دنیا میں ہر فرد کی دلی خواہش ہوتی ہے کہ وہ عوام میں مقبول اور منفرد شخصیت کا مالک بن جائے۔ لوگ اسکے گرویدہ بن جائیں۔ اس کا کلام اس کی گفتار اور کردار دوسروں سے جداگانہ ہو۔ اسکی ہر بات قابل توجہ بن جائے اگر واقعی آپ ایسی شخصیت بننا چاہتے ہوں تو آپ کو قرآن و سنت سے استفادہ کرنا ہوگا اس کے ساتھ اپنے معیاری لباس، اندازنشت، کپڑوں کا انتخاب، ہمیشہ ماحول و موسم کے ساتھ کرنا چاہیے مثلاً موسم گرما میں ہلکے اور سفید کپڑوں اور سردیوں میں قدرے گہرے رنگ کا لباس زیب تن فرمائیں، دوسری بات آپ کی چال ڈھال طور و اطوار مناسب ہونا ضروری ہے۔ ہر کام بڑی نفاست سے سر انجام دیں چلتے وقت اپنے پاؤں کو زمین پر بغیر کبر و غرور اٹھائیں بلکہ آپ کے اٹھنے بیٹھنے چلنے کے انداز میں سادگی وقار ادب احترام اور عمدہ تہذیب ہونی چاہیے۔ گفتار میں انتہائی محتاط رہیں اعتدال کا پہلو کبھی ہاتھ سے نہ جانے دیں، انتہائی تیز اور جارحانہ گفتگو سے اجتناب کریں جو بات کریں ٹھہر کر دھیمہ انداز میں کریں جھوٹ برائی بے جا خوش آمد چغلی گالم گلوچ اور بدکلامی سے حتی المقدور بچنے کی کوشش کریں۔ دوران گفتگو ہمیشہ لفظوں کا انتخاب انتہائی سوچ سمجھ کر کریں اچھی عمدہ گفتگو یقیناً آپ کی نیکیوں میںشمار ہوگی۔ اور آپ کی شخصیت کی آئینہ دار ہو گی۔ بلاشبہ قوت گویائی اور زبان بھی اللہ تعالیٰ کے انعام و اکرام میں شمار ہوتے ہیں اس عظیم احسان کا شکریہ ادا کرنے کی ایک تو صورت یہ ہے کہ اس زبان سے نرم انداز اور احسن انداز میں سچ اور حق کی بات کہی جائے نیکی کا حکم دیا جائے بے حیائی اور برائی سے منع کیا جائے چونکہ ہماری زبان سے نکلا ہوا ہر لفظ مسلسل عند اللہ ریکارڈ ہو رہا ہے میدان حشر میں اس کا بھی محاسبہ ہو گا جس دن کوئی کسی کا والی وارث نہ ہوگا ایسے میں اسی معمولی زبان کی وجہ سے انسان کی گرفت ہوگی۔ آپ ہی کی طرح دوسرے افراد کی بھی یہ خواہش ہوتی ہے کہ ان کو اہمیت دی جائے لہذا لوگوں کو ان کے مراتب و مقام کے مطابق اہمیت دی جائے یہ عمل آپ کی شخصیت میں ایک مثبت اور قابل تعریف تبدیلی لائے گا لوگوں سے پرخلوص محبت اور انکساری سے پیش آئیں تواضع سے لوگوں کا دل جیتنا کچھ زیادہ مشکل نہیں ہمیشہ منافقت سے مجتنب رہ کر اپنا ظاہر و باطن یکساں رکھیں زندگی کے کسی مقام پر بھی دہرے پن سے دور رہیں۔ یہ بھی مناسب نہیں کہ صرف ہر محفل میں تو آپ منہ پر مسکراہٹ سجائے نظر آئیں مگر اپنے اہل خانہ بچوں بڑوں گھر والوں سے جارحانہ اور غضبناک حالت میں بات کریں چونکہ سب سے بہتر اور اچھا وہ ہے جو اپنے اہل خانہ کے لیے اور ہمسایہ کے لیے بھی اچھا ہو ان کے بھی حقوق ہیں جو لوگ موقع و محل دیکھ کر بولتے ہیں اور اہمیت و افادیت کے مطابق بولتے ہیں وہ دیگر لوگوں کی توجہ کا مرکز بن جاتے ہیں آپ کوشش کر کے کم الفاظ میں اپنا مدعا بیان کرنے کا سلیقہ سیکھیں چونکہ جو لوگ بلاوجہ ہر وقت بلا ضرورت بولتے ہی رہتے ہیں اور کسی کی سننے کی کوشش بھی نہیں کرتے لوگ ایسے لوگوں سے جلدی اکتا جاتے ہیں۔ ہاں ایک بات کا اور بھی خیال رکھیئے وہ یہ کہ بات بات پر منہ پھاڑ کر قہقہ لگانے سے دل مردہ ہو جاتا ہے۔ دل سے فکر عقبیٰ اٹھ جاتی ہے انسان صرف دنیا کا ہو کر رہ جاتا ہے تاہم مسکراتا ہوا چہرہ جلد نگاہوں کا مرکز بن جاتا ہے بہت زیادہ ہنسی مذاق طنزومزاح ہماری شخصیت کو داغدار کر دیتا ہے تاہم ہلکی اور خوشگوار خوبصورت مسکراہٹ چہرے کی زینت بن جاتی ہے یہ ایک ایسا تحفہ ہے جو دوسرے بھائی کو ہر ایک شخص چاہے مفلس یا غنی عطا کر سکتا ہے ہر بات کو صرف منفی انداز ہی میں سوچنے دوسرے کے متعلق بے جا شکوک و شبہات سے بچنے کی عادت ڈالیں ہمیشہ اچھا سوچیں اچھا گمان رکھیں غیبت کر کے خود کی شخصیت کو متنازع بنانے سے بچیں۔ کسی بھی چیز کو منفی انداز سے بیان کر نے کے بجائے اس کے اصلاحی پہلو کو ملحوظ رکھیں۔ تجسس، ریا کاری، بدظنی بہتان بازی اور بدکلامی سے ہمیشہ اجتناب برتیں شرک کفر فسق فجور بدکاری جھوٹ فریب تو انسانیت کے لیے سیاہ داغ ہیںان سے کوسوں دور بھاگنے کی کوشش کریں اسی میں دنیا و عقبیٰ کی کامرانی ہے۔

انسان کی بھی کچھ عجیب عادت ہے دوسروں کے عیبوں اور برائیوں کی ٹوہ میں لگا رہتا ہے لیکن اپنے گریبان میں منہ تک نہیں ڈالتا۔ دوسرے بھائیوں کے دامن اخلاق کا دھبہ تو بروقت دیکھ لیتا ہے لیکن اپنی تاریک زندگی کے گھناؤنے مناظر سے آنکھیں موند لیتا ہے۔

افسوس کہ خود زندگی کے مایوس کن منجمدھار میں پاپوں بھری نازک ناؤ میں بیٹھ کر دوسروں پر تو تنقید کرتا ہے لیکن اپنے من میں جھاتی نہیں پاتا۔ اسی عیب جوئی کی عادت کے سبب محسن اخلاقﷺ نے سیدنا ابو ذر سے فرمایاکہ: چاہیے کہ روک رکھے لوگوں کے عیبوں کو بیان کرنے سے وہ چیز کہ جانتا ہے تو اپنے نفس سے۔ بقول علامہ اقبال:؎

تجھے کیوں فکر ہے اے گل دل صد چاک بلبل کی

تو اپنے پیرہن کے چاک تو پہلے رفو کر لے

بہرحال دنیا جانتی ہے کہ علم سے بڑھ کر کوئی بزرگی عزت و مرتبہ نہیں علم انسانیت و اخلاق کی تربیت دیتا ہے ہادی برحقﷺ کی عادات و اطوار سیرت و مزاج طبیعت میں پورا اعتدال پایا جاتا تھا۔ ایسا کامل اعتدال کہ اولاد آدم میں کوئی بھی اس معیار کو نہیں اپنا سکتا اگر آپ اعلیٰ اخلاق کے حامل نہ ہوتے تو خلق عظیم کا شیریں چشمہ نہ رکھتے اور جزیرۃ العرب کے سنگلاخ زمین کے اجڈ اور اکھڑ انسان راہ راست پر نہ آتے اور اپنی جانیں تک اسلام کے لیے وقف نہ کرتے۔ اے میرے حبیب! اگر آپ تیزخو سخت دل ہوتے تو یہ لوگ آپ کے پاس سے بکھر جاتے۔ پیار و محبت خوشی و حسرت غصہ و نفرت غیض و غضب یہ تمام جذبات انسانی زندگی کے ساتھ ساتھ ہیں ان کا مناسب اظہار ہی انسان کو ایک کامل شخص بناتا ہے یعنی معاشرہ میں وہی شخص صاحب اخلاق کہلاتا ہے جو اپنے جذبات و احساسات کا مناسب موقع پر اظہار کرے۔ ان تمام انسانی جذبات میں سب سے زیادہ آتشیس جذبہ غصے کا اظہار ہے جو نہ صرف انسانی عقل کو وقتی طور پر مفلوج کرتا ہے بلکہ اس کے حواس بھی معطل کر دیتا ہے۔ غصہ انسان کو بے قابو بنا کر اسے جا مہ انسانیت سے باہر کر دیتا ہے کہا جاتا ہے کہ غصہ کی ابتداء حماقت اور انتہا ندامت پر ہوتی ہے۔ غصے کی کیفیت طاری ہونے کو ایک حدیث مبارکہ میں یوں کہا گیا ہے کہ غصہ ابن آدم کے دل میں ایک چنگاری ہے اس کی آنکھیں لال اور رگیں پھول جاتی ہیں تو جس کو اپنے غصہ کا احساس ہو، اسے چاہیے وہ زمین پر بیٹھ جائے۔ (جامع ترمذی)

چونکہ غصہ پر قابو پانا غیض و غضب کی حالت میں صبر کرنا باوجود قدرت رکھنے کسی سے انتقام نہ لینا لوگوں کو معاف کر دینا ’’متقین‘‘ کی صفات میں شامل ہے۔ وہ اپنے غصہ کو دبا لیتے ہیں لوگوں کے قصور معاف کر دیتے ہیں اور اللہ نیک عمل کرنے والوں کو دوست رکھتا ہے۔ ؎

فنا ہو جا جھلک اٹھے گا سینہ شمع عرفان سے

ابھی تو دل کے آئینے پہ غافل داغ مستی ہے

دور جدید میں جس اخلاقی بیماری نے چمنستان اخلاق کو تباہ کر کے رکھ دیا ہے اسے ’’کینہ پروری‘‘ کے نام سے یاد کیا جاتا ہے جس نے انسانی قلب کو سب سے زیادہ ناپاک کر کے رکھ دیا ہے کینہ کی برائی قرآن حکیم کی سورہ حشر میں بھی آئی ہے جس میں مومن بندے خالق کون و مکان سے یہ دعا کرتے ہیں کہ اے پروردگار ہم کو اور ہمارے بھائیوں کو کینہ سے پاک رکھ۔

بخاری و مسلم میں سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ آپﷺ نے ارشاد فرمایا: کہ آپس میں ایک دوسرے پر حسد نہ کرو ایک دوسرے سے کینہ نہ رکھو ایک دوسرے کی غیبت نہ کرو ایک دوسرے کا عیب تلاش نہ کرو بلکہ آپس میں بھائی بھائی بن کر رہو۔ کسی بھائی کے لیے حلال نہیں کہ وہ اپنے بھائی سے تین دنوں سے زیادہ جدائی رکھے۔

ترمذی شریف میں وارد ہوا ہے کہ ایک دن نبی کریمﷺ نے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے دریافت فرمایا: کہ میں تمہیں ایک ایسی عبادت کے بارے میں نہ بتاؤں جو روزہ نماز اور صدقہ زکوٰۃ سے بھی زیادہ افضل ہے؟ صحابہ کرام نے عرض کیا کہ ضرور بتلائیں آپﷺ نے فرمایا کہ دو مسلمان بھائیوں کے درمیان صلح کرا دینا۔

کینہ پروری کے خلاف کسی نے کیا خوب کہا ہے۔ ؎

کفر است در طریقت ما کینہ داشتن

آئین ما است سینہ چوں آئینہ داشتن

بلاشبہ اسلام محبت اخوۃ بھائی چارہ اور ہمدردی کا مذہب ہے جس کی ساری اساس ہی محبت پر مبنی ہے قرآن حکیم نے صحابہ کرام کو ’’رحماء بینہم‘‘ کے خطاب سے سرفراز کیا ہے کہ وہ ایک دوسرے کے دکھ سکھ میں شریک ہوا کرتے ہیں یہ وہی عرب ہیں جو ایک دوسرے کے خون کے پیاسے نظر آتے تھے قتل و غارت لوٹ مار انتقام در انتقام ان کا معمول تھا کہ اچانک مجسمہ رحمتﷺ آفتاب عالم تاب کی طرح افق جحاز پر طلوع ہوا اور اپنے ساتھ ایسی تابناکی لے کر آیا کہ صدیوں کے تاریک دل اس کی ضیاپاشیوں سے نور بن گئے۔ بھٹکے ہوؤں کو راہ ملی۔ محو خواب غفلت میں سوئے ہوؤں کو بیداری ملی پھر وحشی امن انسانیت کے کفیل بن گئے آپ اپنے پیام محبت سے ایسی جُوت جلائی کہ پوری ملت کا دل ایک ساتھ دھڑکنے لگا اسلام کا نظریہ اخلاق انتہائی واضح ہے اچھے اخلاق ایک مسلمان کی پہلی پہچان ہیں کہ آپ اپنے دل میں دوسروں کے سراسر خیر خواہ ہوں آپ ہمیشہ دوسروں کی بہتری چاہیں۔ دوسروں کے لیے آپ کے دل میں محبت کا دریاء موجزن ہو۔ نفرت نہ ہو حقارت نہ ہو دوسروں کی ترقی دیکھ کر آپ کے اندر جلن کا جذبہ نہ ہو۔ دوسروں کو بہتر حال میں دیکھ کر آپ انہیں نظر حقارت سے نہ دیکھیں۔ دوسروںکاخیر خواہ بننے کی نشانی یہ ہے کہ آپ دوسروں کے لیے وہی پسند کریں جو خود اپنے لیے پسند فرماتے ہوں۔ اگر آپ چاہتے ہوں کہ کہ دوسروں کی زبان سے آپ اپنے لیے کڑوا بول نہ سنیں تو آپ بھی دوسروں کو کڑوا بول نہ سنائیں۔ اخلاق حسنہ کا ایک اہم پہلو یہ بھی ہے کہ آپ کے اندر دوسروں کے لیے فیاضی اور اعلیٰ ظرفی کے جذبات موجزن ہوں اور دوسروں کی سخت بات گوارا کر کے آپ ان کے ساتھ نرم گفتگو کریں۔

اخلاق حسنہ اس بہتر سلوک کا نام ہے جس میں شرافت، خیر خواہی، اعلیٰ ظرفی کی اسپرٹ نظر آئے۔ بلند اخلاق وہ انسان ہے جس کی زندگی میں سورج کی روشنی، پھول کی مہک جیسی خصوصیات ہوں اچھا سماج بنانے کے لیے سب سے پہلے جس چیز کی ضرورت ہے وہ ہے ’’اچھا اخلاق‘‘ جس سماج میں اچھے اخلاق والے ہوں گے وہ سماج یقیناً دنیا میں مثالی سماج کہلائے گا۔ لیکن صد افسوس آج یہ مہذب و متمدن امت مسلمہ کے زندگی کا ہر پہلو گوشہ، زاویہ شعبہ اخلاق کے ایک لمحہ کو ترستا ہے کیا جگر خراش ہوشربا منظر ہے کہ مسلمانوں کی تہذیبی، تمدنی، سماجی، سیاسی، معاشی، معاشرتی، مذہبی حالات ’’اخلاقیات‘‘ کی روح فنا کر بیٹھی ہیں۔ رذائل کی ہوشربا گھٹائیں ماحول پر ایسی سایہ پھگن ہوئیں کہ اخلاق حسنہ کی کوئی کرن کہیں سے نظر نہیں آتی کاش اگر مذہبی طبقہ ہی مجسمہ اخلاق بنا نظر آتا۔

بداخلاقی کا یہ بد ترین دور بتا رہا ہے کہ یہ امت روز بروز زوال پذیر نظر آتی ہے دور جدید میں سب سے پہلے اس بات کی شدت سے ضرورت ہے کہ ہم سب علمی عملی تعلیمی تبلیغی سعی کو بروئے کار لاتے ہوئے آپﷺ کے اقوال افعال کردار اور حیات طیبہ کی اخلاقی شمعیں روشن کر کے دنیائے جہالت کو اسلام کی ضیاپاشیء اخلاق حسنہ سے متعارف کرایا جائے۔ اسی میں اس پوری قوم کی فلاح و کامرانی اور نجات معمہ ہے۔ اللہ تعالیٰ ہمیں اخلاص عمل کی توفیق عطا فرمائے اور اسوہ حسنہ سے استفادہ کرنے کی ہمت عطا فرمائے۔ آمین ؎

روح کو چمکا ، خودی کو توڑ کر زینے بنا

دو یہ تدبیریں ہیں دنیا میں ابھرنے کے لیے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے