انسانی فطرت میں چند ایسی کمزوریاں پنہاں ہیں جن کا ادراک کیے بغیر نہ تو اس کی انفرادی شخصیت کی صحیح تعمیر ممکن ہے اور نہ اجتماعی تربیت اور نفوس انسانی کے تزکیہ کی کٹھن منازل سر کی جاسکتی ہیں اس کی وجہ یہ ہے کہ انسان اپنی ذہنی وعقلی قوتوں کی بنیاد پر اس کائنات میں جتنا سربلند ہے اپنی خلقت وفطرت میں موجود کمزوریوں کی وجہ سے اتنا ہی ضعیف وناتواں بھی ہے۔

خُلِقَ الْإِنْسَانُ ضَعِیْفًا

قرآن کریم میں انسانی طبیعت کی ان کمزوریوں کا جابجا ذکر ملتاہے جن کے متعلق یہ بات یقین سے کہی جا سکتی ہے کہ اگر انسان اپنی ان خلقی حالتوں پر غورکرتا رہے تو اس کی بہت سی معاشرتی کوتاہیوں اور عبادت وبندگی سے متعلق غفلت وجہالت کا علاج ممکن ہے۔ فطرت انسانی کی یہی کمزوریاں برائیوں کا سرچشمہ، گناہوں کی جڑ اور بدکاریوں کی بنیاد ہیں لیکن چونکہ رب تعالی کی رحمت ہر شے پر محیط ہے۔

وَرَحْمَتِی وَسِعَتْ كُلَّ شَیْءٍ (سورۃ الاعراف:156)

اور وہ کسی نفس کو بھی اس کی وسعت سے زیادہ تکلیف نہیں دیتا ۔

لَا یُكَلِّفُ اللہُ نَفْسًا إِلَّا وُسْعَهَا

اس لیے فطرت انسانی کی یہی کمزوری اپنی دوسری حیثیت میں انسان کے لیے پیغام رحمت، نوید مغفرت اور آیت تخفیف بن گیی ہے۔ ( سورۃ البقرۃ : 286)

یُرِیْدُ اللّٰهُ اَنْ یُّخَفِّفَ عَنْكُمْ ۚ وَخُلِقَ الْاِنْسَانُ ضَعِیْفًا(النساء : 28)

اللہ چاہتا ہے کہ تم سے (بوجھ) ہلکا کرے اور انسان کمزور پیدا کیا گیا ہے۔

عجلت:

انسانی سرشت میں جلد بازی کا عنصر شامل ہے جبکہ کوئی بھی اعلیٰ مقصد ایک طرف قربانیوں کا طالب ہوتا ہے تو دوسری طرف حصول مقصد کے لیے اختیار کار کے مطابق مدت بھی درکار ہوتی ہے ۔ اس کے برعکس انسان اپنی جدوجہد اور عمل کے نتائج جلد دیکھنا چاہتا ہے ۔

كَلَّا بَلْ تُحِبُّونَ الْعَاجِلَةَ (القیامۃ : 20)

اس کی وجہ یہ ہے کہ عجلت انسان کی خمیر میں شامل ہے ۔

خُلِقَ الْإِنْسَانُ مِنْ عَجَلٍ(الانبیاء:37)

انسان اپنی اس عجلت پسندی کے باوجود خیر وبھلائی اور نفع اندوزی کے سلسلے میں جلد باز نہیں بلکہ اپنی پست ہمتی، بے صبری اور زود پسندی کی وجہ سے بعض اوقات اپنے لیے ناگہانی آفت یا اتفاقی موت تک کی دعائیں مانگنا شروع کر دیتاہے۔

وَیَدْعُ الْإِنْسَانُ بِالشَّرِّ دُعَاءَهُ بِالْخَیْرِ وَكَانَ الْإِنْسَانُ عَجُولًا (الاسراء:11)

انسان برائی کے لئے بھی ایسے ہی دعا کرتا ہے جیسے بھلائی کے لئے کرتا ہے دراصل انسان بڑا جلد باز واقع ہوا ہے۔

جس طرح نیکی کے نقیب اپنی نیکی کے نتائج فوری دیکھنے کے متمنی ہوتے ہیں اسی طرح منکرین حق بھی اپنی طاقت کی بد مستی میںعذاب الٰہی کے نزول کے لیے جلدی مچارہے ہوتے ہیں۔

وَیَسْتَعْجِلُونَكَ بِالْعَذَابِ(العنکبوت:53)

مشقت:

انسان اپنی خلقت کے لحاظ سے کمزور، پیدائش کے اعتبار سے نازک اور جسم وتوانائی میں نحیف لیکن ہر آن کشمکش عام کے لیے وقف ہے۔ اس کے بازار حیات کی رونق، اس کی زندگی کا مدار اور معیشت کا انحصار تصادم کے دم قدم پر ہے جب تک یہ تصادم قائم ہے زندگی کا سانس چلتاہے۔ تصادم اور کشمکش ختم ہوجائے تو اس پر موت کی گہری نیند طاری ہوجاتی ہے ۔ اس کی ساری زندگی مشقت اور سختیوں کا مقابلہ کرتے ہوئے گزر جاتی ہے کیونکہ اس کی تخلیق ہی میں مشقت کا عنصر شامل ہے۔

لَقَدْ خَلَقْنَا الْاِنْسَانَ فِیْ كَبَدٍ (البلد:4)

کہ ہم نے انسان کو سختی جھیلتے رہنے والا پیدا کیا ہے۔

مولانا سید ابو الاعلی مودودی رحمہ اللہ اس آیت کی تشریح میں لکھتے ہیں :

’’اسنان کے مشقت سے پیدا کیے جانے کا مطلب یہ ہے کہ انسان اس دنیا میں مزے کرنے اور عیش وآرام کے لیے پیدا نہیں کیا گیا بلکہ اس کے لیے یہ دنیا محنت، مشقت اور سختیاں جھیلنے کی جگہ ہے اور کوئی انسان بھی اس حالت سے گزرے بغیر رہ نہیں سکتا …… ہر انسان کی زندگی ، ماں کے پیٹ میں نطفہ قرار پانے سے لے کر موت کے آخری سانس تک ، اس بات پر گواہ ہے کہ اس کو قدم قدم پر تکلیف ، مشقت، محنت، خطرات اور شدائد کے مرحلوں میں سے گزرنا پڑتاہے۔ ( تفیہم القرآن ج 6 ، ص : 339)

ظلم وجہالت:

انسان فطرۃً سادہ اور بے باک ہے سادگی اسے ہر خوشنما اور دلفریب صورت کا شیفتہ بنادیتی ہے اور بے باکی اسے خطرات میں لا پھینکتی ہے ۔ اس کی سادگی نے اسے عقل کے جال میں پھنسایا اور اس کی بے باکیوں نے اسے زمین پر پٹک دیا۔ اس کی بے باکی ونادانی ہی ہے کہ جس بار کو آسمان وزمین نے اٹھانے سے انکار کردیا انسان نے اسے اٹھا لیا ۔

وَحَمَلَهَا الْإِنْسَانُ إِنَّهُ كَانَ ظَلُومًا جَهُولًا(الاحزاب:72)

سرکشی:

حد سے بڑھی ہوئی بے باکی وسادگی کے ساتھ اگر جبر واختیارِ سلطنت اور فراوانی رزق شامل ہوجائے تو انسان میں ایک ایسی سرکشی جنم لیتی ہے جو انفرادی صورتوں میں عیش پرستی، بداعمالی اور اتلافِ حقوق کا سبب بنتی ہے۔ جبکہ اجتما عی معاملات میں ایک ظالم حکومت اور جابر سلطنت کا روپ دھار لیتی ہے۔ اس کی نمایاں مثال فرعون ہے۔

وَفِرْعَوْنَ ذِی الْاَوْتَادِ الَّذِیْنَ طَغَوْا فِیْ الْبِلَادِ فَأَكْثَرُوا فِیْهَا الْفَسَادَ ( الفجر:10۔12)

اور فرعون کے ساتھ جو میخوں والا تھا ۔ ان سب نے شہروں میں سر اٹھا رکھا تھا۔ اور بہت فساد مچا رکھا تھا۔

دولت کی فراوانی اور رزق کی کشادگی بھی انسان کو اپنے معبود حقیقی کے قانون کا باغی بنا دیتی ہے ۔

كَلَّا إِنَّ الْإِنْسَانَ لَیَطْغَى أَنْ رَآهُ اسْتَغْنَى ( العلق :6۔7)

سچ مچ انسان تو آپے سے باہر ہو جاتا ہے۔اس لئے کہ وہ اپنے آپ کو بےپرواہ (یا تونگر) سمجھتا ہے۔

عزم کی کمزوری:

بھول چوک اور عزم وارادہ کی کمزوری بھی انسانی سرشت کا حصہ ہے۔ سیدنا آدم علیہ السلام کو اللہ تعالیٰ نے جنت کے ایک درخت کے قریب جانے سے روکا (وَلَا تَقْرَبَا هَذِهِ الشَّجَرَةَ) اور ساتھ ہی تنبیہ کی کہ (فَتَكُونَ مِنَ الظَّالِمِیْنَ ) اتنی سخت تنبیہ کے باوجود آدم علیہ السلام سے لغزش ہوئی۔ اس لغزش کی وجہ اللہ تعالیٰ نے آدم علیہ السلام کی بھول چوک اور عزم کی کمزوری بیان کی ہے ۔ فرمایا :

وَلَقَدْ عَهِدْنَا إِلَى آدَمَ مِنْ قَبْلُ فَنَسِیَ وَلَمْ نَجِدْ لَهُ عَزْمًا(طہ:115)

ہم نے آدم کو پہلے تاکیدی حکم دے دیا تھا لیکن وہ بھول گیا اور ہم نے اس میں کوئی عزم نہیں پایا ۔

مولانا مودودی رحمہ اللہ اس آیت کی تفسیر میں لکھتے ہیں :

’’یہاں اللہ تعالیٰ آدم علیہ السلام کی پوزیشن صاف کرنے کے لیے قثہ بیان نہیں کر رہا ہے بلکہ یہ بتانا چاہتا ہے کہ وہ بشری کمزوری کیا تھی جس کا صدور ان سے ہوا اور جس کی بدولت صرف وہی نہیں بلکہ ان کی اولاد بھی اللہ تعالیٰ کی پیشگی تنبیہات کے باوجود اپنے دشمن کے پھندے میں پھنستی رہی ہے۔ ( تفہیم القرآن ج 3 ، ص 130)

ناشکری :

انسانی طبیعت اظہار استغنا کے لیے تمول کی خواہشمند اور دولت وثروت کی طلبگار ہے۔ اس لا متناہی طلب کا پیٹ سونے کی وادیاں بھی نہیں بھر سکتیں۔ اس لیے سب کچھ حاصل ہونے کے باوجود انسان خدا کا ناشکر اہی رہتا ہے۔

إِنَّ الْإِنْسَانَ لِرَبِّهِ لَكَنُودٌ وَإِنَّهُ عَلَى ذَلِكَ لَشَهِیْدٌ وَإِنَّهُ لِحُبِّ الْخَیْرِ لَشَدِیْدٌ (العادیات:6۔8)

یقیناً انسان اپنے رب کا ناشکرا ہے۔اور یقیناً وہ خود بھی اس پر گواہ ہے۔ یہ مال کی محبت میں بھی بڑا سخت ہے ۔

انسان میں یہ ناشکری کبھی تو حالات سے مایوسی وناامیدی کے بعد پیدا ہوتی ہے ۔

إِنَّهُ لَیَئُوسٌ كَفُورٌ(ھود:9)’’

بے شک وہ مایوس اور ناشکر گزار ہے ‘‘۔

اور کبھی مصائب وآلام سے آزادی کے بعد خوشحالی بھی اسے اللہ کا ناشکرا بنادیتی ہے جب کشتی گرداب میں چکراتی ہے تو حالت اضطراب میں اللہ کے سامنے ہاتھ اٹھ جاتے ہیں لیکن

فَلَمَّا نَجَّاكُمْ إِلَى الْبَرِّ أَعْرَضْتُمْ وَكَانَ الْإِنْسَانُ كَفُورًا (الاسراء : 67)

پھر جب تمہیں خشکی کی طرف نجات دے دی تو تم اعراض کرنے لگے ۔ کیونکہ انسان ہے ہی ناشکرا۔‘‘

بخل:

رفاہِ عامہ ، صلہ رحمی، شخصی احسان اور انفاق فی سبیل اللہ کی مدات میں انسان خرچ کرتے ہوئے دل میں تنگی محسوس کرتاہے جبکہ بخل اور کنجوسی کی کتنی ہی شکلیں ہیں جو سخاوت واسراف کی حالت میں بھی پوشیدہ رہتی ہیں۔ دل ایک قسم کی بے چینی وکرب میں مبتلا رہتاہے ان سب سے بالا تر فکر فردا اسے بری طرح ستاتی ہے وہ سیم وزر رکھتے ہوئے بھی افلاس وتنگدستی سے ڈرتا رہتاہے۔ انسان یہ جاننے کے باوجود کے تنگدستی کا ڈر اوا شیطان کی طرف سے ہے ۔ (الشَّیْطَانُ یَعِدُكُمُ الْفَقْرَ وَیَأْمُرُكُمْ بِالْفَحْشَاءِ )(البقرۃ:۲۶۸)جبکہ اللہ تعالیٰ نے اپنے فضل کا وعدہ کیا ہے ۔ (وَاللہُ یَعِدُكُمْ مَغْفِرَةً مِنْهُ وَفَضْلًا)(البقرۃ:۲۶۸) اور باوجود ہر قسم کی کثرت وثروت کے ، خرچ کرتے وقت مال کے ہاتھ سے نکل جانے کا کم سے کم ایک ہلکا سارنج ضرور محسوس کرتاہے۔

قُلْ لَّوْ اَنْتُمْ تَمْلِكُوْنَ خَزَاۗىِٕنَ رَحْمَةِ رَبِّیْٓ اِذًا لَّاَمْسَكْتُمْ خَشْیَةَ الْاِنْفَاقِ ۭ وَكَانَ الْاِنْسَانُ قَتُوْرًا(الاسراء:100)

ـ’’کہہ دیجئے کہ اگر بالفرض تم میرے رب کی رحمتوں کے خزانوں کے مالک بن جاتے تو تم اس وقت بھی اس کے خرچ ہو جانے کے خوف سے اس کو روکے رکھتے اور انسان ہے ہی تنگ دل ۔‘‘

اس بخل وکنجوسی کی بڑی وجہ انسان کی حب مال ہے جو انسان کے اندر ایک طاقتور جذبہ ہے ۔ ( وَإِنَّهُ لِحُبِّ الْخَیْرِ لَشَدِیْدٌ ) (العادیات:۸)

اس کا اظہار ہر عہد کی انسانی تاریخ میں ملتاہے۔

تھڑ دلی :

انسان کی تمناؤں اور آرزوؤں کے نتائج مختلف اشکال، حرص وطمع اور جزع فزع کی صورت میں ظاہر ہوتے ہیں جب فراوانی رزق، اختیارات سلطنت اور عزت وشہرت حاصل ہوتی ہے تو وہ اترانا شروع کردیتاہے اور جو نہی اس پر کوئی مصیبت آتی ہے تو بالکل بے حوصلہ ہو جاتا ہے، بڑے سے بڑا مضبوط اعصاب کا مالک اندر سے ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہوجاتاہے۔ ایسا بھی ہوتاہے کہ تنگدستی کے وقت خوشحالی کے حصول کے لیے اس کے ہاں دعاؤں اور منتوں کے انبار، نذرونیاز کا پشتارہ اور خیرات وصدقات کی فراوانی نظر آتی ہے مگر مقصود حاصل ہوتے ہی اندیشہ فرداً،خیال مستقبل اور بچوں کی فکر آگھیرتی ہے اس وقت تکمیل منت تو درکنار معمولی سے معمولی صدقات کے دروازے بھی وہ بند کردیتاہے ۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے ۔

إِنَّ الْإِنْسَانَ خُلِقَ هَلُوعًا إِذَا مَسَّهُ الشَّرُّ جَزُوعًا وَإِذَا مَسَّهُ الْخَیْرُ مَنُوعًا (المعارج:19۔21)

’’بیشک انسان بڑے کچے دل والا بنایا گیا ہے ۔جب اسے مصیبت پہنچتی ہے تو ہڑ بڑا اٹھتا ہے۔اور جب راحت ملتی ہے تو بخل کرنے لگتا ہے۔‘‘

جھگڑا لو پن :

انسان جس چیز کو اچھا اور بہتر سمجھتا ہے اس کا چلن اور غلبہ ہر جگہ دیکھنا چاہتاہے اس کے لیے وہ تعلیم وتبلیغ سے لے کر قوت وسطوت کے ہر ہتھیار کو آزماتاہے۔ اس کی پسند وناپسند کے برعکس دوسری طرف سے اس کو تعاون کے بجائے اکثر مخالفت کا سامنا ہوتاہے۔ اس کشاکش کا لازمی نتیجہ ہے کہ انسان مقابلہ ومجادلہ کے لیے تیار رہے مگر مقابلہ بازی کے بطن سے ضد، ہٹ دھرمی اور عصبیت بے جا کے رذائل پیدا ہوتے ہیں حتی کہ جب کبھی اس کے سامنے کوئی بھلی اور نیک بات بھی پیش کی جاتی ہے تو جدال ونزع کے لیے تیار ہوجاتاہے۔

وَكَانَ الْإِنْسَانُ أَكْثَرَ شَیْءٍ جَدَلًا (الکہف:54)

’’انسان بڑا ہی جھگڑلو واقع ہواہے‘‘۔

ایک دوسرے مقام پر ارشاد باری تعالیٰ ہے :

خَلَقَ الْاِنْسَانَ مِنْ نُّطْفَةٍ فَاِذَا هُوَ خَصِیْمٌ مُّبِیْنٌ

اس نے انسان کو نطفے سے پیدا کیا پھر وہ صریح جھگڑالو بن بیٹھا ۔(النحل:4)

اضطراب واعراض :

ہر طبقہ کے انسان اپنے اپنے مرتبہ ومنصب کے مطابق مصائب وآلام کا شکار ہوتے ہیں، غرباء کے لیے فکر عیال، امراء کے لیے خوفِ مال، حکمرانوں کے لیے اندیشہ زوال، سب ہی اپنی اپنی مصیبتوں میں اللہ تعالیٰ کو ہی پکارتے ہیں۔ حتی کہ الحاد زدہ انگلستان کو بھی جب جرمنی سے خطرہ درپیش تھا تو ملک کے اندر عیسائیوں کے گرجے، ہندؤوں کے مندر اور مسلمانوں کی مسجدیں غرض ہر مذہب وملت کی عبادت گاہیں، سرکاری طور پر دعا کے لیے منتخب کی گئیں۔ مصیبت میں یہ عاجزی وانکساری اور الحاج وزاری اور دفع مصیبت کے بعد اللہ اور اس کے احکام سے کھلم کھلا بیزاری انسانی فطرت کے عجائب ہیں۔

وَاِذَآ اَنْعَمْنَا عَلَی الْاِنْسَانِ اَعْرَضَ وَنَاٰ بِجَانِبِهٖ ۚ وَاِذَا مَسَّهُ الشَّرُّ كَانَ یَـــــُٔوْسًا (الاسراء:83)

اور جب ہم انسان پر انعام کرتے ہیں تو منہ پھیرتا اور اپنا پہلو موڑ لیتا ہے اور جب اسے کوئی مصیبت پڑتی ہے تو مایوس ہو کر رہ جاتا ہے۔

غربت وافلاس کی زندگی گزارنے کے بعد اگر کسی کو حسن اتفاق یا قوت بازو سے کوئی وسیلہ رزق حاصل ہو جاتاہے تو وہ اللہ ، انسان،اقرباء ،قوم، مذہب سب کے حقوق بھول جاتاہے ۔

وَلَىِٕنْ اَذَقْنَا الْاِنْسَانَ مِنَّا رَحْمَةً ثُمَّ نَزَعْنٰهَا مِنْهُ ۚ اِنَّهٗ لَیَـــُٔــوْسٌ كَفُوْرٌ وَلَىِٕنْ اَذَقْنٰهُ نَعْمَاۗءَ بَعْدَ ضَرَّاۗءَ مَسَّتْهُ لَیَقُوْلَنَّ ذَهَبَ السَّـئِّاٰتُ عَنِّیْ ۭ اِنَّهٗ لَفَرِحٌ فَخُــوْرٌ(ہو د : 9۔10)

’’اگر ہم انسان کو اپنی کسی نعمت کا ذائقہ چکھا کر پھر اسے اس سے لے لیں تو وہ بہت ہی ناامید اور بڑا نا شکرا بن جاتا ہے ۔اور اگر ہم اسے کوئی مزہ چکھائیں اس سختی کے بعد جو اسے پہنچ چکی تھی تو وہ کہنے لگتا ہے کہ بس برائیاں مجھ سے جاتی رہیں یقیناً وہ بڑا اترانے والا شیخی خور ہے ۔‘‘

انسان رب کی عطا کردہ نعمتوں کو اپنا استحقاق گردانتا ہے اور فراوانی رزق کو اپنی خوبی قرار دیتاہے ۔

وَلَىِٕنْ اَذَقْنٰهُ رَحْمَةً مِّنَّا مِنْۢ بَعْدِ ضَرَّاۗءَ مَسَّـتْهُ لَیَقُوْلَنَّ ھٰذَا لِیْ(فصلت:50)

’’اور جو مصیبت اسے پہنچ چکی ہے اس کے بعد اگر ہم اسے کسی رحمت کا مزہ چکھائیں تو وہ کہہ اٹھتا ہے کہ اس کا تو میں حقدار ہی تھا ۔‘‘

انسان کشائش رزق اور تنگی وضیق حیات کی حالت کو دو عجیب وغریب اثرات کی طرف منسوب کرتاہے۔ فراوانی رزق کو اپنے پروردگار کی طرف سے اپنی تعظیم قرار دیتاہے جبکہ تنگی رزق پر اپنی کوتاہیوں کے باعث اپنے آپ کو ملامت کرنے کے بجائےاللہ پر اپنی خفگی کا اظہار کرتاہے۔

فَاَمَّا الْاِنْسَانُ اِذَا مَا ابْتَلٰىهُ رَبُّهٗ فَاَكْرَمَهٗ وَنَعَّمَهٗ ڏ فَیَقُوْلُ رَبِّیْٓ اَكْرَمَنِ   وَاَمَّآ اِذَا مَا ابْتَلٰىهُ فَقَدَرَ عَلَیْهِ رِزْقَهٗ ڏ فَیَقُوْلُ رَبِّیْٓ اَهَانَنِ   (الفجر:15۔16)

’’انسان (کا یہ حال ہے) کہ جب اسے اس کا رب آزماتا ہے اور عزت اور نعمت دیتا ہے تو کہنے لگتا ہے کہ میرے رب نے مجھے عزت دار بنایا ۔اور جب وہ اسکو آزماتا ہے اس کی روزی تنگ کر دیتا ہے تو وہ کہنے لگتا ہے کہ میرے رب نے میری توہین کی (اور ذلیل کیا)۔ ‘‘

خوگر پیکر محسوس :

اللہ تعالیٰ نے انسان میں اپنی روح پھونکی ۔ (وَنَفَخْتُ فِئهِ مِنْ رُوحِیْ)(الحجر:29) اس کی روحانی زندگی کی نشوونما کے لیے انبیاء کرام علیہم السلام بھیجے لیکن انسان اپنی حسی تسکین کے لیے بالعموم روحانی اعمال کو بھی مادی جامے میں دیکھنے کا خواہشمند رہا۔ یہی وجہ ہے کہ سیدنا ابراہیم علیہ السلام جیسے بت شکن کو بھی بت کے سانچے میں ڈھال کر خانہ کعبہ میں کھڑا کردیا گیا۔ سیدنا موسیٰ علیہ السلام کی زندگی میں ہی بنی اسرائیل کبھی بچھڑے کی پرستش کرنے لگے تو کبھی انہوں نے ان دیکھے خدا کو پیکر محسوس کی صورت میں دیکھنے کی خواہش کا اظہار ان الفاظ میں کیا ۔

لَنْ نُّؤْمِنَ لَكَ حَتّٰى نَرَى اللّٰهَ جَهْرَةً (البقرۃ:55)

’’ جب تک ہم اپنے رب کو سامنے دیکھ نہ لیں گے ہرگز ایمان نہ لائیں گے ۔‘‘

سیدنا موسیٰ علیہ السلام کی طرف سے ’’لن ترانی‘‘ کا جواب بھی انسان کی اسی خواہش کا عکاس ہے۔ سیدنا ابراہیم علیہ السلام جیسی موحد ومتوکل شخصیت بھی (رَبِّ أَرِنِی كَیْفَ تُحْیِ الْمَوْتَى)’’ اے میرے رب مجھے دکھا دے کہ تو مردوں کو کیسے زندہ کرتاہے) کا سوال کرتی نظر آتی ہے ۔ اللہ کے سوال (أَوَلَمْ تُؤْمِنْ )’’کیا تو ایمان نہیں رکھتا؟‘‘ کے جواب میں ان کا (وَلَكِنْ لِیَطْمَئِنَّ قَلْبِیْ ) (البقرۃ:260) ’’ لیکن میں دل کا پورا اطمینان چاہتاہوں‘‘۔ کہنا بھی اس بات کا اظہار ہے کہ انسان اپنے اطمینان کے لیے عالم غیب کی اشیاء اورمعاملات کو بھی اپنے محسوسات کے دائرے میں گھیرنا چاہتاہے۔

مایوسی :

انسان دنیا میں اپنی کامیابی کے منصوبے بناتاہے، دوسروں سے توقعات وابستہ کرتاہے، خواہشتات کے محل کھڑے کرتاہے لیکن حقائق کی تلخیوں سے ٹکرا کر اس کی خواہشات وتوقعات اور منصوبے شکست وریخت کا شکار ہوتے رہتے ہیں۔ اس ناکامی میں کہیں تو اس کی فطری عجلت پسندی اور جلد بازی کا ہاتھ ہوتاہے تو کہیں وسائل اور حالات کے ادراک سے عاری منصوبہ بندی کا کردار۔ ناکامی کی صورت میں اپنی عملی کوتاہیوں کا سائنٹفک تجزیہ کرنے کے بجائے وہ مایوسی کے گڑھے میں جاگرتاہے۔

وَاِذَآ اَذَقْنَا النَّاسَ رَحْمَةً فَرِحُوْا بِهَا ۭ وَاِنْ تُصِبْهُمْ سَیِّئَةٌۢ بِمَا قَدَّمَتْ اَیْدِیْهِمْ اِذَا هُمْ یَقْنَطُوْنَ   (الروم:36)

’’اور جب ہم لوگوں کو رحمت کا مزہ چکھاتے ہیں تو وہ خوب خوش ہو جاتے ہیں اور اگر انہیں ان کے ہاتھوں کے کرتوت کی وجہ سے کوئی برائی پہنچے تو ایک دم وہ محض نا امید ہو جاتے ہیں ۔‘‘

انسان چونکہ تھڑ دلا پیدا کیاگیا

( إِنَّ الْإِنْسَانَ خُلِقَ هَلُوعًا )

اس لیے نعمت کے ملنے پر تو اٹھلاتا پھرتاہے لیکن جب اس پر کوئی مصیبت آتی ہے تو جلد ہی مایوس ہوجاتاہے ۔

( وَإِذَا مَسَّهُ الشَّرُّ كَانَ یَئُوسًا ) (الاسراء:83)

انسان کی اس سرشت کی طرف اللہ تعالیٰ نے ایک دوسرے مقام پراشارہ فرمایا :

وَإِنْ مَسَّهُ الشَّرُّ فَیَئُوسٌ قَنُوطٌ (فصلت:49

’’اور جب کوئی آفت اس پر آجاتی ہے تو وہ مایوس اور دل شکستہ ہوجاتاہے‘‘۔

مذکورہ بالا تمام طبعی کمزوریاں ہی درحقیقت انسان کے تحفظ ذات، مستقبل کی تیاری، مالی کفایت شعاری، خلافت فی الارض اور بقائے نسل کی جدوجہد کا ذریعہ ہیں۔ اب اگر محض عقل اور علم انسانی پر ہی حیات ومعیشت کا انحصار قرار دیاجائے تو اس کے الحاد وسرکشی کا وہ عالم ہوگا جس کا نظارہ آج ہم یورپ وامریکہ کی تہذیب ومعاشرت اور سیاست ومعیشت میں کررہے ہیں کہ وہ انسان جسے احسن تقویم میں تخلیق کیاگیا تھا آج

( ثُمَّ رَدَدْنَاهُ أَسْفَلَ سَافِلِیْنَ)

کا منظر پیش کر رہا ہے البتہ اگر وحی والہام کی آبیاری ، بارگاہِ اقدس کی مہربانیاں اور ایمان وعمل صالح کی فضا اس کی سازگاری کرے تو وہ اپنی طبعی کمزوریاں کے باوجود

(إِلَّا الَّذِیْنَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ فَلَهُمْ أَجْرٌ غَیْرُ مَمْنُونٍ)

کے زمرے میں شامل ہوسکتاہے۔

تمام تر کمزوریوں کے باوجود انسان کی فطرت صالح اور نیک رکھی گئی ہے مگر طرح طرح کی آلائشیں، گردوپیش کے حادثات وواقعات اور دنیا کی رنگینیاں اس کی نیکیوں کو دباتی اور ڈھانپتی رہتی ہیں۔ انسان کی یہ فطری کمزوریاں قابل تغیر ہیں یا نہیں ، اس بارے میں مولانا سید ابو الاعلیٰ مودودی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:

’’ جس بات کو ہم اپنی زبان میں یوں کہتے ہیں کہ ’’ یہ بات انسان کی سرشت میں ہے ۔ ’’یا‘‘ یہ انسان کی فطری کمزوری ہے‘‘ اس کو اللہ تعالیٰ اس طرح بیان فرماتاہے کہ انسان ایسا پیدا کیاگیاہے۔ اس مقام پر یہ بات نگاہ میں رہنی چاہیے کہ قرآن مجید میں بکثرت مواقع پر نوع انسانی کی عام اخلاقی کمزوریوں کا ذکر کرنے کے بعد ایمان لانے والے اور راہِ راست اختیار کرلینے والے لوگوں کو اس سے مستثنیٰ قرار دیا گیاہے۔ اس سے یہ حقیقت خودبخود واضح ہوجاتی ہے کہ یہ پیدائشی کمزوریاں ناقابل تغیروتبدل نہیں ہیں بلکہ انسان اگر اللہ تعالیٰ کی بھیجی ہوئی ہدایت کو قبول کرکے اپنے نفس کی اصلاح کے لیے ’’عملاً‘‘ کوشش کرے تو وہ ان کو دور کرسکتاہے اور اگر وہ نفس کی باگیں ڈھیلی چھوڑ دے تو یہ اس کے اندر راسخ ہوجاتی ہیں۔ ( تفہیم القرآن ج۶،ص۸۹)

مولانا امین احسن اصلاحی کے نزدیک بھی انسان کی لچکدار فطرت دیگر اثرات کو قبول کرتی ہے۔ لکھتے ہیں:

’’ انسان کی فطرت اور حیوان کی جبلت میں بڑا فرق ہے۔ حیوانات کی جبلت ایک خاص ڈگر کی پابند ہے ، اس میں کوئی تغیر وتبدل نہیں ہوسکتا۔ بلی بھوکی مرجائے گی لیکن جو چیز اس کی غذا نہیں اس کو ہرگز نہ چکھے گی۔ اس کے برعکس انسان کی فطرت ہر سانچے میں ڈھل سکتی ہے اور ہر تبدیلی کو قبول کرسکتی ہے۔ انسانی فطرت کو جو چیزیں متاثر کرتی ہیں ان میں کنبہ، اس کا خاندان، اس کا ماحول، بازار، تعلیم گاہیں، لٹریچر ہرچیزہے۔ ہر چیز کی چھاپ اس پر پڑتی ہے اور اس کی فطرت اس سے متاثر ہوتی ہے۔ ( مراسلہ ومذاکرہ ’’ ماہنامہ’’تدبیر‘‘ لاہور فروری ۱۹۸۹ء)

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے