اعلان حج:

یہ ہجرت نبوی کا دسواں برس تھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اعلان عام فرمایا: میں اس سال حج بیت اللہ کے لیے جانے والا ہوں۔

آپ نے صحابہ رضی اللہ عنہم کو بھی اپنے ساتھ چلنے کا حکم دیا۔

آپ کااعلان سن کرمختلف مقامات سے صاحب استطاعت لوگ پیدل اور سوار جو ق در جوق مدینہ منورہ پہنچے تاکہ آپ کی اقتدار میں حج کی سعادت سے ہمکنار ہو سکیں۔

یہ عجیب اتفاق تھا کہ اس سال مدینہ منورہ میں چیچک یا خسرہ کی وبا پھوٹ پڑی تھی۔ اس وجہ سے لوگوں کی ایک معقول تعداد حج سے محروم رہ گئی۔

جن لوگوں کے لیے یہ بیماری حج سے مانع رہی، آپ نے ان کے لیے ارشاد فرمایا: ماہ رمضان میں عمرہ حج کے برابر ہے اب جو شخص حج پر جا نا چاہتا ہے بہتر ہے اور جو رمضان میں عمرے پر اکتفا کرے وہ بھی بجاہے۔

آغاز سفر:

رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم مدینہ منورہ سے مکہ مکرمہ کی طرف حج کا عزم لے کر نکلے تھے۔ مدینہ منورہ آنے کے بعد آپ نے اس کے علاوہ اور کوئی حج نہیں کیا۔

رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے اپنے سفر حج کے لیے شجرہ والی راہ اختیار فرمائی۔ اس روز جمعرات تھی اور ماہ ذوالقعدہ کے پانچ دن باقی تھے، جب کہ ہجرت کا دسواں سال تھا۔

میقات پرآمد:

نماز عصر اپنے پہلے پڑاؤ ’’ذوالحلیفہ‘‘ میں پہنچ کر ادا کی۔ اس مقام کا دوسرا نام ’’آبار علی‘‘ ہے۔

جمعے کی رات آپ نے وادئ عقیق ہی میں گزاری۔ اس رات آپ اپنی ازواج کے پاس بھی گئے۔ صبح غسل کیا اور نماز فجر ادا فرمائی۔

سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا نے اپنے ہاتھ سے آپ کو ’’زریرہ‘‘ خوشبو لگائی۔ (یہ زرد رنگ کی ایک بوٹی کا نام ہے جو رنگنے کے کام آتی ہے) اس کے علاوہ ایک اور خوشبو بھی لگائی جس میں کستوری شامل تھی۔

پھر آپ نے اپنے سر پر ’’لبیدہ‘‘ لگایا۔ (وہ حاجی جس کے بال لمبے ہوں اس کے لیے مسنون ہے کہ وہ اپنے سر پر چپکنے والی چیز لگا لے تا کہ بال جمے رہیں اور گرد و غبار سے خراب نہ ہو جائیں، اس عمل کو ’’ تلبید‘‘ کہتے ہیں)

اپنی قربانی کے جانوروں کو جوتوں کا ہار یعنی ’’ قلادہ‘‘ پہنایا اور ان کی کوہان کو داہنی جانب سے معمولی سا چیرا لگا دیا جس سے تھوڑا سا خون نکل آیا۔ (قربانی کا جانور جو حرم کی طرف لے جایا جاتا ہے اس کے گلے میں جوتوں کا ہار ڈالنا قدیم سے چلا آرہا تھا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے بھی اس عمل کو قائم رکھا اور یہ علامت ہوتی تھی کہ یہ جانور حرم کے لیے وقف ہے اس طرح لوگ ایسے جانور کو کوئی کزند نہ پہنچاتے تھے اور اگر گم بھی ہو جاتا تو اسے حرم کی طرف روانہ کر دیتے تھے۔ اس عمل کو اصطلاحا ’’تقلید الہدی‘‘ کہا جاتا ہے اور یہ سنت ہے ۔ قربانی کے جانوروں میں سے صرف اونٹوں کی یہ خصوصیت ہے کہ جوتوں کے ہار کے ساتھ ساتھ ان کی کوہان کی دائیں جانب معمولی سا چیرا لگاتے ہیں جس سے تھوڑا ساخون رس آتا ہے جسے کوہان اور بالوں پر مل دیا جاتا ہے اس عمل کو ’’ اشعار‘‘ کہا جاتا ہے۔ یہ بھی مسنون عمل ہے۔)

اس سفر میں آپ اپنی قربانی اپنے ساتھ لے گئے تھے۔

احرام:

پھر آپ اپنی اونٹنی قصواء پر سوار ہوئے اور جب وہ ’’مسجد ذی الخلیفہ‘‘ کے قریب پہنچی تو آپ نے تلبیہ پکارنا شروع کیا۔

آپ نے حج اور عمرہ دونوں کا اکٹھا تلبیہ پکارا جو کہ ’’حج قران‘‘ کا تلبیہ تھا۔

اور لوگوں کو بھی یہی ارشاد فرمایا کہ جو حج اور عمرے دونوں کا تلبیہ کہنا چاہتاہے کہے اور جو صرف حج یا عمرہ کی نیت رکھتاہے وہ بھی صحیح ہے وہ اس کا تلبیہ پکارے۔

آپ کے ساتھ اس قدر کثیر لوگ تھے کہ ان کی صحیح تعداد اللہ ہی جانتا ہے۔

تلبیۂ توحید:

پھر آپ نے تلبیۂ توحید پکارنا شروع کیا:

لَبَّيْكَ اللہُمَّ لَبَّيْكَ لَبَّيْكَ لَاشَرِيكَ لَكَ لَبَّيْكَ إِنَّ الْحَمْدَ وَالنِّعْمَةَ لَكَ وَالْمُلْكَ لَا شَرِيكَ لَكَ

میں حاضر ہوں اے اللہ ! میں حاضر ہوں، میں حاضر ہوں، تیرا کوئی شریک نہیں، میں حاضر ہوں۔ تمام تعریفیں اور تمام نعمتیں تیری ہیں اور بادشاہت بھی تیری ہے تیرا کوئی شریک اور ساجھی نہیں۔

جبریل امین علیہ السلام تشریف لائے اور کہا: اپنے صحابہ رضی اللہ عنہم کو حکم دیں کہ وہ تلبیہ بلند آواز سے کہیں۔

ابھی ذوالحلیفہ ہی میں تھے کہ ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کی زوجہ محترمہ اسماء بنت عمیس کے ہاں محمد بن ابی بکر رضی اللہ عنہ کی ولادت ہوئی۔ اس خاتون کے لیے آپ نے ارشاد فرمایا: غسل کرکے لنگوٹ کس لے اور احرام باندھ لے اور تلبیہ پکارے۔

پھر آپ نے مقام ’’بیداء‘‘ میں نماز ظہر ادا کی اور اس کے بعد اونٹنی پر سوار ہوئے جب وہ کھڑی ہوئی تو آپ نے تلبیہ پکارا اور روانہ ہوئے۔

دوران سفر بھی آپ تلبیہ پکارتے رہے۔

مقام ’’سرف‘‘ پہنچے تھے کہ سیدنا عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کو ایام شروع ہو گئے جبکہ انہوں نے عمرے کا احرام باندھ رکھا تھا۔

آپ نے انہیں حکم فرمایا:غسل کریں اپنے بال کھولیں اور کنگھی کریں۔ نیز فرمایا: عمرہ چھوڑ دیں اور حج کی نیت کریں حج کے تمام اعمال سر انجام دیں مگر پاک ہونے تک بیت اللہ کا طواف (یعنی عمرہ) نہ کریں۔

آپ اسی وادی سرف میں تھے کہ لوگوں سے ارشاد فرمایا: جس کے پاس قربانی نہیں ہے وہ اپنے اس حج کو عمرے میں تبدیل کرنا چاہے تو کرلے۔ (یعنی احرام تو اس نے حج کا باندھا تھا مگر وہ عمرہ کر کے احرام کھول دے پھر 8 ذوالحجہ کو حج کے لیے نیا احرام باندھے) البتہ جس نے عمرے اور حج دونوں کا احرام باندھا اور اس کے پاس قربانی ہے وہ اپنی نیت تبدیل نہیں کرسکتا۔ (کیونکہ جب تک اس کی قربانی 10 ذوالحجہ کو منٰی میں ذبح نہ ہوجائے وہ احرام نہیں کھول سکتا)

چنانچہ بعض نے اپنے حج کی نیت کو عمرے میں بدل لیا اور کچھ حج ہی کی نیت پر قائم رہے۔ (اسے عمرے میں نہ بدلا) البتہ جن کے پاس قربانیاں تھیں وہ عمرہ اور حج کی نیت پر قائم رہے۔

ایک مقام پر آپ نے یہ بھی حکم دیا: ہر وہ شخص جس کے پاس قربانی ہے وہ حج اور عمرے (حج قران) کا تلبیہ پکارے۔

تب آپ وہاں سے چل کر وادی ذی طویٰ میں جا اترے اور اتوار کی رات وہیں گزاری یہ ذوالحجہ کی چار تاریخ تھی۔ صبح کی نماز بھی آپ نے یہیں ادا فرمائی۔

آپ نے مکہ شہر میں داخلے کے لیے اس کی بالائی جانب ’’کداء‘‘ کی طرف سے ثنیہ علیا والی راہ اختیار فرمائی۔

مکہ میں تشریف آوری:

اتوار کی صبح دن چڑھے آپ مکہ شہر میں داخل ہوئے۔

آپ کے ساتھ بہت زیادہ لوگ تھے۔ راستے میں بھی مختلف اطراف سے لوگ بڑی تعداد میں آپ کے ساتھ شریک ہوئے گئے۔

طواف قدوم:

آپ نے دروازے کے قریب اپنی سواری بٹھائی اور مسجد میں داخل ہوئے۔ بیت اللہ میں آتے ہی حجراسود کو بوسہ دیا اور دائیں طرف چلتے ہوئے کعبے کے گرد سات چکر لگائے اور طواف مکمل فرمایا۔ پہلے تین چکروں میں رمل کیا۔ یعنی آہستہ آہستہ دوڑے۔ اور باقی چار چکروں میں عام رفتار سے چلے۔ ہر چکر میں رکن یمانی کو ہاتھ سے چھوتے اور حجراسود کو بوسہ دیتے تھے۔ لیکن شمال کی طرف کے دو ارکان (بیت اللہ کے دو کونوں) کو ہاتھ نہ لگایا۔

ہر چکر میں رکن یمانی اور حجر اسود کے درمیان یہ دعا پڑھتے تھے:

رَبَّنَا آتِنَا فِي الدُّنْيَا حَسَنَةً وَفِي الْآخِرَةِ حَسَنَةً وَقِنَا عَذَابَ النَّارِ

اے ہمارے رب! ہمیں اس دنیا میں ہر طرح کی بھلائیاں عنایت فرما اور آخرت میں بھی تمام تر خیرات و حسنات سے نواز اور ہمیں دوزخ کے عذاب سے محفوظ فرما۔

پھر آپ نے مقام ابراہیم کے پیچھے دو رکعت نماز ادا فرمائی ان میں فاتحہ کے بعد پہلی رکعت میں (قُلْ يَا أَيُّهَا الْكَافِرُونَ ) اور دوسری رکعت میں فاتحہ کے بعد (قُلْ هُوَ اللہُ أَحَدٌ) تلاوت فرمائی۔

مقام ابراہیم کی طرف آتے ہوئے آپ بلند آواز سے یہ آیت کریمہ تلاوت فرما رہےتھے۔

وَاتَّخِذُوا مِنْ مَقَامِ إِبْرَاهِيمَ مُصَلًّى

اور مقام ابراہیم کو جائے نماز بناؤ۔

آپ نے مقام ابراہیم کو اپنے اور کعبے کے درمیان کر کے طواف کی دو رکعتیں ادا کیں۔

پھر آپ نے زمزم نوش فرمایا اور اپنے سرمبارک پر بھی ڈالا اور دوبارہ حجراسود کو بوسہ دیا۔

سعی:

اس کے بعد آپ صفا پہاڑی کی طرف روانہ ہوئے۔ صفا کے قریب پہنچے تو آپ کی زبان مبارک پر یہ الفاظ تھے:

إِنَّ الصَّفَا وَالْمَرْوَةَ مِنْ شَعَائِرِ اللہِ أَبْدَأُ بِمَا بَدَأَاللہُ بِهِ

صفاو مروہ اللہ (کے دین) کی نشانیوں میں سے ہیں میں اسی سے ابتدا کرتا ہوں جس سے اللہ تعالیٰ نے ابتدا فرمائی۔

آپ صفا پر چڑھے حتی کہ بیت اللہ کو دیکھ لیا۔

جب صفا پر چڑھتے تو قبلہ کی طرف منہ کر کے بیت اللہ کو دیکھتے اور تین بار اللہ کی توحید و تکبیر پکارتے ہوئے یوں کہتے:

لَاإِلَهَ إِلاَّ اللہُ وَحْدَهُ لَاشَرِيكَ لَهُ ، لَهُ الْمُلْكُ وَلَهُ الْحَمْدُ يُحْيِي وَيُمِيتُ وَهُوَ عَلَى كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ ، لَاإِلَهَ إِلاَّ اللہُ وَحْدَهُ لَاشَرِيكَ لَهُ ، أَنْجَزَ وَعْدَهُ ، وَنَصَرَ عَبْدَهُ ، وَهَزَمَ الأَحْزَابَ وَحْدَهُ

اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی بھی عبادت کے لائق نہیں وہ اکیلا ہے اس کا کوئی شریک نہیں بادشاہت بھی اسکی تعریف بھی اسکی، وہی زندہ کرتا اور مارتا ہے اور وہ ہرچیز پر قادر ہے۔ اللہ کے سوا کوئی معبود (برحق) نہیں وہ اکیلا ہے اس کاکوئی شریک نہیں اس نے اپنا وعدہ پورا فرمایا اپنے بندے کی مدد کی اور اس اکیلے ہی نے تمام گروہوں کو پسپا کردیا۔

اس کے بعد مزید دعائیں فرماتے اور مروہ پر بھی ایسا ہی کرتے تھے۔

آپ نے صفا و مروہ کے درمیان سات چکر لگائے جب کہ آپ اپنے اونٹ پر سوار تھے۔ ہر چکر میں جب آپ نشیب میں جاتے تو اس جگہ کو تیزی سے طے کرتے۔

حجامت:

جب صفاومروہ کی سعی مکمل ہوگئی تو آپ نے ان تمام لوگوں کو جو اپنے ساتھ قربانیاں نہیں لائے تھے حجامت کے بعد احرام کھول دینے کا حکم دیا۔ابتدا میں ان کی نیت خواہ حج قران کی تھی یا حج افراد کی، احرام کھول دینے کے بعد ان کو رخصت ہو گئی کہ خوشبو استعمال کریں، سلا ہوا کپڑا پہنیں یا بیویوں سے اختلاط کریں۔ اور یہ رخصت 8 ذوالحجہ یعنی یوم الترویہ تک ہوئی۔ اور انہیں 8 تاریخ کو حج کے لیے دوبارہ احرام باندھنا تھا اور جن کے پاس قربانیاں تھیں ان کو فرمایا کہ وہ اپنے اسی احرام کی حالت میں رہیں۔

نوعیت حج:

آپ نے اپنے حج کے متعلق وضاحت فرمائی کہ ’’میں قربانی ساتھ لایا ہوں، حلال نہیں ہوسکتا جب تک قربانی نہ کر لوں۔‘‘

ابو بکر صدیق، عمر فاروق، علی، طلحہ اور زبیر رضی اللہ عنہم اور دیگر بہت سے اصحاب کرام رضی اللہ عنہم جو قربانیاں ساتھ لائے تھے وہ بھی حالت احرام میں رہے اور حلال نہیں لائے۔

امہات المومنین رضی اللہ عنھن کے ساتھ قربانیاں نہیں تھیں چنانچہ انہوں نے احرام کھول دیا۔

سیدہ فاطمہ اور سیدہ اسماء بنت ابی بکر رضی اللہ عنہما نے بھی اسی طرح کیا۔ سوائے سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کے، اس لیے کہ انہیں ایام شروع ہوگئے تھے۔ سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے فاطمہ رضی اللہ عنہا کی شکایت کر دی کہ انہوں نے احرام کھول دیا ہے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے انہیں بتایا کہ میں نے ہی اسے یہ ہدایت کی ہے۔

رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے اس حکم سے جاہلیت کا یہ دستور ٹوٹ گیا کہ حج کے مہینوں میں عمرہ نہیں کرنا چاہیے۔

سراقہ رضی اللہ عنہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم سے دریافت کیا: اےاللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و سلم ! ہمارا یہ عمل صرف اسی سال کے لیے خاص ہے یا ہمیشہ کے لیے اس کی رخصت ہے؟ آپ نے اپنے دونوں ہاتھوں کی انگلیاں ایک دوسری میں ڈالتے ہوئے فرمایا: نہیں، بلکہ (تمتع اور قران کی صورت میں) ہمیشہ ہمیشہ کے لیے عمرہ حج میں داخل ہو گیا ہے۔

جو لوگ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم سے علیحدہ دوسرے علاقوں سے حج کے لیے آئے تھے اور انہوں نے غائبانہ طور پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے احرام کے مطابق اپنا احرام باندھا تھا تو آپ نے انہیں حکم دیا کہ وہ اپنے اپنے احوال پر قائم رہیں۔ چنانچہ جو لوگ قربانی اپنے ساتھ لائے تھے اس لیے وہ حلال نہ ہوئے مگر سیدنا ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ کے پاس قربانی نہیں تھی اس لیے وہ حلال ہوگئے۔

رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے اعمال حج شروع ہونے سے پہلے کے ایام اتوار، سوموار، منگل، بدھ اور اگلی رات مکہ میں قیام فرمایا اور قربانی ساتھ ہونے کی وجہ سے حالت احرام میں رہے۔

منٰی کو روانگی:

8 ذوالحجہ (جوکہ ’’یوم الترویہ‘‘ کہلاتا ہے) جمعرات کی صبح آپ صلی اللہ علیہ و سلم منٰی کی طرف روانہ ہوئے اوروہ اصحاب کرام رضی اللہ عنہم جو عمرہ کے بعد حلال ہوگئے تھے انہوں نے منٰی کے قریب ’’وادی ابطح‘‘ سے حج کے لیے نیا احرام باندھا اور منٰی پہنچے۔

منٰی پہنچ کر آپ نے جمعرات کے د ن کی بقیہ نمازیں (ظہر، عصر، مغرب اور عشاء) قصر کے ساتھ اپنے وقت پر ادا فرمائیں رات وہیں گزاری اور جمعے کے روز 9 ذوالحجہ کو فجر کی نماز بھی یہیں ادا کی۔

جمعے کے روز سورج طلوع ہونے کے بعد منٰی سے عرفات کے لیے روانہ ہوئے اور حکم فرمایا: میرے لیے وادی نمرہ میں خیمہ لگایا جائے۔ پھر آپ اپنے خیمے میں تشریف لے آئے۔

جب سورج ڈھل گیا تو فرمایا: میرے لیے میری (قصواء) اونٹنی تیار کی جائے۔ چنانچہ اس پر پالان کس دیا گیا اور آپ وادی عرنہ میں تشریف لے آئے۔

نمرہ اور عرنہ کی مختصر وادیاں میدان عرفات سے متصل ہونے کی وجہ سے عرف عام میں عرفات کا حصہ سمجھی جاتی ہیں جب کہ حقیقتاً ایسا نہیں ہے۔

خطبہ حج:

آپ نے اپنی اونٹنی پر سے ہی خطبہ ارشاد فرمایا۔

آپ نے اللہ کی حمد و ثنا بیان فرمائی، شہادت کے کلمات کہے، اللہ سے ڈرنے کی وصیت کی۔ پھر جو باتیں کہیں ان میں آپ نے فرمایا: ’’لوگو! میری بات سنو! مجھے نہیں معلوم، غالباً میں تم سے اس سال کے بعد اس مقام پر کبھی نہ مل سکوں گا۔‘‘

’’ تمہارا خون، تمہارا مال اور تمہاری آبرو ایک دوسرے پر اسی طرح حرام ہے، جس طرح تمہارے اس شہر اور مہینے میں تمہارے اس دن کی حرمت ہے۔‘‘

’’ سن لو! جاہلیت کی ہر چیز میرے پاؤں تلے روند دی گئی، جاہلیت کے خون بھی ختم کر دیے گئے اور ہمارے خونوں میں سے پہلا خون جسے میں ختم کر رہا ہوں وہ ربیعہ بن حارث کے بیٹے کا خون ہے۔ یہ بچہ بنو سعد میں دودھ پی رہا تھا کہ بنو ہذیل نے اسے قتل کر دیا اور جاہلیت کا سود ختم کر دیا گیا اور ہمارے سود میں سے پہلا سود جسے میں ختم کر رہا ہوں وہ عباس بن عبدالمطلب رضی اللہ عنہ کا سود ہے۔ اب یہ سارے کا سارا سود ختم ہے۔‘‘

’’ ہاں! عورتوں کے بارے میں اللہ سے ڈرو، کیونکہ تم نے انہیں اللہ کی امانت کے ساتھ لیا ہے اور اللہ کے کلمے کے ذریعہ ان کی شرمگاہیں حلال کی ہیں۔ ان پر حق یہ ہے کہ وہ ایسا کریں تو تم انہیں مار سکتے ہو، لیکن سخت مار نہ مارنا اور تم پر ان کا حق یہ ہے کہ تم انہیں معروف طریقے سے کھلاؤ اور پہناؤ۔‘‘

’’اور میں تم میں ایسی چیز چھوڑے جا رہا ہوں کہ اگر تم نے اسے مضبوطی سے پکڑے رکھا تو اس کے بعد ہرگز گمراہ نہ ہوگے اور وہ ہے اللہ کی کتاب۔‘‘

’’اور تم سے میرے متعلق پوچھا جائے گا تو کیا کہو گے؟‘‘ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے کہا: ہم شہادت دیں گے کہ آپ نے تبلیغ کر دی، پیغام پہنچا دیا اور خیر خواہی کا حق ادا فرما دیا۔یہ سن کر آپ شہادت کی انگلی کو آسمان کی طرف اٹھاتے اور لوگوں کی طرف جھکاتے ہوئے فرمایا: ’’اے اللہ! گواہ رہ، اے اللہ! گواہ رہ، اے اللہ! گواہ رہ۔‘‘

اس خطبے میں آپ نے مزید کئی امور بیان فرمائے اور جب فارغ ہوئے تو آپ پر اللہ تعالیٰ کا یہ ارشاد نازل ہوا:

اَلْيَوْمَ أَكْمَلْتُ لَكُمْ دِينَكُمْ وَأَتْمَمْتُ عَلَيْكُمْ نِعْمَتِي وَرَضِيتُ لَكُمُ الْإِسْلَامَ دِينًا

’’آج میں نے تمہارے لیے تمہارا دین مکمل کر دیا اور تم پر اپنی نعمت پوری کر دی اور تمہارے لیے اسلام کو بحیثیت دین پسند کر لیا۔‘‘

چنانچہ یہ نعمت اور سعادت کا دن تھا۔

ام الفضل ہلالیہ رضی اللہ عنہا نے اسی کیفیت میں آپ کی خدمت میں دودھ کا ایک پیالہ بھجوایا تو آپ نے اس کو برسرعام اونٹنی پر بیٹھے ہوئے نوش فرمایا۔ (اس طرح معلوم ہوگیا کہ آپ روزے سے نہیں تھے لہذا یوم عرفہ کے روزے کی فضیلت کا تعلق غیر حاجیوں کے ساتھ ہے۔)

اس کے بعد آپ نے بلال رضی اللہ عنہ کو حکم فرمایا، انہوں نے اذان دی، پھر اقامت کہی اور آپ نے ظہر اور عصر کی نمازیں جمع اور قصر کر کے ادا فرمائیں اور ان کے درمیان کوئی سنت یا نفل نہیں پڑھے۔ ایک اذان اور دو اقامتیں کہی گئیں۔

وقوف عرفات:

نماز کے بعد آپ سوار ہو کر میدان عرفات تشریف لے گئے اور اپنا رخ قبلے کی طرف فرمالیا۔

اس دوران ایک شخص حالت احرام میں اپنی سواری سے گر کر فوت ہو گیا، آپ نے اس کے متعلق فرمایا: ’’اسے انہی کپڑوں میں کفن دیا جائے خوشبو نہ لگائی جائے اور اس کا سر بھی نہ ڈھانپا جائے۔‘‘آپ نے مزید فرمایا: قیامت کے دن یہ شخص لبیک پکارتا ہوا اٹھے گا۔

نجد کے لوگوں نے آپ سے حج کے مسائل دریافت کیے تو آپ نے وقوف عرفہ کے متعلق فرمایا کہ وقوف عرفات ہی حج ہے۔ نیز آپ نے اس کا وقت بھی متعین فرمایا۔ یعنی دن یا رات کا کچھ حصہ وہاں گزارے۔

دوسرے لوگوں کو یہ پیغام بھی بھجوایا کہ میدان عرفات میں اپنے اپنے پڑاؤ ہی پر وقوف کریں۔ (جبل رحمت پر چڑھنا ضروری نہیں)

مزدلفہ کی رات:

یہ جمعے کا دن تھا، آپ اس روز ظہر کے وقت سے لے کر شام تک تلبیہ اور دعا و مناجات میں مشغول رہے حتی کہ سورج غروب ہوگیا۔ جب شفق کی زردی ختم ہوگئی تو آپ نے اسامہ بن زید رضی اللہ عنہ کو اپنے پیچھے سوار کیا اور عرفات سے روانہ ہوئے۔ آپ نے اپنی سواری کی باگ بڑی سختی سے کھینچ رکھی تھی اور اسی کیفیت میں سفر جاری رہا۔

راستے میں آپ لوگوں کو پرسکون رہنے کی تلقین فرماتے رہے۔

ایک گھاٹی کے پاس آپ سواری سے اترے، پیشاب کیا اور وضو بھی کیا اور اسامہ رضی اللہ عنہ سے فرمایا: ’’نماز کا مقام اور وقت آگے ہے۔‘‘ پھر سوار ہوئے اور مزدلفہ پہنچ گئے۔ یہ جمعے اور ہفتے کی درمیانی رات تھی۔

مزدلفہ پہنچ کر آپ نے وضو کیا، مغرب اور عشاء کی نمازیں ایک اذان اور دواقامتوں کے ساتھ جمع اور قصر کر کے پڑھیں اور ان کے درمیان کوئی سنتیں یا نفل نہیں پڑھے اور نہ کوئی خطبہ ارشاد فرمایا۔ پھر آپ آرام کرنے کی غرض سے لیٹ گئے حتی کہ فجر ہو گئی۔

تب آپ نےلوگوں کے ساتھ مل کر نماز فجر ادا فرمائی۔ یہ ہفتے کادن اور ذوالحجہ کی دس تاریخ تھی۔ یہی یوم النحر اور عید الاضحی کا دن ہے۔

سیدنا عروہ الطائی رضی اللہ عنہ نے ایک سوال کیا تو آپ نے فرمایا: جس نے مزدلفہ میں فجر کی نماز پالی، اس نے حج پالیا۔

امہات المومنین سیدہ سودہ، ام حبیبہ اور ام سلمہ رضی اللہ عنھن نے آپ سے اجازت چاہی کہ رات ہی کو مزدلفہ سے روانہ ہو جائیں تو آپ نے انہیں اور دیگر کمزور لوگوں کو رخصت مرحمت فرمائی کہ وہ چاند غروب ہونے تک مزدلفہ میں وقوف کریں پھر رات ہی کو منٰی جا سکتے ہیں البتہ جمرۂ عقبہ کی رمی کی بابت انہیں حکم دیا کہ وہ طلوع آفتاب کے بعد رمی کریں۔

آپ نماز فجر ادا کر لینے کے بعد ’’مشعر الحرام‘‘ کے پاس تشریف لے گئے اور قبلہ رخ ہو کر دعا و مناجات اور تکبیر و تہلیل میں مشغول ہو گئے۔ حتی کہ صبح خوب سفید اور روشن ہوگئی۔

منٰی کو واپسی:

سورج نکلنے سے پہلے آپ نے فضل بن عباس رضی اللہ عنہما کو اپنے ساتھ سواری پر بٹھایا اور منٰی روانہ ہوگئے۔ جب کہ اسامہ رضی اللہ عنہ پہلے جانے والوں کے ساتھ روانہ ہوگئے تھے۔

پھر آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے اپنی اونٹنی کو حرکت دی اور منٰی کی راہ میں جب وادی محسر کے دامن میں پہنچے تو اپنی سواری کی رفتار ذرا تیز فرمائی اور درمیان والی راہ اختیار کرتے ہوئے جمرۂ عقبہ پر تشریف لے آئے۔

جب سورج اونچا ہوگیا تو آپ نے جمرۂ عقبہ کو کنکریاں ماریں اور فرمایا: ’’مجھ سے حج کا طریقہ خوب اچھی طرح سمجھ لو، شاید کہ میں اس سال کے بعد حج نہ کر سکوں۔‘‘

منٰی میں آپ جہاں کھڑے تھے، وہیں سے ابن عباس رضی اللہ عنہما نے آپ کے لیے چھوٹی چھوٹی کنکریاں چنی تھیں۔نیز آپ نے فرمایا: ’’جمرات کو مارنے کے لیے چھوٹی چھوٹی کنکریاں چنی جائیں۔‘‘ بڑے ڈھیلوں یا پتھروں سے منع فرمایا، کیونکہ دین میں غلو یعنی حد سے بڑھنا جائز نہیں۔

آپ نے نشیب میں اپنی سواری ہی سے جمرۂ عقبہ کو سات کنکریاں ماریں۔ ہر کنکری کے ساتھ ’’اللہ اکبر‘‘ کہتے تھے اور اس کے ساتھ ہی تلبیہ پکارنا بند کر دیا۔

یہیں قبیلہ بنو خثعم کی ایک خاتون نے آپ سے دریافت کیا کہ آیا میں اپنے والد کی طرف سے حج کر سکتی ہوں یا نہیں، آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: ’’ہاں! تم اپنے والد کی طرف سے حج کر سکتی ہو۔‘‘ یہ واقعہ منٰی میں جمرۂ عقبہ کی رمی کے بعد پیش آیا۔

آپ نے اس روز 10 ذوالحجہ یعنی یوم النحر ہفتے کے دن خطبہ بھی ارشاد فرمایا۔ اس میں انہی امور کا تذکرہ تھا جو کہ عرفات میں ارشاد فرمائے تھے۔ آپ نے مکہ کی حرمت کا تذکرہ بھی فرمایا۔

اس موقع پر بلال اور اسامہ رضی اللہ عنہما کو آپ کی خدمت کا اعزاز حاصل ہوا۔ ایک نے اونٹنی کی باگ تھامی ہوئی تھی تو دوسرے نے آپ کے سر پر کپڑے سے سایہ کر رکھا تھا تاکہ گرمی سے بچاؤ رہے۔

قربانی:

کنکریاں مارنے کے بعد آپ قربان گاہ تشریف لے آئے۔ یہاں آپ نے ایک سو اونٹ ذبح کیے۔ ان میں سے تریسٹھ تو آپ نے اپنے دست مبارک سے خود نحر (ذبح) فرمائے اور باقی کے متعلق علی رضی اللہ عنہ کو حکم فرمایا کہ وہ ذبح کریں۔ یہ قربانیاں کچھ تو آپ اپنے ساتھ مدینہ منورہ سے لائے تھے اور کچھ علی رضی اللہ عنہ یمن سے لے کر پہنچے۔

اپنی ازواج کی طرف سے آپ نے گائیوں کی قربانی دی اورمزید دو چتکبرے مینڈھے بھی آپ نے ذبح کیے۔

قربان کیے گئے اونٹوں کے بارے میں آپ نے فرمایا:

’’ان میں سے ہر ایک سے گوشت کا ایک ٹکڑا لیا جائے۔‘‘

چنانچہ اس سارے گوشت کو ایک دیگچے میں ڈال کر پکایا گیا۔ آپ اور علی رضی اللہ عنہ نے اس میں سے مل کر کھایا اور شوربہ نوش فرمایا۔

آپ نے علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ کو بھی ان قربانیوں میں حصے دار بنایا۔

آپ نے حکم دیا کہ ان قربانیوں کا گوشت، ان کے چمڑے اور ان کے جھول وغیرہ سب تقسیم کر دیے جائیں اور قصاب کو مزدوری ہی دیں۔ قربانیوں میں سے کچھ نہ دیا جائے۔

آپ نے ارشاد فرمایا:میدان عرفات سارے کا سارا مقام وقوف ہے، سوائے وادی عرنہ کے، اسی طرح مزدلفہ بھی سارے کا سارا مقام وقوف ہے سوائے ’’وادی محسر‘‘ کے اور منٰی بھی سارے کا سارا قربان گاہ ہے۔ نیز مکے کی گلیاں اور راستے بھی قربانی کا مقام ہیں۔

پھر آپ نے اپنا سر منڈوادیا اور بال مبارک آدھے تو ابو طلحہ رضی اللہ عنہ کو عنایت فرما دیے اور باقی ایک ایک دو دو کر کے دوسرے صحابہ کے حصے میں آئے۔

اصحاب کرام رضی اللہ عنہم میں سے کچھ نے اپنے سر کے بال منڈاوئے اور کچھ نے کتروائے۔ آپ نے سر منڈوانے والوں کے لیے تین بار مغفرت کی دعا فرمائی اور کتروانے والوں کے لیے ایک بار۔

طواف افاضہ کے لیے مکہ جانے سے پہلے آپ نے خوشبو لگائی تھی یہ خوشبو آپ کو عائشہ رضی اللہ عنہا نے لگائی۔ اس میں کستوری بھی شامل تھی۔

طواف افاضہ:

پھر آپ اسی روز مکے کی جانب روانہ ہوئے وہاں پہنچ کر آپ نے ظہر سے پہلے طواف افاضہ کیا۔

چاہ زمزم سے پانی کھینچنے والے کے ہاتھ سے ڈول لے کر آپ نے زمزم نوش فرمایا۔

مکہ سے منٰی واپسی:

پھر سعی کیے بغیر منٰی واپس تشریف لے گئے (کیونکہ ’’حج قران‘‘ ادا کرنے والے کے لیے عمرے کی سعی کافی ہوتی ہے) یہاں آکر ظہر کی نماز پڑھی۔ اور ایک روایت یہ بھی ہے کہ ظہر کی نماز آپ نے مکہ ہی میں پڑھی تھی۔

اس روز ام سلمہ رضی اللہ عنہا نے اپنے اونٹ پر سوار ہو کر لوگوں کے پیچھے سے بیت اللہ کا طواف کیا، وہ کچھ بیمار تھیں اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے انہیں اس امر کی اجازت دی تھی۔

اسی روز سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے بھی بیت اللہ کا طواف اور صفا و مروہ کی سعی کی وہ اسی روز ایام سے پاک ہوئی تھیں۔

سیدہ صفیہ رضی اللہ عنہا نے بھی اس روز طواف افاضہ کیا مگر بعد ازاں منٰی سے کوچ کی رات انہیں ایام شروع ہوگئے چنانچہ انہیں طواف وداع کیے بغیر ہی مدینہ روانگی کی اجازت مل گئی۔

طواف زیارت کے بعد:

آپ دوبارہ منٰی پہنچے تو لوگوں نے آپ سے مختلف سوالات کیے۔ مثلاً یہ کہ جمرہ عقبہ کی رمی، سر منڈوانے اور قربانی کرنے میں کچھ تقدیم و تاخیر ہوگئی یعنی ترتیب بدل گئی ہے تو آپ نے ہر ایک سے یہی فرمایا: ’’اس میں کوئی حرج نہیں۔‘‘

ایام تشریق:

آپ نے ہفتے کا یہ بقیہ دن یعنی 10 ذوالحجہ، پھر اتوار کی رات اور اتوار کا دن یعنی 11 ذوالحجہ، سوموار کی رات اور سوموار کا دن یعنی 12 ذوالحجہ منگل کی رات اور منگل کا دن یعنی 13 ذوالحجہ منٰی ہی میں گزارے۔ انہیں ’’ایام تشریق‘‘ کہتے ہیں۔

ان دنوں میں آپ ہر روز زوال کے بعد تینوں جمرات پر کنکریاں مارتے رہے۔ قریبی جمرہ جو منٰی کی جانب ہے، اس سے ابتدا کرتے، کنکریاں مارنے کے بعد ذرا ہٹ کر بہت لمبی دعا کرتے اور آخر میں جمرۂ عقبہ کو کنکریاں مار کرچلے آتے اور یہاں دعا نہ کرتے۔ کنکریاں مارتے ہوئے ہر کنکری کے ساتھ ’’اللہ اکبر‘‘ کہتے۔

آپ نے اتوار کے روز 11 ذوالحجہ کو اور بعض روایات کے مطابق سوموار 12ذوالحجہ کو بھی خطبہ ارشاد فرمایا۔ ان خطبات میں آپ مسلمانوں کے مابین ان کی عزتوں، ان کے خونوں اور ان کے اموال کی اہمیت اور حرمت کا بیان فرماتے رہے اور یہ کہ وہ بیت اللہ کی حرمت کا بھی پاس رکھیں۔

آپ کے چچا عباس رضی اللہ عنہ نے رخصت چاہی کہ منٰی کی راتیں مجھے مکے میں گزارنے کی اجازت دیں تاکہ حجاج کو پانی پلانے کی خدمت سر انجام دے سکوں۔ چنانچہ انہیں اجازت دے دی گئی۔ ایسے ہی چرواہوں کو بھی منٰی سے باہر چراگاہوں میں رہنے کی اجازت دی گئی۔

وادیٔ محصّب میں پڑاؤ:

ایام تشریق کے آخری دن 13 ذوالحجہ منگل کے روز آپ منٰی سے روانہ ہوکر وادی محصّب تشریف لے آئے۔ یہ دن ’’یوم النفر الثانی‘‘ کہلاتاہے ’’ یعنی روانگی کا دوسرا دن‘‘ وادیٔ محصّب میں آپ کے لیے خیمہ لگا دیا گیا، یہ خدمت ابو رافع رضی اللہ عنہ نے انجام دی اور یہی آپ کے سفر کے منتظم تھے۔

آپ نے اپنے اس پڑاؤ (وادیٔ محصّب) میں ظہر، عصر، مغرب اور عشاء کی نمازیں ادا فرمائیں۔ 14ذوالحجہ بدھ کی رات بھی آپ نے یہیں بسر فرمائی۔

عمرہ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا:

سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے تمنا ظاہر کی کہ ایک عمرہ کر لیں کیونکہ اب وہ پاک ہو گئی تھیں تو آپ نے ان کے بھائی عبدالرحمن بن ابی بکر رضی اللہ عنہما کو حکم دیا کہ انہیں مقام ’’تنعیم‘‘ سے عمرے کا احرام بندھوا کر عمرہ کروا لائیں۔ چنانچہ انہوں نے ایسا ہی کیا۔

طواف وداع:

اس سے پہلے کئی لوگ منٰی سے ہی اپنے اپنے علاقوں کی طرف روانہ ہو جاتے تھے۔ آپ نے فرمایا: ’’یہاں تمہارا آخری طواف بیت اللہ ہونا چاہیے سوائے اس صورت کے کہ کوئی خاتون حیض سے ہو۔‘‘ (یعنی اسے طواف وداع سے رخصت ہے)

چنانچہ آپ سحر کے وقت نماز فجر سے پہلے بیت اللہ میں تشریف لائے اور طواف وداع کیا۔

اسی راہ میں آپ کی عائشہ رضی اللہ عنہا سے ملاقات ہوگئی جب آپ طواف وداع کے لیے تشریف لے جارہے تھے، اور وہ عمرے سے فارغ ہو کر واپس آ رہی تھیں۔

مدینہ کو واپسی:

طواف وداع کے بعد آپ نے قافلے کی روانگی کا حکم دیا اور مکے کی زیریں جانب (کداء ثنیہ سفلیٰ) سے مدینے کی طرف روانہ ہوئے۔

آپ کی مکہ مکرمہ میں آمد سے لے کر طواف وداع کے بعد واپس مدینہ کی طرف روانگی تک کی کل مدت دس روز ہے۔

اسی طرح چلتے چلتے آپ ذوالحلیفہ پہنچے یہاں رات گزاری اور روانہ ہوئے۔ مدینہ منورہ کی آبادی دیکھ کر آپ نے تین بار اللہ اکبر کہا اور یہ دعا پڑھی:

لَاإِلَهَ إِلَّا اللہُ وَحْدَهُ لَاشَرِيكَ لَهُ، لَهُ المُلْكُ وَلَهُ الحَمْدُ، وَهُوَ عَلَى كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ، آئِبُونَ تَائِبُونَ عَابِدُونَ سَآئحوْنَ سَاجِدُونَ لِرَبِّنَا حَامِدُونَ، صَدَقَ اللہُ وَعْدَهُ، وَنَصَرَ عَبْدَهُ، وَهَزَمَ الأَحْزَابَ وَحْدَهُ

اللہ کے سوا کوئی عبادت کے لائق نہیں وہ اکیلا ہے۔ اس کا کوئی شریک نہیں۔ حکومت اسی کی ہے۔ تعریفیں بھی اسی کی ہیں اور وہ ہر چیز پر قادر ہے۔ ہم واپس آنے والے ہیں۔ توبہ کرنے والے ہیں۔ عبادت کرنے والےہیں۔ روزہ رکھنے والے ہیں۔ سجدہ کرنے والےہیں۔ اپنے رب ہی کی حمد کرنے والے ہیں۔ اللہ نے اپنا وعدہ سچ کر دکھایا، اپنے بندے کی نصرت فرمائی اور اس اکیلے ہی نے تمام گروہوں کو پسپا کردیا ۔

پھر آپ دن چڑھے اپنے شہر مدینہ منورہ میں تشریف لائے اور یہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کا سفر حج اور اس کی منازل کے مناظر!

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے