رسول پاک صلی الله علیہ وسلم ماہر تعلیم تھے، اور ایک ماہر تعلیم اس بات کو اچھی طرح جانتا ہے کہ جو بات وہ کہنا چاہتاہے آیا مخاطبین کی ذہنی استعداد کے مطابق ہے یا نہیں، وہ کوئی ایسی بات نہیں کرتا جو مخاطب کی ذہنی استعداد سے بالاتر ہو، رسول پاک صلی الله علیہ وسلم ان باتوں کا بڑا خیال فرماتے تھے۔ اگر ایک شخص نومسلم ہوتااور دوسراپُرانامسلم تو دونوں کو سمجھانے میں فرق رکھتے تاکہ دونوں اپنی ذہنی استعداد کے مطابق سمجھ سکیں۔ یہی فرق آپ صلی الله علیہ وسلم ایک شہری اور ایک دیہاتی کی تعلیم میں ملحوظ رکھتے۔ سیدنا ابو موسی اشعری رضی الله عنہ فرماتے ہیں کہ ایک اعرابی آیا اور اس نے اپنے علاقے کی مخصوص لب و لہجہ میں رسول پاک صلی الله علیہ وسلم سے سفر کے دوران روزے کا حکم پوچھا، اس کے لب و لہجہ میں حرف ” لام‘‘ کو میم سے بدلا جاتاتھا اس کا سوال تھا

امن امبر امصوم فی امسفر ؟

[اصل عبارت تھی ا

من البر الصوم فی السفر؟

”کیاسفرمیں روزے رکھنا نیکی کاکام ہے؟“آپ صلی الله علیہ وسلم نے اسے اسی مخصوص لہجہ میں جواب دیا۔ لیس من امبر امصوم فی امسفر [لیس من البر الصوم فی السفر]”سفرمیں روزے رکھنا نیکی کا کام نہیں“۔(جمع الفوائد)

رسول پاک صلی الله علیہ وسلم کے طریقہ تعلیم و تربیت کی ایک خصوصیت یہ بھی تھی کہ جو چیز زبانی طورپر سمجھا نے سے سمجھ میں نہ آتی‘ عملی طورپرسمجھانے کی ضرورت پڑتی تو آپ صلی الله علیہ وسلم اسے عملی طورپر سمجھاتے۔ رسول پاک صلی الله علیہ وسلم اپنی بات کو واضح کرنے کے لے بسا اوقات ہاتھ کے اشاروں سے مدد لیتے،کبھی ایسا بھی ہوتا کہ آپ صلی الله علیہ وسلم صحابہ کے سامنے کچھ لکیریں کھینچتے اور ان کے ذریعہ اپنی بات کو واضح کرتے۔ اس طرح مخاطب کے ذہن میں اپنی بات کو اتارتے کہ بات کا مالہ وما علیہ اس پر پوری طرح واضح ہوجاتا۔ مثلا رسول پاک صلی الله علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ا نا وکافل الیتیم فی الجنة کھاتین وا شار بالسبابة والوسطی (بخاری) ”میں اور یتیم کی کفالت کرنے والا بہشت میں یوں ہوں گے۔ پھر آپ نے اپنی شہادت اور بیچ والی انگشت مبارک سے اشارہ فرمایا“ ۔ غور کیجے جب اللہ کے حبیب صلی الله علیہ وسلم نے اپنی شہادت کی اور بیچ کی انگلی اٹھا کر صحابہ رضی الله عنہم سے یہ فرمایا ہوگا کہ میں اور یتیم کی کفالت کرنے والا جنت میں ان دونوں انگلیوں کی طرح ہوں گے۔ یعنی ایک دوسرے سے بالکل قریب ہوں گے دونوں کے درمیان کوئی حائل نہ ہوگاتو وہ صحابہ رضوان اللہ علیہم اجمعین جو حصول جنت کے لے اپنی جان و جہاں تک کو داؤ پر لگانے کے لے تیار تھے ، اور رسول پاک صلی الله علیہ وسلم کا قرب انہیں ہر نعمت سے زیادہ قیمتی اور محبوب تھا تو کیا اس ارشاد اور اشارے کے بعد ہر صحابی کے دل میں یہ عزم پیدا نہیں ہوا ہوگا کہ مجھے یتیم کی کفالت کرکے اس نعمت عظمی کو ضرور حاصل کرنا چاہے۔

ایک بار رسول پاک صلی الله علیہ وسلم صحابہ رضی الله عنہم کے درمیان تشریف فرما تھے، آپ صلی الله علیہ وسلم نے اپنے دست مبارک سے زمین پر ایک لکیر کھینچی اور فرمایا یہ اللہ کا راستہ ہے، پھر اس سیدھی لکیر کی دائیں جانب دو لکیریں کھینچی اور دو لکیریں بائیں جانب اور فرمایا کہ یہ لکیریں شیطان کے راستے ہیں :

اس کے بعد آپ صلی الله علیہ وسلم نے سیدھی لکیر پر دست مبارک رکھا اور یہ آیت تلاوت فرمائی

: وَاَ نَّ ہَذَا صِرَاطِی مُستَقِیماً فَاتَّبِعُوہُ وَلاَ تَتَّبِعُوا السُّبُلَ فَتَفَرَّقَ بِکُم عَن سَبِیلِہِ ذَلِکُم وَصَّاکُم بِہِ لَعَلَّکُم تَتَّقُون (انعام: 154(

اور یقینا یہی میری سیدھی راہ ہے لہذا اسی پر چلتے جاؤ اور دوسری راہوں کے پیچھے نہ جاؤ ،ورنہ وہ تمہیں اللہ کی راہ سے جدا کردیں گے، اللہ نے تمہیں اپنی باتوں کا حکم دیا ہے شاید کہ تم بچ جاو ( تقوی شعار بن جاؤ)“۔

عزت و سربلندی اور جنت تک پہنچانے والا راستہ صرف یہی ہے،اور اس کے علاوہ باقی تمام راستے خواہ وہ باطل ادیان ہوں یا دوسرے افکار و نظریات سب شیطانی راستے ہیں ، جو ہلاکت و بربادی اور جہنم تک پہنچانے والے ہیں۔

آپ صلی الله علیہ وسلم نے صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے سینوں میں اللہ اور اس کے رسول اسے محبت کی ایسی بھٹی شعلہ زن کی کہ جس میں وقتی مصلحت و خود غرضی کا ہر شائبہ جل کر خاکستر ہوگیا، آپ صلی الله علیہ وسلم نے اسلامی افکار و عقائد کو دلوں میں اس طرح راسخ کیا کہ کسی بھی غیر اسلامی تصور کے ابھر نے یا پنپنے کی کوئی گنجائش باقی نہ رہ گئی۔

اب رہی بات ہم مبلغین اور مصلحین کی توہماری دعوتی اور اصلاحی کوششوں کا ہدف دل سے زیادہ دماغ پر ہوتا نظر آتاہے۔ اس لے نتیجہ خیز تبدیلی دیکھنے کو بہت کم ملتی ہے، بلکہ بسا اوقات ہماری اس طرز دعوت سے فائدہ کم اور نقصان زیادہ ہوتاہے،تمام کی تمام تر عقلی دلائل پیش کرنے کی ہماری ان کوششوں کی مثال ایسی ہے جیسے کوئی درخت سوکھ جائے تومالی اس کے جڑ کو پانی دینے کی بجائے اس کی پتیوں اور ٹہنیوں پر پانی چھڑکنے لگے اور اس سے درخت کی حیات نو کی امید رکھے، بعض مرتبہ یہ بھی دیکھنے میں آتا ہے کہ مبلغ و داعی دیگر ادیان کی کتابوں کے شلوک جتنی اچھی طرح پڑھتاہے وہ قرآن حدیث کو اتنے اچھے انداز میں پیش کرنے سے قاصر ہوتاہے، یہ ایک المیہ نہیں تو اور کیا ہے ؟۔ ماضی اور حال کے دعاۃاور ان کی دعوتی کو ششوں کا تجزیہ کرتے ہوے علامہ اقبال رحمہ الله نے بڑا چشم کشا تبصرہ فرمایا ہے :

” قبول اسلام میں اصل چیز دل ہے ، جب دل ایک تبدیلی پر رضا مند ہوجاتاہے اور کسی بات کو قبول کر لیتا ہے تو پھر باقی تمام جسم کے اعضاء اس کے سوا کچھ نہیں کرتے کہ وہ اس تبدیلی کی تائید کے لے وقف ہوجائیں۔ اسلام کے قدیم و جدید مبلغوں میں ایک واضح فرق یہ نظر آتا ہے کہ قدیم مبلغوں کا وار دلوں پر ہوتا تھا، وہ اپنی للہیت،خوش خلقی اور احسان ومروت کی جادو اثر اداؤںسے دلوں کو گرویدہ کرتے تھے اور اس طرح ہزارہا لوگ از خود بغیر کسی بحث و تکرار کے ان کے رنگ میں رنگ جاتے تھے، مگر جدید مبلغوں کا سارا زور دماغ کی تبدیلی پر صرف ہوتا ہے ، وہ صداقت اسلام پر ایک دلیل دیتے ہیں ،مقابلہ میں غیر مسلم دوسری دلیل پیش کردیتے ہیں،اس بحث و تکرار میں مقصود ہدایت گم ہوکر رہ جاتا ہے ۔ غور کرنے سے معلوم ہوگا کہ فطرت اپنی فتوحات حاصل کرنے کے لے اپنا تعلق ہمیشہ دلوں سے جوڑتی ہے ، فطرت کھانے میں لذت پیدا کرتی ہے اور انسان بے اختیار اسے کھاجاتاہے، تو ضرورت اس بات کی ہے کہ مبلغین اسلامی کردار کی عظمت کے مالک ہوں“۔

مولانا عبد الماجد دریابادیرحمہ الله لکھتے ہیں :

”ہندو اور پارسی،عیسائی اور یہودی،سکھ اور جین اور تمام غیر مسلم قومیں جو آج رسول پاک صلی الله علیہ وسلم کی زندگی سے واقف ہوناچاہتی ہیں، ان میں سے کوئی قوم قرآن کا مطالعہ نہیں کرتی، دفتر احادیث کی ورق گردانی نہیں کرتی، وہ تو صرف ہماری زندگی کو دیکھتی ہے، امت کی سیرت سے رسول کی سیرت کا،پیروؤں کے کردار سے پیغمبر کے اخلاق کا اندازہ لگاتی ہے ۔ ( اب کوئی یہ کہے کہ مسلمانوں کو مت دیکھو،قرآن و حدیث کا مطالعہ کرو تو یہ کہاں تک صحیح کہلائے گا؟) یقین جانئے کوئی غیر مذہب والاہمارے یہاں کی کتابوں کو الٹ پلٹ اس غرض سے نہیں کرے گا، وہ ہماری کتابوں کو نہیں‘خود ہمیں پڑھے گا، ہماری زندگی دیکھے گا، وہ مطالعہ کتابوں کا نہیں، زندہ کتابوں کا کرے گا، درخت کا بیج اس کے پھل سے پہچانا جاتاہے، تخم کی تحقیق کے لے کوئی ماہر فن باغبان کے پاس نہیں جاتا رسول پاک صلی الله علیہ وسلم کی سیرت کا اندازہ امت کی حالت سے کیا جاتاہے اور کیا جائے گا“ ۔

اب ہم اپنا محاسبہ کریں کہ ہماری زندگی ، ہمارا طرز عمل، ہمارا کردار، ہماری عادتیں اور خصلتیں،ہمارے مشغلے اور دلچسپیاں، ہمارا مذاق طبیعت، ہماری سیرت، غیر مسلموں کے دل میںرسول پاک صلی الله علیہ وسلم کی بابت کیا رائے قائم کرائے گی ؟اس لیے پیارے بھائیو ! اپنی زندگیوں سے اس پاک زندگی پر داغ نہ لگاؤ اور کوشش کرو کہ اس پاک و صاف روشن اور بے داغ زندگی کا کچھ ہلکا سا نمونہ ہماری زندگیوں میں بھی نظر آنے لگے .

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے