مقاصدِ وجودِ پاکستان کو بلاشبہ متنازہ بنا دیا گیا ہے۔ ہر سیر شکم اس بحث میں حصہ لینے کیلئے فارغ ہے۔ ایک عام پاکستانی شہری کو توجمہوری دورِحکومت میں روٹی کے لالے پڑے ہوئے ہیں اس لیے اسے کوئی دلچسپی نہیں۔شائد اسکو سمجھ آ چکی ہے یاپھر یہ سمجھنا ہی نہیں چاہتا۔ پرنٹ میڈیا کی گردن پر بیٹھے ہوئے قلمکار اس موضوع پر اکثرلفاظی جنگ لڑتے نظر آتے ہیں اور الیکٹرانک میڈیا پر بھی رنگ برنگی بولیاں سننے کو ملتی ہیں۔ ایسا لگتا ہے جیسے یہ بہت پرانی کہا نی ہو اور اس کے کردار تاریخ سے اوجھل ہو گئے ہوں۔جبکہ قیام پاکستان کی تحریک میں عملاً حصہ لینے والے کئی نفوس اب بھی زندہ اور صحیح سلامت ہیں۔اکثر بھارتی حکام یا کشمیری مسلمان قائدین کی پاکستا ن یاترا اُن کے قائد اعظم سے متعلق بیانات اس بحث کو اور گرما دیتے ہیں۔ہر سال۱۴ اگست اور ۲۳ مارچ کو بھی یہی موضوع زیرِ بحث رہتا ہے۔سنجیدہ حلقے اگر چاہیں تو پاکستان لیول پر اس موضوع پر مباحثہ کروا کر یہ حتمی نتیجہ نکالا جا سکتا ہے کہ حقیقت کیا تھی ۔ اس کے بعد جو بھی طے پائے اسی کو حکومتی اور غیر حکومتی حلقوں میں قبولیت حاصل ہو اور اس نظریا تی اساس پر اختلافی نوٹ لکھنے کی اجازت نہ د ی جائے بلکہ سختی سے اس کا سدِ باب کیا جائے۔یہ بحث چونکہ علمی حلقوں کی ہی ہے، لہذا دو واضع گروپ پیدا ہو چکے ہیں۔ایک گروپ کا کہنا یہ ہے کہ:۔

۱۔ پاکستان اسلام کے نام پر معرضِ وجود میںنہیں آیا بلکہ یہ مسلمانو ں کو ان کے سیاسی ،سماجی،معاشی اور معاشرتی حقوق دلوانے کیلئے بنا یا گیا۔

۲۔ محمد علی جناح سیکو لر ذہن رکھتے تھے اور مذہب کو انسان کا زاتی معا ملہ سمجھتے تھے۔

۳۔ دو قومی نظریہ پاکستان کے معرضِ وجود میں آنے کے دن سے ختم ہو گیا تھا جب قائد اعظم محمد علی جناح نے اقلیتوں کے حقوق کی بات کی ، دوسر ے الفاظ میں یوں بھی کہہ سکتے ہیں کہ پاکستان بنانے کی نظریاتی بنیاد ــ [دو قومی نظریہ] اسی دن ہی ختم ہو گئی جس دن یہ وجود میں آیا یعنی پاکستان بنتے ہی بے بنیاد ہو گیا۔

۴۔ پاکستان بن جانے کے بعد اقتدار میں آنے والے لوگوں نے تاریخ کو مسخ کیا اور پاکستانی نسل کو گمراہ کیا۔ نذیر ناجی،ارشاد احمد حقانی،الطاف حسین ،ڈاکٹر مبارک علی اور بہت سے اسی نظریے کے قائل اور فائل نظر آتے ہیں۔

جبکہ دوسرے گروپ کے مطابق:

۱۔ پاکستان اسلام کے نام پر بنایا گیا۔ تحریک پاکستان کے وقت یہ نعرہ عام تھا کہ پاکستان کا مطلب کیا ؟ لا الہ الااللہ۔

۲۔ قائد اعظم محمد علی جناح سیکولر ذہن نہیں رکھتے تھے بلکہ وہ پاکستان کو جدید اسلامی فلاہی مملکت بنانا چاہتے تھے جس میں اسلامی اصولوں کے مطابق ہی حکومت قائم کرنا ان کا مقصد تھا۔

۳۔ قائد اعظم محمد علی جناح کی تقاریر اور ان کی تحریریں اس کا واضع ثبوت فراہم کرتی ہیں۔

اس گروپ میں کثیر عوامی، سیاسی حلقے، مذہبی جماعتیں اور صحافی حضرات شامل ہیں بلکہ وہ جماعتیں بھی شامل ہیں جو پاکستان بنانے کے مخالف تھیں۔ اس بات پر دونوں گروپس کا اتفاق ہے کہ مسلمان، ہندو اور ہندوستان میں بسنے والی دیگر قومیں انگریز وں کے زیرِ تسلط تھیں اور ان کے ساتھ غلامانہ سلوک ہوتا تھا۔انگریز سرکارخاص کر مسلمانوں کے ساتھ امتیازی سلوک کرتی تھی اسلیئے کہ ان سے انگریز نے حکومت چھینی تھی اور مسلمانوں ہی سے اسے زیادہ مزاہمت کا سامنا ہوا تھاجبکہ ہندو غلامی کے باوجود ہر لحاظ سے انگریز سے مراعات لینے کے ساتھ ساتھ مسلمانوں کے دشمن تھے۔ اس کی وجہ شائد مسلمانوں کا ہندوستان کا فاتح ہونا تھا اور ہندو مسلمانوں کو برصغیر کے قابضین میں شمار کرتے تھے۔ کانگرس کے پلیٹ فارم سے آزادی کی مشترکہ جدوجہد محمد علی جناح کو اسی لیے ترک کرنا پڑی کہ انگریز سے چھٹکارا حاصل کرنے کے بعد ہندو کی غلامی قبول کرنا ہو گی لہذا آزاد اسلامی ریاست ناگزیر ہے۔یہی وجہ ہے کہ انہوں نے کانگرس سے علیحدگی کے بعد مسلم لیگ کی بنیاد رکھی۔ اس لیے کہ کانگرس ایک متعصب ہندو جماعت ثابت ہوئی۔یہ اور بات ہے کہ اس میں کئی ایک مسلم لیڈر تھے جو مسلم لیگ کے وجود میں آنے کے بعد بھی رہے اور مسلم لیگ میں شامل نہیں ہوئے۔فقط اس بات کو ہی مدِنظر رکھیں تو پہلے گروپ کے بارے میں ذہن میں بہت سے سوالات اٹھتے ہیں۔ اس لیے کہ کانگرس میں مشترکہ حقوق کی بات تھی اور مسلمان ہندوئوں کے رویئے سے مایوس ہوئے کہ اس جماعت میں رہتے ہوئے انگریزوں سے آزادی کے بعد بھی حقوق سے محرومی رہے گی۔ وجہ صرف مسلمان ہونا تھی، لہذا کانگرس سے علیحدگی اختیارکرنا پڑی اور پھر نئی جماعت تشکیل دی جس کا نام مسلم لیگ رکھا۔یہ مسلم لیگ کیوں رکھا؟جبکہ اس کے مقابلے میں ہندوئوں نے کانگرس ہی رہنے دیا نا کہ ’ ہندو لیگ ‘ رکھا ۔ در حقیقت محمد علی جناح نے مسلم لیگ بنا کر یہ ثابت کر دیا کہ یہ صرف مسلمانوں کی لیگ ہے کسی اور کی نہیں اور اس میں مسلمانوں کے حقوق کی بات ہو گی۔یہ پلیٹ فارم مسلمانوں کو ان کے حقوق دلائے گا۔ تو یہ کہا جا سکتا ہے کہ مسلم لیگ ایک مذہبی سیاسی جماعت تھی اور اس کی بنیاد محمد علی جناح نے مذہب کے نام پر رکھی جسکے مقابلے میں کانگرس پھر بھی تمام اقلیتوں کی جماعت تھی جس میں تمام مذاہب کے لوگوں کی نمائندگی تھی اور اس پرہندوئوں کی جماعت کے الزام کے باوجود (ہندوئوں کی اکثریت کی وجہ سے) کسی ایک مذہب کا رنگ غالب نہ تھا اور اس کے مقابلے میں مسلم لیگ صرف مسلمانوں کی جدوجہدِ آزادی کا پلیٹ فارم تھا نا کہ سب اقلیتوں کے حقوق کا۔ یہی وجہ ہے کہ مسلم لیگ میں دوسری اقوام کی نمائندگی بمشکل ہی نظر آتی ہے۔ محمد علی جناح کا مسلم لیگ بنانا حقوقِ انسانی نہیں بلکہ حقوقِ مسلم کی بات تھی۔انکا یہ اقدام انکے مذہب پسند ہونے کی علامت ہے بلکہ کوئی غیر مسلم انہیں متعصب مسلم بھی کہ سکتا تھا اور یقیناً کہتا بھی ہو گا۔ یہی وجہ ہے کہ تحریک پاکستان میں کثیر مسلمانوں نے حصہ لیا اور مذہبی لیڈروں نے لوگوں کو بتایا کہ آزاد ی کے بعد پاکستان میں اسلام کا قانو ن چلے گا اور مسلم لیگ ہی واحد پلیٹ فارم ہے جو تمہیں تمہارے حقوق دلوائے گا۔ اسی لیے لوگوںمیں یہ نعرہ مشہور ہوا کہ پاکستان کا مطلب کیا ؟ لا الہ الااللہ۔

جب ہم اپنے بزرگوں سے پو چھتے ہیں جنہوں نے اس جدوجہد کو اپنی آنکھوں سے دیکھا اور عام مسلمان کی حیثیت سے اسمیں عملی طور پر حصہ لیا تو وہ کہتے ہیں کہ اس وقت ہر طرف یہی آواز تھی اور جذبات تھے اور پورے ہندوستان کے علاقے بھی مذہبی بنیاد پر تقسیم ہو چکے تھے۔ووٹنگ بھی مذہبی بنیاد پر ہی ہوئی اور علیحدگی کی تحریک کو تقویت ملی۔اگر مسلم لیگ میں مذہبی عنصر اور رنگ غالب نہ ہوتا تو مسلمان اس کا ساتھ نہ دیتے۔اگر قائد اعظم کا مقصد مذہبی ریاست بنانا نہ تھا بلکہ مسلمانوں کو سیاسی ، معاشی ،سماجی حقوق دلوانا ،ہندوئوں اور انگریزوں سے آزادی دلوانا ہی تھا،ناکہ نفازِ اسلام تو سوال یہ ہے کہ: ۔

کیا محمد علی جناح ہندو اور انگریز حکمرانوں سے چھٹکارا حاصل کرنا چاھتے تھے یاکہ اس نظام سے بھی جو انگریز برصغیر میں تمام اقلیتوں کیلئے چلا رہے تھے، اگر یہ کہا جائے کہ مقصد حکمران شخصیتوں کو ہٹانا تھا ناکہ نظام کو بدلنے کا، تو یہ بات درست نہیں ہے بلکہ محمد علی جناح اگر مسلمانوں کو سیاسی ، معاشی اور معاشرتی حقوق دلوانا چاہتے تھے تو ظاہر ہے انگریز کے مسلط کردہ نظام میں وہ موجود نہ تھے اسی لیے محمد علی جناح صاحب پاکستان بنا کر کسی نئے سسٹم کے مطابق ہی مسلمانوں کو ان کے حقوق دینے کی جدوجہد کر رہے تھے ۔ وہ کونسا نظام یا سسٹم تھا ؟ در حقیقت وہ وہی نظام تھا جس کا اظہار و ہ اپنی تقاریر میں کرتے تھے جس کا حوالہ علماء کرام دیتے رہتے ہیں۔ وہ یہ تو ہر گز نہیں چاہتے ہونگے کہ انگریزوں کو نکال دیا جائے اور مسلمانوں کے اوپر انہی کانظام فٹ کر دیا جائے جو انہوں نے غلاموں کے لیے بنایا ہوا ہے اور پھر علیحدہ مملکت میں رہتے ہوئے اس نظام سے مسلمانوں کو تمام حقوق حاصل ہو جائیں گے۔یہ اور بات ہے کہ پاکستان حا صل کر لینے کے بعد محمد علی جناح کتنے موئثر رہے اور وہ نئے نظام کو نافذکرنے میں جو ان کے ذہن میں تھا اور تحریک ِ پاکستان میں حصہ لینے والے مسلمانوں کی روح تھا کتنے کامیاب ہوئے۔اور اگر ناکام ہوئے تو کیا وجوہات تھیں اور پھر وہ نظام جو انگریز نے لاگو کیا ہوا تھا اس کو کیوں نہ بدل سکے ۔ اگر یہ کہا جائے کہ وہ اسی نظام میں رہتے ہوئے حقوق دینا چاہتے تھے تو محمد علی جناح پر الزام آتا ہے کہ انہوں نے تحریک پاکستان میں شامل عام مسلمانوں کو دھوکا دیا اور انہیں حصولِ اقتدار کے لیے استعمال کیااور وہ کسی نئے نظام کے خواہا ں نہ تھے بلکہ اقتدار کے مزے لینا چاہتے تھے جو انہیں مل گئے ۔اور پاکستان بنانے کے بعد انہوں نے وہی نظام رکھا جوانگریز لایا تھااس لیے کہ نہ یہ لوگوں کی ڈیمانڈ تھی اور نہ ہی وہ اس نظام میں اپنے حقوق سمجھتے تھے۔میں یہ کہتا ہوں اگر یہ تسلیم کر لیا جائے کہ وہ مسلمانوں کی علیحدہ مملکت بنانے کے بعد انہیں سیاسی ، معاشی اور معاشرتی حقوق دلوانا چاہتے تھے تو یہ عیا ں ہے کہ مسلمانوں کو ان کے حقوق اسلامی نظام کے اندر ہی مل سکتے تھے نا کہ کافروں کے نظام سے۔لہذا محمد علی جناح نے مسلمانوں کے حقوق کی بات مسلمانوں کے نظام کے اندر رہتے ہوئے کہی تھی لیکن زندگی نے انہیں مہلت نہ دی اور کالی بھیڑیں آڑے آئیں۔اگر کوئی بتا سکتا ہے تو بتائے کہ اسلامک سسٹم کے علاوہ وہ کونسے سسٹم کو لاگو کرنا چاہتے تھے۔اگر کہا جائے کہ وہی جو انگریز کا تھا تو مقصد ہی فوت ہو جاتا ہے پا کستان بنانے کا اس لئے کہ وہ سسٹم تو اب تک چل رہاہے اور مسلمانوں کو کتنے حقوق مل گئے جو وہاں نہیں ملے تھے، یہ سب کے سامنے ہے ۔ رہی بات دو قومی نظریئے کی ،تو یہی بنیادی نظریہ تھا جو پاکستان کی اساس ہے اور اگر نظریہ ختم ہو جائے تو مملکت کا وجود بے معنی ہو جاتا ہے۔ مملکت نظریات پر ہی قائم ہوتی ہے۔ بانی پاکستان کے اقلیتوں کے حقوق واضع کرنے سے دو قومی نظریہ ختم نہیں ہوتااس لیے کہ اسلام میں ایسی کوئی فکر نہیں کہ ان کی مملکت میں غیر مسلم نہیں رہ سکتے بلکہ اسلامی حکومت غیر مسلموں کے حقوق کی پاسداری کرتی ہے اور جو اقلیت مسلم حکمرانی تسلیم کرے اسکی عزت، جان، مال اور عبادت گاہ کی حفاظت کی ذمہ دار اور ضامن ہوتی ہے۔ اسلامی مملکت ذمی لوگوں کے لیے باقائدہ قانونی ضابطہ متعین کرتی ہے، یہی بات اسلامی مملکت پاکستا ن قائم ہونے پر بانئی پاکستان نے کہی جو کہ عین اسلامی روح کے مطابق ہے جس سے دو قومی نظریئے پر زد نہیں پڑتی۔ اگر کوئی یہ سمجھتا ہے کہ پاکستا ن بننے کے بعد دو قومی نظریہ زمین بوس ہو گیا اس لیے کہ اس میں اقلیت بھی ہیں اور ان کے حقوق بھی ہیں تو ایسا شخص چونکہ اسلامی تعلیمات سے نابلد ہے اسلیے ایسی بات کہتا ہے۔ لیکن دوسرے گروپ کیلئے ایک سوال یہ اٹھتا ہے کہ اگر بانئی پاکستان محمد علی جناح سیکولر نہ تھے اور مذہب پرست تھے تو اسے ثابت کرنے کے لیے ان کے پاس سوائے محمد علی جناح کی تقاریر کے اور کیا حوالہ ہے؟ بقول ڈاکٹر مبارک علی صاحب کے جو انہوں نے ۱۲ جون ۲۰۰۵ میں بی بی سی کے پروگرام ٹاکنگ پوائنٹ میں سوالات کا جواب دیتے ہوئے کہا کہ محمد علی جناح نے سیاستدان کی حیثیت سے مذہب کا استعمال کیا جو کہ اکثر سیاستدان کرتے ہیں تو ثابت ہوتاہے کہ ہر تقریر اور تحریر میں محض سیاسی بیانات کے علاوہ کچھ نہ تھا لہذا گروپ نمبردو کے پاس کوئی اور حوالہ باقی نہیں رہتا۔ کیا یہ اسکا کوئی عملی ثبوت دے سکتے ہیں کہ محمد علی جناح نماز، روزہ، حج،زکوۃ کی پابندی کے ساتھ ساتھ شعار اسلامی اختیار کیے ہوئے تھے جس سے ان کے مذہبی رجہان کی عکاسی ہوتی ہو کیونکہ بعض حلقے ان پر اس حوالے سے ذاتی سوال بھی اٹھاتے ہیں۔

اور پھر سیکولر کی کیا تعریف ہوتی ہے ۔یہی کہ جو شخص مسلم ہونے کادعوی کرے اور اسلام کو ہر شخص کاذاتی معاملہ سمجھے اور امور مملکت میں مذہب کی دخل اندازی کو تسلیم نہ کرے تو وہ سیکولر ہے یا کہ ایسا شخص جو مسلم ہونے کے دعوے کے ساتھ ساتھ اسے عملاً اختیار بھی کرے لیکن ا مور مملکت سے مذہب کو الگ جانے ۔ اگرصرف تحریر و تقریر ہی محمد علی جناح کو سیکولر ہونے سے بچانے کے لیے کافی ہے تو پھر نہائیت معذرت سے عرض ہے کہ پرویز مشرف تو شائد کئی عمرے کرچکے اور اخبارات میں ان کو نماز پڑھتے بھی دیکھا گیا ہے اور محمد علی جناح سے زیادہ انہوں نے اپنی تقاریر میں اسلام کا استعما ل اور دعوی کیا ہے اور کرتے ہیں تو پھر انہیں ہم سیکولر ہونے کا طعنہ کیوں دیں بلکہ انہیں بنیاد پرست جنرل کیوں نہ کہا جائے جبکہ اس سے پہلے جنرل ضیا ء الحق صاحب افغانستان میں مذہبی حلقوں کو استعمال کرکے ایک سخت گیر اسلام پسند اور بنیاد پرست جنرل کا لقب لے چکے ہیں۔ آخر میں عرض ہے کہ محمد علی جناح اور ان کے رفقاء اور لاکھوں مسلمانوں نے جدوجہد کرکے پاکستان بنا دیا۔ ان کی عظمت کو سلام۔مقاصد جو بھی تھے ۔ کیا حاصل ہو گئے؟ جو وہ نظام چاہتے تھے نافذ ہو گیا، کیا پاکستانی مسلمانوں کی تقدیر بدل گئی اور معاشی حالت بہتر ہو گئی ؟ بلکل نہیں۔ علماء کرام، دانشوروں اور دیگر سنجیدہ حلقوں کو چاہیے کہ عوام کو خوابِ غفلت سے بیدار کریں اور ہوش دلائیں۔ ڈوبتی نائو کو بچائیں۔ اسلام ترقی کی راہ میں آڑے نہیں اسے متنازعہ نہ بنائیں۔ حقائق جانیں۔ضمیر فروشوں کا تعاقب کریں۔نقیبوں کو سزا دلوائیں۔ اسلام کو دل سے قبول کریں اسی میں نجات ہے ورنہ یہ بے مقصد بحث ترقی کی دشمن ثابت ہو گی اور اقوام عالم میں پستی کا باعث بنے گی۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے