جب کوئی پیدائشی مسلمان اللہ کے دین کی طرف دل سے راغب ہوتا ہے اور اللہ کے دین کوسمجھنے کی کوشش کرتا ہے تو ابتداََ اسے ایک ہی مشکل کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ دین سیکھنا کہاں سے شروع کیا جائے؟ دین کہاں سے سیکھا جائے؟ یہ وہ پہلا مرحلہ ہے جہاں سے دین کا دشمن شیطان اپنا کردار ادا کرنا شروع کر دیتا ہے۔ اوّل تو ہدایت کے راستے پر آنے والے کودین سے دور کرنے کے جتن کرتا ہے اور اگر پھر بھی کوئی استقامت کے ساتھ اپنے مقصد پر قائم رہے تو اسے غلط راستے آسان کر کے دکھاتا ہے تاکہ وہ غلط مآخذ سے دین حاصل کرے جو بالآخر ناقص اور الجھے ہوئے ہوں۔ ہوتا یہ ہے کہ اس طرح کے ناقص مآخذ سے دین کا علم حاصل کرنے کے بعد یا تو بندہ الجھ جاتا ہے یا پھر کسی ایک شخص کو کامل سمجھ کر اسکی اطاعت کرتے ہوئے شخصیت پرستی میںمبتلا ہو جاتا ہے۔ چاہے وہ شخصیت کوئی عام سا مولوی ہو یا کوئی بڑا شیخ۔ ظاہر ہے کوئی انسان کامل نہیںنہ ہی خطا سے مبرّا ہے۔ اور پھر شخصیت پرستی کا شکار ہو کروہ دین حق کے تحفظ کی بجائے اس شخصیت یا اس گروہ پر اٹھنے والے اعتراضات کے دفاع میں اپنی کاوش، علم اور محنت صرف کر دیتا ہے چونکہ وہ اس گروہ یا شخصیت کو ہی نمونہ بنائے ہوتا ہے اور وہ اس اعتماد کو ٹھیس پہنچتا دیکھ نہیں پاتا جو اس نے قائم کیا ہوتا ہے۔ جبکہ مطلوب تو یہ تھا کہ وہ حق کو ہی تلاش کرتا چاہے وہ کہیں سے بھی مل جائے اور اسکو تحقیق کے بعد تسلیم کر لیتا اور اسکا دفاع کرتا۔

یاد رکھو دین حق کا ماخذ آج بھی وہی ہے جو روز اوّل تھا۔یعنی اللہ کی دی ہوئی کتاب اور رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم  کی کی گئی تشریح، مراد حدیث مگر صحیح سلسلے کے ساتھ۔ یہاں بھی شیطان کا ایک اور مورچہ ہے۔ وہ لوگوں کو ان مآخذکے فہم کی نئی نئی ترکیبیں سجھاتا ہے جبکہ انصاف تو یہ تھا کہ قرآن کو اس طرح سمجھا جائے جس طرح اس کے حامل رسول اللہ نے سمجھایا اور وہ احادیث میں مکتوب ہے اور احادیث کا بھی وہی مفہوم لیا جائے جو اس وقت کے بہترین لوگوں یعنی صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے لیا یا پھر اپنے بعد کے آنے والوں یعنی تابعین کو سمجھایا۔ بہترین بات تو یہ ہے کہ اُن کا فہم بھی انکی صحیح سیرت اور کتب احادیث میں موجود ہے۔ضرورت صرف اس امر کی ہے کہ ان تک رسائی حاصل کی جائے اور ان کو پڑھنا شروع کر دیا جائے۔  یاد رکھو! ہر وہ بات جو دلیل کے بغیر ہو مشکوک اور کمزور ہے۔

ایک پرانا نظریہ تھا کہ دین سمجھنا آسان کام نہیں۔ علماء کی اور سات طرح کے علوم کی ضرورت ہوتی ہے۔ مگر اسکے مقابلے میں اللہ کا دعویٰ زیادہ قوی ہے جو اس نے ان الفاظ میں کیا ہے:

َِْ’’اور بے شک ہم نے قرآن کو سمجھنے کے لیے آسان کر دیا ہے، پس ہے کوئی جو سمجھنے کی کوشش کرے‘‘ [القمر: 17]

یہ دعویٰ عام ہے اور ہر اس شخص کو دعوت ہے جو دین میں داخل ہو۔ اسمیں کسی عالم یا مولوی کی تخصیص نہیں۔رہی عقلی دلیل، تو وہ بھی پیش کیے دیتا ہوں۔ کیا یہ انصاف ہوگا کہ آپ کسی بچے کو پڑھائیں تو دوسری تیسری کلاس کی کتابیں اور اسکا امتحان لیں دسویں جماعت کا؟ یہ سراسر ظلم ہوگا۔ اور اللہ تو بالکل بھی ظلم نہیں کرتا۔ اللہ نے سمجھنے کو بھی وہی دیا جس کا امتحان لے گا اور وہ دیا جو ہرایک کو سمجھ میں آجائے۔ اگر دین اس قدر مشکل تھا تو  پھر آخرت میں سب کا ایک سا حساب کتاب تو ظلم ہوا نا؟ مجھے اس بات سے انکار نہیں کہ دین کے فہم کے لیے علماء کی ضرورت ہوتی ہے مگر یاد رکھو عالم وہی ہو سکتا ہے جو علم رکھتا ہو اور ’’علم‘‘ دو ہی چیزوں کا نام ہے ’’قرآن اور حدیث رسول  صلی اللہ علیہ وسلم  جو اس دین کی کامل تشریح ہے۔‘‘ اگر کوئی نام نہاد عالم آپ کی رہنمائی ان دو کے علاوہ کسی تیسری بات، کسی فلسفے یا کسی قول و عمل کی طرف سے کرے تو وہ عالم نہیں دھوکے باز ہے یا پھر خود دھوکے میں پڑا ہوا ہے۔ جو عالم ثبوت یا دلیل مانگنے پر پیش نہ کر سکے یا برہمگی کا اظہار کرے تو سمجھ لو کہ اسکا علم ناقص ہے اور وہ آپ کو فائدہ نہیں دے سکتا۔ جسکے پاس خود پانی نہ ہو وہ دوسرے کی پیاس کیا بجھائے گا؟

رہی بات کہ دین سیکھنا کہاں سے شروع کیا جائے؟ تو جان لو! دین دو چیزوں کا مرکب ہے ’’اسلام اور ایمان۔‘‘ اسلام کا تعلق اعمال سے ہے جبکہ ایمان کا تعلق تسلیم بالقلب سے ہے۔ اسلام یعنی بدنی اعمال میں سب سے اہم فرائض ہیں اور فرائض میں سب سے اہم فرض نماز ہے۔ اسی طرح ایمان میں سب سے اہم ایمان بالتوحید ہے یعنی اللہ پر ایمان اور اس میں بھی سب سے اہم اللہ کو ایک اکیلا ماننا اور اکے سوا باقی سب کی نفی کرنا۔

 آیا کہ نماز کو پہلے سیکھا جائے یا توحید کو؟ تو اس کے سمجھنے کے لیے بخاری کی ایک معروف حدیث پیش کرتا ہوں:

’’بے شک اعمال کا دارومدار نیت پر ہے‘‘ (صحیح بخاری)

اب نیت اس صورت میں درست ہوگی جب ایمان پورا ہو اور اگر ایمان میں نقص رہ گیا تو نیت میں پختگی اور درستگی نہ رہی اور جب نیت ہی درست نہیں تو اس عمل یا اس نماز کا کیا فائدہ، اس نے ضائع ہو جانا ہے۔ لہٰذا ثابت یہ ہوا کہ ایمان عمل پر مقدّم ہے اور ایمان کو سیکھنا سب سے اوّلین ہے اور ایمان میں بھی سب سے پہلے اللہ کی توحید پر ایمان۔ ایمان میں شامل اجزاء اللہ پر ایمان، ملائکہ یعنی فرشتوں پر ایمان، اللہ کی تمام کتابوں بالشمول قرآن کی صحت اور احکام کی فرضیت و اہمیت پر ایمان، اسی طرح آخرت پر ایمان اور قدرت یعنی تقدیر پر ایمان ہیں۔

آخر ان سب پر کیا ایمان لایا جائے؟۔۔ تو جواب یہ ہے کہ ان تمام کے متعلق جو کچھ قرآنی دلائل اور صحیح احادیث میں موجود ہے ان سب کو تسلیم کر لینا ان اجزاء پر ایمان کو مکمل کر دیتا ہے۔ اس قدر آسان مرحلہ طے ہوا۔

اب باقی رہا اسلام، تو اس میں اہم فرائض ہیں یعنی سب سے پہلے نماز پھر روزے، زکوٰۃ اور حج۔ ان میں جو آپ پر فرض ہوتا جائے ادا کرتے جائیں۔ اسی طرح دیگر فرائض، تو اسلام بھی مکمل ہوا۔ اسکے علاوہ تمام اعمال اسلام اور ایمان کی خوبصورتی میں شامل ہیں۔ جس قدر زیادہ ہونگے، جس قدر ایمان پر پختگی ہوگی اتنا ہی دین خوبصورت ہوتا جائے گا۔ نوافل اور سنن اسی زمرے میں شامل ہیں۔

امید واثق ہے کہ اللہ کی توفیق سے اور اللہ سے ہر وقت مدد اور رہنمائی کی دعاؤں کے بعد جب کوئی اس ترتیب سے دین میں داخل ہوگا تو وہ حق تک ضرور پہنچے گا اور جگہ جگہ مورچہ بند شیطان اسکے راستے کو کاٹ نہیں سکے گا۔ خلوص سب سے اہم ہتھیار ہے اور توکّل علیٰ اللہ اس ہتھیار کی تیز دھار۔ اپنے اسلحے کو ساتھ لو اور دین کے سفر پر چل پڑو، کامیابی آپ سب کی منتظر ہے۔ ان شاءاللہ

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے