الحمد للّٰہ ربّ العالمین ، والصلوٰۃ والسلام علی سیّد المرسلین ، و علی آلِہٖ و اصحابہ اجمعین ، و العاقبۃ للمتقین ۔اما بعد !

اس گلشنِ رنگ وبو میں لا تعداد اصحاب قلم و قرطاس نے اپنے علمی خزینوں کو کتابی شکل میں مدون کیا ۔ سطحِ ارضی کے ہر خطے اور خطے کی ہر ہر زبان میں بے شمار کتابیں لکھی گئیں ، جنہیں حیطۂ شمار میں نہیں لایا جاسکتا ۔ ان بے شمار کتابوں کی موجودگی میں آخر صرف قرآن ہی وہ کتاب کیوں ہے جس کا پڑھنا اور سمجھنا اور پھر سمجھ کر عمل کرنا ہر فردِ نوع انسانی پر لازم قرار پائے ؟

ہم قرآنِ کریم کا مطالعہ کیوں کریں ؟ یہ ایک ایسا فطری سوال ہے جس کا جواب علمِ عقلی اورفطرتِ طبعی کے مطابق مطلوب ہے ۔

دنیا میں یقینا بے شمار کتابیں لکھی گئیں لیکن وہ تمام کتابیں مختلف علم و فن پر مشتمل تھیں ۔ یہ کتابیں طبقۂ انسانی کے کسی خاص طبقے کے لیے لکھی گئیں جو انسان کے مختلف علمی، فکری، اور طبعی خصائص سے تعرض کرتی ہیں ۔ مذہب ، فلسفہ ، تاریخ ، جغرافیہ ، نجوم ، فلکیات ، سوانح ، معاشیات ، عمرانیات ، سیاسیات وغیرہا پہلوئوں میں سے کسی پہلو یا چند پہلوئوں کا احاطہ کرتی ہیں لیکن قرآنِ کریم دنیا کی واحد کتاب ہے جو انسانیت کی کتاب ہے ۔ ایسی کتاب ہے جو ہر فردِ نوع انسان کے لیے لکھی گئی ہے ۔ دنیا میں ایسی کوئی دوسری کتاب ہی نہیں جس نے انسانیت کی کتاب ہونے کا دعویٰ کیا ہو سوائے قرآنِ کریم کے ۔جو {یا ایھا الناس } کہہ کر ہر فردِ نوع انسانی کو مخاطب کرتی ہے تاہم { یا ایھا الذین اٰمنوا } کہہ کر اپنے احکام صادر کرتی ہے ۔

مذہب اور عقیدہ انسان کی فطری ضرورت ہے ۔ ایسا کوئی انسان نہیں جو کسی مذہب کا پابند اور کسی مخصوص عقیدے کا حامل نہ ہو ۔ حتیٰ کہ جو لوگ کسی مذہب کو نہیں مانتے اور کسی معبود کی عبادت نہیں کرتے غور کرو تو ان کا کسی مذہب کو نہ ماننا اور کسی معبود کی بارگاہ میں جبینِ نیاز کا نہ جھکانا بھی ایک عقیدہ اور مذہب ہی ہے ۔

دنیا کے تمام وابستگانِ مذاہب اپنی اپنی کتابوں کو وہی درجہ دیتے ہیں جو مسلمان قرآنِ کریم کو ۔ یسوع مسیح کو نجات دہندہ سمجھنے والا ایک عیسائی ، پتھروں کے تراشیدہ صنم کدے میں سر جھکانے والا ایک ہندو ، نسلِ داود سے ظہور پانے والے نجات دہندہ کا منتظر ایک یہودی ، آتشی شراروں کو مقام تقدیس پر فائز کرنے والا ایک آتش پرست ، نروان کی تلاش میں سرگرداں ایک بُدھ اور حضرت لا-زو کی تعلیمات کی روشنی میں اپنی زندگی گزارنے والا مذہبِ تائو کا ایک پیروکار یہ کہنے میں حق بجانب ہے کہ نسلِ انسانی سے تعلق رکھنے والا فرد قرآنِ کریم ہی کیوں پڑھے ؟ وہ عہدِ نامۂ جدید ، وید ، بھوت گیتا ، عہدنامۂ قدیم ، اوستا، تری پتاکا ، تا-تے -کنگ کا مطالعہ کیوں نہ کرے ؟ یہ تمام کتابیں ہر وابستگانِ مذہب کے لیے ایسی ہی مقدس اور الہامی ہیں جیسی مسلمانوں کے لیے قرآنِ کریم ۔

لیکن اگر دنیا میں مذاہب سے وابستہ ان الہامی کتابوں کا مطالعہ ضروری ہی قرار پائے تب بھی صرف قرآنِ کریم ہی وہ واحد معجزاتی کتاب ہے جس کا مطالعہ لازمی ہے ۔ بایں وجہ کہ ان تمام مقدس کتابوں میں یہ کہیں نہیں لکھا کہ یہ انسانیت کے لیے نازل کی گئی ہے ۔ پھر ان الہامی کتابوں کے واقعی الہامی ہونے کی بنا پر ان کے مطالعہ و عمل کو لازم قرار دینے کے لیے بھی چند فطری شرائط کا ہونا ضروری ہے ۔ مثلاً

(۱)کتاب جس زبان میں نازل ہوئی اسی زبان اور اسی حالت میں موجود بھی ہو تاکہ استناد برقرار رہے ۔

(۲)جس زبان میں کتاب نازل ہوئی وہ زبان بھی محفوظ ہو ، اس کی گرامر ( صرف و نحو ) اور اس کا ادب ( نثر و نظم ) بھی زندہ ہو تاکہ الہامی کتاب کی ابدیت ثابت ہوسکے ۔

(۳)کتاب جس پر نازل ہوئی خود اس کی شخصیت بھی اپنی تاریخیت اور کاملیت میں پوری اترتی ہو تاکہ الہامی تعلیمات کا ایک الہامی نمونۂ عمل بھی موجود ہو ۔

آئیے اب اس پیمانے پر سطح ارضی پر موجود الہامی کتابوں کا جائزہ لیں:

عہد نامہ جدید

ہم دیکھتے ہیں کہ’’ عہد نامہ جدید ‘‘ (انجیلِ مقدس ) جسے دنیا میں بسنے والے تقریباً ڈیڑھ ارب عیسائی اپنا دستور العمل مانتے ہیں ، وہ ان فطری شرائطِ ثلاثہ پر پوری نہیں اترتی ۔

(۱)عہد نامہ جدید ( انجیلِ مقدس ) اصلاً عبرانی زبان میں نازل ہوئی لیکن عبرانی زبان میں نازل کردہ وہ اصلی عہد نامہ جدید ( انجیلِ مقدس ) آج موجود نہیں ، جس نے اس کتاب کی استنادی حیثیت کو سخت مجروح کردیا ہے ۔ پھر دنیائے عیسائیت نے جن اناجیلِ اربعہ کو مستند مانا ہے ان میں بھی باہم تناقض و تعارض موجود ہے ۔

(۲)خود عبرانی زبان تاریخ و معاشرت کے سفینوں میں کہیں گمشدہ ہوگئی ۔ عبرانی شعر و ادب کے کتنے نمونے ہیں جو آج پیش کیے جاسکتے ہیں ۔ اس زبان کا گمشدہ ہوجانا ہی اس کی ابدیت کو متاثر کرتا ہے ۔

(۳)یہ مقدس کتاب سیّدنا عیسیٰ علیہ السلام پر نازل ہوئی ۔ جن کے ابتدائی ۳۰ برس غیر معلوم ہیں ۔ چند برسوں کی داستان ہے جو اپنی تاریخیت کو پیش کرنے سے قاصر ہے ۔

وید

وید چار کتابوں ( رگ ، یجر ، سام اور اتھرو ) پر مشتمل ہے۔ ہندو مذہب کے ایک محقق کے لیے یہ کارِ سخت دارد ہے کہ وہ یہ ثابت کرسکے کہ یہ کتابیں کس زمانے میں نازل ہوئیں ؟ ان کی اصل زبان کیا تھی ؟ اور جن پر ان کا نزول ہوا وہ شخصیتیں کون ہیں ؟ گو آج وید کو دنیا کی قدیم ترین کتاب مانا جاتا ہے لیکن اس قدیم کتاب کے مالہٗ و ما علیہ کو بتانے سے محققین قاصر ہیں ۔

(۱)وید کی یہ چاروں کتابیں اپنی اصل شکل میں موجود نہیں ۔ کہا جاتا ہے کہ یہ سنسکرت میں نازل ہوئیں ۔ لیکن ان کا اصل اور مکمل متن کہاں ہے ؟ معلوم نہیں ۔

(۲)ہم مان لیتے ہیں کہ سنسکرت ہی ان مقدس الہامی کتابوں کی زبان ہے ۔ لیکن خود یہ زبان آج کہاں ہے ؟ اس زبان کی علمیت اور اس کی ابدیت دونوں ہی مجروح ہوچکی ہیں ۔

(۳)ان کتابوں کے ملہمین ہیں اگنی ، وایو ، آدتیہ اور انگرہ۔ مگر یہ کون ہیں ؟ اس سوال پر پردئہ خفا کی دبیز چادر چڑھی ہوئی ہے ۔

افسوس ہندو دھرم کی سب سے مقدس کتاب بھی ہر فرد نوعِ انسانی کے لیے لازمِ مطالعہ قرار نہیں پاتی ۔

شریمد بھگوت گیتا

ہندو مذہب کی یہ دوسری مقدس کتاب ہے ۔

(۱) تاہم یہ کتاب بھی اپنی اصل شکل اور کامل حالت میں کہیں موجود نہیں۔

(۲)یہ کتاب بھی سنسکرت زبان میں تھی جس کا حال گزشتہ سطور میں بیان ہوچکا ہے ۔

(۳) یہ کتاب نازل ہوئی سر کرشن جی مہاراج پر جنہیں بقول ہندو دھرم اللہ نے بادشاہت و نبوت دونوں عطا کیں ۔ لیکن گیتا میں انہوں نے کسی نئی شریعت کو پیش نہیں کیا ۔ انہوں نے اپنی پوری زندگی ویدانک تعلیمات کی روشنی میں گزاری۔ گیتا میں ایک طرح سے فلسفۂ مذہب کا بیان ہے ۔ خود سر کرشن جی مہاراج کی زندگی ، ان کا زمانۂ حیات اور ان کے کارہائے نمایاں بھی کسی مستند ذریعۂ معلومات سے حاصل نہیں ہوتے ۔

عہد نامۂ قدیم

عہد نامۂ قدیم حضرت موسیٰ علیہ السلام اور دیگر انبیائے بنی اسرائیل کے صحائفِ مذہبی پر مشتمل ہے ۔ جن میں دو مستقل کتابیں توریت و زبور اور متعدد صحیفے شامل ہیں ۔ یہ کتابیں یہودیوں کا دستور العمل اور عیسائیوں کے لیے مقدس اور قابلِ احترام ہیں ۔

(۱)یہ کتابیں نازل ہوئیں عبرانی زبان میں ۔ ان کا اصل اور مکمل متن آج نہیں ملتا۔ عہد نامہ قدیم کے جو مختلف نسخے ملتے ہیں ان میں باہم بے شمار تناقضات ہیں ۔ جن کی تطبیق کسی محقق کے بَس کا روگ نہیں ۔

(۲)خود عبرانی زبان میں آج بیشمار تبدیلیاں ہوچکی ہیں اور اس زبان کی زندگی کا تسلسل بھی پیش نہیں کیا جاسکتا۔

(۳)توریت نازل ہوئی سیّدنا موسیٰ علیہ السلام پر اور زبور سیّدنا داود علیہ السلام کے مقدس سینے پر الہام کی گئی ۔ اس کے علاوہ سیّدنا یونس علیہ السلام ، سیّدنا دانیال علیہ السلام ، سیّد نا سلیمان علیہ السلام ، سیّدنا زکریا علیہ السلام ، سیّدنا ایوب علیہ السلام ، حضرت حبقوق وغیرہم کے صحائف بھی اس میں شامل ہیں ۔ ان میں سب سے روشن شخصیت سیّدناموسیٰ علیہ السلام کی ہے ۔ اس میں کچھ شبہ بھی نہیں کہ سیّدنا محمد رسول اﷲ ﷺ کے بعد اگر کسی مذہبی رہنما کی زندگی کی تفصیلات سب سے زیادہ ملتی ہیں تو وہ جناب موسیٰ علیہ السلام کی ذات گرامی ہے ۔ تاہم ان کی زندگی کے بھی بہت سے پہلو تشنۂ تحقیق ہیں ۔ سب سے بڑھ کر یہ کہ ان کے زمانۂ حیات کا درس تعیین نہیں ہوتا ۔ ہم کہہ سکتے ہیں کہ ان کی زندگی کے خدو خال تو ملتے ہیں مگر ان خدو خال کے جزئیات کی تفصیلات نہیں ملتیں ۔ مثلاً انہوں نے شادی کی مگر ان کی ازدواجی زندگی کیسی گزری ؟ ہم نہیں جانتے ۔ وہ صاحبِ اولاد تھے مگر ان کے کتنے بچے تھے اور وہ کیسے باپ تھے ؟ ہم نہیں جانتے۔ ان کی تعلیمات نے اس عہد کے متعدد افرادِ انسانی پر اپنا اثر ڈالا مگر ان کے کتنے عالی قدر اصحاب تھے جنہیں ہم مقرب خاص کہہ سکیں ؟ ہم نہیں جانتے ۔ وہ اپنی قوم کے رہبر و رہنما تھے مگر انہوں نے قوم کی معاشرت کے لیے کیا کیا اصلاحات کیں ؟ ہم نہیں جانتے۔ وہ کیسے حکمراں تھے تاریخ کسی مطمئن جواب تک نہیں پہنچاتی ۔

پھر بقیہ مقدس شخصیات کی زندگیاں تو اس سے بھی کہیں زیادہ مستور الحال ہیں ۔ عہد نامہ قدیم کے اصل متن کی گمشدگی ، موجودہ نسخوں کا باہمی تعارض ، اس کے ملہمین کی تاریخیت کی تشکیک ۔ الغرض یہ وہ پہلو ہیں جو اسے ہر فردِ نوعِ انسانی کے لیے ناگزیر مطالعہ نہیں رہنے دیتے ۔

اوستا

آتش پرست پارسیوں کی اصل کتاب ’’ پاژند ‘‘ ہے جس کے ملاحظے کی نعمت سے آج ہم محروم ہیں ۔ پارسیوں کی موجودہ مقدس کتاب ’’ اوستا ‘‘ ہے ۔ یہ کتاب پانچ حصوں پر مشتمل ہے ۔ اس میں پہلی کتاب ’’ یسنا ‘‘ کا وہ حصہ جو ’’ گاتھا ‘‘ کے نام سے موسوم ہے زردشت کے اقوال و الہامات پر مشتمل ہے اور صرف اسی حصے کو صحیح معنوں میں الہامی مانا جاسکتا ہے کیونکہ باقی حصوں میں زردشت کی سوانح اور دیگر امور پر بحث کی گئی ہے ۔

(۲/۱)سب سے پہلے تو یہی سوال اٹھتا ہے کہ ’’ پاژند ‘‘ کہاں ہے ؟ پھر ’’ اَوَستا ‘‘ کا اصل نسخہ کہاں ہے ؟ اس کا اصل الہامی متن کتنا ہے اور کس جگہ محفوظ ہے ؟ اس کی اصل زبان کیا تھی یہی معلوم نہیں ۔ ایسے میں اس زبان کے دائمی ہونے کا سوال ہی رائیگاں جاتا ہے ۔

(۳)یہ کتاب زردشت پر نازل ہوئی ۔ زردشت کی زندگی پر تاریکی کا پردہ ہے ۔ یہی فیصلہ نہیں ہوسکتا کہ ان کا زمانۂ حیات کیا ہے ۔ ایک سے زائد آراء اس پر موجود ہیں ۔ ان کی جدوجہدِ حیات اور اس کے اثرات و نتائج پر تیقن سے کچھ نہیں کہا جا سکتا ۔

پھر آج یہ مذہب الشاذ کالمعدوم کا مصداق بنتا جا رہا ہے۔ دم توڑتی چراغ کی روشنی سے دنیا کے اُجالے کی توقع ہی فضول ہے ۔

تری پتاکا

یہ بدھ مذہب سے وابستگانِ عقیدت کی مقدس کتاب ہے، لیکن جس طرح سری کرشن جی مہاراج نے گیتا میں کوئی نئی شریعت پیش نہیں کی اسی طرح مہاتما گوتم بدھ نے بھی کسی نئی شریعت کو پیش نہیں کیا چند امور کو چھوڑ کر وہی تعلیمات پیش کرتے ہیں جو ویدک دھرم کا خاصۂ امتیاز ہیں ۔

(۲/۱)’’ تری پتاکا ‘‘ بدھ مذہب کے حاملین کی مقدس کتاب ضرور ہے لیکن یہ کتاب گوتم بدھ کی زندگی میں مدوّن نہیں ہوئی تھی بلکہ اس کی تدوین اس وقت ہوئی جب گوتم بدھ کے بعد ان کی جماعت تشتت و افتراق کا شکار ہورہی تھی ایسے میں ان کے باقی ماندہ عالی مرتبت خلفاء نے بدھ کی الہامی تعلیمات کو اپنے اپنے حافظوں کی مدد سے مرتب کیا ۔ اس کے بعد تو اس کتاب کے خالص الہامی ہونے کا دعویٰ بھی کامل نہیں رہتا ۔ پھر اس میں جو تعلیمات ہیں وہ زیادہ تر انسان کی اخلاقیات سے تعرض کرتی ہیں ۔

(۳)مہاتما گوتم بدھ کے زمانۂ حیات کا تعیین بھی ہوجاتا ہے اور ان کی زندگی کے خدو خال بھی کسی قدر مل جاتے ہیں مگر ان کی کتاب خود ان کے ہاتھوں سے نہیں ملتی ۔

بایں ہَمہ ’’ تری پتاکا ‘‘ بھی انسانیت کے درد کا مداوا نہیں بن سکتی ۔

تا – تے – کنگ

چین کے مذہبِ تائو کی بنیادی کتاب تا – تے -کنگ ہے۔ اس مذہب کے بانی لا -زو ہیں ۔

(۲ /۱)یہ مختصر سی کتاب ہے جو چینی رسم الخط کے تقریباً ۵ ہزار نشانات پر مشتمل ہے ۔ کتاب کے زبان و بیان میں بلا کی ایجاز اور استعارہ ہے جس کی وجہ سے نفسِ مضمون تک پہنچنا عسیر الفہم ہو گیا ہے ۔ چینی زبان کو چین سے باہر کبھی مقبولیت نہیں مل سکی ۔ اس لیے ہم کہہ سکتے ہیں کہ یہ مذہب اہلِ چین کے لیے تھا اور اہلِ چین ہی تک محدود رہا ۔

(۳)لا- زو ۶۰۴ ق م میں پیدا ہوئے ۔ ان کی جائے ولادت چین کا ایک مقام ’’ چو ‘‘ تھا ۔ ان کے حالات پردئہ خفا میں ہیں ۔ تاہم یہ معلوم ہوا ہے کہ وہ چو میں شاہی کتب خانہ کے مہتمم اور نگراں تھے ۔ طبیعتاً عزلت نشیں تھے ۔ دنیوی ہنگاموں سے دور رہنا چاہتے تھے ۔ بالآخر انہوں نے گوشہ گیر ہونے کا فیصلہ کر لیا ۔ جاتے وقت انہوں نے تا -تے – کنگ نامی کتاب لوگوں کو دی جو آج تائو مذہب کا دستور العمل ہے ۔ ان کے انجام کار سے بھی آگاہی نہیں ہوتی ۔

الغرض چین کے اس مذہب کی تمام تر خوشنمائی صرف اہلِ چین ہی تک محدود رہی ۔

قرآن کریم

اب ہم ان ہی فطری شرائطِ ثلاثہ کے اصولوں پر قرآنِ کریم کا جائزہ لیتے ہیں۔

(۱) قرآن کریم عربی زبان میں نازل ہوئی اور اس کے نازل کنندہ نے خود ببانگ دہل یہ دعویٰ کیا کہ { اِنَّا نَحْنُ نَزَّلْنَا الذِّکْرَ وَ اِنَّا لَہٗ لَحَافِظُوْنَ } ’’ بیشک ہم نے اس ’’ذکر ‘‘ ( یعنی قرآن کریم ) کو نازل کیا اور بے شک ہم ہی اس کی حفاظت فرمائیں گے ۔ ‘‘پھر دنیا اس حفاظت کے مظاہر بھی دیکھ رہی ہے ۔ زمانۂ نزول سے لے کر آج تک بے شمار نفوسِ انسانی نے اسے اپنے قلوب میں محفوظ اور اذہان میں ثبت کیا ہے ۔ یہ دنیا کی واحد کتاب ہے جسے لوگ تلفظ کی ادائیگی کے ساتھ گوشۂ حفظ میں محفوظ کرتے ہیں ۔ اس کے مماثل ایک کتاب بھی ایسی نہیں جنہیں ان شرائط و ضوابط کے ساتھ کسی ایک فردِ انسانی نے بھی یاد کیا ہو ۔ اپنے تمام تر اصل متن کے ساتھ یہ آج بھی اسی طرح ملتی ہے جیسے چودہ صدیوں سے مل رہی ہے۔

(۲)عربی زبان آج بھی اپنی تمام تر شعری و ادبی رعنائیوں کے ساتھ زندئہ جاوید ہے ۔ اسے ایک عالمی زبان کا درجہ حاصل ہے ۔ اس زبان کے اصول و ضوابط ( گرامر ) آج اسی طرح موجود ہیں جیسے پہلے ۔ یہ دنیا کی واحد الہامی کتاب ہے جو دنیا کی ایک عالمی زبان میں نازل ہوئی ۔

(۳)قرآنِ کریم کا نزولِ مبارکہ جس مقدس شخصیت پر ہوا دنیا میں اس سے زیادہ روشن اور تابناک شخصیت کوئی دوسری نہیں ۔ جناب محمد رسول اللہ ﷺ کا زمانۂ حیات معلوم ۔ ان کا بچپن ، ان کی جوانی ، ان کا بڑھاپا ، معلوم ۔ ان کی مبارک زندگی کے خدو خال نمایاں و روشن اور خدو خال کی ہر ہر جزئیات ، معلوم ۔ ان پر نزول کتاب کی کیفیتیں ، معلوم ۔ ان کے مقدس خلفاء کے اسمائے گرامی ، کارہائے جہد و سعی ، گوشۂ حیات کے مختلف جہات ، معلوم ۔ گزشتہ کتابوں نے تعلیمات تو دیں مگر ان تعلیمات کا عملی ظہور نہیں ہو سکا لیکن قرآن کریم اس شرط کو بھی پورا کرتا ہے ۔

الغرض الہامی اور مقدس کتاب کے لیے ان فطری شرائط کو اگر کوئی کتاب پورا کرسکتی ہے تو وہ صرف قرآنِ کریم ہے۔ آج تک یہ غلط فہمی موجود ہے کہ قرآنِ کریم مسلمانوں کی کتاب ہے اور اسلام مسلمانوں کا دین ۔ لیکن یہ کتاب خود پوری قوت سے بتاتی ہے کہ یہ انسانیت کی کتاب ہے اور اسلام انسانوں کا دین ہے ۔ اس کتاب کے سوا کسی کتاب نے ایسا دعویٰ ہی نہیں کیا ۔

قرآن کریم کا مطالعہ بایں اعتبار بھی ہر فردِ نوعِ انسانی کے لیے لازم قرار پاتا ہے کہ یہ وہ واحد کتاب ہے جس نے بتایا ہے کہ یہ آفرید کارِ عالم انسانیت کی آخری کتاب اور اس کتاب کا جس پر نزول ہوا وہ اللہ کا آخری پیغام بر ہے اور یہ ایک بدیہی امر ہے کہ آخری کتاب کامل بھی ہوگی اور ہدایت و نجات کے تمام تقاضوں پر محیط بھی ۔

بہائی مذہب

گزشتہ اوراق میں جن کتابوں کا تقابلی و استنادی جائزہ لیا گیا وہ قرآنِ کریم سے قبل کی کتابیں تھیں ۔ نزول قرآنِ کریم کے بعد دنیا کے مذہبی عقائد پر مقدس و الہامی کتاب کے حوالے سے کیا انقلابات گزرے ان کا بھی جائزہ لیتے ہیں ۔

بعثتِ محمدی ﷺ اور نزول قرآن کے بعد جس شخص نے گزشتہ شریعتوں کے ناسخ نئی شریعت پیش کرنے کا دعویٰ کیا وہ بہاء اللہ کی ذات ہے ۔ بہاء اللہ کی ’’ ذات شریف ‘‘ کو جاننے کے لیے اس کے پسِ منظر کو جاننا بہت ضروری ہے ۔ یہ شخص علی محمد باب کا شاگردِ خاص تھا ۔ علی محمد باب ۱۸۱۹ء میں پیدا ہوا ۔ اس کا تعلق ایران سے تھا ۔ اس نے دعویٰ کیا کہ نبی کریم ﷺ نے جس مہدی آخر الزماں کی خبر دی ہے وہ وہی مہدی ہے ۔ بہاء اللہ نے بھی اس کی دعوت کو قبول کیا ۔ علی محمد باب کو اس کے دعاوی کی وجہ سے ایران کے راسخ العقیدہ شیعوں نے بہت تنگ کیا حتیٰ کہ ۹ جولائی ۱۸۵۰ء میں اسے قتل کردیا گیا ۔ اس وقت اس کی عمر محض ۳۱ برس تھی ۔ بہاء اللہ جو علی محمد باب کا شاگردِ خاص تھا ، نومبر ۱۸۱۷ء میں پیدا ہوا ۔ اس کا تعلق سیاسی اعتبار سے ایران کے ایک صاحبِ رسوخ گھرانے سے تھا ۔ اس نے بابی دعوت کو قبول کیا ۔ تاہم علی محمد باب کے قتل ہونے کے بعد اس نے اپنی جدوجہد کا مرکز بابی تحریک کی بجائے اپنے دعاویِ نبوت کو قرار دیا ۔ بہاء اللہ نے علی محمد باب کی مختلف پیشگوئیوں کو اپنے اوپر منطبق کیا۔

بہائی تعلیمات کا خلاصہ یہ ہے کہ اس نے گزشتہ تمام انبیاء و رسل کی تصدیق کی حتیٰ کہ وہ نبی کریم ﷺ اور قرآنِ کریم کی بھی تصدیق کرتا ہے ۔ تاہم اس کا کہنا ہے کہ اس کے ظہور کے ساتھ ہی اب شریعتِ محمدی ﷺ بھی منسوخ ہوگئی ہے ۔ یہ ایک بہت بڑا دعویٰ ہے ، جو اس نے کیا ۔ اس دعویٰ کو پرکھنے کے بھی فطری میزان موجود ہیں ۔ چند اہم امور ملاحظہ ہوں :

(۱)بہاء اللہ نے تسلیم کیا ہے کہ محمد ﷺ اللہ کے سچے نبی ہیں ۔ یہ تو ظاہر ہے کہ نبی سے کذب کا ظہور نہیں ہوتا اور محمد ﷺ نے بزبانِ الُوہیت دنیا کو بتایا ہے کہ وہ اللہ کے آخری نبی ہیں ۔ اس لیے ثابت ہوا کہ بہاء اللہ اپنے دعوے میں جھوٹا ہے ۔

(۲)بہاء اللہ نے جو کتاب پیش کی ہے اسے قرآنِ کریم سے کوئی نسبت نہیں ۔ قرآنِ کریم علم و خِرد کا زندہ معجزہ ہے جبکہ کتاب ایقان وحی و الہام پر محض بوجھ۔

(۳)نبی کریم ﷺ جب اس دنیا سے رخصت ہوئے تو ایک لاکھ سے زائد افراد نے انہیں بہ دل و جاں ہادیِ عالم تسلیم کیا ، جو اس زمانے کے اعتبار سے بہترین تناسبِ آبادی ہے ۔ جبکہ بَہائی تعلیمات سے متاثر ہونے والوں کی تعداد نبی کریم ﷺ سے بارہ صدیوں بعد بھی بہت قلیل رہی ۔

(۴)نبی کریم ﷺ اپنے دشمنوں پر تائیدِایزدی سے کامیاب ہوئے ۔ انہیں ایک سربراہِ مملکت کا مقام حاصل ہوا اور آج بھی سوا ارب سے زائد مسلمان ان کی عزت و ناموس پر اپنی شہ رگ تک قربان کرنے کے لیے ہَمہ وقت تیار ہیں ۔ جبکہ بہاء اللہ اپنے دشمنوں سے تادم آخر مغلوب ہی رہا ۔ اس کی زندگی میں تو کجا آج تک کسی بہائی ریاست کا قیام عمل میں نہ آسکا ۔

(۵ ) نبوت محمدی ﷺ اپنی اثر پذیری میں اس قدر ہَمہ گیر ہے کہ اس کے نسخ کے ظہور کے لیے اس سے کہیں زیادہ اثر و نفوذ و قوت درکار ہے جسے پیش کرنے سے بہاء اللہ ناکام رہا ۔

میں اپنے محدود دائرہ علم کی روشنی میں کہوں گا کہ بَہائی تعلیمات پر ایک مذہب کا اطلاق ہی نہیں ہوتا ۔ مذہب کے جو اجزائے ترکیبی ہیں بہائیت انہیں پورا کرنے سے قاصر ہے ۔ سچ پوچھیے تو یہ ایک سیاسی تحریک ہے جو اب استعمار کے ہاتھوں میں محض کھلونا ہے۔

قرآنِ کریم کے دعویٰ حفاظت پر ایک شبہ اور اس کا جواب

یہاں ایک سوال پیدا ہوتا ہے کہ قرآنِ کریم نے دعویٰ کیا ہے کہ

{ اِنَّا نَحْنُ نَزَّلْنَا الذِّکْرَ وَ اِنَّا لَہٗ لَحَافِظُوْنَ }

’’بے شک ہم نے اس ’’ ذکر ‘‘ ( یعنی قرآن کریم ) کو نازل کیا اور بے شک ہم ہی اس کی حفاظت فرمائیں گے۔‘‘(سورۃ الحجر/9)

جبکہ آج مخالفینِ اسلام قرآنِ پاک کے محرّف نسخے شائع کر رہے ہیں ۔ اس وقت اختلاف نسخ کے اعتبار سے دیکھا جائے تو ایک درجن سے زائد قرآنِ کریم کے نسخے موجود ہیں ۔ کیا ان اختلافِ نسخ سے قرآنِ کریم کا دعویٰ تحفظ مجروح نہیں ہوتا ؟

بلاشبہ اللہ ربّ العزت نے قرآنِ کریم کی حفاظت کا ذمہ لیا ہے ۔ مخالفین کا اس کی ’’ حفاظت ‘‘ پر حملہ کرنا اس کی حفاظت کو مجروح نہیں کرتا ہے ۔ متعدد محرّف نسخے اس کی اصلیّت کو معدوم نہیں کر سکے ۔ اصل نسخہ موجود ہے اور یہی اس کا دعویٰ حفاظت ۔ جب تک اصل قرآن موجود رہے گا دعویٰ حفاظت مجروح نہیں ہوسکتا ۔

پھر یہ بھی پیشِ نظر رہے کہ اس سطحِ ارضی پر بسنے والا کوئی ایک مسلمان بھی ان محرّف نسخوں کی تائید نہیں کرسکتا ۔ اس لیے کسی غیر مسلم کا اس محرّف نسخے سے استدلال بھی بےوزن اور بے معنی ہے ۔ ایسے میں ان محرّف نسخوں کی حیثیت محض کاغذی ٹکڑوں کے اور کیا رہ جاتی ہے ۔

قرآنِ کریم کا دعویٰ انفرادیّت

قرآنِ کریم کا ایک دعویٰ ایسا ہے جو اس کے کامل الہامی ہونے کا ثبوت بہم پہنچاتا ہے ۔ ارشادِ ربّانی ہے :

{ وَإِن کُنتُمْ فِیْ رَیْبٍ مِّمَّا نَزَّلْنَا عَلَی عَبْدِنَا فَأْتُواْ بِسُورَۃٍ مِّن مِّثْلِہِ وَادْعُواْ شُہَدَاء کُم مِّن دُونِ اللّٰہِ إِنْ کُنْتُمْ صَادِقِیْنَ } (البقرۃ : ۲۳)

’’اور اگرتم شک میں ہو اُس میں جسے ہم نے اپنے بندے پر نازل کیا ، تو اس جیسی کوئی سورت لے آئو ، اور اللہ کے سوا اپنے مددگاروں کو پکار لو ، اگر تم سچے ہو ۔‘‘

اس آیت کے نزول کو چودہ صدیاں بیت چکی ہیں لیکن اس کا دعویٰ آج بھی برقرار ہے ۔ اس کتاب کے بطلان کے لیے صرف یہی ایک بات کافی تھی ۔ منکرین کچھ نہ کرتے صرف اس جیسی ایک سورت ہی پیش کردیتے تو اس کی کاملیت و حقانیت پر حرف آجاتا لیکن کیا اس دعوے کا چودہ صدیوں سے برقرار رہنا اس کے الہامی ہونے کی دلیلِ قطعی نہیں ؟ بھٹکتی ہوئی انسانیت کو حق کے جس منبع کی تلاش ہے کیا اس ایک دعوے نے ثابت نہیں کردیا کہ یہی وہ کتاب ہے جو انسانیت کے لیے سرچشمۂ حق و ہدایت ہے ؟

دنیا میں بڑے بڑے شعراء و ادباء پیدا ہوئے ہیں لوگ ان کے اندازِ تکلم اور اسلوبِ نگارش کی پیروی کرتے اور کامیاب بھی ہوتے ہیں ۔ لیکن قرآنِ کریم دنیا کی ’’ منفرد ‘‘ کتاب ہے جس کی نظیر پیش کرنے سے عقلِ انسانی عاجز ہے ۔

نتیجۂ بحث و تحقیق

الغرض مذاہبِ عالم کی پیش کردہ الہامی کتابوں کے تقابلی مطالعے اور خود قرآنِ کریم کے دعاوی کی حقانیت کے بعد یہ امر پایۂ ثبوت و تحقیق تک پہنچ جاتا ہے کہ صرف قرآنِ کریم ہی واحد کتاب ہے جو انسانیت کے لیے نمونۂ عمل اور سرچشمۂ ہدایت ہے ۔ جو ہر عہد کے اور ہر خطۂ زمین کے لیے یکساں طور پر قابلِ عمل ہے ۔ زمانے کی نیرنگیاں اس کے احکامات کو غیر مؤثر نہیں کرسکتیں اور جغرافیائی تبدیلیاں اس کے پیغام کے نافذ العمل ہونے کی راہ میں مانع نہیں ہوسکتیں ۔

وہ بنیادی نکات جن کی بنیاد پر قرآنِ کریم دنیا کی واحد ’’ کتابِ ہدایت ‘‘ اور ’’ لائقِ مطالعہ و عمل ‘‘ قرار پاتی ہے ۔ حسبِ ذیل ہیں :

(۱)قرآنِ کریم واحد کتاب ہے جو ہر فردِ نوعِ انسانی کے لیے لکھی گئی ۔دنیا میں ایسی کوئی کتاب نہیں جس نے دعویٰ کیا ہو کہ وہ ہر فردِ بشر کے لیے ہے ۔

(۲)قرآنِ کریم واحد کتاب ہے جس میں یہ دعویٰ موجود ہے کہ وہ اللہ کی جانب سے اتاری گئی ہے اور وہی اس کی حفاظت فرمائے گا ۔

(۳)زمانۂ نزولِ قرآن سے لے کر آج تک بے شمار لوگوں نے اسے صحتِ الفاظ کے ساتھ یاد کیا جبکہ ایسی کوئی دوسری کتاب نہیں جسے تلفظ کے ساتھ کسی ایک فردنے بھی یاد کیا ہو ۔

(۴)قرآنِ کریم کا اصل متن آج بھی اسی طرح ملتا ہے جیسے چودہ صدیوں سے مل رہا ہے ۔

(۵) قرآنِ کریم عربی زبان میں نازل ہوئی اور عربی آج بھی تروتازہ اور زندئہ جاوید ہے جبکہ ایسی کوئی دوسری الہامی کتاب نہیں جس کی زبان آج زندہ ہو ۔

(۶)جس طرح قرآنِ کریم کا لفظی و معنوی استناد برقرار ہے اسی طرح یہ کتاب جس شخصیت پر نازل ہوئی اس کی زندگی بھی سب سے زیادہ روشن اور تابناک ہے ۔ دنیا میں ایسی کوئی شخصیت نہیں جس کی زندگی کے تمام پہلو نمایاں اور تاریخی دستبرد سے محفوظ ہوں سوائے نبی کریمﷺ کی ذات گرامی کے ۔

(۷)قرآنِ کریم واحد کتاب ہے کہ اس نے جو تعلیمات دیں ان تعلیمات کاعملی ظہور و نفاذ خود ملہم کتاب کی حیات میں وقوع پذیر ہوا ۔

(۸)قرآنِ کریم واحد کتاب ہے جس میں یہ دعویٰ ہے کہ یہ اللہ کی آخری کتاب ہے اور جس پر اس کتاب کا نزول ہوا وہ اللہ کا آخری پیغمبر ہے ۔

(۹)قرآنِ کریم واحد کتاب ہے جس میں یہ دعویٰ کیا گیا ہے کہ اس جیسی کتاب تمام طاقتوں کو یکجا کرکے بھی نہیں لکھی جا سکتی ۔ آج نزول قرآن کو چودہ سو برس گزر چکے ہیں لیکن یہ دعویٰ آج بھی برقرار ہے ۔

( بشکریہ : مجلہ ’’ الواقعۃ ‘‘ کراچی )

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے