سعودیہ عربیہ اسلامی ملکوں میں واحد مملکت ہے جہاں  حدوداللہ کا نفاذ ہے وللہ الحمد۔

اور اللہ تعالیٰ کا یہ حکم ہر مسلم حکومت ہو یا فرد سے کے لیے ہے فرمایا:اللہ کا یہی حکم ہے۔

وَاَنِ احْكُمْ بَيْنَهُمْ بِمَآ اَنْزَلَ اللّٰهُ (مائدہ 49)

فیصلے اللہ کے نازل کردہ کتاب اللہ کے حکم کے مطابق کرو۔ مزید فرمایا:

تِلْكَ حُدُوْدُ اللّٰهِ فَلَاتَعْتَدُوْھَا ۚ وَمَنْ يَّتَعَدَّ حُدُوْدَ اللّٰهِ فَاُولٰۗىِٕكَ ھُمُ الظّٰلِمُوْنَ (البقرہ 229)

یہ اللہ کی مقرر کی ہوئی حدود ہیں ان سے آگے نہ بڑھومزید پھر تاکید کے لیے قسم کہا کر فرمایا اور جو کوئی بھی اللہ کے حدودں سے آگے بڑھ جائے وہی لوگ ظالم گناہ گار ہیں۔

اور فرمایا:

{فَلَا وَرَبِّكَ لَا يُؤْمِنُونَ حَتَّى يُحَكِّمُوكَ فِيمَا شَجَرَ بَيْنَهُمْ } [النساء: 65]

تیرے رب کی قسم وہ مؤمن ہی نہیں جب تک آپ کے فیصلے کو تسلیم نہ کریں۔

پھر کوئی شخص اگر غیر اسلامی قانون کو اسلامی قانون سے افضل سمجھتے ہوئے طاغوت کی طرف فیصلے لے جائے تو شدید وعید نازل کی فرمایا:

{يُرِيدُونَ أَنْ يَتَحَاكَمُوا إِلَى الطَّاغُوتِ وَقَدْ أُمِرُوا أَنْ يَكْفُرُوا بِهِ وَيُرِيدُ الشَّيْطَانُ أَنْ يُضِلَّهُمْ ضَلَالًا بَعِيدًا } [النساء: 60]

یہ لوگ طاغوت (غیراللہ) کی طرف فیصلہ لے جانا چاہتے ہیں جبکہ اس کے انکار کرنے کا حکم ہے۔ بات یہ ہے شیطان لوگوں کو اسی طرح گمراہ کرنا چاہتا ہے۔

چنانچہ خالق انسان نے روئے زمین کو امن کا گہوارہ بنانے کے لیے عدل و انصاف پر مبنی قانون نازل فرمایا۔ قانون کے بغیر کوئی بھی مملکت اس طرح ہے کہ جیسے جسم بغیر روح کے ایک لاش ہو قانون کی مضبوطی پر مملکت کی طاقت کا انحصار ہے قانون کی طاقت دو چیزوں پر مشتمل ہے:

1۔ خالص روحانی عنصر ہے جو کہ اللہ کی طرف سے ہو جس کے ساتھ تعلق قلبی دینی عقائد سے منسلک ہو اور جس میں اجر وثواب کی امید ہو انکا رکرنے سے اللہ کی ناراضگی اور سزا و عقاب کا خوف ہو۔

2۔ دوسراعنصر قانون کو سختی سے نافذ کرنا۔ اور قانون کی خلاف ورزی کرنے والوں کو معطل کرنا، سزا دینا اور حدوں کا قائم کرنا وغیرہ۔

پہلا عنصر ہی وہ واحد ذریعہ ہے جسے انسان اپنے مالک کی طرف سے ہونے کی وجہ سے طوعا و کرھا قبول کرتا ہے، دیکھئے عبدالقادر عودہ کی کتاب: الاسلام او وضاعنا اسکی مثال: شراب کی حرمت کو ہی لیجئے صحابہ نے فوراً قبول کیا نافذ ہوا۔

بتاتے ہیں جبکہ متحدہ امریکہ نے 1930ء میں شراب اور نشہ آور چیزوں کو حرام قرار دیا تو اس قانون کو مؤثر اور قابل عمل بنانے کے لیے ماہرین کے لیکچرز نشر کیے اور اشتہارات و رسائل اور تحقیقات میں 65 ملین ڈالر خرچ کئے اور 200 آدمی مارے گئے اور نصف ملین جیلوں میں بند ہوئے اور 4 ملین جرمانے وصول کیے گئے اور اتنی سختی کے باوجود اس قانون کو کامیابی پوری طرح نہ مل سکی آخر 1933ء میں یہ قانون ختم کر دیا گیا۔

مگر مسلمانوں میں جوں ہی حرمت شراب کی آیات نازل ہوئیں گھر گھر سے باہر شراب گرائی ہوئی ہے۔ آج بھی مملکت سعودیہ میں یہ قوانین اور حدود پر سکون طریقے سے نافذ العمل ہیں تو صرف اسلامی معاشرہ کے عوام الناس اپنے عقیدے اور دین سے واقف ہیں۔ جبکہ دوسرے بہت سارے اسلامی ملکوں میں نافذ العمل نہیں ہیں وہ اس لیے عوام الناس اور معاشرہ کے لوگ اسلام اور اسلامی نظام کے فوائد اور اہمیت سے ناواقف ہیں۔ اسی لیے مسلم ممالک بناوٹی جمہوری نظام کے پرستار ہیں۔ اور ہر 5 سال بعد تبدیلی نے بیشمار مسائل کا بحران پیدا کیا ہے، جس پر ماہرین لکھتے رہتے ہیں۔ حکمرانی کرنے کے حقدار وہی ہیں جو مظلوموں کی داد رسی کریں۔ بلا امتیاز انصاف فراہم کریں۔اسی لیے سعودی عرب میں’’دیوان المظالم‘‘ الگ ایک بڑا شعبہ ہے اور براہ راست بادشاہ کو رپورٹ دینا اس کی ذمہ داری ہے۔ اس کے پہلے چیئرمین سمو الامیر مساعد بن عبدالرحمن ہیں  ان کے بعد الشیخ عبداللہ المسعری مقرر ہوئے اور ۲۸/۲/۱۴۲۴ھ میں امر ملکی (۵/أ) کے تحت فضیلۃ الشیخ حمود بن عبدالعزیز الفائز مقرر ہوئے۔ اس منصب پر شرعی قوانین کے ماہرین کو نامزد کیا جاتا ہے اور یہ بہت بڑا ادارہ ہے اور اس کے بہت سارے کارندے ہیں اور قاضی حضرات اور ان کے معاونین ہر جگہ پر تقریباً سولہ افراد پر مشتمل ہے تاکہ لوگوںکو انصاف بآسانی میسر ہوسکے۔

آل سعود کے تین ادوار ہیں تیسرا مرحلہ ۱۳۱۹ھ میں  ریاض اور اس کے نواحی علاقوں میں حکومت قائم ہوئی۔ اورمکہ مکرمہ میں ۱۳۴۳ھ ۱۹۲۷م کو ملک عبد العزیز بن عبدالرحمن آل سعود رحمہ اللہ داخل ہوئے اور اہل حجاز نے بھی بیعت کی تو ملک عبدالعزیز بن عبدالرحمن نے خالص توحید اور کتاب وسنت کی ترویج کا اعلان کیا اور جہاں جہاں قاضی اور اداروں کے ملازمین تھے ان کو برقرار رکھا۔ جو اس کے اہل اور حقدار تھے۔ دیکھئے مبادئ الخدمۃ المدینہ بن راشد الشنیدی

اگر آج کے دور میں بھی عرب کے بدو اور کسی زمانے کے خون خوار لوگ قانون کے سامنے سر جھکا لیں تو یہ سب عدل و انصاف کے قانون کی برکت ہے۔

ہم سب جانتے ہیں کہ ارکان اسلام 5 ہیں اس عمل واجب اور عملا نافذ ہے اور ارکان ایمان 6 ہیں اور ماہرین نے دلائل کی روشنی میں ملک اور مملکت کی بنیادوں کو مضبوط رکھنے کے لیے 8 ارکان شمار کیا ہے۔ اس کو بھی عوام الناس کو یاد کرائیں اور حکومتیں نافذ کریں وہ مندرجہ ذیل ہیں۔

1۔ دین کی حفاظت کے لیے حد مرتد سر قلم کرنا۔ اور امر بالمعروف نہی عن المنکر دعوتی کام جاری رکھنا۔

2۔ جان اور نفس کی حفاظت۔ قصاص: حد قتل یا دیت۔

3۔ عقل کی حفاظت۔ حد الخمر کوڑے مارنا (40 یا 80)

4۔ عزت نفس ، کرامت انسانی۔ حد القذف (100 کوڑے)

5۔ نسب کی حفاظت۔ حد زنی (رجم شادی شدہ کے لیے غیر شادی شدہ کو 100 کوڑے)

6۔ مال کی حفاظت۔ چور کے ہاتھ کاٹنا

7۔ امن قائم رکھنے کے لیے راستہ روکنے والے اور دہشت گردوں پر سزا۔

8۔ ملک کے ساتھ اور حکومت کے ساتھ بغاوت کرنے والوں پر حد۔

آج سعودیہ میں بدامنی اور چوری کے حادثات نہ ہونے کے برابر ہے ہمارے حکمران بھی اپنے ملک میں مرحلہ وار حدوداللہ کو قائم کریں تو یقیناً امن بحال ہو گا۔ ان شاءاللہ۔ عبد المالک مجاہد سنہرے فیصلے میں لکھتے ہیں کہ:

جب سعودی شہزادے کو نئی زندگی ملی، دلچسپ واقعہ ملاحظہ فرمایئے۔

یکم مئی 2004ء بروز ہفتہ سعودی عرب کے دارالحکومت میں ایک انوکھا، مگر دلچسپ واقعہ پیش آیا۔ اس ملک میں ابھی تک الحمد للہ حدود اسلامی کا نظام نافذہے۔ اور یہی وجہ ہے کہ اسلام دشمن طاقتوں اور حاسدین کے حسد کے باوجود ابھی تک سعودی عرب میں خیرو برکات غالب ہیں۔

یہ 18 ستمبر 2002ء کی بات ہے جب سترہ سالہ شہزادہ فہد بن نایف بن سعود بن عبدالعزیز نے اپنے ایک دوست پندرہ سالہ منذر بن سلیمان القاضی کو اپنے بھائی پندرہ سالہ شہزادہ سلطان بن نایف سے لڑتے ہوئے دیکھا۔ غصے میں وہ کلاشنکوف اٹھا لایا اور منذر پر فائرنگ کر دی۔ منذر کو تین گولیاں لگیں اور وہ وہیں جاں بحق ہو گیا۔ شہزادے کو فوری طور پر گرفتار کر لیا گیا اور اسے عام قیدی کی طرح جیل میں ڈال دیا گیا۔ مقدمہ کم و پیش انیس ماہ تک چلتا رہا۔ قاتل نے اپنے جرم کا اقرار کر لیا تھا۔ سعودی وزارت عدل کے قانون کے مطابق ہر قتل کے کیس کو تیرہ قاضی دیکھتے ہیں چنانچہ اس مقدمے کا فیصلہ بھی 14 جولائی 2003ء کو صادر کر دیا گیا کہ اگر مقتول کے ورثا قاتل کو معاف نہیں کرتے تو اس کی گردن تلوار سے اڑا دی جائے۔

قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:

{يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا كُتِبَ عَلَيْكُمُ الْقِصَاصُ فِي الْقَتْلَى} [البقرة: 178]

اے ایمان والو! تم پر مقتولوں کا قصاص لینا فرض کیا گیا ہے۔چنانچہ سعودی عرب میں نافذ شرعی قوانین پر عمل کرتے ہوئے انصاف پرور ججوں نے یہ فیصلہ سنا دیا کہ اگر مقتول کے ورثا قاتل کا خون بہا لے کر یا اللہ کے لیے معاف کر دیں تو ٹھیک ورنہ قاتل بہرحال شرعی حدود کے گردن زدنی ہے۔ اس مقدمے میں شاہی خاندان کے کسی فرد نے عدالت پر اثر انداز ہونے کی کوشش کی اور نہ ہی جج صاحبان نے عدل و انصاف کا دامن ہاتھ سے چھوڑا جیسے کہ دنیا کے دیگر ممالک میں ہم دیکھتے ہیں بلکہ انتہائی غیر جانبداری کے ساتھ قصاص کا حکم جاری کر دیا گیا کیونکہ ان اسلامی ججوں کو خوب معلوم ہے کہ اللہ تعالیٰ نے قصاص ہی میں اصل زندگی رکھی ہے اور اس کے نفاذ ہی سے ملک میں امن اور آشتی کے سائے تلے انسان راحت کے سانس لے سکتا ہے۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد بالکل بر حق ہے:

{ وَلَكُمْ فِي الْقِصَاصِ حَيَاةٌ } [البقرة: 179]

عقلمندو! قصاص ہی میں تمہارے لیے زندگی ہے، تاکہ تم (قتل و غارت سے) بچو۔

چونکہ اس واقعے میں مجرم شاہی خاندان کا فرد تھا اور شاہ فہد کے بھائی کا پوتا تھا اس لیے اس مقدمے نے اور زیادہ اہمیت اختیار کر لی۔ واضح رہے کہ اس شہزادے کے دادا شاہ سعود بن عبدالعزیز سعودی عرب کے دوسرے حکمران تھے۔ مقتول منذر بن سلیمان قاضی بھی ایک اعلیٰ خاندان سے تعلق رکھتا تھااور اس کا نسب نامہ بنو تمیم سے جا ملتا ہے جس کی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے تعریف فرمائی تھی۔ محمد بن عبدالوہاب بھی اسی خاندان سے تعلق رکھتے تھے۔ مقدمے کے دوران میں بہت سے بااثر لوگوں نے کوشش کی کہ مقتول کے ورثا خون بہا لے لیں اور شہزادے کو معاف کردیں مگر مقتول کے والد سلیمان نے ہر قسم کی پیشکش ٹھکرا دیا۔ ہر چند کہ معاملہ ایک سعودی شہزادے کا تھا مگر اس دوران میں مقتول کے خاندان پر قطعی طور پر دباؤ نہیں ڈالا گیا اور نہ ہی قاضیوں پر کسی قسم کا دباؤ تھا چنانچہ عدالت نے آزادانہ کاروائی کی اور سپریم کورٹ نے بھی یکم دسمبر 2003ء کو اپیل کورٹ کے فیصلے کی توثیق کر دی۔

مقدمے کے دوران میں شہزادے کو ریاض کے اصلاحی مرکز میں رکھا گیاتھا اور بعد ازاں اسے ریاض کی سنٹرل جیل بھیج دیا گیا۔ اس دوران میں اس کے ساتھ کوئی امتیازی سلوک نہیں کیا گیا۔ صرف ایک مرتبہ اس کی اپنے والد نایف بن سعود کے ساتھ ملاقات ہوئی ۔ یاد رہے قاتل مرحوم شاہ سعود کا پوتا تھا۔

سپریم کورٹ کے اپنے حکم نامے میں لکھا کہ قاتل کو یکم مئی 2004ء کی صبح قصاص میں قتل کر دیا جائے گا۔ یکم مئی ہفتے کا دن ریاض کے شہزادے کے لیے انتہائی حیرانی کا دن تھا۔ صبح سویرے بے شمار لوگ قصر الحکم کے پہلو میں میدانِ قصاص میں جمع تھے۔ ان میں شہزادے بھی تھے اور مختلف بڑے بڑے قبائل کے رؤسا بھی۔ شہزادے کو بھی پہلے سے بتا دیا گیا تھا کہ ہفتے کے دن اس کو قتل کر دیا جائے گا۔

اس کے پیروں میں بیڑیاں لگی ہوئی تھیں۔ صبح آٹھ بجے اس کو پولیس کی گاڑی سے نیچے اتارا گیا۔ اس نے قیدیوں کا مخصوص لباس پہنا ہوا تھا۔ صبح سویرے گورنر ریاض امیر سلطان بن عبد العزیز نے اپنے دفتر میں مقتول کے والد اور اس کے رشتہ داروں سے ملاقات کی اور بتایا کہ آج قاتل سے قصاص لیا جا رہا ہے۔ نیز گورنر نے کہ کہ میں آپ لوگوں کے مقدمے میں کوئی مداخلت نہیں کرنا چاہتا اور نہ شاہی خاندان نے اس مقدمے کے دوران میں عدالت پر اثر انداز ہونے کی کوشش کی ہے۔ ہاں البتہ میں آپ کو اسلام میں معاف کر نے کی اہمیت سے ضرور آگاہ کروں گا۔ اگر آپ معاف کردیں تو یہ آپ کے اعلیٰ کردار کی دلیل ہوگی، اور اگر آپ قصاص لیتے ہیں تو یہ آپ کا حق ہے۔ امیر سلمان کے دفتر اور میدان قصاص کے درمیان کوئی زیادہ دور کا فاصلہ نہیں ہے۔ ادھر ایک دن پہلے شہزادے کی والدہ سارا دن مقتول کے گھر کے باہر بیٹھی رہی۔ اس نے مقدمے کے دوران میں چھ مرتبہ منذر کی والدہ سے رابطہ کیا اور اسے قائل کرنے کی کوشش کرتی رہی کہ وہ اپنے بیٹے کے قاتل کو رضائے الٰہی کے لیے معاف کردے۔ مگر منذر کی والدہ اپنے بیٹے کے قاتل کو معاف کرنے کے لیے ہرگز تیار نہیں تھی۔

منذر (مقتول) کے والدین جمعہ کے روز سارا دن گھر پر نہیں تھے۔ سلیمان بن عبدالرحمن قاضی جن کی عمر ساٹھ سال کے قریب ہے اور شاہ سعود یونیورسٹی سے فارغ التحصیل ہیں، جاپانی پٹرول کمپنی میں ملازمت کرتے تھے اور اب ریٹائرڈ زندگی گزار رہے ہیں۔ ان کے چار بیٹے اور تین بیٹیاں ہیں۔ بڑے بیٹے کا نام تمیم ہے جس کے نام پر ان کی کنیت ہے۔ انہوں نے بڑی تفصیل سے اخبارات کو انٹرویو دیا جو سعودی اخبارات میں شائع ہوا۔

یہ کوئی ڈرامہ یا فلم کا حصہ نہیں تھا جب صبح دس بجے کے قریب صلح اور معافی کی تمام امیدیں ختم ہو گئیں تو شہزادے کو پابجولاں آہستہ آہستہ مقتل کی طرف لایا گیا۔ سیکورٹی کے افراد نے اس کا بازو تھاما ہوا تھا۔

صبح کے دس بج رہے ہیں۔ عدالت کے اہلکاروں نے مقتول کے والد سلیمان سے پوچھا: کیا آپ قاتل کو پہچان رہے ہیں؟ اس نے اس کے چچا زاد بھائیوں نے اور قبیلے کے افراد نے گواہی دی کہ یہی شہزادہ قاتل ہے۔ ادھر جلاد نے تلوار میان سے نکال لی ہے کہ شہزادے نے پکارا: اے ابو تمیم! اللہ کی رضا کی خاطر مجھے معاف کر دیں۔

اخباری نمائندوں کو سلیمان نے بتایا کہ میں نے گزشتہ تمام وقت صرف اور صرف قصاص ہی پر زور دیا تھا۔ میرے چچا زاد بھائی عبد الرحمن نے مجھے ایک بار پھر کہا کہ پانچ منٹ تک غور کر لو۔ میں سوچتا رہا۔ پانچ منٹ کے بعد پولیس کے چیف نے مجھ سے پوچھا کہ تم نے کیا فیصلہ کیا ہے۔ میں نے جواب دیا کہ قصاص لیا جائے چنانچہ اس نے جلاد کو اشارہ کر دیا۔ اس دوران قبیلے کے بعض افراد نے مجھے مشورہ دیا کہ میں ایک بار پھر استخارہ کرلوں اور اپنے رب سے بھی مشورہ طلب کرلوں۔ میں اس سے پہلے دو مرتبہ استخارہ کر چکا تھا اور میں اسی نتیجے پر پہنچا کہ مجھے ہر حالت میں قصاص چاہیے۔ آخری لمحات میں پھر میں نے استخارے کا فیصلہ کر لیا۔ مشہد (قتل گاہ) سے چند میٹر دور میں نے اپنا رخ قبلے کی طرف کر لیا۔ میرے نیچے کوئی مصلّٰی نہ تھا۔ ایک عزیز نے اپنا رومال سجدہ گاہ میں بچھا دیا کہ میں سورج کی تمازت سے بچ سکوں۔ آدھ گھنٹہ میں نماز ادا کرتا رہا اور مسلسل اپنے رب سے مشورہ کرتا رہا۔ (ادھر لوگ دم سادھے سلیمان القاضی کی طرف دیکھ رہے تھے۔) نماز کے بعد میں نے اپنے بیٹے تمیم سے کہا کہ موبائل پر اپنی والدہ سے بات کراؤ۔ میں نے اس سے پوچھا: تمہارا کیا فیصلہ ہے؟ اس نے کہا: تم جو بھی فیصلہ کرو گے مجھے منظور ہے۔ پھر میں نے اپنے بیٹے تمیم اور بھائی عبدالرحمن کو بلوایا اور ان کو بتایا کہ نماز استخارہ کے بعد میرا ذہن معاف کرنے پر آمادہ ہے۔ انہوں نے کہا کہ آخری فیصلہ تو تمہارا ہے مگر اللہ کے لیے معاف کردینا ہی بہتر ہے۔ ہو سکتا ہے اللہ ہمیں اس کے بدلے میں قیامت کو معاف کر دے۔ اب چند لمحات کی بات تھی شہزادہ سر جھکائے ہوئے تھا جلاد تلوار سونتے اشارے کا منتظر تھا کہ اچانک سلیمان القاضی نے پکارا: جاؤ میں نے اللہ کی رضا کے لیے تمہیں معاف کر دیا۔ مجھے کسی نے مجبور نہیں کیا اور نہ مجھے کوئی مالی لالچ ہے۔ ہاں، تمہیں قرآن حفظ کرنا چاہیے، بقیہ زندگی اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت اور فرمانبرداری میں گزارنی چاہیے۔

سلیمان القاضی نے جیسے ہی معاف کرنے کا اعلان کیا لوگوں میں خوشی کی لہر دوڑ گئی اور پھر میدان اللہ اکبر کے نعروں سے گونج رہا تھا۔ لاالہ الا اللہ کتنی ہی زبانوں پر تھا۔ حقیقی بلندی اللہ کی ہے جس کے قانون پر عمل کرتے ہوئے قصاص لینے کا فیصلہ کیا گیا اور پھر اسی کی رضا کے لیے معافی کا اعلان ہوا اور شہزادہ فہد کو نئی زندگی ملی۔ بے شمار لوگوں کی آنکھیں اشکبار تھیں۔ پھر سلیمان القاضی آگے بڑھا اور شہزادے کو گلے لگا لیا۔ شہزادہ فہد نے سلیمان القاضی کے سر کے بوسے لیے اپنے فعل پر ندامت کا اظہار کیا اور اس کا بار بار شکریہ ادا کیا کہ اس کے معاف کرنے کی بدولت اس نئی زندگی ملی ہے۔ اس نے وعدہ کیا کہ وہ آئندہ اپنی نئی زندگی اللہ کی اطاعت میں گزارے گا اور خدمت خلق کو اپنا شعار بنائے گا۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے