جائزہ:

آج امت مسلمہ کی تعلیمی حالت کسی پرمخفی نہیں، وہ مہذب معاشرے میں جہالت اور ناخواندگی کا شکار ہے۔ چنانچہ یہ ایک حقیقت ہے کہ مسلمان تعلیم کے میدان میں دیگر اقوام سے حد درجے پیچھے ہیں۔ اعداد و شمار اور حالیہ کم و بیش بیشتر غریب اور پسماندہ مسلم ممالک کے تعلیمی جائزے کے مطابق اونچی آمدنی کے حامل ملکوں میں بالغاں کی شرح ناخواندگی چار فیصد،بحیثیت مجموعی پوری دنیا میں 35 فیصد، اور کم آمدنی والے ملکوں میں ناخواندگی کی شرح چالیس فیصد کم از کم سترہ مسلم اکثریتی ممالک میں بالغاں کی شرح ناخواندگی پچاس فیصد سے بیاسی فیصد تک، مسلم افریقہ میں ستر فیصد سے زائد افراد ناخواندہ، جب کہ دنیا بھر میں 56 اسلامی ممالک کی مجموعی اوسط شرح خواندگی 20 تا30 فیصد ہے۔ اسلامی ممالک میں سب سے اعلیٰ درجے والا ملک برونائی ہے جس کا عالمی رینک 25 واں ہے۔ تین چوتھائی اسلامی ممالک ایسے ہیںجو اپنے سالانہ بجٹ کا چار فیصد بھی تعلیم پر خرچ نہیں کرتے، حالت یہ ہے کہ پوری مسلم دنیا سائنس و ٹیکنالوجی پر اپنی مجموعی پیداوار کا صفر اعشاریہ پانچ فیصد سے بھی کم خرچ کرتی ہے۔

اس وقت پوری اسلامی دنیا میں صرف 500 یونیورسٹیاں ہیں اور ان میں تعلیم بھی ناقص۔ ان یونیورسٹیوں کو اگر ہم مسلمانوں کی مجموعی تعداد پر تقسیم کریں تو ایک یونیورسٹی 30 لاکھ مسلمان نوجوانوں کے حصے آتی ہے، جبکہ اس کے مقابلے میں صرف امریکہ میں 5758 یونیورسٹیاں ہیں اور ٹوکیو شہر میں 1000 یوینورسٹیاں ہیں۔ عیسائی دنیا کے 40 فیصد نوجوان یوینورسٹی میں داخل ہوتے ہیں جبکہ اسلامی دنیا کے صرف دو فیصد نوجوان یونیورسٹی تک پہنچ پاتے ہیں۔ اسلامی دنیا میں اکیس لاکھ لوگوں میں سے صرف 230 لوگوں کو سائنس کا علم ہوتا ہے جبکہ امریکا کے دس لاکھ شہریوں میں سے چار ہزار اور جاپان کے 5 ہزار شہری سائنس دان ہوتے ہیں۔ پوری عرب دنیا میں صرف 35 ہزار فل ٹائم ریسرچ اسکالرز ہیں جبکہ صرف امریکا میں ان کی تعداد 22 لاکھ ہے۔ پوری اسلامی دنیا اپنے جی ڈی پی کا اعشاریہ دوفیصد ریسرچ پر خرچ کرتی ہے جبکہ عیسائی دنیا اپنی آمدنی کا پانچ فیصد حصہ تحقیق اور تعلیم پر خرچ کرتی ہے۔ اس وقت دنیا میں 200بڑی یونیورسٹیاں ہیں۔ ان دو سو یونیورسٹیوں میں سے54 امریکا 24 برطانیہ 17 آسٹریلیا 10 چین 10 ہالینڈ 9 فرانس 9 جرمنی 9 کینیڈا اور 7 سوئزرلینڈ میں ہیں۔ ان دو سو یونیورسٹیوں میں اسلامی دنیا کی صرف ایک یونیورسٹی ہے جبکہ اس فہرست میں بھارت کی تین یونیورسٹیاں آتی ہیں۔ پوری دنیا میں امریکا اعلی تعلیم پر سب سے زیادہ خرچ کرتا ہے کیونکہ امریکا اپنے جی ڈی پی کا دو اعشاریہ چھ فیصد ہائر ایجوکیشن پر صرف کرتا ہے جاپان اور سوئزرلینڈ میں شرح خواندگی سو فیصدہے۔

محاسبہ:

اسلام جب غالب تہذیبی اور سیاسی قوت تھا تو اس وقت اسے اپنے مقاصدکی تکمیل کے لیے افراد کی کھیپ اپنے ہی مدارس سے دستیاب تھی اور ان مدارس کے نصاب میں جہاں علوم شریعہ پڑھائے جاتے وہاں دنیوی علوم و فنون بھی موجود تھے چنانچہ اسلامی معاشرہ ایک متوازن شاہراہ ترقی پرگامزن تھا لیکن باطل قوتوں کو یہ کیونکر گوارا ہو سکتا تھا۔ چنانچہ مسلمانوں پر سیاسی غلبہ حاصل کرنے کے لیے دشمن نے تعلیم پر کاری ضرب لگاتے ہوئے دینی و دیناوی علوم کو منقسم کر دیا، چنانچہ مدارس کی پیداوار دنیاوی مسائل کا حل کرنے سے قاصر اور دنیاوی علوم و فنون کے ماہر قرآن و سنت سے نابلند تھے۔ یہی وہ (TUMING POINT) تھا جہاں سے مدعیان علوم میں باہمی رسہ کشی شروع ہوئی لیکن درحقیقت جن کو مرض کا علم تھا ان کے پاس دوا نہ تھی اور جس کے پاس دواتھی وہ مرض کی تشخیص کا ادراک نہیں کرسکتے تھے۔ جس کا لازمی نتیجہ زوال امت تھا۔ ہندوستان میں انگریز کی آمد سے قبل حصول علم کا ذریعہ صرف مدارس ہی تھے۔انہیں چراغوں سے مختلف پروانے فیض یاب ہوتے تھے خود انگریز مؤرخین لکھتے ہیں یورپ ہندوستان میں مدارس اسلامیہ کا مضبوط نیٹ ورک کام کر رہاتھا۔ صرف صوبہ بنگال میں 80 ہزار مدارس تھے، انگریز مفکر لارڈ میکالے 1830 میں برٹش ارکان پارلیمنٹ میں اپنی ہندوستانی سیاحت کی رپورٹ پیش کرتے ہوئے کہتا ہے۔ ’’ میں نے پورے ہندوستان کا سفر کیا سفر کے دوران کئی حیرت انگریز انکشافات ہوئے میں نے ایک بھی بھکاری نہیں دیکھا چوری ڈاکے کا تصور نہیں یہ علاقہ دولت سے مالا مال ہے۔ مسلمانوں میں اعلی اخلاقی اقدار ہیں وسیع الظرف ہیں یہاں لوگ ذہین و فطین اور قابل ہیں شرح خواندگی 92 فیصد ہے بڑوں کا ادب و احترام اور مذہب سے گہری وابستگی ہے۔ اپنے کلچر سے محبت اور غلامی سے نفرت کرتے ہیں ‘‘ پھر مزید کہتاہے ’’ میرا نہیں خیال کہ ہم ان لوگوں کو رام کرکے فتح کرسکتے ہیں ‘‘ اس کے بعد اس شاطر دماغ نے بڑی عرق ریزی سے مسلمانوں کے خلاف بھیانک منصوبہ تیار کر کے حکومت کے سامنے پیش کیا اس نے لکھا ’’ جب تک برٹش حکومت مسلمانوں کی ریڑھ کی ہڈی طرز معاشرت نصاب و نظام تعلیم کو نہ توڑے اس وقت تک فتح ناممکن ہے۔ ان کے قدیم طرز تعلیم کو ختم کیا جائے، میں تجویز دیتا ہوں کہ برٹش حکومت فوری طور پر مسلمانوں کے ایجوکیشن سسٹم (مدارس) کو تبدیل کرے۔

پھر کیا ہوا؟ بڑے بڑے علماء فضلاء اور مشایخ انگریزوں کی بربریت کا نشانہ بنے۔ جابچا پھانسیاں گاڑی گئیں۔ علماء کو شہید اور بعض کو کالا پانی کی صعوبتوں سے گزرا گیا۔ مساجد و مدارس کو مقفل کر دیا گیا۔ ان کے نام وقف جائیدادیں ضبط کر لی گیں یہ سب کچھ کیوں ہوا؟ ایسا کیوں کیا گیا؟ کیونکہ وہ سمجھتے تھے کہ یہ وہی مقدس جگہیں ہیں جن میں اسلام کی شان و شوکت کا راز ہے۔

لارڈ میکالے ایک دوسری جگہ اپنی رپورٹ میں لکھتا ہے:

’’ ہمیں ایک ایسی جماعت بنانی چاہیے جو ہم میں اور ہماری کروڑوں رعایا کے درمیان ترجمان ہو یہ ایسی جماعت ہونی چاہیے جو خون اور رنگ کے اعتبار سے تو ہندوستانی ہو مگر مذاق اور رائے الفاظ اور سمجھ کے اعتبار سے انگریز ہو ‘‘۔

سر سید، علی گڑھ اور مغربی نظام تعلیم:

سرسید احمد خان نے آخری مغل سلطنت کا زوال (جو مسلمانوں کی عظیم حکومت کی ایک دھندلی اور پھیکی سی تصویر تھی) اور1857عیسوی کی جنگ آزادی کی ناکامی کو اپنی آنکھوں سے دیکھا۔ انہوں نے اس ہزیمت اہل ھند کی دل شگستگی ان کی عظیم جماعت کے مقابلہ میں مٹھی بھر غیر ملکیوں کی فتح کا مشاہدہ کیا مسلمانوں کو اس کوشش کی جو بھاری قیمت ادا کرنی پڑی اس کو بھی دیکھا وہ قوم جو کل اس ملک کی حاکم تھی اس کی ذلت و پستی بڑے بڑے خاندانوں کی ہلاکت اور انگریزوں کی شان و شوکت (جو مسلمانوں کی عظمت رفتہ کے ملبہ پر قائم ہو رہی تھی) نیز ان کی حکومت اور ساحرانہ تہذیب کے مناظر بھی دیکھے اس کے علاوہ سر سید ایک ذہین اور سریع الانفعال آدمی تھے انہوں نے متوسط درجہ کی دینی تعلیم پائی تھی اور دینی علوم اور کتاب و سنت پر انکی گہری اور وسیع نظرنہ تھی چنانچہ وہ انگریزوں سے اس طرح متاثر ہوئے جس طرح کوئی مغلوب غالب سے۔ چنانچہ انہوں نے شخصی طور پر انگریزی تہذیب اور طرز معاشرت کو اختیار کیا اور دوسروں کو بھی بڑی گرمجوشی اور قوت کے ساتھ اس کی دعوت دی انکا خیال تھا کہ اس ہم رنگی حاکم قوم کی معاشرت و تمدن اختیار کرنے اور انکے ساتھ بے تکلف رہنے سے وہ مرعوبیت احساس کمتری اور احساس غلامی دورہو جائے گا جس میں مسلمان مبتلا ہیں چنانچہ وہ لکھتے ہیں :

’’ ہندوستان کے مسلمانوں کو کامل درجہ تہذیب اختیار کرنے پر راغب کیا جائے تاکہ جس حقارت سے سویلزڈ یعنی مہذب قومیں انکو دیکھتی ہیں وہ رفع ہو اور وہ بھی دنیا میں معززو مہذب کہلا ویں ‘‘

سر سید نے فرانس اور برطانیہ اس وقت دیکھا جس وقت وہ اپنے تمدن و ترقی کے شباب پر تھے جدید علوم اور جدید صنعت اپنے عروج پر تھی اس وقت مغربی معاشرہ اور سوسائٹی جس زوال اور انحطاط کے وہ آثار نمودار نہیں ہوئے تھے جو جنگ عظیم اول کے بعد اہل نظر کو صاف نظر آنے لگے تھے مغربی تہذیب اس وقت زندگی اور تخلیقی صلاحیت سے بھر پور تھا اس کے سینے میں پوری دنیا کو فتح کر لینے اور تمام اقوام عالم کو اپنے زیرنگیں لے آنے کا حوصلہ موجزن تھا چنانچہ وہ اس تہذیب اور معاشرے سے اس طرح متاثر ہوئے کہ ان کے دل و دماغ اعصاب اور ساری فکری صلاحیتیں اس سے وابستہ ہو گئیں۔ 12 اکتوبر 1870ء میں وہ اس تہذیب کے گرویدہ اور ہندوستان مسلم سوسائٹی میں ان اقدار اور اصولوں کی بنیاد پر اصلاح و تغیر کے پرجوش داعی اور مبلغ بن کر اپنے ملک واپس ہوئے اور پورے خلوص اور گرمجوشی کے ساتھ انہوں نے اس تحریک و دعوت کا علم بلند کیا اور اپنی ساری صلاحیتیں اور قوتیں اس کے لیے وقف کیے ان کا نقطہ نظر خالص مادی ہو گیا وہ مادی طاقتوں اور کائناتی قوتوں کے سامنے بالکل سرنگوں نظر آنے لگے وہ اپنے عقیدہ اور قرآن مجید کی تفسیر بھی اس بنیاد پر کرنے لگے۔ انہوں نے اس قدر غلو سے کام لیا کہ عربی زبان لغت کے مسلمہ اصول و قواعد اوراجماع و تواتر کے خلاف کہنے میں بھی انکو باک نہ رہا اور آخر کار 1877ء میں علی گڑھ کی بنیاد ڈالی۔

سر سید کے نقطہ نظر کے کمزور پہلو:

سر سید کے تعلیمی و اصلاحی منصوبہ کے دو پہلو ایسے تھے جن کی وجہ سے وہ عالم اسلام کے لیے کوئی ایسی انقلاب انگیز دعوت اور ایجاد و تعمیری قدم ثابت نہ ہوسکا جو عقیدہ و ایمان اور رسالت محمدی پر قائم ہونے والی سوسائٹی کے حالات کے مطابق عالم اسلام کے اس خلا کو پر کر سکے جو مغربی تہذیب اور علوم طبیعہ کی ترقی نے ذہنوں میں پیدا کردیا تھا۔

پہلی بات یہ ہوئی کہ انہوں نے اس نظام تعلیم کو ( جس کو مغرب میں حتمی شکل دی گئی تھی) ہندوستان کے مسلم معاشرہ کے حالات اور تقاضوں کا پابند و ماتحت نہیں بنایا جہاں اس کو نافذ کرنا تھا۔ انہوں نے اس کو نئے سرے سے ڈھالنے اور اسلامی شکل دینے پر غور نہیں کیا نہ اس کو مغربی تمدن اور اسکی مادی روح سے پاک کرنے کی طرف کوئی توجہ کی جس کی ایک مشرقی اسلامی ملک کو ضرورت نہیں تھی انہوں نے اس نظام کو مغرب سے اسکی ساری تفصیلات خصوصیات اسکی روح و مزاج اور اس ماحول و روایات کے ساتھ حاصل کرنے کی جو اس سے وابستہ تھیں جوں کا توں درآمد کیا اور روح کے قبول کرنے پر بھی شدید اصرار کیا کالج کے قواعد میں یہ اصول قرار دیا گیا کہ کم سے کم ایک پرنسپل اور دو پروفیسر کالج میں اور ایک ہیڈماسٹر اسکول میں ہمیشہ پورپین ہونا چاہیے اور جہاں تک کالج کی آمدنی میں گنجائش ہو اس تعداد میں اضافہ کیا جائے۔

چنانچہ بڑے اساتذہ میں کم سے کم چار پانچ ضرور انگریز ہوتے تھے جو مختلف شعبوں میں تنظیم و نگرانی کے فرائض انجام دیتے تھے کالج کے نظام اور طلبہ کے اخلاق پر گہرا اثر تھا۔ آخر کار ایک ایسی نسل پیدا ہوئی جو نام کے لحاظ سے مسلمان اور ذہن و دماغ کے لحاظ سے خالص مغربی تھی معاشرت و تمدن میں انگریزی طور و طریق کی پابند اور حامی عقائد میں بعض اوقات کمزور اور متزلل۔

دوسرا کمزور پہلو یہ تھا کہ ان کا سارا زور انگریزی زبان و ادب کے حصول اور اعلیٰ تعلیم پر تھا اور عملی علوم کی طرف (جو ترقی کا زینہ اور مغربی اقوام کی ترقی اور کامرانی کا راز ہیں اور جن کے انقلاب انگیز اثرات و نتائج کا انہوں نے برطانیہ کے قیام میں مشاہدہ کیا تھا) انہوں نے خاطر خواہ توجہ نہیں کی حالانکہ مغرب سے لینے کی اور اس میں کمال حاصل کرنے کی اگر کوئی چیز تھی تو یہیں تھی۔ بلکہ انہوں نے صنعتی تعلیم کی تحریک و تجویز کی سخت مخالفت کی اور اس موضوع پر سخت تلخ مضامین لکھے۔

اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ یہ اسلامی ادارہ خالص علمی و ادبی رجحان کے ساتھ آگے بڑھا اور مغربی تمدن کی تقلید کا ذوق اور انگریزی ادبیات میں کمال حاصل کرنے کا شوق اس کے ذہن اور حوصلہ مند طلبہ پر غالب رہا۔ اس نے انگریزی کے بعض اچھے مقرر صاحب قلم محکموں کے آفسر اور انتظامیہ کے عہدہ دار پیدا کیے لیکن قدرتی طور پر ریاضی طبیعات کیمسٹری ٹیکنالوجی اور صنعتی علوم میں جن کی اسلامی ہند کو سخت ضرورت تھی ممتاز شخصیتیں اور غیر معمولی افراد پیدا نہ ہو سکے اور اسکی وجہ سے اس کا دائرہ اثر سرکاری ملازمتوں اور معمول انتظامی اداروں تک محدود رہا۔ اگر سر سید عقل سے کام لیتے اور جو اس وقت کے ماہرین سے مشورہ کرتے اور مغربی تعلیم کو اسلامی سانچے میں ڈالتے اور انگریزی ادب کی جگہ سائنس و ٹیکنالوجی کو دیتے تو جس نسل نے علی گڑھ میں پرورش پائی تھی وہ عالم اسلام کو اس تحیر و اضطراب سے نجات دی سکتی تھی جس میں وہ عرصہ سے مبتلا تھا اور اس کو اقوام عالم کی قیادت اور تہذیبی حاضر کی رہنمائی میں مرکزی مقام عطا کر سکتی تھی۔

یہ تو سر سید اور علی گڑھ یونیورسٹی کی داستان تھی اب نئے دور کی داستان سن لیجئے پاکستان میں ایوب خان کے دور میں راولپنڈی کے گورنمنٹ گرلز کالج کی ایک تقریب میں ایک امریکی پروفیسر تقریر کرتے ہوئے کہتا ہے ’’ ترقی پذیر ممالک امریکی امداد ہاتھ پھیلا پھیلا کر مانگتے تو ضرور ہیں مگر اسے حاصل کرنے کے بعد بھی وہ بدستور اپنی فرسودہ اقدار ثقافت کے ساتھ چمٹے رہتے ہیں۔ یہ سراسر ناشکری کی علامت ہے کیونکہ امریکی امداد کا مقصد صرف ڈالر اور اسلحہ تقسیم کرنا نہیں۔ بلکہ ہمارا بنیادی مقصد امریکی اقدار امریکی ثقافت امریکی طرز حیات اور امریکی رسم و رواج کو بھی ساری دنیا میں پھیلانا اور فروغ دینا ہے خاص کر تعلیم کے شعبے میں پروفیسر صاحب نے زور دے کر کہا کہ جو طلباء وظائف پر امریکی یونیورسٹیوں میں پڑھتے ہیں اور صرف ڈگریاں اور ڈپلومے لیکر واپس آجاتے ہیں وہ ہمارا وقت اور پیسے ضائع کرتے ہیں۔ ہمیں صرف ایسے طلبہ کو وظیفوں کا مستحق سمجھنا چاہیے جو ڈگریوں کے علاوہ امریکن اقدار ثقافت امریکن اخلاق و عادات بھی اپنے ہمراہ واپس لائیں اور انہیں اپنے ماحول اور گھروں میں جاری و ساری کریں۔

قدرت اللہ شھاب اس تقریب کی صدارت کر رہے تھے انہوں نے اس کی روداد لکھی۔1958ء میں امریکی مشیروں کی مدد سے ایوب حکومت نے نئی تعلیمی پالیسی نافذ کی اعلی تعلیم محدود کردی گئی علمی تحقیق اور سیرت و کردار کی تعمیر کی بجائے محض حصول روز گار کی استعداد پیدا کرنا تعلیم کا مقصد قرار پایا گیا اور آنے والی پاکستانی نسلیں رفتہ رفتہ اپنے تہذیبی ورثے سے بیگانہ اور لادین ثقافت کی دلدادہ ہوتی چلی گئیں۔

مغربی تعلیم کے بتائج

ابوالحسن علی الندوی مغربی تعلیم کے بارے میں کہتے ہیں:

’’ یہ نظام تعلیم جب کسی اسلامی ملک یا مسلمان سوسائٹی میں نافذ کیا جائے گا تو اس سے ابتداء ذہنی کشمکش پھر اعتقادی تزلزل پھر ذہنی اور بعد میں دینی ارتداد قدرتی ہے ‘‘۔

محمد اسد جو کہ ایک سلیم الطبع مغربی مبصّر تھے فرماتے ہیں:

’’تاریخ کی اس طرح کی تعلیم نوجوانوں کے دماغ میں اس کے علاوہ کوئی اور اثر نہیں چھوڑ سکتی کہ وہ احساس کمتری میں مبتلا ہوں اور اپنی پوری ثقافت اور اپنے مخصوص تاریخ عہد کو حقارت کی نظر سے دیکھنے لگیں گے اور مستقبل میں ان کے لیے ترقی و خدمت کے جو وسیع اور روشن امکانات ہیں انکا انکار کرنے لگیں اس طرح وہ ایک ایسی منظم تربیت حاصل کرتے ہیں جس میں اپنے ماضی اور اپنے مستقبل کی حقارت پورے طور پر کار فرما ہوتی ہے ان کے نزدیک ان کے مستقبل کی کامیابی صرف اس میں ہے کہ وہ مغربی معیار کے مطابق اور مغرب کے افکار و اقدار سے ہم آہنگ ہوں ‘‘

ابو الحسن الندوی کہتے ہیں ـ ’’یہ مغربی نظام تعلیم درحقیقت مشرق اور اسلامی ممالک میں ایک گہری قسم کی لیکن خاموش نسل کشی کے مرادف تھا عقلاء مغرب نے ایک پوری نسل کو جسمانی طور پر ہلاک کرنے کے فرسودہ اور بدنام طریقہ کو چھوڑ کر اس کو اپنے سانچے میں ڈھال لینے کا فیصلہ کیا اور اس کام کے لیے جا بجا مراکز قائم کیے جن کو تعلیم گاہوں اور کالجوں کے نام سے موسوم کیا جیسا کہ اکبر مرحوم نے کہا تھا۔

یوں قتل سے بچوں کے وہ بدنام نہ ہوتا

افسوس کہ فرعون کو کالج کی نہ سوجھی

اقبال ان معدود خوش قسمت افراد میں سے ہے جو مغربی نظام تعلیم کے سمندر میں غوطہ لگا کر ابھر آئے اور نہ صرف یہ کہ صحیح سلامت ساحل پر پہنچے بلکہ اپنے ساتھ بہت سے موتی تہ سے نکال کر لائے چنانچہ وہ فرماتے ہیں تعلیم کے بارے میں:

تعلیم کے تیزاب میں ڈال اسکی خودی کو

ہوجائے ملائم تو جدھر چاہے اسے پھیر

تاثیر میں اکسیر سے بڑھ کر ہے یہ تیزاب

سونے کا ہمالہ ہو تو مٹی کا ہے اک ڈھیر

وہ مغرب کے اس نظام تعلیم کو دین و اخلاق کے خلاف ایک سازش قرار دیتے ہیں فرماتے ہیں۔

اور یہ اہل کلیسا کا نظام تعلیم

ایک سازش ہے فقط دین و مروت کے خلاف

مشورہ:a

حکمت مومن کا گمشدہ مال ہے اور وہی اسی کا حقیقی مالک ہے اس کے نزدیک وسائل کے خیر و شر ہونے کا فیصلہ اس پر منحصر ہے کہ وہ کن مقاصد کے تحت استعمال ہو تے ہیں اس کے نزدیک ہر طاقت ہر تحقیق ہر علم ہر مؤثر ذریعہ اسی لیے ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ کے دین کے لیے استعمال ہو اور مخلوق کےفائدے کے کام آئے اس کا فرض ہےکہ وہ اس کو تخریب کے بجائے تعمیر کا ذریعہ بنائے۔

مذکورہ بالا تمہید کے تناظر میں ہم کہہ سکتے ہیں کہ حقیقت یہ ہے کہ مغرب کے ناقابل انکار علمی و صنعتی تفوق کو سامنے رکھ کر جس سے آنکھیں بند کر لینا نہ عقل کا تقاضا ہے نہ مذہب کی تعلیم، اور نہ عملا ممکن۔ لہذا عالم اسلام کے لیے راستہ یہ ہے کہ مغرب سے علم و صنعت سائنس اور ٹیکنالوجی اور ان علوم و تحقیقات میں جن کا تعلق تجربے حقائق و واقعات اور انسانی محنت و کاوش پر ہے فراخ دلی کے ساتھ استفادہ کیا جائے پھر ان کو ان مقاصد کے لیے اپنی خداد ذہانت اور اجتہاد کے ساتھ ان اعلی مقاصد کا تابع اور خادم بنایا جائے جو آخری نبوت اور آخری صحیفہ نےان کو عطاکئے اور جن کی وجہ سے ان کو خیر امت کا لقب ملا ہے۔ وسائل و مقاصد کا یہ حسین امتزاج جس سے سردسست مغرب بھی محروم ہے اور شرق بھی کہ مغرب تنہا قاہر وسائل کا سرمایہ دار ہے اور صالح مقاصد میں محض تہی دامن اور مشرق صالح مقاصد کا واحد اجارہ دار ہے اور مؤثر وسائل سے یکسر محروم یہ صحت مند و صالح امتزاج دنیا کی قسمت بدل سکتا ہے اور اس کو خود کشی و خود سوزی کے راستہ سے ہٹا کر فلاح دارین اور سعادت ابدی کے راستہ پر ڈال سکتا ہے یہ ایسا کارنامہ ہوگا جو تاریخ کے دھارے اور دنیا کی قسمت بدل کر رکھ دے گا یہ کارنامہ وہی امت انجام دے سکتی ہے جو آخری نبی کی جانشین اور اس کی تعلیم کی حامل و امین ہو اس تجربے میں جاپان ہمارے لیےمشعل راہ ہے لیکن جاپان کو اس لیے زیادہ کامیابی نہیں نہ ہوئی کہ جاپان کے مذہبی معتقدات اور اس کی تہذیب زمانہ حال سے کوئی مطابقت نہیں رکھتی نہ اس کے اندر افادیت اور انسانی خدمت کا کوئی پہلو ہے نہ اس میں عالمگیر پیغام بننے کی صلاحیت ہے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے