اے اصحاب اقتدار پاکستانی عوام اور معصوم بچوں کا کیا جرم ہے جو ایک نوالہ روٹی اور ایک گھونٹ پانی کو ترس رہے ہیں۔ اے حکمرانوں! جب تم اقتدار میں نہیں تھے تو تمہارے پاس بلٹ پروف گاڑیاں عظیم الشان بنگلے کہاں تھے۔ جب تم اقتدار میں آئے تو قوم کاسارا مال ہڑپ کر گئے۔ آج قوم کو تم نے سوائے بھوک و افلاس کے کچھ نہیں دیا وہ یتیم بچے جو بلک بلک کر اپنی ماؤں کی چھاتیوں سے چمٹ جاتے ہیں۔ وہ بے روزگار جو اپنے بچوں کی معیشت کے بارے میں پریشان ہیں وہ افلاس مند جن کے لیے دو وقت کا کھانا میسر نہیں۔ وہ جن کی عزتوں کا تماشا کیا گیا۔ وہ بے آبرو بے کس جو فٹ پاتھوں پر پڑے اس انتظار میں ہیں کہ کوئی آئے اور ان کو ایک وقت کا کھانا کھلا دے۔ ان تمام لوگوں کا حساب کون چکائے گا۔ جبکہ سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ فرمایا کرتے تھے اگر دریائے فرات کے کنارے ایک بکری کا بچہ بھی میری لاپروائی سے مرجائے تو مجھے ڈر ہے کہ اس کے متعلق بھی مجھ سے سوال ہوگا تو جو عوام آپ کے پاس اقتدار ہوتے ہوئے بھی آپ کے انصاف سے محروم ہوں ان کے متعلق کیا خیال ہے؟

اے حکمرانوں کی جماعت! اس کرب و درد میں سسکتی ہوئی قوم پر اتنا ظلم کرو جتنا کل اللہ کے دربار میں حساب دے سکو۔ اگر بے کسوں کا مداوانہ کیا گیا تو کل قیامت کو ان کے ہاتھ اور تمہارے گریبان ہونگے پھر تمہیں اللہ کی عدالت سے کوئی بچا نہیں سکے گا۔

ہاں! اگر اللہ کے دربار میں کامیابی چاہتے ہو تو اللہ کے لیے اس قوم کے رستے ہوئے زخموں پر مرہم کا ساماں کرو۔ لیکن افسوس کہ اس ملک عظیم پر ہر طرف مردہ خور گدھ ہی منڈلا رہے ہیں۔ نہ بھاگنے والوں کی منزل اور نہ رکنے والوں کو کوئی پناہ، جینا مرنا دونوں ہی مشکل نظر آتےہیں۔

حکمرانوں! اگر آج قوم سے غداری کرو گے تو جان لو کہ رات کے نالے اور دن کے ہاڑے عرش عظیم کو ہلا کر رکھ دیتے ہیں تم اپنے جھوٹے آقاؤں ہنود و یہود کو خوش کرنے کے لیے اپنے ہی عوام پر تابڑ توڑ حملے کر رہے ہو۔

اے سابق اور موجودہ حکمرانوں! ابھی تو شروعات تھی کہ قوم کا اعتماد کچل کر رکھ دیا گیا پسی ہوئی قوم کا خیال کرتے اگر تم نے اپنا رویہ ایسا ہی رکھا تو تمہارا حال ق لیگ اور پیپلز پارٹی سے بدتر ہوگا۔ غرور اور تکبر اللہ کو پسند نہیں اگر یہ امانت جو تم نے اپنے سر لے ہی لی ہے تو قوم سے دھوکہ نہ کرو۔ تمہارا مستقل ٹھکانہ امریکہ، لندن، برطانیہ، دبئی اور ایوان بالا نہیں بلکہ قبر کی اندھیر کوٹھڑی ہے جہاں اغیار کی پالیسی کام نہیں آئے گی پھر غیر کی تجویز چھٹکارا نہیں دلائے گی، پشت پناہی کے لیے سپر پاور کی امداد نہیں آئے گی پھر اکیلی جان اندھیرے میں گھبرائے گی اگر وہاں چھٹکارا چاہتے ہو تو عوام کے رستے ہوئے زخموں پر نمک پاشی نہ کرو۔ جن دشمنوں کی پالیسیوں کو اپنا کر تم اپنی زیست کو مزین کرنا چاہتے ہو ان درندوں کے دانتوں سے ابھی تک معصوم بچوں کا خون ٹپک رہا ہے عراق، افغانستان، شام، فلسطین، برما، صومال، کشمیر اور اب وزیرستان میں خون کی ندیاں بہانے کی تیاریاں ہو رہی ہیں۔ اور اب یہ بات سب پر عیاں ہو چکی ہے کہ نیٹو فوج پاکستان میں جب چاہے جہاں چاہے من مانی کاروائی کر سکتی ہے۔ پاکستان احتجاج ریکارڈ کروا بھی دے تو پاکستان کو اعلان کرنا پڑتا ہے کہ یہ کاروائی ہماری مرضی سے کی گئی یا ہم نے خود کی ہے۔ اور ویسے بھی کمزور اور کم ہمت غلامانہ ذہنیت رکھنے والے اپنوں کے لیے شیر اور اپنے آقاؤں کے لیے راکھ کا ڈھیر ہوتے ہیں ایسی ہی کسی کیفیت کی تعبیر کے لیے علامہ اقبال رحمہ اللہ نے کہا تھا:

؎ ہے جرم ضعیفی کی سزا مرگ مفاجات

اے اصحاب حل و عقد! ہوش کے ناخن لو ان معصوم اور تڑپتی لاشوں کا خون رائیگاں نہیں جائے گا۔

اپنا حال اس طوطے کی طرح نہ بناؤ جس کے گلے میں لال رنگ کا طوق غلامی ہوتا ہے وہ اپنے مالک کی رٹی رٹائی باتیں دہراتا رہتا ہے۔ پنجرے میں رہ رہ کر اس کی قوت پرواز یا خواہش پرواز ختم ہو چکی ہوتی ہے۔ اس کو آزاد بھی کیا جائے تو اڑ کر زیادہ دور نہیں جا سکتا۔

اے ارباب نشاط! جس ملک کی باگ دوڑ آپ کے ہاتھوں میں تھمائی گئی ہے اس کی تاریخ پڑھ کر دیکھو اس کے حصول کے لیے جانوں کو تڑپایا گیا نوجوان لڑکیوں کو ان کے ورثاء کے سامنے بے آبرو کیا گیا نوجوانوں کے سرنیزوں کی انیوں پہ لٹکائے گئے، ماؤں، بہنوں کی عزتوں کا تماشا کیا گیا لیکن افسوس آج اسی ملک پر بے حس مسلط ہیں جو ملک و ملت کو اغیار کے ہاتھوں گروی رکھ کر اپنی ذاتی ساکھ بچانا چاہتے ہیں۔ حکومت کے منصب کو سنبھالنا ہوا کے رخ پر اڑنے والے خس و خاشاک یا پانی کے بہاؤ پر بہہ جانے والے کیڑوں مکوڑوں اور ہر رنگ میں رنگ جانے والے بے رنگوں کے لیے نہیں ہیں۔ نفس کے بندوں اور دنیا کے غلا موں کے لیے نہیں ہوں اور جو صبغۃ اللہ (اللہ کا رنگ) کو دنیا کے ہر رنگ سے زیادہ عزیز رکھتے ہوں۔

انقلاب یا ارتقاء ہمیشہ قوت ہی کے اثر سے رونما ہوتا ہے اور قوت ڈھل جانے کا نام ہے اور مڑجانے کا نام نہیں موڑ دینے کا نام ہے دنیا میں کبھی بزدلوں نے انقلاب برپا نہیں کیا جو لوگ اپنا کوئی اصول، نصب العین، مقصد حیات اور بلند مقصد کے لیے قربانی دینے کا حوصلہ اور مشکلات کے مقابلے کی ہمت نہ رکھتے ہوں اور جو غیر کے سانچے میں ڈھل جاتے اور دباؤ میں آجاتے ہوں ان کا کوئی قابل ذکر کارنامہ انسانی تاریخ میں نہیں ملتا تاریخ بنانا صرف بہادروں کا کام ہے بزدلوں کا نہیں۔

اے حکمرانوں! دنیاوی عدالتون سے معافی حاصل کرنا اور بریت حاصل کرنے کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ اخروی عدالت بھی تمہیں بری کر دے گی بلکہ وہاں تو ’’ وَمَنْ يَّعْمَلْ مِثْقَالَ ذَرَّةٍ شَرًّا يَّرَهٗ ‘‘ کا سامنا ہو گا اور قرآن کا فیصلہ سن لیں:

وَيَقُوْلُوْنَ يٰوَيْلَتَنَا مَالِ هٰذَا الْكِتٰبِ لَا يُغَادِرُ صَغِيْرَةً وَّلَا كَبِيْرَةً اِلَّآ اَحْصٰىهَا   (الکھف 49)

اور کہیں گے ’’ہائے ہماری بدبختی اس کتاب نے نہ تو کوئی چھوٹی بات چھوڑی ہے اور نہ بڑی، سب کچھ ہی ریکارڈ کر لیا ہے۔

اے صاحب اختیار! اس دن اقتدار، سرداری، چودھراہٹ، سطوت، شان اور مقام کام نہیں آئے گا۔ اس لیے آج اس فریضہ کو ایمان داری سے سر انجام دو وگرنہ یاد رکھو۔

اے حکمرانوں! اپنی جان کے متعلق اللہ سے ڈرو۔ آپ اکیلے پیدا ہوئے اکیلے مریں گے اکیلے اٹھیں گے اکیلے ہی حساب دیں گے اللہ تعالیٰ کی قسم جن لوگوں کو آج آپ اپنے قریب ترین دیکھ رہے ہو ان میں سے کوئی آپ کے ساتھ نہ ہوگا۔ ہم آپ کو وہی وعظ و نصیحت کرتے ہیں جو سلف الصالحین حکام کو کیا کرتے تھے کہ لوگوں کے معاملے میں اللہ سے ڈرو اور اللہ کے معاملے میں لوگوں سے نہ ڈرو، تمہارا قول فعل کے خلاف نہ ہو کیونکہ بہترین قول وہ ہے جس کی فعل تصدیق کرے۔

جو بھی مسلمانوں کے کسی کام کا والی ہو اسے قیامت کے روز اس حال میں اللہ کے سامنے پیش کیا جائے گا کہ اس کے ہاتھ گردن پر بندھے ہونگے اسے جہنم کے پل پر کھڑا کیا جائے گا اور وہ پل اس کو اس طرح جھنجھوڑے گا کہ اسے اپنا ہر جوڑ اکھڑتا ہوا معلوم ہوگا پھر اسے واپس لا کر اس کا حساب کیا جائے گا اگر وہ نیک ہوگا تو اپنی نیکی کی وجہ سے نجات پا جائے گا اور اگر برا ہوگا تو وہ پل اس کے لیے ٹوٹ جائے گا اور وہ ستر سال کی راہ تک جہنم میں گرتا جائے گا۔

بیروت کا قصائی

اسرائیل کا سابق وزیر اعظم اور وزیر جنگ و جدال لاکھوں مسلمانوں کے خون سے ہاتھ لال کرنے والا ایریل شیرون85 سال کی عمر میں دماغی فالج کی وجہ سے مسلسل 8 سال تک کومہ کی حالت میں رہنے کے بعد 11 جنوری 2014 کو جہنم واصل ہو گیا۔

مسلمانوں کا بدترین دشمن اور فلسطینیوں کا قاتل 8 سال تک زندہ لاش بنا رہا یہ وہی ظالم اور جابر تھا جس نے 1982ء میں لبنان جنگ کے دوران وزیر دفاع ہوتے ہوئے فلسطینیوں کے مہاجر کیمپوں، صابرہ اور شتیلا پر شب خون مارنے کا حکم دیا تھا جس کے نتیجے میں 460 صابرہ اور شتیلا میں 3500 نہتے فلسطینیوں کو بہت بے دردی اور سفاکی سے شہید کر دیا گیا تھا۔ صابرہ اور شتیلا کا قاتل ایریل شیرون کی انتہائی دردناک موت مکافات عمل کا نتیجہ ہے۔ اسرائیلی حکمران خاص طور پر اور ہر ظالم، جابر اور آمروں کو عام طور پر چاہیے کہ اس ظالم کی موت سے سبق حاصل کریں اور مظلوم مسلمانوں کے خلاف ظلم و تشدد سے باز آ جائے۔ اگر ظلم و ستم کا یہ سلسلہ جاری رہا تو پھر قانون الٰہی مکافات عمل سے کوئی بچ نہیں سکے گا۔ جیساکہ آج کل بہادر کمانڈر ہونے کا دعویٰ کرنے والا بزدل آمر پرویز مشرف مکافات عمل کا مزہ چکھ رہا ہے۔ دنیا میں ظلم و جبر کرنے والوں کو یاد رہنا چاہیے کہ ایسے ظالم نہ صرف آخرت میں اللہ تعالیٰ کے قہر و غصب کے مستحق ہیں بلکہ دنیا میں بھی انہیں عبرتناک سزا ملتی ہے۔

پس جان لو!

اِنَّ بَطْشَ رَبِّكَ لَشَدِيْدٌ

آپ کے پروردگار کی گرفت یقینا بڑی سخت ہے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے