قال اللہ تعالیٰ:
وَمَا خَلَقْتُ الْجِنَّ وَالْإِنْسَ إِلَّا لِيَعْبُدُونِ

میں نے جنات اور انسانوں کو محض اسی لیے پیدا کیا ہے کہ وہ صرف میری عبادت کریں۔(سورۃ الذاریات 56)

تخلیق انسان کامقصد صرف اور صرف عبادت خالق ہے۔ مگراس خالق نےجہاںانسان کی دوسری بھی بہت سی ضروریات رکھیں وہاںاسے ان ضروریات کوپورا کرنےکاحق بھی بخشانہ صرف یہاںتک ہی بلکہ اس خالق نےان ضروریات کی تکمیل کے لیے کئے جانے والی تگ و دوکوبھی عبادت کادرجہ بخشا۔

اس طرح جبکہ انسان کو رب تعالیٰ نےپیدا ہی ضعیف کیا ہے۔اورخود یہ بات ذکر کی ہے۔’’خلق الانسان ضعیفا‘‘تواس خالق کا ئنات نے انسان کےلئے بہت سے ایسےمواقع بھی پیدا فرمائے۔کہ یہ انسان اپنی ان کمزوریوں کا مداوا کر سکے،انہیں بخشواسکے انکی سزا سے اپنے جسم کو بچا سکے، انہیں عبادت کے سلسلے میں رب کریم و جلیل و ر حیم نےہمیں ایک یہ ماہ مبارک ’’رمضان‘‘ بھی عطا کیا ہے اور آپ اس ماہ کے فضائل و فوائداور مسائل یقیناً ’’اسوہ حسنہ‘‘ کے پچھلے شمارہ میں تفصیلاً پڑھ چکے ہوں گے۔ ہم انہیں دوبارہ سے ذکر نہیں کریں گے۔ یہاں ہم بالاختصاراعتکاف کے مسائل بیان کریں گے۔

اہمیت اعتکاف:

جب آخری عشرہ شروع ہو جاتا تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اپنی عبادات میں اضافہ کرنے کے لیے تیار ہوجاتے اور رات جاگ کر عبادات فرماتے اور اپنے ساتھ اپنے اہل وعیال کو بھی جگاتے۔ (متفق علیہ)

نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم رمضان کے آخری دس دن ہمیشہ اعتکاف فرماتے یہاں تک کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنےخالق حقیقی سے جاملے۔پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ازواج مطہرات نے اعتکاف کیا۔ (متفق علیہ)

اعتکاف کا معنی:

لغوی اصطلاح میں اعتکاف کا معنی: ’’بند رہنے‘‘ کا ہے۔

شرعی اصطلاح میں’’مسجد میں رکے رہنا ایک وقت معین تک‘‘۔

فضیلت اعتکاف:

اگر کوئی شخص اللہ کی خوشنودی و رضا کے لیے صرف ایک دن ہی اعتکاف میں بیٹھ جائے تو اللہ اس کے اور جہنم کے درمیان تین ایسی خندقیں بنا دیتا ہے کہ جن میں سے ہر ایک کا درمیانی فاصلہ مشرق اور مغرب سے بھی زیادہ ہے۔ (طبرانی بسند حسن)

اعتکاف کی شرائط:

1۔مرد و زن کے اعتکاف کے لیے مسجدشرط ہے۔ بعض علماء نے جامع مسجد کی شرط لگائی ہے۔

2۔ اعتکاف ایک دن ، ایک رات یا اس سے کم وقت کے لیے بھی کیا جاسکتا ہے۔ (بخاری، عبدالرزاق)

مباحات اعتکاف:

وہ کام جو دوران اعتکاف کئے جا سکتے ہیں۔

1۔ نہانا ،تیل لگانا، خوشبو استعمال کرنا وغیرہ۔ (بخاری)

2۔ سر مونڈھنا، ناخن تراشنا وغیرہ۔

3۔ خیمہ لگانا۔ (متفق علیہ)

4۔ بستر یا چارپائی بچھانا۔ (ابن ماجہ، بیہقی)

5۔ عورت کا اپنے خاوند کی زیارت کو مسجد آنااور پھر خاوند کا اسے مسجد کے دروازے تک الوداع کرنے کی غرض سے ساتھ آنا۔ (متفق علیہ)

6۔ عورت کا اپنے خاوند کے بالوں کی کنگھی کرنا۔ (بخاری)

7۔ معتکف اپنے اعتکاف کے لیے جگہ مخصوص کر سکتا ہے۔ یہ خیال رکھتے ہوئے کہ نمازیوں کو اسکے خیمہ وغیرہ سے پریشانی نہ ہونے پائے۔ (ابو داؤد)

8۔معتکف کسی کے ساتھ ضروری بات کر سکتا ہے۔ (بخاری )

9۔ مستحاضہ (ایام خاصہ کی مدت مکمل ہونے کے باوجود خون کا جاری رہنا)عورت بھی اعتکاف بیٹھ سکتی ہے۔ (متفق علیہ)

10۔ عورت کے لیے بھی اعتکاف کی جگہ صرف مسجد ہی ہے اور عورت اکیلی یا اپنے خاوند کے ساتھ اعتکاف کے لیے بیٹھ سکتی ہے۔ (بخاری ، ابوداؤد)

محرمات الاعتکاف:

دوران اعتکاف حرام کام۔

1۔جماع: حسن بصری اور ذہری نے اس پر کفارا ادا کرنا مقرر کیا ہے۔

2۔ اپنی عورت سے بوس و کنار یا معانقہ ’’گلے ملنا‘‘ کیونکہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے دوران اعتکاف ثابت نہیں۔ (زادالمعاد)

3۔ سوائے ضرورت انسانی خاص کام کے مسجد سے ہرگز باہر نہ جائے۔

4۔ کسی جنازہ میں شرکت نہ کرے اگر جنازہ مسجد سے باہر ہے ۔ (ابو داؤد موقوف)

5۔ مریض کی عیاد ت نہ کرے۔ (ابو داؤد)

6۔ عورت کو اعتکاف کے لیے خاوند کی اجازت لینا ضروری ہے۔ (ابو داؤد)

اعتکاف میں بیٹھنے کا وقت:

رمضان کے آخری عشرہ کے لیے اعتکاف بیٹھنا ہو تو بیس رمضان کی افطاری مسجد میں کرے اور رات اپنے خیمہ سے باہر گزارے،اکیس رمضان فجر کی نماز ادا کرنے کے بعد اپنے اعتکاف کے خیمہ میں داخل ہو۔ اور چاند نظر آنے تک اپنی اسی حالت کو برقرار رکھتے ہوئے مسجد میں مندرجہ بالا تمام شروط و قیود کو ملحوظ رکھتے ہوئے رہے۔ (بخاری ،مسلم، ابوداؤد)

یہ عبادات انسان اپنے رب سے تعلقات کومضبوط کرنے کے لیے اور رب سے اپنی محبت کا اظہار کرنے کے لیے کرتا ہے۔ اپنی غلطیوں ،گناہوں اور لغزشوں سے طلب معافی کے لیے کرتا ہے اور اس عبادت کے لیے خود کو مسجد میں مقید کرتا ہے۔ خود کو باقی تمام دنیاوی امور سے الگ کر لیتا ہے تو اس کے اس عمل سے مراد ہے کہ اے اللہ یہ ایام خاص تیرے لیے، تیری عبادت کے لیے، تیری شان وعظمت کے لیے میں نے سب چھوڑ دیا صرف تجھے راضی کرنے کو تیرے گھر کا مہمان آبنا۔ اے اللہ تو مجھے بخش دے میری دنیا و آخرت سنوار دے میرے بگڑے کام بنادے۔ تو وہ رب کیوں نہیں سنے گا؟

لیلۃ القدر:

لیلۃ القدر بھی انہیں طاق راتوں میں ہے۔

اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتے ہیں :

لَيْلَةُ الْقَدْرِ خَيْرٌ مِنْ أَلْفِ شَهْرٍ

لیلۃ القدر ہزار مہینوں سے بہتر ہے۔ (سورۃ القدر 3)

سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے دریافت فرمایا: کہ اے اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم اگرمجھے علم ہو جائے کہ یہ رات ہی لیلۃ القدر ہے تو میں کیا پڑھوں؟ تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: کہ کہو:

اللَّهُمَّ إِنَّكَ عَفُوٌّ تُحِبُّ الْعَفْوَ فَاعْفُ عَنِّي

اے اللہ بیشک تو ہی معاف کرنے والا ہے معاف کرنے کو پسند کرتا ہے پس مجھے معاف فرما دے۔(ابن ماجہ)

آخری طاق راتوں میں لیلۃ القدر کو تلاش کرنا اور اس میں اس دعا کا ورد کرنا مستحب ہے۔

ہمیں چاہیے کہ ہم اپنی ان عبادت کو صرف اور صرف اللہ کے لیے خاص کر لیں اور اپنے موبائلز، لیپ ٹاپس، دوست واحباب عزیز واقارب کی وجہ سے اپنی اس عبادت میں کسی قسم کی کمی نہ آنے دیں۔

اللہ ہم سب کا حامی و ناصر ہو۔ آمین یا رب العالمین

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے