تعارف اور پس منظر:

سورۃ بقرۃ کا شمار ان سورتوں میں ہوتا ہے جوہجرت کے فورا بعد نازل ہونا شروع ہوئیں ۔سورۃ بقرۃ قرآن مجید کی سب سے طویل ترین سورت ہے ۔اور سورت بقرۃ کا نزول ہجرت کے بعد سے شروع ہو کر اختتام قبل از وفات پر ہوتا ہے یعنی سورۃ بقرۃ کی آیات کا نزول تسلسل کے ساتھ نہیں ہوا کہ اس کی تکمیل سے قبل کسی دوسری سورت کی کوئی آیت نازل نہ ہوئی ہو ۔

سورہ بقرۃ جن موضوعات پر مشتمل ہےوہ تمام موضوعات ایک ہی محور کے گرد گھومتے ہیں ۔اس سورت میں بیان کردہ مضامین یہ بتاتے ہیں کہ بنی اسرائیل نےاسلام کی دعوت کے مقابلے میں کیا موقف اختیا رکیا؟ اور انہوں نے اس دعوت کاسامنا کس طرح کیا ؟۔ اور انہوں نے اسلام اور اہل اسلام کے خلاف کیا کیا سازشیں کیں ۔نیز اس حوالے سے دیگر تفصیلات اور کڑیاں مثلاً یہود ومنافقین کا باہم گٹھ جوڑ ،یہود ومشرکین کا باہم تعلق بھی بیان کیا گیا ہے ۔

اور پھر اس سورت کا اصل پیغام سنایا گیا کہا بنی اسرائیل کو فریضہ ادائیگی خلافت کے لئے نااہل قرار دیا جاتا ہے کیونکہ انہوں نے اس بارے میں اللہ کریم سے جو عہدوپیمان باندھے تھے وہ ایک ایک کرکے توڑ چکے ہیں اور یہ کہ اب انہیں اس تحریک کےاولو داعی سید نا ابراہیم علیہ السلام سے کوئی نسبت نہیں رہی ہے اور حقیقت میں ان سب باتوں کو بیان کرنے کا اصل مقصد یہ ہے کہ مسلمانوں کو بھی اس بات کی تنبیہ کی جاتی ہے کہ وہ ان غلطیوں سے بچیں جن کی وجہ سے بنی اسرائیل کو نااہل قراردیا جارہا ہے ۔

یہاں یہ بات مناسب معلوم ہوتی ہے کہ یہ بیان کر دیا جائے کہ سورۃ بقرۃ کو سمجھنے کے لیے اس امر کی ضرورت ہے کہ قبل از ہجرت اور بعد از ہجرت مدینہ منورہ کے تمام حالات سے واقفیت حاصل کی جائے تاکہ ایک طرف تو اس سورت اور اس کے مضامین کے درمیان ربط کا صحیح اندازہ ہوسکے ۔اور دوسرا یہ معلوم ہوسکے کہ مدنی دور کے ابتدائی ایام میں دعوت اسلام کی کیا کیفیت تھی؟ اور مسلمانوں کی سرگرمیاں اور پیش آنے والے حالات کیا تھے

یہاں یہ بات واضح رہےکہ جو صورت حال مسلمانوں کو مدینہ منورہ کے ابتدائی ایام میں پیش آئی وہ ہر دور اور ہر زمانے میںمختلف فرق کے ساتھ اہل اسلام کے ساتھ پیش آتی رہی۔ تاریخ کے صفحات اس امر پر گواہ ہیں کہ دشمنان اسلام نے ہر دور میں وہی کردار ادا کیاجو کبھی مدینہ کے اسلام دشمنوں نے ادا کیا تھا ۔اور اس کے دوستوں کا تعلق اخلاص بھی ایسا رہا جو قر ن اول کے مخلصین اسلام کا رہا۔ اس طرح یہ قرآنی ہدایات دعوت اسلام کے لئے ایک طرح کا دائمی دستور بن جاتی ہیں۔ اور ان آیات میں ہرحال اور ہرزمانے کے لئے زندہ جاوید ہدایت پائی جاتی ہے اور یہ آیات امت مسلمہ کے لئے اس طویل اور کٹھن سفر میں مشعل راہ کی حیثیت رکھتی ہیں۔ پورے قرآن مجید کی ایک ایک آیت میں یہ خصوصیت موجود ہے اور یہ قرآن کریم کے اعجاز کے ایک خاص پہلو کو ظاہر کررہی ہے۔

سورۃ بقرۃ کی ابتدائی آیات میں انسانوں کے ممکنہ تین گروہوں کا تعارف کروایا گیا پہلا گروہ اہل ایمان اور دوسرا اہل کفر اور تیسرا اہل نفاق

ابتدائی آیات میں مومنین کی یہ صفات بیان کرنے کے بعد سیاق کلام میں کفار کی صفات کا بیان آجاتا ہے ۔ اگرچہ علی العموم ان صفات کا تعلق بھی تمام کفار سے ہے لیکن ان کا سب سے پہلامصداق وہ کفار بنے جو اس وقت اسلام کی راہ روکے کھڑے تھے ۔خواہ وہ مکی کفار ہوں یا ان کا تعلق مدینہ اور اس کے ماحول سے ہو۔

اللہ تعالیٰ فرماتا ہے :”جن لوگوں نے ان باتوں کو تسلیم کرنے سے انکار کردیا ،ان کے لئے یکساں ہے ،خواہ تم انہیں خبردارکرو یا نہ کرو،بہرحال وہ ماننے والے نہیں ہیں۔اللہ نے ان کے دلوں اور ان کے کانوں پر مہر لگادی ہے اور ان کی آنکھوں پر پردہ پڑگیاہے ۔وہ سخت سزا کے مستحق ہیں۔

ان دوگروہوں کے علاوہ منافقین کا ایک تیسرا گروہ بھی موجود تھاجن حالات میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نےمدینہ طیبہ کی طرف ہجرت فرمائی تھی ،ان کا قدرتی نتیجہ یہ تھا کہ ہجرت کی تکمیل کے فوراً بعد ہی وہ گروہ پیدا ہوگیا ۔مکہ میں اس گروہ کا وجود نہ تھا۔کیونکہ وہاں اسلام کی پشت پر کوئی قوت اور حکومت نہ تھی اور نہ کوئی ایسی قومی جماعت تھی جس سے ڈر کر قریش اسلام کے بارے میں کوئی منافقانہ رویہ اختیار کرتے بلکہ اس کے برعکس مکہ میں اسلام کمزور تھا۔دعوت ہر قسم کے خطرات میں گھری ہوئی تھی۔صرف مخلصین ہی تھے جو اس دورمیں دعوت اسلامی کی صفوں میں شامل ہونے کی جراءت کرسکتے تھے ،جو اس کی راہ میں ہرقسم کے مصائب جھیلنے کے لئے تیار تھے اور اس کے لئے سب کچھ لٹانے پر تلے ہوتے تھے لیکن مدینہ میں حالات کا رخ یکلخت بدل گیا تھا۔اسلام ایک ایسی قوت بن گیا تھاجسے ہر شخص محسوس کرنے لگا تھااور ہرکوئی مجبور تھا کہ وہ اس قوت سے تھوڑا بہت بنائے رکھے۔ بالخصوص جنگ بدر کی عظیم کامیابی کے بعد تو بڑوں بڑوں کی گردنیں جھک گئی تھیں ۔جولوگ روش نفاق پر مجبور تھے ان میں بعض کبرائے مدینہ بھی تھے کیونکہ ان کے خاندان اور قبیلے کے لوگ اسلام میں داخل ہوگئے تھے ۔اس لئے یہ لوگ اپنی سابقہ پوزیشن کو بحال رکھنے کے لئے اور اپنے مخصوص مصالح کی خاطر بظاہر دائرہ اسلام میں داخل ہوگئے تھے ۔ایسے لوگوں میں عبداللہ بن ابی ابن سلول کا نام سرفہرست تھا۔کیونکہ مسلمانوں کی ہجرت سے کچھ قبل ہی اس کی قوم نے یہ پروگرام بنایاتھا کہ اسے بادشاہ بنادیں ۔اس منصوبے کو عملی جامہ پہنانے کے لئے اس کی قوم اس کے لئے ہار اور تاج تیار کررہی تھی ۔

یعنی اس سورت کا آغاز ان طبقات کے ذکر سے ہوتا ہے جنہوں نے ہجرت کے متصلاً بعد تحریک اسلامی کے بارے میں مختلف طرز ہائے عمل اختیار کررکھے تھے ۔ان طبقات میں بنی اسرائیل کی طرف مخصوص اشارے بھی تھے ۔جن کا بعد میں تفصیلی ذکر ہواہے۔اوراس سورت کے آغاز میں جن طبقات کا ذکر ہوا ہے ان کی نوعیت ایسی ہے کہ ہر دور اور ہر زمانے میں اسلام کے مقابلے میں لوگوں نے ایسے ہی طرز عمل اختیار کئے ۔اس کے بعد پوری سورت کے مباحث اپنے انہی متوازی خطوط پر چل رہے ہیں جن میں اس وحدت ویگانت کو پیش نظر رکھا گیا ہے۔جس سے اس سورت کی خاص شخصیت کا ظہور ہورہا ہے ،حالانکہ اس کے موضوعات سخن میں کافی تنوع پایاجاتا ہے۔

آیات کا یہ حصہ ،اس عظیم سورت کا افتتاحیہ ہے ،اس میں یہودیوں کے سوا ان تمام عناصر سےہم متعارف ہوجاتے ہیں جن کامقابلہ مدینہ طیبہ میں تحریک اسلامی کو کرنا پڑا ۔ اس میں یہودیوں کی طرف ایک مختصرسااشارہ پایا جاتا ہے۔قرآن انہیں منافقین کو ”شیاطین “کا لقب دیتا ہے، یہ لفظ ہی ان کی بیشتر صفات کو ظاہر کردیتا ہے ۔اور بتادیتا ہے کہ تحریک اسلامی کی مخالفت میں ان کا کردار کیا رہا۔ اگرچہ یہ اشارہ مختصر ہے لیکن ابتداءمیں ان کی حقیقت کے اظہار کے لئے کافی ہے بعد میں ان کے کردار پر تفصیلی تبصرہ ہوتا ہے۔

سید قطب فی ظلال القرآن میں سورۃ البقرۃ کے ابتدائی مضامین پر سیر حاصل کلمات اس طرح درج کرتے ہیں : سورت کے آغازہی میں ہلکے پھلکے ،عام فہم اورمختصر الفاظ میں تین قسم کے انسانوں کی عجیب تصویر کشی کی گئی ہے۔ ان میں سے ہر نوع ایسی ہے کہ انسانی افراد اورمجموعوں کی ایک عظیم الشان تعداد کا زندۂ جاوید نمونہ ہے ۔یہ مجموعے حد درجہ حقیقی اور گہرے ہیں اور ہر زمان ومکان میں باربار وجود میں آتے ہیں اور قرآن کریم کے اعجاز کا یہ ایک خاص پہلو ہے کہ انسانیت کی طویل ترین تاریخ میں روز اول سے لے کر آج تک پوری انسانیت انہی تین گروہوں میں منقسم نظر آتی ہے ۔

ان مختصر کلمات اورمعدودے چند جملوں کے ذریعہ ،ان طبقوں کے حقیقی خدوخال اس طرح واضح اورمکمل صورت میں لوح دماغ پر منقش ہوجاتے ہیں کہ یہ طبقے زندہ ومتحرک ،ممتاز ومشخص اور اپنے حقیقی خدوخال کے ساتھ صاف صاف آنکھوں کے سامنے چلتے پھرتے نظر آتے ہیں ۔یہ بے ساختہ جملے اس قدر موزوں اورمتناسب اور اپنے اندر اس قدر مترنم صوتی ہم آہنگی رکھتے ہیں کہ کوئی طویل ترین کلام اور کوئی مفصل ترین بیان بھی اس کی گرد تک نہیں پہنچ سکتا ۔

جب ان طبقوں کی منظرکشی ختم ہوجاتی ہے توپھر قرآن کریم تمام بنی نوع انسان کو یہ دعوت دیتا ہے کہ وہ پہلے طبقے میں شامل ہوں۔وہ انہیں پکارتا ہے کہ ایک اللہ ایک خالق اور ایک رازق کی بندگی اور غلامی کی طرف لوٹ آئیں ،جس کے ساتھ کوئی شریک نہیں اور اس کا کوئی ہمسر نہیں ۔اس کے بعدنبی صلی اللہ علیہ وسلم کی صداقت اور رسالت اور آپ پر نزول قرآن کے بارے میں جو لوگ متشکک ہیں انہیں چیلنج دیا جاتاہے کہ وہ ایک ایسی سورت توبنالائیں ۔اگر وہ اس چیلنج کو قبول نہیں کرسکتے توپھر دردناک اور خوفناک عذاب کے لئے تیار ہوجائیں ۔اس کے برعکس مومنین اورمنیبین کو خوشخبری دی جاتی ہے کہ ان کے لئے نہ ختم ہونے والاانعام واکرام ہے ۔اور الفاظ کے آئینے کی جھلک بھی دکھادی جاتی ہے ۔

اس کے بعد پھر یہود ومنافقین کی فتنہ پردازی کا جائزہ لیا جاتا ہے جو یہ کہتے تھے کہ قرآن کریم میں چھوٹی چھوٹی چیزوں کو تمثیلات دی گئی ہیں ۔لہٰذا یہ منزل کتاب نہیں ہے۔انہوں نے اس مسئلے کو آڑ بناکر شکوک وشبہات پھیلانے کا ایک وسیع کاروبار شروع کردیاتھا ۔ان کو بتایا گیا کہ یہ مثالیں گہری حکمت پر مبنی ہیں اور یہ کہ انہیں پڑھ کر ایک شخص گمراہ بھی ہوسکتا ہے جیسا کہ وہ ہوئے اور دوسری طرف ان سے مومنین کا گروہ ایمان میں اور پختہ ہوجاتا ہے ۔اس کے بعد ان پر نکیر کی جاتی ہے کہ وہ اس خالق ومدبر ،علیم وبصیر اور جلانے والے اور مارنے والے کا انکار کیوں کر کرتے ہیں ؟حالانکہ وہی توہے جس نے انسان کے لئے پوری کائنات کو پیدا کیا ،انہیں یہاں یہ طویل وعریض مملکت دے کر اپنا خلیفہ وخود مختار بنایا اورانہیں بے شمار انعامات و اکرامات سے نوازا۔

(ترجمہ سورۃ البقرۃمقدمہ سید قطب فی ظلال القرآن)

الم ذَلِكَ الْكِتَابُ لا رَيْبَ فِيهِ هُدًى لِلْمُتَّقِينَ الَّذِينَ يُؤْمِنُونَ بِالْغَيْبِ وَيُقِيمُونَ الصَّلاۃَ وَمِمَّا رَزَقْنَاهُمْ يُنْفِقُونَ وَالَّذِينَ يُؤْمِنُونَ بِمَا أُنْزِلَ إِلَيْكَ وَمَا أُنْزِلَ مِنْ قَبْلِكَ وَبِالآخِرَۃِ هُمْ يُوقِنُونَ أُولَئِكَ عَلَى هُدًى مِنْ رَبِّهِمْ وَأُولَئِكَ هُمُ الْمُفْلِحُونَ (سورۃ البقرۃ 1-5)

اللہ کے نام سے جو رحمٰن ہے اور رحیم ہے۔

الف،لام ،میم۔یہ اللہ کی وہ کتاب ہےجس میں کوئی شک نہیں اہل تقوی کے لیے باعث ہدایت ہے جو کہ غیب پر ایمان لاتے ہیں،نماز قائم کرتے ہیں ۔جو رزق ہم نے ان کو دیا ہے ، اس میں سے خرچ کرتے ہیں ،جو کتاب تم پر نازل کی گئی ہے اور جو کتابیں تم سے پہلے نازل کی گئی تھیں ان سب پر ایمان لاتے ہیں ،اور آخرت پر یقین رکھتے ہیں ۔ایسے لوگ اپنے رب کی طرف سے راہ راست پر ہیں اور وہی فلاح پانے والے ہیں ۔

الم (١) سورت کا آغاز تین حروف مقطعات الف ،لام اورمیم سے ہوتا ہے ۔او ران کے متصل مابعدکتاب اللہ کے بارے میں بیان کیا جاتا ہے ”یہ اللہ کی وہ کتاب ہےجس میں کوئی شک نہیں ۔یہ اہل تقوی کے لیے باعث ہدایت ہے“

قرآن مجید کی مختلف سورتیں ایسے ہی حروف سے شروع ہوئی ہیں۔درحقیقت اس کے حقیقی معنی تو اللہ تعالی ہی بہتر جانتے ہیں لیکن قرائن جس امر کی طرف اشارہ کرتے ہیں ان سے جو باتیں اخذ کی جا سکتی ہیں وہ درج ذیل ہیں ۔

۱۔ یہ دراصل اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ یہ کتاب بھی انہی حروف تہجی سے مرکب ہے ۔جو معلوم ومعروف ہیں اور یہ حروف و کلمات ایسے ہیں جنہیں عرب اپنی روز مرہ کی زندگی میں استعمال کررہے ہیں لیکن اس کے باوجود عربوں کی استطاعت سے یہ باہر ہے کہ وہ انہی حروف و کلمات سے اس جیسی کتاب تیار کرسکیں ۔

۲۔وہ تمام سورتیں جن کا آغاز حروف مقطعات سے ہوتا ہے ان کا معروضی مطالعہ کرنے سے ایک حقیقت سامنے آتی ہے کہ ان سورتوں میں ان حروف کے متصل بعد یا ابتدا میں اعجاز قرآن ، نزول قرآن ، حکمت قرآن الغرض ان آیات کا براہ راست موضوع خودقرآن مجید ہی ہے جس سے اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ ان حروف کا تعلق کسی نہ کسی انداز میں براہ راست قرآن مجید سے ہی ہے (اضواءالبیان، شنقیطی)

۳۔یہ قرآن کریم اللہ تعالی کا کلام ہے لہذا اللہ تعالی کے کلام اور مخلوق کے کلام میں فرق موجود ہے اس کے باوجود کہ اللہ تعالی اور اس کی مخلوق ایک ہی حروف استعمال کرتی ہے لیکن قرآن اور انسانی کلام میں امتیازی فرق موجود ہے ۔جیسے اللہ کی تخلیق اورانسانی مصنوعات میں نمایاں فرق ہے ۔ذرا اس مٹی کو دیکھئے کہ یہ چند معروف عناصر کا مرکب ہے ۔مخلوق ان عناصر سے اینٹ اور برتن وغیرہ بناتی ہے لیکن اللہ تعالیٰ کی شان تخلیق کو دیکھئے کہ وہ انہی ذرات کو حیات بخشتا ہے ۔یہ حیات ایسا راز ہے جو انسان کے ادراکات سے باہر او رما وراءہے بس اسی طرح قرآن کریم کی مثال دی جا سکتی ہے کہ یہ حروف تہجی او ران سے مرکب معروف متداول کچھ کلمات ہیں جن سے تمام انسان نظم ونثر بناتے ہیں لیکن جب اللہ تعالیٰ اسی مواد کو استعمال کرتا ہے تو وہ قرآن وفرقان کی شکل میں ظاہر ہوتے ہیں۔غرض اللہ کے کلام اور انسانی کلام کے درمیان فرق ایسا ہے جیسے ایک بے جان مادہ اور ایک زندہ متحرک مخلوق کے درمیان ہوتا ہے۔یہی ہے فرق ظاہری زندگی اور حقیقی زندگی کے درمیان ۔

ذَلِكَ الْكِتَابُ لا رَيْبَ فِيهِ هُدًى لِلْمُتَّقِينَ

یہ اللہ کی وہ کتاب ہےجس میں کوئی شک نہیں اہل تقوی کے لیے باعث ہدایت ہے۔

کتاب:کتاب کا لفظ قرآن مجید میں درج ذیل مفاہیم میں استعمال ہوا ہے۔

1 ۔نوشتۂ تقدیر(الانفال:68)

2۔اللہ تعالیٰ کا رجسٹر(ق:4)

3۔خط اور پیغام (نمل:29)

4۔احکام وقوانین (جمعہ :2)      5 ۔ کلام الٰہی

ھدی:ھدی کا لفظ قرآن مجید میں کثیر مفاہیم میں استعمال ہوا ہے جن میں اہم درج ذیل ہیں :

1۔قلبی بصیرت (محمد:17) 2۔ دلیل حجت (طہ 10 و حج 8) 3۔ سیدھا راستہ (حج : 68 و انعام :90) 4۔ فعل ہدایت (بقرۃ: 272) وغیرہ

متقی:متقی لفظ اتقاء سے ہے اور اس کے قرآنی مفاہیم درج ذیل ہیں ۔

1 ۔جس سے نقصان پہنچنے کا اندیشہ ہو اس سے بچنا۔ (مزمل:17) 2۔ کسی فتنہ کے ظہور سے خوف میں رہنا (انفال :25) 3۔ خوف الٰہی (زمر:73) 4۔گناہ اور اس کے نتائج بد سے ڈرنا اسی کو تقوی کہتے ہیں ۔(آل عمران:179) یہ واضح رہے کہ تقوی میں عمل کے ساتھ حال قلب کا بہت اہم کردار ہے۔

اس کتاب کا آغاز ہی صداقت ویقین کے ساتھ ہوا ہے جیسا کہ بیان کیا گیا کہ انہی حروف سے عرب ادباءجو اپنے علاوہ پوری دنیا کو گونگا کہتے تھے تمام تر زبان دانی کے باجود ایسی کتاب بنانے میں ناکام رہے ہیں حالانکہ یہ حروف وکلمات ان کے درمیان متداول ومعروف ہیں لہٰذا اب شک کی کیا گنجائش ہے کہ کلام واقعی اللہ تعالی کی طرف سے حبیب کائنات صلی اللہ علیہ وسلم پر نازل کیا گیا؟ جس کا اصل مقصد صرف اور صرف بنی نوع انسان کی ہدایت ہے۔

بلکہ حقیقت تو یہ ہےہدایت اس کے مزاج میں داخل ہے اس کی ماہیت اور اس کاوجود ہی عین ہدایت ہے لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ یہ کن لوگوں کے لئے ہدایت ہے؟ اور کن لوگوں کے لیے نور مبین ہے ؟ صرف متقین کے لئے ۔یعنی صرف وہی شخص مستفید ہوسکتا ہےجس کا دل خوف الہی اور تقویٰ سے معمورہے۔کیونکہ تقویٰ ہی اس کتاب کا اصل پیغام ہے اور انسان کےدل کے دریچے کھولتا ہےاور جب یہ کتاب کسی بھی انسان کے دل میں اترجاتی ہے تووہاں جاکر ہی یہ اپنا سب سےاہم کام کرتی ہے۔کیونکہ اگر دیکھا جائے تو صرف تقویٰ ہی تمام اچھائیوں کی بنیاد اور اساس ہے لہذا یہ صلاحیت صرف اسی میں ہےکہ وہ سچائی کو آگے بڑھ کر اٹھالے اور حق پر لبیک کہے ۔ لہذا جو شخص قرآن سے ہدایت لینا چاہتا ہے تو اس کے لئے سب سے پہلے یہ از حد ضروری ہے کہ اس کا دل خلوص سے پر ہوپھر وہ دل تقویٰ اور خوف خداوندی سے بھی معمور ہو۔اس کو اس بات کا خوف ہو نا چاہیے کہ وہ کہیں گمراہی میں مبتلا نہ ہو یا ضلالت اسے اپنی طرف کھینچ نہ لے ۔

تقوی کا مفہوم اس روایت سے بھی ملتا ہے کہ عمر رضی اللہ عنہ نےابی بن کعب رضی اللہ عنہ سے دریافت فرمایا کہ تقویٰ کا مفہوم کیا ہے؟توانہوں نے جواب دیا ”کیا آپ کا گزر کبھی کسی پرخار راستے سے نہیں ہوا؟“آپ نے کہا ”ہاں۔“توانہوں نے کہا ”توپھر آپ اس راہ سے کیونکر گزرے؟ عمررضی اللہ عنہ نے کہا ”میں نے اپنے کپڑوں کوسمیٹ لیا اور احتیاط سے چلا!انہوں نے کہا ”بس یہی ہے تقویٰ !“

یہ ہے تقویٰ کا مفہوم ۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ تقویراہ خیر پر چلنے کا نام ہے راہ شر سے اجتناب کرنے کا نام ہےجس میں ضمیر کی ہمہ وقت کی نگرانیجو انسانی شعورمیں تطہیری عمل جاری رکھےایساخوف جوشاہراہ زندگی میں آنے والے کانٹوں سے بچائےبالخصوص ایسی شاہراہ جہاں خواہشات نفس اور مرغوبات کے ان گنت جال بچھے ہوئے ہوں ۔ جہاں طمع ولالچ اور جھوٹی تمناؤں اور آرزؤں کے کانٹے ہیں ۔اور یہ تمنائیں اورخوف ان لوگوں سے ہے جو کسی کو نفع ونقصان نہیں پہنچاسکتے ۔

اس کے بعداہل تقوی کی صفات بیان کی گئی ہیں اور یہ وہصفات ہیں جو مدینہ منورہ کے سابقین اولین باسیوں رضی اللہ عنہم میں پائی جاتی تھیں اور اب یہی صفات ہر دور کےمخلصین کے لئے معیار بن گئی ہیں۔

ایمان بالغیب یہ ہے کہ ان سب کے دل ایمان بالغیب سے معمور ہوتےہیں اور غیب پر ایمان کی وجہ سے انسب کو قیامت کی جواب دہی کاخوف دامنگیر رہتا ہے ۔ بالغیب قرآن مجید میں ہمیشہ ظرف کے طور پر استعمال ہوا ہے اور مفعول کے طور پر نہیں۔ ایمان بالغیب وہ پہلی سیڑھی ہے ،جسے انسان عبور کرنے کے بعد انسان اس قابل ہو جاتا ہے کہ اسےاس امرکا ادراک ہوتا ہے جسے یہ ظاہری حواس نہیں پاسکتے لہذاایمان بالغیب کے مرحلےکوعبورکرنے کے بعد انسان اب انسانیت کے اس مقام تک بلند ہوجاتا ہےجہاں اس کا وجدان اسے یہ بتاتا ہے کہ یہ کائنات جو ا س کی محدود دنیا سے کہیں بہت بڑی ہے اوراس کا دائرہ ادراک بہت محدود ہے اورایک مومن ایمان بالغیب کے ذریعے کم از کم اس حقیقت تک رسائی ضرور حاصل کر لیتا ہے کہ وہ ناقص ہے اس کا علم بھی محض علم قلیل ہے اور اس علم قلیل کی بنیاد پر یہ اسے ہرگز زیبا نہیں دیتا کہ غرور و تکبر کرے یا اللہ کی مخلوق کو حقیر جانے۔ اور اس امر میں کوئی شک نہیں کہ جو شخص ظاہری حواس کی محدود دنیا میں گم رہے اس کی زندگی اس شخص کی طرح نہیں ہوسکتی جو اس عظیم ترکائنات میں رہتا ہو جسے اس کی بصیرت دیکھ رہی ہو اور وہ اپنی قلبی تصورات میں ، اس صدائے بازگشت ہر وقت پارہا ہوکہ کائنات میں ”عظیم حقیقت “کام کررہی ہے اور وہ حقیقت صرف ”ذات باری تعالیٰ“ہے ۔جو ہمارے حواس کی گرفت سے باہرہے ۔لہٰذا قرآن مجید اہل تقویٰ کی یہ صفت بیان کرتاہے کہ ان کی پہلی صفت یہ ہے کہ وہ غائب امور پر ایمان لاتے ہیں۔

وَیُقِیمُونَ الصَّلٰوۃَ

”نماز قائم کرتے ہیں۔“وہ صرف ایک اللہ تعالیٰ کی عبادت کرتے ہیں اور اس طرح وہ انسانوں یا دوسری چیزوں کی غلامی سے آزاد ہوجاتے ہیں

۔ اِنَّ الصَّلٰوةَ كَانَتْ عَلَي الْمُؤْمِنِيْنَ كِتٰبًا مَّوْقُوْتًا

وہ ایسی ذات کی طرف متوجہ ہوتے ہیں جو لامحدود قدرت کی مالک ہے ۔ان کے سر کسی انسان کے آگے نہیں ،بلکہ ذات باری تعالیٰ کے سامنے سر تسلیم خم ہوجاتے ہیں۔ نماز قائم کرنا ایک جامع اصطلاح ہے جو صرف نماز پڑھنے سے ادا نہیں ہو سکتا بلکہ نماز قائم کرناسے ٍ مراد نماز کا پانچ مقررہ اوقات میں ادا کرنا ، طہارت جو کہ جسمانی اور مکانی بھی ہو اس کا خیال رکھنا اور سب سے اہم شرط کہ اس طرح قائم کرنا جس طرح رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے قائم کی اور یہاں یہ بات واضح رہے کہ نماز کی مختلف کیفیات میں اختلاف اور تعارج بھی پایا جاتا ہے جس سے بعض اوقات تعلیمات اسلام میں شبہات پیداہو جاتے ہیں لیکن اس کا جواب صرف ایک ہی ہے اور وہ یہ کہ نماز کا طریقہ ایک ہی ہے جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے مروی ہے اور اس کے علاوہ سب خود ساختہ ہیں جو دشمنان اسلام نے مذموم مقاصد کے تحت وضع کیاتاکہ صحیح کو بھی مشکوک کیا جاسکے۔یعنی اقامت نماز میں پانچ کیفیات کا پایا جانا ضروری ہے۔

1۔ اخلاص (سورۃ الاعراف:29) 2۔ خشوع وخضوع (طٰہ:4و المؤمنون:1-2 ۔3سنت کے مطابق ہو (البقرۃ:239) جیسا کہ حدیث میں بھی ہے۔

صَلُّوا كَمَا رَأَيْتُمُونِي أُصَلِّي

اور صفوں کا درست کرنا جیسا کہ احادیث میں تسویہ صفوف کے نام سے یاد کیا گیا ہے۔ 4مقررہ اوقات نماز کی پابندی کرنا ۔ (اسراء :78، البقرۃ:278، معارج 23) 5۔     جماعت کا قیام واہتمام (الحج 41 ، ابراہیم 38)

وَمِمَّارَزَقنَہُم یُنفِقُونَ

”جو رزق ہم نے ان کو دیا ہے ،اس میں سے خرچ کرتے ہیں ۔“یعنی وہ اس بات کے معترف ہوتے ہیں کہ انہیں جو دولت ملی ہے وہ محض اللہ کی دی ہوئی ہے اور اللہ کا فضل و کرم ہے وہ خود ان کی پیدا کردہ نہیں ہے۔ اس اعتراف ہی کے نتیجے میں ،انسان کے دل میں خالق کائنات کی مخلوق یعنی دیگر انسانوں کے ساتھ تعاون اور انسانی اخوت اور روابط کا شعور واحساس پیدا ہوتا ہے ،اس اعتراف کی قدر وقیمت اس وقت ظاہر ہوتی ہے جب دوسروں کے ساتھ احسان کرکے نفس انسانی حرص وآزرکیے امراض سے پاک ہوجاتا ہے ۔ اس آیت میں اقتصادیات کا ایک بہت بڑا قاعدہ ملتا ہے کہ زندگی میں طبقاتی کشمکش کی جگہ طبقاتی تعاون پیدا ہوتاہے ،دولت کے ترکیز کی کیفیت نہیں پیدا ہونے پاتی اور نہ ہی چند ہاتھوں میں گردش کرتی ہے بلکہ دینے والے تلاش کرتے ہیں کہ کوئی لینے والا ملے۔ انفاق فی سبیل اللہ میں زکوٰۃ ،صدقات واجبہ اور بھلائی کی راہ میں خرچ ہونے والے سب سرمائے داخل ہیں۔ انفاق فی سبیل اللہ کو فرضیت زکوٰۃ سے بھی پہلے لازم کیا گیا۔ یہ دراصل ایک عمومی پالیسی ہے ۔فرضیت زکوٰۃ کی آیات اس کی ایک مخصوص اورجزوی شکلوں کو متعین کرتی ہے ۔فاطمہ بنت قیس رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے نقل کرتی ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا”زکوٰۃ کے علاوہ بھی مال میں مساکین کا حق ہے ۔“

وَالَّذِینَ یُؤمِنُونَ بِمَآ اُنزِلَ اِلَیکَ وَ مَآ اُنزِلَ مِن قَبلِکَ

َ”جو کتاب تم پر نازل کی گئی اورجو کتابیں تم سے پہلے نازل کی گئی تھیں ،ان سب پر ایمان لاتے ہیں۔“یہی صفت امت مسلمہ کے شایان شان ہےکیونکہ وہ آسمانی عقائد کی وارث ہے۔آغاز انسانیت سے لے کر تمام نبیوں کی وہ وارث ہے وہ تاقیامت اس زمین پر قافلہ ایمان کی حدی خواں اور امین وحید ہے۔ اس صفت کی وجہ سے امت مسلمہ میں انسانی اتحاد کا شعور پیدا ہوتا ہے اس طرح پوری انسانیت کا دین ایک ہوجاتا ہے۔اس کا ایک معبود قرار پاتا ہے اور اس کی طرف سے جو رسول بھیجے گئے سب کے نزدیک وہ رسولان برحق ہوجاتے ہیں ۔اس صفت کی وجہ سے دوسرے ادیان اور ان کے ماننے والوں کے خلاف مذموم تعصب ختم ہوجاتا ہے، جب تک وہ صحیح راہ پر ہوں ،اور انسان اس پر مطمئن ہوجاتا ہے کہ مختلف ادوار اور زمانوں میں اللہ تعالیٰ پوری انسانیت کی ہدایت اور اصلاح کا بندوبست فرماتے رہے ہیں ۔چنانچہ اس نے مسلسل ایک ہی پیغام اور ایک ہی ہدایت مختلف رسولوں کے ذریعے انسانوں تک پہنچانے کا اہتمام فرمایا۔نیز اس صفت کے نتیجے میں یہ احساس بھی ابھرتا ہے کہ مختلف ادوار اور زمانوں میں حالات کی تبدیلی کے باوجود حق اور ہدایت ایک ہی رہی ہے۔یہ ہدایت اور روشنی اسی ستارے کی مسلسل قائم ہے جو اندھیروں میں ہر فرد کے لئے رہنما ہوتاہے۔

وَبِالاٰخِرَۃِھُم یُوقِنُونَ”اور آخرت پر وہ یقین رکھتے ہیں ۔“یہ مومنین کی صفات میں سےایک اہم صفت ہے۔یہاں آکر اب دنیا کا رابطہ آخرت سے قائم ہو جاتا ہے۔ابتداکاربط انجام سے ہوتا ہے ۔اعمال پر سزا جزاءمرتب ہوتی ہے اورانسان کے اندر یہ احساس پیدا ہوجاتا ہے کہ وہ کوئی مہمل اور عبث مخلوق نہیں ہے۔نہ ہی وہ اس دنیا میں خود مختار چھوڑ دیا گیا ہے ۔بلکہ اسے ایک عظیم عدالت میں جانا ہے تاکہ اس کا دل مطمئن ہو جائے۔اس کی پریشانیاں دور ہوجائیں ۔وہ اعمال صالحہ کی طرف مائل ہوجائے ۔اور اسے یقین ہوجائے کہ انجام کار اسے اللہ ،رحمان و رحیم کی عدالت میں حاضر ہوناہے ۔ جہاں ہرکسی کے ساتھ انصاف کیا جائے گا۔ مدینہ منورہ کے اولین باسیانرحمت الہی میں یہ صفات پائی گئی تھی تو رب کائنات نےان کے حق میں یہ فیصلہ دیا کہ

اُولٰٓئِکَ عَلٰی ھُدًی مِّن رَّبِّہِم وَ اُولٰٓئِکَ ھُمُ المُفلِحُونَ

”ایسے لوگ اپنے رب کی طرف سے راہ راست پر ہیں ۔ اور وہی فلاح پانے والے ہیں ۔“ بلکہ ان کے ایمان کو معیار اور مثال بنا دیا ۔یوں انہوں نے ہدایت پائی لہٰذاوہ کامیاب رہے اور ہمیشہ کے لئے ہدایت و فلاح کی واحد راہ یہی ہے ۔جو چاہے اس پر گامزن ہوجائے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے