برصغیر پاک وہند میں بلاشبہ یہ فخر صرف خطہ سندھ کو حاصل ہے کہ اسلام کا روشن سورج جب ملک عرب کے خطہ غیر ذی ذرع اور ریتلی سرزمین سے طلوع ہوا تو ان کی روشن وشفاف کرنیں سب سے پہلے دیبل(سندھ) کی سرزمین پر جا پڑیں اور اسلام کی روشنی اسی راستہ سے اس ملک میں پھیلی یہی وہ مقدس سر زمین ہے جس کو صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین ، تابعین عظام اور تبع تابعین کے قدم بوسی کا شرف حاصل ہے اور ان کے اجسام اطہر اس سرزمین میں مدفون ہیں۔ یہاں لشکر اسلام کے مبارک قدموں کے انمٹ نقوش اب تک قدیم کھنڈرات کی صورت میں دعوت فکر دے رہے ہیں۔ مجاہد اسلام محمد بن قاسم ثقفی رحمہ اللہ کا پہلا جہادی معرکہ سندھ کی سرزمین میں وقع پذیر ہوا۔ جس کی مناسبت سے سندھ کو باب الاسلام کے لقب سے یاد کیا جاتاہے اسلام کی دعوت وتبلیغ میں سندھ اور سندھی علماء کرام ومشائخ عظام اور محدثین علیہم الرحمۃ کی بڑی خدمات ہیں سندھ کے ان علماء کرام ومحدثین عظام کے نام اور ان کی گئی خدمات اور کاوشوں کو قلمبند کیاجائے تو ایک بہت بڑی اور ضخیم کتاب تیار ہوسکتی ہے۔ شخص یا خاندانی لحاظ سے سندھ کے علماء ومحدثین کی ایک طویل فہرست موجود ہے اسی فہرست میں ’’ راشدی خاندان‘‘ کو بہت بڑا مقام واہمیت حاصل ہے۔

سرزمین سندھ میں راشدی خاندان کی علمی اور دینی خدمات کسی بھی طرح کم نہیں ہیں اس سلسلہ کا ایک ایک فرد دُرّ شہسوار ہوتا آیا ہے سندھ میں دوسرا خاندان شاذونادر نظر آئےگا۔ جس نے علم کی اتنی خدمت کی ہو علم وادب کے ہر گوشہ میں اس خاندان نے گوہر پیدا کئے ، تاریخ، سیرت،رجال، حدیث ، فقہ،لغت، حکمت، فلسفہ،ادب وشعر میں مستند اور مانے ہوئے ماہر پیدا ہوئے۔جنہوں نے علمی آبیاری سے پورے سندھ کو سیراب کیا اس خاندان کوسید احمد شہید رحمہ اللہ ( شہادت 1246ھ؁) اور شاہ اسماعیل شہید رحمہ اللہ (شہادت 1246ھ؁) اور ان کی جماعت مجاہدین کی میزبانی کا اعزاز بھی حاصل رہا ہے۔ (راشدی خاندان کا شجرہ ۔ فیض الدین شاہ ، صفحہ : 15۔18)

راشدی خاندان کا خاندانی پس منظر :

راشدی خاندان اصل میں سید علی مکی رحمہ اللہ کی اولاد میں سے ہے چوتھی صدی ہجری میں سیدنا شاہ صدر کے دادا سید علی مکلی جو اکابرین شیوخ اور اولیاءکبار میں سے تھے اپنے ایک سو کے قریب رفقاء ومعتقدین کے ساتھ  کاظمین سے ہجرت کرکے تبلیغ اور اشاعت اسلام کے لیے سندھ میں تشریف لائے ، سیوستان ضلع داؤد میں بھگے ٹھوڑھے نامی پہاڑی کے دامن میں دریا کے کنارے ایک پر فضا اور خاموشی بستی میں سکونت پذیر ہوئے یہ گاؤں آگے چل کر سید علی مکی کے نام سے ’’ مک علوی‘‘ کے نام سے مشہور ہوا اور ان کی اولاد کو لکیاری سادات کہا گیا۔ سادات کا یہ پہلا خانوادہ تھا جو سندھ کے لیے باعث شرف وزینت بنا لکیاری سادات کا خاندان اپنے علم وفضل اور شرافت کے اعتبار سے پورے سندھ میں ممتاز سمجھا جاتاہے ۔ (راشدی خاندان کا شجرہ ۔ فیض الدین شاہ ، صفحہ : 3، تذکرہ صوفیائے سندھ ۔ اعجاز الحق قدوسی بحوالہ تذکرہ پیران پارگارہ ۔ از تبسم چودھری ، صفحہ : 86)

لکیاری سادات خاندان میں سے ’’ لکی شاہ صدر ‘‘ در گاہ شریف پیر گوٹھ (ضلع خیر پور) اور ’’ گوٹھ پیر جھنڈہ (ضلع حید رآباد) علمی وروحانی لحاظ سے بہت اہمیت کے حامل رہے ہیں ۔ راشدی خاندان سید خدا بخش شاہ عرف کھٹن شاہ کی پشت میں سے ہے اس بزرگ کی پانچویں نسل میں سید محمد بقا شاہ شہید رحمہ اللہ انتہائی اعلیٰ درجہ کے صالح اور نیک سیرت انسان تھے آپ کی سادگی کا یہ عالم تھا کہ آپ عمومی طور پر نیچے زمین کے کھلے فرش پر بیٹھے تھے جس کے سبب سے آپ کے مرید اور معتقدین آپ کو ’’پٹ والے‘‘ کے نام سے یاد کرتے تھے۔

سید محمد بقا شاہ

آپ سید امام شاہ کے ہاں 1135ھ؁ میں پیدا ہوئے چھوٹی عمر ہی میں علم کی طرف مائل تھے آپ نے مختلف اساتذہ کرام سے علوم حاصل کیا اور اس میں نام پیدا کیا جب تحصیل علم وحصول کمالات سے فارغ ہوئے تو تبلیغ دین اور خلق خدا کی خدمت واصلاح کی طرف متوجہ ہوئے چنانچہ دینی تعلیم کے ساتھ ساتھ لوگوں کو اصلاح نفس کی تعلیم بھی دیا کرتے تھے آپ کا اصل گاؤں رسول پور شہر تھا جسے عرف عام میں ’’ننڈھی سعیدی‘‘ (ضلع خیر پور) کہتے تھے لیکن بعد میں وہاں سے ہجرت کرکے موضع رحیم ڈنہ کھوڑ دیہہ فرید آباد ضلع خیر پور میں آگئے آب کو دینی کتابوں سے بہت محبت تھی ان دنوں چونکہ چھاپہ خانے نہیں ہوتے تھے اور قلمی نسخے بہت نایاب اور گراں ہوتے تھے۔ موصوف نے مختلف جگہوں سے کم یاب ونادر مخطوطات کو حاصل کرکے اپنے ذاتی کتب خانے کی زینت بنایا۔ ذخیرہ کتب میں اضافہ کرنے کا شوق حد سے زیادہ تھا اس شوق کی تکمیل کے لیے مختلف مقامات کا دورہ کیا کرتے تھے آپ اپنی کتابیں ہمیشہ ساتھ رکھتے سفر وحضرمیں بھی ساتھ ہوتیں جب کبھی تبلیغ کے لیے کسی اور جگہ جانا ہوتا تو بھی اپنی کتابیں ہمراہ لے جاتے ایک مرتبہ آپ دینی کتابوں کا ایک گٹھا سر پر رکھے سفر پر جارہے تھے کہ راستے میں ڈاکوؤں نے آپ کو تاکا اور یہ سمجھ کر کہ اس گھٹڑی میں ضرور کوئی چیز ہوگی۔ اور آپ پر حملہ کردیا دنیا کی لالچ میں آکر ان ڈاکؤوں نے آپ کو سفاکی سے شہید کر دیا آپ کی شہادت کا یہ واقعہ 1198ھ؁ میں پیش آیا آپ کی عمراس وقت 63 سال کی تھی۔ آپ کی قبر شیخ طیب ریاست ضلع خیر پور سندھ میںہے۔ آپ کی اولاد میں سے مشہور چار بیٹے ہوئے جن کے نام یہ ہیں ۔

1۔ سید محمد راشد شاہ المقلب روضۃ والا

2۔ سید عبد الرسول شاہ

3۔ سید محمد سلیم شاہ

4۔ سید علی مرتضیٰ شاہ

بعض روایات کے مطابق آپ کے کل بیٹوں کی تعداد اٹھارہ بتائی گئی ہے۔ ( راشدی خاندان کا شجرہ ، صفحہ : 3 ، تذکرہ پیران پاگارہ، صفحہ : 94۔95)

راشدی خاندان کے مورث اعلیٰ سید محمد راشد شاہ

سید محمد بقا شاہ کے آپ سب سے چھوٹے فرزند تھے یکم رمضان 1170ھ میں پیدا ہوئے آپ کی ولادت باسعادت گوٹھ رحیم ڈنہ کلھوڑ ضلع خیر پور میں ہوئی جہاں اس وقت آپ کا سارا خاندان آباد تھا اس گوٹھ کو اب پرانی درگاہ کہتے ہیں ( سید پیر علی گوہر شاہ راشدی کے دور میں اس گوٹھ کو دریا کی طغیانی سے خطرہ پیدا ہوگیا تھا وہاں سے نقل مکانی کرکے موجودہ پیر گوٹھ میں اقامت اختیار کرلی جسے اب نئی درگاہ کہتے ہیں) ۔

آپ نے ابتدائی تعلیم اپنے والدماجد سے حاصل کی اس کے بعد ظاہری وباطنی علوم اس دور کے بہت بڑے عالم محدث اور فقیہ الحاج فقیر اللہ علوی شکار پوری ( المتوفی 1195ھ) سے حاصل کی ۔ مخدوم یار محمد محدث کوٹڑی کبیر والے بھی آپ کے استاد بیان کئے جاتے ہیں ۔ آپ نے آخر میں علوم دینیہ کی تکمیل لاڑکانہ سندھ کے گوٹھ آریجا کے ایک عالم مخدوم محمد سے کی۔ علامہ مخدوم محمد محدث استاد الکل کے لقب سے مشہور تھے ( سندھ کی اسلامی درسگاہیں ۔ ڈاکٹر محمد جمن ٹالپر ص : 336، الرحیم مشاہیر سندھ نمبر ، ص : 23 جولائی 1988ء) دینی علوم سے فراغت کے بعد خاندانی خدمات کو آگے پھیلاتے رہے اپنی کوشش وتبلیغ سے اس وقت مروجہ شرک وبدعت کی رسومات کے خلاف اٹھ کھڑے ہوئے اپنی وخاندانی حیثیت اور تبلیغ اسلام کی وجہ سے مردہ سنتوں کا احیاء کیا اور ان پر دوبارہ عمل کرنا شروع ہوا ۔ سندھ میں سب سے پہلے مغرب نماز سے قبل دو رکعت سنت پڑھنے کا رواج آپ ہی نے ڈالا تھا خود عمل کیا اور لوگوں کو بتلایا کہ یہ بھی رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم  کی سنت ہے ۔ آپ کے ارشادات وفرامین کو آپ کے عقیدت مندوں نے ملفوظات کی شکل میں جمع کیاہے اس میں کئی ایسے واقعات ملتے ہیں جن سے آپ کی تبلیغ واصلاح سے لوگوں میں سنت پر عمل کرنے کا ذکر ہے۔ ( تذکرہ علمائے اہل حدیث محمد یوسف سجاد ، صفحہ : 160، رموز راشدیہ ، صفحہ : 13)

اسی طرح ایک مرتبہ آپ اپنے مریدوں اور عقیدت مندوں کی ایک جماعت کے ساتھ دریا سندھ کی طرف جارہے تھے تاکہ مسجد کی چھت کے لیے سرکنڈے کٹوائے جائیں دوران سفر آپ نے اپنے عقیدت مندوں میں سے ایک کا ہاتھ تھام کر فرمایا کہ نبی  صلی اللہ علیہ وسلم  اکثر اوقات اپنے صحابہ رضوان اللہ علیہم اجمعین کے ہاتھوں میں اپنا ہاتھ دیکر سفر کیا کرتے تھے آؤ آج ہم بھی اس سنت پر عمل کریں یہ ارشاد کرنے کے بعد آپ نے اس شخص کا ہاتھ اپنے ہاتھ میں تھامے ہوئے تقریباً آدھ کوس تک سفر کیا۔ ( ملفوظات روضہ دہنی بحوالہ  تذکرہ پیران پاگارہ ، صفحہ : 102)

آپ 63 سال کی عمر میں یکم شعبان 1233ھ کو فوت ہوئے ۔ سیدمحمد راشد شاہ رحمہ اللہ کے اٹھارہ بیٹے تھے ان میں سے سید صبغت اللہ شاہ راشدی (اول) رحمہ اللہ اور سید محمد یاسین شاہ رحمہ اللہ نے بہت شہرت پائی۔

راشدی خاندان کا دو حصوں میں تقسیم ہونا :

سید محمد راشد شاہ رحمہ اللہ نےجب اس دنیائے فانی سے رخت سفر باندھا تو ان کے دو بڑے بیٹے تھے ایک سید صبغت اللہ شاہ اور دوسرے سید محمد یاسین شاہ رحمہ اللہ ۔ سید محمد شاہ کی دو نشانیاں تھیں ایک پگڑی اور دوسرا جھنڈا ، یہ دونوں نشانیاں افغانستان کے بادشاہ تیمور شاہ کے بیٹے زمان شاہ نے آپ کی خدمت عالیہ میں سندھ میں دینی خدمات اور تبلیغ اشاعت اسلام کی خاطر از راہ عقیدت پیش کی تھیں آپ کی وفات کے بعد ان کے عقیدت مندوں نے فیصلہ کیا کہ پگڑی سید صبغت اللہ شاہ کے سر پر باندھ دی جائے اور جھنڈا سید محمد یاسین شاہ کو دے دیا جائے چنانچہ ایسا ہی کیا گیا اور پھر یہ خاندان دو حصوں میں بٹ گیا ایک کی اولاد کو پیر پگاڑہ کہا جانے لگا جب کے دوسرے کی اولاد کو پیر جھنڈہ (صاحب عَلم ) کہلائی ۔ ( تذکرہ علماء اہل حدیث ، ج 2 ، ص: 60 مقدمہ بدیع التفاسیر پیش لفظ از پروفیسر محمد جمن کبھر ، صفحہ : 11)

راشدی خاندان کی شاخ پیر پگاڑہ کا اجمالی تذکرہ:

سید محمد راشد شاہ رحمہ اللہ کی وفات کے بعد ان کے سب سے بڑے بیٹے سید صبغت اللہ شاہ راشدی 1193ھ میں پہلے پیر پگاڑ کی حیثیت سے اپنے والد ماجد کی سند عالیہ پر فائز ہوئے۔ آپ نے تعلیم وتربیت گھر میں ہی اپنے والد سید محمد راشد سے حاصل کی یعنی علم آپ کو اپنے خاندان سے میراث کے طور پر حاصل ہوا۔ بچپن سے ہی اللہ کی عبادت ، ذکر وفکر اور اسلام کی تبلیغ کے لیے اپنے آپ کو وقف کردیا تھا۔ خاندانی ، دینی خدمات اور تبلیغی سرگرمیوں کو جاری رکھا، وعظ وارشاد میں مصروف رہے بعض اوقات قرآن وحدیث سے وعظ فرماتے تھے اپنے خاندانی رواج موجب اگرچہ حنفی المذہب تھے مگر اس کے باوجود کئی مسائل میں آپ کا اپنا اجتہاد تھا جو کہ قرآن وحدیث کے موافق ہوتا تھا۔ آپ کے زمانے میں علماء احناف میں اس بات پر اختلاف ظاہر ہوگیا کہ جمعہ کے دن جمعہ نماز کے بعد ظہر کی چار رکعتیں پڑھنی چاہیے یا نہ ؟ اکثر علماء احناف کافتوی تھا کہ ظہر کی چار رکعتیں پڑھنی چاہیے کیونکہ جمعہ نماز کے لیے شرط یہ ہے کہ وہ بڑا شہر ہو اور اس میں اسلامی حکمران اسلامی قوانین بھی نافذ کرتا ہو تو پھر جمعہ نماز پڑھنا فرض ہوگا اگر بالفرض ایسا نہیں ہے اور پھر بھی جمع پڑھا گیا تو اسی مشکوک حالت میں احتیاط ظہر کی چار رکعات بھی پڑھی جائیں۔ اس کے مقابل آپ کا فتویٰ تھا کہ خلیفہ یا بادشاہ کی شرک غیر ضروری ہے اس جہاں بھی جمع کا وقت ہو جمعہ نماز پڑہ لینی چاہیے آپ کے فتویٰ کی عبارت درج ذیل ہے

’’ وجبت الجمعۃ أین ما کان المصر الذی ورد فی شأنہ أنا مدینۃالعلم وکان الخلیفۃ الذی کا فی حقہ إنی جاعل فی الأرض خلیفۃ وکان الجماعۃ موجوداً عینی مکان الذی سمی بجمع الجمع

( خزینۃ المعرفت (ملفوظات) بحوالہ تذکرہ مشاہیر سندھ مولانا دین محمد وفائی ، ص : 108 ، جلد : 2) 

پیر صبغت اللہ شاہ راشدی اپنے دور کے بہت بڑے عالم باعمل تھے آپ بہت بڑے علمی کتب خانہ کے بھی مالک تھے جس میں نادر ونایاب کتابیں جمع کی تھیں۔ سید احمد شہید رحمہ اللہ کے نواسے سید حمید الدین ان کے کتب خانہ کے بارے میں فرماتے ہیں کہ ’’ ان کا کتب خانہ بڑا عجیب وغریب تھا سلاطین وامراء کے پاس بھی ایسا کتب خانہ نہ ہوگا پندرہ ہزار جلد کتب معتبرہ اس میں موجود ہیں۔ سو دیوان فارسی کے ایرانی خط میں مطلا، پینسٹھ جلدیں معتبر تفسیروں کی ، شاہنامہ فردوسی کے پانچ نسخے جن میں سے تین مصور ومطلا تھے۔ حدیث کی تمام معتبر کتابیں مع شروح ، جامع الاصول تیسر الوصول ، احیاء العلوم اور فتوحات مکیہ کے تین تین نسخے اور سب جلدیں شاہانہ ہیں۔ ( سیرت احمد شہید از غلام رسول مہر ، ص: 260، تاریخ دعوت وعزیمت ۔ سید ابو الحسن علی ندوی ، ص : 476 حصہ ششم / اول)

حدیث کے ساتھ آپ کی محبت کا یہ عالم تھا کہ شاہ فقیر اللہ علوی کی وفات کے بعد ان کے کتب خانہ سے صحیح بخاری کا ایک نسخہ آپ نے تبرکاً منگوایا جب لوگ اس نسخے کو لیکر آئے تو پیر صبغت اللہ شاہ نے اپنے کئی عقیدت مندوں اور مریدوں کے ساتھ اپنے والد کے استاد کے اس نسخے کا استقبال کیا اور اس نسخہ کے حصول کو اپنی خوش قسمتی سمجھا ۔ (تذکرہ صوفیائے سندھ از اعجاز الحق قدوسی ، ص: 270۔271) تفسیر بدیع التفاسیر ، سید بدیع الدین شاہ ، جلد 2 ، صفحہ: 512)

سید صبغت اللہ شاہ راشدی رحمہ اللہ اہل علم ہونے کے ساتھ ساتھ صاحب سیف بھی تھے آب نے بے شمار جہادی تحریکوں میں حصہ لینے کی خاطر اپنے عقیدت مندوں کی ایک فوج ظفر موج بھی تیار کی تھی جن کو مقامی زبان میں ’’حر‘‘ کے لقب سے یاد کیا جاتاہے۔ متحدہ پنجاب پر سکھوں کا قبضہ اور وہاں کی مسلم آبادی پر جو مظالم کئے جارہے تھے آپ ان سے پوری طرح باخبر تھے اور یہ خطرہ بھی محسوس ہو رہا تھا کہ سکھ آگے بڑھ کر سندھ پر حملہ آور نہ ہوں آپ کی ملفوظات سے یہ بات ظاہر ہوتی ہے کہ آپ جہاد کا مصمم ارادہ بھی رکھتے تھے۔ سید صاحب اپنے عقیدت مندوں کو جو وعظ وارشاد فرماتے تھے ان میں بھی جہاد کی فضیلت پر زور دیتے تھے۔ آپ کے جو عقیدت مند اور مرید دور دراز علاقوں میں رہتے تھے ان کی طرف تحریری طورپر خطوط اور دعوت نامے ارسال کرتے تھے۔ ( ملفوظات سید صبغت اللہ شاہ قلمی بملکیت سندھی ادبی بورڈ حیدر آباد بحوالہ مجلہ الرحیم مشاہیر سندھ نمبر ، ص: 27)

علامہ سید صبغت اللہ شاہ راشدی رحمہ اللہ نہ صرف صاحب علم وفضل تھے بلکہ آپ مجاہدانہ عادات وخصائل کے مالک بھی تھے سید احمد شہید وشاہ اسماعیل شہید کے ہم مسلک ورفیق خاص بھی تھے ان کی تحریک جہاد کے معاون اور اہم رکن تھے ’’حروں‘‘ کے روحانی پیشوا تھے۔ بلاشبہ ان کے لاکھوں مرید تھے جو ان کے حکم پر جان نچھاور کرنے کے لیے ہمہ وقت تیار رہتے تھے۔ سید حمید الدین رحمہ اللہ آپ کے متعلق لکھتے ہیں ’’ باشندگان سندھ کے نزدیک سارے ملک میں اس جیسا شیخ ومرشد کوئی نہیں قریباً تین لاکھ بلوچ ( سندھ) مرید ہیں۔ رجوع خلق عام ہے۔ جاہ وجلال میں زندگی گزاری ہے جود وکرم اور اخلاص ومروت میں بھی شہرہ آفاق ہیں۔ (سید احمد شہید ، غلام رسول مہر ، ص: 290)

سید احمد شہید رحمہ اللہ جب اپنے مجاہدین کے ساتھ صوبہ سرحد کی طرف روانہ ہوئے تو راجھستان کی راہ سے سندھ میں داخل ہوئے کیونکہ یہ راستہ نسبتاً محفوظ تھا اور انہیں سیدنا سید صبغت اللہ شاہ (اول) کے افکار ونظریات کی اطلاع پہلے سے ہی مل چکی تھی اس لیے انہوں نے سید صبغت اللہ شاہ راشدی سے ملاقات کی خاطر رانی پور (سندھ) کا ارادہ کیا تاکہ وہاں سے پیر گوٹھ جا سکیں حسن اتفاق ہے کہ انہی دنوں سید صاحب بھی اپنے ایک سو کے قریب عقیدت مندوں کے ہمراہ رانی پور میں تشریف فرماتھے ۔ یہی ان دونوں کی پہلی ملاقات ہوئی آپ نے پیر گوٹھ چلنے کی دعوت دی جسے سید احمد شہید نے بخوشی قبول کیا پیر صاحب کو اس جگہ کسی کام کے لیے مزید ایک دو روز ٹھہرنا تھا۔ اس لیے آپ نے سید احمد شہید اور ان کی جماعت مجاہدین کو اپنے بھائی کے ساتھ پیر گوٹھ بھیج دیا جہاں سید احمد شہید اپنے رفقاء کے ساتھ ؁پہنچ گئے۔ سیدصبغت اللہ شاہ راشدی رحمہ اللہ اور آپ کے بھائیوں اور مریدوں نے ان غازیوں اور مجاہدین کی مہمان نوازی اور خاطر ومدارت میں کسی قسم کی کوئی کسر باقی نہ چھوڑی۔ اسی جہاد کے لیے پیر صاحب نے سید احمد شہید اور شاہ اسماعیل شہید کی ہر قسم کی امداد کی۔ سید احمد شہید اور ان کی جماعت مجاہدین نے پیر گوٹھ(سندھ) میں تقریباً تیرہ دن قیام فرمایا۔ اس کے بعدوہاں سے شکار پور کی راہ لی تاکہ بلوچستان اور افغانستان کی حدود کے ساتھ ساتھ پشاور پہنچ سکیں۔ (تذکرہ پیران پاگارہ، ص:119۔120)

سید احمد شہید اور شاہ اسماعیل شہید اپنے اہل وعیال کو سید صبغت اللہ شاہ راشدی کے سپرد کرکے جہاد کے لیے انگریز اور ان کے حلیف رنجیت سنگھ سے لڑنے کے لیے پشاور کی طرف روانہ ہوئے آپ کا حرم(اہل وعیال) 1242ھ / مطابق 1827ء کو پیر گوٹھ پہنچا۔ (ماہنامہ شریعت سکھر سوانح نمبر ، صفحہ : 399)

بالآخر علم وعمل کے یہ پیکر جہاد اور مجاہدین کے حامی وناصر سید صبغت اللہ شاہ راشدی رحمہ اللہ نے 1246ھ کو اس بزم فانی کو ہمیشہ کے لیے الوداع کہا۔

2۔ سید علی گوھر شاہ راشدی (اول) المعروف ’’بنگلہ والے‘‘ پگارہ دوم

سید صبغت اللہ شاہ راشدی کی وفات کے بعد آپ کے فرزند ارجمند سید علی گوہر شاہ راشدی کو سجادہ نشین بنایا گیا سید علی گوہر اپنے والد محترم کے چودھویں فرزند تھے والد صاحب ان کے ساتھ حد سے زیادہ شفقت ومحبت کیا کرتے تھے۔ ان کی طرف قلبی میلان بھی تھا آپ کے اوصاف حمیدہ واطوار جمیلہ کو محسوس کرتے ہوئے خصوصی توجہ عنایت فرماتے تھے ان کی تعلیم وتربیت کے لیے خاص اہتمام کیا گیا جس کی وجہ سے والد ماجد کی وفات کے بعد آپ کو آپ کے بھائیوں نے اتفاق سے دستار بندی کرائی اور ’’ پیر آف پگاڑہ دوم‘‘ کا لقب دیاگیا اس وقت صاحبزادے کی عمر پندرہ سال تھی سید علی گوہر شاہ راشدی 1231ھ کو پیدا ہوئے اور 1268ھ کو وفات پاگئے۔

3۔ سید حزب اللہ شاہ راشدی المعروف ’’تخت والے‘‘ پیر پگاڑہ سوم

سید علی گوھر شاہ پگاڑو سوم کی وفات کے بعد ان کے فرزند ارجمند سید حزب اللہ شاہ راشدی رحمہ اللہ کو پیر پگاڑو سوم کی حیثیت سے مسند نشین پر مقرر کیاگیا۔ آپ 1258ھ میں پیدا ہوئے ۔ خاندانی رسوم کے مطابق ابتدائی تعلیم اپنے گاؤں پیر گوٹھ میں آخوند محمد سے حاصل کی اس کے بعد اس وقت کے مشہور محدث علامہ حاجی عیسیٰ سے علوم دینیہ کی تکمیل کی۔ آپ کو بھی اپنے خاندانی اکابرین کی طرح کتابیں جمع کرنے کا حد سے زیادہ شوق تھا۔ ہندوستان اور ایران سے انتہائی خوشخط اور طلائی منقش کتابیں آپ کی دربار میں فروخت کے لیے پیش ہوتیں۔ مہنگے داموں اور گراں قیمتوں سے وہ کتابیں آپ بڑے شوق سے خریدتے تھے۔ ( تذکرہ مشاہیر سندھ۔ مولانا دین محمد وفائی ، جلد  1 ، صفحہ : 182) 

سید حزب اللہ شاہ راشدی رحمہ اللہ نے شعر وشاعری میں بھی طبع آزمائی فرمائی آپ نے شاعری میں اپنا تخلص ’’مسکین‘‘ رکھا۔ آپ کی فارسی شاعری کا مجموعہ ’’دیوان مسکین‘‘ کے نام سے مشہور ہے۔ سید حزب اللہ شاہ راشدی رحمہ اللہ 1308ھ کو فوت ہوئے۔

4۔ سید علی گوہر شاہ (ثانی) المعروف ’’پالکی والے‘‘  پیر پگاڑہ چہارم :

سید حزب اللہ شاہ راشدی رحمہ اللہ کی وفات کے بعد خاندانی رسوم کے مطابق ان کے سب سے بڑے بیٹے شمس العلماء سید علی گوہر شاہ (ثانی) پگاڑو چہارم کی حیثیت سے مسند نشین بنے۔ تھوڑے ہی عرصہ بعد آپ بیمار ہوگئے اور 1314ھ کو فوت ہوگئے۔ آپ بغیر اولاد کے فوت ہوئے۔ (تذکرہ مشاہیر سندھ ، جلد  1 ، ص : 185)

5۔ سید شاہ مردان شاہ (اول) المعروف ’’کوٹ والے‘‘ پیر پگاڑہ پنجم

سید علی گوہر شاہ ثانی کے بغیر اولاد فوت ہونے کے بعد آپ کے دوسرے بھائی سید شاہ مردان شاہ (اول) کو پیر پگاڑہ پنجم کی حیثیت سے گدی نشین بنایاگیا۔ سید شاہ مردان شاہ اول 1279ھ بمطابق 1860ء کو سید حزب اللہ شاہ کے گھر پیدا ہوئے۔ آپ اپنے والد کے فرزندوں میں چوتھے نمبر پر تھے۔ اللہ تعالیٰ نے آپ کو دینی علوم سے نوازا تھا۔ علماء ومشائخ کے قدردان تھے ان کی بڑی عزت اور مالی معاونت بھی فرماتے تھے۔ سید شاہ مردان شاہ راشدی نے اپنے گاؤں پیر گوٹھ(ضلع خیر پور) میں ایک علمی ودینی درسگاہ بنام ’’الجامعہ الراشدیہ‘‘ کی بنیاد ڈالی جو علمی وتبلیغی لحاظ سے بہت بڑا کارنامہ ہے۔ سید شاہ مردان شاہ(اول) کو اندرونی اختلافات کی بناء پر زہر دے کر شہید کیاگیا۔ آپ نے منگل کے دن 7 ربیع الاول 1340ھ مطابق 1921ء کو وفات پائی۔ ( مقدمہ بدیع التفاسیر ، پیش لفظ ، از پروفیسر محمد جمن کنبھر ، ص: 14) 

6۔ سید صبغت اللہ شاہ (ثانی ) المعروف ’’پگڑی والے‘‘ پیر پگاڑہ ششم

سید شاہ مردان شاہ(اول) کی وفات کے بعد ان کی وصیت کے مطابق ان کے سب سے چھوٹے بیٹے سید صبغت اللہ شاہ (ثانی)راشدی کو بارہ سال کی عمر میں پیر پگاڑہ ششم کی حیثیت سے مسند نشین بنایاگیا۔ آپ 1327 ھ کو سید شاہ مردان شاہ راشدی کی حویلی میں پیدا ہوئے آپ کا لقب ’’ پگ دھنی‘‘(یعنی پگڑی والا) ہے۔ ابتدائی حالات پردہ اخفا میں ہیں۔ اخفا کا پردہ اس لیے پڑا ہوا ہے کہ اس وقت جابر حکمران انگریز کی حکومت تھی ان کے خوف سے کوئی بھی ان کے مخالفین کا تذکرہ علی الاعلان کرنے کی ہمت نہ رکھتا تھا۔ اخبارات تو گویا انگریز سرکار کی ہمنوا اور لطف وکرم سے زندہ تھے۔ اس سلسلہ میں جناب ڈاکٹر نبی بخش بلوچ صاحب سہ ماہی مہران کے سوانح نمبر سید صبغت اللہ شاہ شہید کی سوانح حیات کا تذکرہ کرتے ہوئے۔ رقمطراز ہیں ’’ سندھ کے اس مرد جری کی شخصیت اور کردار پر انگریز حکومت کے یکطرفہ پروپیگنڈہ نے جو پردہ چڑھا رکھا ہے ان کی دبیز تہوں میں سے صرف وطن پرست نگاہیں ہی حقیقت تک پہنچ سکتی ہیں۔ انگریز کے سایۂ عاطفیت میں پرورش پانے اور شائع ہونے والے اخبار اور رسالے اس باغی کے خلاف جو کچھ لکھنا چاہیے تھا جی کھول کر لکھتے رہے۔ دوسری طرف اس شیر وجری کے ابتدائی حالات ویسے بھی کہیں سے دستیاب نہیں ہوسکے جن سے آپ کی شخصیت اور عزائم کا پورا پورا علم ہوتا ہاں آپ کے خاندانی ماحول کے پیش نظر بہت کچھ اندازہ کیاجاسکتاہے۔ (مہران سوانح نمبر ، صفحہ : 253)

آزادی وحدیث کی تڑپ آپ کو اپنے آباؤ واجداد کی طرف سے ورثے میں ملی تھی۔ سید صبغت اللہ شاہ (ثانی) راشدی رحمہ اللہ تعالیٰ شروع سے ہی جرأت مند اور مستحکم ارادے کے مالک تھے اور کسی صورت میں بھی دوسروں کے دباؤ کا اثر قبول کرنے کے لیے تیار نہیں ہوسکتے تھے۔ اس لیے آپ کے مضبوط اقدام وارادے کو دیکھ کر مفاد پرستوں کی امیدوں پر پانی پھر گیا جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ آپ کے خلاف دھڑے بندی اور گروپ بندی کا آغاز ہوگیا اور آپ کے کئی قریبی عزیز انگریز حکومت کے کار پردازوں سے مل کر آپ کو زک پہنچانے میں مصروف ہوگئے۔ ( تذکرہ پیران پاگارہ ، ص: 166)

سید صبغت اللہ شاہ(ثانی ) راشدی لڑکپن کی عمر میں جب آپ پیر پگاڑو بن چکے تھے۔ اپنے چچا مرحوم پیر علی گوھر شاہ (ثانی) کے نام پر انگریزوں کا دیا ہوا ’’آفرین نامہ‘‘ (سرٹیفکیٹ) بنگلے کی دیوار پر آویزاں دیکھ کر کہا ’’ہمارے بزرگ بھی کس قدر سادہ لوح تھے۔ خداوند تعالیٰ نے آپ کو بڑی عزت بخشی تھی لیکن پھر بھی یہ آفرین نامہ موجودہے۔ ‘‘ اس کے بعد فریم کو توڑ کر آفرین نامہ ٹکڑے ٹکڑے کردیا یہ آپ کی خودداری ، عزت نفس، حریت پسندی اور خاندانی وجاہت کا منہ بولتا شاہکار ہے۔ (مہران سوانح نمبر ، ص: 166) 

جب ہم یہ دیکھتے ہیں کہ انگریز کی اس حکومت کا آفرین نامہ ایک نوجوان ٹکڑے کر رہا ہے جس کی حکومت کا سورج کبھی غروب نہ ہوتا تھا تو اس نوجوان بہادر وجری کی خودداری، عزت نفس، حریت پسندی اور عظمت کے لیے ہمارے سر احترام سے جھک جاتے ہیں۔

سید صبغت اللہ شاہ ثانی انگریز سرکار کے خلاف اٹھنے والی ہر تحریک میں نہ صرف خود بھی شریک ہوئے بلکہ آپ کی تیار کردہ فوج جن کو عرف عام میں ’’حر‘‘ کے نام سے یاد کیاجاتاہے بھی دستہ اول کی حیثیت سے فرائض سرانجام دیئے۔ وطن کی آزادی اور اس کی تقدس کی بحالی میں اس مرد مجاہد وجری انسان کی خدمات وشجاعت کو قلمبند کرنے کے لیے علیحدہ کتاب درکار ہے۔ اس میں شامل ان کی جماعت کی خدمات اور گراں قدر کارہائے نمایاں اور ان میں شامل ہر ایک فرد کا مفصل تعارف تو کجا ذکر وشمار بھی تھکا دینے والا کام ہے۔ انگریز حکومت نے آپ کو پابند سلاسل کیا ، بغاوت کے الزام میں مسٹر جارج ششم کے نمائندوں نے جان کی سزا مقرر کی تو حکومت وقت نے اپنے ایک قاصد کے ہاتھوں پیغام بھیجا کہ اگر آپ اپنے اس عمل وعزائم پر نادم وپیشمان ہو، نیز مستقبل میں وفاداری کرنے کا عہد کرو تو آپ کو مع آپ کے عقیدت مندوں جان کی امان بخشی جائے گی۔ لیکن پیر صاحب وطن کی آزادی کے امام ہونے کے ناطے سے فرنگیو کی مکارانہ پیشکش کو ٹھکرا دیا بالآخر 20 مارچ 1943ء کی صبح کو بغاوت کے الزام میں آپ کو تختہ دار پر لٹکا دیاگیا اور شہید کر دیئے گئے۔ ( مقدمہ بدیع التفاسیر ، ص : 15)

7۔ سید شاہ مردان شاہ (ثانی) راشدی عرف سکندر علی شاہ پیر پگاڑہ ہفتم :

سید صبغت اللہ شاہ (ثانی) کی شہادت کے بعد آپ کے فرزند ارجمند سید شاہ مردان شاہ (ثانی) معروف سید سکندر علی شاہ راشدی کو خاندانی رسم ورواج کے مطابق پیر پگاڑہ ہفتم (ساتویں) کی حیثیت سے گدی نشین ہوئے۔ موصوف بقید حیات ہیں خاندانی لحاظ سے آج بھی حروں کے مذہبی وروحانی پیشوا کی حیثیت سے ملک بھر میں متعارف ہیں ملکی سیاست میں آپ کو مرکزی حیثیت حاصل ہے۔ پورے ملک کے طول وعرض میں خاندانی خدمات کی حیثیت سے انتہائی عزت واحترام کی نگاہوں سے دیکھے جاتے ہیں۔

راشدی خاندان کی دوسری شاخ ’’ پیر جھنڈا‘‘ کے اکابرین کا اجمالی تعارف :

تجدید احیائے دین وسنت نبوی کے زندہ کرنے کی کوششوں کے سلسلہ میں ہم آپ کی خدمت میں سرزمین سندھ کے ایک ایسے خاندان کی حیثیت سے جو نہ صرف تاریخ اسلام میں بلکہ تاریخ سندھ میں بھی ایک منفرد مقام کا حامل ہے۔ جو بیک وقت مذہبی، روحانی اور عسکری قوتوں کا حسین امتزاج ہونے کے ساتھ ساتھ ایک باقاعدہ تحریک کی صورت میں آج تک زندہ وتابندہ ہے۔  اس خاندان کے فیوضات وانوار کی پہلی کرن آج سے تقریباً ایک ہزار سال بیشتر اس سرزمین پر ضوء فگن ہوئی اور اس وقت سے لیکر آج تک علم وعرفان ،زہد وتقویٰ ، ایثار وقربانی اور عملی جہاد کے چراغ مسلسل روشن کرتی رہی ہے اس خاندان کی داستان کبھی مسجد ومحراب اور مدرسہ کے درودریچہ کے خوشنما نقوش سے مزین دکھائی دیتی ہے اور کبھی شمشیر وسنان اور داردسن کی خونی لکیروں سے منقش نظر آتی ہے یہ خاندان راشدیہ کا وہ جلیل القدر ’’ جھنڈائی خاندان‘‘ ہے جو سید علی لکیاری کے سندھ میں ورود سے لیکر آج تک اس سرزمین میں روشنی کے مینار کی حیثیت رکھتاہے۔ سندھ میں قرآن وحدیث کی دینی اہمیت کو واضح کرنے، مشرکانہ رسومات وبدعات کےخلاف جہاد اور علم کی شمع روشن کرنے میں جھنڈائی خاندان کی مساعی جمیلہ وخدمات کثیرہ ناقابل فراموش ہیں۔ مختصر طور پر اس سلسلہ عالیہ کے اکابرین کا تذکرہ پیش خدمت ہے۔

1۔ سید محمد یاسین شاہ راشدی ’’ پیر جھنڈہ‘ ‘ والے اول :

آپ 1212ھ میں پیداہوئے ابتدائی تعلیم وتربیت اپنے والد ماجد سید محمد راشد شاہ رحمہ اللہ سے حاصل کی تکمیل تعلیم کے بعد خدمتِ دین وتبلیغ میں مصروف ہوگئے۔ قرآن وحدیث کی روشنی میں دعوت واصلاح کا کام جاری رکھا آپ کے خاندان یا جماعت میں جو بدعات ، رسومات وخرافات رواج پذیر تھیں ان کی اصلاح قرآن وحدیث کے ذریعہ احسن انداز میں کرتے رہے۔ ( تذکرہ مشاہیر سندھ، جلد 1، صفحہ: 166) 

آپ نے اپنے ارشادات وفرامین کو ملفوظات میں جمع کیا جس کا نام’’ صراط الطالبین‘‘ رکھا۔ سید محمد یاسین شاہ راشدی نے اپنے آبائی گاؤں پیر گوٹھ سے نقل مکانی کرکے 1268ھ میں موجودہ گاؤں پیر جھنڈو ضلع حیدرآباد میں قیام پذیر ہوئے۔ آپ نے 15 رجب 1275ھ میں لاڑ( موجودہ ضلع بدین) کے سفر کے لیے روانہ ہوئے تحصیل گھونی کے گاؤں راجو خانانی میں فوت ہوگئے اس سفر میں آپ کے ہمراہ آپ ےک فرزند ان گرامی سید رشید الدین شاہ ، سید صدیق رسول شاہ اور حاجی سید ہدایت اللہ شاہ ساتھ تھے۔ انہوں نے آپ کے جسد مبارک کو عارضی طور امانتاً یہیں دفن کر دیا پھر ایک سال کے آپ کے بڑے بیٹے سید فضل اللہ شاہ راشدی(شہید) نے آپ کے جسد خاکی کو وہاں سے نکلوا کر ٹہلا شہر (ضلع لاڑکانہ) میں مسجد کے ساتھ دفن کردیا جہاں آپ ہمیشہ کے لیے محو استراحت ہیں۔ ( تذکرہ مشاہیر سندھ ، جلد ، 1۔ صفحہ : 267۔268)

2۔ سید فضل اللہ شاہ راشدی ’’پیر جھنڈہ‘‘ والے دوم

سید محمد یاسین شاہ راشدی کی وفات کے بعد ان کے بڑے فرزند پیر سید فضل اللہ شاہ راشدی پیر جھنڈہ دوم کی حیثیت سے سجادہ نشین مقرر ہوئے لیکن خاندانی اختلافات کی وجہ سے حروں کے ہاتھوں شہید کردیئے گئے آپ کی اولاد کوئی بھی نہیں تھی۔ ( راشدی خاندان کا شجرہ ، ص:56)

3۔ سید رشید الدین شاہ راشدی المعروف ’’ پیر سائیں بیعت والے‘‘ پیر جھنڈہ سوم :

سید فضل اللہ شاہ راشدی کی وفات کے بعد 1287ھ میں ان کے بھائی سید رشید الدین شاہ راشدی پیر جھنڈو سوم کی حیثیت سے سجادہ نشین مقرر ہوئے آپ 1254ھ میں پیدا ہوئے سید رشید الدین شاہ راشدی دینی علوم کی تکمیل کے بعد اپنے حلقہ احباب کی اصلاح وتربیت کرکے انہیں شرک وبدعت کے خلاف منظم کیا۔ ان میں توحید وسنت کی بنیاد کو مضبوط ومستحکم کرنے کے لیے ان کی تربیت وتزکیہ نفس کرنا شروع کیا۔ اپنے عقیدت مندوں میں جو شرکیہ افعال اور بدعتی رسومات تھیںان کو ترک کرنےاور جہاد میں شرکت کرنے کے لیے عملی طرح ان سے بیعت لیتے تھے جس کے سبب سے آپ کو ’’پیر سائیں بیعت والے‘‘ کے نام سے یاد کیاجاتاہے۔ آپ پہلے شخص ہیں جو خاندان راشدیہ جھنڈائی میں جس نے علی الاعلان مسلک اہل حدیث کا اظہار کیا فقہ کے مقابلہ میں حدیث شریف کو اہمیت دی آپ کے مسلک وعقیدہ کے بارے میں مولانا دین محمد وفائی رقمطراز ہیں کہ :

’’ آپ کا مسلک اہل حدیث کے مذہب کے موافق تھا‘‘ (تذکرہ مشاہیر سندھ ، ص: 214، جلد سوم )

مزید لکھتے ہیں ’’ یہ بزرگ اہل حدیث مسلک والوں کے قول کے مطابق اونٹ کے گوشت کھانے کے بعد وضو کرتے تھے ، فوت شدہ بزرگوں سے مدد لینے کے بھی قائل نہ تھے۔ اپنے مریدوں کو بھی منع کرتے تھے……. (أیضا)

1857ء کی جنگ آزادی کے وقت آپ 23 برس کے جوان تھے سندھ کے مسلمانوں نے جنگ آزادی میں بھر پور حصہ لیا جس کے رد عمل میں انگریزوں نے ان پر ظلم وستم کے پہاڑ ڈھائے اور وحشت ناک سزائیں دیں۔ اس وقت دیندار مسلمانوں نے فیصلہ کیا کہ اسلامی تعلیم وتبلیغ سے اتحاد پیدا کرکے لوگوں میں آزادی کی روح پھونکی جائے ، اور انہیںجہاد کے لیے تیار کیا جائے اسی خیال وفکر سے پیر صاحب نے اپنے گاؤں پیر جھنڈو میں دینی مدرسہ قائم کیا اور ایک علمی کتب خانہ کی بنیاد ڈالی۔ آپ کی علمی مجالس میں کئی علماء کرام شریک ہوتے تھے۔ ان مجالس میں مولانا عبید اللہ سندھی رحمہ اللہ بھی امروٹ شریف(ضلع سکھر) سے آکر شریک ہوتے تھے۔ ( مقالہ ’’پیرجھنڈو کا کتب خانہ ، مولانا غلام مصطفیٰ قاسمی ، ماہنامہ الولی حیدرآباد ، اپریل ، مئی 1978ء) آپ کے متعلق مولانا عبید اللہ سندھی لکھتے ہیں ’’ مولانا سید رشید الدین شاہ صاحب العلم الثالث کی صحبت سے مستفید ہوا میں نے ان کی کرامتیں دیکھیں ذکر اسماء الحسنیٰ میں نے انہیں سے سیکھا وہ دعوت توحید وجہاد کے مجدد تھے۔ ( مولانا عبید اللہ سندھی کی سرگزشت کا بل از مولانا عبید اللہ لغاری ، ص9)

آپ نے 1317ھ میں 61 برس کی عمر میں فوت ہوئے۔

4۔ سید ابو تراب رشد اللہ شاہ راشدی المعروف ’’ پیر سائیں شریعت والے‘‘ پیر جھنڈہ چہارم :

پیر سید رشید الدین شاہ راشدی رحمہ اللہ کا داعی اجل کو لبیک کہنے کے بعد ان کے عالی قدر صاحبزادے سید ابو تراب رشد اللہ شاہ راشدی کی مسند علم وفضیلت کے وارث ہوئے اور پیر جھنڈہ چہارم کی حیثیت سے سجاد نشین مقرر ہوئے۔ پیر رشد اللہ شاہ راشدی رحمہ اللہ صاحب علم وفضیلت اور حامل زہد وتقویٰ تھے۔ آپ کے حفیدسعید علامہ سید بدیع الدین شاہ راشدی رحمہ اللہ آپ کا ذکر خیر کرتے ہوئے رقمطراز ہیں کہ ’’ جد امجد عالم ربانی محدث حقانی حامی الشریعۃ قامع البدعۃ مرجع العلماء زین الکملاء ابو تراب السید رشد اللہ شاہ الراشدی ……  (عقیدئہ توحید اور علماء سلف کی خدمات ، صفحہ : 105)

آپ کی ولادت 1217ھ میں ہوئی تعلیم وتربیت خاص علمی اور دینی ماحول میں ہوئی آپ کے والد ماجد سید رشید الدین شاہ راشدی نے اپنی اولاد کی تعلیم وتربیت کے لیے معقول انتظام کیا ۔ مشہور عالم قاضی عبد الغنی کھڈ ھری (المتوفی 1249ھ) قاضی فتح محمد نظامانی قیصرانی اور مولانا عبید اللہ سندھی سے تعلیم حاصل کی۔ آپ نے حدیث کی سند شیخ الکل سید میاں نذیر حسین دہلوی ( متوفی 1320ھ) اور امام محمد بن علی شوکانی (متوفی 1250ھ)  کے شاگرد رشید شیخ حسین بن محسن انصاری یمانی سے حاصل کی دینی علوم کی تکمیل کے بعد آپ نے پوری زندگی اسلام کے لیے وقف کردی آپ کی علمی وادبی خدمات کا دائرہ نہایت وسیع ہے۔ ( ماہنامہ شریعت سکھر سوانح حیات نمبر ، صفحہ : 409) 

سید رشد اللہ شاہ راشدی کو سندھ میں علمی پسماندگی کا بڑا احساس تھا اس لیے جب مولانا عبید اللہ سندھی نے مدرسہ قائم کرنے کی تجویز پیش کی تو شاہ صاحب فوراً تیار ہوگئے چنانچہ آپ نے سندھ کے لوگوں میں قرآن وحدیث کے علم کی اشاعت وتبلیغ کے لیے 1319ھ مطابق 1901ء میں گوٹھ پیر جھنڈہ میں مدرسہ دار الرشاد کی بنیاد رکھی اور عملی مساعی کا آغاز کیا ۔ مولانا عبید اللہ سندھی کو صدر مدرس مقرر فرمایا اور دیگر نامور علماء کرام کی خدمات حاصل کیں۔ مدرسہ کے لیے تمام سرمایہ سید رشد اللہ شاہ صاحب خود فراہم کرتے تھے اور اس کے تمام اخراجات کے کفیل بھی تھے۔ سات برس تک مولانا عبید اللہ سندھی رحمہ اللہ کامل اختیارات کے ساتھ عملی وانتظامی امور کے سربراہ رہے۔ یہ مدرسہ جلد ہی اپنی کامیابی کی منازل طے کرنے لگا اس مدرسہ میں سندھ کے علاوہ ہندوستان ، ایران اور وسطی ایشیا سے طالب علم آتے تھے اور مدرسہ کے ماہر اساتذہ کی تعلیم سے مستفیض ہو کر گوہر نایاب بن کر نکلتے تھے۔ مدرسہ کے معائنے اور سالانہ امتحانات کے موقع پر رفیع المرتبت علماء کرام وفضلاء عظام کو مدعو کیاجاتا۔ جن میں علامہ شیخ محسن انصاری یمانی ، مولانا محمود الحسن دیوبندی ، مولانا سید انور شاہ کاشمیری ، مولانا اشرف علی تھانوی ڈاکٹر ضیاء الرحمن احمد وائس چانسلر علی گڑھ یونیورسٹی وغیرہم شامل ہیں۔ مدرسہ دار الرشاد کی بدولت اقلیم سندھ میں شمع علم فروزاں ہوئی جس کی کرنوں نے چار دانگ عالم کو منور کیا اس کے خوش نصیب طلباء کرام نے سند فراغت حاصل کرنے کے بعد خود مسند علم وفضیلت آراستہ کیں ، مدرسہ دار الرشاد سے جو فضلاء فارغ التحصیل ہوکر مسند علم وفضل کے وارث ہوئے ان میں مفسر قرآن مولانا احمد علی انصاری، مولانا امید علی سندھی ، پیر احسان اللہ شاہ راشدی، سید ضیاء الدین (صاحب العلم الخامس) مولانا سید عبد اللہ سربازی ، مولانا عبد اللہ لغاری سندھی ، مولانا اکرم انصاری ہالائی ، مفتی عبد القادر سندھی وغیرہم ج ( مدرسہ دار الرشاد پیر جھنڈو، مضمون نگار مولانا عبد القادر لغاری ماہنامہ ’’الرحیم‘‘ حیدرآباد سالی 1965ء سندھ کی اسلامی درسگاہیں از ڈاکٹر محمد جمن ٹالپر ، صفحہ : 453، ماہنامہ شریعت سکھر سوانح نمبر ، صفحہ : 409 ، اصحاب علم وفضل از تنزیل الصدیقی ، صفحہ : 36۔37)

پیر جھنڈو کا کتب خانہ ایک تعارف

خانوادہ راشدی کی وہ اہم خصوصیات جس نے اس خانوادہ  عالی مرتبت کو سندھ کے دیگر خاندانوں سے ممتاز کیا ان کا پیش قیمت خزانہ علم وحکمت یعنی کتب خانہ ہے۔ اس خاندان میں کتابیں جمع کرنے کی ابتداء سید محمد بقا شاہ لکیاری شہید رحمہ اللہ سے ہوئی جو خاندان راشدیہ کے مؤسس اعلیٰ سید محمد راشد شاہ رحمہ اللہ کے والد گرامی تھے۔ موصوف نے مختلف جگہوں سے کمیاب ونادر مخطوطات کو حاصل کرکے اپنے کتب خانہ کی زینت بنایا ذخیرہ کتب میں اضافہ کیا۔ ذخیرہ کتب کا از حد شوق تھا اور اس شوق کی تکمیل کے لیے آئے دن مختلف مقامات کا دورہ کیا کرتے تھے۔ مشہورواقعہ ہے کہ ایک مرتبہ چند کتابیں باندھ کر کہیں تشریف لے جارہے تھے کہ راستے میں ڈاکؤوں نے کتابوں کے اس گٹھے کو مال سمجھ کر لوٹ لیا اور آپ کو بڑی سفاکی سے شہید کر دیا ۔ سید بقا شاہ لکیاری کی شہادت کے بعد یہ کتب خانہ علمیہ کا مختصر خزانہ سید محمد راشد شاہ کی تحویل میں آیا ان کے دور میں کوئی خاص وخاطر خواہ اضافہ نہ ہوا لیکن انہوں نے ان کتابوں کو بڑی ذمہ داری سے حفاظت فرمائی ۔ سید محمد راشد شاہ رحمہ اللہ کی وفات کے بعد یہ کتب خانہ دو حصوں میں منقسم ہوگیا ایک حصہ پیر پگاڑہ اول سید صبغتاللہ شاہ راشدی کی ملکیت میں آیا اور دوسرا حصہ صاحب العلم الاول (پیر جھنڈہ اول) سید محمد یاسین شاہ راشدی کے زیر تحویل آیا۔ ان دونوں بھائیوں نے اپنے اپنے کتب خانہ کی خوب حفاظت کی اور اس خزانہ علمیہ میں خاطر خواہ اضافہ بھی کیا۔ پیر سید محمد یاسین شاہ راشدی سے کتب خانہ نسل در نسل منتقل ہوتا ہوا صاحب العلم الرابع سید ابو تراب رشد اللہ شاہ راشدی کی تحویل میں آیا۔ سید رشد اللہ شاہ کا دور کتب خانہ کے لیے زرین دور تھا۔ ( اصحاب علم وفضل ، محمد تنزیل الصدیقی الحسینی ، صفحہ : 37۔38)

موصوف نے کتب خانہ میں توسیع کی اور نہایت علمی کتابیں جمع کیں۔ مختلف ممالک سے نادر ونایاب کتابیں خریدیں اور نقل کر جمع کیں ۔ آپ 1323ھ میں جب حج بیت اللہ کی ادائیگی کی غرض سے حرمین شریفین گئے تو اس سفر شوق میں قاضی فتح محمد نظامانی رحمہ اللہ اور مولوی عنایت اللہ بھی شریک تھے جن کا کام مکہ مکرمہ ومدینہ منورہ کے کتب خانوں سے حدیث کے فن کی منتخب کتابیں نقل کرنا اور نوادرات کی تلاش تھا۔ مولوی عنایت اللہ بیان کرتے ہیں کہ قیام مکہ معظمہ کے دوران کسی مکتبے میں امام محمد بن علی شوکانی رحمہ اللہ کی ارشاد الفحول کا قلمی نسخہ ہماری نظر سے گزرا مالک مکتبہ سے قیمت دریافت کی گئی تو اس نے دو سو روپے بتائی۔ شاہ صاحب کو جب علم ہوا تو آپ نے اسی قیمت گراں پر اس کتاب کے خریدنے کا حکم دیا۔ بالآخر اسے دو سو روپے میں خریدا گیا۔ بعد ازاں یہ کتاب جب طبع ہوکر آئی تو اس کی قیمت صرف دو روپے تھی اسی طرح بمبئی اور حیدرآباد دکن کی طرف اپنے خاص کاتب بھیج کر مشہور ونادر کتابیں خریدیں اور نقل کروائیں۔ مولانا زین العابدین آروں کے کتب خانہ سے ان کے ہاتھ کا لکھا ہوا مخطوطہ السنن الکبری للبیہقی دس جلدیں خریدیں سندھ کے قدیم وتاریخی کتب خانہ مخدوم محمد ہاشم ٹھٹوی رحمہ اللہ کی کتابیں اور سہون کے قدیم کتب خانہ کی کتابیں لا کر جمع کیں ۔ چند سالوں میں پیر جھنڈہ کے کتب خانہ نے وہ شہرت حاصل کی کہ دوردراز کے اسلامی ممالک کے علماء اور دائرۃ المعارف حیدر آباد دکن والوں نے بھی اس علمی وشہرت یافتہ لائبریری سے کتابیں نقل کروائیں۔ ( سندھ کے کتب خانوں کی تاریخ از ڈاکٹر اللہ رکھیوبٹ ، صفحہ : 34، اصحاب علم وفضل از محمد تنزیل الصدیقی ، صفحہ : 38۔ ہفت رو زہ الاعتصام لاہور ، مارچ 2003ء)

اس عظیم کتب خانہ کے متعلق مولانا عبید اللہ سندھی اپنی خود نوشت سوانح میں لکھتے ہیں کہ ’’ کتب خانہ پیر صاحب العلم الرابع گوٹھ پیر جھنڈا ضلع حیدر آباد راشدی طریقہ کے پیر ہیں۔ آپ کے پاس علوم دینیہ کا کتب خانہ تھا، میں دوران مطالعہ وہاں جاتا رہا اور کتابیں مستعار بھی لاتارہا ، میرے تکمیل مطالعہ میں اس کتب خانہ کے فیض کا بڑا دخل تھا … پھر مولانا سید ابو تراب رشد اللہ شاہ صاحب العلم الرابع سے علمی محبتیں بھی رہیں وہ علم حدیث کے بڑے جید عالم اور صاحب تصانیف تھے۔ ( مولانا عبید اللہ سندھی کی سرگذشت کابل از مولانا عبد اللہ لغاری ، صفحہ : 9) 

اسی کتب خانہ علمیہ کے متعلق مخدوم امیر احمد فرخ آبادی اپنے ایک مضمون ’’ سندھ کے دینی کتب خانوں میں سے کتب خانہ پیر رشد اللہ شاہ سندھ ‘‘ میں لکھتے ہیں کہ ’’ یہ کتب خانہ پیر جھنڈو شریف واقع حیدر آباد سندھ میں ہے پیر صاحب نے یہ کتب خانہ چودھویں صدی ہجری کی ابتداء میں قائم کیا انہوں نے اس کتب خانہ پر بے پناہ روپیہ خرچ کیا لندن کی لائبریری انڈیا آفس سے کتابوں کی فوٹو کاپیاں منگوائیں ترکی اور مصر کے کتب خانوں سے نایاب ونادر کتابوں کی نقلیں اپنے اخراجات پر کاتب بھیج کر کرائیں۔ قدیم کتب خانوں کو گرانمایہ سرمایہ سے خرید کر شامل کیے اور اسی طرح اس کتب خانہ میں نوادرات کا ایک ذخیرہ جمع ہے۔ ( سہ ماہی الزبیر بہاولپور 1967ء ، صفحہ : 202 بحوالہ اصحاب علم وفضل ، صفحہ : 39)

کتب خانہ راشدیہ کے متعلق حافظ محمد نعیم کراچی والے کا ایک تفصیلی مضمون ہفت روزہ الاعتصام لاہور میں تین اقساط پر محتوی ہے اور نہایت قیمتی معلومات پر مشتمل ہے جو طباعت پذیر ہوچکاہے۔ ( ملاحظہ ہو : الاعتصام 14۔21مارچ 2003ء)

سید ابو تراب رشد اللہ شاہ راشدی رحمہ اللہ نے تحریک خلافت میں بھی بھر پور حصہ لیا۔ فروری 1920ء میں لاڑکانہ کی خلافت کانفرنس جس میں مولانا ابو الکلام آزاد، مولانا عبد الجبار فرنگی، مولانا شوکت علی شریک ہوئے تھے۔ اس کانفرنس کی صدارت سید رشد اللہ شاہ راشدی نے کی تھی آپ کا صدارتی خطاب تاریخی دستاویز کی حیثیت رکھتاہے اس سلسلہ میں آپ کو پابند سلاسل بھی کیاگیا۔ لیکن آپ اپنے عزم وارادہ پر مستمر رہے۔ (کلام رشد اللہ شاہ ، ڈاکٹر سید صالح محمد شاہ بخاری ، صفحہ : 36۔37، سہ ماہی مہران تحریک آزادی نمبر شمارہ 1975ء)

تحریک خلافت میں بڑی سرگرمی سے حصہ لیا جس کی وجہ سے آپ کو پیر صاحب خلافت والے کہا جانے لگا علامہ سید رشد اللہ راشدی کو مطالعہ کا بے حد شوق تھا۔ اپنے مطالعہ اور معلومات کوعوام الناس تک پہنچانے کے لیے مختلف علوم وفنون پر سندھی، اردو، عربی اور فارسی میں 70 کے قریب کتابیں تصنیف کیں۔ یہ کتابیں آپ کے ورثاء کے پاس موجود کتب خانے میں محفوظ ہیں۔

اقلیم سندھ کے اس جلیل القدر محدث وسیع النظر والظرف محقق اور کثیر المطالعہ عالم ومجاہد ، 6 شعبان 1340ھ مطابق 23اپریل 1923ء کو وفات پائی۔

5۔ سید احسان اللہ شاہ راشدی المعروف ’’ پیر سائیں سنت والے‘‘ پیر جھنڈہ پنجم :

 سید رشد اللہ شاہ راشدی رحمہ اللہ کی وفات کے بعد آپ کے فرزند ارجمند سید فضل اللہ شاہ عرف احسان اللہ شاہ راشدی پیر جھنڈہ پنجم کی حیثیت سے اپنے خاندانی سجادگی کی مسند عالیہ پر مقرر کیاگیا۔ موصوف سید رشد اللہ شاہ کے چھوٹے صاحبزادے تھے۔ 27 رجب 1313ھ میں پیدا ہوئے آپ نے اپنے آبائی مدرسہ دار الرشاد میں جید اساتذہ کرام مولانا عبید اللہ سندھی ، مولانا محمد مدنی ، مولانا اللہ بخش، مولانا احمد علی لاہوری ، مولوی خدا بخش اور مولانا محمد اکرم انصاری ھاائی جیسے اصحاب سے تعلیم حاصل کی۔ دینی علوم کی تکمیل کے بعد آپ نے خاندانی روایات کو برقرار رکھتے ہوئے۔ قرآن وحدیث کی خدمت کو نہ صرف جاری رکھا بلکہ اس میں ایک نئی روح بھی پھونکی آپ کا حلقہ احباب نہایت وسیع تھا۔ ہندوستان بلکہ اس سے باہر کے کئی علماء سے تعلق خاص تھا خصوصاً سلطان ابن سعود رحمہ اللہ سے خاص دوستی اور خط وکتابت رہتی تھی۔ ( ماہنامہ شریعت سکھر سوانح نمبر ، صفحہ : 413، مہران سوانح نمبر ، صفحہ : 153 )

سید احسان اللہ شاہ اپنے دور کے جید عالم ہونے کے ساتھ ساتھ پیکر صلاح وتقویٰ بزرگ بھی تھے اور بدرجہ غایت متبع سنت تھے سنت رسول  صلی اللہ علیہ وسلم  سے بے پناہ محبت اور انتہائی اتباع کی وجہ سے لوگوں میں آپ ’’ پیر سائیں سنت والے‘‘ کے نام سے معروف تھے۔ ان کے بارے میں خود ان کے بڑے صاحبزادے علامہ سید محب اللہ شاہ راشدی بیان کرتے ہیں کہ ان کی تیسری شادی ہمارے سامنے ہوئی شادی کے لیے ایک بہت بڑے پیر سید محبوب اللہ شاہ راشدی کو پیغام پہنچایاگیا جو حنفی المذہب تھے۔ انہوں نے جواب دیا کہ اگر تم رفع الیدین کرنا چھوڑ دو تو میں اپنی بیٹی تمہارے نکاح میں دینے کو تیار ہوں۔ انہوں نے اس کے جواب میں کہلوا بھیجا کہ میں ایک عورت کی خاطر رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم  کی سنت کو ترک نہیں کرسکتا یہ ایک عورت کا معاملہ ہے میں ہزار عورتوں کو بھی اپنے پیغمبر  صلی اللہ علیہ وسلم  کی سنت پر قربان کر سکتاہوں ۔ ( کاروان سلف ، محمد اسحاق بھٹی ، صفحہ : 385، مہران سوانح نمبر ، صفحہ : 154، ماہنامہ صراط مستقیم کراچی ، مارچ 1995ء ، صفحہ : 27) 

علامہ سید محب اللہ شاہ راشدی اپنے والد ماجد سید احسان اللہ شاہ راشدی کے متعلق ایک اور واقعہ میں بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ ’’ ایک مرتبہ ہمارے والد صاحب اپنے جماعتی رفقاء کے ساتھ حیدرآباد سندھ ریلوے اسٹیشن پر بیٹھے ٹرین کا انتظار کر رہے تھے کہ انگریزی لباس میں ملبوس ایک داڑھی منڈے صاحب آرہے تھے اور انہوں نے والد صاحب کی طرف مصافحے کے لیے ہاتھ بڑھایا ، آپ ( والد ماجد) اسی طرح بیٹھے بیٹھے ان کی طرف ہاتھ کیا اور مصافحہ کیا ساتھیوںمیں سے کسی نے کہا پیر سائیں یہ سید غلام مرتضی شاہ ( جی ایم سید) ہیں۔ علاقہ کے مشہور پیر ہیں وڈیرے ہیں۔ ان کے ساتھ کھڑے ہوکر مصافحہ کرنا چاہیے تھا تو آپ اسی وقت ان کے سامنے ہی جواب دیا ہمیں کیا معلوم کہ یہ سید ہیں یا ہندؤوں کی کسی ماڈرن فیملی سے تعلق رکھتے ہیں ان کی وضع وقطع کوئی اسلامی نمونہ پیش نہیں کرتی اور پتا نہیں چلتا کہ یہ بھی سید ہیں ۔ جی ایم سید بولے سائیں کیا کریں اپنے کام کاج کے لیے انگریزوں سے ملنا جلنا پڑتا ہے ان کے سامنے اگر وضع قطع کا اسلامی نمونہ پیش کریں تو وہ عزت نہیں کرتے اور کوئی کام بھی نہیں کرتے۔ جواب دیا میری وضع قطع آپ کے سامنے ہے دونوں انگریز حاکم کے دفتر میں چلتے ہیں اور اس سے جاکر ملاقات کے لیے وقت طلب کرتے ہیں دیکھتے ہیں کہ وہ پہلے آپ سے ملاقات کرتاہے یا مجھ سے ۔ فرمایا عزت اللہ اور رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم  کی اتباع میں ہے نہ کہ غیروں کا رنگ ڈھنگ اختیار کرنے میں ۔ جی ایم سید نے ان کی اس بات کا کوئی جواب نہیں دیا اور خاموشی اختیار کر لی ( ایضاً)

سید احسان اللہ شاہ راشدی رحمہ اللہ علوم دینیہ کے جامع اور احیائے سنن میں بہت زیادہ داعی تھے۔ علم رجال پر آپ کی نہ صرف خاص نظر تھی بلکہ اس فن میں کمال بھی حاصل تھا ۔ مولانا ابو الوفاء ثناء اللہ امر تسری رحمہ اللہ نے آپ کے پاس آکر چند دن قیام کیا تھا۔ اپنے قیام کے دوران شاہ صاحب سے رجال کے متعلق کافی گفتگو ہوئی۔ مولانا صاحب جب واپس ہوئے تو فرمایا کہ ’’ آج اگر کوئی اسماء الرجال کا امام ہے تو پیر احسان اللہ شاہ راشدی ہے ‘‘ ۔(ماہنامہ شریعت سکھر سوانح نمبر ، صفحہ : 414)

سید سلیمان ندوی رحمہ اللہ موصوف کے متعلق لکھتے ہیں کہ ’’ مرحوم حدیث ورجال کے بڑ ےعالم تھے ….. ایک خانقاہ کے سجادہ نشین تھے اور طریق سلف کے متبع اور علم وعمل دونوں میں ممتاز تھے ‘‘۔ ( یادرفتگاں ، صفحہ : 186)

آپ بھی اپنے اکابرین کی طرح کتابوں کے شائق ہی نہیں بلکہ حریص تھے نادر قلمی کتابوں کے حصول میں ہر دم کوشاں رہتے تھے۔ ملک اور بیرون ملک کے اہل علم سے کتابوں کے سلسلے میں خط وکتابت رہتی تھی ۔ آپ نے خاندانی مدرسہ دار الرشاد اور مکتبہ پر خاص توجہ دی۔ علم حدیث ودیگر علوم سے اتنا گہرا لگاؤ تھا کہ کئی ممالک مثلاً شام ، مصر، مدینہ منورہ ، مکہ مکرمہ اور ہندوستان کے کئی شہروں سے زر کثیر خرچ کرکے نایات کتابیں نقل کروائیں۔ اپنے خاص کاتب قاضی لعل محمد اور مولانا قطب الدین ہالیجوی کو حیدرآباد دکن بھیج کر نواب عثمان علی خان کے کتب خانہ سے کئی کتابیں نقل کروائیں۔ آپ دائرۃ المعارف العثمانیہ دکن کے اراکین میں سے تھے۔ مکتبہ دائرۃ المعارف سے جو بھی کتاب چھپتی تھی وہ آپ کے کتب خانہ عالیہ علمیہ میں بطور اعزازی طورپر ملتی تھی۔ دائرۃ المعارف العثمانیہ دکن والوں نے جب پہلی مرتبہ السنن الکبری للبیہقی اور مستدرک حاکم طبع کروائیں تو اس وقت ان کے پیش نظر جو قلمی نسخے تھے۔ ان میں سے ایک نسخہ پیر احسان اللہ شاہ راشدی کے مکتبہ کا تھا۔ جیسا کہ انہوں نے دونوں مطبوعہ کتابوں میں ان قلمی نسخوں کے ذکر میں صراحت سے تحریر کیا ہے۔ آپ کے علمی ذوق کا اندازہ اس سے لگایا جاسکتاہے کہ تاریخ بغداد جو ابھی چھپی ہی نہیں تھی آپ نے 1928ء میں دار الکتب المصریہ قاھرہ سے 15۔16 سو روپے خرچ کرکے اس کا فوٹو اسٹیٹ حاصل کیا جوکہ کافی عرصہ کے بعد طبع ہوئی۔ امام ابو نعیم اصبھانی کی تاریخ اصفھان کا فوٹو اسٹیٹ انڈیا آفس لائبریری لندن سے ڈاکٹر کرنکو لائبریرین کی معرفت سے حاصل کیا ۔ کرنکو کی وساطت سے جرمنی حکومت سے صحیح ابن خزیمہ اور دوسری تفاسیر کے لیے بھی کوشاں رہے لیکن کامیاب نہ ہوسکے۔ بہر حال کتب خانہ میں نادر ونایاب کتب کا بڑا ذخیرہ جمع کیا آپ نے مدرسہ دار الرشاد کی ترویج وترقی میں بھی خصوصی دلچسپی لی ۔ آپ کے دور میں ملک کے چپے چپے سے طلبہ آکر کتاب وسنت کی تعلیم حاصل کی۔ ( سہ ماہی مہران سوانح نمبر ، صفحہ : 154، مضمون ’’سید احسان اللہ شاہ راشدی از پروفیسر مولانا بخش محمدی ماہنامہ ترجمان الحدیث لاہور1987ء)

سعودی حکومت کے پہلے فرمانروا شاہ عبد العزیز رحمہ اللہ کے خلاف برصغیر میں جب مخالفین نے قبوں اور مزاروں کے انہدام کے مسئلہ پرشور برپا کیا تو اس وقت سید احسان اللہ شاہ راشدی رحمہ اللہ نے سلطان موصوف کے موقف کی حمایت میں ایک مختصر مگر جامع اور دلائل سے بھر پور سندھی زبان میں مضمون قلم بند کیا۔ اور سندھ کے مختلف علاقوں میں تقسیم کیاگیا جس کے بہت اچھے اثرات مرتب ہوئے۔ ( تذکرئہ علماء اہل حدیث مرتب پروفیسر محمد یوسف سجاد ، صفحہ : 162، جلد 2)

اللہ تعالیٰ نے آپ کو بھی تصنیف وتالیف کا خصوصی ملکہ عطا فرمایا تھا آپ اخیر عمر میں حدیث کی مشہور ومعروف کتاب سنن ابن ماجہ کی ایک جامع ومانع شرح بنام ’’خیمۃ الزجاجۃ‘‘ لکھ رہے تھے اور بیمار پڑ گئے اتنی فرصت نہ مل سکی کہ آپ اس شرح کو مکمل کرسکیں علم وعمل کے اس پیکر نے صرف 45 برس کی عمر میں 15 شعبان 1358ھ مطابق 13 اکتوبر 1938ھ کو وفات پائی۔

علامہ سید محب اللہ شاہ راشدی پیر آف جھنڈہ ششم:

سید احسان اللہ شاہ راشدی کو اللہ تعالیٰ نے تین بیٹے عطا کیے تھے ان کی وفات کے بعد ان کے سب سے بڑے بیٹے علامہ سید محب اللہ شاہ راشدی کو پیر جھنڈا ششم کی حیثیت سے خاندانی سجادگی کے منصب پر فائز کیاگیا ۔ آپ کی ولادت گوٹھ پی جھنڈو نیو سعید آباد ضلع حیدرآباد سندھ میں مؤرخہ 2 اکتوبر 1921 مطابق 29 محرم الحرام 1325ھ میں ہوئی۔ ابتدائی تعلیم اپنے گاؤں کے مدرسہ دار الرشاد میں حاصل کی جو ان کے والد سید احسان اللہ شاہ راشدی کی نگرانی میں جاری تھا آپ کے مشہور اساتذہ میں حافظ محمد متوہ ، مولانا ولی محمد کیریو، مولانا محمد اسحاق افغانی ، مولانا عبد الوھاب، مولانا حمید الدین ، مولانا محمد اکرم ہالائی انصاری، مولانا عبید اللہ سندھی ، مولانا محمد مدنی ، مولانا محمد خلیل ، مولانا عبد الحق بہاولپوری ہاشمی مدنی ، مولانا ابوسعید شرف الدین دہلوی ، مولانا عطاء اللہ حنیف اور آپ کے والد ماجد سید احسان اللہ شاہ راشدی رحمہم اللہ علیہم شامل ہیں۔ اس کے علاوہ آپ نے سندھ یونیورسٹی جام شورو حیدرآباد سے فاضل عربی اور شعبہ ثقافت اسلامی وتقابل ادیان میں ایم اے کیا۔ اس کے بعد آپ درس وتدریس اور دعوت وتبلیغ میں مصروف ہوگئے۔ مدرسہ دار الرشاد کے ساتھ اور ینٹیل کالج قائم کیا جو سندھ یونیورسٹی کے ماتحت آٹھ برس تک چلتارہا۔ آپ کو بھی اپنے خاندان کے اسلاف کی طرح کتابیں جمع کرنے کا بے حد شوق تھا۔ اپنے خاندانی کتب خانہ کی توسیع وترقی میں خوب حصہ لیا۔ نادر ونایاب کتابوں کے حصول میں زر کثیر خرچ کیا اور آبائی کتب خانہ میں مختلف علوم وفنون کے ہزاروں مخطوطہ ومطبوعہ کتابوں کا اضافہ کیا۔ آپ نے کتابوں کے حصول کے لیے امرتسر اور دہلی کے سفر کئے۔ ترکی کے علمی مرکز استنبول، برطانیہ کے اسفار اور حج کے متعدد مواقع پر زیادہ وقت کتابوں کی تلاش وحصول میں مصروف رہے۔ اس لیے آپ کا کتب خانہ المکتبۃ العلمیہ آج بھی ہزاروں مطبوعات ومخطوطات کا خزینہ تسلیم کیاجاتاہے۔ کتابیں جمع کرنے کے ساتھ ساتھ باقاعدہ مطالعہ وتحقیق میں بھی مصروف رہتے تھے۔ آب کو علم تفسیر،حدیث،فقہ،فن رجال، فلسفہ،تاریخ اصول عربی،ادبیات وغیرہ علوم پر گہری نظر وعبور حاصل تھا۔ فن خطابت وتدریس کے ساتھ ساتھ اللہ تعالیٰ نے آپ کو تصنیف وتالیف کا خصوصی ملکہ عطا کیا تھا۔ علوم حدیث سے قلبی لگاؤ تھا۔ آپ نے عربی ،اردو اور سندھی زبان میں 60 سے زیادہ کتابیں تصنیف فرمائیں۔ ان کے علاوہ متعدد تحقیقی وعلمی مقالات ومضامین اور فتاویٰ جات تحریر فرمائے۔ علامہ سید محب اللہ شاہ راشدی رحمہ اللہ نے 19 شعبان 1415ھ مطابق 21 جنوری 1995ء کو داعی اجل کو لبیک کہا۔ آپ کی نماز جنازہ آپ کے چھوٹے بھائی اپنے وقت کے مجدد اور امام علامہ سید بدیع الدین شاہ راشدی نے پڑھائی۔ ( کاروان سلف محمد اسحاق بھٹی ، صفحہ : 379، مقدمہ بدیع التفاسیر ، پیش لفظ از پروفیسر محمد جمن کنبھر ، صفحہ: 23، اصحاب علم وفضل از محمد تنزیل الصدیقی ، صفحہ : 43 ، ماہنامہ دعوت اہل حدیث حیدر آباد سندھ۔ اگست 2004ء)

سید محمد یاسین شاہ راشدی حفظہ اللہ پیر آف جھنڈہ ہفتم :

علامہ سید محب اللہ شاہ راشدی کی وفات کے بعد ان کے بڑے صاحبزادے سید محمد یاسین شاہ راشدی کو خاندانی رسوم ورواج کے مطابق راشدی خاندان کی شاخ جھنڈائی کی سجادگی کیلئے مؤرخہ 22 شعبان 1415ھ  کو علامہ سید بدیع الدین شاہ راشدی ودیگر اکابرین خاندان، معززین اور معتقدین ومریدین نے سب کے اتفاق سے پیر جھنڈہ ہفتم کی حیثیت سے سجادہ نشین مقرر کیاگیا اور دستار پہنائی گئی آپ راشدی خاندان کی شاخ پیر جھنڈہ خاندان کے موجودہ سجادہ نشین ہیں ۔

مراجع مصادر

1۔ تذکرہ مشاہیر سندھ (کامل) مولانا دین محمد وفائی ۔ سندھی ادبی بورڈ حیدرآباد

2۔ سہ ماہی مہران ، سوانح نمبر ۔ شمارہ 1957ء

3۔ ماہنامہ شریعت سکھر ۔سوانح نمبر ۔ سال 1981ء

4۔ تذکرہ علماء اہل حدیث جلد نمبر 2 محمد یوسف سجاد ۔ جامعہ ابراہیمیہ سیالکوٹ

5۔ رموز راشدیہ ۔ ترتیب عبد الرحمن میمن ۔ مکتبہ الدعوۃ السلفیہ مٹیاری ضلع حیدرآباد

6۔ مقدمہ بدیع التفاسیر ۔ پیش لفظ ۔محمد جمن کنبھر۔ جمعیت اہل حدیث سندھ

7۔ ماہنامہ۔ الرحیم حیدرآباد ۔سوانح نمبر ۔

8۔ سہ ماہی مہران ، تحریک آزادی نمبر ۔ سال 1985ء سندھی ادبی بورڈ حیدرآباد

9۔ سندھ کی اسلامی درسگاہیں ۔ محمد جمن ٹالپر ۔طبع حیدرآباد۔ 1982ء

10۔ کلام رشد اللہ شاہ (پیر جھنڈے والے) ڈاکٹر محمد صالح شاہ بخاری۔ سندھی ادبی بورڈ

11۔ماہنامہ صراط مستقیم کراچی شمارہ ، جولائی 1994ء مارچ 1995ء

12۔ کاروان سلف ، محمد اسحاق بھٹی ،مکتبہ اسلامیہ فیصل آباد ۔ 1999ء

13۔ مولانا عبید اللہ سندھی کی سرگذشت کابل ، مولانا عبد اللہ لغاری ،دار الکتاب لاہور

14۔ راشدی خاندان کا شجرہ ۔ فیض الدین شاہ ۔ کنگری پریس حیدرآباد

15۔ یادرفتگان ، مولانا سید سلیمان ندوی ، نشریات اسلام ، کراچی 1983ء

16۔ماہنانہ ترجمان الحدیث لاہور، دسمبر 1978ء

17۔سہ ماہی الزبیر بہاولپور۔ کتب خانہ نمبر ۔ 1967ء

18۔عقیدہ توحید اور علماء سلف کی خدمات۔ بدیع الدین شاہ راشدی ، مکتبہ الدعوۃ مٹیاری

19۔سیر سید احمد شہید، مولانا غلام رسول مہر۔ شیخ غلام علی سنز لاہور

20۔ماہنامہ دعوت اہل حدیث حیدر آباد سندھ۔ اگست 2004ء

21۔اصحاب علم وفضل ۔ محمد تنزیل الصدیقی الحسینی ۔ اصلاح المسلمین پبلیشرز کراچی

22۔ تذکرہ پیران پاگارہ۔ تبسم چودھری ، کنگری پریس حیدرآباد

23۔ تذکرہ صوفیائے سندھ۔ اعجاز الحق قدوسی، کراچی

24۔ہفت روزہ الاعتصام لاہور ۔14۔21مارچ 2003ء

25۔ سخن اعجاز ۔ کلام پیر سید محی الدین شاہ عرف اعجاز شاہ سکرنڈ

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے