الحمد للہ والصلاۃ والسلام علی رسول اللہ وعلی آلہ وصحبہ اجمعین امابعد!

اللہ رب العزت نے انسانون اور جنوں کو اپنی عبادت کے لیے پیدا فرمایا ہے جیساکہ رب العالمین کا فرمان ذیشان ہے۔

وَمَا خَلَقْتُ الْجِنَّ وَالْاِنْسَ اِلَّا لِيَعْبُدُوْنِ

میں نے جنات اور انسانوں کو محض اس لئے پیدا کیا ہے کہ وہ صرف میری عبادت کریں ۔ (الذاریات 56)

اللہ رب العالمین نے انہیں عبادات کے لیے پیدا کر کے پھر چھوڑ نہیں دیا۔ کیونکہ رب کی ذات غفوررحیم، حلیم اور شکور ہے۔ بلکہ عبادت کے مواقع بھی فراہم کئے ہیں مثلاً روزہ، نماز، زکوٰۃ، حج، صدقہ وغیرہ ان میں سے ایک موقع عشرہ ذوالحجہ کا ہے۔ عشرہ ذوالحجہ کی قرآن و حدیث میں بہت بڑی فضیلت وارد ہوئی ہے۔ فرمان الٰہی ہے:

والفجرولیال عشر

امام ابو الفداء عماد الدین اسماعیل ابن کثیر اپنی مایہ ناز تفسیر بنام تفسیر ابن کثیر میں عبد اللہ بن عباس کا قول و دیگر اقوال ذکر کرنے کے بعد فرماتے ہیں :

فالصحیح ھو القول الاول

صحیح قول وہ پہلا قول ہے جوکہ عبداللہ بن عباس کا قول ہے۔وہ یہ ہے:

واللیالی العشر المراد بھا عشر ذی الحجۃ

لیالی عشر سے مراد عشر ذی الحجہ کی دس راتیں ہیں۔ (ابن کثیر ج6)

اور احادیث مبارکہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:

عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ -صلى الله عليه وسلم- « مَا مِنْ أَيَّامٍ الْعَمَلُ الصَّالِحُ فِيهَا أَحَبُّ إِلَى اللَّهِ مِنْ هَذِهِ الأَيَّامِ ». يَعْنِى أَيَّامَ الْعَشْرِ. قَالُوا يَا رَسُولَ اللَّهِ وَلاَ الْجِهَادُ فِى سَبِيلِ اللَّهِ قَالَ « وَلاَ الْجِهَادُ فِى سَبِيلِ اللَّهِ إِلاَّ رَجُلٌ خَرَجَ بِنَفْسِهِ وَمَالِهِ فَلَمْ يَرْجِعْ مِنْ ذَلِكَ بِشَىْءٍ ». سنن أبي داود (2/ 301)

سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

ذوالحجہ کے پہلے دس دنوں میں کئے گئے اعمال صالحہ اللہ تعالیٰ کے نزدیک تمام ایام میں کئے گئے نیک اعمال سے زیادہ محبوب ہیں۔ صحابہ کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہم نے عرض کیا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اللہ کی راہ میں جہاد کرے تب بھی؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا ! ہاں تب بھی۔ انہی ایام کا عمل زیادہ محبوب ہے البتہ اگر کوئی شخص اپنی جان ومال دونوں چیزیں لے کر جہاد میں نکلا اور ان میں سے کسی چیز کے ساتھ تو واپس نہ ہوا (یعنی شہید ہوگیا) تو یہ افضل ہے۔

قارئین کرام ! ذرا غور کیجئے کہ اللہ تعالیٰ نے ان ایام کے اعمال کو باقی ایام کے اعمال سے برتر و بالا رکھا ہے۔

اب ہمیں ان ایام میں بڑھ چڑھ کر اللہ کی عبادت کرنی چاہئے تکبیرات(اللہ اکبر) ،تحمیدات(الحمدللہ)، تہلیلات (لا الہ الا اللہ) کا اہتمام کرنا چاہئے کیونکہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین ان ایام میں عبادت کا بہت زیادہ اہتمام کیا کرتے تھے، تکبیرات پڑھا کرتے تھے، حتیٰ کہ بازار میں بھی تکبیرات کا اہتمام کیا کرتے تھے۔ جیسا کہ صحیح بخاری میں عبد اللہ بن عمر رضی اللہ سے اثر منقول ہے۔

وَكَانَ ابْنُ عُمَرَ ، وَأَبُو هُرَيْرَةَ يَخْرُجَانِ إِلَى السُّوقِ فِي أَيَّامِ الْعَشْرِ يُكَبِّرَانِ وَيُكَبِّرُ النَّاسُ بِتَكْبِيرِهِمَا

سیدناعبد اللہ بن عمر اور ابو ہریرۃ رضی اللہ عنہما بازار میں نکلتے اور زور سے تکبیرات کہتے تھے تو لوگ ان کی تکبیرات کو سن کر تکبیر کہتے تھے ۔

اور اس حساب سے یہ ایک صدقہ جاریہ بھی ہے جیسا کہ حدیث میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے :

مَنْ دَلَّ عَلَى خَيْرٍ فَلَهُ مِثْلُ أَجْرِ فَاعِلِهِ (مسلم)

ــ’’جو شخص نیکی کے بارے میں کسی کی رہنمائی کرتاہے تو اس کو نیکی کرنے والے جتنا ثواب ملتا ہے۔‘‘

ایک حدیث میں

وَالْأَمْر بِالْمَعْرُوفِ صَدَقَةٌ

نیکی کے بارے میں حکم دینا ایک صدقہ ہے ۔‘‘

نوٹ:

9نویں ذوالحجہ کی صبح سے لیکر 13 تیرہویں ذوالحجہ کی عصر تک تکبیرات پڑھنا چاہئے اور تکبیر کے الفاظ یہ ہیں

اَللّٰہُ أکْبَرْ اَللّٰہُ أکْبَرْ لَااِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ وَاللّٰہُ أکْبَرْ اَللّٰہُ اَکْبَرْ وَلِلہِ الْحَمْدِ

اور صحیح بخاری میں عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کا ایک اور اثر منقول ہے ۔

وَكَانَ ابْنُ عُمَرَ يُكَبِّرُ بِمِنًى تِلْكَ الأَيَّامَ وَخَلْفَ الصَّلَوَاتِ ، وَعَلَى فِرَاشِهِ وَفِي فُسْطَاطِهِ وَمَجْلِسِهِ وَمَمْشَاهُ تِلْكَ الأَيَّامَ جَمِيعًا.(بخاری، باب التَّكْبِيرِ أَيَّامَ مِنًى)

سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما ان ایام میں یعنی عشرہ ذوالحجہ منی میں نمازوں کے بعد چلتے پھرتے بیٹھتے خیمے میں بستر پر تکبیرات بلندکیا کرتے تھے۔‘‘

قارئین کرام! ذرا غور کیجیے ، صحابی رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا اہتمام دیکھیے تکبیرات کے ساتھ اور عبادت کا شوق کہ کس طرح اپنی زندگی کے لمحے لمحے میں تکبیرات کہتے ہیں اور اپنی زندگی کے ہر لمحے کو قیمتی سمجھتے ہیں ، لیکن ہمارا حال آج یہ ہے کہ عبادت تو دور کی بات بلکہ مجلسوں میں اٹھتے بیٹھتے حتی کہ مسجدوں میں بیٹھ کر ایک دوسرے کی غیبت کرتے ہیں کسی کو اپنی زبان کے ذریعے ایذاء پہنچائیں گے۔ جس کے بارے میں اللہ رب العزت اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سخت وعیدیں فرمائیں ہیں ۔ فرمان الٰہی ہے :

وَلَا يَغْتَبْ بَعْضُكُمْ بَعْضًا أَيُحِبُّ أَحَدُكُمْ أَنْ يَأْكُلَ لَحْمَ أَخِيهِ مَيْتًا فَكَرِهْتُمُوهُ وَاتَّقُوا اللَّهَ إِنَّ اللَّهَ تَوَّابٌ رَحِيمٌ

’’ ایک دوسرے کی غیبت مت کرو کیا تم میں سے کون یہ چاہتا ہے کہ وہ اپنے سگے مردار بھائی کا گوشت کھائے ، پس تم اس سے کراہت کرتے ہو او ر اللہ سے ڈرجاؤ یقیناً اللہ بہت توبہ قبول کرنے والا اور رحم کرنے والاہے۔‘‘(الحجرات:12)

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :

أَتَدْرُونَ مَا الْمُفْلِسُ ». قَالُوا الْمُفْلِسُ فِينَا مَنْ لاَ دِرْهَمَ لَهُ وَلاَ مَتَاعَ. فَقَالَ « إِنَّ الْمُفْلِسَ مِنْ أُمَّتِى يَأْتِى يَوْمَ الْقِيَامَةِ بِصَلاَةٍ وَصِيَامٍ وَزَكَاةٍ وَيَأْتِى قَدْ شَتَمَ هَذَا وَقَذَفَ هَذَا وَأَكَلَ مَالَ هَذَا وَسَفَكَ دَمَ هَذَا وَضَرَبَ هَذَا فَيُعْطَى هَذَا مِنْ حَسَنَاتِهِ وَهَذَا مِنْ حَسَنَاتِهِ فَإِنْ فَنِيَتْ حَسَنَاتُهُ قَبْلَ أَنْ يُقْضَى مَا عَلَيْهِ أُخِذَ مِنْ خَطَايَاهُمْ فَطُرِحَتْ عَلَيْهِ ثُمَّ طُرِحَ فِى النَّارِ(مسلم:6744 )

کیا تم جانتے ہو کہ مفلس کون ہے صحابہ رضی اللہ تعالیٰ عنہم نے عرض کیا ہم میں مفلس وہ آدمی ہے کہ جس کے پاس مال اسباب نہ ہو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا قیامت کے دن میری امت کا مفلس وہ آدمی ہوگا کہ جو نماز روزے زکوة و غیرہ سب کچھ لے کر آئے گا لیکن اس آدمی نے دنیا میں کسی کو گالی دی ہوگی اور کسی پر تہمت لگائی ہوگی اور کسی کا مال کھایا ہوگا اور کسی کا خون بہایا ہوگا اور کسی کو مارا ہوگا تو ان سب لوگوں کو اس آدمی کی نیکیاں دے دی جائیں گی اور اگر اس کی نیکیاں ان کے حقوق کی ادائیگی سے پہلے ہی ختم ہو گئیں تو ان لوگوں کے گناہ اس آدمی پر ڈال دئے جائیں گے پھر اس آدمی کو جہنم میں ڈال دیا جائے گا۔

تو اس لیے میرے بھائیو! اپنی زبان کی حفاظت کرو اس کی حفاظت اس میں ہے کہ تم اسے اچھے کاموں میں استعمال کرو ان ایام میں کثرت سے ذکر واذکار کیا کرو ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے :

مَا مِنْ أَيَّامٍ أَعْظَمُ عِنْدَ اللهِ وَلَا أَحَبُّ إِلَيْهِ الْعَمَلُ فِيهِنَّ مِنْ هَذِهِ الْأَيَّامِ الْعَشْرِ، فَأَكْثِرُوا فِيهِنَّ مِنَ التَّهْلِيلِ وَالتَّكْبِيرِ وَالتَّحْمِيدِ (مسند احمد : 6154)

عشرہ ذی الحجہ سے بڑھ کر کوئی دن اللہ کی نگاہوں میں معظم نہیں اور نہ ہی ان کے علاوہ کسی اور دن میں اعمال اتنے زیادہ پسند ہیں اس لئے ان دنوں میں تہلیل و تکبیر اور تحمید کی کثرت کیا کرو۔

اور ابن عباس رضی اللہ عنہما : وَاذْكُرُوا اللَّهَ فِي أَيَّامٍ مَعْلُومَاتٍ ‘‘ کی تفسیر میں فرماتے ہیں : المراد بھا أیام عشر ذی الحجۃ . (بخاری: باب فَضْلِ الْعَمَلِ فِي أَيَّامِ التَّشْرِيق.)

ایام معلومات سے مراد عشرہ ذی الحجہ کے ایام ہیں کیونکہ عشرہ ذی الحجہ میں زیادہ ذکر واذکار کرنے کی ترغیب دی گئی ہے۔

تو اس لیے ہمیں چاہیے کہ ہم ان ایام میں کثرت کے ساتھ ذکر واذکار کریں تکبیرات کہیں اپنے مسلمان بھائیوں کو ترغیب دلائیں اور ان ایام میں سے ایک دن کا روزہ بھی ہے ۔

جس کے بارے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں :

سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے :

مَا مِنْ أَيَّامِ الدُّنْيَا , أَيَّامٌ أَحَبُّ إِلَى اللهِ سُبْحَانَهُ أَنْ يُتَعَبَّدَ لَهُ فِيهَا مِنْ أَيَّامِ الْعَشْرِ ، وَإِنَّ صِيَامَ يَوْمٍ فِيهَا لَيَعْدِلُ صِيَامَ سَنَةٍ ، وَلَيْلَةٍ فِيهَا بِلَيْلَةِ الْقَدْرِ.(سنن ابن ماجہ، والترمذی)

تمام ایام میں اللہ تعالیٰ کو ان دس دنوں کی عبادت سے زیادہ کوئی عبادت پسند نہیں ان میں ایک دن کا روزہ سال بھر کے روزوں کے برابر ہے اور ایک رات (کی عبادت) لیلة القدر کے برابر ہے ۔

تو لہٰذا ہمیں چاہیے کہ ہم اپنے وقت کو غنیمت سمجھیں اور ان ایام میں کثرت کے ساتھ ذکر کریں تکبیرات ، تحمیدات ، تہلیلات پڑھیں ، بیہودہ فضول باتوں سے بچیں اور اس میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیں ۔

وَفِي ذَلِكَ فَلْيَتَنَافَسِ الْمُتَنَافِسُونَ
وما توفیقی إلا باللہ علیہ توکلت وإلیہ أنیب

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے