جرمن،روسی، یونانی، ہسپانوی،عبرانی پر آپ کو عبور حا صل تھا، اور اس کے علاوہ ٹمل، ہندی ،سنسکرت، اور اردو پر بھی اچھی مہارت حا صل ہے۔اس لیے مجمع الملک فھد میں Translation Centre کے ڈا ئر یکٹر کی حیثیت سے آپ کاانتخا ب کر لیا گیا۔اور الحمدللّٰہ آپ اسی شعبہ میں خد مت انجام دے رہے ہیں۔

ڈا کٹر صا حب کی مصروف زندگی نے آپ کو تصنیف و تالیف سے با ز نہ رکھا ۔ دکتو ر صا حب کا ایک اور علمی میدان ’المعرب والد خیل ‘ہے، یعنی وہ غیر عر بی الفاظ جو عربی زبان میں رائج ہیں۔ اس سلسلہ میں آپ نے عربی زبان میںتحقیقی کتا بیں تصنیف کی جو کہ اس میدان میں آج Reference Books(مر جع)کی حیثیت اختیار کر چکی ہیں۔ ذیل میں آپ کی مطبو عہ کتا بوں کی فہرست دی جا رہی ہے:  

(ا) عر بی زبان کی تعلیم و تعلم سے متعلق کتب:

1:دروس اللغۃ العر بیہ لغیر النا طقین بھا

(تین جلدوں میں)

2:کتا ب المعلم(دروس اللغۃ العر بیہ لغیر الناطقین بھا)      (تین جلدوں میں)

3:Key to Durus AL-lughat Al- Arabiyya (Three Parts)

4:Key to Exercises (Three Parts)

5:A GLOSSARY OF WORDS USED IN DURUS AL-LUGHAH

6:کلید(تین جلدوں میں)

7:رہبر معلم (تین جلدوں میں)

8:التبیان  (تمل،انگریزی،اردو،اورجرمنی میں)

9:دروس اللغۃ العر بیۃ لغیر النا طقین بھاللاطفال(دو جلدوں میں ،مکمل رنگین)

(ب):عر بی زبان کی تعلیم بذریعہ نصوص اسلامیۃ:

1:المسعف فی لغۃ و اعراب سورۃ یو سف

2:Selections from the Glorious Qur’an

3:نصوص من الحد یث النبوی الشریف

4:احا دیث سھلۃ

ٌٔ5:       سورۃ الحجرات with Lexical & Grammatical Notes

6:نصوص اسلا میۃ
7:فی بلا ط ھر قل
8:انھما من مشکاۃ وا حدۃ
9: ابشر بخیر یوم مر علیک منذ و لد تک امک
10:الباحث عن الحق  قصۃ سلمان الفارسی رضی اللہ عنہ
11: ار بعو ن حد یثا     لتعلیم اللغۃ العر بیۃ و التر بیۃ النبویۃ

12:From Esfahan to Madina

:13 نور علی نورLexical& Grammatical Notes

(ج) :عر بی زبان سے متعلق تحقیقی کتب:

1:الدخیل فی اللغۃ العر بیۃ الحد یثۃ و لھجا تھا
2:المعرب من الکلام الا عجمی علی حروف المعجم
3:القول الاصیل فیما فی العر بیۃ من الد خیل
4:الا علام با صول الا علام الواردۃ فی قصص الانبیاء علیہ السلام
5:سوا ء السبیل الی ما فی العر بیۃ من الدخیل
6:معجم الدخیل فی اللغۃ العر بیۃ الحد یثۃ و لہجا تھا

(د)   متفر ق مو ضو عات پرکتب:

1:حج ، عمرہ اور زیارت(ٹمل اور انگریزی زبان میں)

2:کیا یہ کتاب دینی مدارس میں پڑھانے کے لائق ہے؟

3:پر دہ اٹھا دو ں اگر چہرئہ الفاظ سے…….

4:Europe Speaks Arabic

5:دلیل الحیاری فی تسمیۃ کتب الیھود و النصاری

اس کے علاوہ آپ معھد تعلیم اللغۃ العربیۃ ،جامعۃ اسلا میۃ کی کئی نصا بی کتا بوں کے بھی مؤلف ہیں۔

آپ کی چند کتب پاکستان میں درج ذیل اداروں کے توسط سے شا ئع ہو چکی ہیں۔

٭ مکتبہ اھلِ حد یث ٹرسٹ، کورٹ روڈ کراچی،

٭ دارالعلم، اسلام آباد

٭کتاب سرائے، لاہور۔ اللہ تعا لیٰ آپ سے اسی طرح اپنے دین کا کام لیتا ر ہے اور آپ کے علم و عمل اور عمر وعزت میں بر کت عطا فر مائے ۔اور آپ کی مسا عی کو اپنی بارگاہ میں شرف قبو لیت سے نوازے۔

الحمدللّٰہ الذی بنعمتہ تتم الصا لحات ۔ ربنا تقبل منا انک انت السمیع العلیم۔

مصا درو مراجع:

1: صا حبِ تحر یر کی ملاقات

2: مو صو ف کی تصا نیف

3:’’دکتورف۔عبدالرحیم‘‘ازایم۔محمد۔متین، نشانِ منزل اپریل2009

4: انٹر ویو : اسلامک وائس ،اگست 2007،بنگلور

5:   www.lqtoronto.com

xxx

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے