الحمد للہ وحدہ والصلاۃ والسلام علی من لا نبی بعدہ ، أما بعد :
قال اللہ تعالی : وَمَنْ اَعْرَضَ عَنْ ذِكْرِيْ فَاِنَّ لَهٗ مَعِيْشَةً ضَنْكًا وَّنَحْشُرُهٗ يَوْمَ الْقِيٰمَةِ اَعْمٰى قَالَ رَبِّ لِمَ حَشَرْتَنِيْٓ اَعْمٰي وَقَدْ كُنْتُ بَصِيْرًا قَالَ كَذٰلِكَ اَتَتْكَ اٰيٰتُنَا فَنَسِيْتَهَا ۚ وَكَذٰلِكَ الْيَوْمَ تُنْسٰى وَكَذٰلِكَ نَجْزِيْ مَنْ اَسْرَفَ وَلَمْ يُؤْمِنْۢ بِاٰيٰتِ رَبِّهٖ ۭ وَلَعَذَابُ الْاٰخِرَةِ اَشَدُّ وَاَبْقٰي (طٰہ : 124۔127)

اور (ہاں) جو میری یاد سے روگردانی کرے گا اس کی زندگی تنگی میں رہے گی، اور ہم اسے بروز قیامت اندھا کرکے اٹھائیں گے ۔وہ کہے گا کہ الٰہی! مجھے تو نے اندھا بنا کر کیوں اٹھایا؟ حالانکہ میں تو دیکھتا بھالتا تھا۔ (جواب ملے گا کہ) اسی طرح ہونا چاہیے تھا تو میری آئی ہوئی آیتوں کو بھول گیا تو آج تو بھی بھلا دیا جاتا ہے۔ہم ایسا ہی بدلہ ہر اس شخص کو دیا کرتے ہیں جو حد سے گزر جائے اور اپنے رب کی آیتوں پر ایمان نہ لائے، اوربےشک آخرت کا عذاب نہایت ہی سخت اور باقی رہنے والاہے۔

تمام الہامی کتب سے بڑھ کر عزت وشرف والی کتاب ، فضائل سے مالا مال ، حکمت سے لبریز حق وباطل میں فرق کرنے والی ، جہالت کے اندھیروں سے نکال کر توحید کی شمع کی طرف راہنمائی کرنے والی، ایمان لانے والوں کو جنت کی بشارت دینے والی، کفار کو ڈرانے اور خسارے کی خبر سنانے والی ۔ یہ عظیم ترین کتاب قرآن کریم اپنی ابتداء ہی میں اس بات کا اعلان کرتی ہے کہ ( ذٰلِكَ الْكِتٰبُ لَا رَيْبَ    ٻ فِيْهِ   ) ’’ اس کتاب (کے اللہ کی کتاب ہونے) میں کوئی شک نہیں۔‘‘

اس عظیم نعمت کا شُکر اگر بنی نوع انسانی ادا کرنا چاہے تو نہیں کرسکتی ، اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انسانوں کی کامیابی وکامرانی کو اسی قرآن کریم کی تعلیمات کے ساتھ مشروط کیا ہے ۔ چنانچہ رسول معظم صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے :

إِنَّ اللَّهَ يَرْفَعُ بِهَذَا الْكِتَابِ أَقْوَامًا وَيَضَعُ بِهِ آخَرِينَ ( صحیح مسلم ، کتاب فضائل القرآن)

’’ بیشک اللہ تعالیٰ اس کتاب کو تھامنے کی وجہ سے قوموں کو بلندی دے گا اور اس کو ترک کرنے کی صورت میں ذلیل وخوار کرے گا۔‘‘

آج فرزندانِ اسلام اپنی اکثریت کے باوجود ذلیل وخوار ہیں ، آج دنیا میں مسلمانوں کی وہ اکثریت ہے جو پہلے نہ تھی ، آج مسلمانوں کے پچاس سے زائد ممالک ہیں ، اس کے باوجود آج مسلمان کفار سے مقابلہ کی تاب نہیں لاتے کیوں ؟ اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ آج اہل اسلام نے ’’ملتِ بیضاء ‘‘ کا دامن چھوڑ رکھا ہے،  آج کا مسلمان قرآن کی تعلیمات سے ناآشنا ہے ، قرآن کو سمجھنا تو دور کی بات ہے اس کے الفاظ کی ادائیگی کا بھی انہیں معلوم نہیں ۔

آج ہم اپنے وطن عزیز پاکستان ہی میں دیکھیں جو ملک

لا إلہ إلا اللہ محمد رسول اللہ

کی بنیاد پر ہندوؤں کے حلق میں ہاتھ ڈال کر نکالا گیا تھا، آج اُسی ملک میں مسلمانوں کو امن حاصل نہیں ہے ، زندگی اجیرن ہوگئی ہیں۔ پاکستان مدینہ ثانی کی حیثیت رکھتا ہے ، مسلمانوں نے مدینہ منورہ کے بعد اگر کسی اسلامی ریاست کو تشکیل دیا ہے تو وہ ’’پاکستان‘‘ ہے۔ لیکن آج ہماری سرحدیں غیر محفوظ، ہماری جانیں،ہمارے اموال، ہماری عزتیں محفوظ نہیں ،ہر وقت کفار کی چالوں کا ڈر، ناکارہ وبیکار حکمران مستحکم معیشت دعووں کے باوجود بھوک وافلاس کی وجہ سے خودکشیاں ، معلوم بے گناہوں کے قتل ، آفات سماوی کا نزول ،بم دھماکے،دہشت گردی، فحاشی کے اڈے، زناکاری کا عام ہوجانا یہ سب چیزیں کس طرف نشاندہی کر رہی ہیں ؟ ( معیشۃ ضنکاً) کہ آج ہماری زندگی تنگ کر دی گئی ہے، اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ ہم انفرادی واجتماعی طور پر قرآن کی تعلیمات سے دور ہوگئے ہیں۔

آج وطن عزیز میں کفار کی ثقافت رائج ہے، آج ہماری ملکی ثقافت کے بجائے ہندوستان کی بے ہودہ ترین ثقافت کا بول بالا ہے، ان ہندوؤں نے ہمارے ملک میں درج ذیل چیزیں اپنے مکروفریب کے ذریعہ رائج کیں:

حیا سوزی :

یہ ہندو قوم حیا سوزی، وبے حیائی میں یہودیوں ونصرانیوں کے ہم پلہ ہیں ، انہوں نے ہر ممکن کوشش کے ذریعہ پاکستان میں اپنی بے حیائی پھیلانے کا کام انجام دیا ہے۔ ٹیلی ویزن کے ذریعے ،انٹرنیٹ کے ذریعہ بے ہودہ پروگرام دکھا کر ، واحیات مناظر وتصاویر دکھا کر تاکہ نوجوان اپنے ثقافائے بشریت پر قابو نہ پا سکے اور بے راہ روی کاشکار ہوجائیں۔ ان کے ان پروگرام کی وجہ سے ہماری خواتین کے سروں سے دوپٹہ اور جسم سے برقعہ غائب ہوگیا، اپنی فطری ادا شرم سے بالا تر ہوکر رہ گئی ، ہر قسم کا ہندوانہ فیشن کرنا، ان کی طرح کا لباس زیب تن کرنا، ان کی چال ڈھال اپنانا، اپنے آپ پر ان کو ترجیح دینا، ان کی طرح بناؤ سنگھار کرنا، جب یہ ساری عادات ہماری خواتین میں موجود ہوں گئی تو کون امید کرسکتاہے کہ ان میں سے امہات المؤمنین وصحابیات رضی اللہ عنہن جیسی کوئی خواتین جنم لے گیں۔ کیا آج ہماری خواتین یہ سوچتی ہیں کہ مجھے اماں عائشہ رضی اللہ عنہا جیسا بننا ہے ، مجھے فاطمہ بنت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جیسا بننا ہے ، مجھے اماں خدیجہ رضی اللہ عنہا جیسا بننا ہے ۔

کیا آج کا ہمارا کوئی نوجوان یہ کہتا ہے کہ مجھے سیدنا ابوبکر ، عمر، عثمان ،علی،طلحہ،زبیر،حمزہ،جعفر ، زید بن حارثہ رضی اللہ عنہم اجمعین جیسا بننا ہے، ہم ایسا اس لیے نہیں سوچتے کیونکہ ہم قرآن ، سیرت الرسول، بیرہ الصحابہ سے محروم ہوگئے ہیں۔

تعصب :

تعصب یعنی قوم پرستی،ہندوؤں کے درمیان یہ عام ہے کہ یہ شخص درمیانی ذات کا ہے یہ ادنیٰ ذات کا ہے ، یہ اعلیٰ ذات کا ہے لیکن مسلمانوں کو اللہ تعالیٰ نے ایک جماعت کے افراد کی مانند ٹھہرایا ہے ، کسی گورے کو کالے پر فوقیت حاصل نہیں ، نہ کسی عربی کو عجمی پر۔ سب مسلمان آپس میں بھائی ہیں اور ایک آدم علیہ السلام کی اولاد ہیں۔ ہندوؤں نے شروع ہی سے پاکستان کے وجود کو تسلیم نہیں کیا ، ہر طرح سے وطن عزیز کو نقصان پہنچانے کی کوشش جاری رکھی ہیں۔

1965ء میں رات کے اندھیرے میں جب سب نیند کی آغوش میں تھے ، یہ پاکستان کے دل کی حیثیت رکھےشہر ’’لاہور‘‘ پر حملہ آور ہوئے اور اپنی بزدلی کا ثبوت دیا، لیکن غیرت مند، باحوصلہ پاکستانیوں نے ہندوؤں کو مار مار کر دُنبہ بنادیا، دشمن ستر ہ (17) دنوں میں ہتھیار پھینک کر اقوام متحدہ بھاگ کھڑا ہوا ، اور اپنا سر جھکا کر پاکستان سے جنگ بندی کی بھیک مانگی۔

آج ان ہندوؤں نے ہمارے درمیان تعصب کے گھوڑے دوڑائے ہیں ، اور ہم بھائیوں کو آپس میں لڑوایا ہے۔

آج ہمارے پاکستانی اپنی اپنی صوبائیت کی بات کرتے ہیں ، لسانیت کی بات کرتے ہیں ، علاقائیت کی بات کرتے ہیں ، پٹھان پنجابی کو بُرا بھلا کہہ رہا ہے ، تو بلوچی سندھی کو سرائیکی اور مہاجر لڑ رہے ہیں ، یہ کیا ہورہا ہے ؟ جب ہم سب نے مل کر پاکستان بنایا تھا تب ہم نہ سندھی تھے ، نہ بلوچی ،نہ پٹھان، نہ مہاجر، نہ پنجابی ہم پاکستانی تھے ، یہ ملک جو ہمارے اتحاد کی وجہ سے ہی معرض وجود میں آیا۔ اس پاکستان کے وجود سے حرمین شریفین کو تحفظ حاصل ہے۔ انڈونیشیا سے لیکر مراکش تک تمام اسلامی ممالک پاکستان پر فخر کرتے ہیں ۔

1967ء میں پاکستان کو خانہ کعبہ کی حفاظت کرتے ہوئے ایران سے جنگ کرنے کا بھی شرف حاصل ہوا، اسی پاکستان نے خانہ کعبہ کی حفاظت میں سعودی عرب کی مدد کی ، سعودی عرب نے پاکستان سے مدد طلب کی خانہ کعبہ کے تحفظ کیلئے ، جب ہم ایٹمی پاور بنے تو پوری اسلامی دنیا نے خوشیاں منائیں، سب نے چراغاں کیا۔

جب پاکستان وجود میں آیا تو یہودیوں کو اُن کے سربراہوں نے کہا، کہ اب تمہاری خیر نہیں ، یہ ملک ہی تمہارے لیے خطرہ ہے ، یہی تمہیں تمہاری اوقات یاد دلائے گا۔ اصل فلسطین کو پُختہ یقین ہے کہ پاکستان ہی ان کو آزاد کروائے گا۔ آج کشمیر میں کیوں ظُلم ہورہاہے،  اس لیے کہ وہ پاکستان کا ساتھ چاہتے ہیں ، آج ہمارے صوبے الگ ہونے کی دھمکی دیتے ہیں ، یہی تو ہندو چاہتے ہیں ، اور ہم کم عقلوں کی طرح ان کے آثار قوم کے تابع ہوئے جارہے ہیں۔ ایک دفعہ وہ ہم سے مشرقی پاکستان کو الگ کر چکے ہیں لیکن اب وہ تاریخ دہرائی نہیں جائے گی۔

قارئین کرام ! ہندو ہمیں صوبوں میں بانٹنا چاہتے ہیں، لسانیت میں بانٹناچاہتے ہیں ، لیکن یہ جانتے نہیں ہیں ۔ سندھی،بلوچی،پنجابی،پٹھان، مہاجر،سرائیکی ہم سارے آپس میں بھائی بھائی ہیں۔

ہمارا ملک ایک، ہمارا منہج ایک، ہمارا دشمن ہندو ایک، ہمارا مقصد ایک، ہم ہر لحاظ سے ایک دوسرے کے ہمسر ہیں۔ اور ہندوؤں کو یہ برداشت نہیں ہوتا۔ میرے ہم وطنو غور کرو! ہندو ہماری پہچان چھیننا چاہتاہے، اگر ہم مسلمان نہیں تو ہم کچھ نہیں ہیں، اگر ہم پاکستانی نہیں ہیں، تو ہماری کوئی شناخت نہیں، کوئی (Ideniety) نہیں ہے۔ کیا ہم پاکستانی اپنے ان لوگوں کی قربانیاں بھول گئے ، جنہوں نے اپنے لہو دیکر اس ملک کو حاصل کیا ، جنہوں نے اپنا مال ومتاع، اپنی جانیں، اپنی عزتیں سب اسی ملک کیلئے قربان کر دیں۔ ہجرت کے وقت ایک کروڑ مسلمان ہندوستان سے نکلے تھے ، لیکن یہاں آدھے بھی بڑے مشکل سے پہنچے،راستے ہی میں ہندوؤں اور سکھوں نے انہیں موت کے گھاٹ اتار ڈالا۔ کیا ہم ان ماؤں ،بہنوں کی قربانی کو بھول گئے ہیں جو ہجرت کے وقت حاملہ تھی اور ان خبیث ہندوؤں سکھوں نے ان کے پیٹ کاٹ ڈالے تھے۔

آہ! ان خبیث بدبختوں نے ایک ساتھ دو جانیں لے ڈالی،اُن بہنوں کی عظیم قربانیوں کا مقصد صرف یہ تھا کہ پاکستان کو پایۂ تکمیل تک پہنچایا جائے، اور ہماری آنے والی نسلیں اسلامی ریاست میں جنم لیں۔ آج ہمیں اس چیز کا احساس ہے یا ہمارے دل ویسے ہی پتھر کی مانند سخت ہیں ۔

پاکستانیو! تعصب کی نیند سے جاگو ، میری قوم کے لوگو! یاد کرو وہ 14 اگست 1947ء کی گھڑی جب کراچی میں پاکستان کے قیام کے اعلان کیلئے اجلاس منعقد کیاگیا تھا اور تمام مسلمان اس بات کے منتظر تھے کہ جلد اعلان ہو، اور اچانک ریڈیو پر یہ اعلان ہوتاہے کہ :

بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔ مبارک ہو ، مبارک ہو پاکستان وجود میں آگیا اور برصغیر کے مسلمانوں نے سکھ واطمینان کا سانس لیا،دشمن نامراد ہوا ، اور اللہ تعالیٰ نے معجزانہ طریقے سے ہمیں یہ ملک عطا فرمایا :

اپنی دنیا آپ پیدا کر گرزندوں میں ہے

سر آدم ہے ضمیر کن فکاں ہے زندگی ۔

ہندوانہ رسومات :

اسلام ایک مکمل ضابطۂ حیات ہے ، اسلام مسلمانوں کو کسی بھی مقام پر ، کسی بھی معاملے میں پیاسہ نہیں چھوڑتا۔ تمام معاملات وامور میں انسانوں کی راہنمائی کرتاہے ، الغرض تمام مواقع حیات میں انسان کا طرز عمل کیا ہونا چاہیے ہمیں سمجھا دیا لیکن اگر آج ہم اپنے گردوپیش نظریں دوڑائیں تو اسلامی ثقافت کی بجائے ، ہندوانہ رسومات دیکھنے کو ملتی ہیں ۔ جس رسم کا اسلام سے کوئی تعلق نہیں ، وہ ہمارے ملک میں منائی جاتی ہیں ، مثلاً : شادی بیاہ کے موقع پر مہندی کی رسم، جوتیاں چُرانے کی رسم، دودھ پلانے کی رسم، رقص وغناء کی مجلسیں ۔

آپ مجھے بتلائیے کہ یہ اسلام میں کس جگہ بتلایا گیا ہے ، قرآن وحدیث میں کہاں لکھا ہے ، کیا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے شادیاں نہیں کی ، کیا صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین نے شادیاں نہیں کیں۔ کیا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی بیٹی فاطمہ کی شادی نہیں کی ، آپ نے کونسا جہیز یا گھریلو سامان انہیں خرید کر دیا؟ کیاآپ سے کئی کئی تولہ سونا کا مطالبہ کیا؟

یقینا نہیں کیا ، تو جب آپ نے نہیں کیاتو ہم اسے کیوں اپنائے ہوئے ہیں، انہیں بے ہودہ رسومات کیوجہ سے آج’’نکاح‘‘ مشکل ترین کام بن گیاہے، اسی وجہ سے آج نوجوان فحاشی کی طرف مائل ہورہے ہیں۔

قارئین کرام! آج جو ہندوانہ رسومات ہماری سرزمین میں رائج ہیں،اسے ختم کرنے کی سعی کریں اور اپنی پاک وصاف ثقافت کو اپنا شیوا بنائیں جس میں تعلیم وتربیت بے مثال ہو ، جو عمل کی دولت سے مالا مال ہو ، اور جس میں نگربلند اور سخن دسنواز ہو ، جس میں جرأت لا جواب ہو، اور حوصلہ لازوال ہو ، پھر ہی ہم کامیابی حاصل کرسکتے ہیں ۔

قتل وغارت :

عزیزان گرامی!وطن عزیز میں قتل وغارت کی سب سے بڑی وجہ تعصب ہے جو ہندوؤں نے ہمارے درمیان برپا کر رکھی ہے ، آج ہمارے شہر محفوظ نہیں ، ہمارے گلی کوچے محفوظ نہیں ، ہم ایک دوسرے کو نفرت کی نگاہ سے دیکھتے ہیں ۔

روشنیوں کا شہر کراچی جہاں چوبیس گھنٹے گہما گہمی رہتی ہے، بھاگتا دوڑتا شہر ہے ، لیکن ایک ادنیٰ سے شخص کے قتل کیوجہ سے پورا شہر اس طرح بند ہوجاتاہے، گویا کہ کوئی شہر میں ہے ہی نہیں، پاکستان کی ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھنے والا شہر کراچی ، امن وسلامتی کیلئے فریادیں کرتا نظر آتاہے ، یہ اُس تعصب کا نتیجہ ہے ، جو ہم اپنے دلوں میں رکھتے ہیں۔ ہمارے ملک کا پیارا شہر’’لاہور‘‘ قتل وغارت ، بم دھماکہ ، آپس میں محکموں کی لڑائی کے طوفان میں پھنسا ہوا ہے، یہ سب اس نفرت کا نتیجہ ہے جو ہم اپنے دلوں میں سموئے ہوئے ہیں ۔

میرے عزیز سا تھیو! سوچو ہمیں اس تعصب سے کیا حاصل ہوا، ہم کیوں نہیں ایک دوسرے کے ساتھ محبت، رواداری،اخوت سے رہتے۔ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی طرح ان کی محبت واخوت کی گواہی تو رب تعالیٰ نے سات آسمان اوپر اپنے عرش سے دی ۔ چنانچہ ارشاد فرمایا:

اَشِدَّاۗءُ عَلَي الْكُفَّارِ رُحَمَاۗءُ بَيْنَهُمْ ( الفتح:29)

کافروں پر سخت ہیں آپس میں رحمدل ہیں۔

ہمیں صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین جیسا بننا ہے ، ہمارا دشمن ایک ہے ، جو ہر ممکن کوشش کر رہا ہے کہ ہمیں ختم کر دے ، لیکن ہمیں جرأت واخوت سے آگے بڑھنا ہے ، اور ان ہندوؤں کو ان کی اصلیت یاد دلانی ہے اور ان کی بھارت ماتا کا کھیل بھی اب ختم کرنا ہے ، اور ہمیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا وہ قول یاد ہے :

عِصَابَتَانِ مِنْ أُمَّتِى أَحْرَزَهُمَا اللَّهُ مِنَ النَّارِ عِصَابَةٌ تَغْزُو الْهِنْدَ وَعِصَابَةٌ تَكُونُ مَعَ عِيسَى ابْنِ مَرْيَمَ عَلَيْهِمَا السَّلاَمُ . (السنن الکبری ، للبیھقی ، رقم الحدیث : 19071۔ والنسائی ، کتاب الجھاد)

’’میری امت کے دو گروہ جنہیں اللہ تعالیٰ نے آگ کے اوپر حرام کر دیا ہے ، ایک وہ جو ہندوستان کی جنگ میں شامل ہونگے ، اور دوسرا گروہ جو عیسی بن مریم علیہما السلام کے ساتھ ہونگے ۔

اور سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے :

وَعَدَنَا رَسُولُ اللهِ صلى الله عليه وسلم غَزْوَةَ الْهِنْدِ ، فَإِنْ أَدْرَكْتُهَا أُنْفِقْ فِيهَا نَفْسِي وَمَالِي ، فَإِنْ أُقْتَلْ كُنْتُ مِنْ أَفْضَلِ الشُّهَدَاءِ ، وَإِنْ أَرْجِعْ فَأَنَا أَبُو هُرَيْرَةَ الْمُحَرَّرُ. ( سنن النسائي، کتاب الجھاد)

رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ہم سے وعدہ فرمایا تھا کہ ہند میں مسلمان جہاد کریں گے اگر وہ میری حیات میں ہوا تو میں اس کے واسطے اپنا جان و مال صرف کر دوں گا۔ چنانچہ اگر میں قتل کردیا گیا تو میں سب سے زیادہ افضل شہداء میں سے ہوں گا اور اگر میں زندہ بچ گیا تو میں ابوہریرہ (جیسا) ہوں گا جو کہ عذاب دوزخ سے آزاد اور بری کر دیا گیا ہے۔قارئین کرام ! رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نےہم سے ہندوستان کی فتح کا وعدہ کیا ہے ، اور ان شاء اللہ العزیز جو سب سے پہلے ہندوستان پر حملہ آور ہوں گے وہ ہم مسلمان ہیں ، ہم اپنے وجود ہی سے ان سے جنگ کرتےآرہے ہیں ، ان کے سب سے بڑے دشمن ہم ہی ہیں ، اور ہمارے ملک کا وجود ہی ان کے خاتمے کی دلیل ہے ۔ ان شاء اللہ ، اللہ کی مدد ونصرت پاکستان کے ساتھ ہے بس ہمیں تھوڑی سی اپنی اصلاح کرنی پڑے گی ، آپس میں پیار ومحبت واخوت ، خوش مزاجی اور بھائی چارگی برتنی پڑے گی تو ہندو بنیے جو زمین پر سوائے بوجھ کے اور کچھ نہیں ہے ، ختم ہوجائیں گے۔

سبق پھر پڑھ صداقت کا ، عدالت کا ، شجاعت کا

لیا جائے گا کام تجھ سے دنیا کی امامت کا

تو آئیے آج اپنی اصلاح شروع کریں ، اور ایک اچھے مسلمان ثابت ہوں تاکہ اپنی ملت اور وطن عزیز پاکستان کا دفاع کر سکیں ، اور دشمن ہمارے سامنے سر اٹھانے کی ہمت نہ کرسکے ۔ سندھی بھی ہم ہیں ، بلوچی بھی ہم ہیں  پنجابی بھی ہم ہیں، سرائیکی بھی ہم ہیں ، مہاجر بھی ہم ہیں، پٹھان بھی ہم ہیں، ہم سب متحد ہیں اس لیے دنیا ہمیں کہتی ہے ’’پاکستان ‘‘اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ ہمیں اخوت ومحبت سے رہنے کی توفیق عطا فرمائے۔ اور ہمارے ملک کی حفاظت فرمائے اور ہمیں کراچی سے لیکر لاہور تک پشاور سے لیکر کوئٹہ تک اپنے پورے ملک کا دفاع کرنے والا بنائے ، اور جو اس ملک میں تعصب جیسی شیطانی خصلت پھیلانے کی کوشش کر رہا ہے۔ اللہ اسے تباہ وبرباد کردے ۔ آمین

 

نگہ بلند سُخن دلنواز جاں پر سوز

یہی ہے رخت سفر میر کارواں کیلئے

وآخر دعواناأن الحمد للہ رب العالمین ۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے