چھری کی دھار سے کٹتی نہیں چراغ کی لو

کسی کے مر جانے سے کردار مر نہیں سکتا

لَتَجِدَنَّ أَشَدَّ النَّاسِ عَدَاوَةً لِّلَّذِينَ آمَنُوا الْيَهُودَ وَالَّذِينَ أَشْرَكُوْا وَلَتَجِدَنَّ أَقْرَبَهُمْ مَوَدَّةً لِّلَّذِينَ آمَنُوا الَّذِيْنَ قَالُوْا إِنَّا نَصَارَى ذَلِكَ بِأَنَّ مِنْهُمْ قِسِّيْسِيْنَ وَرُهْبَانًا وَأَنَّهُمْ لَا يَسْتَكْبِرُوْنَ (سورۃ المائدۃ82)

’’تمام لوگوں میں سب سے زیادہ مسلمانوں سے عداوت رکھنے والے تم قوم یہود کو پاؤگے اور ان لوگوں کو جو شرک کرتے ہیں ،اور مسلمانوں کیلئے نرم گوشہ ان لوگوں کے دلوں میں ہے جو اپنے آپ کو نصاریٰ کہلاتے ہیں اس کی وجہ یہ ہے کہ ان میں دانش منداور عبادت گذار لوگ پائے جاتے ہیں اور وہ تکبر نہیں کرتے ‘‘۔

دین اسلام انسانیت میں اتفاق و اتحاد پیدا کرتا ہے ان کو آپس میں تسبیح کے دانوں کی ماند جوڑتا ہے لیکن اس کا صحیح مفہوم سمجھنے اور اس پر عمل کرنے کے بجائے اگر مذہب، سیاسی، ذاتی، نسلی اور گروہی اغراض کے لیے استعمال کیا جائے تو امت مسلمہ کو توڑنے کا ذریعہ بن جاتا ہے ہمارا دین امن و سلامتی کا دین ہے اگر اسے مذکورہ بالا متعصبانہ مذموم مقاصد کے لیے استعمال کیا جائے تو قتل و غارت گری کا سبب بھی بن جاتا ہے۔

خلفائے راشدین رضی اﷲ عنہم اجمعین کے مبارک عہد کے بعد سے آج تک ہر دور میں مسلسل اسلام کے خلاف سازشیں کی جاتی رہی ہیں،ہر زمانے میں اس کو مٹانے اور جڑ سے اکھاڑ پھینکنے کے مختلف جتن کئے گئے ،اسلام کے خلاف محاذ آرائی بیرونی طور پر جنگ وجدال اور صلیبی معرکوں کے ذریعہ جس شدومدسے کی گئی، اس میں کوئی شک وشبہ نہیں کہ میدان قتال میں اسلام کے خلاف دشمنوں کو خاطر خواہ کامیابی نہیں مل سکی ،جس کی انہیں توقع تھی ،البتہ اندرونی محاذ پر اُن کی تخریبی سازشیں پوری طرح کامیاب رہی ہیں جس کے نتیجہ میں ملت اسلامیہ آج پارہ پارہ نظر آتی ہے۔ اسلام کے خلاف سازشیں کرنے والے کون لوگ ہیں اور انہوںنے کن ہتھیاروں سے اسلام کے قلعہ میں شگاف ڈالنے کی کوشش کی ہے؟ اس کا جواب مذکورہ بالا آیت مبارکہ سے واضح طور پر ملتا ہے۔

قرآن مجید کی اس آیت کی روشنی میں ہمارے سب سے بڑے اور شدید دشمن ’’یہود ‘‘ قرار پاتے ہیں اور ان کے ساتھ وہ لوگ بھی جو شرک کا ارتکاب کرتے ہیں ! اﷲتعالیٰ نے عیسائیوں کو کسی قدر ہمدرد بتایا ہے ۔ربّ العالمین سے زیادہ سچی بات کس کی ہوسکتی ہے ؟لیکن جب ہم ان آیات کی روشنی میں تاریخ کے صفحات کا مطالعہ کرتے ہیں تو ہمیں یہ دیکھ کر تعجب ہوتا ہے کہ وہ نصاریٰ جن کے دلوں میں ہمارے لئے نرم گوشہ بتایا گیا ہے ،ان سے گذشتہ چودہ سو سالوں میں مسلمانوں کے بے شمار معرکے اور محاذ آرائیاںہوئی ہیں ،خاص طور پر صلیبی جنگوں کا طویل سلسلہ تو تاریخ میں مشہورہی ہے ۔،اسی طرح مشرکین اور کافروں سے بھی بہت سی جنگیں مسلمانوں نے لڑی ہیں ،مگر ہمارے سب سے بڑے دشمن یعنی ’’یہودی ‘‘ جو ہم سے شدید عداوت رکھتے ہیں ،ان کے بارے میں تاریخ ہمیں یہ بتاتی ہے کہ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم نے ’’خیبر‘‘ میں یہود کی جو خبر لی تھی اور پھر آخر میں سیدنا عمر فاروق رضی اﷲتعالیٰ عنہ نے انہیں خیبر اور گردونواح سے نکال باہر کیا تھا اس کے بعد سے یہود کے ساتھ مسلمانوں کی کوئی قابل ذکر محاذ آرائی یا معرکہ موجودہ صدی تک ہمیں نظر نہیں آتا، البتہ اس صدی میں ’’اسرائیل‘‘ کے ناجائز قیام کے بعد سے یہود کی عربوں سے متعدد جنگیں ہوچکی ہیں اور اب بھی ان سے جنگ وجدال کا ماحول جاری ہے ۔

ہمارا ایمان ہے کہ اﷲتعالیٰ کا کلام برحق ہے اور اسی طرح ہمیں یہ بھی یقین کامل ہے کہ کوئی ’’شدید دشمن’’چودہ سو سال کے طویل عرصہ تک خاموش اور چپ چاپ نہیں بیٹھ سکتا ۔وہ تو اپنی فطرت کے مطابق لازمی طور پر حریف کو نقصان پہنچانے اور اس کو خاک میں ملانے کی کوشش ہمہ وقت کرتا رہے گا۔

آئیے اس بات پر غور کریں کہ ہمارے سب سے بڑے دشمن ’’قوم یہود ‘‘ نے گذشتہ چودہ سو سالوں میں ہمیں کہاں کہاں اور کیسے کیسے نقصان پہنچانے کی کوشش کی ہے۔

تاریخ ہمیں یہ بتاتی ہے کہ سیدنا فاروق اعظم رضی اﷲعنہ کے دور خلافت تک قوم یہود کو اسلام اور ملت اسلامیہ کی طرف بُری نگاہ ڈالنے کی ہمت بھی نہیںہوئی ،لیکن اس کے بعد سیدنا عثمان غنی رضی اﷲعنہ کے عہد مبارک میں اپنے آپ کو فعال بنانا شروع کر دیا۔ سب سے پہلے عبداﷲبن سبانامی یہودی جو یمن کا رہنے والا تھا ،اس نے ایک سازش کے تحت بظاہر اسلام قبول کیا اور پھر مسلمانوں کے درمیان رہ کر مکر وفریب کے جال پھیلانے میں مصروف ہوگیا، اور اس نے نئے نئے دائرہ اسلام میں داخل ہونے والے اس وقت کے مسلمان (خصوصاً مصر اور عراق کے علاقہ میں )اس کے دام فریب میں پھنس گئے۔

پھر جب سیدنا علی رضی اﷲ عنہ نے عراق کے شہر ’’کوفہ‘‘ کو اپنا دارالخلافہ بنالیا۔ تو یہ علاقہ اس گروہ کی سرگرمیوں کا مرکز بن گیا اور چونکہ مختلف اسباب وجوہات کی بنا پر اس علاقہ کے لوگوں میں غالیانہ اور گمراہانہ افکار ونظریات قبول کرنے کی صلاحیت کچھ زیادہ ہی تھی۔ اس لئے کوفہ میں عبداﷲبن سبا کے گروہ کو اپنے مشن میں بہت زیادہ کامیابی حاصل ہوئی۔ ابن جریر طبری کا بیان ہے کہ عبداﷲبن سبانے سادہ لوح مسلم عوام کو گمراہ کرنے کے لیے سب سے آسان طریقہ یہ اختیار کیا کہ ان کی محبوب اور مقدس ترین شخصیت کے بارے میں غلو وافراط کا نظریہ عام کیا جائے ،اس مقصد کے لیے اس یہودی نے یہ شوشہ چھوڑا کہ ’’مجھے مسلمانوں پر تعجب ہے جو سیدنا عیسیٰ علیہ السلام کے اس دنیا میں دوبارہ آمد کا عقیدہ تو رکھتے ہیں، مگر سید الانبیاء محمدرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اس دنیا میں دوبارہ آمد کے قائل نہیں۔ حالانکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم عیسیٰ علیہ السلام اور تمام انبیاء سے افضل واعلیٰ ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم بھی یقیناً دوبارہ اس دنیا میں تشریف لائیں گے۔ عبد اﷲ بن سبا نے یہ بات ایسے جاہل اور ناتربیت یافتہ مسلمانوں کے سامنے رکھی جن میں اس طرح کی خرافات قبول کرنے کی صلاحیت دیکھی پھر جب اس نے دیکھا کہ اس کی یہ غیر اسلامی اور قرآنی تعلیم کے سراسرخلاف بات مان لی گئی ،تو اس نے رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ سیدنا علی رضی اﷲ عنہ کی خصوصی قرابت کی بنیاد پر آپ کے ساتھ غیر معمولی عقیدت ومحبت کا اظہار کرتے ہوئے ان کی شان میں غلو آمیز باتیں کہنا شروع کردیں، ان کی طرف عجیب وغریب ’’معجزے‘‘ منسوب کرکے سیدنا علی رضی ﷲعنہ کو مافوق الفطرت ہستی باور کرانے کی کوشش کی اور جاہلوں اور سادہ لوح طبقہ جو اس کے فریب کا شکار ہوگیا، وہ اس کی ساری خرافات قبول کرتا رہا، اس طرح اس نے اپنی سوچی سمجھی سازش کے مطابق تدریجی طور پر سیدنا علی رضی اﷲ عنہ کے بارے میں ایسے خیالات رکھنے والے اپنے معتقدین کا ایک حلقہ بنا لیا۔ اس یہودی نے انہیں یہ باور کرایا کہ اﷲتعالیٰ نے نبوت ورسالت کے لئے دراصل سیدنا علی بن ابی طالب رضی اﷲ عنہ کو منتخب کیا تھا، وہی اس کے مستحق اور اہل تھے۔ اور حامل وحی فرشہ جبرائیل امین کو ان کے پاس نبوت دے کر بھیجا تھا، مگر انہیں اشتباہ ہوگیا اور وہ غلطی سے وحی لے کر محمدبن عبداﷲ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس پہنچ گئے۔

اس سے بھی آگے بڑھ کر اس نے کچھ احمق اور سادہ لوح لوگوں کو یہ سبق پڑھایا کہ سیدنا علی رضی اﷲعنہ اس دنیا میں اﷲکا رُوپ ہیں اور ان کے قالب میں اﷲکی روح ہے، اور اس طرح گویا وہی اﷲہیں۔ سیدنا علی رضی اﷲ عنہ کے علم میں جب یہ بات آئی کہ ان کے لشکر میں کچھ لوگ ان کے بارے میں ایسی خرافات پھیلارہے ہیں تو آپ نے ان شیاطین کو قتل کردینے اور لوگوں کی عبرت کے لیے آگ میں ڈالنے کا حکم صادر فرمایا اور اس طرح سیدنا علی رضی اﷲ کی الوہیت کا عقیدہ رکھنے والے یہ شیاطین ان ہی کے حکم سے قتل کردئیے گئے اور آگ میں ڈالے گئے۔ عبد اﷲ بن سبا یہودی نے اسلام میں سیدنا علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ سے محبت کا دعویٰ کرنے والوں کی بنیاد رکھی۔ اس کے بعد یہ تحریک خفیہ طور پر اور سرگوشیوں کے ذریعہ جاری رہی اور رفتہ رفتہ اسلام میں مستقل طور پر ایک اسلام مخالف لابی وجود میں آگئی، جو سیدنا علی رضی اﷲعنہ کی محبت کی آڑ لے کر اسلام اور مسلمانوں میں مختلف ڈھنگ سے باہم نفرت وعداوت اور بغض وکینہ پیدا کرنے میں مصروف ہوگئی۔ اس طرح کچھ لوگ سیدنا علی رضی اﷲ کی الوہیت یا ان کے اندر روحِ الٰہی کے حلول کے قائل تھے اور کچھ ایسے تھے جو اُن کو رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم سے بھی افضل واعلیٰ نبوت ورسالت کا اصل مستحق سمجھتے تھے اور جبرائیل امین کی غلطی کے قائل تھے، کچھ لوگ ان میں ایسے تھے جو رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد اﷲ تعالیٰ کی طرف سے نامزد امام ،امیر اور وصی رسول مانتے تھے ،اور اس بناء پر خلفا ثلاثہ یعنی سیدنا ابوبکرالصدیق، سیدنا عمر فاروق اور سیدنا عثمان غنی رضی اﷲعنہم، اور ان تمام صحابہ کرام رضی اﷲ عنہم کو جنہوں نے ان حضرات کو خلیفہ تسلیم کیا تھا اور دل سے ان کا ساتھ دیا تھا، یہ لوگ انہیں کافر ومنافق یا کم ازکم غاصب وظالم اور غدار کہتے تھے۔ ان کے علاوہ بھی ان میں مختلف عقائد ونظریات رکھنے والے گروہ تھے جو مختلف ناموں سے پکارے گئے۔ ان سب میں نقطۂ اشتراک سیدنا علی رضی اﷲ عنہ کے بارے میں غلو تھا، ان میں بہت سے فرقوں کا اب دنیا میں غالباً کہیں وجود بھی نہیں پایا جاتا، تاریخ کی کتابوں کے اوراق ہی میں ان کے نام ونشان باقی رہ گئے ہیں۔ تاہم یہ بات اظہر من الشمس ہے کہ عبداﷲ بن سبا یہودی ہی اسلام میں مذکورہ بالا فرقہ کا موجد وبانی ہے۔ نیز یہ لوگ دراصل یہودی تحریک ہے جو اسلام کے نام پر امت مسلمہ کو باہم متفرق اور ٹکڑے ٹکڑے کرکے ان کا وجود ختم کرنے کے لیے، ایک سازش کے تحت برپاکی گئی تھی۔ ابن سبا کے بارے میں اسماء الرجال کی کتاب ’’رجال الکشی‘‘ سے ایک اقتباس نقل کیا جا رہاہے۔ابن جریر طبری ’’تاریخ الامم والملوک ‘‘ شہرستانی کی ’’الملل والنحل ‘‘ ابن حزم اندلسی کی ’’الفصل فی الملل والنحل ‘‘ اور ابن کثیر دمشقی کی ’’البدایہ والنہایہ‘‘ میں بھی اس بات کی صراحت کی گئی ہے کہ اس فرقہ کا بانی عبداﷲبن سبا یہودی ہے۔ مگر چونکہ بہت سے اس فرقہ کے علماء اورمصنفین عبداﷲ بن سبا سے براء ت کا اظہار کرتے ہیں، یہاں تک کہ ماضی قریب کے بعض مصنفین نے تو عبداﷲبن سبا کو ایک فرضی ہستی قرار دے دیا ہے گویا وہ سرے سے اس کے وجود ہی کے منکر ہیں، اس لئے ان کے نزدیک اسماء رجال کی مستند ترین کتاب ’’رجال الکشی‘‘ کاحوالہ پیش کرتے ہیں:

(ذکر بعض اہل العلم انّ عبد ﷲ بن سبا کان یھودیاً فاسلم ووالی علیاً علیہ السلام ، وکان یقول وھو علی یھود یتہ یوشع بن نون وصی موسی بالغلو ، فقال فی الاسلام بعد وفاة رسول ﷲ صلی اللہ علیہ وسلم علی علیہ السلام مثل ذلک ، وکان اول من اشھر بالقول بفرض امامة علی واظھر البراء ة من اعدائہ وکاشف مخالفیہ کفرھم ۔)

بعض اہل علم نے ذکر کیا ہے کہ عبد اﷲ بن سبا پہلے یہودی تھا، پھر اسلا م قبول کیا اور سیدنا علی علیہ السلام سے خاص تعلق کا اظہارکیااور اپنی یہودیت کے زمانے میں وہ موسیٰ کے وصی یوشع بن نون کے بارے میں غلو کرتا تھا، پھر رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد اسلام میں داخل ہوکر وہ اسی طرح کاغلو سیدنا علی علیہ السلام کے بارے میں کرنے لگا، اور وہ پہلا آدمی ہے جس نے سیدنا علی کی امامت کے عقیدے کی فرضیت کا اعلان کیا، اور ان کے دشمنوں سے براء ت ظاہر کی اور کھلم کھلا ان کی مخالفت کی اور انہیں کافر قرار دیا۔ (رجال الکشی :ص١٧،طبع بمبئی ١٣١٧ھ ایضاً :ص٧١)

مذہب کے نام پر سب سے پہلے انہی لوگوں نے ہلاکوخان کو دعوت دی تھی جس نے بغداد پر حملہ کر کے مسلمانوں کا قتل عام کیا اور بنو عباسیہ کے آخری خلیفہ مستعصم باللہ کو قالین میں لپیٹ کر گھوڑوں سے روندا گیا اور خلیفہ کی بیٹی کو طلب کر کے چنگیز خان کے پوتے مونکو خان کے حرم میں دے دیا گیا۔ ایسے ہی شاہ اسماعیل صفوی جنہوں نے 1487ء سے لے کر 1526ء تک ایران میں مسلمانوں کو گاجر مولی کی طرح کاٹا اور اب حال ہی میں اسی گروہ کے کارندوں نے عراق اور شام میں مسلمانوں کے خون کی ہوئی کھیلی۔ تاریخ شاہد ہے کہ ان کو جب بھی کسی ظالم حکمران طبقہ کی چھتری میسر آئی تو انہوں نے قتل و غارت گری کا بازار گرم کیا۔

10 محرم 6جولائی 1986 کو کوئٹہ میں بھی ایسا خونی کھیل کھیلا گیا جب ایک ہی دن میں 700 مسلمانوں کا قتل عام کیا گیا اسکولز سے بچیوں کو اٹھا کر اغوا کر کے ان کے پستان کاٹے گئے جب پولیس نے مداخلت کرنا چاہی تو 17 پولیس اہلکاروں کے سر کاٹ کر فٹ بال بنا کر کھیلا گیا۔ اور ایسے ہی 10 محرم 31 دسمبر 2009 کو بولٹن مارکیٹ کراچی میں ایک دھماکہ ہوا تھا جس میں چند لوگ قتل ہوئے تھے اس کے رد عمل کے طور پر مین مارکیٹ میں 300 دکانوں کو آگ لگائی گئی جس میں 30 ارب روپے کا نقصان ہوا تھا ان دکانوں کے مالکان کا تعلق ایک اکثریتی مکتب فکر سے تھا۔ اسی طرح 10 محرم 22 نومبر 2013 بروز جمعۃ المبارک کو راولپنڈی میں اللہ کے گھر اور مدرسہ تعلیم القران میں ظالمانہ کاروائی کی گئی وفاق المدارس کے ترجمان مولانا عبدالقدوس محمدی کے بیان کے مطابق اس پورے حادثے میں 80 کے قریب لوگ جان بحق ہوئے اور مولانا اشرف علی مہتم مدرسہ تعلیم القرآن کے بیان کے مطابق 200 سے زائد طلبہ ابھی تک لاپتہ ہیں۔ مجرموں نے مسجد اور مدرسہ کی الماریوں سے کتاب اللہ کے نسخے اور دینی کتب اٹھا کر مسجد کے صحن میں رکھ کر انہیں نذر آتش کیا گیا۔

راولپنڈی کے تاجر رہنما شرجیل میر کا کہنا تھا کہ مسجد و مدرسہ اور مدینہ کلاتھ مارکیٹ کو آگ لگانے والے کوئی عام لوگ نہ تھا بلکہ انتہائی تربیت یافتہ تھے۔ انہوں نے بتایا کہ ان کے پاس ایک خاص قسم کے کیمیکل کی بوتلیں تھیں جیسے ہی دکانوں میں انڈیلتے وہاں آگ بھڑک اٹھتی اور ایک فائر فائیٹر نے بتایا کہ ان کی ٹیم یہ بات سمجھنے سے قاصر ہے کہ جب آگ بجھانے کے لیے اس پر پانی ڈالا جاتا تو آگ مزید بھڑک اٹھتی اس کیمیکل کا آگ سے کوئی ایسا ری ایکشن ہوتا تھا جس سے آگ اور تیز ہو جاتی ایسا کیمیکل اس سے پہلے کبھی نہیں دیکھا تھا۔ اور یہ کہا گیا کہ یہ حملہ آور آتشین اسلحہ خنجروں اور زنجیروں سے مسلح تھے۔ انسانیت سوز سانحہ راولپنڈی نے پاکستان میں دہشت گردی کو بڑھانے اور اندرونی عدم استحکام کو پھیلانے کی ایک مجرمانہ کاروائی ہے کہ ایک اقلیتی مکتب فکر نے اکثریتی مکتب فکر کو نشانہ بنایا ہے اس سارے کھیل کے پیچھے وہی یہودی کارستانی کارفرما دکھائی دیتی جو صدیوں سے مسلمانوں کے خلاف سازشوں میں مصروف ہیں وہ یہودی لابی پاکستان کو عراق، مصر اور شام بنانا چاہتی ہے اور اس کے بعد اس کا رخ ارض مقدس حرمین شریفین کی طرف بھی ہو سکتا ہے۔ موجودہ حکومت جس کو اسلام کے بہت قریب سمجھا جاتا ہے اگر اس نے سانحہ راولپنڈی کے مجرموں کو گرفتار کر کے قرار واقعی سزا نہ دی اور انہیں عدالت کے کٹہرے نہ کھڑا تو پھر اکثریتی مکتب فکر کے غیض و غضب سے ملک کو بچانا مشکل بلکہ ناممکن ہوجائے گا۔

ذرائع ابلاغ کی طرف سے حسب سابق سانحہ راولپنڈی میں بھی جانبداری کا مجرمانہ مظاہرہ کیا گیا کہ پنڈی کے مسجد و مدرسہ کی توہین کے واقع پر ذمہ دارانہ صحافت کا بورڈ لگا معاملہ گول مول کرنے کی کوشش کی گئی۔ سوال یہ اٹھتا ہے کہ میڈیا والوں کو کیا کبھی دوسرے اقلیتی مکتب فکر کے کسی واقع پر ایسی غیر ذمہ داری کا مظاہرہ کرتے دیکھا گیا ہے۔ یقیناً جواب نفی میں ہو گا، تو اس کا مطلب واضح ہے کہ میڈیا بھی کسی اور کے اشاروں پر چلتا ہے یہ بھی ملک میں بد امنی اور افراتفری کا ذمہ دار ہے اس لیے میڈیا کو بھی اپنا قبلہ درست کرنے کی ضرورت ہے ورنہ اللہ کی لاٹھی بے آواز ہے اور عوام کا غیض و غضب بھی بے جرم ہوتا ہے۔

عیسائی حکومت کی عصبیت:

افریقی ملک انگولا کی کیتھولک عیسائی حکومت نے اپنے ملک میں اسلام کو خلاف قانون مذہب قرار دے کر پابندی لگا دی اور ملک میں 80 مساجد کو شہید، 320 مساجد اور 15 مدارس کو بھی مسمار کر دیا ہے سینکڑوں مسلمان طلباء علما کرام اور اساتذہ کو پکڑ کر جیل میں ڈال دیا ہے۔ انگولا کےان اقدامات کی جتنی بھی مذمت کی جائے وہ کم ہے یہ مسلمانوں کے ساتھ بد ترین عصبیت کا مظاہرہ مگر اسلام کی فطرت ہے اسے جتنا بھی دبایا جائے اتنا ہی یہ ابھرے گا۔

’’اسلام کی فطرت میں قدرت نے وہ لچک دی ہے                           یہ اتنا ہی ابھرے گا جتنا کہ اس کو دبا دیں گے‘‘

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے