اس عالم رنگ و بو میں کوئی شخص بھی معمولی سے معمولی کام بھی بغیر کسی مقصد کے نہیں کرتا۔ کسان کاشتکاری کرتا ہے تو اس کا مقصد زمین سے غلہ حاصل کرنا ہوتا ہے۔ دوکاندار دوکان پر سارا دن گاہکوں کے انتظار میں بیٹھتا ہے تو اس کا مقصد بھی دوکان پر کی ہوئی سرمائی کاری سے منافع حاصل کرنا ہوتا ہے۔ اگر کوئی ملازم ملازمت کرتا ہے یا مزدوری کے پیشہ سے منسلک ہے تو سب کا اپنا اپنا کوئی نہ کوئی مقصد ہے اور پھر جب تک انسان کو اس کام یا پیشہ سے فائدہ نظر آتا ہے۔ وہ اس کو مزیدوسعت دینے کی کوشش کرتا ہے اور جس مقصد کے حصول کے لیے اس نے کام شروع کیا ہے یا کوئی پیشہ اپنایا ہے اس کے لیے ہمہ تن مصروف ہوتا ہے حتی کہ اپنے دن رات آرام و سکون بھی تج کر دیتا ہے۔ بیوی، بچوں کی محبت و رفاقت اور اپنی صحت تک کوقربان کر دیتا ہے اور اگر وہ اپنے مقصد میں کامیاب نہ ہو اور جس چیز کے حصول کے لیے اس نےمحنت کی تھی اس میں اسے کامیابی نہیں ملتی اور وہ ہر چیزحاصل نہیں کر سکا تو یقیناًوہ اس کام یا پیشے میں مزید جدوجہد کو ترک کر دیتا ہے اور کوئی دوسرا کام کرنے کی منصوبہ بندی شروع کر دیتا ہے جس سے وہ مقصد کو حاصل کر سکے۔

لوگو! کبھی تم نے اس بات پہ بھی غور کیا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے جو یہ سارا سلسلہ کائنات پیدا فرمایا ہے کہیں دن کی چکا چوند روشنی ہے تو کہیں رات کا پر سکون اندھیرا۔ کہیں سورج کی تمازت ہے تو کہیں چاند کی ٹھنڈک۔ کہیں ستاروں کی کہکشاں ہے تو کہیں سورج و چاند کی ضیا پاشی۔ کہیں حد نگاہ تک میدان نظر آتے ہیں تو کہیں فلک بوس پہاڑ۔ کہیں من بھاتا سبزہ ہے تو کہیں دور دور تک پھیلے صحرا۔ کہیں زمین کا بہترین فرش ہے تو کہیں آسمان کی نیلگوں چھت۔ کیا یہ سب کچھ بے فائدہ اور بغیر کسی مقصد کے ہی ہے۔ نہیں ہرگز نہیں، بلکہ ان سب و دیگر چیزیں جو ہم کو نظر آتی ہیں اور جو نظر نہیں آتیں فوائد اور مقاصد کو قرآن مجید کی ابدی صداقتوں میں یوں بیان فرمایا ہے:

الَّذِىْ جَعَلَ لَكُمُ الْاَرْضَ فِرَاشًا وَّالسَّمَاۗءَ بِنَاۗءً   ۠   وَّاَنْزَلَ مِنَ السَّمَاۗءِ مَاۗءً فَاَخْرَجَ بِهٖ مِنَ الثَّمَرٰتِ رِزْقًا لَّكُمْ   ۚ   فَلَا تَجْعَلُوْا لِلّٰهِ اَنْدَادًا وَّاَنْتُمْ تَعْلَمُوْنَ(البقرۃ:22)

’’ اللہ تعالیٰ کی وہ ذات بابرکت ہے جس نے اے انسانو! تمہارے لیے زمین کو فرش اور آسمان کو چھت بنایا اور آسمان سے پانی اتارکر اس کی وجہ سے تمہارے لیے قسما قسم کے پھلوں سے رزق پیدا کیا۔ تو (تم کو بھی چاہیے کہ) تم کسی کو اللہ تعالیٰ کو شریک نہ بناؤ۔ اور تم جانتے ہو۔‘‘

ایک دوسرے مقام پر یوںارشاد ہوتاہے :

ھُوَ الَّذِىْ خَلَقَ لَكُمْ مَّا فِى الْاَرْضِ جَمِيْعًا   ۤ ثُمَّ اسْتَوٰٓى اِلَى السَّمَاۗءِ فَسَوّٰىھُنَّ سَبْعَ سَمٰوٰتٍ   ۭ وَھُوَ بِكُلِّ شَىْءٍ عَلِيْمٌ (البقرۃ:29)

’’اللہ تعالیٰ کی وہ ذات ہے جس نے جو کچھ بھی زمین میں ہے سارے کا سارا تمہارے لیے پیدا کیا پھر اس نے آسمان کی طرف توجہ فرمائی تو ان کو سات آسمان برابر کر دئیے اور وہ ہر چیز کو جاننے والا ہے۔‘‘

ان آیات سے معلوم ہوا کہ اس سلسلہ کائنات کی ایک ایک چیز اللہ تعالیٰ نے انسان کی ضرورت اور فائدے کیلئے پیدا کی ہے ، جانوروں کی تخلیق کو بیان کرتے ہوئے ارشاد فرمایا :

وَالْاَنْعَامَ خَلَقَهَا ۚ لَكُمْ فِيْهَا دِفْءٌ وَّمَنَافِعُ وَمِنْهَا تَاْكُلُوْنَ وَلَكُمْ فِيْهَا جَمَالٌ حِيْنَ تُرِيْحُوْنَ وَحِيْنَ تَسْرَحُوْنَ وَتَحْمِلُ اَثْقَالَكُمْ اِلٰى بَلَدٍ لَّمْ تَكُوْنُوْا بٰلِغِيْهِ اِلَّا بِشِقِّ الْاَنْفُسِ ۭاِنَّ رَبَّكُمْ لَرَءُوْفٌ رَّحِيْمٌ   وَّالْخَيْلَ وَالْبِغَالَ وَالْحَمِيْرَ لِتَرْكَبُوْهَا وَزِيْنَةً   ۭ وَيَخْلُقُ مَا لَا تَعْلَمُوْنَ (النحل:5تا8)

’’ اور جانوروں کو پیدا کیا ان میں تمہارے لیے گرمی ہے اور ان میں سے(بعض کا گوشت) تم کھاتے ہو اور ان میں تمہارے لیے خوبصورتی ہے جب شام کو لے کرآتے اور جب صبح کو لیکر جاتے ہو۔ اور وہ تمہارے بوجھ (سامان) کو اٹھاتے ہیں دوسرے شہروں تک جہاں تم جانوں کی سخت مشقت کے بغیر نہیں پہنچ سکتے تھے بیشک تمہارا رب نرمی کرنے والا رحم کرنے والا ہے ۔ اور گھوڑے خچر اور گدھوں کو پیدا کیا تاکہ تم ان پر سواری کرو اور زینت حاصل کرو اور وہ کچھ پیدا کریگا جن کو تم نہیں جانتے۔‘‘

کھیت وکھلیان کے متعلق اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں :

هُوَ الَّذِيْٓ اَنْزَلَ مِنَ السَّمَاۗءِ مَاۗءً لَّكُمْ مِّنْهُ شَرَابٌ وَّمِنْهُ شَجَـرٌ فِيْهِ تُسِيْمُوْنَ   يُنْۢبِتُ لَكُمْ بِهِ الزَّرْعَ وَالزَّيْتُوْنَ وَالنَّخِيْلَ وَالْاَعْنَابَ وَمِنْ كُلِّ الثَّمَرٰتِ ۭاِنَّ فِيْ ذٰلِكَ لَاٰيَةً لِّقَوْمٍ يَّتَفَكَّرُوْنَ (النحل:10۔11)

’’اللہ تعالیٰ نے آسمان سے پانی اتارا اسی میں سے تمہارا پینا ہے اور درختوں کا اگانا ہے جن میں تم اپنے جانوروں کو چراتے ہو اس پانی کے سبب اللہ تعالیٰ تمہارے لیے کھیتیاں ،زیتون،کھجوریں،انگور اور ہر قسم کے پھل اگاتاہے بےشک اس میں نشانیاں ہیں غوروفکر کرنے والی قوم کیلئے۔‘‘

سمندر اور اس کے فوائد کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا:

وَهُوَ الَّذِيْ سَخَّرَ الْبَحْرَ لِتَاْكُلُوْا مِنْهُ لَحْمًا طَرِيًّا وَّتَسْتَخْرِجُوْا مِنْهُ حِلْيَةً تَلْبَسُوْنَهَا ۚ وَتَرَى الْفُلْكَ مَوَاخِرَ فِيْهِ وَلِتَبْتَغُوْا مِنْ فَضْلِهٖ وَلَعَلَّكُمْ تَشْكُرُوْنَ (النحل:14)

اللہ تعالیٰ نے تمہارے لیے سمندر کو مسخر(مطیع) کر دیا تاکہ تم اس میں تروتازہ گوشت کھاؤ اور اس میں سے زیورات حاصل کرو جن کو تم پہنتے ہو اور کشتیوں کو دیکھتے ہیں کہ وہ اس میں چلتی ہیں اور تاکہ تم اس سے اللہ تعالیٰ کے فضل میں سے تلاش کرو اور شکرگزار بن جاؤ۔‘‘

پہاڑوں اور نہروں کے متعلق فرمایا:

وَاَلْقٰى فِي الْاَرْضِ رَوَاسِيَ اَنْ تَمِيْدَ بِكُمْ وَاَنْهٰرًا وَّسُبُلًا لَّعَلَّكُمْ تَهْتَدُوْنَ(النحل:15)

’’اور اس اللہ نے ہی زمین میں پہاڑوں کو گاڑ دیا تاکہ تمہارے وزن سے زمین ہل نہ جائے اور نہریں پیدا کیں اور رستے بنادیئے تاکہ تم ہدایت حاصل کرو۔‘‘

بلکہ اللہ تعالیٰ نے تورات،دن چاند،سورج اور ستاروں کے متعلق ارشاد فرمایا کہ ان سب چیزوں کو اے انسانو تمہارے کام لگا دیاگیاہے۔

وَسَخَّرَ لَكُمُ الَّيْلَ وَالنَّهَارَ ۙ وَالشَّمْسَ وَالْقَمَرَ ۭ وَالنُّجُوْمُ مُسَخَّرٰتٌۢ بِاَمْرِهٖ ۭ اِنَّ فِيْ ذٰلِكَ لَاٰيٰتٍ لِّقَوْمٍ يَّعْقِلُوْنَ (النحل:12)

’’اور تمہارے مطیع کردیا( تمہارے کام میں لگادیا) رات،دن سورج اور چاند اور ستارے بھی اس کے حکم کے ساتھ مسخر کر دیئے گئے بیشک اس میں عقلمند قوم کیلئے نشانیاں ہیں۔‘‘

آج دیکھ لیجئے ہر چیز انسان کے کام میں لگی ہوئی دن آتاہے تو انسان کے کاروبار کرنے،آنے جانے کیلئے، رات آتی ہے تو انسان کے آرام کیلئے، سورج آتا ہے کھیتوں اور فصلوں کو پکانے کیلئے چاند ہے تو اس کی چاندنی سے پھلوں وغیرہ میں مٹھاس پیدا ہوتی ہے ستارے ہیں تو انسان کیلئے راستوں کی راہنمائی کرتے ہیں۔ الغرض دنیا جہان کی کوئی چیز بھی ایسی نہیں جس سے انسان فائدہ نہ اٹھا رہا ہوتو جس مقصد کیلئے اللہ تعالیٰ نے زمین وآسمان وما فیہا کو پیدا کیا وہ تو اپنی تخلیق کے مقصد کو پورا کرتاہے مگر انسان کبھی تو نے غور کیا ہے کہ جس مقصد کیلئے اللہ تعالیٰ نے تجھے پیدا کیا ہے کیا تو بھی اس مقصد کو پورا کر رہا ہے یا نہیں ؟

انسان کی تخلیق کا مقصد

کائنات کی ہر ایک چیز اللہ تعالیٰ نے انسان کے فائدے اور ضرورت کیلئے پیدا کی مگر انسان کی تخلیق اور پیدائش کا مقصد بیان کرتے ہوئے فرمایا :

وَمَا خَلَقْتُ الْجِنَّ وَالْإِنْسَ إِلَّا لِيَعْبُدُونِ (الذاریات:56)

’’ کہ جنوں اور انسانوں کو پیدا کرنے کا صرف یہ مقصد ہے کہ وہ (اللہ تعالیٰ کی )عبادت کریں۔‘‘

ایک دوسرے مقام پر یوں ارشاد ربانی ہوتی ہے :

الَّذِيْ خَلَقَ الْمَوْتَ وَالْحَيٰوةَ لِيَبْلُوَكُمْ اَيُّكُمْ اَحْسَنُ عَمَلًا   ۭوَهُوَ الْعَزِيْزُ الْغَفُوْرُ(الملک:2)

’’ اللہ تعالیٰ نے زندگی اور موت کا نظام اس لیے بنایا ہے تاکہ وہ تمہیں آزمائے کہ تم میں سے اچھے عمل کون کرتاہے اور وہ غالب بخشنے والا ہے۔‘‘

ان آیات بینات میں اللہ تعالیٰ نے انسان کی پیدائش کا مقصد صرف اور صرف اپنی بندگی کرنا بتایاہے کہ اس انسان کی زندگی کا ایک ایک لمحہ اللہ تعالیٰ کے احکام اور مرضی ومنشاکے مطابق گزرے تب اس انسان نے اپنی زندگی کے مقصد کو پورا کیا ہے ورنہ نہیں۔

حقیقی کامیابی

جب ہم یہ جان چکے کہ ہماری زندگی کا مقصد کیا ہے تو اب ہمیں یہ بھی معلوم ہونا چاہیے کہ اس مقصد میں حقیقی کامیابی کیاہے؟ تاکہ ہم سب اس کے حصول کی کوشش کریں کیونکہ بعض اوقات انسان کسی چیز کو کسی اور ذہن وخیال سے سوچتاہے مگر اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کو کسی اور انداز اور زاویہ سے بیان فرمایا ہوتاہے ۔ مثلاً ایک دفعہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین سے سوال کیا ؟ أَتَدْرُونَ مَا الْمُفْلِسُ ‘‘ میرے صحابہ کیا تم جانتے ہو کہ مفلس آدمی کون ہے ؟ تو صحابہ کرام رضوان اللہ علیھم اجمعین نے عرض کیا:

الْمُفْلِسُ فِينَا يَا رَسُولَ اللَّهِ مَنْ لَا دِرْهَمَ لَهُ وَلَا مَتَاعَ

کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم مفلس، غریب اور قلاش وہ آدمی ہے جس کے پاس درھم نہ ہوں اور نہ ہی ضروریات زندگی اس کو مہیا ہوں۔اب بظاہر صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کا جواب درست ہے مگر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مفلس کی نشاندہی کرتے ہوئے فرمایا :

الْمُفْلِسُ مِنْ أُمَّتِي مَنْ يَأْتِي يَوْمَ القِيَامَةِ بِصَلاَتِهِ وَصِيَامِهِ وَزَكَاتِهِ ، وَيَأْتِي قَدْ شَتَمَ هَذَا وَقَذَفَ هَذَا ، وَأَكَلَ مَالَ هَذَا ، وَسَفَكَ دَمَ هَذَا ، وَضَرَبَ هَذَا فَيَقْعُدُ فَ يَقْتَصُّ هَذَا مِنْ حَسَنَاتِهِ ، وَهَذَا مِنْ حَسَنَاتِهِ ، فَإِنْ فَنِيَتْ حَسَنَاتُهُ قَبْلَ أَنْ يُقْتَصّ مَا عَلَيْهِ مِنَ الخَطَايَا أُخِذَ مِنْ خَطَايَاهُمْ فَطُرِحَ عَلَيْهِ ثُمَّ طُرِحَ فِي النَّارِ.(مسلم)

’’دیکھئے اس حدیث مبارک میں صحابہ کرام نے مفلس اس آدمی کو سمجھا جس کے پاس ضروریات زندگی نہ ہوں مگر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے برعکس مفلس اس آدمی کو کہا ہے جس نے دنیا میں نیکیاں تو کیں مگر نیکیوں کے باوجود وہ شخص جنت سے محروم رہ گیا اور جہنم کا ایندھن بن گیا۔

اسی طرح ہمارے معاشرے میں کامیاب اس شخص کو سمجھا جاتاہے جس کے پاس دنیاوی زندگی گزارنے کے وسائل واقر مقدار میں موجود ہوں بینک بیلنس ہو، ذاتی مکان اور اپنی گاڑی پاس ہو یا کسی میونسپل کمیٹی کا چیئرمین یا ممبر بن جائے، ایم پی اے یا ایم این اے منتخب ہوجائے یا کوئی اور سرکاری عہدہ وزارت یا صدارت مل جائے تو ہم سمجھتے ہیں کہ یہ آدمی کامیاب ہوگیا ہے اور یہ ذہن معاشرے میں اجتماعی طور پر ہی ہے مگر اللہ تعالیٰ نے ان تمام چیزوں کی دستیابی کو کامیابی کا معیار نہیں ٹھہرایا بلکہ کسی اور چیز کو کامیابی قرار دیا ہے۔

چنانچہ ارشاد ربانی ہے :

كُلُّ نَفْسٍ ذَاۗىِٕقَةُ الْمَوْتِ ۭ وَاِنَّمَا تُوَفَّوْنَ اُجُوْرَكُمْ يَوْمَ الْقِيٰمَةِ ۭ فَمَنْ زُحْزِحَ عَنِ النَّارِ وَاُدْخِلَ الْجَنَّةَ فَقَدْ فَازَ ۭ وَمَا الْحَيٰوةُ الدُّنْيَآ اِلَّا مَتَاعُ الْغُرُوْرِ   (آل عمران:185)

ــ’’ہر جان موت کا مزہ چکھنے والی ہے اور قیامت کے دن تم اپنے بدلے پورے پورے دیئے جاؤ گے، پس جو شخص آگ سے ہٹا دیا جائے اور جنت میں داخل کر دیا جائے بیشک وہ کامیاب ہو گیا اور دنیا کی زندگی تو صرف دھوکے کا سامان ہے ۔‘‘

اس آیت مبارکہ سے معلوم ہوا کہ حقیقی کامیابی دنیا کا مال ودولت نہیں بلکہ قیامت کے دن دوزخ سے بچاؤ اور جنت میں داخلہ حقیقی کامیابی کی دلیل ہے۔

حقیقی کامیابی کیسے ممکن ہے ؟

قارئین کرام! گزشتہ سطور میں ہم پر یہ بات واضح ہوچکی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے کسی چیز کو بھی بے مقصد پیدا نہیں فرمایا تو انسان کی زندگی کا بھی ایک مقصد ہے جس کے حصول کے لیے اس کو زندگی کے ماہ وسال دیئے ہیں اور وہ ہے اعمال صالحہ کرنا، اور یہ بھی ہمیں معلوم ہوچکاہے کہ اس مقصد میں کامیابی کی دلیل یہ ہے کہ قیامت کے دن آدمی کو جہنم سے بچا کر جنت میںداخل کر دیا جائے تو آئیے اب یہ معلوم کرنے کی کوشش کریں کہ یہ کامیابی جس کو عرش والے نے کامیابی فرمایا ہے وہ ہمیں کیسے حاصل ہوسکتی ہے؟ تاکہ ہم بھی اس راستے پر چل کر اس ذریعے کو اپنا کر کامیابی کی منزل تک پہنچ سکیں تو اس راستے کی نشاندہی کرتے ہوئے اللہ رب العزت نے عرش سے یہ پیغام بھیجا۔

وَمَنْ يُّطِعِ اللّٰهَ وَرَسُوْلَهٗ يُدْخِلْهُ جَنّٰتٍ تَجْرِيْ مِنْ تَحْتِھَا الْاَنْھٰرُ خٰلِدِيْنَ فِيْھَا ۭ وَذٰلِكَ الْفَوْزُ الْعَظِيْمُ (النساء:13)

’’جس نے اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت کی اس کو اللہ تعالیٰ جنت میں داخل فرمائے گا جس میں نہریں جاری ہوں گی اور وہ لوگ اس میں ہمیشہ رہیں گے اور یہ بہت بڑی کامیابی ہے۔‘‘

ایک دوسرے مقام پر یوں ارشاد فرمایا:

يٰٓاَيُّهَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوا اتَّقُوا اللّٰهَ وَقُوْلُوْا قَوْلًا سَدِيْدًا يُّصْلِحْ لَكُمْ اَعْمَالَكُمْ وَيَغْفِرْ لَكُمْ ذُنُوْبَكُمْ ۭ وَمَنْ يُّطِعِ اللّٰهَ وَرَسُوْلَهٗ فَقَدْ فَازَ فَوْزًا عَظِيْمًا (الأحزاب:70۔71)

’’ اے ایمان والو! اللہ تعالیٰ سے ڈرو اور سیدھی سادھی بات کرو اس کی برکت سے اللہ تعالیٰ تمہارے معاملات کو درست فرمادیں گے اور اگر کوئی کوتاہی رہ گئی وہ تمہیں تمہارے گناہ معاف کردے گا۔اور جس نے اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم  کی اطاعت کی تو بے شک اس نے بہت بڑی کامیابی کو حاصل کر لیا۔‘‘

ان آیات سے بہت واضح طور پر معلوم ہوا کہ حقیقی کامیابی صرف اور صرف اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت وفرمانبرداری سے ہی حاصل ہوسکتی ہے کسی امام کی فقہ ، کسی مولوی کی تقلید، کسی مفتی کا فتویٰ، کسی فقیہہ کی فقاہت، کسی مجتہد کا اجتہاد، کسی خطیب کا خطبہ، کسی واعظ کا وعظ کسی قبر کے مجاور کی بیعت قطعاً کامیابی کی قطعی دلیل نہیں ہے۔ خود امام کائنات ختم الرسل امام اعظم حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا :

كُلُّ أُمَّتِي يَدْخُلُونَ الْجَنَّةَ إِلاَّ مَنْ أَبَى قَالُوا : يَا رَسُولَ اللهِ ، وَمَنْ يَأْبَى قَالَ مَنْ أَطَاعَنِي دَخَلَ الْجَنَّةَ ، وَمَنْ عَصَانِي فَقَدْ أَبَى.(بخاری)

’’میری ساری امت جنت میں داخل ہوگی مگر وہ شخص جنت میں داخل نہیں ہوگا جس نے جنت میں جانے سے انکار کر دیا، (صحابہ کرام نے حیرانگی سے سوال کیا) اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم وہ کون(بدنصیب) شخص ہے جو جنت میں جانے سے انکار کرےگا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا : ’’ جس نے میری اطاعت کی وہ تو جنت میں جائے گا اور جس نے میری نافرمانی کی بے شک اس نے(خودہی) جنت میں جانے سے انکار کردیا۔‘‘

ان آیات اور حدیث میں ان لوگوں کےلیے بھی سبق اور درس ہے جو کسی خاندانی اور نسبی تعلق کو ہی نجات کا معیار سمجھ بیٹھے ہیں۔ کہ جی فلاں تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے خاندان سےتعلق رکھتاہے فلاں سید ہے اور فلاں آل رسول۔ حالانکہ یہ تمام تعلقات اور رشتے اللہ تعالیٰ کے عذاب سے نہیں بچا سکیں گے اللہ تعالیٰ کے عذاب سے بچاؤ کا فقط ایک ذریعہ اور سبب ہے کہ اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت وفرمانبرداری کی جائے۔

گر جنت میں جانے کا ارادہ ہے تمامی کا

گلے میں کرتہ پہن لو محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی غلامی کا

قرآن وحدیث کو فقط اپنا رہبر بناؤ

دور پھینکو فتویٰ ھدایہ، عالمگیری شامی کا

اس دنیا میں تین رشتے بڑے اہم ،محترم، معظم اور دوسرے رشتوں سے زیادہ قریب سمجھےجاتے ہیں، ماں ،باپ،اولاد کا رشتہ، بیوی کا رشتہ۔

اب ہم ان تینوں کی مثالیں قرآن مجید سے ذکر کریں گے تاکہ بات مزید واضح ہوجائے کہ حقیقی کامیابی کا راز صرف اور صرف اللہ تعالیٰ اور رسول اللہ کی اطاعت ، اتباع اور فرمانبرداری میں ہی مضمر ہے۔

کافر باپ اور بیٹا نبی

سیدنا ابراہیم علیہ السلام کا انبیاء علیہم السلام میں جو مقام ومرتبہ ہے وہ کسی سے مخفی نہیں ان کے متعلق خودرب کریم نے ارشاد فرمایا :

وَاتَّخَذَ اللّٰهُ اِبْرٰهِيْمَ خَلِيْلًا (النساء:125)

’’اللہ تعالیٰ نے ابراہیم علیہ السلام کو اپنا دلی دوست بنایا۔‘‘

اس قدر بلند مقام ومرتبہ والا نبی ہے مگر باپ کافر ہے اور اپنے نبی بیٹے کا نافرمان ہے تو اس کیلئے اللہ تعالیٰ ابراہیم علیہ السلام کی زبان سے اعلان کروادیا:

يٰٓاَبَتِ اِنِّىْٓ اَخَافُ اَنْ يَّمَسَّكَ عَذَابٌ مِّنَ الرَّحْمٰنِ فَتَكُوْنَ لِلشَّيْطٰنِ وَلِيًّا(مریم:45)

’’کہ ابا جان(اگر آپ میری پیروی نہیں کریں گے تو) مجھے ڈر ہے کہ کہیں آپ پر اللہ تعالیٰ کی طرف سے عذاب نہ آجائے اور آپ شیطان کے دوست بن جائیں۔‘‘

اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ جب قیامت کا دن ہوگا حشر کے میدان میں سیدنا ابراہیم علیہ السلام اپنے باپ آزر کو دیکھیں گے کہ ان کا چہرہ سیاہ ہے(کیونکہ قیامت کے دن کفار کے چہرے سیاہ ہونگے۔ تفصیل کیلئے دیکھیے سورۃ آل عمران آیت نمبر 106)تو اللہ تعالیٰ کے حضور عرض کریں گے:

يَا رَبِّ إِنَّكَ وَعَدْتَنِي أَنْ لاَ تُخْزِيَنِي يَوْمَ يُبْعَثُونَ فَأَىُّ خِزْىٍ أَخْزَى مِنْ أَبِي الأَبْعَدِ فَيَقُولُ اللَّهُ تَعَالَى إِنِّي حَرَّمْتُ الْجَنَّةَ عَلَى الْكَافِرِينَ ثُمَّ يُقَالُ يَا إِبْرَاهِيمُ مَا تَحْتَ رِجْلَيْكَ فَيَنْظُرُ فَإِذَا هُوَ بِذِيخٍ مُلْتَطِخٍ فَيُؤْخَذُ بِقَوَائِمِهِ فَيُلْقَى فِي النَّارِ.(بخاری1/473)

’’اے میرے اللہ تعالیٰ تو نے مجھ سے وعدہ کیا تھا کہ مجھے قیامت کے دن رسوا نہیں کرے گا تو اللہ پاک اس سے بڑھ کر میرے لیے ذلت ورسوائی کیا ہوگی کہ میرے باپ کو رحمت سے دور کیا جائے تو اللہ تعالیٰ فرمائیں گے بے شک میں نے جنت کافروں پر حرام کردی ہے پھر حضرت ابراہیم علیہ السلام سے کہا جائے گا (ذرا دیکھ) آپ کے پاؤں میں کیا ہے تو جب ابراہیم علیہ السلام اپنے پاؤں کی طرف دیکھیں گے تو اس وقت وہ(آزر) بجوکی شکل ہوگی لت پت کئے ہوئے تو اس کو پاؤں سے پکڑ کر جہنم میں پھنک دیاجائے گا۔‘‘

اس حدیث مبارک سے جہاں سیدنا ابراہیم علیہ السلام کی عظمت وجلالت واضح ہوتی ہے وہاں یہ بھی روزروشن کی طرح ظاہر ہوتاہے کہ پیغمبر کا نافرمان اگرچہ پیغمبر کا باپ ہی کیوں نہ ہو وہ بھی نجات نہیں پاسکتا یعنی کامیاب نہیں ہوسکتا اور اللہ کے عذاب سے نہیں بچ سکتا دیکھئے باوجود ابراہیم علیہ السلام کی سفارش کے اللہ تعالیٰ ان کے کافر باپ آزر کو جنت میں داخل نہیں فرمائیں گے بلکہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کی عزت کی خاطر آزر کی شکل تبدیل کرکے جہنم میں پھینک دیا جائے گا۔

بیٹا کافر اور باپ نبی

انسان کا دوسراقریب ترین رشتہ اولاد کا ہوتاہے مگر جب ہم قرآن وحدیث میں نظر دوڑاتے ہیں تو یہ بات اظہر من الشمس ہوجاتی ہے کہ اگر کسی نبی کا بیٹا بھی اپنے باپ نبی کا نافرمان اور مخالف ہے تو وہ بھی حقیقی کامیابی کا حقدار نہیں ہوسکتا ، مثلاً حضرت نوح علیہ السلام اللہ تعالیٰ کے جلیل القدر پیغمبر ہیں ، ان کو آدم ثانی بھی کہا جاتا ہے (علیہ السلام) انہوں نے ساڑھے نوسوسال اس انداز سے اللہ تعالیٰ کی توحید بیان فرمائی کہ خود اس بات کا اظہار فرماتے ہیں :

قَالَ رَبِّ اِنِّىْ دَعَوْتُ قَوْمِيْ لَيْلًا وَّنَهَارًا (نوح:5)

کہ اے میرے اللہ میں نے اپنی قوم کو دعوت توحید دینے میں دن اور رات کا امتیاز ہی ختم کر دیا ہے ۔ یعنی چوبیس گھنٹے تیری توحید کی قوم کو دعوت دینے کی ہی فکر اور لگن ہے۔

خود اللہ پاک نے قرآن مجید کے متعدد مقامات پر نوح علیہ السلام کے علودرجات کو بیان فرماتاہے۔ مگر اتنے جلیل القدر نبی ورسول کا بیٹا بھی اگر اپنے باپ نبی کا نافرمان ہے تو اس بیٹے کو باپ سے نسبت پسرانہ بھی کامیاب نہ بنا سکی جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے سورۃ ھود میں بڑی تفصیل سے بیان فرمایا ہے جب اللہ تعالیٰ نے حضرت نوح علیہ السلام کو بذریعہ وحی یہ بتادیا کہ جتنے لوگ آپ پر ایمان لاچکے ہیں بس یہی ایمان لانے والے ہیں ان کے بعد کوئی بھی آپ پر ایمان نہیں لائے گا تو حضرت نوح علیہ السلام نے اس قوم کیلئے بددعا کی جس کو اللہ تعالیٰ نے سورۃ نوح آیت نمبر 26 میں بیان فرمایا ہے۔ اب اللہ تعالیٰ کی طرف سے یہ حکم آتاہے کہ آپ ایک کشتی تیار کریں اس میں اپنے ماننے والوں کو اور ہر چیز کا جوڑا جوڑا بٹھالیں باقی لوگوں کو پانی کا عذاب بھیج کر غرق کردیا جائے گا۔ حضرت نوح علیہ السلام اللہ تعالیٰ کے حکم سے 550 فٹ لمبی 91 فٹ 18 انچ چوڑی اور 55 فٹ اونچی کشتی تیار کرتے ہیں ، جس کی تین منزلیں بنائیں گئیں۔ سب سے نچلی منزل میں سامان وغیرہ رکھ دیا گیا۔ دوسری منزل میں حیوانوں کو بند کر دیاگیا اور بالائی(تیسری) منزل میں انسانوں کو ٹھہرایا گیا۔ جب یہ کشتی اللہ تعالیٰ کے حکم سے چلی اور پانی کا زور ہوا زمین نے اپنا پانی اگل دیا آسمان نے بھی جی بھر کر پانی برسایا تو اس وقت حضرت نوح علیہ السلام کی نظر بیٹے(ہام جس کا لقب کنعان تھا) پر پڑی تو اس کو بلاتے ہیں :

يَا بُنَيَّ ارْكَبْ مَعَنَا وَلَا تَكُنْ مَعَ الْكَافِرِينَ قَالَ سَآوِي إِلَى جَبَلٍ يَعْصِمُنِي مِنَ الْمَاءِ قَالَ لَا عَاصِمَ الْيَوْمَ مِنْ أَمْرِ اللَّهِ إِلَّا مَنْ رَحِمَ وَحَالَ بَيْنَهُمَا الْمَوْجُ فَكَانَ مِنَ الْمُغْرَقِينَ (ھود:42۔43)

’’ اے میرے بیٹے میرے ساتھ آکر کشتی میں سوار ہوجاؤ اور کافروں کا ساتھ چھوڑ دے (مگر بیٹا) کہتاہے میں اس پہاڑ پر جگہ بنالوںگا جو مجھے پانی سے بچالےگا (کیونکہ پانی ہمیشہ نیچی جگہوں کا رخ کرتاہے بلندیوں تک نہیں پہنچتا تو نوح علیہ السلام نے فرمایا بیٹا پانی بیشک نچلی جگہوں تک ہی رہتاہے۔ مگر یہی پانی جب اللہ تعالیٰ کا عذاب بن کے آجائے تو پھر یہ نشیب وفراز نہیں دیکھتا۔ پستیوں اور بلندیوں کی تفریق نہیں کرتا بلکہ اونچی نیچی سب جگہوں کو برابر کردیتاہے، آج بھی پانی اللہ تعالیٰ کا عذاب بن کر آیا ہے اس لیے) آج وہی اس پانی میں غرق ہونے سے بچے گا جس پر اللہ تعالیٰ رحم کرے گا۔(ابھی باپ بیٹے کی یہ گفتگو ہورہی تھی کہ)پانی کی موج آئی اور نوح علیہ السلام کا بیٹا بھی غرق ہونے والوں میں شامل ہوگیا۔ اب نوح علیہ السلام اللہ تعالیٰ کے حضور دعا کرتے ہیں :

رَبِّ إِنَّ ابْنِي مِنْ أَهْلِي وَإِنَّ وَعْدَكَ الْحَقُّ وَأَنْتَ أَحْكَمُ الْحَاكِمِينَ

کہ اللہ پاک یہ میرا بیٹا تو میرے اہل میں سے ہے اور آپ نے میرے اہل کو بچانے کا وعدہ بھی کیا تھااور بے شک آپ کا وعدہ بھی سچا ہے اور آپ سب حاکموں سے بڑے حاکم ہیں۔‘‘

مگر نوح علیہ السلام کی اس درخواست کے جواب میں عرش سے کائنات کے رب نے پیغام دیا :

يَا نُوحُ إِنَّهُ لَيْسَ مِنْ أَهْلِكَ إِنَّهُ عَمَلٌ غَيْرُ صَالِحٍ فَلَا تَسْأَلْنِ مَا لَيْسَ لَكَ بِهِ عِلْمٌ إِنِّي أَعِظُكَ أَنْ تَكُونَ مِنَ الْجَاهِلِينَ(ھود:46)

اے نوح علیہ السلام یہ آپ کا اہل نہیں کیونکہ اس کے عمل اچھے نہیں ہیں تو آپ ایسی چیز کے متعلق سوال نہ کریں جس کا آپ کو علم نہیں بے شک میں تجھے نصیحت کرتاہوں یہ کہ تو ہوجائے جاہلوںسے۔‘‘

قارئین کرام! اس ساری بحث سے معلوم ہوا کہ کامیابی کا معیار اور کسوٹی فقط پیغمبر کی اطاعت ہے ورنہ اگر نبی کا بیٹا باپ پیغمبر کا نافرمان ہے تو وہ بھی نجات نہیں پاسکتا۔

بیوی کافر اور خاوند نبی

اس دنیا میں انسان کے قریب ترین تیسرا رشتہ بیوی کا سمجھا جاتاہے لیکن اگر کوئی بیوی بھی اپنے خاوند نبی کی نافرمان ہے تو کامیابی کو وہ بھی حاصل نہیں کرسکتی، جیسا کہ قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ نے اس حقیقت کو یوں بیان فرمایا ہے :

ضَرَبَ اللّٰهُ مَثَلًا لِّلَّذِيْنَ كَفَرُوا امْرَاَتَ نُوْحٍ وَّامْرَاَتَ لُوْطٍ ۭ كَانَتَا تَحْتَ عَبْدَيْنِ مِنْ عِبَادِنَا صَالِحَيْنِ فَخَانَتٰهُمَا فَلَمْ يُغْنِيَا عَنْهُمَا مِنَ اللّٰهِ شَيْــــًٔا وَّقِيْلَ ادْخُلَا النَّارَ مَعَ الدّٰخِلِيْنَ

’’ اللہ تعالیٰ نے کافروں کو سمجھانے کیلئے حضرت نوح علیہ السلام اور حضرت لوط علیہ السلام کی بیویوں کی مثال بیان کی وہ دونوں اللہ تعالیٰ کے دو نیک بندوں نوح اور لوط علیہما السلام کے نکاح میں تھیں مگر ان دونوں نے اپنے اپنےخاوند نبی کی نافرمانی کی تو ان پر پیغمبر کی بیویاں ہونا بھی کچھ کام نہ آئے گا بلکہ قیامت کے دن ان کو کہہ دیا جائے گا کہ دوسرے جہنم میں داخل ہونے والوں کے ساتھ تم بھی جہنم میں داخل ہوجاؤ۔‘‘(التحریم:10)

اب دیکھئے! وہ دونوں عورتیں اپنے اپنے خاوند کی خدمت کرتی ہیں ان کے کپڑے دھوتی ہیں ، ان کا کھانا تیار کرتی ہیں چارپائی اور بستر لگاتی ہیں، حتیٰ کہ ان کی اولاد تک جنتی ہیں مگر دین کے معاملات میں وہ اپنے اپنے خاوند جو کہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے نبی بھی تھا کی اطاعت واتباع ، فرمانبرداری اور پیروی نہیں کرتیں تو اللہ تعالیٰ نے واضح طور پر فرمایا :

فَلَمْ يُغْنِيَا عَنْهُمَا مِنَ اللّٰهِ شَيْــــًٔا وَّقِيْلَ ادْخُلَا النَّارَ مَعَ الدّٰخِلِيْنَ

کہ اگر انہوں نے نبی کی اطاعت نہیں کی تو ان کا پیغمبروں کی بیویاں ہونا بھی ان دونوں کو اللہ کے عذاب سے نہیں بچا سکے گا۔ بلکہ ان کو قیامت کے دن دوسرے جہنمی لوگوں کے ساتھ دوزخ کی آگ میں داخل ہونے کا حکم مل جائے گا۔

پیغمبر کی فرمانبرداری کرنے کی عظمت

جبکہ اس کے مقابلے میں جس کسی نے بھی اپنے وقت کے پیغمبر اور رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت کی تو اللہ تعالیٰ نے حقیقی کامیابی اس کا مقدر ٹھہرا دی جیسا کہ سورۃ تحریم میں ہی اللہ تعالیٰ نے فرمایا :

وَضَرَبَ اللّٰهُ مَثَلًا لِّلَّذِيْنَ اٰمَنُوا امْرَاَتَ فِرْعَوْنَ   ۘاِذْ قَالَتْ رَبِّ ابْنِ لِيْ عِنْدَكَ بَيْتًا فِي الْجَنَّةِ وَنَجِّــنِيْ مِنْ فِرْعَوْنَ وَعَمَلِهٖ وَنَجِّــنِيْ مِنَ الْقَوْمِ الظّٰلِمِيْنَ (التحریم:11)

کہ اللہ تعالیٰ نے ایمان والوں کو سمجھانے کے لیے فرعون کی بیوی کی مثال بیان کی جب اس نے کہا کہ اللہ پاک میرے لیے اپنے نزدیک جنت میں گھر بنادے اور مجھے فرعون اور اس کے کارندوں سے نجات دےدے بلکہ ساری ظالم قوم سے مجھے نجات عطا فرما۔

فرعون کی بیوی حضرت آسیہ رضی اللہ عنہا کی اللہ تعالیٰ نے مثال بیان فرماکر یہ بات سمجھا دی کہ دیکھو( اے انسانو!) اگر کائنات کے بدترین کافر کی بیوی ہوکر بھی پیغمبر موسیٰ علیہ السلام کی اطاعت ،اتباع اور فرمانبرداری کرے گی تو اللہ تعالیٰ اس کو بھی جنت میں مقام عطا فرمائے گا۔ بلکہ اس کو تو اللہ تعالیٰ نے اس کی موت سے بھی پہلے اس کا جنت میں محل اس کو دکھادیا تھا۔ اسی طرح امام کائنات حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی مبارک زندگی کو دیکھتے ہیں تو یہی حقیقت ہم پر آشکار ہوتی ہے کہ نجات اور حقیقی کامیابی صرف اور صرف پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت سے ہی حاصل ہوسکتی ہے کہ حضرت بلال رضی اللہ عنہ ، حضرت سلمان فارسی رضی اللہ عنہ اور دیگر کئی صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کہ جن کا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے خاندانی،نسبی، علاقائی یا لسانی کوئی تعلق نہیں مگر وہ امام کائنات علیہ الصلٰوۃ والسلام کے مطیع اور فرمانبردار بن گئے تو اللہ تعالیٰ نے ان کیلئے یہ اعلان فرمادیا :

رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمْ وَرَضُوا عَنْهُ

کہ وہ سب کے سب اللہ تعالیٰ پر راضی ہوگئے اللہ تعالیٰ بھی ان سے راضی ہوگیا۔ لیکن اگر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے خاندانی اور نسبی رشتہ رکھنے کے باوجود امام الانبیاء صلی اللہ علیہ وسلم کے نافرمان مخالف اور دشمن رہے تو اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں ہی ان کے لیے ابدی جہنمی ہونے کا اعلان قیامت تک کیلئے فرمادیا ۔ دیکھیے ابو لہب ،ابوجہل رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے رشتہ دار ہی تو تھے لیکن اگر آپ  صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت نہیں کی تو کامیاب نہ ہوسکے بلکہ دنیا وآخرت دونوں جہاں میں ناکام ہوگئے۔

قارئین کرام! اس ساری بحث سے ہم اس نتیجہ پر پہنچے ہیں کہ کامیابی جس کو اللہ رب العزت نے کامیابی قرار دیا ہے وہ صرف اور صرف جنت کے حصول کا نام ہے اور جنت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت سے ہی حاصل ہوسکتی ہے تو ہم سب کو اس بات کی کوشش میں لگ جانا چاہیے کہ ہماری زندگی کا ایک ایک لمحہ ہماری زندگی کے لیل ونہار،ہمارا کھانا پینا، اٹھنا بیٹھنا،سوناجاگنا،چلنا پھرنا، عبادات، معاملات، لین دین، نماز روزہ غرض کہ ایک ایک عمل رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی مبارک سنت اور پیارے طریقے کے مطابق ہوکیونکہ ہر مومن کیلئے آپ  صلی اللہ علیہ وسلم کے طریقہ پر زندگی گزارنا ضروری قراردے دیا گیاہے۔

لَقَدْ كَانَ لَكُمْ فِيْ رَسُوْلِ اللّٰهِ اُسْوَةٌ حَسَنَةٌ لِّمَنْ كَانَ يَرْجُوا اللّٰهَ وَالْيَوْمَ الْاٰخِرَ (الاحزاب:21)

جو شخص بھی اللہ تعالیٰ اور روزِ آخرت پر ایمان رکھتاہے اس کے لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی ہی بہترین نمونہ ہے۔‘‘

تاکہ ہم سب اللہ تعالیٰ کی بیان کردہ حقیقی کامیابی کو حاصل کر سکیں ۔

وما توفیقی إلا باللہ علیہ توکلت وإلیہ أنیب
اللھم وفقنا لما تحب وترضی

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے