يٰٓاَيُّهَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْٓا اِنْ جَاۗءَكُمْ فَاسِقٌۢ بِنَبَاٍ فَتَبَيَّنُوْٓا اَنْ تُصِيْبُوْا قَوْمًۢا بِجَــهَالَةٍ فَتُصْبِحُوْا عَلٰي مَا فَعَلْتُمْ نٰدِمِيْنَ (الحجرات 6)

اے لوگو جو ایمان لائے ہو، اگر کوئی فاسق آدمی تمہارے پاس کوئی خبر لائے تو (اس کی) تحقیق کر لیا کرو، (ایسا نہ ہو) کہ نادانی سے کسی قوم پر جا چڑھو پھر تمہیں اپنے کئے پر پچھتانا پڑے۔

آج کل ہمارے ہاںاکثر جو واعظین اور مبلغین ہیں ان پڑھ اور کُرے جاہل لوگوں کو دین کی طرف بلانے کے لیے نکلے ہوئے ہیں۔

اولاً: تو کسی چیز کا علم ہی نہیں کہ بیان کیا کرنا ہے اور بیان کرنے سے قبل ایک مبلغ کے لیے کیا شرائط ہے، مثلاً امام بخاری رحمہ اللہ فرماتے باب العلم قبل القول والعمل اور پھر اللہ رب العالمین کا فرمان ذکر فرماتے ہیں

{فَاعْلَمْ أَنَّهُ لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ وَاسْتَغْفِرْ لِذَنْبِكَ} [محمد: 19]

کلمہ توحید اور توبہ استغفار سے بھی پہلے علم کاہونا ضروری ہے بالفاظ دیگر کہ توحید کا اقرار اور اپنے گناہوں سے تائب ہونے سے قبل مکمل طور پر عقیدہ اسلامیہ اور توبہ کی شروط کا علم ہونا ضروری ہے۔ اور جب معاملہ اجتماعی ہو تو اس کےلیے تو بالاولیٰ علم کا ہونا بہت ضروری ہوا آجکل تو دین کی تبلیغ ایسے لوگوں نے اپنے ذمہ لے لی ہے کہ کل تک ان کے چہرے پر سنت رسول صلی اللہ علیہ وسلم  بھی نہ تھی اور کبھی مسجد و مدرسہ کا گیٹ بھی نہ دیکھا ہو گا [الا من رحم ربی]لیکن آج وہ لوگوں کو وعظ ونصیحت کیلیے نکلے ہوئے ہیں یعنی کہ ایسے لوگوں کو اپنے دین اسلام، عقیدہ توحید، ودیگر ضروری مسائل کا تو علم نہیں ہوتا اور یہ لوگ دوسرے  لوگوں کی اصلاح کے لیے نکلے ہوئے ہیں، راقم کی اسی گذشتہ رمضان المبارک میں آزاد کشمیر میں شعبہ دعوت و اصلاح میں ذمہ داری لگی تو آٹھ مقام کے نزدیک ایک چھوٹا سا شہر ہے (غالبا) جُورا۔ نماز تراویح کے بعد پروگرام سے فارغ ہونے کے بعد جوراشہر دیکھا کہ کچھ لوگ تبلیغ میں مصروف ہے،ہما رےپاس آئے تو چند ایک باتیں کیں پھر راقم نے سوال کرنا چاہا لیکن یہ مبلغ جواب دینے سے کترا رہا تھا ۔بلآخراسکو جواب دینا پڑا۔ تو سوال میں نے یہ کیا کہ اللہ رب العالمین اپنی ذات کے اعتبار سے کہاں ہیں تو جواب میں کہنے لگے کہ ہر جگہ ہر بندے کیساتھ ہیں، تو راقم الحروف نے عرض کی دیکھو بھائی قرآن میں ارشادہے { الرَّحْمَنُ عَلَى الْعَرْشِ اسْتَوَى } [طه: 5]اور اسی طرح نبی صلی اللہ علیہ وسلم  نے اس لونڈی سے سوال کیا (أین اللہ) تو اس نے آسمان کی طرف اشارہ کر کے کہا ’’فی السماء‘‘ پھر نبی صلی اللہ علیہ وسلم  نے سوال کیا (من أنا) تو کہتی ’’أنت رسول اللہ‘‘ رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا (أعتقھا فانھا مؤمنہ) (بخاری)

ابھی گفتگو جاری تھی کہ سات آٹھ اس طرح کے لوگ اور آگئے دو تین منٹ کی گفتگو سننے کے بعد فورا پکار اٹھے یہ تو پرائمری پاس ہے ان مسائل کا ہمیں کیا علم تو راقم نے کہا سبحان اللہ پرائمری پاس ہے اپنے عقیدہ کا علم نہیں اوردیگر بنیادی مسائل تک کا علم نہیں اور نکلے ہےلوگوں کو اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم  کیطرف بلانے واہ سبحان اللہ تو بات ہو رہی تھی کچھ ایسے مبلغین ہیں جنکو کچھ علم نہیں ہوتا وہ عوام الناس کو گمراہ کرنے کیلیے نکلے ہوئے ہیں۔اور کچھ ایسے مبلغین ہیں جو ہیں تو علماءیا چند دن مسا جد ومدارس میں لگائے ہوئے لیکن بیان کرنے سے قبل حدیث رسول صلی اللہ علیہ وسلم  کی کوئی تحقیق نہیں کتنے کتنے گھنٹے واعظ چلتا ہے لیکن موضوع من گھڑت اور ضعیف احادیث و کہانیاںقصے بیان کیے جاتے ہیں، حالانکہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم  نےفرمایا سیدنا عبدالرحمن بن زبیر رضی اللہ عنہ راوی ہے فرماتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا:

 مَنْ كَذَبَ عَلَيَّ مُتَعَمِّدًا فَلْيَتَبَوَّأْ مَقْعَدَهُ مِنَ النَّارِ (صحيح البخاري ـ (2/ 102))

فرمایا کہ جس انسان نے جان بوجھ کر میرے اوپر جھوٹ بولا پس وہ اپنا ٹھکانا جہنم بنا لے ،اور اس طرح بخاری و مسلم میں روایت ہے سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا جس انسان نے مجھ پر قصداً جھوٹ بولا اسے چاہیے کہ اپنا ٹھکانہ دوزخ میں تلاش کرے(بخاری، مسلم)

اور اس طرح مغیرۃ بن شعبہ رضی اللہ عنہ سے منقول ہے فرماتے ہیں:کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  سے یہ فرماتے ہوئے سنا کہ مجھ پہ جھوٹ بولنا کسی عام انسان پر جھوٹ بولنے کی طرح نہیں ہے مجھ پر جس شخص نے جھوٹ بولااسے چاہیےکہ اپنا ٹھکانہ دوزخ میں تلاش کرے۔ رسول صلی اللہ علیہ وسلم  کے ان مضامین عالی شان کو دیکھنا چاہئےاور جو لوگ علم ہونے کے باوجو دضعیف اور من گھڑت احادیث بیان کرتے ہیں۔ ایسے علماء کو ضرور بضرور غور کرنا چاہیے۔ عزیز بھائیوں یہ تو بات حدیث ضعیف کے بارے میں تھی ذرا دوسری طرف بھی دیکھئے صرف سنی سنائی بات کی تشہیر کرنے والے کے بارے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  نے کیا فرمایا:

كَفَى بِالْمَرْءِ كَذِبًا أَنْ يُحَدِّثَ بِكُلِّ مَا سَمِعَ  (صحيح مسلم (1/ 8)

انسان کے جھوٹے ہونے کے لیے یہی کافی ہیں کہ وہ ہر سنی سنائی بات نقل کر دے، اور اسی طرح ابو ہریرۃ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیںکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا کہ آخری زمانہ میں ایسے فریب دینے والے جھوٹے لوگ ہوںگے جو تمہارے پاس ایسی حدیثیںلائیں گے جنہیں نہ تم نے سنا ہو گانہ تمہارے باپوں نے سنا ہو گا، لہذا ان سے بچو اور ان کو اپنے آپ سے بچاؤتا کہ وہ تمہیں گمراہ کریں اور نہ فتنے میں ڈالیں (مسلم)

حدیث رسول صلی اللہ علیہ وسلم  کو بھی دیکھئے اور ذرا ان کے خطباء کو بھی دیکھئے جو کہ کہتے ہیں آج ایسی حدیثیں بیان کروںگا جو کہ آپ احباب نے کبھی بھی نہ سنی ہو گی سبحان اللہ ہاں یہی احادیث رسول صلی اللہ علیہ وسلم  کی سنی سنائی بات آگے نہ بیان کی جائے۔ لیکن آج معاملہ کیا ہے بالکل اس کے بر عکس اور ضعیف احادیث بیان کرنے والے کے بارے میں کتنی سخت وعیدیں وارد ہوئی ہیں، لیکن ادھر ہم دیکھتے ہیں کہ بعض احباب نے اپنے کاروبار کو چلانے کا ذریعہ بنایا ہوا ہے (موضوع روایات) اور بعض تو نام نہاد مسلمان ایسے ہیں کہ ان کے دین کی بنیاد ہے ہی موضوع من گھڑت قصے کہانیوں پر اللہ رب العالمین ایسے دعاۃ الشر کو ہدایت نصیب فرمائے (آمین)

(بغیر تحقیق و علم وعظ جا ئز نہیں)

اللہ رب العالمین فرماتے ہیں:

{وَلَا تَقْفُ مَا لَيْسَ لَكَ بِهِ عِلْمٌ} [الإسراء: 36]

اور جس بات کا آپکو علم نہیں اسکے پیچھے نہ پڑو، اور اسی طرح سورۃ الانعام میں فرمایا:

فَمَنْ اَظْلَمُ مِمَّنِ افْتَرٰي عَلَي اللّٰهِ كَذِبًا لِّيُضِلَّ النَّاسَ بِغَيْرِ عِلْمٍ   (آیت 144)

پھر (بتلاؤ،) اس شخص سے بڑھ کر ظالم کون ہوگا جو لوگوں کو گمراہ کرنے کے لئے اللہ پر بِلا دلیل جھوٹی تہمت لگائے۔

سورۃ آل عمران میں اعلان ہوتا ہے:

{هَا أَنْتُمْ هَؤُلَاءِ حَاجَجْتُمْ فِيمَا لَكُمْ بِهِ عِلْمٌ فَلِمَ تُحَاجُّونَ فِيمَا لَيْسَ لَكُمْ بِهِ عِلْمٌ} [آل عمران: 66]

 دیکھو تم وہ لوگ ہو جنہوں نے ان باتوں میں جھگڑا کیا جن کی بابت (کچھ نہ کچھ) علم تمہارے پاس تھا تو (اب) ایسی بات میں کیوں جھگڑتے ہو جس کے بارے میں تمہارے پاس (کوئی) علم نہیں ۔

ایسے مبلغین کو غور و فکر کرنا چاہیے جو کہ بغیر علم کے یا بغیر تحقیق و اسناد کے گھنٹوں اپنے وعظ کو موضوع ،من گھڑت، ضعیف احادیث و قصص سے چمکارتے رہتے ہیںجبکہ امت محمدیہ صلی اللہ علیہ وسلم  کا تو الحمد اللہ یہ خا صہ ہے کہ یہ دین کی ہر بات باسند بیان کرتی ہے۔جیسا کہ امام مسلم فرماتے ہیں:

يَقُولُ الإِسْنَادُ مِنَ الدِّينِ وَلَوْلاَ الإِسْنَادُ لَقَالَ مَنْ شَاءَ مَا شَاءَ (صحيح مسلم ـ(1/ 12)

اسناد دین میں سے ہیں اگر اسناد نہ ہوتی تو جس شخص کا جو دل چاہتا کہتا۔

قیامت کی علامات میں سے ایک علامت یہ بھی ہے۔

  إِذَا أُسْنِدَ الأَمْرُ إِلَى غَيْرِ أَهْلِهِ فَانْتَظِرِ السَّاعَةَ

جب معاملات نا اہل لوگوں کے سپرد کر دیے جائیں تو قیامت کا انتظار کرو۔ (صحيح البخاري (8/ 129)

ایسے انسان کے لیے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم  نے کیسی بددعا فرمائی ہے ذرا غور کیجئے، جو نبی  صلی اللہ علیہ وسلم پر جھو ٹ بولے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک شخص کو اپنے کسی کام سے بھیجا، تو اس شخص نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم  پر جھوٹ بولا، نبی صلی اللہ علیہ وسلم  نے اس کو بددعا دی تو وہ شخص مرا ہوا پایا گیا اوراسکا پیٹ پھٹ گیا تھا اور زمین نے اس کو قبول نہ کیا (مقدمہ موضوعات کبیر) سیدنا عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ  نےایک مرتبہ اپنےساتھیوں سے فرمایا کہ جانتے ہو اس حدیث کا کیا قصہ تھا؟ قصہ یہ ہوا کہ ایک آدمی کسی عورت پر عاشق ہو گیا تو وہ آدمی اس عورت کے گھر واالوں کے پاس آیا اور کہا کہ مجھ کو تمھاری طرف رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  نے بھیجا ہے۔ تا کہ تمھارے ہاں جس گھر میں چاہوں مہمان بن جاؤں۔ اب یہ انسان تو شام کے انتظار میں بیٹھ گیااور گھر والوں میں سے ایک شخص نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم  کے پاس پہنچ گیا اور کہا کہ فلاں شخص کہتا ہے کہ آپ نے اس کو حکم دیا ہے کہ ہمارے ہاں جہاں چاہے رات گزارے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا کہ اس نے جھوٹ بولا ہے مجھ پر۔ اے فلاں تم چلے جاؤ اگراللہ نےتمہیں اس پر قابو دلا دیا تو اس کی گردن اڑا دو اور میرا خیال ہے کہ اللہ پہلے ہی اس کے مارنے کے لیے کافی ہو گا۔ تو اتنے میں بارش ہو گئی وہ شخص گھر سے باہر آیا تاکہ نماز کیلئے وضو بنائے تو سانپ نے اسکو ڈس لیا جب نبی صلی اللہ علیہ وسلم  کو علم ہوا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا وہ جہنم میں ہے۔ (موضوعات کبیر بحوالہ واعظ بیان ص20) تو یہ ہے انجام ایسے انسان کا جو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم  پر جھوٹ باندھے اور کچھ مبلغین ایسے ہیں جو کہ اپنے آپ کو بڑا علامہ اور محدث کہلوانے کی خاطر اپنی ہی طرف سے حوالہ جات پیش کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ موجودہ دور میں بھی کچھ ایسے خطباء ہیں۔ اب چند ایک واقعات ماضی بعید کے دور سے ذکر کرتا ہوں اور آپ خود اندازہ لگا لیں کہ اس دور میں یہ حالت تھی تو آج کیا صورت حال ہو گی، جو کہ ایک طرف لطیفے اور چٹکلے ہیں مگر دوسری طرف وہ دین اسلام کے قواعد پر ظلم کے مترادف ہیں امام اہل السنۃ امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ اور محدث زماں یحییٰ بن معین رحمہ اللہ نے رصافہ کی جامع مسجد میں نماز پڑھی کہ اتنے میں ان کےسامنے ایک مبلغ کھڑے ہو گئے اور ایک شاندار تقریر شروع کر دی کہنے لگا ہمیں احمد بن حنبل اور یحییٰ بن معین رحمہما اللہ نے بیان کیا ان کو عبدالرزاق نے اور ان سے معمر نے اور معمر نے قتادۃ سے سیدنا انس رضی اللہ عنہ کہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا جو انسان لا الہ اللہ کہتا ہےتو اللہ تعالی اس کے ہر کلمے کے بدلے ایک پرندہ پیدا فرماتے ہیں اور جسکی چونچ سونے کی اور پر مرجان کے۔ اس طرح بیان کرتے کرتے تقریبا 20 ورق بیان کر ڈالے، اور دوسری طرف یہ دونوں امام ایک دوسرے کی طرف حیرانی سے دیکھ رہے تھے امام اہل السنۃنے یحیی بن معین سے پوچھا کیا آپ نے اسے بیان کیا ہے، تو کہنے لگے اللہ کی قسم میں تو خود یہ سب کچھ پہلی مرتبہ سن رہا ہوں۔ جب وہ مبلغ خاموش ہوا تو امام صاحب نےاشارہ کیا کہ ادھر آؤ فوراً وہ آیا (یہ سمجھا کی شاید کوئی عطیہ ہو) یحیی بن معین نے کہا آپ کو یہ حدیث کس نے بیان کی ہے کہنے لگا احمد بن حنبل اوریحیی بن معین نے تو آپ نے فرمایا میں  یحیی بن معین اور یہ احمد بن حنبل ہیں ہم نے تو کبھی یہ نہیں سنا کہ یہ حدیث رسول صلی اللہ علیہ وسلم  ہے، اور نہ ہی بیان کیا اگر آپ نے جھوٹ بولنا ہی تھا تو کسی دوسرے انسان پر بولتے کم ازکم اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم  پر نہ بولتے، واعظ بولا کہ آپ یحییٰ بن معین ہیں آپ نے کہاں ہاں تو کہنے لگا میں ہمیشہ سے سنتا آ رہا ہوں کہ مگر اب اسکی تحقیق ہو گئ ہےامام صاحب پوچھتے ہیں وہ کیسے تو وہ کہنے لگا کہ  تمہارا یہ خیال ہے کہ گویا دنیا میں کوئی اور یحییٰ بن معین اور احمد بن حنبل ہے ہی نہیں؟ میں نے تو 17 یحییٰ بن معین اور احمد بن حنبل سے روایت نقل کی ہے اب تعجب کے طور پر ابن حنبل نے اپنی آستین اپنے چہرے پہ ڈال دی اور فرمایا اسے چھوڑئیے کہ چلا جائے (مقدمہ مترجم موضوعات کبیر64)

اسی طرح امام شعبی فرماتے ہیں کہ میں ایک مسجد میں نماز کے لیے گیا ایک خطیب صاحب تبلیغ میں مصروف تھے ااور کہہ رہے تھے کہ اللہ نے دو صور (سینگ) پیدا کیے ہیں ایک بے ہوش کرنے کے لیے اور دوسرا ہوش میں لانے کے لیے۔ امام شعبی فرماتے ہیںمیں صبر نہ کر سکا جلدی جلدی نماز ختم کی اور کہا مولانا صاحب صور تو ایک ہی ہو گا۔ ہاں پھونک دو مرتبہ ماری جائیگی تو مولوی صاحب غصہ میں آکر چلانے لگے اور فاسق و فاجر فلاں فلاں نے تو اس حدیث کو بیان کیا ہے، اور ساتھ جوتا لے کر مارنا شروع کر دیا جب عوام الناس نے دیکھا تو سارے کے سارے لوگ مجھے مارنے لگے، خدا کی قسم اس وقت تک مارتے رہے یہاں تک کہ میں نے قسم اٹھائی اللہ نے 30صور پیدا کیے ہیں اور ہر سینگھ میں الگ الگ پھونک ہوگی تب جا کر ان لوگوں نے چھوڑا، (مترجم موضوعات کبیر۶۴ نعمانی کتب خانہ)

سیدنا اعمش رضی اللہ عنہ جب بصرہ میں داخل ہوئے تو آپ نے ایک واعظ کو بیان کرتے دیکھا جو کہہ رہا تھا کہ مجھے اعمش نے بیان کیا اسکو ابو اسحاق نے اور اسکو ابو وائل نے بیان کیا ہے، تو یک دم سیدنا اعمش مجلس میں آکر کھڑے ہو گئے اور اپنی بغل سے بال نوچنے لگے، واعظ بڑے غصے میں آکر کہتا کہ اے شیخ آپکو شرم نہیں آتی کہ ہم علمی باتیں کر رہے ہیں اور آپ کیسی حرکت کر رہےہیں مجلس میں۔ تو سیدنا اعمش کہنے لگے جس کام کو میں کر رہا ہوں وہ آپکی گفتگو سے بہتر ہے اس نے کہا وہ کیسے فرمایا: میں تو پھر بھی ایک سنت پہ عمل کر رہا ہوں اور آپ تو جھوٹ بول رہے ہیں میں ہی تو اعمش ہوں، (مقدمہ موضوعات)

اسی طرح سیدنا خطیب بغدادی اپنی سند کے ساتھ محمد بن یونس سے نقل کرتے ہیں کہ محمد بن یونس فرماتے ہیں کہ میں اہواز میں تھا میں نے ایک شخص سے واعظ کے دوران یہ سنا کہ جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم  نے سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا اور سیدنا علی رضی اللہ عنہ کا نکاح کروایا تو جنت میں درخت طوبی کو اللہ تعالی نے حکم دیا کہ تو موتیاں نچھاور کر، تاکہ اہل جنت آپس میں تحفے تحائف پلیٹوں میں تقسیم کریں میں نے کہا: اے شیخ یہ تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم   پر تو جھوٹ ہے اس نے کہا اے بدبخت چپ ہو جاؤ یہ تو لوگوں کی دل لگی کی چیز ہے، (مقدمہ موضوعات کبیر)

یہ تو رہی ماضی بعید کے دور کی باتیں ابھی اس موجودہ دور میں بھی اکثر مبلغین اور واعظین کا بھی یہی ہال ہے، بندہ نا چیز تقریباً دو سال قبل جامعہ کی سالانہ چھٹیوں میں گھر گیا تو ایک تبلیغی بھائی نماز مغرب کے بعد کھڑے ہوئے اور تبلیغ شروع کی تو کیا کہتے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا: (اختلاف امتی رحمۃ) میری امت کا اختلاف بھی رحمت ہے درس ختم ہوا تو بندہ نا چیز تبلیغی بھائی کی خدمت میں حاضر ہوا اور سوال کی اجازت طلب کی۔ اجازت کے بعد ابھی عرض اتنی کی تھی کہ یہ حدیث۔ تو فوراً مولانا صاحب پکار اٹھے موضوع ہی ہے نا؟ تو میں نے کہا سبحان اللہ! علم بھی ہے کہ حدیث موضوع ہے پھر بھی بڑی جرات و ہمت کیساتھ کہہ جا رہا ہے کہ قال النبی صلی اللہ علیہ وسلم ۔ یہ تو تھا وہ جسکی بات ہی کیا کرنی؟ ایک دوسرے عالم دین ہیں ماشاءاللہ آواز بہت سریلی۔ تقریباً تین سال قبل عید الاضحیٰ کے موقع پر انکی زیر سرپرستی بھینس کی قربانی ہوئی نماز مغرب کے بعد میں حضرت صاحب جو کہ ماشاءاللہ سلفی العقیدہ بھی ہیں کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  سے بھینس کی قربانی کا ثبوت ملتا ہے، تو کہنے لگے ہاں تو عرض کیا پڑھیں حدیث! مولانا صاحب کہنے لگے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا: (الجاموس نوع من البقرۃ)بھینس گائے کی نسل میں سے ہے، بندہ نا چیز نے عرض کیا مولانا صاحب یہ تو لغت والے نے کہا ہے نہ کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم  نے۔ فرمانے لگے نہیں نہیں یہ حدیث رسول صلی اللہ علیہ وسلم  ہی ہے میں نے عرض کی تو حوالہ بتلائیے کہتے ہیں حوالہ تو یاد نہیں میں نے کہا چلو جہاں پڑھی  ہے اس کتاب کا نام ہی بتا دیجئے کہنے لگے اس کتاب کا نام بھی مجھے یاد نہیں لیکن وہ کتاب شیخ محمد کنگن پوری کی لائبریری میں موجود ہے اور وعدہ کیا کہ میں آپکو کتاب کا حوالہ یا کتاب لا کر دکھاؤںگا تو ابھی تقریبا ۳سال سے زائد کا عرصہ ہو گیا نہ کتاب آئی نہ حوالہ آیا، یہ تو حال ہے ہمارے علماءمبلغین اور دعاۃالخیر کا۔ ایسے خطباءکو کچھ تو اللہ کا خوف کرنا چاہیےاور بات کرنے اور کہنے سے قبل تحقیق ضرور کر لینی چاہیے۔ امام بخاری تو ایسے انسان جو اپنی طرف سے حدیث گھڑے اس کے خلاف سخت سزا بلکہ قتل کا فتویٰ دیا کرتے تھے ، (تحذیر الخواص ، میزان الاعتدال، مترجم موضوعات کبیر)

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے