علامہ اقبال رحمہ اللہ نے اپنے ایک لیکچر میں مذہبی زندگی کو تین خانوں میں تقسیم کیا ہے، ایمان، افکار، اور اکتشاف۔ان کی وضاحت کرتے ہوئے علامہ فرماتے ہیں کہ ’’ایمان مسجود اور ساجد کے درمیان رشتے کا تعین کرتا ہے، افکار کے سہارے انسان تصور کائنات اور تصور خالق کائنات کے مابین تعلق استوار کرکے اس میں اپنے مقام کی جستجو کرتا ہے۔ اکتشاف کے ذریعہ سے حقیقت مطلق سے اپنا رشتہ و تعلق جوڑنے کی سعی و جہد میں سر گرداں رہتا ہے‘‘علامہ کے بیان کیے ہوئے ان مراحل سے گزر نے ا ور منزل مقصود تک پہنچنے کا سب سے بہترین راستہ ’’ ایمان‘‘ ہے۔ ایمان پورے شعور و ادراک کے ساتھ انسان کے قلب و ذہن میں راسخ ہو تو اس کے ہر عمل میں تقویٰ کی روح سرایت کر جاتی ہے۔تقویٰ کا شعوری احساس ہی انسان کی راہ میں حائل ہونے والے زیغ و ضلال کی آلودگیوں سے اسے محفوظ و مامون رکھتا ہے۔

حیات دنیوی کے تمام شعبہ ہائے عبادات و معاملات میں ہر لحظہ یہ تصور قلب و ذہن میں مستحضر رہے کہ وہ علیم و خبیر ذات مجھے دیکھ رہی ہے، اگر انسان زمین کی پہنائیوں میں چھپ کر بھی کوئی برا عمل کرے گا تو اللہ وہاں بھی دیکھ لے گا کیونکہ وہ انتہائی قوت والا اور باریک بین ہے۔وہ اس کائنات کے سب اسرار و رموز کو خوب جانتا ہے۔یہ حقیقت جب انسان کے دل کی گہرائیوں میں جا گزیں ہو جائے تو اسی احساس کا نام تقویٰ ہے۔اور جو تقویٰ کی روش اختیار کرتا ہے ، اس خوش نصیب کے لیے اس کے رب کی طرف سے بیشمار انعامات کا وعدہ ہے۔ چنانچہ خالق کائنات نے اپنے بندوں پر جہاں بے حد و شمار احسانات فرمائے ہیں ، وہیں ایک عظیم احسان یہ بھی فرمایا کہ اپنی مخلوق پر سال میں ایک ایسا مبارک اور بے انتہاء برکتوں اور رحمتوں والا مہینہ سایہ فگن فرمادیا جس کی ہر ساعت اور ہر لمحہ کو حصول تقویٰ کے لیے آسان کردیا گیا ہے۔اس ماہ میں اللہ سبحانہ تعالیٰ کے انعام و اکرام کی موسلا دھار برسات ہوتی رہتی ہے۔ارشاد ربانی ہے:

يٰٓاَيُّهَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا كُتِبَ عَلَيْكُمُ الصِّيَامُ كَمَا كُتِبَ عَلَي الَّذِيْنَ مِنْ قَبْلِكُمْ لَعَلَّكُمْ تَتَّقُوْنَ (البقرہ   183)

اے لوگوجو ایمان لائے ہو، تم پر روزے فرض کردئے گئے ہیں، جس طرح تم سے پہلے لوگوں پر فرض کیے گئے تھے، شاید کہ تم میں تقویٰ پیداہو جائے۔

قرآن حکیم کا یہ اسلوب ہے کہ اکثر وہ حکم کی علت وحکمت بھی بیان کر دیتا ہے۔جس طرح سورۃ طہٰ میں نماز قائم کرنے کی علت یہ بیان کی کہ یہ اللہ کے ذکر کے لیے ہے۔زکوۃ ادا کرنے کی حکمت مال کی صفائی اور طہارت ہے۔اسی طرح روزہ کی حکمت یہ بیان ہوئی کہ انسان کےلیےتقویٰ کے حصول میں آسانی پیدا ہو جائے۔ تقویٰ کی روش اختیار کرنے میں منہیات کے اجتناب، نفسانی خواہشات کے منہ زور گھوڑے پر قابو پانااور منکرات سے حتی ا لامکان بچنے کی سعی و جہد کرنا اور خیر مطلق کے حصول کا شعوری ادراک اور اس کا عملی مظاہرہ تقویٰ کا اہم تقاضا ہے۔اور اس کو اپنی زندگی کے ہر عمل میں شامل کرلینے میں انسان کے لیے خیر کثیر موجود ہوتا ہے۔ ارشاد رب العزت ہے:

وَمَنْ يَتَّقِ اللَّهَ يَجْعَلْ لَهُ مَخْرَجًا (2) وَيَرْزُقْهُ مِنْ حَيْثُ لَا يَحْتَسِبُ (3) وَمَنْ يَتَّقِ اللَّهَ يَجْعَلْ لَهُ مِنْ أَمْرِهِ يُسْرًا (4) وَمَنْ يَتَّقِ اللَّهَ يُكَفِّرْ عَنْهُ سَيِّئَاتِهِ وَيُعْظِمْ لَهُ أَجْرًا(5)

’’اور جو شخص اللہ سے ڈرتا ہے، اللہ اس کے لیے (مشکلات سے) نکلنے کے لیے کوئی راہ پیدا کردے گا اور اسے ایسی جگہ سے رزق دےگا جہاںسے وہم و گمان بھی نہ ہو، اور جو شخص اللہ سے ڈرے گا اللہ اس کے لیے اس کے کام میں آسانی پیدا کر دیتا ہے، اور جو شخص اللہ سے ڈرے گا اللہ اس کے گناہ مٹا دے گا اور اسے بڑا بھاری اجر دے گا۔‘‘ (سورۃ الطلاق ۲ تا ۵)

ا ور اس راہ کے مسافر کے لیے اللہ تعالیٰ کی جانب سے مزید انعامات کابھی وعدہ ہے۔

ارشاد باری ہے:

وَإِنَّ لِلْمُتَّقِينَ لَحُسْنَ مَآبٍ (49) جَنَّاتِ عَدْنٍ مُفَتَّحَةً لَهُمُ الْأَبْوَابُ (50) مُتَّكِئِينَ فِيهَا يَدْعُونَ فِيهَا بِفَاكِهَةٍ كَثِيرَةٍ وَشَرَابٍ (51) وَعِنْدَهُمْ قَاصِرَاتُ الطَّرْفِ أَتْرَابٌ (52) هَذَا مَا تُوعَدُونَ لِيَوْمِ الْحِسَابِ (53)

’’اور یقینا متقی لوگوں کے لیے بہترین ٹھکانا ہے، ہمیشہ رہنے والی جنتیں، جن کے دروازے ان کے لیے کھلے ہوں گے۔ ان میں وہ تکیے لگائے بیٹھے ہوں گے۔ خوب خوب پھل اور مشروبات طلب کر رہے ہوں گے، اور ان پاس ہی شرمیلی اور ہم عمر بیویاں ہوں گی۔ یہ وہ چیزیں ہیں جنہیں حساب کے دن عطا کرنے کا تم سے وعدہ کیا جارہا ہے۔‘‘(سورۃ ص ٓ)

رسول مکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ’’ یہ وہ مہینہ ہے جس کے آغاز میں رحمت ہے، وسط میں مغفرت اورآخر میں دوزخ سے نجات ہے‘‘ (البیہقی)

(نوٹ:مذکورہ حدیث پر علماء حدیث نے کلام کیا ہے۔)

رسول مکرم صلی اللہ علیہ وسلم ہمیں یہ مژدہ سنارہے ہیں کہ روزے کے آغاز ہی سے انسانوں پر اللہ کی رحمتوں کا نزول شروع ہوجاتا ہے اور جب ماہ صیام کی مقدس اور برکت و انعامات سے لبریز ساعتیں سمٹ رہی ہوتی ہیں تو ایمان اور احتساب کے ساتھ گزارے ہوئے دن کے روزوں اور قرآن کے سننے سنانے میں بسر کی ہوئی راتیں، انسان کے کیے ہوئے تمام گناہوں کی بساط لپیٹ چکی ہوتی ہیں۔روزہ ایک ایسی عبادت ہے جو اپنی ذات میں ایک ایسا عجیب احساس لیے ہوتا ہے کہ انسان خلوت میںبھی کسی قسم کی خیانت نہیں کرتااور خورد و نوش کی تمام اشیاء اور تمام جائز مرغوبات نفس کے سہل الحصول ہونے کے باوجود ان کے استعمال سے اس طرح اجتناب برتا ہے گویا کہ اللہ سامنے ہی موجود ہے ۔ اور روزہ میں ریاء اور نما ئش کو دخل نہیں ہے، اخلاص کے بغیر آدمی روزہ رکھ ہی نہیں سکتا۔ چنانچہ روزہ کا یہی مؤثر پہلو ہے جس نے اسے ایک ایسی عبادت بنادیا ہے کہ جس کے بارے میں خودخالق جن و انس نے فرمادیا:

’’آ دم زاد کا ہر عمل اس کے لیے ہے سوائے روزے کے، کہ روزہ میرے لیے ہے اور میں ہی اس کا بدلہ دوں گا۔‘‘(حدیث قدسی)

یہ واحد عبادت ہے کہ اس کی جزاء کو اللہ سبحانہ تعالیٰ نے اپنی ذات پاک سے منسوب کیا ہے۔اور انسان کے لیے یہ انتہائی شرف وکرامت اور بہت بڑے اعزاز و توقیر کا مقام ہے۔

اسی رمضان المبارک کے مہینہ میں خالق کون و مکاں کی جانب سے اس عظیم ا لشان رات کا بھی نزول ہوا ہے جس نے اس ارض خاک کی قسمت میں چار چاند لگا دیئے۔ اور وہ رات جو ہزار راتوں سے افضل اور فیوض و برکات سے مزین ہے، جس کو لیلۃ القدر اور کہیں لیلۃ المبارکہ کے نام سے موسوم کیا گیا ہے۔ارشاد الٰہی ہے:

إِنَّا أَنْزَلْنَاهُ فِي لَيْلَةِ الْقَدْرِ ، وَمَا أَدْرَاكَ مَا لَيْلَةُ الْقَدْرِ، لَيْلَةُ الْقَدْرِ خَيْرٌ مِنْ أَلْفِ شَهْرٍ، تَنَزَّلُ الْمَلَائِكَةُ وَالرُّوحُ فِيهَا بِإِذْنِ رَبِّهِمْ مِنْ كُلِّ أَمْرٍ، سَلَامٌ هِيَ حَتَّى مَطْلَعِ الْفَجْرِ.

’’ ہم نے اس(قرآن) کو لیلۃ القدر میں نازل کیا۔ا ور آپ کو کیا معلوم کہ لیلۃ القدر کیا ہے؟ شب قدر ہزار مہینوںسے بہتر ہے۔ روح (جبریل امین) اور فرشتے اس رات اپنے رب کے اذن سے ہر حکم لے کر نازل ہوتے ہیں۔(وہ رات) سراسر سلامتی ہے طلوع فجر تک۔ ‘‘ ( سورۃ القدر 1 تا 5)۔

اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ یہ رات اللہ کی بیش بہا دوسرے انعام و اکرام کے ساتھ اپنے دامن میں قرآن حکیم جیسی انمول کتاب لائی جس میں نسل انسانی کے لیے کامل ہدایت نامہ ہے۔دنیا و آخرت میں فوز و فلاح اور تمام خباثت و آلودگیوں سے منزہ کرکے ایک دل آویز انسان بنانے کے لیے یہ نسخہ کیمیاء ہے۔اس حقیقت کو اللہ سبحانہ تعالیٰ نے اس طرح ارشاد فرمایا:

وَالْكِتَابِ الْمُبِينِ ، إِنَّا أَنْزَلْنَاهُ فِي لَيْلَةٍ مُبَارَكَةٍ إِنَّا كُنَّا مُنْذِرِينَ ، فِيهَا يُفْرَقُ كُلُّ أَمْرٍ حَكِيمٍ، أَمْرًا مِنْ عِنْدِنَا إِنَّا كُنَّا مُرْسِلِينَ ، رَحْمَةً مِنْ رَبِّكَ إِنَّهُ هُوَ السَّمِيعُ الْعَلِيمُ ۔

’’ اس واضح کتاب کی قسم کہ ہم نے اسے ایک خیر و برکت والی رات میں نازل کیا ہے کیونکہ ہمیں بلا شبہ خبردار کرنا مقصود تھا۔ اس رات میں ہر معاملہ کا حکیمانہ فیصلہ کر دیا جاتا ہے۔یہ ہمارا ہی حکم ہوتا ہے اور ہم ہی رسول بھیجنے والے ہیں ۔ یہ آپ کے رب کی رحمت ہے ، بلا شبہ وہ سننے والا اور جاننے والا ہے۔‘‘ (سورۃ الدخان 2 تا6)

اس رات کی عظمت و بزرگی بیان کر تے ہوئے رسول معظم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: جس نے شب قدر میں ایمان اور اجر و ثواب کی نیت سے عبادت اور قیام لیل کیاتو اس کے پچھلے تمام گناہ بخش دئے گئے۔ (متفق علیہ)

انسان روح و بدن کا مرکب ہے اور ان دونو ں عناصر کا بنائو بگاڑ اس کے اپنے طرز عمل پر منحصر ہوتا ہے۔ روح امر رب ہے جبکہ انسانی بدن کو خالق حبـ والنویٰ نے ناپاک پانی کے ایک حقیر قطرے سے تخلیق کیا ہے او ر پھر ا سی خاکی وجود میں اللہ نے روح کی آمیزش کر تے ہوئے فرشتوں سے ارشاد فرمایا:

’’ پس جب میں اسے درست کر چکوں اور اپنی روح میں سے کچھ پھونک دوں، تو تم اس کے سامنے سجدہ ریز ہو جانا۔‘‘ (سورۃ الحجر 29)

فرشتوں کا یہ سجدہ انسان کے خاکی وجود کو نہیں بلکہ اس روح کے سبب تھاجس نے بدن میں اتر کر انسان کو اشرف المخلوقات کا بلند و بالا مقام عطا کیا تھا۔۔ اب انسان اگر اپنے اس خاکی اور کثافت زدہ قطرہ ٔ حقیر کی ہی سیوا کر تا رہے تو روح کی شفافیت پر ایک غبار سا آجاتا ہے۔اورآئینہ روح دھندلا نے لگتا ہے۔کیونکہ جس طرح انسان اپنے مادی تن و توش کو توانا اور صحت مند رکھنے کے لیے غذا کا سہارا لیتا ہے اور اس کے حصول کے لیے شب و روز سعی و جہد کر تا رہتا ہے اسی طرح روح کی بقاء و سلامتی کے لیے بھی بھر پور غذا کی فرا ہمی ناگزیر ہے۔ اور اس غذا کا مرکز و منبع صرف ذکر الٰہی ہے۔

بفحوائے قرآنی :

اَلَا بِذِكْرِ اللّٰهِ تَـطْمَىِٕنُّ الْقُلُوْبُ

’’آگاہ ہو جائو کہ دلوں کو سکون اور قرار صرف اللہ کی یاد ہی میں ملتا ہے۔‘‘ (سورۃ الرعد ۲۸)

خالق حقیقی کا تصور ذہن میں دھندلا ہو جائے تو روح بے چین رہتی ہے اور دنیاکی ہر لذت اور چاشنی زبان پر کڑواہٹ گھولتی رہتی ہے۔ شیخ علی ہجویری رحمہ اللہ نے اپنی تصنیف ’’ کشف المحجوب‘‘ میں لکھا ہے: ’’آدمی کے نیک اور بداور خداوند تعالیٰ کے فرمانبردار اور نافرمان ہونے کا سارا انحصار انسان کو ودیعت کیے ہوئے پانچ حواس خمسہ کے استعمال پر ہے۔ ایک طرف علم اور عقل اور روح کو اور دوسری طرف نفس اور ھواء کو ا ن آلات پر یکساں تصرف کا اختیار اور موقع حاصل ہے۔اب یہ آدمی کے اپنے ارادہ پر منحصر ہے کہ وہ ان آلات کو اپنے قابو میں رکھنے اور علم و عقل اور روح کے تصرف میں دینے کی کوشش کرتا ہے یا انہیں نفس اور ھواء کے ہاتھ میں چھوڑ دیتا ہے۔ اور ان کو قابو رکھنے کے لیے روزہ سے بڑھ کر مؤثر ذریعہ کوئی نہیں ہے۔‘‘

بظاہر روزہ ایک ایسا عمل ہے جس میں آدمی کھانے پینے اور بعض دوسرے فطری تقاضوں کو پورا کرنے سے پورا دن اپنے آپ کو روکے رکھتا ہے، جن پر عام حالات اور مہینوں میں کوئی پابندی نہیں ہوتی۔ لیکن غور طلب پہلو یہ ہے کہ آخر اس عمل کی ایسی کیا افادیت ہے جس کی وجہ سے نہ صرف امت مسلمہ پر بلکہ ہم سے پہلے گزرنے والی تمام امتوں پر بھی اس عبادت کو فرض کردیا گیا تھا۔ سوچنے کا مقام ہے کہ آخر ہمارے بھوکے پیاسے رہنے سے اللہ تعالیٰ کو کیا دلچسپی ہے۔ جائز اور فطری تقاضوں پر پابندی لگا کر ، وہ ہمیں کس مقصد کی بجا آوری کے لیے مستعد کرنا چاہتا ہے، اور اس عمل میں ہمارے کون سے فوائد پوشیدہ ہیں؟ اس کا واضح جواب وہی ہے جو سورۃ البقرہ کی آیت نمبر183 میں بتا دیا گیا ہے یعنی صرف اور صرف تقویٰ کی جڑیں انسان کے فکر و عمل میں مضبوط ہو جائیں۔یہ زندگی جانوروں کی مانند بے سمجھے بوجھے نہیں ، بلکہ عقل و شعور کی نعمت سے بہرہ مند مخلوق کی حیثیت سے اور پورے احساس ذمہ داری کے ساتھ بسر کرنے کے لیے عطاء کی گئی ہے۔قرآن حکیم میں متعد د مقامات پر اہل تقویٰ کی یہ صفت بیان کی گئی ہے کہ وہ دنیا میں اندھوں اور بہروں کی طرح زندگی نہیں گزارتے بلکہ ہر لمحہ انپے عقل و شعور کا استعمال کرتے ہیں۔اس وسیع و عریض کائنات میں جا بجا بکھری ہوئیں اللہ کی نشانیوں پر غور و تدبرکرتے رہتے ہیں اور یہ غور و فکر انہیں اس کائنات رنگ و بو میں اپنی حیثیت اور اپنے اصل مقام کا عرفان بھی عطا کر تا ہے ۔ رب کائنات کا فرمان ہے:

إِنَّ فِي خَلْقِ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ وَاخْتِلَافِ اللَّيْلِ وَالنَّهَارِ لَآيَاتٍ لِأُولِي الْأَلْبَابِ ، الَّذِينَ يَذْكُرُونَ اللَّهَ قِيَامًا وَقُعُودًا وَعَلَى جُنُوبِهِمْ وَيَتَفَكَّرُونَ فِي خَلْقِ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ رَبَّنَا مَا خَلَقْتَ هَذَا بَاطِلًا سُبْحَانَكَ فَقِنَا عَذَابَ النَّارِ

’’زمین اور آسمان کی پیدائش میں اور رات اور دن کے باری باری آنے میں ، ان ہوش مند لوگوں کے لیے بہت سی نشانیاں ہیں۔ اور جو اٹھتے بیٹھتے اور لیٹتے ہر حال میں اللہ کو یادکرتے ہیں اور آسمان و زمین کی ساخت میں غور و فکر کرتے ہیں(اور بے اختیار پکار اٹھتے ہیں) پروردگار! یہ سب تونے فضول اور بے مقصد نہیں بنایا۔ تو پاک ہے اس سے کہ عبث کام کرے ۔ پس اے رب ہمیں دوزخ کے عذاب سے بچالے۔‘‘(آل عمران 190۔191)

اسی طرح روزہ انسان کی سیرت و کردار میں تقویٰ کی آبیاری کا بہترین ذریعہ بھی بنتا ہے، لیکن اس روزہ کو محض دکھاوے اور رسم و رواج کے طور پر نہ رکھا جائے۔

یہ بھی ایک مقام فکر ہے کہ روزوں کے لیے ماہ رمضان کا ہی انتخاب کیوں کیا گیا، اس کی کیا حکمت ومصلحت ہے، تو اس گتھی کو بھی سورۃ البقرہ کی آیت 158 میں سلجھا دیا گیا۔ رب کائنات نے فرمایا: ’’ رمضان وہ مہینہ ہے جس میں قرآن نازل کیا گیا جو انسانوں کے لیے سراسر ہدایت ہے اور یہ ایسی واضح تعلیمات پر مشتمل ہے جو راہ راست دکھانے والی اور حق و باطل کا فرق کھول کررکھ دینے والی ہیں، لہٰذا اب جو شخص اس مہینے کو پائے اس پر لازم ہے کہ اس پورے مہینے کے روزے رکھے۔‘‘ اس آیت میں کھول کر بیان کر دیا گیا کہ روزوں کے لیے رمضان کے مہینے کا انتخاب ، اس کے سوا اور کچھ نہیں کہ یہ نزول قرآن کا عظیم الشان مہینہ ہے۔اور اس مقدس و مبارک مہینے میں روزوں کی فرضیت کا ایک اہم مقصد اور اس کی غرض و غایت امت مسلمہ کے اندر روحانی پاکیزگی، ترفع اور کردار و عمل کی فکری بلندی پیدا کرنا ہے۔روزے جیسی عبادت سے گزر کر بھی اگر انسان کی روح شاد کام نہ ہوئی تو یہ روزہ نہ ہوا بلکہ اس کی کیفیت وہی ہوگی جس کا نقشہ رسول کریم صلی علیہ وسلم کے اس فرمان مبارک میں کھینچا گیا ہے: ’’ کتنے ہی روزہ دار ایسے ہیں جنہیں روزے سے بھوک پیاس کے سوا کچھ حاصل نہیں ہوتا اور کتنے ہی راتوں کو قیام کرنے والے ایسے ہیں جن کے پلے اس مشقت سے رت جگے کے سوا کچھ نہیں پڑتا۔‘‘(سنن دارمی)۔

ایک اور حدیث مبارکہ کے الفاظ کچھ یوں ہیں: ’’ جس شخص نے جھوٹ بولنا اور جھوٹ پر عمل کرنا نہ چھوڑا ، تو اللہ کو اس کی کوئی حاجت نہیں کہ وہ اپنا کھانا اور پینا چھوڑدے۔‘‘ ( رواہ البخاری، کتاب الصوم)۔

حقیقت یہ ہے کہ اس دنیا کی زندگی کا راستہ خو ا ہشات و ترغیبات اور نفس کو مرغوب و مائل کر نے والی خاردار جھاڑیوں سے ہو کر گزرتا ہے، اس راستے پر اپنے دامن کردار و عمل کو بچاتے ہوئے منزلیں طے کرنا اور اپنے خالق و مالک حقیقی کی نافرمانیوں اطاعت کی رو گردانی کی زہر آلود جھاڑیوں میں نہ الجھنا ہی تقویٰ کہلاتا ہے۔ اور یہی روزے کا اصل حاصل ہے۔

انسان جب مادیت کی سطح سے بلند ہوکر اپنی عبادتوں ، ریاضتوں اور اپنے معاملات میںتقویٰ کی روش اختیار کرتا ہے تو اس کے وجود میں روحانیت بیدار ہونے لگتی ہے، دنیاوی لذتیں اور طائوس و رباب کی حلاوتیں نیم جان ہوجاتی ہیں اور اس کی بے چین و بے قرار روح کوآسودگی اور ایک احساس طمانیت حاصل ہوتا ہے اور یہ وہ زاد راہ ہے جو اس بھٹکے ہوئے انسان کو اپنے رب اور اپنے تخلیق کار کے بتدریج قریب کر تا جاتا ہے۔ تقویٰ ہی وہ قصدالسبیل ہے جو اسے تقرب الٰہی تک پہنچا دیتی ہے۔روزہ میں تقویٰ کی روح اپنے پورے تقاضوں کے ساتھ کار فرما ہوتی ہے اور اس عبادت کو نیک نیتی، اخلاص اور خود احتسابی کے عمل کے ساتھ پورا کرنے پر اللہ سبحانہ تعالیٰ کا حقیقی قرب حاصل ہوجاتا ہے، اور یہی انسان کی قدر و منزلت کی معراج ہے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے