دورِ حاضر میں فتویٰ ہمارے قومی اورعالمی میڈیا کا ایک مرکزی موضوع بن چکا ہے، مختلف عناوین پربات کرنے کے لیے مختلف قسم کے لوگوں کوبُلایا جاتا ہے، اور ساتھ ہی ساتھ مذہبی اسکالرکے لقب سے نوازا جاتا ہے، اور اپنی چرب زبانی کے زور پر حق کو باطل اور باطل کو حق بنا کر پیش کرنے کی کوشش کرتے ہیں، فتویٰ کی بنیاد کتاب و سنت نہیں ہوتی بلکہ ان کی چرب زبانی کا کرشمہ ہوتا ہے۔

اور یہ لوگ اپنی سستی شہرت کے لیے فتاویٰ کے اصول، قواعد کو بالائے طاق رکھ کر’’تتبع الرخص‘‘ کے اصول پر چلتے ہیں، اور یہ بھول جاتے ہیں کہ اِفتاء کا منصب بہت اہم اورنازک ہے جو شخص فتویٰ دیتا ہے گویا کہ وہ اللہ اور بندے کے درمیان وسیلہ اور پُل کی حیثیت رکھتا ہے، اور وہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے دستخط کرتاہے کہ فلاں اس مسئلہ میں اللہ کاحکم یہ ہے، اسی لیے امام ابن القیم رحمہ اللہ نے اپنی مشہورکتاب کا نام ہی یہی رکھا ہے ’

’إعلام الموقعین عن رب العالمین‘‘

اور اُس میں فتاویٰ کے اصول وقواعد کو بہترین انداز میں تحریر فرمایا ہے۔

اور افتاء کے منصب کی نزاکت وخطورت کے پیشِ نظرکئی علماء نے فتویٰ کے اصول وقواعد اور آداب پرجامع کتب لکھی ہیں، جن میں سے امام خطیب بغدادی رحمہ اللہ کی کتاب ’’الفقیہ والمتفقہ‘‘، حافظ ابن صلاح رحمہ اللہ کی کتاب ’’آداب المفتی والمستفتی‘‘، ابن حمدان الحنبلی کی کتاب ’’صفۃ الفتویٰ والمفتی والمستفتی‘‘، اور امام نووی رحمہ اللہ کی کتاب ’’المجموع شرح المہذب‘‘ کا مقدمہ اس باب میں شہرت کے حامل ہیں۔

اور امام ابن عبد البر رحمہ اللہ کی کتاب ’’جامع بیان العلم وفضلہ‘‘ میں اصولِ فتویٰ سے متعلق کافی سارا مواد موجود ہے۔

ان علماء کرام نے افتاء کے منصب کی نزاکت کوبھانپتے ہوئے اس کے اصول وضوابط کواحاطۂ تحریرمیں لائے۔

سلف صالحین، علم میں اعلیٰ درجہ رکھنے کے باوصف اصدارِ فتویٰ کے بارے میں حد درجہ محتاط تھے،

فتوی میں احتیاط کرنے میں سلف کے چند نمونے

صحابہ کرام اور تابعین عظام اور ائمہ دین فتویٰ دینے میں بہت ہی زیادہ محتاط تھے۔ اس کی کئی مثالیں ملتی ہیں۔

معاویہ بن ابی عیاش بیان کرتے ہیں کہ ایک دن میں سیدنا عبداللہ بن الزبیررضی الله عنہما کی مجلس میں موجودتھا اتنے میں محمدبن ایاس بن البکیر آئے اورکہنے لگے: ایک دیہاتی نے اپنی بیوی کو دخول سے قبل تین طلاقیں دی ہیں، اس بارے میں آپ دونوں کی کیا رائے ہے؟ تو عبداللہ بن الزبیر نے فرمایا: ہمیں اس بارے میں کچھ بھی علم نہیں، تم عبداللہ بن عباس اور ابوہریرہ سے پوچھو، ان دونوں کو میں سیدہ عائشہ کے پاس چھوڑ کر آیا ہوں، ان سے پوچھ کرہمیں بھی ان کے جواب سے آگاہ کرنا، محمد بن ایاس الکبیر ان دونوں کے پاس آئے اورمسئلہ کے بارے میں ان سے دریافت کیا توابن عباس نے ابوہریرہ سے فرمایا:

(أفته یا أباهریرة فقدجاءتک معضلة )

اے ابوہریرہ ایک پیچیدہ مسئلہ آیا ہے آپ ہی اس کے متعلق فتویٰ دیں، تو ابوہریرہ نے جواب دیا:

(الواحدة تبینهاوالثلاث تحرمها حتی تنکح زوجاًغیره)

پہلی طلاق طلاقِ بائنہ (یعنی وہ طلاق جس میں شوہر کو رجوع کا حق ختم اور عورت کی مرضی سے نیا عقد کی گنجائش ہو) ہوگی اور تین طلاقیں اس عورت کوحرام کردے گی جب تک وہ کسی دوسرے مرد سے نکاح نہ کرلے پھر اسے طلاق ہو جائے۔ (1)

جلیل القدر تابعی عبدالرحمن بن ابی لیلی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:

(أدرکت عشرین ومائة من أصحاب رسول اللهٖﷺ ما منهم رجل یسأل عن شیء إلاودّ أن أخاه کفاه۔۔۔۔۔ یسأل أحدهم عن المسألة فیردهاإلیٰ هذا وهذاإلیٰ هذا حتیٰ ترجع إلیٰ الأول) (2)

میں نے ایک سو بیس انصاری صحابہ کوپایا ان میں سے کسی سے کسی مسئلہ کے بارے میں سوال کیا جاتا تو وہ یہی چاہتا کہ اس بارے میں اس کا جواب اس کا بھائی دے، اور کبھی ان سے کوئی سوال ہوتا تو وہ اپنے بھائی کی طرف اشارہ کرتا اور وہ تیسرے کی طرف اشارہ کرتا یہاں تک کہ وہ سوال پہلے ساتھی کی طرف لوٹ آتا۔

اور مالک بن انس امام دارالہجرۃ رحمہ اللہ فرماتے ہیں: مدینہ منورہ میں میری بہت سے علماء، فقہاء سے ملاقات ہوئی ان میں سے کسی سے کوئی دینی مسئلہ پوچھا جاتا تو ان کی حالت ایسی ہو جاتی کہ گویا کہ موت طاری ہوگئی ہے، جبکہ ہمارے زمانے میں لوگ فتویٰ دینے کو پسند کرتے ہیں، اگر ان لوگوں کو کل قیامت کے دن غلط فتویٰ کی سزا کا علم ہو تو وہ کبھی فتویٰ نہ دیں۔

امیر المؤمنین عمربن الخطاب، علی بن ابی طالب کا زمانہ خیر القرون کا زمانہ تھا اور یہ لوگ خیار صحابہ میں سے تھے جب ان سے کسی مسئلہ کے متعلق دریافت کیا جاتا تو وہ اصحاب رسولﷺ کوجمع کرتے اور ان سے اس مسئلہ کے بارے میں پوچھتے پھرجس بات پراتفاق ہوجاتا اس کے مطابق فتویٰ صادر کرتے، جبکہ ہمارے دورمیں لوگ فتویٰ دینے پرفخرکرتے ہیں۔ (3)

اللہ تعالیٰ امام مالک کی قبر پر رحمتوں کا نزول فرمائے اگر وہ آج ہمارے زمانے کے نام نہاد مذہبی اسکالر کو پردۂ سکرین پرفتویٰ بازی کرتے ہوئے دیکھتے توان کے بارے میں کیافرماتے؟!!!

امام مالک بن انس رحمہ اللہ کے متعلق آتا ہے کہ ان سے ایک دن پچاس مسائل کے بارے میں سوال کیا گیا ان میں سے کسی کاجواب نہیں دیا بلکہ آپ کہا کرتے تھے کہ

(من أجاب فی مسألة فینبغي قبل الجواب أن یعرض نفسه علیٰ الجنة والنار وکیف خلاصه ثم یجیب)

کوئی بھی عالم جواب دینے سے قبل اپنے نفس کو جنت یا جہنم پر پیش کرے اور یہ سوچے کہ نجات کس طرح ممکن ہے پھر جواب دے۔ (4)

آپ ہی کے شاگرد الھیثم بن جمیل کہتے ہیں کہ ایک دن امام مالک سے اڑتالیس مسائل کے بارے میں پوچھا گیا ان میں سے بتیس مسائل کے بارےمیں فرمایا: (لاأدری، مجھے اس کے بارے میں علم نہیں)۔ (5)

جلیل القدرتابعی ابوالمنھال بیان کرتے ہیں کہ میں زید بن ارقم اور البراء بن عازب سے (الصرف) کے بارے میں جب بھی ان میں سے کسی ایک سے پوچھتا وہ دوسرے کی طرف اشارہ کر کے کہتے کہ ان سے پوچھو وہ مجھ سے زیادہ دیانتدار اورزیادہ علم والا ہے۔ (6)

امام عبدالرحمن بن مہدی رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ ایک میں امام مالک کی مجلس میں تھا ایک اجنبی آیا اور کہنے لگا کہ میں چھ ماہ کی طویل مسافت طے کر کے اپنی بستی والوں کی طرف سے بہ طور نمائندہ ایک مسئلہ آپ سے پوچھنے آیا ہوں، امام مالک نے فرمایا کہ پوچھو، جب اس نے مسئلہ بیان کیا تو امام صاحب نے اس کے بارے میں لاعلمی کا اظہار کیا کہ مجھے اس کا صحیح علم نہیں، ابن مہدی کہتے ہیں کہ امام صاحب کا جواب سن کر وہ آدمی دنگ رہ گیا اس کا خیال تھا کہ میں تو ایسے شخص کے پاس آیا ہوں جو سب کچھ جانتا ہے، اس نوارد نے عرض کیاکہ میں اب واپس جا کر اپنی بستی والوں کو کیا جواب دوں گا جنہوں نے صرف آپ سے دریافت کرنے کے لیے بہ طورخاص مجھے آپ کے پاس بھیجا ہے؟ آپ نے فرمایا کہ اپنی بستی والوں سے کہنا مالک کہتا ہے کہ اس مسئلہ کے بارے میں اسے کوئی علم نہیں ہے۔(7)

ابن عون کہتے ہیں کہ ایک دن میں القاسم بن محمدبن ابی بکر کے ساتھ تھا ایک شخص آیا اور کسی مسئلہ کے متعلق ان سے پوچھنے لگا آپ نے جواب میں فرمایا مجھے اس بارے میں مکمل علم نہیں، توسائل نے کہا: میں یہاں کسی عالم کو نہیں جانتا آپ ہی اس بارے میں رہنمائی کریں، آپ نے فرمایا تم میری لمبی داڑھی اور میرے اردگرد لوگوں کے ہجوم کودیکھ کر دھوکے میں مت آؤ، واقعتاً مجھے اس بارے میں علم نہیں ہے، اسی مجلس میں موجود ادھیڑ عمرکے ایک قریشی آدمی نے کہا: اے اجنبی! تم اس مسئلہ کی بابت ان سے جواب کے لیے اصرار کرو میں نے اس مجلس میں تم جیسا ہوشیار نہیں دیکھا ہے، تو القاسم نے فرمایا:

(لأن یقطع لسانی أحب إلی من أن أتکلم بمالاعلم لی به)

میری زبان کا کٹ جانا مجھے زیادہ محبوب ہے اس بات سے کہ میں کسی ایسے فتویٰ کے متعلق جواب دوں جس کا مجھے صحیح سے علم نہ ہو۔ (8)

فتوی دینے میں زیادہ جرأت مندی دکھانے والے سلف کی نظر میں

امام سفيان بن عیینہ رحمہ اللہ فرماتےتھے:

(أجرؤ الناس علی الفتویٰ أقلهم علماً)

فتویٰ دینے میں زیادہ جرأت مند وہ شخص ہوتا ہے جو علمی طور پر نکمّا ہو۔ (9)

سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:

إن الذی یفتي الناس فی کل ما یسألونه لمجنون

جو شخص ہر پوچھے جانے والے سوال کا جواب دے وہ پاگل ہے۔ (10)

سیدناعبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کا فرمان ہے: اے لوگو! جس شخص سے کسی چیزکے بارے میں پوچھا جائے اسے اس کا علم ہو تو ضرور اس کو بیان کرے، اور جس کو علم نہ ہو تو وہ ’’الله أعلم‘‘ کہے، کیونکہ جس چیز کا علم نہ ہو اس کے بارے میں اللہ اعلم کہنابھی علم ہی ہے، کیونکہ اللہ تعالیٰ نے اپنے حبیب کو یہ کہنے کا حکم دیا ہے:

(قل لاأسئلکم علیه من أجر وماأنامن المتکلفین) (11)

کہہ دیجئے کہ میں تم سے اس پرکوئی بدلہ طلب نہیں کرتا اور نہ میں تکلف کرنے والوں میں سے ہوں۔ (12)

اور صحیح مسلم کی روایت میں یہ ہے:

(من فقه الرجل أن یقول لمالاعلم له به: الله أعلم) (13)

حبر الأمة سیدنا عبداللہ بن عباس رضی الله عنہما نے فرمایا: جو شخص کوئی ایسا فتویٰ دیتا ہے جس کا اسے علم نہیں تو اس کا گناہ فتویٰ دینے والے پر ہے۔

اور ابو حصین عثمان بن عاصم رحمہ اللہ فرماتے ہیں:

(إن أحدهم لیفتي فی المسألة لووردت علیٰ عمر لجمع أهل بدر)(14)

آج کل لوگ ایسے ایسے مسائل میں فتویٰ دینے لگ گئے ہیں اگر یہ مسائل سیدنا عمر کو درپیش ہوتے تو وہ اہل بدر کو جمع کر کے ان سے ان کاحل معلوم کرتے۔

اور اس کی واضح مثال ہمیں اس واقعہ سے ملتی ہے:

جلیل القدر صحابی سیدنا رفاعہ بن رافع رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ ایک دن میں سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کی مجلس میں بیٹھا تھا اتنے میں ایک شخص آپ کی مجلس میں آیا اور پکارا اے امیر المؤمنین! یہ زید بن ثابت مسجد میں بیٹھ کر لوگوں کو غسلِ جنابت کے متعلق اپنی رائے سے فتویٰ دے رہے ہیں، امیر المؤمنین نے فوراً انہیں اپنی مجلس میں حاضر ہونے کا حکم دیا، زید بن ثابت حاضر ہوئے تو امیر المؤمنین ان سے مخاطب ہوئے کہ(أي عدو نفسه قد بلغت أنک تفتي الناس برأیک) اے اپنی ذات کے دشمن تم لوگوں کو اپنی رائے سے فتوے دے رہے ہو؟ تو زید بن ثابت نے جواباً عرض کیا کہ اے امیر المؤمنین! میں نے اپنی رائے سے توفتویٰ نہیں دیا بلکہ میں نے یہ ابو ایوب انصاری، ابی بن کعب، اور رفاعہ بن رافع سے سنا ہے، یہ سن کر امیر المؤمنین، رفاعہ کی طرف متوجہ ہوئے اور فرمایا: کیا تم لوگ جب اپنی بیویوں سےجماع کر کے عدمِ انزال کی صورت میں غسل نہیں کرتے تھے؟ تو رفاعہ گویا ہوئے: ہم اللہ کے نبیﷺ کے زمانہ میں ایساکِیا کرتے تھے، ہمیں اللہ کی طرف سے کوئی حرمت نہیں ملی اورنہ ہی اللہ کے رسولﷺ نے اس سے منع کِیا، امیر المؤمنین عمر رضی اللہ عنہ نے دریافت کِیا کہ کیا آپﷺ جانتے تھے کہ لوگ ایسا کرتے ہیں؟ تو رفاعہ نے لاعلمی کا اظہار کیا، تو امیر المؤمنین نے مہاجرین وانصار کو جمع کیا اور ان سے اس مسئلہ کے بارے میں مشورہ کیا تو ان میں سے بعض نے کہا کہ اس پر غسل واجب نہیں، لیکن معاذ بن جبل اور علی بن ابی طالب رضی الله عنہما نے ان کے اس جواب سے اختلاف کیا اور فرمایا (إذا جاوز الختان الختان فقد وجب الغسل) مرد و عورت کی شرمگاہیں آپس میں مل جائیں تو غسل واجب ہو جاتا ہے۔ ان کا یہ اختلاف سن کر امیر المؤمنین نے فرمایا:

(هذا وأنتم أصحاب بدر؛ قد اختلفتم فمن بعدکم أشد اختلافاً)

تم اصحاب بدر اختلاف کا شکار ہو تمہارے بعد والے اس سے کہیں زیادہ اختلاف کا شکار ہوں گے، تو سیدنا علی بن ابی طالب -جو سیدنا عمر کے سُسر اور مشیر خاص تھے- نے فرمایا: اس مسئلے میں ازواج مطہرات سے زیادہ کوئی جاننے والا نہیں، آپ ام المؤمنین سیدہ حفصہ کے پاس کسی کو پوچھنے کے لیے بھیج دیں، جب ان سے پوچھا گیا تو انہوں نے جواب میں فرمایا (لا علم لی بها فأرسل إلٰی عائشة) مجھے اس بارے میں کچھ معلوم نہیں عائشہ سے پوچھاجائے، جب عائشہ سے سوال کیا گیا تو انہوں نے وہی جواب دیا جو معاذ اور علی بن ابی طالب کا جواب تھا: (إذا جاوز الختان الختان فقد وجب الغسل)، جب مسئلہ کی وضاحت ہوئی تو سیدنا عمر نے فرمایا: اگر آج کے بعد مجھے یہ معلوم ہوا کہ کسی نے ایسا کیا ہے تومیں اس کو سزا دوں گا۔ (15)

عہد فاروقt میں افتاء کی علمی کمیٹی

سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے اپنے دورِ خلافت میں فتویٰ دینے کے لیے بعض صحابہ کرام کو مخصوص کیا ہوا تھا، اور جن صحابہ کو جن جن علوم پر عبور حاصل تھا صرف اسی کے بارے میں فتویٰ دیتے تھے۔ آپ کا ارشاد ہے:

(من أراد أن یسأل عن القرآن فلیأت أبي بن کعب،ومن أراد أن یسأل عن الفرائض فلیأت زیدبن ثابت،ومن أراد أن یسأل عن الفقه فلیأت معاذبن جبل،ومن أراد أن یسأل عن المال فلیأتنی فإن الله تبارک وتعالیٰ جعلنی له خازناًوقاسماً) (16)

اور سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کا یہ قانون بنو أمیہ کے دور میں بھی رائج رہا، حج میں فتوی کے لئے عطاء بن أبی رباح رحمہ اللہ مقرر تھے۔ امام ذہبی، امام عطاء بن ابی رباح کی حالت زندگی میں لکھتے ہیں: بنو امیہ کے دور میں ایام حج میں یہ اعلان ہوتا تھا کہ

لا یفتي الناس إلا عطاء بن أبی رباح فإن لم یکن عطاء فعبد الله بن نجیح (17)

لوگوں کو فتویٰ صرف عطاء بن ابی رباح دیں گے اگروہ نہ ہوں توعبداللہ بن نجیح۔

اور عباسی عہد میں بھی یہ نظام رہا، جیسے کہ عبد اللہ بن وہب رحمہ اللہ فر ماتے ہیں:

(سمعت مناديا ينادي بالمدينة ألا لا يفتي الناس إلا مالك بن أنس وابن أبي ذئب)

کہ میں نے مدینہ منورہ میں یہ اعلان سناکہ لوگوں کوفتویٰ صرف مالک بن انس اورابن ابی ذئب کے سواکوئی اور نہ دے۔ (18)

یہ ہیں سلف صالحین کے چند نمونے جو علم کے کمال کو پہنچنے کے باوجود بہت ہی احتیاط سے فتوے دیتے، اگر ان کو علم نہ ہو تو کسی جاننے والے کے حوالہ کرتے، لیکن آج کل ہم ایسے دور سے گزر رہے ہیں جس میں لوگ فتوے دینے پر فخر کرتے ہیں، بالکل وہی زمانہ آگیا ہے جس کے بارے میں اللہ کے نبیﷺ نے فرمایا تھا:

« اتَّخَذَ النَّاسُ رُءُوسًا جُهَّالاً فَسُئِلُوا ، فَأَفْتَوْا بِغَيْرِ عِلْمٍ ، فَضَلُّوا وَأَضَلُّوا »(19)

لوگ جاہلوں کو سردار بنائیں گے، ان سے سوال ہو گا وہ بغیر علم کے جواب دیں گے، خود بھی گمراہ ہوں گے اور لوگوں کو بھی گمراہ کریں گے۔

اور دوسری حدیث میں آتا ہے سیدنا أبو ہریرہ راوی ہیں:

سَيَأْتِي عَلَى النَّاسِ سَنَوَاتٌ خَدَّاعَات، يُصَدَّقُ فِيهَا الْكَاذِبُ، وَيُكَذَّبُ فِيهَا الصَّادِقُ، وَيُؤْتَمَنُ فِيهَا الْخَائِنُ، وَيُخَوَّنُ فِيهَا الأَمِينُ، وَيَنْطِقُ فِيهَا الرُّوَيْبِضَةُ، قِيلَ : وَمَا الرُّوَيْبِضَةُ؟ قَالَ:“الرَّجُلُ التَّافِهُ فِي أَمْرِ الْعَامَّةِ (20)

لوگوں پر کئی دھوکے وفریب کے سال آئیں گے، جن میں جھوٹے کوسچا قرار دیا جائے گا، اور سچے کو جھوٹا بنایا جائے گا ، خیانت کرنے والے کو امانت دار بنایا جائے گا ، اور امانتدار کو خیانت کرنے والا قرار دیا جائے گا، اور رویبضہ لوگوں کے معاملات میں باتیں کرنے لگیں گے، کسی نے پوچھا اے اللہ کے رسولﷺ! رویبضہ کون ہیں؟ آپﷺ نے فرمایا: گھٹیا لوگ۔

آج کل ہم انہی مسائل سے دوچار ہیں دین کے معاملہ میں مقاصدِ شرعیہ اور علومِ دین سے نا بلد لوگ فتوی دیتے ہیں جائز کو نا جائز اور ناجائز کو جائز، حلا ل کو حرام اور حرام کو حلال قرار دیتے ہیں۔ نا حق کسی کے خون کرنے کو جہاد فی سبیل اللہ، مسلمانوں کی پاک دھرتی کو دار الکفر، اور کتاب وسنت کی روشنی میں فساد فی الارض اور ابریاء کے نا حق خون کرنے کو حرام کہنے والےکو مرتد قرار دیتے ہیں۔

اور دوسری طرف بعض روشن خیال لوگ شریعت کے بنیادی اصولوں کا ہی انکار کر دیتے ہیں کوئی یہ فتوی دیتا ہے کہ اسلام میں تقسیم میراث میں للذکر مثل حظ الانثیین کا قاعدہ مسلمہ نہیں بلکہ عورت کو مرد کے برابر کا حصہ ملنا چاہئے، کوئی یہ فتوی دیتا ہے کہ مرد وزن کا اختلاط عین شریعت کے مطابق ہے، کوئی موسیقی کو جائز قرار دیتا ہے۔

الغرض طرح طرح کے مسائل میں دلائل وحجت کے بغیر اپنے من کے مطابق فتوی دینا آج کل اِن لوگوں کا طرۂ امتیاز بن چکا ہے۔ بہت ہی کم لوگ ایسے ہیں جو غلط فتویٰ کے خطورت کو سمجھتے ہو ئے بلا علم فتویٰ کے گناہ سے ڈرتے ہیں، جبکہ جاہل اور بے وقوف لوگ فتویٰ دینے میں نہایت بے باک ہیں۔ اس فانی دنیا میں سستی شہرت کے حصول، اور لوگوں کے دلوں میں اپنا رعب جمانے کے لیے، یا اپنے مختلف دنیاوی مذموم مقاصد کے حصول کے لیے حرام کو حلال قرار دیتے ہیں۔

امام ربیعہ بن عبد الرحمن الرائ رحمہ اللہ ایک مرتبہ زاروقطار رو رہے تھے کسی نے پوچھا آپ پر کوئی مصیبت آن پڑی ہے کیوں رو رہے ہو؟ تو آپ نے فرمایا: علم وحکمت سے دُور لوگوں سے فتویٰ پوچھا جا رہا ہے۔

عالم اسلام میں بہت بڑا سانحہ رونما ہوا ہے۔ آج کل کے بعض مفتی چور اور ڈاکو سے زیادہ زندان کے مستحق ہیں۔ (21)

اس مضمون کے آخر میں امام خطیب أبو بکر بغدادی رحمہ اللہ کی شہرۂ آفاق (کتاب الفقیہ والمتفقہ )کے ایک باب کا خلاصہ پیشِ خدمت ہے جواُنہوں نے(باب ذکر شروط مَن یصلح للفتویٰ) کے نام سے قائم کیا ہے۔

ایک مفتی کا منصبِ فتویٰ قبول کرنے کے لیے اس کا عاقل، بالغ، عادل، ثقہ، اور أحکامِ شرعیہ کا عالم ہونا نہایت ضروری ہے:

اور أحکامِ شرعیہ کے اصول چار ہیں:

1- (العلم بکتاب الله) قرآن مجید کے أحکام، محکم او رمتشابہ، عموم وخصوص، مجمل اور مفسر، ناسخ اور منسوخ پر اس کو عبور حاصل ہو۔

2۔ (العلم بسنة رسول اللهﷺ) نبی ﷺکے قولی اور فعلی ثابت سنتوں کا علم ہو۔ أحادیث کے متواتر اور آحاد ہونے، صحیح یا ضعیف ہونے، اور اسکا حکم مطلق ہونے یا کسی سبب کے ساتھ خاص ہونے کا اسے مکمل عبور ہو۔

3- سلف صالحین کے اقوال کے بارے میں اس کو مکمل آگاہی حاصل ہوکہ کس مسئلہ میں سلف کا أجماع ہے اور کس مسئلہ میں ان کا اختلاف، تاکہ مجمع علیہ مسائل میں ان کی پیروی کی جاسکے اور مختلف فیہ مسائل میں اجتہاد کیا جاسکے۔

4- قیاس کا صحیح علم رکھتا ہو، تاکہ اُن فروعی مسائل کو جن پر شریعت خاموش ہے، اُن اصولی مسائل پر قیاس کیا جا سکے جن کا شریعت میں واضح حکم ہو، یا اُن مسائل پر قیاس کیا جائے جن پر سلف کا اجماع ہو۔

اِن چیزوں کے علم سے مفتیان کرام (نوازل) نئے نئے پیش آمدہ مسائل میں اجتہا د کر سکتے ہیں، اور اِنہیں حق اور باطل کی پہچان ہوگی۔ اور ایک مفتی کے لیے اِن چیزوں سے لا علمی کی کوئی گنجائش نہیں (22)

جبکہ –مع الاسف الشدید- ہمارے ہاں چار، چھ سال کا ایک کورس کرنے کے بعد مفتی کے لقب سے نواز دیا جاتا ہے، اور احکام شریعہ پر مکمل عبور حاصل کیے بغیر فتوے صادر کرتے ہیں جس سے کہیں خون خرابہ ہوتا ہے، کہیں حرام شرمگاہ کو حلال قرار دیا جاتا ہے، لوگوں کی جان ومال کی حرمت کو پامال کیا جاتا ہے۔

(جیسا کہ آج کل ٹی وی چینلز اور اخبارات میں برطانیہ میں حالیہ دنوں میں پیش آنے والے حلالہ کے بھیانک معاملے پرکافی بحث ہو رہی ہے، جو کہ ایک ملعون اور حرام فعل ہے، اور ’’نام نہادشکم پرست مولوی‘‘ کس طرح اس کو ’’حلال‘‘ کرنے پرکمر بستہ ہیں؟۔ (والعیاذباللہ)

اللهم علمنا ما ینفعنا وانفعنا بما علمتنا وزدنا علما۔

 

حوالہ جات

(1) (جامع بيان العلم وفضلہ 2\274، 275)

(2) (سنن دارمی1\248،رقم137)،جامع بیان العلم وفضلہ2\274

(3) ترتیب المدارک1\179

(4) آداب المفتي والمستفتي لابن الصلاح (1/79)

(5) آداب الفتویٰ والمفتی والمستفتی للنووی صفحہ نمبر3

(6) جامع بيان العلم وفضلہ 2\278۔

(7) جامع بيان العلم وفضلہ2\45)

(8) جامع بيان العلم وفضلہ2\44

(9) جامع بيان العلم وفضلہ 2/49

(10) جامع بيان العلم وفضلہ (2/276)

(11) سورۃ ص: (86)

(12)رواہ البخاری ،کتاب بدءالوحی،باب قولہ (وما أنا من المتکلفین) حدیث نمبر(4809)

(13) سنن دارمی1\261،حدیث نمبر:180

(14) (الآداب الشرعیۃ لابن مفلح265)

(15) (مصنف ابن أبي شیبہ 1\522۔ 523 رقم (952)۔

(16) رواہ أبوعبید فی کتاب الأموال (332)، حدیث: (560)، البیہقی فی سنن الکبریٰ: (210)، الحاکم فی المستدرک: (3\330،331)۔

(17) سیرأعلام النبلاء (2\459۔582)

(18) (ما رواه الأکابر عن مالك بن أنسصفحہ نمبر:61)

(19) رواہ البخاری باب العلم باب كکیف يقبض العلم (1/187) حدیث نمبر (100)

(20) رواہ ابن ماجہ حدیث نمبر (4026) وقال الحافظ ابن حجر رحمہ الله فی فتح الباري (13 / 84): سندہ جيد وصححہ الشيخ الألباني في الصحيحہ برقم (1886)

(21) جامع بيان العلم وفضلہ (2/355)

(22) الفقيہ والمتفقہ (2/330-331)

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے