جناب ڈاکٹر علی بن عبد الرحمن الحذیفی حفظہ اللہ نے 03 رمضان 1434 کو’’رمضان۔۔ ماہِ برکت و غفران‘‘کے موضوع پر خطبہ جمعہ ارشاد فرمایا، جس میں انہوں نے رمضان المبارک میں اللہ کی جانب سے عنایت کردہ خیرو برکات کا ذکر کرتے ہوئے رمضان المبارک کے کچھ فضائل بھی ذکر کئے، اور مسلمانوں کو اس ماہ میں اللہ کی رحمتیں لوٹنے اور اپنے گناہوں سے پاک ہونے کیلئے اس ماہ کو ماہِ غُفران بنانے پر زور دیا۔

پہلا خطبہ:

تمام تعریفیں اللہ کیلئے ہیں جو کہ

غَافِرِ الذَّنْبِ وَقَابِلِ التَّوْبِ شَدِيدِ الْعِقَابِ ذِي الطَّوْلِ لَا إِلَهَ إِلَّا هُوَ إِلَيْهِ الْمَصِيرُ

گناہ بخشنے والا، توبہ قبول کرنے والا، سخت سزا دینے والا اور صاحب فضل ہے، اس کے سوا کوئی الٰہ نہیں، اسی کی طرف (سب کو) لوٹ کر جانا ہے ۔ (غافر: 3)

اللہ تعالی نے تمام لوگوں پر اپنا فضل کیا، اور ہمیں گناہوں اور برائیوں سے دور رکھا، میں اسکی حمد و ثناءاور شکر کرتے ہوئے اسی کی جانب لوٹنا چاہتا ہوں، اور بخشش بھی طلب کرتا ہوں، میں یہ گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں وہ یکتا ہے، اسکا کوئی شریک نہیں وہی زمین و آسمان کا رب ہے، میں یہ بھی گواہی دیتا ہوں کہ ہمارے نبی جناب محمد -صلی اللہ علیہ وسلم-اللہ کے بندے اور اسکے رسول ہیں ، آپ ہی نے نیک اعمال کرنے کی دعوت دی، یا اللہ! اپنے بندے، اور رسول محمد -صلی اللہ علیہ وسلم- پر درود و سلام بھیج، آپکی آل اور اچھی صفات کے حامل تمام صحابہ کرام پر بھی۔

اللہ کی حمد و ثناء اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر درود و سلام کے بعد!

اللہ تعالی سے ڈرو جیسے اس سے ڈرنے کا حق ہے، اسلام کو مضبوط کڑے سے تھام لو، کیونکہ متقی لوگ ہی کامیاب ہونگے، جبکہ کافر و معصیت میں ڈوبے لوگ خسارے میں ہونگے۔

مسلمانو! تمہارے پاس انتہائی معزز مہمان آیا ہے، اللہ تعالی نے تمہیں اس دوران رحمتوں بھرا موسم عنایت کیا ہے، ماہِ رمضان تمام مہینوں سے افضل ہے، یہ اللہ کی رحمت ہے کہ اس نے ہمیں فضیلت والے مہینوں کے ساتھ اوقات بھی بتلائے ہیں، اور ہمارے لئے ان اوقات میں ایسے اعمال مقرر کئے جن سے ہمیں آخرت کے دن ڈھیروں اجرو ثواب حاصل ہو، انہی اعمال کے باعث اللہ تعالی ہمیں اپنے دنیاوی معاملات درست کرنے میں مدد دے گا، اورہماری آخرت بھی بہتر ہوگی۔

فرمانِ باری تعالی ہے:

فَاذْكُرُوا اللَّهَ كَمَا عَلَّمَكُمْ مَا لَمْ تَكُونُوا تَعْلَمُونَ

اللہ کو اسی طریقے سے یاد کرو جو اس نے تمہیں سکھایا ہے جسے تم پہلے نہ جانتے تھے۔ (البقرۃ: 239)

ایسے ہی فرمایا:

كَمَا أَرْسَلْنَا فِيكُمْ رَسُولًا مِنْكُمْ يَتْلُو عَلَيْكُمْ آيَاتِنَا وَيُزَكِّيكُمْ وَيُعَلِّمُكُمُ الْكِتَابَ وَالْحِكْمَةَ وَيُعَلِّمُكُمْ مَا لَمْ تَكُونُوا تَعْلَمُونَ ، فَاذْكُرُونِي أَذْكُرْكُمْ وَاشْكُرُوا لِي وَلَا تَكْفُرُونِ (سورۃ البقرۃ 151۔152)

جیسا کہ ہم نے (تم پر یہ انعام کیا کہ) تمہی میں سے ایک رسول بھیجا جو تمہارے سامنے ہماری آیات تلاوت کرتا ہے اور تمہیں پاکیزہ بناتا ہے اور کتاب و حکمت سکھلاتا ہے اور وہ کچھ بھی سکھلاتا ہے جو تم پہلے نہ جانتے تھے۔ لہٰذا تم مجھے یاد رکھو، میں تمہیں یاد رکھوں گا اور میرا شکر ادا کرتے رہو، کفران نعمت نہ کرو ۔

اللہ تعالی ایک رمضان سے دوسرے رمضان تک سارے گناہ معاف فرما دیتا ہے، سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:پانچوں نمازیں، جمعہ سے جمعہ تک، رمضان سے رمضان تک گناہوں کیلئے کفارہ ہیں، بشرطیکہ کبیرہ گناہوں سے بچا جائے۔ (مسلم، ترمذی)

قرآن مجید میں اس ماہ کی بہت فضیلت بیان ہوئی ہے، ایسے ہی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی احادیث میں بھی۔

چنانچہ سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے بیان کرتے ہیں، آپ نے فرمایا: رمضان آتے ہی جنت کے دروازے کھول دئے جاتے ہیں، جہنم کے دروازے بند کردئے جاتے ہیں، اور شیاطین کو جکڑ دیا جاتا ہے۔(بخاری ،مسلم)

سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ ہی سے ترمذی نے ایک اور روایت مرفوعاً بیان کی: جب رمضان کی پہلی رات سے ہی جہنم کے سارے دروازے بند کردئے جاتے ہیں اور کسی کو بھی کھلا نہیں رکھا جاتا، اور جنت کے سارے دروازے کھول دئے جاتے ہیں ان میں ایک بھی بند نہیں رہتا، اور ایک آواز لگانے والا آواز لگاتا ہے: نیکیاں تلاش کرنے والو! آؤ اور آگے بڑھو ، گناہ کرنے والو! گناہوں میں کمی کرو، اور اللہ تعالی ہر رات میں لوگوں کو جہنم سے آزاد کرتا ہے، اور یہ رمضان کے آخر تک جاری رہتا ہے۔

سیدنا سہل بن سعد رضی اللہ عنہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے بیان کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا:جنت میں ایک دروازے کا نام ’’ریان‘‘ ہے اس دروازے سے صرف روزے دار ہی داخل ہونگے۔ (بخاری و مسلم)

رمضان المبارک میں اللہ تعالی امتِ اسلامیہ پر لاتعداد و بے شمار برکتیں اور رحمتیں نازل فرماتا ہے، چنانچہ روزے کا ثواب گناہوں کا کفارہ اور جنت میں داخلہ ہے، جیسے کہ سیدناابو ہریرہ رضی اللہ عنہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے بیان کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا: جس شخص نے ایمان حالت اور ثواب کی امید رکھتے ہوئے رمضان کے روزے رکھے اسکے سابقہ تمام گناہ معاف کردئے جاتے ہیں۔ (بخاری)

اسی طرح رمضان المبارک میں قیام کرنا بھی سابقہ گناہوں کا کفارہ ہے، چنانچہ سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ ہی نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے بیان کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا: جس شخص نے ایمان کی حالت اور ثواب کی امید رکھتے ہوئے رمضان میں قیام کیا اسکے سابقہ تمام گناہ معاف کردئے جاتے ہیں۔ (بخاری و مسلم)

اسی طرح آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جو شخص امام کے ساتھ پورا قیام کرے اس کیلئے پوری رات کا قیام لکھ دیا جاتا ہے۔

اسی ماہِ مبارک میں لیلۃ القدر ہے، چنانچہ ایک حدیث میں آیا ہے کہ جس شخص نے ایمان کی حالت اور ثواب کی امید رکھتے ہوئے لیلۃ القدر میں قیام کیا اسکے سابقہ تمام گناہ معاف کردئے جاتے ہیں۔ (بخاری)

اللہ تعالی نے ایک اور انداز سے بھی اس ماہ کو فضلیت بخشی کہ اس میں اسلام کے سارے ارکان ، نیکی کے تمام کام اور بھلائی کی مختلف اقسام موجود ہیں، چنانچہ روزے کے ساتھ فرض اور نفل نمازیں ہیں، صدقات اور زکاۃ کی ادائیگی کی جاتی ہے، اور اسی طرح حج کی ایک قسم عمرہ بھی اس میں ہے، چنانچہ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے بیان کرتے ہیں کہ آپ نے انصاری خاتون کو فرمایا: رمضان میں عمرہ کرنا میرے ساتھ حج کرنے کے برابر ہےیاحج کے برابر ہے۔ (بخاری ومسلم)

رمضان المبارک میں محرمات سے بچتے ہوئے جہاد بالنفس اور جہاد بالشیطان بھی کیا جاتا ہے، انسان اپنے نفس کو اطاعت پر راغب کرتا ہے، اور داخلے کے تمام شیطانی راستے بند کردیتا ہے۔

اسی ماہ میں ایسے اذکار کئے جاتے ہیں جن سے دلوں کا زنگ زائل ہوتا ہے، سب سے بڑا ذکر قرآن مجید ہے، رمضان المبارک سراپا قرآنِ کریم کا مہینہ ہے، قرآن مجید مکلفین کیلئے بہت ہی عظیم نعمت ہے، یہی قرآن انکے لیے حلال و حرام بیان کرتا ہے، حق و باطل میں فرق کرتا ہے، اچھائی برائی میں تمییز کرتا ہے، نفع بخش اور نقصان دہ اشیاء کے بارے میں بتلاتا ہے، سعادت مندی اور بد بختی کے راستے واضح کرتا ہے، اور انسان کو کمال درجات تک پہنچاتا ہے، اچھے اخلاق پر انسان کی تعمیر کرتا ہے، اور تمام بد اخلاقیوں کو مٹا دیتا ہے، نفس کی تربیت کرتا ہے، دلوں کی اصلاح کرتا ہے، اور توحیدِربُ العالمین کیلئے بنیاد رکھتے ہوئے اسے طاقت بخشتا ہے، قرآن شرک کی تمام اقسام کو گرا کر اسکا نام و نشان تک مٹا دیتا ہے، اور اسے انسانی نفس کے اندر سے کھینچ کر باہر نکال دیتا ہے، اس سے بڑھ کر بھی کوئی نعمت ہو سکتی ہے!!؟

قرآن کریم کی تلاوت روزے کی حالت میں زیادہ ہوتی ہے، قرآن کریم نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے معجزات میں سے اعلی ترین معجزہ ہے، جو انسانی عقل کو اسکے فہم کے مطابق مخاطب کرتا ہے، اور حق بات منوا نے کیلئے دل و دماغ کی گہرائی تک پہنچنے کیلئے دلائل و براہین کا استعمال کرتا ہے، تا کہ مکلف حق بات پر عمل کرے ،اور دفاعِ حق ، دعوت الی الحق، اور محبتِ حق اسکا شیوابن جائے پھر اسے باطل کی پہچان ہو اور اس سے دور رہےاور لوگوں کو بھی اس سے دور رکھے۔

قرآن سننے کے بعد مکلف کی دوسری حالت یہ ہے کہ ضد اور ہٹ دھرمی کی بنیاد پر حق بات سے اعراض کر لے تو ایسا شخص صرف اپنے آپ کو ہی نقصان دے گا، فرمانِ باری تعالی ہے:

فَبِأَيِّ حَدِيثٍ بَعْدَ اللَّهِ وَآيَاتِهِ يُؤْمِنُونَ(الجاثية: 6)

پھر اللہ اور اس کی آیات کے بعد آخر وہ کون سی بات ہے جس پر یہ لوگ ایمان لائیں گے ۔

فَبِأَيِّ حَدِيثٍ بَعْدَهُ يُؤْمِنُونَ (الأعراف: 185)

پیغمبر کی اس تنبیہ کے بعد اور کون سی بات ہوگی جس پر یہ ایمان لائیں گے؟ ایک مقام پر فرمایا:

وَيْلٌ لِكُلِّ أَفَّاكٍ أَثِيمٍ، يَسْمَعُ آيَاتِ اللَّهِ تُتْلَى عَلَيْهِ ثُمَّ يُصِرُّ مُسْتَكْبِرًا كَأَنْ لَمْ يَسْمَعْهَا فَبَشِّرْهُ بِعَذَابٍ أَلِيمٍ

تباہی ہے ہر اس بہتان تراش اور گنہگار کے لئے،جس کے سامنے اللہ کی آیات پڑھی جاتی ہیں اور وہ انہیں سنتا ہے پھر از راہ ِتکبر اپنی بات پر یوں اڑ جاتا ہے جیسے اس نے انہیں سنا ہی نہیں۔ ایسے شخص کو آپ دردناک عذاب کی بشارت دے دیجئے۔ (الجاثيہ: 7، 8)

قرآن کریم کی دلوں پر بڑی مضبوط گرفت ہے، خاص طور پر اس مبارک مہینے میں، رمضان میں اس تاثیر کا راز یہ ہے کہ قرآن روح کی غذا،طاقت اور اسکی اصلاح کا ذریعہ ہے، جبکہ کھانا پینا بدن کی غذا ہے، جس کی وجہ سے نفسِ امّارہ کو قوت ملتی ہے، چنانچہ جب نفسِ امارہ کی قوت کمزور پڑ جائے تو قرآن کی تلاوت سے روح کو بھرپور غذا ملتی ہے ، جس سے روحانیت کا شہوانیت پر غلبہ ہوجاتا ہے، اور آخر کار مکلف درست سمت میں چل پڑتا ہے، اسی لئے روزہ دار تقوی سے متصف ہوجاتا ہے جو کہ تمام نیکیوں کی جڑ ہے، فرمانِ باری تعالی ہے:

يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا كُتِبَ عَلَيْكُمُ الصِّيَامُ كَمَا كُتِبَ عَلَى الَّذِينَ مِنْ قَبْلِكُمْ لَعَلَّكُمْ تَتَّقُونَ (البقرة: 183)

اے ایمان والو! تم پر روزے فرض کردیئے گئے ہیں جیسا کہ تم سے پہلے لوگوں پر بھی فرض کئے گئے تھے (اور اس کا مقصد یہ ہے) کہ تم میں تقویٰ پیدا ہو۔

قرآن کریم کی تلاوت کرنا بذاتہ خودمکمل عبادت ہے جسکا ثواب بھی بہت زیادہ ہے، فرمانِ نبوی ہے: جس شخص نے ایک حرف پڑھا اسے ہر حرف کے بدلے میں دس نیکیاں ملیں گی، میں یہ نہیں کہتا کہ ’’الم ‘‘ایک حرف ہے بلکہ الف ایک حرف ہے،لام دوسرا حرف اورمیم تیسرا حرف ہے۔

مسلمانو!

اس ماہ کا احترام کرو، اپنے روزوں کی حفاظت کرو،سچی توبہ جیسا عمل رمضان کے احترام کیلئے اپنا ثانی نہیں رکھتا، ایسے ہی ظلم و زیادتی نہ کرو، اور اس ماہ میں ہونیوالی کمی کوتاہی پر نفس کا محاسبہ کرو ، ہر شخص اپنے بارے میں بہتر جانتا ہے، -اے مسلم-تمہیں نہیں معلوم کہ کب تمہاری موت آجائے۔

روزہ صرف کھانے پینے سے رکنے کا نام نہیں ہے؛ بلکہ روزے کے منافی تمام اشیا سے دور رہنے کانام روزہ ہے، زبانی آفتوں، غیبت ، چغلی، اور گناہوں سے اپنے اعضاء کو دور رکھنا روزے کا اہم حصہ ہیں۔

سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے بیان کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا: جو شخص غلط باتیں کرنے اور انکا ارتکاب کرنے سے باز نہیں آتا ؛ اللہ تعالی کو اسکی کوئی ضرورت نہیں کہ کھانا پینا چھوڑ دے۔ (بخاری، ابوداود، ترمذی)

سیدناابن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: بہت سے روزے داروں کے حصہ میں بھوک پیاس کے علاوہ کچھ نہیں آتا، بعینہ بہت سے قیام کرنے والوں کے نصیب میں صرف شب بیداری ہوتی ہے۔(طبرانی)

سیدناابو عبیدہ رضی اللہ عنہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے بیان کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا: روزہ اس وقت تک ڈھال ہے جب تک اسے پھاڑا نہ جائے۔ نسائی ، اور طبرانی میں کچھ زیادہ الفاظ ہیں: کہا گیا: ڈھال کس چیز سے پھاڑی جاتی ہے؟ فرمایا:جھوٹ اور غیبت سے۔

مسلمانو!

زکاۃ اور نماز روزے کا آپس میں چولی دامن کا ساتھ ہے، زکاۃ کی ادائیگی اللہ کا حق ہے، اللہ تعالی نے فقراء کی خاطر زکاۃ کو فرض کیا ہے، زکاۃ کی ادائیگی سے مال پاک اور رزق میں اضافہ ہوتا ہے، مال میں زکاۃکے علاوہ اور بھی حقوق ہیں۔ یہ ماہِ مبارک رفاہِ عامہ کیلئے خرچ کرنے کا مہینہ ہے، اس لئے اس ماہ میں زکاۃ ادا کرو اللہ تعالی تمہیں عطا کردہ رزق میں برکت دے گا۔

سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ : رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سب لوگوں سے زیادہ سخی تھے، جبکہ رمضان میں آپکی سخاوت مزید بڑھ جاتی تھی،خاص طور پر جب جبریل سے ملاقات کرتے تو تیز آندھی سے بھی زیادہ سخاوت کرتے۔ (بخاری مسلم)

زکاۃ ادا نہ کرنے سے برکت ختم ہوجاتی ہے، اگر تمام مسلمان اپنے مال کی زکاۃ ادا کریں تو کوئی بھی فقیر نہ رہے۔

اے مسلم!

یاد رکھنا جس مال کی زکاۃ تم نے ادانہ کی یا اللہ کی راہ میں خرچ نہ کیا تو اس مال کی تمہارے ساتھ دو ہی صورتیں ہو سکتی ہیں: تم اسے قبر میں جاتے ہوئے چھوڑ جاؤ، یا مال تمہیں چھوڑ کر چلا جائے، ہر دو حالت حسرت و ندامت سے بھری ہوئی ہے، اس زندگی میں ایسے واقعات تمہیں نصیحت کرنے کیلئے ہی ہیں۔

تمہارا حقیقت میں مال وہی ہے جو تم زکاۃ یا کسی اور شکل میں بھلائی کیلئے خرچ کردو، چنانچہ کوشش کرو کہ جنت تک زادِ راہ تمہارا مال ہی ہو، نا کہ یہی مال جہنم میں لے جانے کا باعث بنے، فرمانِ باری تعالی ہے:

وَسَارِعُوا إِلَى مَغْفِرَةٍ مِنْ رَبِّكُمْ وَجَنَّةٍ عَرْضُهَا السَّمَاوَاتُ وَالْأَرْضُ أُعِدَّتْ لِلْمُتَّقِينَ ،الَّذِينَ يُنْفِقُونَ فِي السَّرَّاءِ وَالضَّرَّاءِ وَالْكَاظِمِينَ الْغَيْظَ وَالْعَافِينَ عَنِ النَّاسِ وَاللَّهُ يُحِبُّ الْمُحْسِنِينَ   (آل عمران: 133، 134)

اور اپنے پروردگار کی بخشش اور اس جنت کی طرف دوڑ کر چلو جس کا عرض آسمانوں اور زمین کے برابر ہے۔ وہ ان خدا ترس لوگوں کے لیے تیار کی گئی ہے۔ جو خوشحالی اور تنگ دستی (ہر حال) میں خرچ کرتے ہیں اور غصہ کو پی جاتے ہیں اور لوگوں کو معاف کردیتے ہیں۔ ایسے ہی نیک لوگوں سے اللہ محبت رکھتا ہے ۔

اللہ تعالی میرے لئے اور آپ سب کیلئے قرآن مجید کو خیر و برکت والا بنائے، مجھے اور آپ سب کو اس سے مستفید ہونیکی توفیق دے، ہمارے لئے سنتِ سید المرسلین کو نفع بخش بنائے، میں اپنی بات کو اسی پر ختم کرتے ہوئے اللہ سے اپنے اور تمام مسلمانوں کے گناہوں کی بخشش چاہتا ہوں یقینا وہ بخشنے والا اور نہایت رحم کرنے والا ہے۔

دوسرا خطبہ:

تمام تعریفات بلند و بالا اللہ رب العزت کیلئے ، جس نے بہترین انداز میں پیدا کیا، اور درست اندازہ لگاتے ہوئے راہنمائی بھی کی، میں اپنے رب کی بے شمار نعمتوں کے باعث تعریف اور شکر بجا لاتا ہوں، میں گواہی دیتا ہوں وہی معبودِ برحق ہے، وہ یکتا ہے اسکا کوئی شریک نہیں، اسی کیلئے اچھے اچھے نام ہیں، میں یہ بھی گواہی دیتا ہوں کہ ہمارے نبی محمد صلی اللہ علیہ وسلم اللہ کے بندے اور اسکے چُنے ہوئے رسول ہیں، یا اللہ! اپنے بندے اور رسول محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر ، آپکی آل اور تمام پرہیز گار صحابہ کرام پر درودو سلام اور برکتیں نازل فرما۔

حمدوثناء اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر درودو سلام کے بعد!

اللہ سے ڈرتے ہوئے اسی کی اطاعت کرو، اسکی نافرمانی سے بچو، کیونکہ معصیت باعثِ عار اور آگ میں جانے کا سبب ہے۔

اللہ کے بندو!

کثرت سے نیک اعمال کرتےہوئے اپنے روزوں کو پاک صاف رکھو، نیکیوں سے اپنے اوقات مشغول رکھو، لہو و لعب ، غفلت ، گناہوں ، اوربے ہودگی سے بھری مجالس سے اجتناب کرو، ٹی وی ڈرامے، اور چینلز دیکھنے میں اپنا وقت ضائع مت کرو، ایسے کاموں میں رات کو مت جاگو جو تمہیں کسی جہان میں بھی فائدہ نہ دے۔

اسی کے بارے میں سیدناابن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: دو نعمتیں جن کے بارے میں بہت سے لوگ لا پرواہی کرتے ہیں، صحت اور فراغت ۔ (بخاری)

فرمانِ باری تعالی ہے:

وَاذْكُرْ رَبَّكَ فِي نَفْسِكَ تَضَرُّعًا وَخِيفَةً وَدُونَ الْجَهْرِ مِنَ الْقَوْلِ بِالْغُدُوِّ وَالْآصَالِ وَلَا تَكُنْ مِنَ الْغَافِلِينَ

اور (اے نبی) اپنے پروردگار کو صبح و شام دل ہی دل میں عاجزی، خوف کے ساتھ اور زبان سے بھی ہلکی آواز سے یاد کیا کیجئے اور ان لوگوں سے نہ ہوجائیے جو غفلت میں پڑے ہوئے ہیں ۔ (الاعراف: 205)

مسلمانو!

پوری دنیا میں مسلمانوں کے حالات کا آپکو علم ہے، آپ دیکھتے بھی اور سنتے بھی ہو، جبکہ اللہ تعالی نے فرمایا:

وَقَالَ رَبُّكُمُ ادْعُونِي أَسْتَجِبْ لَكُمْ[غافر: 60]

آپ کے پروردگار نے فرمایا ہے:مجھے پکارو، میں تمہاری دعا قبول کروں گا۔

تو مسلمانوں کیلئے اللہ سے مانگو، کہ انکی آزمائش ختم کرے، آپس میں انکے دلوں کو ملا دے، اور انہیں اپنے اور دوسروں کے شر سےمحفوظ رکھے، حدیث مبارکہ ہے : دعا عبادت کا مغز ہے۔

اللہ کے بندو!

اللہ تعالی نے تمہیں ایک حکم دیا جس میں پہلے خود عمل کیا ہے فرمایا:

إِنَّ اللَّهَ وَمَلَائِكَتَهُ يُصَلُّونَ عَلَى النَّبِيِّ يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا صَلُّوا عَلَيْهِ وَسَلِّمُوا تَسْلِيمًا (الأحزاب: 56)

اللہ اور اس کے فرشتے نبی پر درود بھیجتے ہیں۔ اے ایمان والو! تم بھی اس پر درود و سلام بھیجا کرو۔

اور دوسری جانب فرمانِ رسالت ہے: (جس نے مجھ پر ایک بار درود پڑھا اللہ اس پر دس رحمتیں بھیجتا ہے)

چنانچہ سب سید الاولین و الآخرین امام المرسلین پر درود و سلام پڑھو:

اللهم صل على محمد وعلى آل محمد، كما صليت على إبراهيم وعلى آل إبراهيم، إنك حميد مجيد، اللهم بارك على محمد وعلى آل محمد، كما باركت على إبراهيم وعلى آل إبراهيم إنك حميد مجيد.

دعا:

اے اللہ !ہمارے نبی محمد پر درود و سلام بھیج، آپکی ازواجِ مطہرات پر ، آپکی اولاد، اور تمام خلفائے راشدین سے راضی ہو جا، ہدایت یافتہ ائمہ ابو بکر، عمر، عثمان ، علی اور تمام صحابہ سے راضی ہو جا ، تمام کے تمام تابعین کرام سے بھی، اور ان لوگوں سے بھی جو انکی راہ پر چلیں، اے اللہ !اپنے کرم ، احسان، اور رحمت کے صدقے ہم سے بھی راضی ہو جا۔

یااللہ !اسلام اور مسلمانوں کو عزت بخش، یااللہ !اسلام اور مسلمانوں کو عزت بخش، اے اللہ!کفر اور کافروں کو ذلیل و رسوا کر دے ، یا اللہ رب العالمین! اپنے دین، قرآن، اور سنتِ نبوی کو غالب فرما، یا قوی !یا متین!

یا اللہ! تمام مسلمانوں کو توبہ کرنے کی توفیق عطا فرما، یا اللہ! ہم سب کو دین کی سمجھ عطا فرما، یا اللہ! توں ہی غالب اور عنایت کرنے والا ہے۔

یا اللہ رب العالمین! ہمیں اور ہماری آنیوالی نسلوں کو شیاطین اور شیطانی چَیلوں سے بچا، یا اللہ! ہمیں اور ہماری آنیوالی نسلوں کو شیاطین اور شیطانی چَیلوں سے بچا، بے شک توں ہر چیز پر قادر ہے۔

یا اللہ! ہمیں ہدایت الہام فرما، اور ہمیں اپنے نفس کے شر سے بچا۔

یا اللہ! ہماری تمام معاملات میں عاقبت اچھی بنا، اور ہمیں دنیا و آخرت کے عذاب سے بچا۔

یا اللہ! تمام مسلمان فوت شدگان کو معاف فرما، یا اللہ رب العالمین! تمام مسلمان فوت شدگان کو معاف فرما۔

یا اللہ! ہمیں اپنے علاقوں میں امن وامان نصیب فرما، یا اللہ! ہمارے حکمرانوں کی اصلاح فرما۔

یا اللہ! خادم الحرمین الشریفین کو تیرے پسندیدہ کام کرنے کی توفیق دے، یا اللہ ! اپنی راہنمائی کے مطابق اسے توفیق دے، اے اللہ !اسکے تمام اعمال اپنی رضا کیلئے قبول فرما، یا اللہ! اے اللہ رب العالمین!ہر اچھے کام میں اسکی مدد فرما، یا اللہ!توں ہر چیز پر قادر ہے، یا اللہ! انہیں صحت یاب فرما، توں ہر چیز پر قادر ہے۔

یا اللہ! ولی عہد کو بھی اپنے پسندیدہ کام کرنے کی توفیق عنائت فرما، بیشک تو ہر چیز پر قادر ہے۔

یا اللہ ! ہمارے اگلے پچھلے تمام گناہ معاف فرما، یا اللہ! ہمیں عافیت عطا کر، اور ہمیں معاف فرما۔

یا اللہ ! ذوالجلال و الاکرام! ہمیں اس مبارک مہینے میں قیام و صیام ایسے کرنے کی توفیق دے جیسے توں پسند کرتا ہے، یا اللہ ! ہمیں ایک لمحہ کیلئے بھی اکیلا مت چھوڑ، یا اللہ! ہمیں اپنے نفس کے شر سے اپنی پناہ نصیب فرما، یا اللہ! ہر شریر کے شر سے ہمیں اپنی پناہ میں رکھ۔

رَبَّنَا آتِنَا فِي الدُّنْيَا حَسَنَةً وَفِي الْآخِرَةِ حَسَنَةً وَقِنَا عَذَابَ النَّارِ (البقرة: 201)

اے ہمارے رب! ہمیں دنیا میں بھلائی اور آخرت میں بھی بھلائی دے اور ہمیں آگ کے عذاب سے بچا۔

اللہ کے بندوں!

إِنَّ اللَّهَ يَأْمُرُ بِالْعَدْلِ وَالْإِحْسَانِ وَإِيتَاءِ ذِي الْقُرْبَى وَيَنْهَى عَنِ الْفَحْشَاءِ وَالْمُنْكَرِ وَالْبَغْيِ يَعِظُكُمْ لَعَلَّكُمْ تَذَكَّرُونَ ، وَأَوْفُوا بِعَهْدِ اللَّهِ إِذَا عَاهَدْتُمْ وَلَا تَنْقُضُوا الْأَيْمَانَ بَعْدَ تَوْكِيدِهَا وَقَدْ جَعَلْتُمُ اللَّهَ عَلَيْكُمْ كَفِيلًا إِنَّ اللَّهَ يَعْلَمُ مَا تَفْعَلُونَ (النحل: 90، 91)

اللہ تعالیٰ تمہیں عدل، احسان اور قرابت داروں کو (امداد) دینے کا حکم دیتا ہے اور بے حیائی، برے کام اور سرکشی سے منع کرتا ہے۔ وہ تمہیں اس لئے نصیحت کرتا ہے کہ تم اسے (قبول کرو) اور یاد رکھو، اور اگر تم نے اللہ سے کوئی عہد کیا ہو تو اسے پورا کرو۔ اور اپنی قسموں کو پکا کرنے کے بعد مت توڑو۔ جبکہ تم اپنے (قول و قرار) پر اللہ کو ضامن بناچکے ہوجو تم کرتے ہو، اللہ اسے خوب جانتاہے۔

اللہ عز و جل کا ذکر کرو وہ تمہارا ذکر کریگا، اسکی عنایت کردہ نعمتوں کا شکر ادا کرو وہ تمہیں اور زیادہ دے گا، اللہ ذکر بہت بڑی عبادت ہے ، اور اللہ تعالی تمہارے کاموں کو بخوبی جانتا ہے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے