6 ستمبر 1965کو جب فضائے بسیط میں پھیلی رات اپنی سیاہ و دبیز چادر سمیٹ چکی تھی، درختوں پر چڑیوں کی چہچہاہٹ اور کوئل کی کوک ماحول کو سحر انگیز کر رہی تھی۔ وسیع و عریض نیلگوں آسمان تلے روئی کے گالوں کی مانند بادل ایک دوسرے کے تعاقب میں بھاگ رہے تھے۔ مشرق کی جانب سے شفق کی لالی ہویدا ہونے لگی تھی، لگتا تھا کہ سورج بھی رات کی گمبھیر تاریکیوں کے حصار سے آزاد ہو کراپنی سنہری اور تابناک کرنوں کا جال روئے ارض پر پھیلانے کی تیاری میں تھا۔ اسی رنگ و آہنگ کے دلفریب ماحول میں اچانک… وطن عزیز کے پڑوسی ملک بھارت نے غیر اعلانیہ طور پر بزدلانہ انداز سے حملہ کر دیا۔پاکستان کے دل شہر لاہور اور اس کے مضافات کے دیہاتوں میں اپنی پوری طاقت کے ساتھ یلغار کر دی۔ ایک طرف بھاری توپیں شہری آبادیوں پر آتش و آہن کی بارش کر رہی تھیں تو دوسری جانب لڑاکا طیارے وقفے وقفے سے شہروں پر بمباری کر رہے تھے۔

پاکستان کے عوام کو اس بزدلانہ حملے کی اطلاع 6ستمبر کی دوپہر اس وقت کے صدر پاکستان جنرل ایوب خان کی نشری تقریر سے ملی۔ صدر پاکستان کی ولولہ انگیز تقریر نے پوری قوم کے اندر ایک نئی روح پھونک دی اور وہ سیسہ پلائی ہوئی دیوار کی مانند دشمن کے سامنے سینہ سپر ہوگئی۔ صدر پاکستان نے قوم کو اسی نعرۂ تکبیر کے حوالے سے مخاطب کیا جو تحریک پاکستان کا نعرہ تھا یعنی پاکستان کا مطلب کیا لا الہ الا اللہ محمد رسول اللہ۔ صدر ایوب کہا:

’’ میرے عزیز ہم وطنو! السلام علیکم،

دس کروڑ پاکستانیوں کے امتحان کا وقت آ پہنچا ہے۔آج صبح سویرے ہندوستانی فوج نے پاکستان کے علاقے پر لاہور سے حملہ کیااور بھارتی بیڑے نے وزیرآباد پر کھڑی ہوئی ایک مسافر گاڑی کو اپنے بزدلانہ حملے کا نشانہ بنایا۔بھارتی حکمراں شروع سے ہی پاکستان   کے وجود سے نفرت کرتے رہے ہیں۔ مسلمانوں کی اس آزاد مملکت کو انہوں نے کبھی دل سے قبول نہیں کیا۔ پچھلے اٹھارہ برس سے وہ پاکستان کے خلاف جنگی تیاریاں کر تے رہے ہیں۔ پاکستان کے دس کروڑ عوام جن کے دل میں لا الہ الا اللہ محمدرسول اللہ کی صدا گونج رہی ہے، اس وقت تک چین سے نہیں بیٹھیں گے جب تک دشمن کی توپیں ہمیشہ کے لیے خاموش نہیں ہو جا تیں۔ ہندوستانی حکمراں شاید ابھی نہیں جانتے کہ انہوں نے کس قوم کو للکارا ہے۔ ہمارے دلوںمیں ایمان و یقین کی طاقت ہے اور ہمیں معلوم ہے کہ ہم سچائی کی جنگ لڑ رہے ہیں ۔ ملک میں آج ہنگامی صورت حال کا اعلان کر دیا گیا ہے۔ جنگ شروع ہو چکی ہے۔ دشمن کو فنا کر نے کے لیے ہمارے بہادر فوجوں کی پیش قدمی جاری ہے۔ اللہ تعالیٰ نے پاکستان کی مسلح فوجوں کو اپنے جوہر دکھانے کا موقع عطا کیا ہے۔

میرے ہم وطنو! آگے بڑھو اور دشمن کا مقابلہ کرو۔ خدا تمھارا حامی و ناصر ہو۔ آمین، پاکستان پائندہ باد‘‘۔

جب جنگوں کا عفریت سر ابھارتا ہے تو متحارب ملکوں میں خوف و دہشت اور افرا تفری کی فضا جنم لیتی ہے، مایوسی ، جان و مال کے تحفظ کا خدشہ، غیر یقینی کی کیفیت، گرانی، ذخیرہ اندوزی، قحط سالی، لوٹ مار اور نت نئے جرائم کا اضافہ ہوجاتا ہے۔ طلب و رسد کا توازن بگڑجاتا ہے، یہ ہر جنگ کا منطقی تقاضا ہے۔ مگر حیرت کی بات یہ ہے کہ جنگ ستمبر کے دوران پاکستان میں ایسا کچھ بھی نہیں ہوا۔ بلکہ اس کے بر خلاف بھائی چارگی، حب الوطنی، جوش و ولولہ،نیک نیتی اور ایک دوسرے کے لیے ایثار و قربانی کے شدید جذبات پاکستانی معاشرےمیں اجاگر ہو گئے۔ ایوب خان کے الفاظ نے جادو کا سا کام کر دکھایا۔ پوری قوم ملی یک جہتی کے ساتھ دشمن کے حملوں کا منہ توڑ جواب دینے کے لیے اٹھ کھڑی ہوئی۔ شاعروں نے سینوں میں گرماہٹ پیدا کر نے کے لیے جنگی نغمے لکھے، ان نغموں کے ذریعے عوام اور فوجوں میں جذبۂ شہادت کو اجاگر کیا۔ان دنوں ریڈیو اور اخبارات ہی ابلاغ کا ذریعہ تھے، چنانچہ ریڈیو سے نشر ہونے والی خبروں کے وقت ایک مجمع سا لگ جاتا تھا۔ دوسری طرف ملک میں شہری دفاع کا نظام تشکیل دیا گیا۔ رضا کاروں کی بھرتی شروع ہوئی۔ہسپتالوں اور طبی مراکز میں خون کے عطیات دینے والوں کی قطاریں لگ رہی تھیں۔کیا نوجوان کیا بوڑھے ، سب ہی شوق شہادت کے متمنی تھے۔خندقیں کھودی گئیں مگر کسی ایک فرد کو بھی خطرے کے سا ئرن بجتے وقت ان میں چھپتے نہ دیکھا گیا، بلکہ عین خطرے کے وقت لوگ محلے کی گلیوں اور سڑکوں پر آجاتے یا مکان کی چھتوں پر چڑھ جاتے۔۔ شاید زندہ قوموں کی یہی پہچان ہے۔

پاکستانی قوم میں اس معجزاتی قلب ماہیت کا سب سے بڑا سبب اس کے سوااور کچھ نہیں تھا کہ مملکت کے حکمران نے اس قوم کو اللہ اور رسول کے حوالے سے پکارا تھا۔ اور حقیقت بھی یہی ہے کہ ایک مسلمان کے لیے قوت محرکہ صرف اسلام ہے۔یہ اسلام ہی تھا جس نے ان بدووں کی زندگی کی کایا پلٹ دی تھی جن کی پوری معاشرت اورعقائد و رسومات پر جہالت کے دبیز پردے پڑے ہوئے تھے۔ غور کیا جائے تو پاکستان کا وجود تو خود ایک معجزہ ہے۔ اس کی بنیادوں کی آبیاری بھی اسلام کے آب مصفٰی سے کی گئی ہے۔اسلام ہی وہ قوت محرکہ(motivating force)ہے جو قوموں کی اجتماعی وانفرا دی زندگی کا ایک مکمل ضابطہ ٔ حیات پیش کرتا ہے۔یہ اسلام کی ہی برکات ہیں کہ دنیا کے بیشتر خطوں میں جابر و فاسق حکمرانوں کے خلاف احیائی تحریکیں جنم لے رہی ہیں اور اسلام کی نشاۃ ثانیہ کے لیے راہیں ہموار ہورہی ہیں۔

بہر حال پاکستانی قوم کی عظمت و عزیمت ، جوش و ولولے اور نیک نیتی نے اور پاک فوج کی بہادرانہ اور جذبہ ٔ سرفروشی نے وطن کی عزت و آبروبچا لی اور بھارت جیسے مکار اور ازلی دشمن کو ذلت آمیز شکست کا منہ دیکھنا پڑا۔ لاالہ الا اللہ کی نا قابل تسخیر قوت نے پاکستان کو نمایاں فتح عطا فرمائی۔یہ پاکستان کی عوا می اور عسکری یک جہتی اور حب الوطنی کی داستا ن تھی۔اس فتح و کامرانی کا چہرہ روشن اور تابناک ہے۔

اس خوش کن اور فتحیابی کے واقعہ کو گزرے 48برس بیت چکے ہیں ۔ آج وطن عزیز بدترین حالت سے دوچار ہے۔وہ خارجی اور داخلی دونوں جانب سے شدید خطرات کی زد میں ہے۔اس کی نظریاتی اور جغرافیائی سلامتی مخدوش ہے۔ کوئی دن ایسا نہیں گزرتا جب اس کی سرحدوں کا تقدس پامال نہ کیا جاتا ہو، امریکا کو کھلی آزادی ہے کہ وہ جب چاہے، کہیں بھی ڈرون حملے کرسکتا ہے۔ شمال مغربی سرحدوں سے جب چاہتا ہے در اندازی کر کے پاکستان کی حدود میں گھس آتا ہے ، فوجی چوکیوں اور تنصیبات پر حملہ کر کے پاکستان کی سرحدوں اور اس کی سلامتی کے لیے مسلسل خطرہ بنا ہوا ہے۔

اندرون ملک حالات روز افزوں بد سے بدتر ہوتے جارہے ہیں۔ ملک کے مختلف شہروں میں آئے دن خود کش حملے اور بم دھماکے ہورہے ہیں، مسجدیں، مدارس اور دینی مراکزتک اس دہشت گردی سے محفوظ نہیں رہے۔ بچیوں کے اسکولوں کو بھی نہیں بخشا جاتا۔دوسری جانب ملک کا سب سے بڑا معاشی و اقتصادی شہر کراچی برسوں سے بد امنی ، لاقانونیت اور دہشت گردی کا شکار ہے۔روزانہ پندرہ سے بیس افراد، جن میں نوجوان ، بوڑھے، خواتین اور معصوم بچے اس درندگی کی بھینٹ چڑھ جاتے ہیں ۔اغواء برائے تاوان اور بوری بندمسخ شدہ لاشوں کا سلسلہ جاری ہے۔انتظامیہ قطعی بے بس ہے یا خاموش تماشائی بن کر اپنی سیاسی آویزشوں میں مگن ہے۔کبھی پاکستان کا مطلب تھا لا الہ الا للہ، مگر آج پاکستان کا مطلب ، کرپشن، لوٹ مار ،ظلم و نا انصافی ،رشوت ستانی،خیانت، منافع خوری، ذخیرہ اندوزی، ہوشربا مہنگائی،بلیک مارکیٹینگ،حصول اقتدار کی رسہ کشی، وطن دشمن عناصر سے اپنے مفادات کی تکمیل کے لیے ساز بازہوکر رہ گیا ہے۔

قائد اعظم ؒ کے اس دار فانی سے کوچ کے بعد مسند اقتدار جن ہاتھوں میں آئی ، ان میں سے کوئی بھی محب وطن اور ملک کا خیر خواہ نہیں

آج پاکستان کو بنے تقریبا ً 66 برس ہو چکے ہیں، اور پاکستان بتدریج معاشی، سماجی اور معاشرتی تباہی و بربادی کی طرف بڑھ رہا ہے۔سیاست دانوں نے تو یہ طے کیا ہوا ہے کہ اس بہتی گنگا میں جتنے ہاتھ دھو سکتے ہو دھولو، اس لیے کہ،

بابر بہ عیش کوش کہ عالم دوبارہ نیست

لیکن ذہنوں میں سوال ابھر تا ہے کہ ان مخدوش ، تباہ کن اور خوف و دہشت کے حالات میں وطن عزیز کی فوج کا کیا کردار ہونا چاہئے، آیا فوج کی ذمہ داری محض سرحدوں کی حفاظت کر نا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ اگر سرحدوں کے حوالے سے بھی صداقت آمیز جائزہ لیا جائے تو یہ واضح ہوگا کہ ہماری تو سرحدیں بھی پوری طرح محفوظ و مامون نہیں ہیں۔پڑوسی ملک بھارت آئے دن لائن آف کنٹرول کی خلاف ورزی کر تا رہتا ہے۔ اس کے طیارے فائرنگ کر کے بھاگ جا تے اور ہمارے بے حس حکمران ایک ڈھیلا ڈھالا سا احتجاج کر کے بیٹھ جاتے ہیں۔تو ہماری افواج کا کردار تو یہاں بھی پوری طرح فعال نہیں ہے۔پورے ملک اور خصوصاً کراچی شہر میں رینجرز کی ایک کثیر تعداد موجود ہے جو سڑکوں، چوراہوں اور شہر کی بڑی بڑی شاہراہوں پر گشت کر تی نظر آتی ہے ۔لیکن جب بھی شہر کے کسی مصروف ترین علاقے، کاروباری مراکز یا کسی محلے میں کوئی دہشت گردی کی کار روائی ہوتی ہے، خود کش حملہ ہو یا بم دھماکہ، ایسی کسی جگہ پر رینجرز کا کوئی وجود نہیں ہوتا۔ دلچسپ بات تو یہ ہے کہ اکثر ایسے مقامات پر بھی دن دھاڑے دہشت گردی، لوٹ مار، ڈاکہ زنی اور قتل غارت گری کی کار روائی عمل میں آئی ہے،جہاں صرف چند قدم کے فاصلے پر ہی رینجرز کی چوکی موجود تھی۔ بعض سانحات کے موقعے پر رینجرز کے اہل کاروں کو یہ کہتے ہوئے بھی سنا گیا کہ ہمیں کسی معاملے میں دخل اندازی کا اختیار حاصل نہیں ہے۔گویا کوئی اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھے، کوئی ڈاکہ زنی اور لوٹ مار کا شکار ہو جائے یا کوئی دہشت گردی کا نشانہ بن جائے ، یہ صرف حکم کے بندے ہیں، اور یہ ہر جگہ بے جان مجسموں (statue) کی مانند کھڑے رہتے ہیں۔

’’ایک عصری اخبار کی حالیہ رپورٹ کے مطابق آرمی چیف جنرل اشفاق پرویز کیانی اور وزیر اعظم میاں نواز شریف کی ایک ملاقات میں دیگر امور پر بحث کے ساتھ کراچی میں بڑھتی ہوئی بد امنی اور ملک سے دہشت گردی کے خاتمے کے لیے مجوزہ کاؤنٹر ٹیرر ازم ٹاسک فورس بنانے پر بھی تبادلۂ خیال کیا گیا۔ عسکری قیادت نے تجویزدی کہ گلی محلوں میں دہشت گردی کے خلاف آ پریشن میں فوج کو نہ گھسیٹا جائے۔ اس سے فوج کی کار کردگی پر اثر پڑنے کا خطرہ ہے۔اور دیگر کئی مسائل بھی جنم لیتے ہیں۔دوسری طرف پولیس اس مقصد کے لیے ویسے ہی فٹ نہیں۔ لہٰذا ایک نیا ادارہ بنایا جائے جسے فوج پوری طرح سے تربیت فراہم کرے گی۔ذ رائع کا کہنا ہے کہ اس ادارے میں آرمی کے ریٹائرڈ کمانڈوز،پولیس اور رینجرز سے دلچسپی رکھنے والے با صلاحیت افسروں اور جوانوں کے ساتھ بڑے پیمانے پر بھرتی کی جائیگی اور اس ادارے کی تربیت کی ذمہ داری پاک فوج لے گی۔ اور یہ ادارہ مکمل طور پر دہشت گردی پر فوکس کرے گا‘‘۔

ملک میں ہونے والی دہشت گردی اور قتل و غارت گری سے نبٹنے کے لیے یہ یقینا خوش آئند اور راست فیصلہ ہے، جبکہ اس کو بہت پہلے طے ہوجانا چاہیے تھا اور اس کے مطابق عمل شروع ہو چکا ہوتا تو ممکن ہے کہ ہزاروں انسانی جانیں دہشت گر دی کی بھینٹ چڑھنے سے بچ جاتیں۔ بہر حال دیر آید درست آید کے مصداق جو حکومت اور عسکری قیادت کے مابین ذہنی ہم آہنگی کے مطابق تجویز کیا گیا ہے، اللہ کرے اس پر ترجیحی بنیادوں پر عمل بھی شروع ہوجائے۔ کیونکہ ہمارے ملک کا المیہ ہی یہ ہے کہ نظم و نسق کے حوالے سے اصول و قوانین تو ایک ہی نشست میں طے کر لیے جاتے ہیں مگر ان پر عمل پیرا ہونے کی نوبت آتی ہی نہیں ہے۔ البتہ ان امور پر فوری عمل کر لیا جاتا ہے جو حکومت کے اپنے مفادات میں ہوتے ہیں۔

کسی بھی ملک کی فوج ایک بہت بڑی قوت اور فعالیت کی حامل ہوتی ہے۔یہ ادارہ تو اپنے اند ر حکومتوں کے تختے الٹنے کی طاقت بھی رکھتا ہے۔ اور جمے جمائے اقتدار کو بیخ وبن سے اکھاڑنے کے ہنر جانتا ہے، جبکہ ان حکومتوں کو بیرونی اور اندرونی دونوں طرف سے طاقت اور حمایت (support) بھی حاصل ہوتی ہے ، اس کے باوجود ان کے اقتدار کا دھڑن تختہ عسکری قوت کے ذریعے کر دیا جاتا ہے، پھر یہ کیسے ممکن ہے کہ ملک کے اندر پنپنے والی سازشیں، شورشیں اور دہشت گردی کی کار روائیاں تسلسل کے ساتھ جاری رہیں اور اپنے مذمو م مقاصد کو غذا فرہم کرتی رہیں۔یقینا کہیں نہ کہیں دال میں کالا ضرور ہوتا ہے۔کبھی مالی منفعتیں آڑے آتی ہیں تو کہیں عہدہ اور منصب پائوں کی زنجیر بن جاتا ہے ، اور ارباب حل و عقدسب کچھ دیکھ کر ، سن کر ، محسوس کر کے بھی ، سنگین حالات کی طرف سے چشم پوشی اختیار کر لیتے ہیں کہ اسی میں ان کے اغراض و مقاصد اور اپنے ذاتی ، خاندانی ،گروہی مفادات اور اقتدار کو تحفظ حاصل ہوتا ہے۔

فوج کا اصل کردار تو ملک کی سرحدوں کی حفا طت اور ان کی نگہبانی ہوتا ہے۔ لیکن ملک کے اندر حالات کشیدہ ہوں۔رعایا کو جان ومال، عزت و ناموس کا تحفظ اور سکون و اطمینان حاصل نہ ہو،ہر آن یہ دھڑکا لاحق ہو کہ نہ جانے کب،کس جگہ اور کس موقعہ پر اپنے مال و متاع اور زندگی سے ہاتھ دھو بیٹھیں، جب کہ حکومتی سطح پر کوئی ان کی داد رسی کرنے والا اور ان کو تحفظ فراہم کر نے والا نہ ہو۔معصوم بچوں کے نازک جسموں کے چیتھڑے اڑتے دیکھ کر بھی ان کے دل میں کوئی کسک پیدا نہ ہو۔جوانوں کے لاشے گھروں سے نکلتے دیکھ کر بھی ان کے سینے میں کوئی درد نہ اٹھے، کوئی ٹیس نہ ہو، وہ محض خاموش تماشائی بنے رہیں اور کسی بھی ہولناک واقعہ پر ایک رسمی سی مذمت کرکے، مجرموں سے آہنی ہاتھوں سے نبٹنے اور ان کو کیفر کردار تک پہنچانے کا وعدۂ فردا کرکے اورلواحقین کے لیے کچھ رقم دینے کا اعلان کر کے اپنی جان چھڑالیا کریں…ان نامسائد حالات میں توفوج اپنے عسکری جوہر دکھا کراور مناسب حال حکمتِ عملی سے کام لے کر ملک میں ہونے والے ہولناک واقعات کا تدارک کرے، اس لیے کہ رعایا اور ریاست تو ایک دوسرے کے لیے لازم و ملزوم ہیں ، رعایا کا وجود ہوگا تو ریاست کا جواز بھی پیدا ہوگا۔ اور جب یہ دونوں ہوں گے توملک کی نظریاتی اور جغرافیائی سرحدوں کی حفاظت کے لیے فوج کی ضرورت درپیش ہوگی۔چنانچہ اسی تناظر میں دیکھا جائے تو ریاست کے اندر رعایا کی جان و املاک اور ان کے دیگر مفادات کا تحفظ کرنا حکومت کے ساتھ کسی حد تک فوج کی ذ مہ داری بھی ہے۔

اس سے پہلے کہ عوام دہشت گردگی کی روزمرہ کی وارداتوں، خود کش حملوں اور بم دھماکوں کے نتیجے میں اپنے جوان بیٹوں،بھائیوں،عزیزوں اور معصوم بچوں کے جسموں کے بکھرے ہوئے لاشے اٹھا اٹھا کر تھک جائیں اور روز روز اپنی چہیتوں کے جنازے لے جاتے ان کے کندھے شل ہوجائیں ۔۔حکومت اور پاک فوج کو اس سنگین صورت حال سے نبٹنے کے لیے کوئی قرار واقعی اور ٹھوس قدم اٹھانے پر فوری اور اولین توجہ دینی چاہئے کہ اس میں ملک و قوم کی بقاء اور سلامتی ہے۔

پاکستانی عوام کے دل کی دھڑ کنوں میں آج بھی ستمبر 1965کی طرح لا الہ الا اللہ کی صدائیں گونج رہی ہیں۔ آج بھی اگر پاکستان کے حکمراں ملک و قوم سے مخلص ہوکر اپنا کردار ادا کریں اور قوم کو اس وطن عزیز کی بقاء اور تحفظ کے لیے پکاریں تو ان حالات میں بھی ستمبر 1965کا جذبۂ شہادت قوم کے سینے میں زندہ ہوجائے گا، یہ جذبہ آج بھی ماضی کی طرح ان کے قلب و ذہن میں موجزن ہے۔ آج بھی پاکستانی قوم سیسہ پلائی ہوئی دیوار بن کر اپنے سے کئی گنا طاقتور دشمن کو شکست دے سکتی ہے۔ماہ ستمبر کا اصل پیغام یہی ہے کہ حکمرانوں کو اپنے ذاتی مفادات سے بالا تر ہوکر سوچنا پڑے گا۔ہر فیصلہ ملک و قوم کی فلاح اور ان کی خیر خواہی پر مبنی ہونا وطن کے وسیع تر مفاد میں ہے۔                                                                                                        

دوسری جانب فوج کو 6 ستمبر کے دن اپنے شہداء کو سلامی دینے اور ان کی فقید المثال جرأت و بہادری اور حب الوطنی کو خراج عقیدت پیش کر تے وقت یہ نہیں بھولنا چاہیے کہ پاک افواج کے لیے، وطن عزیز کے کروڑوں عوام کے دلوں میں عزت و احترام کے شدید جذبات ہیں۔ وہ اس کو محض وطن کی سرحدوں کا محافظ ہی نہیں سمجھتے، بلکہ ملک کے موجودہ دگر گوں حالات کی سنگینی سے نجات حاصل کرنے اور سکھ کا سانس(a sigh of relief) لینے کے لیے بھی ان کی نظریں عسکری تدارک اور اس کی بھر پور مدد و اعانت پر لگی ہوئی ہیں۔ امید ہے کہ عسکری قوت گہرے غور و فکر اور عوام دوستی کا ثبوت دیتے ہوئے وقت کے دھارے کا رخ صحیح سمت میں موڑنے کا فیصلہ کرے گی۔اور پاکستان کے عوام کوبے حس،مفاد پرست ، عوام کی دولت پر عیش و عشرت کے مزے لوٹنے والے، عوام کے منہ سے نوالہ چھین کر یورپ و امریکا کے بینکوں میں بھاری رقمیں جمع کروانے ، ترقی یافتہ اور حور و قصور سے مزین ملکوں میں اپنے محل سرائے تعمیر کر نے والے، انسانی جذبات و احساسات سے عاری حکمرانوںکے غلبۂ حکمرانی سے نجات دلوائے گی۔یا ان کی فکری کجی اور سفاکیت کی روش کو حب الوطنی، اخلاص و درد مندی ، عوام کی خیر خواہی میں بدلنے کی کوششیں کرتے ہوئے انہیں یہ احساس دلائے گی، کہ اقتدار ان کا حق نہیں بلکہ یہ ایک بھاری ذمہ داری، کڑی آزمائش اور اللہ کی طرف سے سونپی ہوئی ایک امانت ہے جس کی اللہ کے سامنے جواب دہی کر نی ہوگی۔وطن عزیز کے حکمرانوں کو خلیفۃ المؤمنین عمر ابن الخطاب رضی اللہ عنہ کا وہ فکری اور خوف الٰہی سے لرزتا قول نہیں بھولنا چاہیے کہ ’’ اگر نہر فرات کے کنارے کوئی کتا بھی پیاس سے مر گیا تو مجھے ڈر ہے کہ اس کے بارے میں عمر سے سوال کیا جائے گا‘‘۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے