پہلا خطبہ:

حمد و ثناء کے بعد:

اے مسلمانو:

اللہ سے ڈرتے رہو ،کیونکہ تقوی ہی سے برکتیں حاصل ہوتی ہیں اور علم سے ہلاکتیں دور ہوتی ہیں چنانچہ اللہ کا فرمان ہے:

وَمَنْ يَّتَّقِ اللّٰ هَ يَجْعَلْ لَّه مِنْ اَمْرِه يُسْرًا ۔

ترجمہ: اور جو شخص اللہ تعالٰی سے ڈرے گا اللہ اس کے (ہر) کام میں آسانی کر دے گا۔(الطلاق 4)

اے مسلمانو! دین اسلام کی سمجھ اور فہم و ادراک وہ قیمتی ذخیرہ ہے جسے اپنایا جاتاہے اور سب سے بہترین پھل ہے جسے حاصل کیا جاتا ہے اور فقہ کا علم قدرو منزلت کے اعتبار سے سب سے شرف والاعلم ہے، اجرو ثواب کے اعتبارسے بھی عظیم ہے اور اس کا نتیجہ بھی کامل و مکمل ہے اور اس کا فائدہ بھی عمومی ہے اور عالی شان رتبہ والا اوربلند فضیلت کا حامل ہے۔

؏ میں اس کی صفات کو بیان کرنے کی استطاعت نہیں رکھتا ، چاہے میرے سارے اعضاء بول پڑیں۔

سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ :میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے سنا آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فرماتے تھے:’’اللہ جس کے ساتھ بھلائی کا ارادہ فرماتا ہے اسے دین کی سمجھ عطا کرتا ہے‘‘۔(مسلم، ج1، 2383)

ام المومنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنھا فرماتی ہیں کہ: ’’سب سے بہترین عورتیں انصار کی عورتیں ہیں جنہیں حیا نے کبھی دین سمجھنے سے نہیں روکا‘‘۔ (مسلم)

اور اللہ تعالی فرماتا ہے:

وَمَا كَانَ الْمُؤْمِنُوْنَ لِيَنْفِرُوْا كَاۗفَّةً ۭ فَلَوْلَا نَفَرَ مِنْ كُلِّ فِرْقَــةٍ مِّنْھُمْ طَاۗىِٕفَةٌ لِّيَتَفَقَّهُوْا فِي الدِّيْنِ وَلِيُنْذِرُوْا قَوْمَھُمْ اِذَا رَجَعُوْٓا اِلَيْهِمْ لَعَلَّھُمْ يَحْذَرُوْنَ (التوبۃ 122)

اور مسلمانوں کو یہ نہ چاہیے کہ سب کے سب نکل کھڑے ہوں سو ایسا کیوں نہ کیا جائے کہ ان کی ہر بڑی جماعت میں سے ایک چھوٹی جماعت جایا کرے تاکہ وہ دین کی سمجھ بوجھ حاصل کریں اور تاکہ یہ لوگ اپنی قوم کو جب کہ وہ ان کے پاس آئیں، ڈرائیں تاکہ وہ ڈر جائیں۔

شریعت کے احکام کی معرفت حاصل کرنا بہت عظیم فضیلت ہے ، اسکا رتبہ شرف والا ہے، جاہ و جلال والا ہے اور دینی امور سے لا علمی بڑا نقصان اور غلطی کا موجب ہے۔

؏ علم ہی سے رسوائی سے نجات ہے،جہالت سے تو محض ذلت و خواری ہے۔

اور جو اللہ کی عبادت بغیر علم کے اور بلا فہم و ادراک یا بغیر سنت و اتباع کے کرتا ہےوہ گمراہی میں گر پڑتا ہے۔

عمر بن عبد العزیز رحمہ اللہ فرماتے ہیں : جو شخص اللہ کی عبادت بغیر علم کے کرتا ہے اس کا بگاڑ اس کی اصلاح سے زیادہ ہوتا ہے۔

امام ثوری رحمہ اللہ علیہ فرماتے ہیں :’’اللہ کی پناہ طلب کیا کرو فاجر عالم اور جاہل عابد کے فتنہ سے، کیونکہ ان دونوں کا فتنہ ہر فتنے میں گھرے شخص کے لیے فتنہ ہے‘‘۔

تو کیا فتنہ اور مخالفتوں کا ظہور ،خرافات ومنکرات، بدعات و گمراہیاں اور دین میں اضافہ جات اور من گھڑت اعمال کا انتشار ، دین کے فہم و ادراک کو چھوڑنے کے سوا کسی اور سبب کے ہیں؟

اے مسلمانو! عبادات میں صرف اطاعت ضروری نہیں،بلکہ ضروری ہے کہ اس عبادت کی کتاب و سنت کے ساتھ موافقت بھی ہو۔

بعض علماء سلف کہتے ہیں:بغیر عمل کے بات کا کوئی فائدہ نہیں،او ر بغیر نیت کے قول و عمل کا فائدہ نہیں ،اور کسی نیت ،قول یا عمل کا فائدہ نہیں جب تک کہ وہ سنت کے مطابق نہ ہو۔

اسی لئے وہ علم ومعرفت جس پر ہمارے نبی اکرم اور رسول معظم صلی اللہ علیہ وسلم کی عبادت قائم تھی وہی بہترین ہے جسے ہر مسلمان کو حاصل کرنا چاہئے اور اس کو حاصل کرنے کے لئے اپنے اوقات کو صرف کرنا چاہیے اور اپنی کاوشوں کو بروئے کار لانا چاہیے۔

اور ہر مکلّف پر واجب ہے کہ ہر وہ علم حاصل کرے جس کے بغیر اس کا کوئی واجب پورا نہ ہوسکے جیسے طہارت اور وضوء نماز ،زکوۃ روزہ حج وغیرہ۔

اور یہ بات بھی متعین ہےکہ جو بھی خرید و فروخت کر ے یا   نکاح کرنے کا ارادہ کرے یاایسا کوئی بھی کام کرنا چاہے تو اس وقت تک نہ کرے جب تک ان کی کیفیت اور شرائط معلوم نہ کر لے ، اور ہمیشہ علم عمل پر مقدم ہوتا ہے کیونکہ علم ہی عمل کو فاسد اور باطل ہونے سے محفوظ رکھتا ہے اور انحراف و گمراہی سے روکتا ہے۔

اور جس نے حج کی سعادت حاصل کرنے کے لئے اللہ کے گھر کی طرف سفر کا ارادہ کیا ، اپنے وطن کو چھوڑا،اپنے گھر کو اپنے اہل و عیال کو چھوڑا اور اپنا حلال مال خرچ کیا اور اس فرض کو ادا کرنے کے لئے مشقتیں برداشت کیں ، اسے چاہئےکہ وہ حج کو سمجھنے اور سیکھنے کے لئے اپنی کاوشوں کو بروئے کار لائے اور حج کی معرفت اور اس کے اد ا کرنے کے طریقے کا علم حاصل کرے اور حج کے صحیح ہونے کی شروط کو بھی جان لے اور حج کی صحیح طرح مکمل ادائیگی کے لئے جو بھی واجب ہے اسے سیکھ لے اور یہ بھی معلوم کر لے کہ سردار کائنات محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے حج کس طرح کیا تھا ؟ جنہوں نے خود فرمایا :’’مجھ سے حج کا طریقہ سیکھ لو‘‘۔

تاکہ وہ اپنا حج کتاب و سنت کے مطابق اد اکرسکیں اور اتباع کے شرف سے بہرہ مند ہوسکیں اور اللہ کی طرف سے قبول و رضا کو حاصل کرنے میں کامیاب ہوسکیں۔

اور حاجیوں کو چاہئے کہ کسی سے حج کے متعلق اس وقت تک کا سوال نہ کریں جب تک اس کے علم ،اس کے دین و امانت داری اور ثقہ ہونے کا یقین نہ ہوجائے۔ اور کسی اجنبی یا غیر معروف جس کی اہلیت علمی اور و قدرومنزلت کا علم نہ ہو اس سے فتوی نہ لیں۔

اور علماء اور فقہاء کو چاہئے کہ وہ ذو الحجہ کے مہینہ میں ایسے دروس و پروگرام و مجالس کا اہتمام کریں جس میں حجاج مناسک حج سیکھ اور سمجھ سکیں اور حج کے احکام اور آداب زیارت جان لیں، اس طرح علماء کے علم و فقہ کی زکوۃ بھی ادا ہو جائے گی۔

دوسرا خطبہ:

اما بعد:

اے مسلمانو!اللہ سےڈرو اور اس کا مراقبہ حاصل کرو اور اسی کی اطاعت کرو اور نا فرمانی نہ کرو ۔

يٰٓاَيُّھَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوا اتَّقُوا اللّٰهَ وَكُوْنُوْا مَعَ الصّٰدِقِيْنَ

ترجمہ: اے ایمان والو! اللہ تعالیٰ سے ڈرو اور سچوں کے ساتھ رہو۔ (سورۃ التوبۃ 119)

اے مسلمانوں سب سے قیمتی اور قدر و جلال والا علم توحید کا علم ہے اور یہی سب سے بڑا فہم و ادراک ہے ،اس کو امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ علیہ نے فقہ الاکبر (سب سے بڑی فقہ) کا نام دیا ہے ، اور جس نے اللہ کو اس طرح جان لیا جس طرح جاننے کا حق ہے وہ کبھی اپنے جیسی مخلوق کو سجدہ نہیں کرسکتا اور نہ کسی کے سامنے جھک سکتا ہے چاہے وہ عالم ہو امام ہو یا بادشاہ ۔

سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :’’کسی بشر کے لئے جائز نہیں کہ کسی بشر کو سجدہ کرے ‘‘۔ (مسند احمد)

اور جو اللہ کی عبادت اسطرح کرتا ہے جس طرح کرنے کا حق ہےتو وہ کسی قبر یا مزار کا طواف نہیں کرتا؛ کیونکہ کعبہ مشرفہ کے سوا کسی اور چیز کا طواف جائزنہیں ہے۔

اور اسی طرح وہ کسی قبر یا جن یا شیطان کے لئے ذبح بھی نہیں کرتا اور کسی قسم کا تعویذ گنڈا نہیں لٹکاتا اور کسی قسم کی لکیریں اور نقوش اپنے جسم پر نہیں بنواتا جس سے وہ یہ اعتقاد رکھے کہ اس سے نفع ملتا ہے یا اس کے اثرات مرتب ہوتے ہیں ۔

اور جس نے اللہ کی تعظیم اس طرح کی جس طرح کرنے کا حق ہے وہ مردوں (اموات) سے مدد طلب نہیں کرتا اور ان کے مزاروں کو کسی قسم کی مدد کا مرکز نہیں مانتا جن سے شفاء یا عافیت اور سخاوت و عطا کی امید کی جا سکے۔بھلا کیسے کسی مرد ے کو پکارا جاسکتا ہے ؟بھلا کیسے مدد و استغاثہ طلب کیا جاسکتا ہے جب کہ صرف اللہ ہی ہے جو ہمیشہ زندہ ہے ،غنی ہے،دوست ہے،سننے والا اور دیکھنے والا ہے،قدرت والاہے،سب پرغالب ہے۔ ساری کائنات اور جو کچھ اس میںہے ان کی تدبیر کرنےوالا ہے، ہر پکارنے والے کی پکار سنتا ہے اور اس کی مشکلات و مصائب کو دور کرتا ہے اسکے سوا کوئی معبود بر حق نہیں ہے اور نہ کوئی عبادت کے لائق ہے ۔

پس اپنے دین کی سمجھ اور فہم وادراک حاصل کرو اور جہالت کو دورکروبے شک جہالت ہی مشکلات ومنکرات کی جڑ ہے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے